سورۃ الفجر: آیت 17 - كلا ۖ بل لا تكرمون... - اردو

آیت 17 کی تفسیر, سورۃ الفجر

كَلَّا ۖ بَل لَّا تُكْرِمُونَ ٱلْيَتِيمَ

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla bal la tukrimoona alyateema

آیت 17 کی تفسیر

کلا بل ........................................ حباجما

بات یوں نہیں جس طرح ایمان سے خالی انسان سوچتا ہے۔ محض یہ کہ کسی کو کشادہ رزق دیا گیا ہے۔ یہ اللہ کے نزدیک کرامت والی بات نہیں ہے ، اور نہ تنگی رزق اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے شخص کی اللہ کے ہاں کوئی قدر نہیں ہے اور اسے اللہ نے چھوڑ دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تم دولت کا حق ادا نہیں کرتے اور مال سے حقوق نہیں نکالتے۔ تم لوگ یتیم کی کفالت بھی نہیں کرتے ، جو اپنے والدین اور اولیاء اور سرپرستوں سے محروم ہوگیا ہے۔ اسی طرح معاشرے کے اندر موجود ناداروں کی معاشی کفالت کے لئے کوئی بندوبست نہیں کرتے۔ مسکین کے معنی ہیں وہ شخص جو ساکن ہے ، سکون سے بیٹھا ہے اور اور لوگوں سے مانگتا نہیں پھرتا۔ یہاں یہ کہا گیا کہ یتیموں اور مسکینوں کے کھانے یعنی معاشی ضروریات فراہم کرنے کے لئے دوسروں کو نہیں ابھارتا۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اسلامی نظام میں ناداروں کی کفالت کے لئے ایک عام تحریک ہوتی ہے ، عام لوگوں کی بھلائی کے لئے لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھتے اور ایک دوسرے کو آمادہ کرتے ہیں۔ ناداروں کی کفالت اسلام کی خصوصیت ہے۔

تم لوگ ابتلا کا مفہوم سمجھتے ہو۔ نہ اس آزمائش میں کامیاب ہونا چاہتے ہو ، حالانکہ اس آزمائش میں کامیابی کی راہ یہ ہے کہ یتیم کی عزت کرو ، ایک دوسرے کو یہ وصیت اور تلقین کرو کہ یتیموں کو کھانا کھلایا جائے بلکہ تم اس کے برعکس صورت اختیار کرتے رہو۔ تم لوگ نہایت لالچ کے ساتھ پوری کی پوری میراث ہڑپ کر جاتے ہو ، اور تم مال کی بھرپور محبت کرتے ہو ، جو کسی حد تک محدود نہیں ہے۔ مال کے معاملے میں تمہارے اندر کوئی خودداری ، کوئی وضع داری نہیں ہے۔ اور تم محتاجوں کی نہ عزت کرتے ہو اور نہ ان کی حاجت براری کرتے ہو۔

جیسا کہ ہم نے اس سے قبل تفصیلات دی ہیں ، مکہ میں ایسی صورت حال تھی کہ لوگ بےحد لالچی اور مفادات کے پیچھے کتوں کی طرح بھاگنے والے تھے ، اور ہر طریقے سے دولت سمیٹتے تھے ، جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں بخل اور سنگدلی پیدا ہوگئی تھی۔ یتیم چونکہ بےسہارا ہوتے تھے اس لئے ان کے مال ہڑپ کرلیے جاتے تھے۔ خصوصاً یتیم عورت کے۔ پھر ان کو میراث سے محروم کردیتے تھے جیسا کہ متعدد مقامات پر ہم نے تفصیلات دی ہیں۔ ان ہتھکنڈوں کے علاوہ سودی کاروبار کے ذریعہ بھی اہل مکہ رات دن دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ یہ بات یہاں نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ دولت کی پرستش ہر جاہلیت کی خصوصیت ہوتی ہے جہاں بھی ہو اور جب بھی ہو۔

ان آیات میں نہ صرف یہ کہ ان کے موقف کو اچھی طرح بیان کیا گیا ہے بلکہ ان کی مذمت بھی کی گئی ہے اور اس صورت حال کو بڑی سختی سے ناقابل برداشت بنایا گیا ہے اور اس کے لئے لفظ ” کلا “ استعمال کیا گیا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ آیات کے انداز بیان اور زودار تعبیر اور الفاظ کے زبردست لہجے سے بھی اس صورت حالات کی مذمت نکلتی ہے۔ ذرا دوبارہ غور کریں۔

آیت 17{ کَلَّا } ”ایسا ہرگز نہیں ہے !“ یہ مقام اپنے مضمون کے اعتبار سے پورے قرآن مجید میں منفرد و ممتاز ہے۔ مذکورہ دونوں کیفیات کے حوالے سے انسان کے جن مکالمات کا یہاں ذکر ہوا ہے بظاہر ان میں کوئی خرابی یا شرک کی آلودگی نظر نہیں آتی۔ دونوں کلمات توحید کے عین مطابق ہیں۔ رزق کی فراخی اور تنگی کے حوالے سے عزت اور ذلت کو کسی دیوی یا دیوتا سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے منسوب کیا گیا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دی ہے اور یہ کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کیا ہے۔ بظاہر تو یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان { وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُط } آلِ عمران : 26 ہی کا اقرار ہے ‘ کہ اے اللہ تو ُ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ تو پھر یہاں ان جملوں کو آخر قابل مذمت کیوں ٹھہرایا گیا ہے ؟ اس نکتہ لطیف کو سمجھنے کے لیے اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ توحید تو ہدایت کی جڑ اور بنیاد ہے ‘ جبکہ اس بنیاد سے اوپر بھی ہدایت کی بہت سی منازل ہیں۔ اس لیے ایک بندئہ مومن کو زندگی میں راہنمائی کے لیے اپنی نگاہیں صرف مینارئہ توحید پر ہی مرکوز نہیں رکھنی چاہئیں بلکہ اسے شاہراہِ ہدایت کے ہر سنگ میل اور ہر موڑ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے اندازِ فکر اور طرزعمل کا رخ متعین کرنا چاہیے۔ چناچہ ان جملوں کے حوالے سے اصل اور بنیادی خرابی یہ ہے کہ یہاں انسانی سوچ نے رزق کی فراخی اور تنگی کو عزت اور ذلت کا معیار سمجھ لیا ہے اور اس حقیقت کو نظرانداز کردیا ہے کہ انسان کے رزق کی بست و کشاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ امتحان اور آزمائش کے لیے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو کبھی زیادہ رزق دے کر آزماتا ہے تو کبھی اس کو معاشی تنگی سے دوچار کر کے اس کا امتحان لیتا ہے۔ گویا انسان کے لیے عیش و آرام اور مال و دولت کی فراوانی میں بھی امتحان ہے اور رنج و عسرت اور تنگدستی و ناداری بھی امتحان ہی کے مراحل ہیں۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو جس انسان نے مال و دولت کی کمی یا زیادتی کو ذلت اور عزت کا معیار سمجھ لیا وہ دھوکا کھا گیا۔۔۔۔ ایک بندئہ مومن کو تو دنیوی عزت و ذلت کی ویسے بھی پروا نہیں ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے اصل اور حقیقی عزت یا ذلت کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہوگا۔ چناچہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ رزق کی فراخی سے آزمارہا ہے اس کی عزت اس میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے اور اپنے دائیں بائیں محروم و نادار لوگوں کو ان کا وہ حق ادا کرے جو اللہ تعالیٰ نے آزمائش کی غرض سے اس کے مال میں رکھ دیا ہے۔ اسی طرح جس شخص کا امتحان رزق کی تنگی کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی عزت اس میں ہے کہ وہ صبر کرے اور اپنی عزت نفس کو بچا کر رکھے۔ اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اگر رزق کی کمی بیشی اور عزت و ذلت کے حوالے سے مذکورہ فلسفہ واقعتا ہماری سمجھ میں آبھی جائے تو بھی ہمارا نفس ہمیں یہ پٹی ّضرور پڑھاتا ہے کہ رزق کی فراخی والی آزمائش آسان ہے اور اس کے مقابلے میں غربت و تنگدستی کی آزمائش بہت مشکل ہے ‘ جبکہ اصل حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس حوالے سے اصل حقیقت یہ ہے کہ غربت و تنگدستی کی آزمائش سے سرخرو ہونا انسان کے لیے نسبتاً آسان ہے اور اس کے مقابلے میں مال و دولت کی فراوانی کی آزمائش میں ثابت قدم رہنا بہت مشکل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آسائش و آرام میں انسان کے غافل ہوجانے اور اللہ تعالیٰ کو بھول جانے کا زیادہ امکان ہے ‘ جبکہ مشکل اور پریشانی کی کیفیت میں انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے حضور ﷺ کا فرمان ہے : مَا قَلَّ وَکَفٰی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَاَلْھٰی 1 ”جو مال مقدار میں کم ہو مگر کفایت کر جائے وہ اس سے بہتر ہے جو زیادہ ہو مگر غافل کر دے۔“ امام احمد بن حنبل - جب خلیفہ وقت کے عتاب کا شکار ہوئے تو جیل میں آپ پر بےپناہ تشدد کیا گیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں آپ رح کو جس تشدد کا سامنا کرنا پڑا ویسا تشدد اگر ہاتھی پر بھی کیا جاتا تو وہ بھی بلبلا اٹھتا۔ لیکن آپ نے وہ اذیت ناک آزمائش کمال صبر و استقامت سے برداشت کی اور اس دوران آنکھوں میں کبھی آنسو تک نہ آنے دیے۔ لیکن دوسرے خلیفہ کے دور میں جب آپ رح کو رہائی ملی اور آپ رح کی خدمت میں اشرفیوں کے توڑے بطور نذرانہ پیش کیے گئے تو آپ رح یہ ”نذرانہ“ دیکھ کر بےاختیار رو پڑے اور اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کی کہ اے اللہ ! تیری یہ آزمائش بہت سخت ہے ‘ میں اس آزمائش کے قابل نہیں ہوں۔ اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ”توحید“ ہدایت کا پہلا اور بنیادی درجہ ہے۔ اگر انسان اپنے اچھے برے ہر طرح کے حالات کو من جانب اللہ سمجھے تو اس کا یہ طرزعمل توحید کے عین مطابق ہے۔ لیکن اس کے اوپر بھی ہدایت کے بہت سے درجات ہیں۔ ان درجات میں سے ایک درجہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی آزمائش و ابتلاء کے اصول و ضوابط کو سمجھے اور یقین رکھے کہ دنیا کے عیش و آرام اور تنگدستی و عسرت کی کیفیات اللہ تعالیٰ کی آزمائش ہی کی مختلف صورتیں ہیں اور یہ کہ تنگدستی و عسرت کی آزمائش کے مقابلے میں دولت کی فراوانی کی آزمائش کہیں زیادہ سخت اور خطرناک ہے۔ { کَلَّا بَلْ لَّا تُـکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ۔ } ”ایسا ہرگز نہیں ‘ بلکہ تم لوگ یتیم کی عزت نہیں کرتے۔“

آیت 17 - سورۃ الفجر: (كلا ۖ بل لا تكرمون اليتيم...) - اردو