سورہ مزمل: آیت 4 - أو زد عليه ورتل القرآن... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورہ مزمل

أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ ٱلْقُرْءَانَ تَرْتِيلًا

اردو ترجمہ

یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو، اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aw zid AAalayhi warattili alqurana tarteelan

آیت 4 کی تفسیر

آیت 4{ اَوْ زِدْ عَلَیْہِ } ”یا اس پر تھوڑا بڑھا لیں“ یا پھر رات کا دو تہائی حصہ قیام میں گزاریں۔ گویا آپ ﷺ کے قیام اللیل کا دورانیہ یا نصاب ایک تہائی رات سے لے کر دو تہائی رات تک ہونا چاہیے۔ اس نصاب میں ہمارے لیے رمضان کے قیام اللیل کے حوالے سے بھی راہنمائی موجود ہے۔ رمضان کی راتوں کے قیام کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رض سے مروی حضور ﷺ کا فرمان ہے : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لـَــــہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ‘ وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَـہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ‘ وَمَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ 1”جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے گئے ‘ اور جس نے رمضان کی راتوں میں قیام کیا قرآن سننے اور سنانے کے لیے ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ ‘ اس کے بھی تمام سابقہ گناہ معاف کردیے گئے ‘ اور جو لیلۃ القدر میں کھڑا رہا قرآن سننے اور سنانے کے لیے ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کی بھی سابقہ تمام خطائیں بخش دی گئیں !“ اب ظاہر ہے ”قیام اللیل“ کی اصطلاح کا اطلاق رات کے ایک بڑے حصے کے قیام پر ہی ہوسکتا ہے۔ گھنٹے بھر میں جیسے تی سے بیس رکعتیں پڑھ کر سو جانے کو تو قیام اللیل نہیں کہا جاسکتا۔ اور یہ بیس رکعتوں کا نصاب تو اصل میں ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے سارا دن محنت و مشقت میں گزارنا ہے۔ ایسے لوگوں کی مجبوری کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت عمر فاروق رض نے ان کے لیے قیام اللیل کا ایک کم سے کم معیار مقرر فرما دیا تھا۔ البتہ جن لوگوں کے حالات موافق ہوں انہیں رمضان المبارک میں بہرصورت زیر مطالعہ آیات کے مفہوم و مدعا کے مطابق قیام اللیل کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اسی طرح وہ حضرات جو اپنی ملازمت وغیرہ سے ایک ماہ کی رخصت لے سکتے ہوں انہیں بھی چاہیے کہ وہ اپنی سالانہ چھٹیاں سیرسپاٹوں پر ضائع کرنے کے بجائے رمضان کے لیے بچا کر رکھا کریں ‘ تاکہ قیام اللیل کی برکتوں سے کماحقہ مستفید ہو سکیں۔ { وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا۔ } ”اور ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے جایئے۔“ تَرْتِیْلکے معنی قرآن مجید کو خوب ٹھہرٹھہر کر اور سمجھ کر پڑھنے کے ہیں۔ گویا قیام اللیل کا اصل لازمہ قرآن مجید کی تلاوت ہے اور وہ بھی ترتیل کے ساتھ۔ واضح رہے کہ حضور ﷺ کو یہ حکم نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں دے دیا گیا تھا۔ بعد میں جب باقاعدہ پانچ نمازیں فرض ہوگئیں تو قیام اللیل کو مختصر کر کے تہجد کی شکل دے دی گئی ‘ لیکن اس میں بھی قرآن کی تلاوت پر زور دیا گیا : { وَمِنَ الَّــیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ } بنی اسرائیل : 79 یعنی تہجد بھی قرآن کے ساتھ بِــہٖ ادا کریں۔ تہجد کا حق یوں ادا نہیں ہوتا کہ چند مختصر سورتوں کے ساتھ آٹھ رکعتیں ادا کیں اور پھر بیٹھ کر دوسرے اذکار میں مشغول ہوگئے۔ بہرحال جسے اللہ تعالیٰ نے تہجد کی توفیق دی ہو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اتنا قرآن ضرور یاد کرے جس سے تہجد کا کچھ نہ کچھ حق ادا ہو سکے۔

آیت 4 - سورہ مزمل: (أو زد عليه ورتل القرآن ترتيلا...) - اردو