سورہ مزمل: آیت 5 - إنا سنلقي عليك قولا ثقيلا... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ مزمل

إِنَّا سَنُلْقِى عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا

اردو ترجمہ

ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna sanulqee AAalayka qawlan thaqeelan

آیت 5 کی تفسیر

انا سنلقی ............ ثقیلا (73:5) ” ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں “۔ اس سے مراد یہ قرآن ہے ، اور قرآن مجید سے آگے پھر مزید احکامات ہیں۔ قرآن مجید کلامی اعتبار سے ثقیل نہیں ہے ، یہ تو آسان ہے۔ اور اس سے نصیحت حاصل کرنا بھی بہت سہل ہے لیکن سچائی کے ترازو میں یہ بہت ہی وزن دار ہے اور اس کے اثرات بہت دور رس ہیں اور اس نظام کے قیام کی ذمہ داریاں بھاری ہیں۔

لو انزلنا .................... خشیة اللہ (59:12) ” اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تم دیکھتے کہ وہ جھک جاتے اور اللہ کے ڈر سے ریزہ ریزہ ہوجاتے “۔ اس لئے اللہ نے اس قرآن کو ایک ایسے دل پر نازل فرمایا جو پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط تھا۔ اس لئے اس نے اس کو اخذ کرلیا۔

پھر قرآن کی روشنی کو اخذ کرنا ، اس کی حقیقت کو جاننا اور اس کا استیعاب حاصل کرنا بہت بھاری ہے اور اس کے لئے بہت طویل تیاری اور تربیت کی ضرورت ہے۔ عالم بالا سے رابطہ قائم کرنا ، اس کائنات کی روح تک پہنچ جانا ، اور اس کائنات کے زندہ اور جامد ارواح تک پہنچ جانا ، جس طرح رسول اللہ ﷺ کو اس تک رسائی حاصل ہونی ، ایک طویل اور ثقیل ذمہ داری ہے اور اس کے لئے طویل جہدو تربیت کی ضرورت ہے۔

پھر اسلام کے جاوہ مستقیم پر بلاتردد اور بلاشک قائم ہوجانا اور ادھر ادھر نہ دیکھنا اور دنیا کے میلانات وجاذبیتوں سے متاثر نہ ہونا اور اس راہ میں جو رکاوٹیں ہیں ، ان کو عبور کرتے چلے جانا اور جو مشکلات آئیں ان کو برداشت کرنا ، بہت ہی بھاری ذمہ داری ہے اور اس کے لئے بھی طویل تیاری اور جہد کی ضرورت ہے۔

راتوں کو جاگنا جب کہ لوگ سو رہے ہیں ، اور روز مرہ کی زندگی کی کدورتوں سے دور ہونا اور دنیاوی جھمیلوں سے ہاتھ جھاڑ کر اللہ کا ہوجانا اور اللہ کی روشنی اور اللہ کے فیوض وصول کرنا اور وحدت مطلقہ سے مانوس ہونا اور اس کے لئے خالص ہوجانا اور رات کے سکون اور ٹھہراؤ کے ماحول میں ترتیل قرآن ، ایی ترتیل کہ گویا یہ قرآن ابھی نازل ہورہا ہے اور یہ پوری کائنات اس قرآن کے ساتھ رواں دواں ہے۔ انسانی الفاظ اور عبارات کے سوا ہی یہ پوری کائنات قرآن کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ قیام اللیل میں انسان قرآن کے نور کی شعاعیں ، اس کے اشارات ، نہایت پر سکون ماحول میں حاصل کرتا ہے او یہ سب اس دشوار گزار راستے کا سازو سامان ہے۔ کیونکہ اس کٹھن راستے کی مشکلات رسول اللہ ﷺ کے انتظار میں تھیں اور یہ ہراس شخص کا انتظار کرتی ہیں ، جو بھی اس دعوت کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ جو شخص بھی جس دور میں دعوت اسلامی کا کام کرتا ہے ، شیطانی وساوس اور اس راہ کے تاریک ترین لمحات میں یہی زادراہ کسی داعی کے کام آتا ہے اور اس سے اس کی راہ روشن ہوتی ہے۔

آیت 5{ اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا۔ } ”ہم عنقریب آپ ﷺ پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔“ اس سے مراد رسالت انذار و تبلیغ کی ذمہ داری ہے ‘ جس کے بارے میں پہلا حکم سورة المدثر کی ابتدائی آیات میں آیا تھا۔ واضح رہے کہ سورة المزمل کی زیر مطالعہ آیات غالباً ابتدائی نو آیات تیسری وحی کی صورت میں نازل ہوئیں ‘ جبکہ اس کے بعد نازل ہونے والی چوتھی وحی سورة المدثر کی ابتدائی آیات پر مشتمل تھی۔ اس آیت میں حضور ﷺ کو اس عظیم ذمہ داری کے بارے میں بتایا جا رہا ہے جس کا بوجھ عنقریب آپ ﷺ کے کندھوں پر پڑنے والا تھا۔ اخلاق و کردار کے اعتبار سے تو حضور ﷺ پہلے ہی انسانیت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے ‘ لیکن اب رسالت کی کٹھن ذمہ داریوں کے حوالے سے آپ ﷺ کو مزید ریاضت کرنے کی ہدایت کی گئی کہ اب آپ ﷺ رات کا بیشتر حصہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہو کر قرآن مجید پڑھنے میں گزارا کریں اور اس طرح قرآن مجید کو زیادہ سے زیادہ اپنے اندر جذب کریں۔

آیت 5 - سورہ مزمل: (إنا سنلقي عليك قولا ثقيلا...) - اردو