سورہ تحریم (66): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ At-Tahrim کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التحريم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ تحریم کے بارے میں معلومات

Surah At-Tahrim
سُورَةُ التَّحۡرِيمِ
صفحہ 560 (آیات 1 سے 7 تک)

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ ٱللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِى مَرْضَاتَ أَزْوَٰجِكَ ۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ قَدْ فَرَضَ ٱللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَٰنِكُمْ ۚ وَٱللَّهُ مَوْلَىٰكُمْ ۖ وَهُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ وَإِذْ أَسَرَّ ٱلنَّبِىُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَٰجِهِۦ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِۦ وَأَظْهَرَهُ ٱللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُۥ وَأَعْرَضَ عَنۢ بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِۦ قَالَتْ مَنْ أَنۢبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِىَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْخَبِيرُ إِن تَتُوبَآ إِلَى ٱللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَٰهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ ٱللَّهَ هُوَ مَوْلَىٰهُ وَجِبْرِيلُ وَصَٰلِحُ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۖ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ عَسَىٰ رَبُّهُۥٓ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُۥٓ أَزْوَٰجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَٰتٍ مُّؤْمِنَٰتٍ قَٰنِتَٰتٍ تَٰٓئِبَٰتٍ عَٰبِدَٰتٍ سَٰٓئِحَٰتٍ ثَيِّبَٰتٍ وَأَبْكَارًا يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ قُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ ٱللَّهَ مَآ أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَا تَعْتَذِرُوا۟ ٱلْيَوْمَ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
560

سورہ تحریم کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ تحریم کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے؟ (کیا اس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnabiyyu lima tuharrimu ma ahalla Allahu laka tabtaghee mardata azwajika waAllahu ghafoorun raheemun

یہ دراصل ایک عتاب ہے کیونکہ کوئی مومن اپنے اوپر اس چیز کو حرام نہیں کرسکتا جو اللہ نے حلال کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ” شہد “ یا ” ماریہ “ کے پاس جانے کو ازروئے قانون اور شریعت تو حرام نہ کیا تھا۔ صرف اپنے بارے میں فیصلہ کیا تھا کہ میں اس کام کو دوبارہ نہیں کروں گا۔ اس پر یہ جھڑکی آئی کہ جن چیزوں کو اللہ نے حلال کیا ہے ، کسی کو خوش کرنے کے لئے ان سے اپنے آپ کو محروم کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا۔

واللہ غفور رحیم (66 : 1) ” اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے “۔ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ یہ فعل قابل مواخذہ ہے۔ اور اس کا علاج یہ ہے کہ اللہ کی مغفرت طلب کی جائے اور اللہ کی رحمت شامل حال ہوجائے۔ یہ نہایت ہی لطیف اشارہ ہے۔

قرآن جس حلف کی طرف اشارہ کررہا ہے ، جو رسول اللہ نے کرلیا تھا کہ دوبارہ ایسا نہیں کروں گا تو اللہ نے فرمایا کہ اس قسم سے نکل آﺅ، یعنی کفارہ ادا کرکے اور قسم اگر کسی اچھے کام سے رکنے کے لئے ہو تو اس کا توڑنا اور کفارہ دینا فرض ہے۔

واللہ مولکم (66 : 2) ” اللہ تمہارا مولیٰ ہے “۔ اللہ تمہاری کمزوریوں پر تمہاری معاونت کرتا ہے اور اس معاملے میں بھی تمہاری معاونت کرتا ہے جو تمہارے لئے گراں گزرے۔ اور یہ قسموں کو حلال کرنا اور ان سے کفارہ ادا کرکے نل آنے کا طریقہ اسی لئے تو اللہ نے فرض کیا ہے۔

وھوالعلیم الحکیم (66 : 2) ” وہی علیم و حکیم ہے “۔ وہ تمہارے لئے جو قوانین بناتا ہے ، وہ علم و حکمت سے بتاتا ہے۔ اور تمہارے لئے جو احکام دیتا ہے وہ ایسے ہوتے ہیں کہ تم ان پر عمل کرسکتے ہو اور وہ تمہارے لئے مفید ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہی چیزوں کو حرام کرو جو اللہ نے حرام کیں۔ اور جو اللہ نے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو۔ یہ مناسب نتیجہ ہے۔

اس کے بعد روئے سخن اس بات کی طرف ہے جو آپ نے فرمائی تھی لیکن اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ کیونکہ نفس بات اس قدر اہم نہ تھی۔ اور نہ کوئی ایسی بات تھی جس کا قیامت تک تاریخی ریکارڈ پہ لانا ضروری تھا۔ بس جس چیز کو باقی رکھنا مطلوب تھا ، وہ اس بات کے آثار ونتائج تھے۔

اردو ترجمہ

اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے اللہ تمہارا مولیٰ ہے، اور وہی علیم و حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad farada Allahu lakum tahillata aymanikum waAllahu mawlakum wahuwa alAAaleemu alhakeemu

اردو ترجمہ

(اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبیؐ نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی پھر جب اُس بیوی نے (کسی اور پر) وہ راز ظاہر کر دیا، اور اللہ نے نبیؐ کو اِس (افشائے راز) کی اطلاع دے دی، تو نبیؐ نے اس پر کسی حد تک (اُس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے درگزر کیا پھر جب نبیؐ نے اُسے (افشائے راز کی) یہ بات بتائی تو اُس نے پوچھا آپ کو اِس کی کس نے خبر دی؟ نبیؐ نے کہا، "مجھے اُس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith asarra alnnabiyyu ila baAAdi azwajihi hadeethan falamma nabbaat bihi waathharahu Allahu AAalayhi AAarrafa baAAdahu waaAArada AAan baAAdin falamma nabbaaha bihi qalat man anbaaka hatha qala nabbaaniya alAAaleemu alkhabeeru

واذا ................................ حدیثا (66 : 3) ”(اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی “۔

عجیب زمانہ تھا یہ کہ لوگوں کی روز مرہ کی زندگی میں بھی عالم بالا سے برملا مداخلت ہورہی تھی۔ معلوم یہ ہوا کہ اللہ نے نبی ﷺ کو بتادیا کہ جو راز ایک بیوی کے حوالے کیا گیا تھا ، اس تاکید کے ساتھ کہ کسی اور کو پتہ نہ چلے ، وہ اس نے دوسری کو بتادیا ہے۔ اور نبی ﷺ نے جب اس راز دار بیوی سے بات کی تو صرف اشارہ کردیا گیا کہ تم نے راز کو راز نہیں رکھا۔ پوری تفصیل نہ بتائی کہ تم نے یہ باتیں دوسری بیوی سے کیں اور یہ آپ کے مکارم اخلاق کا تقاضا تھا کہ کسی کو زیادہ شرمندہ نہ کیا جائے۔ آپ نے یہ بتادیا کہ مجھے عالم بالا سے خبر آگئی ہے۔

واذاسرالنبی ................................ العلیم الخبیر (66 : 3) ” پھر جب اس بیوی نے (کسی اور پر) وہ راز ظاہر کردیا ، اور اللہ نے نبی کو اس (افشائے راز) کی اطلاع دے دی ، تو نبی نے اس پر کسی حد تک (اس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حدتتک اس سے درگزر کیا۔ پھر جب نبی نے اسے (افشائے راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو اسکی کس نے خبر دی ؟ نبی نے کہا :” مجھے اس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے “۔

یہ خبر چونکہ دو بیویوں کے درمیان کی جتھ بندی کی وجہ سے پھیلی ہوئی تھی ، تو خبر پھیلانے والی بیوی کو شرمندہ کرنے کے لئے بس اشارہ ہی کافی تھا۔ ایسے مواقع میں اللہ کے علم اور اللہ کی خبردادی کی طرف اشارہ بہت ضروری ہے کیونکہ ایسی غلطی تب ہی سرزد ہوتی ہے کہ انسان اللہ کے علم وخبرداری سے غافل ہوجائے یا اسے بھول جائے۔ اس لئے قرآن مسلمانوں کو متنبہ کرتا ہے۔ کہ تمہاری نادانیاں اللہ کے علم میں بہرحال ہیں۔

اردو ترجمہ

اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں، اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اُس کا مولیٰ ہے اور اُس کے بعد جبریل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In tatooba ila Allahi faqad saghat quloobukuma wain tathahara AAalayhi fainna Allaha huwa mawlahu wajibreelu wasalihu almumineena waalmalaikatu baAAda thalika thaheerun

اب یہاں انداز کلام حاکیت سے خطاب کی طرف آجاتا ہے ، اور جن دو ازواج نے یہ کام کیا تھا ، ان سے خطاب کیا جاتا ہے۔ گویا بات ان کے سامنے ہورہی ہے۔

ان تتوبا ........................ ذلک ظھیر (66 : 4) ” اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ اور اگر نبی کے مقابلے میں تم نے جتھ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں “۔

آغاز خطاب میں ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ توبہ کریں تاکہ ان کے دل اللہ کی طرف مائل ہوجائیں کیونکہ ان کے دل اللہ سے دور ہوگئے تھے۔ جب یہ دعوت دے دی جاتی ہے تو پھر ان پر ایک خوفناک تنقید کی جاتی ہے۔ نہایت رعب دار آواز میں :

اس زبردست تنقید سے معلوم ہوتا ہے کہ حادثہ اور واقعہ جو بھی تھا مگر رسول اللہ کے قلب مبارک پر اس کا گہرا اثر تھا۔ چناچہ اللہ کو اعلان کرنا پڑا کہ اللہ ، ملائکہ اور صالح مومنین اس کے لئے کافی طرفدار ہیں۔ اس اعلان سے ، حضور اکرم ﷺ کا غبار خاطر دور ہوجاتا ہے اور آپ مطمئن ہوجاتے ہیں۔

معلوم یہ ہوتا ہے کہ واقعہ جو بھی ہو ، لیکن حضور ﷺ پر اس واقعہ کا گہرا اثر تھا۔ حضور اپنے گھروں میں اس قسم کے ماحول کی توقع نہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر ؓ کے پڑوسی انصاری نے ، اس واقعہ کی جو رپورٹ دی ، ہ اس قدر خوفناک تھی کہ اس کے قول کے مطابق غسانیوں کے حملے سے بھی بڑی بات ہوگئی ہے۔ غسانیوں کی اس وقت شام پر حکومت تھی۔ اور وہ سلطنت روم کے موالی تھے۔ ان کے ان کے ساتھی دوستی کے معاہدے تھے۔ اس دور میں مدینہ پر غسانیوں کا حملہ آور ہونا بہت خطرناک بات تھی۔ لیکن مسلمانوں کے لئے رسول اللہ کا پریشان اور بےقرار ہونا غسانیوں کے حملے سے بھی بڑی بات تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ علیہ وسلم کے گھرنے کی سلامتی سب سے بڑی بات تھی۔ اور آپ کا اضطراب لوگوں کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر القرون کے یہ لوگ معاملات کو کس زاویہ سے دیکھتے تھے۔ جس طرح اس انصاری نے اس واقعہ کو ایک عظیم واقعہ سمجھا۔ اسی طرح اللہ نے بھی اسے سمجھا ان حضرات کی سوچ خدا اور رسول کی سوچ کی سمت اختیار کرچکی تھی۔

اردو ترجمہ

بعید نہیں کہ اگر نبیؐ تم سب بیویوں کو طلاق دیدے تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں، سچی مسلمان، با ایمان، اطاعت گزار، توبہ گزار، عبادت گزار، اور روزہ دار، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAasa rabbuhu in tallaqakunna an yubdilahu azwajan khayran minkunna muslimatin muminatin qanitatin taibatin AAabidatin saihatin thayyibatin waabkaran

پھر اگلی آیت میں ان کو نہایت ہی صراحت کے ساتھ بتایا گیا کہ نبی کریم ﷺ کے لئے اور آپ کے گھرانے کے لائق کیسی خواتین درکار ہیں۔ اگر تمہیں طلاق دے دی گئی تو تم سے بہتر اور ان صفات والی خواتین تمہاری جگہ لیں گی :

عسیٰ ربہ .................... وابکارا (66 : 5) ” بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرمادے جو تم سے بہتر ہوں۔ سچی مسلمان ، باایمان ، اطاعت گزار ، توبہ گزار ، عبادت گزار اور روزہ دار ، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ “۔

اشارتاً ان کو بتایا جاتا ہے کہ تمہیں تو ایسا ہونا چاہئے ، یعنی تمہیں ایسا مسلمان ہونا چاہئے کہ تم اطاعت شعار بنو اور دین کے احکام کو قائم کرو تمہارا ایمان ایسا ہو جو کاسہ دل کو ایمان ویقین سے لبالب کردے اور تم دل سے خدا اور رسول کی اطاعت کرو۔ اور توبہ کرو جس کے معنی یہ ہیں کہ جو ہوچکا اس سر نادم ہوجاﺅ اور آئندہ کے لئے اطاعت شعار ہوجاﺅ، بروقت عبادت میں مشغول رہو ، سیاحت اور سائحلت کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت اللہ کی بڑائی اور کبریائی میں غور کیا جائے۔ اور ان صفات کے ساتھ ساتھ وہ شوہر دیدہ بھی ہوں گی اور باکرہ بھی ہوں گی۔ جس طرح کہ موجودہ ازواج مطہرات میں دونوں قسم کی خواتین ہیں۔

یہ ان کے لئے ایک زبردست تادیبی سرزنش تھی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف جتھ بندی کی۔ یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ معمولی باتوں پر غصہ نہ فرماتے تھے۔

ان آیات کے نزول سے حضور ﷺ کو تسلی ہوگئی۔ خود رب تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے اہل بیت کو خطاب فرمایا۔ اور اس زلزلہ کے بعد تو اہل بیت کے اندر بھی سخت پشیمانی ہوگئی اور اللہ کی ہدایت کے بعد سب کچھ درست ہوگیا اور یہ اس گھرانے کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا کہ اللہ تعالیٰ خود اس کو مخاطب کرے ، کیونکہ یہ کوئی معمولی گھرانا تو تھا نہیں ، اس کی تو ہر بات بعد میں آنے والوں کے لئے منہاج حیات تھی۔ ضابطہ اخلاق اور قانون تھی۔

یہ اس ذات کے گھریلو حالات تھے جو ایک امت کی تربیت کررہا تھا۔ ایک مملکت کی بنیاد رکھ رہا تھا اور یہ ایسی مملکت تھی جسکی کوئی مثال گزری ہوئی تاریخ میں نہ تھی۔ اس جیسا نظام امم سابقہ میں نہ تھا۔ ایک ایسی امت تشکیل پارہی تھی۔ جو الٰہی نظریہ حیات کو آخری شکل میں پیش کررہی تھی۔ ایک ربانی معاشرہ وجود میں لایا جارہا تھا اور ایسا معاشرہ جو قیامت تک کے لئے اسوہ بن رہا تھا۔

پھر ان آیات میں ایک عظیم ، جلیل القدر ، بلند کردار اور کریم انسان کی تصویر ہے۔ ایک ہی وقت میں وہ اپنا انسانی کردار بھی ادا کررہا ہے اور نبوی کردار بھی ادا کررہا ہے۔ دونوں کے اندر کوئی بارڈر لائن متعین نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اللہ تقدیر الٰہی کا فیصلہ یہ تھا کہ تمام رسول بشر ہوں گے۔ اور اس بشر رسول نے انسانیت کو آخری نظام زندگی عطا کرنا تھا ، جو قیامت تک کے لئے انسانیت کا منہاج قرار پانا تھا۔

یہ ایک کامل رسالت تھی ، جسے ایک کامل رسول لے کر آیا تھا۔ اور اس کا کمال یہ تھا کہ یہ رسالت انسان کو انسان بنارہی تھی۔ وہ انسانی قوتوں میں سے کسی قوت کو دبا نہیں رہی تھی۔ نہ انسان کی تعمیری قوتوں میں سے کسی قوت کو نظر انداز کررہی تھی۔ انسانی صلاحیتوں میں سے کسی صلاحیت کی بیخ کئی کرنا ، اس رسالت کا منشا تھا بلکہ یہ انسانی قوتوں کو زیادہ مہذب ، زیادہ تربیت یافتہ اور زیادہ بلند کرتی تھی۔ یہ تھی آخری رسالت۔

اسلام کو جن لوگوں نے سمجھا اور اپنے آپ کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا ، اسلام نے ان کو اسی طرح چار چاند لگا دیئے کہ یہ لوگ اسلام کا صحیح ایڈیشن بن گئے۔ اور اسی طرح ان کے نبی کی سیرت اور اس کی عملی زندگی جس میں ، انسانی تجربات بھی تھے ، انسانی سعی بھی تھی ، انسانی نانوانیاں بھی تھیں ، انسانی قوتیں بھی تھیں۔ قرآنی دعوت اور ہدایات کے ساتھ مل کر ان لوگوں کو قدم بقدم آگے بڑھایا جس طرح آپ کے اہل خانہ اور ان لوگوں کی زندگیوں میں قیامت تک آنے والوں کے لئے نمونہ لیکن صرف ایسے لوگوں کے لئے ، جو اسے دیکھنا چاہیں ، اور جو عملی دنیا میں رہنے والے ہوں ، صرف اپنے خول اور اپنے خیالات کے محدود دائروں کے اندر بند نہ ہوں ، جنہوں نے اپنی آنکھیں بند نہ کی ہوں۔

اس آخری رسالت کو کامل اور مکمل شکل میں نازل کرکے قدرت الٰہیہ نے اسے ایک ایسے رسول کی زندگی میں عملی شکل دی ، جو اس رسالت کو آسمان سے اخذ کرتا تھا ، اور زندہ صورت میں اس کا ترجمہ کرتا تھا۔ یوں قدرت الٰہیہ نے اس رسول آخرالزمان کی زندگی کو ، ایک کتاب مفتوح بنایا کہ آپ کی زندگی سے آنے والی نسلیں بہترین نمونہ اور اسوہ اخذ کریں۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo qoo anfusakum waahleekum naran waqooduha alnnasu waalhijaratu AAalayha malaikatun ghilathun shidadun la yaAAsoona Allaha ma amarahum wayafAAaloona ma yumaroona

اس واقعہ کی روشنی میں ، جس کے سبب مسلمانوں کی زندگی پر گہری اثرات مرتب ہوگئے تھے ، اب قرآن کریم مسلمانوں کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل اولاد کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاﺅ۔ چناچہ قیامت کا ایک نہایت ہی موثر منظر بھی ان کے سامنے پیش کیا جاتا کہ وہاں کفار کی حالت کیا ہوگی۔ جس طرح اس واقعہ میں زواج کو دعوت دی تھی کہ توبہ کرو اسی طرح یہاں اہل ایمان کی دعوت دی جاتی ہے کہ توبہ کرو اور توبہ کرنے والوں کے لئے اللہ نے جو باغات تیار کر رکھے ہیں وہ بھی بتادیئے جاتے ہیں۔ اور جھلک دکھادی جاتی ہے۔ اور نبی ﷺ سے کہا جاتا ہے کہ کفار اور منافقین سے جہاد کرو۔ یہ ہے اس سورت کا دوسرا پیراگراف :

یایھا الذین ........................ وبئس المصیر

اپنے نفس اور اپنے اہل و عیال کے بارے میں مومن پر عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ قیامت کے دن کی آگ موجود ہے۔ اور اس نے اس سے اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو بچانا ہے۔ یہ ایسی دہکتی ہوئی آگے ہے۔

وقودھا .................... والحجارة (66 : 6) ” جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے “۔ لوگ اس میں اس طرح ہوں گے جس طرح پتھر پڑے ہوتے ہیں ، سنگ راہ کی طرح کوئی ان کی طرف توجہ نہ کرے گا۔ کس قدر سخت آگ ہوگی کہ اس میں پتھر جلیں گے اور کس قدر سخت عذاب ہوگا اور اہل جہنم کس قدر بےوقعت ہوں گے۔ جہنم کا سب ماحول نہایت شدید اور خوفناک ہوگا۔

علیھا ................ شداد (66 : 6) ” جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے ہوں گے “۔ ان کا مزاج اس عذاب کی سختی کی طرح سخت ہوگا۔

لا یعصون .................... یومرون (66 : 6) ” جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں “۔ ان کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں ، اور ان کی خصوصیت یہ ہے کہ جو بھی حکم ان کو دیا جاتا ہے وہ اسے کر گزرتے ہیں ، اور وہ اپنی اس قوت اور مضبوطی کی وجہ سے اس آگ پر متعین ہوئے ہیں۔ لہٰذا ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ اس آگ سے اپنے نفس اور دین کی بجائے اور قبل اس کے فرصت کی گھڑیاں ختم ہوں وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال اور آگ کے درمیان پردے حائل کردے۔

اردو ترجمہ

(اُس وقت کہا جائے گا کہ) اے کافرو، آج معذرتیں پیش نہ کرو، تہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena kafaroo la taAAtathiroo alyawma innama tujzawna ma kuntum taAAmaloona

دیکھو وہاں اہل کفر جب اس کے دہانے پر پہنچیں گے ، تو وہ عذرات پیش کریں گے ، اور کوئی عذر نہ سنا جائے گا ، بلکہ ان کو وہاں سخت مایوسی ہوگی ، جب سب عذرات رد کردیئے جائیں گے۔

یایھا ........................ تعملون (66 : 7) ” اے کافرو ! آج معذرتیں پیش نہ کرو ، تمہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جارہا ہے جیسے تم عمل کررہے تھے “۔ آج عذرات پیش نہ کرو ، کیونکہ آج عذرات کا دن نہیں ہے۔ آج ہر کسی کو اپنے کیے کا پھل مل رہا ہے۔ اور تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ آج تمہیں کس چیز کا پھل مل رہا ہے ؟

560