سورہ سعد (38): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Saad کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ ص کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ سعد کے بارے میں معلومات

Surah Saad
سُورَةُ صٓ
صفحہ 453 (آیات 1 سے 16 تک)

صٓ ۚ وَٱلْقُرْءَانِ ذِى ٱلذِّكْرِ بَلِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فِى عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَوا۟ وَّلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ وَعَجِبُوٓا۟ أَن جَآءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ ۖ وَقَالَ ٱلْكَٰفِرُونَ هَٰذَا سَٰحِرٌ كَذَّابٌ أَجَعَلَ ٱلْءَالِهَةَ إِلَٰهًا وَٰحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَىْءٌ عُجَابٌ وَٱنطَلَقَ ٱلْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ ٱمْشُوا۟ وَٱصْبِرُوا۟ عَلَىٰٓ ءَالِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَىْءٌ يُرَادُ مَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِى ٱلْمِلَّةِ ٱلْءَاخِرَةِ إِنْ هَٰذَآ إِلَّا ٱخْتِلَٰقٌ أَءُنزِلَ عَلَيْهِ ٱلذِّكْرُ مِنۢ بَيْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِى شَكٍّ مِّن ذِكْرِى ۖ بَل لَّمَّا يَذُوقُوا۟ عَذَابِ أَمْ عِندَهُمْ خَزَآئِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ ٱلْعَزِيزِ ٱلْوَهَّابِ أَمْ لَهُم مُّلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ فَلْيَرْتَقُوا۟ فِى ٱلْأَسْبَٰبِ جُندٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِّنَ ٱلْأَحْزَابِ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ ذُو ٱلْأَوْتَادِ وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَٰبُ لْـَٔيْكَةِ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلْأَحْزَابُ إِن كُلٌّ إِلَّا كَذَّبَ ٱلرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ وَمَا يَنظُرُ هَٰٓؤُلَآءِ إِلَّا صَيْحَةً وَٰحِدَةً مَّا لَهَا مِن فَوَاقٍ وَقَالُوا۟ رَبَّنَا عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ ٱلْحِسَابِ
453

سورہ سعد کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ سعد کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

ص، قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sad waalqurani thee alththikri

حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفسیر سورة بقرہ کے شروع میں گذر چکی ہے۔ یہاں قرآن کی قسم کھائی اور اسے پند و نصیحت کرنے والا فرمایا۔ کیونکہ اس کی باتوں پر عمل کرنے والے کی دین و دنیا دونوں سنور جاتی ہیں اور آیت میں ہے (لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 10ۧ) 21۔ الأنبیاء :10) اس قرآن میں تمہارے لئے نصیحت ہے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قرآن شرافت میں بزرگ عزت و عظمت والا ہے۔ اب اس قسم کا جواب بعض کے نزدیک تو (اِنْ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ 14؀) 38۔ ص :14) ، ہے۔ بعض کہتے ہیں (اِنَّ ذٰلِكَ لَحَــقٌّ تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ 64؀) 38۔ ص :64) ، ہے لیکن یہ زیادہ مناسب نہیں ملعوم ہوتا۔ حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں اس کا جواب اس کے بعد کی آیت ہے۔ ابن جریر اسی کو مختار بتاتے ہیں۔ بعض عربی داں کہتے ہیں اس کا جواب ص ہے اور اس لفظ کے معنی صداقت اور حقانیت کے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ پوری سورت کا خلاصہ اس قسم کا جواب ہے۔ واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے یہ قرآن تو سراسر عبرت و نصیحت ہے مگر اس سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دل میں ایمان ہے کافر لوگ اس فائدے سے اس لئے محروم ہیں کہ وہ متکبر ہیں اور مخالف ہیں یہ لوگ اپنے سے پہلے اور اپنے جیسے لوگوں کے انجام پر نظر ڈالیں تو اپنے انجام سے ڈریں۔ اگلی امتیں اسی جرم پر ہم نے تہ وبالا کردی ہیں عذاب آ پڑنے کے بعد تو بڑے روئے پیٹے خوب آہو زاری کی لیکن اس وقت کی تمام باتیں بےسود ہیں۔ جیسے فرمایا (فَلَمَّآ اَحَسُّوْا بَاْسَنَآ اِذَا هُمْ مِّنْهَا يَرْكُضُوْنَ 12ۭ) 21۔ الأنبیاء :12) ہمارے عذابوں کو معلوم کر کے ان سے بچنا اور بھاگنا چاہا۔ لیکن یہ کیسے ہوسکتا تھا ؟ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اب بھاگنے کا وقت نہیں نہ فریاد کا وقت ہے، اس وقت کوئی فریاد رسی نہیں کرسکتا۔ چاہو جتنا چیخو چلاؤ محض بےسود ہے۔ اب توحید کی قبولیت بےنفع، توبہ بیکار ہے۔ یہ بےوقت کی پکار ہے۔ لات معنی میں لا کے ہے۔ اس میں " ت " زائد ہے جیسے ثم میں بھی " ت " زیادہ ہوتی ہے اور ربت میں بھی۔ یہ مفصولہ ہے اور اس پر وقف ہے۔ امام ابن جریر کا قول ہے کہ یہ " ت " حین سے ملی ہوئی ہے یعنی ولاتحین ہے، لیکن مشہور اول ہی ہے۔ جمہور نے حین کو زبر سے پڑھا ہے۔ تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ وقت آہو زاری کا وقت نہیں۔ بعض نے یہاں زیر پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لغت میں نوص کہتے ہیں پیچھے ہٹنے کو اور بوص کہتے ہیں آگے بڑھنے کو پس مقصد یہ ہے کہ یہ وقت بھاگنے اور نکل جانے کا وقت نہیں واللہ الموفق۔

اردو ترجمہ

بلکہ یہی لوگ، جنہوں نے ماننے سے انکار کیا ہے، سخت تکبر اور ضد میں مبتلا ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bali allatheena kafaroo fee AAizzatin washiqaqin

اردو ترجمہ

اِن سے پہلے ہم ایسی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں (اور جب اُن کی شامت آئی ہے) تو وہ چیخ اٹھے ہیں، مگر وہ وقت بچنے کا نہیں ہوتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kam ahlakna min qablihim min qarnin fanadaw walata heena manasin

اردو ترجمہ

اِن لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود اِنہی میں سے آگیا منکرین کہنے لگے کہ "یہ ساحرہے، سخت جھوٹا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAAajiboo an jaahum munthirun minhum waqala alkafiroona hatha sahirun kaththabun

مشرکین کا نبی اکرم ﷺ پر تعجب۔حضور ﷺ کی رسالت پر کفار کے حماقت آمیز تعجب کا اظہار ہو رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے (اَكَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ڼ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ) 10۔ یونس :2) ، کیا لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ان میں سے ایک انسان کی طرف ہم نے وحی کی تاکہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے اور ایمانداروں کو اس بات کی خوش خبری سنا دے کہ اس کے پاس ان کے لئے بہترین لائحہ عمل ہے۔ کافر تو ہمارے رسول کو کھلا جادوگر کہنے لگے۔ یہیں پر یہ ذکر ہے کہ انہی میں سے انہی جیسے ایک انسان کے رسول بن کر آنے پر انہیں تعجب ہوا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور کذاب ہے۔ رسول ﷺ کی رسالت پر تعجب کے ساتھ ہی اللہ کی وحدانیت پر بھی انہیں تعجب معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ اور سنو اتنے سارے معبودوں کے بدلے یہ تو کہتا ہے کہ اللہ ایک ہی ہے اور اس کا کوئی کسی طرح کا شریک ہی نہیں ان بیوقوفوں کو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی جس شرک و کفر کی عادت تھی اس کے خلاف آواز سن کر ان کے دل دکھنے اور رکنے لگے اور وہ توحید کو ایک انوکھی اور انجان چیز سمجھنے لگے۔ ان کے بڑوں اور سرداروں نے تکبر کے ساتھ منہ موڑتے ہوئے اعلان کیا کہ اپنے قدیمی مذہب پر جمے رہو۔ اس کی بات نہ مانو اور اپنے معبودوں کی عبادت کرتے رہو۔ یہ تو صرف اپنے مطلب کی باتیں کہتا ہے۔ یہ اس بہانے اپنی جما رہا ہے کہ یہ تمہارا سب کا بڑا بن جائے اور تم اس کے تابع فرمان ہوجاؤ۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے کہ ایک بار قریشیوں کے شریف اور سردار رؤسا ایک مرتبہ جمع ہوئے ان میں ابو جہل بن ہشام عاص بن وائل اسود بن المطلب اسود بن عبد یغوث وغیرہ بھی تھے اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چل کر آج ابو طالب سے آخری فیصلہ کرلیں وہ انصاف کے ساتھ ایک بات ہمارے ذمہ ڈال دے اور ایک اپنے بھتیجے کے ذمے۔ کیونکہ یہ اب انتہائی عمر کو پہنچ چکے ہیں چراغ سحری ہو رہے ہیں اگر مرگئے اور ان کے بعد ہم نے محمد ﷺ کو کوئی مصیبت پہنچائی تو عرب میں طعنہ دیں گے کہ بڈھے کی موجودگی تک تو کچھ نہ چلی اور ان کی موت کے بعد بہادری آگئی۔ چناچہ ایک آدمی بھیج کر ابو طالب سے اجازت مانگی ان کی اجازت پر سب گھر میں گئے اور کہا سنئے جناب ! آپ ہمارے سردار ہیں بزرگ ہیں بڑے ہیں۔ ہم آپ کے بھتیجے سے اب بہت تنگ آگئے ہیں آپ انصاف کے ساتھ ہم میں اور اس میں فیصلہ کر دیجئے۔ دیکھئے ہم آپ سے انصاف چاہتے ہیں وہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں اور نہ ہم انہیں ستائیں وہ مختار ہیں جس کی چاہیں عبادت کریں لیکن ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں۔ ابو طالب نے آدمی بھیج کر اللہ کے رسول ﷺ کو بلوایا اور کہا جان پدر دیکھتے ہو آپ کی قوم کے سردار اور بزرگ سب جمع ہوئے ہیں اور آپ سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے معبودوں کی توہین اور برائی کرنے سے باز آجائیں اور یہ آپ کو آپ کے دین پر چلنے میں آزادی دے رہے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا چچا جان کیا میں انہیں بہترین اور بڑی بھلائی کی طرف نہ بلاؤں ؟ ابو طالب نے کہا وہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ ایک کلمہ کہہ دیں صرف اس کے کہنے کی وجہ سے سارا عرب ان کے ماتحت ہوجائے گا اور سارے عجم پر ان کی حکومت ہوجائے گی۔ ابو جہل ملعون نے سوال کیا کہ اچھا بتاؤ وہ ایسا کونسا کلمہ ہے ؟ ایک نہیں ہم دس کہنے کو تیار ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہو لا الہ الا اللہ بس یہ سننا تھا کہ شور و غل کردیا اور کہنے لگے اس کے سوا جو تو مانگے ہم دینے کو تیار ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم سورج کو بھی لاکر میرے ہاتھ پر رکھ دو تو بھی تو تم سے اس کلمے کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ سارے کے سارے مارے غصے اور غضب کے بھنا کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے واللہ ہم تجھے اور تیرے اللہ کو گالیاں دیں گے جس نے تجھے یہ حکم دیا ہے۔ اب یہ چلے اور ان کے سردار یہ کہتے رہے کہ جاؤ اپنے دین پر اور اپنے معبودوں کی عبادت پر جمے رہو۔ معلوم ہوگیا کہ اس شخص کا تو ارادہ ہی اور ہے یہ تو بڑا بننا چاہتا ہے (ابن ابی حاتم وغیرہ) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان کے بھاگ جانے کے بعد حضور نے اپنے چچا سے کہا کہ آپ ہی اس کلمے کو پڑھ لیجئے اس نے کہا نہیں میں تو اپنے باپ دادوں اور قوم کے بڑوں کے دین پر ہی رہوں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو فرمایا کہ جسے تو چاہے ہدایت نہیں کرسکتا اور روایت میں ہے کہ اس وقت ابو طالب بیمار تھے اور اسی وجہ سے وہ مرا بھی۔ جس وقت حضور ﷺ تشریف لائے اس وقت ابو طالب کے پاس ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ خالی تھی باقی تمام گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا تو ابو جہل خبیث نے خیال کیا کہ اگر آپ ﷺ آ کر اپنے چچا کے پاس بیٹھ گئے تو زیادہ اثر ڈال سکیں گے اس لئے یہ ملعون کود کر وہاں جا بیٹھا اور حضور ﷺ کو دروازہ کے پاس ہی بیٹھنا پڑا۔ حضور ﷺ نے جب ایک کلمہ کہنے کو کہا تو سب نے جواب دیا کہ ایک نہیں دس ہم سب منتظر ہیں فرمایئے وہ کیا کلمہ ہے ؟ اور جب کلمہ توحید آپ کی زبانی سنا تو کپڑے جھاڑتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے لو اور سنو یہ تو سارے معبودوں کا ایک معبود بنا رہا ہے۔ اس پر یہ آیتیں، عذاب تک، اتریں۔ امام ترمذی اس روایت کو حسن کہتے ہیں۔ ہم نے تو یہ بات نہ اپنے دین میں دیکھی نہ نصرانیوں کے دین میں۔ یہ بالکل غلط اور جھوٹ اور بےسند بات ہے۔ یہ کیسے کچھ تعجب کی بات ہے کہ اللہ میاں کو کوئی اور نظر ہی نہ آیا اور اس پر قرآن اتار دیا۔ جیسے ایک اور آیت میں ان کا قول ہے (وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ 31؀) 43۔ الزخرف :31) یعنی ان دونوں شہروں میں کے کسی بڑے آدمی پر یہ قرآن کیوں نہ اتارا گیا ؟ جس کے جواب میں جناب باری کا ارشاد ہوا کہ کیا یہی لوگ رب کی رحمت کی تقسیم کرنے والے ہیں ؟ یہ تو اس قدر محتاج ہیں کہ ان کی اپنی روزیاں اور درجے بھی ہم تقسیم کرتے ہیں۔ الغرض یہ اعتراض بھی ان کی حماقت کا غرہ تھا۔ اللہ فرماتا ہے، یہ ہے ان کے شک کا نتیجہ اور وجہ یہ ہے کہ اب تک یہ چکنی چپڑی کھاتے رہے ہیں ہمارے عذابوں سے سابقہ نہیں پڑا۔ کل قیامت کے دن جبکہ دھکے دے کر جہنم میں گرائے جائیں گے۔ اس وقت اپنی اس سرکشی کا مزہ پائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا قبضہ اور اپنی قدرت ظاہر فرماتا ہے کہ جو وہ چاہے کرے، جسے چاہے جو چاہے دے، عزت ذلت اس کے ہاتھ ہے، ہدایت ضلالت اس کی طرف سے ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے وحی نازل فرمائے اور جس کے دل پر چاہے اپنی مہر لگا دے بندوں کے اختیار میں کچھ نہیں وہ محض بےبس بالکل لاچار اور سراسر مجبور ہیں۔ اسی لئے فرمایا کیا ان کے پاس اس بلند جناب غالب، وہاب اللہ کی رحمت کے خزانے ہیں ؟ یعنی نہیں ہیں جیسے فرمایا (اَمْ لَھُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا 53؀ۙ) 4۔ النسآء :53) ، اگر اللہ کی حکمرانی کا کوئی حصہ ان کے ہاتھ میں ہوتا تو یہ بخیل تو کسی کو ٹکڑا بھی نہ کھانے دیتے۔ اور انہیں لوگوں کے ہاتھوں میں اللہ کا فضل دیکھ کر حسد آ رہا ہے ؟ ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور بہت بڑی سلطنت دی تھی۔ ان میں سے بعض تو ایمان لائے اور بعض ایمان سے رکے رہے جو بھڑکتی جہنم کے لقمے بنیں گے وہ آگ ہی انہیں کافی ہے اور آیت میں ہے (قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا01000ۧ) 17۔ الإسراء :100)۔ یعنی اگر میرے رب کی رحمتوں کے خزانے تمہاری ملکیت میں ہوتے تو تم تو کمی سے ڈر کر خرچ کرنے سے رک جاتے انسان ہے ہی ناشکرا۔ قوم صالح نے بھی اپنے نبی ﷺ سے یہی کہا تھا کہ الخ، کیا ہم سب کو چھوڑ کر اسی پر ذکر اتارا گیا ؟ نہیں بلکہ یہ کذاب اور شریر ہے۔ اللہ فرماتا ہے کل معلوم کرلیں گے کہ ایسا کون ہے ؟ پھر فرمایا کیا زمین آسمان اور اس کے درمیان کی چیزوں پر ان کا اختیار ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر آسمانوں کی راہوں پر چڑھ جائیں ساتویں آسمان پر پہنچ جائیں۔ یہ یہاں کا لشکر بھی عنقریب ہزیمت و شکست اٹھائے گا اور مغلوب و ذلیل ہوگا۔ جیسے اور بڑے بڑے گروہ حق سے ٹکرائے اور پاش پاش ہوگئے، جیسے اور آیت میں ہے (اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَــصِرٌ 44؀) 54۔ القمر :44) ، یعنی کیا ان کا قول ہے کہ ہم بڑی جماعت ہیں اور ہم ہی فتح یاب رہیں گے ؟ سنو انہیں ابھی ابھی شکست فاش ہوگی اور پیٹھ دکھاتے ہوئے بزدلی کے ساتھ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوں گے چناچہ بدر والے دن اللہ کی فرماں روائی نے اللہ کی باتوں کی سچائی انہیں اپنی آنکھوں سے دکھائی اور ابھی ان کے عذابوں کے وعدے کا دن تو آخرت کا دن ہے جو سخت کڑوا اور نہایت دہشت ناک اور وحشت والا ہے۔

اردو ترجمہ

کیا اِس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AjaAAala alalihata ilahan wahidan inna hatha lashayon AAujabun

اردو ترجمہ

اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ "چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر یہ بات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جا رہی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waintalaqa almalao minhum ani imshoo waisbiroo AAala alihatikum inna hatha lashayon yuradu

اردو ترجمہ

یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma samiAAna bihatha fee almillati alakhirati in hatha illa ikhtilaqun

اردو ترجمہ

کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کر دیا گیا؟" اصل بات یہ ہے کہ یہ میرے "ذکر"پر شک کر رہے ہیں، اور یہ ساری باتیں اس لیے کر رہے ہیں کہ انہوں نے میرے عذاب کا مزا چکھا نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aonzila AAalayhi alththikru min baynina bal hum fee shakkin min thikree bal lamma yathooqoo AAathabi

اردو ترجمہ

کیا تیرے داتا اور غالب پروردگار کی رحمت کے خزانے اِن کے قبضے میں ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Am AAindahum khazainu rahmati rabbika alAAazeezi alwahhabi

اردو ترجمہ

کیا یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کے مالک ہیں؟ اچھا تو یہ عالم اسباب کی بلندیوں پر چڑھ کر دیکھیں!

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Am lahum mulku alssamawati waalardi wama baynahuma falyartaqoo fee alasbabi

اردو ترجمہ

یہ تو جتھوں میں سے ایک چھوٹا سا جتھا ہے جو اِسی جگہ شکست کھانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Jundun ma hunalika mahzoomun mina alahzabi

اردو ترجمہ

اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم، اور عاد، اور میخوں والا فرعون

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kaththabat qablahum qawmu noohin waAAadun wafirAAawnu thoo alawtadi

ان سب کے واقعات کئی مرتبہ بیان ہوچکے ہیں کہ کس طرح ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ کے عذاب ٹوٹ پڑے۔ یہی وہ جماعتیں ہیں جو مال اولاد میں قوۃ و طاقت میں زور زور میں تمہارے زمانہ کے ان کٹر کافروں سے بہت بڑھی ہوئی تھیں لیکن امر الٰہی کے آچکنے کے بعد انہیں کوئی چیز کام نہ آئی۔ پھر ان کی تباہی کی وجہ بھی بیان ہوئی کہ یہ رسولوں کے دشمن تھے انہیں جھوٹا کہتے تھے۔ انہیں صرف صور کا انتظار ہے اور اس میں بھی کوئی دیر نہیں بس وہ ایک آواز ہوگی کہ جس کے کان میں پڑی بیہوش و بےجان ہوگیا۔ سوائے ان کے جنہیں رب نے مستثنیٰ کردیا ہے۔ قط کے معنی کتاب اور حصے کے ہیں۔ مشرکین کی بیوقوفی اور ان کا عذابوں کو محال سمجھ کر نڈر ہو کر عذابوں کے طلب کرنے کا ذکر ہو رہا ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ انہوں نے کہا اللہ اگر یہ صحیح ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا اور کوئی درد ناک عذاب آسمانی ہمیں پہنچا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنا جنت کا حصہ یہاں طلب کیا اور یہ جو کچھ کہا یہ بہ وجہ اسے جھوٹا سمجھنے اور محال جاننے کے تھا۔ ابن جریر کا فرمان ہے کہ جس خیر و شر کے وہ دنیا میں مستحق تھے اسے انہوں نے جلد طلب کیا۔ یہی بات ٹھیک ہے ضحاک اور اسماعیل کی تفسیر کا ماحصل بھی یہی ہے۔ واللہ اعلم۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی اس تکذیب اور ہنسی کے مقابلے میں اپنے نبی ﷺ کو صبر کی تعلیم دی اور برداشت کی تلقین کی۔ حضرت داؤد ؑ کی فراست۔ ذالاید سے مراد علمی اور عملی قوت والا ہے اور صرف قوۃ والے کے معنی بھی ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے (وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ 47؀) 51۔ الذاریات :47) ، مجاہد فرماتے ہیں مراد اطاعت کی طاقت ہے۔ حضرت داؤد ؑ کو عبادت کی قدرت اور اسلام کی فقہ عطا فرمائی گی تھی۔ یہ مذکور ہے کہ آپ ہر رات تہائی رات تک تہجد میں کھڑے رہتے تھے اور ایک دن بعد ایک دن ہمیشہ روزے سے رہتے تھے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ پسند حضرت داؤد کی رات کی نماز اور انہی کے روزے تھے۔ آپ آدھی رات سوتے اور تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ رات کا پھر سو جاتے، اور ایک دن روزہ رکھتے ایک دن نہ رکھتے اور دشمنان دین سے جہاد کرنے میں پیٹھ نہ دکھاتے اور اپنے ہر حال میں اللہ کی طرف رغبت و رجوع رکھتے۔ پہاڑوں کو ان کے ساتھ مسخر کردیا تھا۔ وہ آپ کے ساتھ سورج کے ڈھلنے کے وقت اور دن کے آخری وقت تسبیح بیان کرتے۔ جیسے فرمان ہے (يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ 10 ۙ) 34۔ سبأ :10) یعنی اللہ نے پہاڑوں کو ان کے ساتھ رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح پرندے بھی آپ کی آواز سن کر آپ کے ساتھ اللہ کی پاکی بیان کرنے لگ جاتے اڑتے ہوئے پرند پاس سے گذرتے اور آپ توراۃ پڑھتے ہوتے تو آپ کے ساتھ وہ بھی تلاوت میں مشغول ہوجاتے اور اڑنا بھول جاتے بلکہ ٹھہر جاتے۔ حضور ﷺ نے فتح مکہ والے دن ضحیٰ کے وقت حضرت ام ہانی کے گھر میں آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ ابن عباس فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ یہ بھی وقت نماز ہے جیسے فرمان ہے (اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ 18؀ۙ) 38۔ ص :18)۔ عبداللہ بن حارث بنی نوفل کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ضحیٰ کی نماز نہیں پڑھتے تھے ایک دن میں انہیں حضرت ام ہانی ؓ کے ہاں لے گیا اور کہا کہ آپ ان سے وہ حدیث بیان کیجئے جو آپ نے مجھ سے بیان فرمائی تھی۔ تو مائی صاحبہ نے فرمایا فتح مکہ والے دن میرے گھر میں میرے پاس اللہ کے رسول ﷺ آئے۔ پھر ایک برتن میں پانی بھروایا اور ایک کپڑا تان کر نہانے بیٹھ گئے پھر گھر کے ایک کونے میں پانی چھڑک کر آٹھ رکعت صلوۃ ضحیٰ کی ادا کیں، ان کا قیام رکوع سجدہ اور جلوس سب قریب قریب برابر تھے حضرت ابن عباس جب یہ سن کر وہاں سے نکلے تو فرمانے لگے پورے قرآن کو میں نے پڑھ لیا میں نہیں جانتا کہ ضحیٰ کی نماز کیا ہے آج مجھے معلوم ہوا کہ (يُسَبِّحْنَ بالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ 18؀ۙ) 38۔ ص :18) والی آیت میں بھی اشراق سے مراد یہی ضحیٰ ہے۔ چناچہ اس کے بعد انہوں نے اپنے اگلے قول سے رجوع کرلیا۔ جب حضرت داؤد اللہ کی پاکیزگی اور بزرگی بیان فرماتے تو پرندے بھی ہواؤں میں رک جاتے تھے اور حضرت داؤد کی ماتحتی میں ان کی تسبیح کا ساتھ دیتے تھے۔ اور اس کی سلطنت ہم نے مضبوط کردی اور بادشاہوں کو جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ہم نے اسے سب دے دیں۔ چار ہزار تو ان کی محافظ سپاہ تھی۔ اس قدر فوج تھی کہ ہر رات تینتیس ہزار فوجی پہرے پر چڑھتے تھے لیکن جو آج کی رات آتے پھر سال بھر تک ان کی باری نہ آتی۔ چالیس ہزار آدمی ہر وقت ان کی خدمت میں مسلح تیار رہتے۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے زمانے میں بنی اسرائیل کے دو آدمیوں میں ایک مقدمہ ہوا۔ ایک نے دوسرے پر دعویٰ کیا کہ اس نے میری گائے غصب کرلی ہے۔ دوسرے نے اس جرم سے انکار کیا حضرت داؤد ؑ نے مدعی سے دلیل طلب کی وہ کوئی گواہ پیش نہ کرسکا آپ نے فرمایا اچھا تمہیں کل فیصلہ سنایا جائے گا۔ رات کو حضرت داؤد کو خواب میں حکم ہوا کہ دعویدار کو قتل کردو۔ صبح آپ نے دونوں بلوایا اور حکم دیا کہ اس مدعی کو قتل کردیا جائے اس نے کہا اے اللہ کے نبی آپ میرے ہی قتل کا حکم دے رہے ہیں حالانکہ اس نے میری گائے چرالی ہے۔ آپ نے فرمایا یہ میرا حکم نہیں یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور ناممکن ہے کہ یہ ٹل جائے تو تیار ہوجا۔ تب اس نے کہا اے اللہ کے رسول میں اپنے دعوے میں تو سچا ہوں اس نے میری گائے غصب کرلی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے قتل کا حکم میرے اس مقدمے کی وجہ سے نہیں کیا۔ اس کی وجہ اور ہی ہے اور اسے صرف میں ہی جانتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ آج میں نے اسے فریب سے قتل کردیا ہے جس کا کسی کو علم نہیں۔ پس اس کے بدلے میں اللہ نے آپ کو قصاص کا حکم دیا ہے۔ چناچہ وہ قتل کردیا گیا۔ اب تو حضرت داؤد کی ہیبت ہر شخص کے دل میں بیٹھ گئی ہم نے اسے حکمت دی تھی یعنی فہم و عقل، زیرکی اور دانائی، عدل و فراست کتاب اللہ اور اس کی اتباع نبوت و رسالت وغیرہ اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کا صحیح طریقہ۔ یعنی گواہ لینا قسم کھلوانا، مدعی کے ذمہ بار ثبوت ڈالنا مدعی علیہ سے قسم لینا۔ یہی طریقہ فیصلوں کا انبیاء کا اور نیک لوگوں کا رہا اور یہی طریقہ اس امت میں رائج ہے۔ غرض حضرت داؤد معاملے کی تہ کو پہنچ جاتے تھے اور حق و باطل سچ جھوٹ میں صحیح اور کھرے کا امتیاز کرلیتے تھے۔ کلام بھی آپ کا صاف ہوتا تھا اور حکم بھی عدل پر مبنی ہوتا تھا۔ آپ ہی نے اما بعد کا کہنا ایجاد کیا ہے اور فصل الخطاب سے اس کی طرف بھی اشارہ ہے۔

اردو ترجمہ

اور ثمود، اور قوم لوط، اور اَیکہ والے جھٹلا چکے ہیں جتھے وہ تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wathamoodu waqawmu lootin waashabu alaykati olaika alahzabu

اردو ترجمہ

ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا اور میری عقوبت کا فیصلہ اس پر چسپاں ہو کر رہا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In kullun illa kaththaba alrrusula fahaqqa AAiqabi

اردو ترجمہ

یہ لوگ بھی بس ایک دھماکے کے منتظر ہیں جس کے بعد کوئی دوسرا دھماکا نہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama yanthuru haolai illa sayhatan wahidatan ma laha min fawaqin

اردو ترجمہ

اور یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب، یوم الحساب سے پہلے ہی ہمارا حصہ ہمیں جلدی سے دے دے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo rabbana AAajjil lana qittana qabla yawmi alhisabi
453