سورہ سعد (38): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Saad کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ ص کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ سعد کے بارے میں معلومات

Surah Saad
سُورَةُ صٓ
صفحہ 453 (آیات 1 سے 16 تک)

صٓ ۚ وَٱلْقُرْءَانِ ذِى ٱلذِّكْرِ بَلِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فِى عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَوا۟ وَّلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ وَعَجِبُوٓا۟ أَن جَآءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ ۖ وَقَالَ ٱلْكَٰفِرُونَ هَٰذَا سَٰحِرٌ كَذَّابٌ أَجَعَلَ ٱلْءَالِهَةَ إِلَٰهًا وَٰحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَىْءٌ عُجَابٌ وَٱنطَلَقَ ٱلْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ ٱمْشُوا۟ وَٱصْبِرُوا۟ عَلَىٰٓ ءَالِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَىْءٌ يُرَادُ مَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِى ٱلْمِلَّةِ ٱلْءَاخِرَةِ إِنْ هَٰذَآ إِلَّا ٱخْتِلَٰقٌ أَءُنزِلَ عَلَيْهِ ٱلذِّكْرُ مِنۢ بَيْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِى شَكٍّ مِّن ذِكْرِى ۖ بَل لَّمَّا يَذُوقُوا۟ عَذَابِ أَمْ عِندَهُمْ خَزَآئِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ ٱلْعَزِيزِ ٱلْوَهَّابِ أَمْ لَهُم مُّلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ فَلْيَرْتَقُوا۟ فِى ٱلْأَسْبَٰبِ جُندٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِّنَ ٱلْأَحْزَابِ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ ذُو ٱلْأَوْتَادِ وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَٰبُ لْـَٔيْكَةِ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلْأَحْزَابُ إِن كُلٌّ إِلَّا كَذَّبَ ٱلرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ وَمَا يَنظُرُ هَٰٓؤُلَآءِ إِلَّا صَيْحَةً وَٰحِدَةً مَّا لَهَا مِن فَوَاقٍ وَقَالُوا۟ رَبَّنَا عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ ٱلْحِسَابِ
453

سورہ سعد کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ سعد کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ص، قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sad waalqurani thee alththikri

درس نمبر 211 تشریح آیات

آیت نمبر 1 تا 3

اللہ تعالیٰ حرف ص اور قرآن کریم کی قسم کھاتا ہے۔ اس قرآن کی قسم جو نصیحت سے مالا مال ہے ۔ یہ حرف ص بھی اللہ کا بنایا ہوا ہے اور یہ قرآن بھی اللہ کا کلام ہے ۔ اور یہ اللہ ہی ہے جو انسان کے گلے میں حرف صاد پیدا کرتا ہے اور پھر یہ حرف اور اللہ کے پیدا کردہ دوسرے حروف تہجی مل کر قرآن کے اسالیب کلام پیدا کرتے ہیں ۔ لیکن تمام انسان ایسا کلام پیش کرتے سے عاجز ہیں ۔ کیونکہ قرآن کلام الہی ہے اور اس کے اندر وہ ادبی صنعت کاری ہے جو انسان کے دائرہ قدرت سے باہر ہے اور اللہ کا یہ اعجاز کلام الہی قرآن میں بھی ہے اور دوسری پیدا کردہ چیزوں میں بھی ہے۔ یہ آواز ص جو انسان کے گلے سے نکلتی ہے ' یہ اس اللہ کی تخلیق سے نکلتی ہے۔ جس نے انسان کا گلا بنایا ' جس سے اس کے سوا دوسری آوازیں بھی نکلتی ہیں انسانوں کی قدرت میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ آواز نکالنے کا کوئی ایسا چلتا پھرتا زندہ آلہ بنالیں اور یہ بھی ایک خارق العادت معجزہ ہے اور اس قسم کے ہزارہا معجزات خود ان کے جسم میں ہیں۔ اگر یہ لوگ صرف اپنے انفس کے اندر پائے جانے والے معجزات ہی پر غور کرتے تو انہیں اس بات پر کوئی اچنبھا نہ ہوتا کہ اللہ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے پر وحی نازل کی ہے اور ایک بندے کو مختار بنایا ہے کیونکہ وحی کے اندر اچنبھے کی کوئی ایسی بات نہیں ہے جس طرح اللہ کے پیدا کردہ انسان اور دوسری چیزوں کے اندر ایک ایک بات معجزہ ہے۔

ص والقراٰن ذی الذکر (38: 1) ” ص ' قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی “۔ قرآن کریم میں جس طرح قوانین ' دستور ' قصص ' فلسفہ اور تہذیب کی باتیں ہیں اسی طرح نصیحت اور یاد دہانی بھی ہے۔ لیکن نصیحت اور اللہ کی طرف راہنمائی سب دوسرے مضامین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ قرآن کی اصل غرض نصیحت وہدایت ہے بلکہ نصیحت کے سوا دوسرے مضامین بھی دراصل اللہ تک پہنچانے والے ہیں۔ یوں کہ سب اللہ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ ذوالذکر کا مفہوم مذکور اور مشہور بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی قرآن کی صفت ہے کہ وہ بہت مشہور ہے۔

اردو ترجمہ

بلکہ یہی لوگ، جنہوں نے ماننے سے انکار کیا ہے، سخت تکبر اور ضد میں مبتلا ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bali allatheena kafaroo fee AAizzatin washiqaqin

بل الذین کفروافی عزۃ وشقاق (38: 2) ” بلکہ یہی لوگ جنہوں نے ماننے سے انکار کیا ہے سخت تکبر اور ضد میں مبتلا ہیں “۔ یہاں کلام میں اضراب اور اچانک موضوع سخن کی تبدیلی نظر آتی ہے۔ پہلے قرآن کا موضوع تھا ' اب مشرکین پر تبصرہ شروع ہوگیا کہ وہ تکبروغرور میں ڈوبے ہوئے ہیں اور سخت ضد اور دشمنی میں مبتلا ہیں۔ لیکن یہ موضوع سخن کی تبدیلی فقط ظاہری ہے ظاہری ہے اور اس ظاہری تبدیلی سے غرض یہ ہے کہ قاری مسئلے پر ذرا سنجیدگی سے غور کرے ۔ یہاں ص اور قرآن ذی ذکر قسم اٹھائی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس بات کا ذکر ہورہا ہے وہ بہت بڑی بات ہے۔ اسی لیے اللہ نے اس پر قسم اٹھائی ہے۔ اس کے بعد مشرکین کے غرور اور ہٹ دھرمی کا ذکر کیا گیا ۔ مسئلہ ” بل “ حرف اضراب سے قبل اور بعد ایک ہی ہے۔ ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جاتی ہے کہ اللہ قرآن کو کس قدر اہمیت دیتا ہے اور مشرکین ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کس طرح قرآن کو نظر انداز کرتے ہیں ۔

اسکے بعد یہ بتایا گیا اس سے قبل انسانی تاریخ میں جن جن اقوام نے غرور وتکبر کیا اور اسکی وجہ سے ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہوئے وہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ کیونکہ انہوں نے بہت بڑا تکبر کیا اور دعوت اسلامی سے شدید دشمنی اختیار کی ۔ ذرا تاریخ میں ان کا منظر دیکھو کہ چیخ و پکار کررہے ہیں اور کوئی سنتا نہیں ۔ اب تو انکے دماغ سے وہ سب کچھ نکل گیا ہے۔ اب تو وہ بچھے جا رہے ہیں ۔ دشمنی انہوں نے ترک کردی اور اب تو وہ بہت ہی برخوردار بنے جا رہے ہیں۔ لیکن اس وقت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت !

اردو ترجمہ

اِن سے پہلے ہم ایسی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں (اور جب اُن کی شامت آئی ہے) تو وہ چیخ اٹھے ہیں، مگر وہ وقت بچنے کا نہیں ہوتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kam ahlakna min qablihim min qarnin fanadaw walata heena manasin

کم اھلکنا۔۔۔۔ حین مناص (38: 3) ” ان سے پہلے ہم ایسی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں اور جب ان کی شامت آئی تو وہ چیخ اٹھے ہیں مگر وہ وقت بچنے کا نہیں “۔

شاید تاریخ کے ان صفحات کے مطالعے کا ان پر اثر ہوا اور وہ اپنے کبروغرور سے دستکش ہوجائیں اور اپنی بےجا دشمنی کو ترک کردیں ۔ اور اپنے آپکو اس موقف پر کھڑانہ کریں جو ان ہلاک شدہ اقوام کا تھا کہ وہ چیختے پکارتے رہے لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ اب تو انکے سامنے وسیع وقت ہے۔ وہ اس بےبسی کی پکار سے بچ سکتے ہیں ۔ جب کوئی سننے والا نہ ہو۔ اور نہ بچنے کی کوئی راہ ہو۔

یہ تو تھی ان کو جھنجھوڑنے کے لیے ایک سخت ضرب ۔ اب تفصیلاً بتایا جارہا ہے کہ ان کے تکبر اور ان کی دشمنی کی تفصیلات

کیا تھیں ۔ سنئے تفصلات :

آیت نمبر 4 تا 7

ترجمہ : ان لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ایک ذرانے والا خود انہی میں سے آگیا۔ منکرین کہنے لگے کہ ” یہ ساحر ہے ' سخت جھوٹا ہے ' کیا اس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے “۔ اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ ” چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر۔ یہ بات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جارہی ہے۔ یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی۔ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات “۔ تکبر یہ تھا۔

ء انزل ۔۔ بیننا (38: 8) ” کیا ہمارے درمیان بس یہی شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کردیا گیا “۔ اور دشمنی یہ تھی کہ

اجعل ۔۔۔ واحدا (38: 5) ” کیا اس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا “۔ اور یہ بھی دشمنی کی وجہ ہے۔

ماسمعنا۔۔۔ الاخرۃ (38: 7) ” یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی “۔ اور یہ کہ ھذاسحر کذاب (38: 4) ” یہ جادوگر ہے بڑا جھوٹا “۔ اور ان ھذا لاً اختلاق (38: 7) ” یہ کچھ نہیں مگر ایک من گھڑت بات “۔ یہ سب دشمنی کی وجوہات تھیں۔ رسول کا انسان ہونا زمانہ قدیم سے قابل تعجب رہا ہے۔ ہر زمانے میں اس کا اعادہ ہوا ہے ۔ جب سے رسالتوں کا آغاز ہوا ہے۔ اعتراض ہوتا رہا ہے۔ رسول بھی آتے رہے اور اس قسم کے اعتراضات بھی ہوتے رہے۔

اردو ترجمہ

اِن لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود اِنہی میں سے آگیا منکرین کہنے لگے کہ "یہ ساحرہے، سخت جھوٹا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAAajiboo an jaahum munthirun minhum waqala alkafiroona hatha sahirun kaththabun

وعجبوآ۔۔۔ منھم (38: 4) ” اور ان لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود انہی میں سے آگیا “۔ حالانکہ مناسب ترین بات تو یہی ہے کہ ڈرانے والا انہی میں سے ہو ، وہ بشر ہو اور یہ بات جانتا ہو کہ انسان کیا سوچتے ہیں اور ان کے احساسات کیا ہوتے ہیں ۔ ان کے خلجانات کیا ہوتے ہیں اور ان کے وجود میں کیا کشمکش ہے۔ اور ان کے اندر کیا کیا کمزوریاں ہوتی ہیں اور کیا کیا کو تاہیاں ان کے وجود میں ہوتی ہیں۔ ایک انسان ہی یہ جان سکتا ہے کہ انسان میں کہاں کہاں کیا کمزوری ہے۔ کہاں کہاں وہ جذبات اور میلانات کا دباؤ محسوس کرتا ہے۔ اس کی وسعت اور قدرت کی حدود کیا ہیں۔ وہ کس قدر مشقت برداشت کرسکتے ہیں۔ کن کن رکاوٹوں اور مشکلات کے سامنے وہ بےبس ہوجاتے ہیں اور کیا کیا چیزیں ان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

رسول ایک انسان ہوتا ہے ' انسانوں سے ہوتا ہے ، انسانوں میں رہتا ہے تو اس کی زندگی ان کے لیے نمونہ ہوتی ہے۔ اور وہ اس کے اسوہ کو اپناتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارا ہی بھائی ہے اور ہم ہی میں سے ہے ۔ اور یہ کہ قوم اور رسول کے ردمیان انسانی اور سماجی روابط پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ لہذا وہ اس منہاج کو اپنا سکتے ہیں جس پر وہ ہوتا ہے۔ اور لوگوں سے بھی یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ اسے اپناؤ۔ کیونکہ رسول جیسے طرز عمل کو وہ بھی اپنا سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ اس نظام پر ایک شخص نے عمل کرکے دکھا دیا ہے ۔ جو خود ان میں سے ہے اور ان جیسا انسان ہے۔

لیکن یہ بات تعجب انگیز ہے کہ معقول ترین اور لازمی امر بھی ہمشہ لوگوں کے لیے باعث تعجب بنارہا ہے۔ وہ اسے انوکھا سمجھتے رہے ہیں اور تکذیب کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ انسانوں میں سے رسول بھیجنے کی حکمت کو نہ سمجھتے تھے۔ وہ رسالت کے منصب کو بھی نہ سمجھتے تھے۔ بجائے اس کے کہ وہ رسول کو ایک بشر قائد اور راہنما سمجھتے جو ان کو اللہ کی راہ دکھاتا ہے ' وہ رسول کو ایک عجوبہ ناقابل فہم اور خیالی شخصیت سمجھتے تھے۔ وہ یوں سیدھے سادے انسانوں کو رسول نہ مانتے تھے۔ وہ رسول کو بھی ایسی شخصیت سمجھتے تھے جو خیالی ہو ' جسے چھوانہ جاسکتا ہو۔ جسے دیکھا نہ جاسکتا ہو۔ وہ ظاہر و باہر نہ ہو ، جو اس کرۂ ارض پر ایک عملی زندگی نہ رکھتا ہو۔ غرض وہ رسولوں کو ایک افسانوی شخصیت کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اور جس طرح ان کے عقائد تھے وہ رسولوں کو بھی ایسا ہی دیکھنا چاہتے تھے۔

لیکن اللہ کی مرضی یہ تھی کہ انسانوں کے لیے اس کی یہ آخری رسولت نہایت عملی اور واقعیت پسندانہ ہو۔ اس میں لوگوں کے لیے پاکیزہ ' طیب اور اعلیٰ درجے کی زندگی کا انتظام ہو۔ اور یہ آخری رسالت زمین کے اوپر ایک حقیقت ہو۔ اوہام تخیلات اور محض ہوائی مثالوں پر مبنی نہ ہو۔ حقائق پر مبنی ہو ' محض اوہام واساطیرنہ ہو۔

وقال۔۔۔ کذاب (38: 4) ” منکرین کہنے لگے یہ تو ساحر ہے ' سخت جھوٹا ہے “۔ اور کافروں نے یہ بات محض اس لیے کہی کہ وہ اپنے جیسے ایک شخص کی رسالت کا تصور ہی نہ کرسکتے تھے۔ اور پھر انہوں نے یہ بات اس لیے بھی کہی کہ لوگ حضرت محمد ﷺ سے متنفر ہوجائیں اور ہو سچائی جو حضرت محمد ﷺ لے کر آئے تھے جو واضح تھی اور پھر حضرت محمد ﷺ چونکہ صدق وصفا میں مشہور تھے ، وہ اس کو لوگوں کی نظروں میں مشتبہ بنانے کے لیے ایسا کرتے تھے۔

اصل حقیقت یہ ہے اور اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ مشرکین مکہ نے کسی بھی مرحلے میں خود اپنی اس بات کو کبھی بھی سچا نہیں سمجھا کہ حضرت محمد ﷺ جادوگر ہیں یا بہت بڑے جھوٹے ہیں کیونکہ وہ حضرت محمد ﷺ کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے خلاف پروپیگنڈے اور گمراہ کن نشرواشاعت کی جو مہم چلا رہے تھے۔ یہ اس کے ہتھیاروں میں سے ایک اوچھا ہتھیار تھا۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو اپنے مقام و مرتبہ کو اور اپنے غلط عقائد کو بچانا چاہتے تھے ۔ کیونکہ تحریک اسلامی کی صورت میں ان کو خطرہ درپیش تھا ' اس کی وجہ سے ان کی کھوٹی اور جھوٹی اقدار کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا اور ان کی بناوٹی طریقوں کے وجود تک کو خطرہ لاحق تھا اور کبرائے قریش اسے اچھی طرح سمجھتے تھے۔

ہم نے یہ بات اس سے پہلے بھی نقل کی ہے اور یہاں بھی نقل کررہے ہیں کہ کبرائے قریش نے پروپیگنڈے کی یہ جھوٹی مہم نہایت ہی سنجیدگی اور سوچ سمجھ کر شروع کی تھی ۔ اس طرح وہ اپنے وجود اپنے طور طریقوں اور اپنے نظریات کو بچانا چاہتے تھے ۔ نیز اسطرح موسم حج میں عرب قبائل میں تحریک اسلامی کے اثرات کے پھیلنے کا جو خطرہ کا جو درپیش تھا اسکا وہ سدباب چاہتے تھے

محمد ابن اسحاق نے نقل کیا ہے کہ ولید ابن مغیرہ کے پاس کے کچھ معمر لوگ جمع ہوئے ' موسم حج آنے والا تھا۔ ولید نے ان سے کہا کہ اکابرین قریش آپ کو معلوم ہے کہ موسم حج آرہا ہے اور عرب کے وفود آنے شروع ہوں گے۔ نیز انہوں نے اس شخص کے بارے میں بھی سن رکھا ہوگا ۔ لہذا اس موضوع پر اپنی بات کو ایک کرلو۔ یوں نہ ہو کہ ہر شخص ایک علیحدہ بات کرے اور تم سب ایک دوسرے کی تکذیب کرتے پھرو۔ تو انہوں نے کہا عبدشمس تم ہی کچھ کہو اور ہمیں ایک مضبوط موقف دے دو تاکہ ہم سب ایک ہی بات کریں تو ولید نے کہا تم کہو میں سن کر قیاس کروں گا۔ کسی نے کہا اسے کاہن کہو ، ولید نے کہا یہ تو بات نہیں ہے۔ خدا کی قسم یہ کاہن نہیں ہے۔ ہم نے کاہنوں کو خوب دیکھا ہوا ہے۔ نہ قرآن کاہنوں کا زمزمہ ہے اور نہ ان کا مسجع کلام ہے تو کسی نے کہا اسے پاگل کہو۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ مجنون بھی نہیں ہے۔ لوگ مجنونوں اور پاگلوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ نہ وہ مجنونوں کی طرح گلوگیر ہے۔ نہ ذہنی خلجان میں مبتلا ہے اور نہ اسے کوئی وسوسہ ہے۔ تو پھر اسے شاعر کہنا چاہئے۔ تو اس نے کہا کہ اس کا کلام شعر بھی نہیں ہے۔ ہم اشعار کو جانتے ہیں۔ نہ رجز ہے نہ ہزج ہے ' نہ قریض ہے ' نہ مقبوض ہے ' نہ مبسوط ہے۔ لہذا یہ کلام شعر نہیں ہے تو انہوں نے کہا پھر اسے جادوگر ہی کہا جاسکتا ہے۔ تو ولید نے کہا وہ تو جادوگر بھی نہیں ہے ۔ ہم نے جادوگر بھی دیکھے ہوئے ہیں۔ ان کے جادو کے کرشمے بھی دیکھے ہوئے ہیں۔ نہ یہ ان کی پھونک ہے اور نہ ان کی بندش ہے تو ان اکابرین نے کہا عبدشمس پھر تم ہی بتاؤ کہ کیا کہیں اسے ۔ تو اس نے کہا خدا کی قسم اس کی بات میں مٹھاس ہے۔ اس کی جڑیں بہت ہی گہری ہیں۔ اور اس کی شاخوں پر پھل ہیں اور تم ان باتوں میں سے جس کا بھی پروپیگنڈہ کرو معلوم ہوگا کہ تمہاری بات غلط ہے۔ ہاں ممکن حد تک کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ تم اسے ساحر کہو کہ وہ جو کلام لایا ہے وہ جادو کی طرح ایک شخص اور اس کے بھائی ' ایک شخص اور اس کی بیوی ایک شخص اور اس کے خاندان کے درمیان تفریق کرتا ہے۔ لہذا سب یہی ایک بات کرو ' چناچہ موسم حج میں یہ لوگ راستوں پر بیٹھ گئے ۔ اور جو بھی گزرتا اسے وہ کہتے تھے کہ لوگو ڈرو اس شہر میں ایک جادوگر پیدا ہوگیا ہے۔ اور یہ ازخود حضرت محمد ﷺ کے بارے میں تفصیلات بتاتے۔ یہ تھی حقیقت اس بات کی جو وہ کہتے تھے۔

سحر کذاب (38: 4) جبکہ وہ خود جانتے تھے کہ حضرت محمد ﷺ سچ کہتے تھے ' نہ ساحر تھے اور نہ کذاب تھے۔

نیز وہ اس بات پر بھی تعجب کرتے تھے کہ وہ تمام الہوں کی جگہ ایک ذات کو الہہ ماننے کی دعوت دے رہا ہے۔ حالانکہ سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ اس کائنات کا الہہ ایک ہی ہے۔

اردو ترجمہ

کیا اِس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AjaAAala alalihata ilahan wahidan inna hatha lashayon AAujabun

اجعل الاٰلھۃ۔۔۔۔ الااختلاق (38: 7) کیا اس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر۔ یہ بات تو کسی اور ہی غرض کے لیے کہی جارہی ہے۔ یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی۔ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات “۔

قرآن کریم اسلامی نظریہ حیات سے ان کی دہشت اور بوکھلاہٹ کی خوب تصویر کشی کرتا ہے۔

اجعل الاٰلھۃ الٰھاواحدا (38: 5) ” کیا اس نے تمام الہوں کو ایک الہہ بنا دیا “۔ گویا اسلام کا فطری عقیدہ ایک انہونی اور ناقابل تصور بات ہے۔

ان ھٰذآلشیء عجاب (38: 5) ” یہ تو ایک عجیب نظریہ ہے “۔ لفظ ” عجاب “ یہ بتایا ہے کہ ان کی دہشت زدگی اور بوکھلاہٹ بہت ہی عظیم تھی۔

جمہور کے ذہنوں سے اسلامی عقائد کے اثرات منانے کے لیے وہ جس قسم کی جدوجہد کررہے تھے۔ قرآن کریم اس کی

بھی زبردست تصویر کشی کررہا ہے۔ وہ بےحد جدوجہد کررہے تھے کہ لوگ اپنے موروثی عقائد پر جمے رہیں۔ اگرچہ وہ عقائد و نظریات باطل اور سوچ ہوں۔ وہ عوام کو یہ باور کراتے تھے کہ دراصل اس تحریک کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ ہے۔ اور یہ کہ وہ سردار ہیں اور خفیہ سازشوں سے باخبر ہیں۔ اور یہ گہری سازش کی جارہی ہے۔

اردو ترجمہ

اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ "چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر یہ بات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جا رہی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waintalaqa almalao minhum ani imshoo waisbiroo AAala alihatikum inna hatha lashayon yuradu

وانطلق۔۔۔۔ یراد (38: 6) ” اور سرداران قریش یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ چلو اور اپنے معبودوں کی عبادت پر ڈٹے رہو ۔ یہ بات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جارہی ہے “۔ یہ کوئی دین اور نظریہ کی بات نہیں ہے۔ یہ کوئی اور ہی گہری سازش ہے اور جمہور عوام کا یہ فرض ہے کہ یہ معاملہ اکابرپر چھوڑدیں۔ جو خفیہ باتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے موروثی طرز عمل پر جمے رہیں اور اپنے آباؤ اجداد کے عقائد کو سختی سے پکڑے رکھیں۔ اور اس جدید تحریک کے پیچھے جو سازش ہے اس میں نہ پڑیں۔ یہ لیڈروں کا کام ہے کہ وہ ان سازشوں کا دفاع کریں۔ عوام کو مطمئن رہنا چاہئے۔ قیادت اپنے مفادات ' عوام کے مفادات اور اپنے الہوں کے مفادات کو اچھی طرح جانتی ہے۔

یہ ہے ایک عام اور ہر سوسائٹی میں دہرائے جانے والا طریقہ کار جس کے مطابق لوگ عوام الناس کو ملک و ملت کے مسائل سے ہٹانے کے لئے جسے ہر سوسائٹی کے سرکش ' باغی اور ڈکٹیٹر اور طاغوتی قوتیں استعمال کرتی ہیں۔ اس لیے کہ اگر عوام الناس قومی مسائل پر سوچنا شروع کردیں تو یہ طاغوتی قوتوں کے لئے ایک خطرناک علامت ہوتی ہے۔ طاغوت کے اقتدار کے لیے یہ خطرہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اس طرح ان اندھیروں کے چھٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے جن میں عوام الناس غرق ہوتے ہیں۔ کیونکہ طاغوت کا اقتدار قائم ہی تب ہوتا ہے جب جمہورجہالت میں غرق ہوں۔

اس کے بعد وہ اہل کتاب کے ظاہری عقیدے سے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں یعنی اہل کتاب کے حوالے سے جبکہ اہل کتاب کے عقائد میں بھی افسانے داخل ہوگئے تھے اور انہوں نے توحید کے خالص عقیدے میں تحریف کرکے اسے شرکیہ عقائد بنا دیا تھا ۔ چناچہ وہ کہتے ہیں :

اس کائنات میں قدراشیاء ہیں ' ان میں ہر شے متحرک ہے۔ یہ پوری کائنات چھوٹے چھوٹے ذرلت سے مرکب ہے۔ خواہ زندہ کائنات ہو یا مردہ ۔ یہ تمام ذارت الیکٹرون سے مرکب ہیں اور یہ الیکڑان ایک گٹھلی کے اردگرد حرکت کرتے ہیں جو پروٹونز سے مرکب ہے۔ یہ حرکت اسی طرح ہے جس طرح کواکب سورج کے اردگرد حرکت کرتے ہیں ۔ اور جس طرح بیشمار سورجوں کا مجموعہ کہکشاں اپنے اردگرد حرکت کرتا ہے۔ یہ تمام حرکات غرب سے شرق کی طرف حرکت کرتے ہیں۔ یہ وقت کی حرکت سے متضاد حرکت ہے۔

وہ عناصر جن سے زمین اور دوسرے ستارے اور سیارے مرکب ہوتے ہیں یہ ایک ہی ہیں۔ تمام ستارے بھی انہی عناصر سے مرکب ہیں جن سے زمین مرکب ہے۔ یہ تمام ذرات سے مرکب ہیں اور ذرات الیکٹرون ' پروٹون اور نیوٹرون سے مرکب ہیں ۔ تمام ذرات بلااستثناء ان تین اجزاء سے مرکب ہیں۔

” جس طرح پورا مادہ ان تین اجزاء سے مرکب ہے ' اسی طرح قوت بھی ایک ہی اصل کی طرف لوٹتی ہے ۔ روشنی اور حرارت ' بنفشی شعاعیں ' لاسلکی شعاعین ' ماورائے بنفشی شعاعیں اور تمام دوسری شعاعیں دراصل مقناطیسی کہربائی قوت کی مختلف اقسام ہیں۔ ان کی رفتار ایک ہے ، اختلاف صرف ان کی موجودگی میں ہے “۔” مادہ تین اجزاء سے مرکب ہے اور قوت موجوں سے مرکب ہے “۔

” آئن سٹائن کا مخصوص نظریہ اضافت یہ ثابت کرتا ہے کہ مادہ اور قوت ایک ہی چیز ہے۔ تجربات نے اس دعویٰ کی

تصدیق کردی ہے۔ ایک آخری تجربہ بھی سامنے آگیا ہے۔ جس نے جہاراً یہ اعلان کردیا ہے تمام دنیا نے اسے سن لیا ہے کہ ایک جدید بم میں ایٹم نے قوت کی شکل اختیار کرلی “۔

” یوں ثابت ہوتا ہے کہ مادہ اور قوت ایک چیز ہے “۔

یہ ہے اس کائنات کی طبعی تشکیل میں وحدت اور حال ہی میں انسان اس کی حقیقت کو معلوم کرسکا ہے۔ اس کائنات کی مسلسل حرکت میں بھی ایک طرح کی یگانگت اور وحدت ہے جیسا کہ ہم نے باربار اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر اس کائنات کی تمام حرکات منظم اور مسلسل ہیں۔ اس قدر باقاعدہ کہ ان میں سے ایک سکینڈ کا خلل بھی نہیں پڑتا ۔ نہ اس میں کوئی اضطراب ہے۔ پھر پورے نظام میں اس قدر توازن ہے کہ نہ کسی جرم فلکی کی حرکت میں تعطل آتا ہے اور نہ ہی اجرام فلکی کے درمیان کوئی تصادم آتا ہے اور وہ ستارے اور سیارے جو ان کہکشانوں میں جو ہمارے قریب ہیں اور جو اس فضائے کائنات میں تیررہی ہیں ' ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مدار ، ان کی حرکت اور ان کے فاصلے متعین ہیں۔ ان کی اندر کوئی تغیروتبدل نہیں ہوتا۔ ان کی ہر چیز مقدر ہے ۔ ایک منصوبے کے مطابق ، یعنی یہ ایک ناقابل تغیرو تبدل منصوبے اور نقشے کے مطابق چل رہے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ نظام کائنات کے اندر پائی جانے والی وحدت اور عقیدۂ پر کائناتی شہادت کے مطالعہ کے لیے یہ سرسری وقفہ کافی ہے۔ عقیدۂ توحید وہ اہم حقیقت ہے کہ انسان کی اصلاح اور ترقی اس کے سوا کسی اور عقیدے پر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا عقیدۂ توحید کی وضاحت کے بغیر انسان کا تصور کائنات مکمل ہی نہیں ہوسکتا ۔ نہ اس کائنات میں انسان کی قدروقیمت متعین ہوسکتی ہے۔ اور نہ انسان اور اس کائنات کا باہم تعلق صحیح سمت لے سکتا ہے۔ نہ انسانوں کے ذہنوں میں اس کائنات کو وجود میں لانے والی ہستی کا تصور درست ہوسکتا ہے اور نہ انسان اور خدا کا تعلق درست ہوسکتا ہے ۔ لہذا انسان کے شعور کو صحیح سمت دینے کے لیے اور انسان کے طرز عمل کو درست حالت میں رکھنے کے لئے عقیدۂ توحید کی تشریح ضروری ہے۔

اب دیکھئے کہ جو شخص اللہ وحدہ پر ایمان لاتا ہے ، جو اس عقیدۂ توحید کے معنی کو سمجھتا ہے۔ اس کا تعلق اپنے رب کے ساتھ بھی درست ہوتا ہے۔ اور اس کا تعلق اللہ کے سوا پوری کائنات کے ساتھ بھی درست ہوجاتا ہے۔ اور یہ تعلقات حقیقت پسندانہ ہوتے ہیں اور ان میں افراط وتفریط نہیں ہوتی۔ یوں اس کے شعور میں انتشارنہین ہوتا۔ اور اس کی سوچ مختلف الہوں میں نہیں بٹتی ۔ اور نہ اس پر اللہ کے سوا کوئی اور مسلط ہوتا ہے۔

اور جو شخص اللہ پر ایمان لے آتا ہے اور جو اللہ کو اس کائنات کا مصدر ومنبع سمجھتا ہے وہ اس کائنات کے ساتھ ' اس کے اندر موجود اشیاء کے ساتھ باہم تعارف ، محبت اور الفت کے ساتھ معاملہ کرتا ہے اور اس کی زندگی پر امید ہوتی ہے اور اس کی زندگی کی ایک ایسی صورت گری ہوتی ہے جو اس شخص سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا ۔ اور وہ اپنے آپ کو اپنے ماحول اور اپنے معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں پاتا۔

وہ شخص جو اللہ پر ایمان لاتا ہے وہ اللہ کیجانب سے مخصوص ہدایات پاتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کو اس کا ئنات کے اندر پائے

جانے والے ناموس اور اللہ کیطرف سے نازل شدہ شریعت کے مطابق تشکیل دے۔ کائنات پر بھی اللہ کا قانون جاری وساری ہے اور انسانی زندگی پر اللہ کی مقرر کردہ شریعت جاری ہوتی ہے اور یوں انسان کی عملی زندگی اس کائنات کیساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔

غرض اس حقیقت کا ادراک اس لیے ضروری ہے کہ انسان کا شعور درست ہو۔ وہ روشن ہو ' وہ صحیح سمت رکھتا ہو۔ اور وہ اپنے گرد پھیلی ہوئی کائنات کے ساتھ ہم آہنگ متناسق اور متوازن ہو۔ اور انسان کے باہمی تعلقات ' اس کائنات کے ساتھ تعلقات اور اپنے معاشرے کے ساتھ تعلقات واضح اور متعین ہوں۔ یہ تعلقات اخلاقی ہوں یا طرز عمل سے متعلق ہوں ، اجتماعی معاملات سے متعلق ہوں ، شخصی ہوں یا انسانی ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم توحید کو اس قدر اہمیت دیتا ہے اور عقیدۂ توحید کے لیے یہ جدوجہد آدم (علیہ السلام) سے ادھر آنے والے تمام انبیاء نے کی ہے۔ اور تمام رسولوں نے عقیدۂ توحید پر سخت اصرار کیا ہے۔ کلمہ توحید کے الفاظ بھی ایک رہے ہیں اور مفہوم بھی ایک رہا ہے۔

قرآن میں تو عقیدۂ توحیدپر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ اسے باربار دہرایا گیا ہے۔ اس پر اصرار کیا گیا ہے۔ مسئلہ توحید اور اس کے تقاضوں کی باربار مختلف اسالیب سے تشریح کی گئی ہے۔ خصوصاً مکی سورتوں میں تو اس پر بہت زور دیا گیا ہے جبکہ مدنی سورتوں میں بھی عقیدۂ توحید پر مدنی موضوعات کے اعتبار سے زور دیا گیا ہے۔ جہاں حاکمیت اور قانون سازی کے حق کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ یہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے مشرکین مکہ تعجب کررہے تھے کہ حضور اکرم ﷺ تمام الہوں کو ردکرکے صرف ایک ہی الہہ کے قائل ہیں۔ چناچہ اس پر وہ حضور اکرم ﷺ سے الجھتے تھے۔ تعجب کرتے تھے ، لوگوں کو اس نظریہ سے پھیرتے تھے اور اس نظریہ حیات کے خلاف اپنے تمام وسائل انہوں نے مجتمع کرلیے تھے۔

اب ان کے تعجب کا دوسرا پہلو ، یہ کہ وہ حضرت محمد ﷺ کو دولت اور شخصی وجاہت کے زاویہ سے منصب نبوت کے قابل نہ سمجھتے تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ قائد کوئی خان اور نواب ہوتا چاہئے۔

اردو ترجمہ

یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma samiAAna bihatha fee almillati alakhirati in hatha illa ikhtilaqun

ماسمعنا۔۔۔۔ اختلاق (38: 7) ” یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی۔ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات “۔

نزول قرآن کے زمانے میں عیسائیوں کے درمیان عقیدۂ تثلیث عام ہوگیا تھا اور حضرت عزیر کی ابوہیت کا عقیدہ بھی یہودیوں کے درمیان پھیل گیا تھا۔ اکابرین قریش اس طرف اشارہ کررہے تھے اور کہتے تھے کہ ” یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں نہیں سنی۔ یہ خالص توحید تو نہ یہودیت میں ہے اور نہ عیسائیت میں۔ لہذا حضرت محمد ﷺ جو کچھ پیش کر رہے ہیں ' یہ ان کا من گھڑت دین ہے۔ اسلام نے خالص توحید کے قیام کے لئے بہت جدوجہد کی۔ اور عقیدۂ توحید سے ہر قسم کے انسانوں ' شرک خفی اور شرک جلی اور تمام دوسری بےراہ رویوں اور کج فکریوں کو دور کردیا ۔ یہ اس لیے کہ عقیدۂ توحید وہ حقیقت ہے جس پر یہ پوری کائنات قائم ہے۔ اور اس پر یہ پوری کائنات شہادت دے رہی ہے۔ نہایت ہی واضح انداز میں ۔ پھر انسان کی شخصیت کی اصلاح اس کی ذات میں ، ان کے اصول حیات میں اور زندگی کے فروعی مسائل میں اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وہ عقیدۂ توحید پر قائم نہ ہو۔ یہاں مناسب ہے کہ اس بات کی تفصیل دے دی جائے کہ قریش عقیدۂ توحید کی کس قدر شدید مزاحمت کررہے تھے ۔ اس عقیدے کی وجہ سے وہ کس قدر زیادہ دہشت زدہ ہوگئے تھے اور وہ بیشمار الہوں واحد کے عقیدے کو کس قدر عجیب اور انوکھا سمجھتے تھے۔ اور یہ بھی بیان کردیں کہ قریش سے قبل انسانی تاریخ میں تمام مشرکین نے کس طرح ہمشہ اس عقیدے کی مخالفت کی اور آدم (علیہ السلام) سے ادھر تمام انبیائے کرام نے کس طرح ہمیشہ اس عقیدے پر اصرار کیا۔ اور اس بات کے لیے ان تھک مساعی کیں کہ لوگ اس عقیدے کو تسلیم کرلیں اور یہ کہ حقیقتاً ان کے ذہنوں میں یہ عقیدہ بیٹھ جائے۔ سب سے پہلے یہ مناسب ہے کہ قارئین عقیدہ توحید کی اہمیت کو سمجھ لیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عقیدۂ توحید وہ بنیادی سچائی ہے جس کے اوپر یہ پوری کائنات قائم ہے اور یہ پوری کائنات نہایت وضاحت کے ساتھ وحدت الوہیت پر شہادت دیتی ہے۔ وہ قوانین قدرت جو اس زمین پر لاگو ہیں اپنی حقیقت اور ماہیت کے اعتبار سے بالکل ایک اکائی ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ جس ارادے کے تحت یہ قوانین وجود میں آئے ہیں ' وہ ایک ہی ارادہ ہے۔ اس کائنات پر مجموعی نظرڈالنے سے یا اس کائنات کے ایک ہی جزء کے مطالعے سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر وحدت پائی جاتی ہے۔ اور یہ وحدت بتاتی ہے کہ اس کو وجود میں لانے والا ارادہ ایک ہی ہے۔

اردو ترجمہ

کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کر دیا گیا؟" اصل بات یہ ہے کہ یہ میرے "ذکر"پر شک کر رہے ہیں، اور یہ ساری باتیں اس لیے کر رہے ہیں کہ انہوں نے میرے عذاب کا مزا چکھا نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aonzila AAalayhi alththikru min baynina bal hum fee shakkin min thikree bal lamma yathooqoo AAathabi

آیت نمبر 8 (1)

یہ کوئی قابل تعجب بات تو نہ تھی مگر اکابرین قریش حسد میں مبتلا تھے۔ اس حسد کی وجہ سے وہ غرور ' دشمنی اور کنیہ پر اتر آتے تھے۔ ابن اسحاق نے محمد ابن شہاب زہری سے نقل کیا ہے کہ ایک بار ابوسفیان ابن حرب ، ابوجہل ابن ہشام اور اجس ابن شریق ابن عمرو ابن وہب ثقفی حلیف بنی زہرہ رات کے وقت نکلے کہ قرآن سنیں۔ حضور ﷺ رات کے وقت نماز میں قرآن کریم پڑھا کرتے تھے۔ ان تینوں میں سے ہر شخص دوسرے سے بیخبر اپنی اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ رات دیر تک یہ سنتے رہے۔ جب سپیدہ صبح نمودار ہوئی تو یہ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے ۔ راستے میں وہ اتفاقاً مل گئے اور انہوں نے ایک دوسرے کو خوب ملامت کی۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا آئندہ یہ حرکت مت کرو ، اگر بعض نادانوں نے تمہیں دیکھ لیا تو ان کے دلوں میں بات بیٹھ کا ئے گی۔ یہ لوگ چلے جب دوسری رات ہوئی تو دوبارہ ہر شخص پھر آکر اپنی مقرر جگہ پر بیٹھ گیا۔ رات گئے تک سنتے رہے۔ جب فجر نمودار ہوئی تو یہ لوگ نکلے اور راستے میں پھر اکٹھے ہوگئے انہوں نے گزشتہ رات ایک دوسرے کو ملامت کی۔ اور چلے گئے۔ تیسری رات کو پھر ہر شخص آکر بیٹھ گیا۔ رات کو سنتے رہے۔ جب فجر ہوئی تو جانے لگے اور راستے میں پھر ایک دوسرے کو دیکھ لیا۔ اب انہوں نے کہا کہ جب تک ہم کوئی معاہدہ نہ کرلیں ، نہ جائیں گے۔ چناچہ انہوں نے باقاعدہ معاہدہ کیا اور پھر چلے گئے۔ صبح ہوئی تو انس ابن شریق نے اپنی عصا لی۔ یہ پہلے ابوسفیان کے پاس گیا۔ اس نے کہا ابوحظلہ تم نے محمد سے جو کچھ سنا بتاؤ۔ اس کے بارے میں کیا رائے ہے ۔ اس نے کہا میں نے بعض باتیں سنی جو میرے علم میں ہیں اور میں ان کا مطلب بھی سمجھتا ہوں اور بعض باتیں میں نے نہیں سنی اور نہ میں ان کا مطلب سمجھتا ہوں۔ تو اس نے کہا خدا کی قسم میرا بھی یہی حال ہے۔ اس کے بعد یہ شخص ابوجہل کے پاس آیا۔ اس کے گھر میں اس سے ملا۔ اس سے کہا ابوالحکم ، محمد سے تم نے جو کچھ سنا ، اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا میں نے کیا سنا ؟ ہمارا اور بنو عبدمناف کے درمیان ہمیشہ مقابلہ رہا۔ انہوں نے کھانا کھلایا ، ہم نے بھی کھلایا۔ انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں ، ہم نے بھی سواریاں دیں۔ انہوں نے عطے دیئے ہم نے بھی عطے دیئے۔ جنگ میں بھی ہم نے مقابلہ کیا یہاں تک کہ ہم مقابلے کے گھوڑوں کی طرح ساتھ ساتھ رہے۔ اب وہ کہتے ہیں ہم میں نبی پیدا ہوگیا ہے۔ اس پر آسمانوں سے وحی آتی ہے ہم ان کے مقابلے میں نبی کہاں سے لائیں ؟ کبھی بھی ہم اس پر ایمان نہ لائیں گے ، خدا کی قسم اور کبھی بھی اس کی تصدیق نہ کریں گے۔ انس اٹھ کھڑا ہوا اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا۔

دیکھئے یہ کھلا کینہ ہے جس کی وجہ سے ابوجہل حق کا اعتراف نہیں کررہا ہے۔ حالانکہ جب مسلسل تین راتوں کو وہ کلام الہٰی سب رہا تھا تو وہ جانتا تھا کہ یہ برحق ہے۔ یہ حسد اور کینہ تھا جو اس کے ایمان کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا یہی ہے راز اس بات میں ہے۔

ء انزل علیہ الذکر من بیننا (38: 8) ” کیا ہمارے درمیان میں اس شخص پر کلام الہٰی نازل ہوا ، اور کوئی نہ تھا “۔ یہی لوگ تھے جو یہ کہتے تھے۔ لولآ۔۔۔ عظیم (43: 31) ” وہ قرآن ان دو بستیوں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ ہوا “۔ ان دو بستیوں سے ان کی مراد مکہ اور طائف تھی۔ جہاں قریش کے اکابر حکمران تھے۔ جہاں ان لوگوں کی مذہبی سیادت و قیادت قائم تھی۔ نیز انہوں نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ ایک نیا نبی آنے ہی والا ہے اور جب اللہ نے یہ منصب حضرت محمد ﷺ کو عطا کردیا تو یہ لوگ جل بھن گئے۔ اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ اللہ کی اس عظیم رحمت اور اس اونچے منصب کے مستحق وہ نہیں ہیں۔ کیا سارے جہاں سے محمد ﷺ ہی اس کے مستحق ٹھہرے ؟ اللہ تعالیٰ بھی ان کو اسی انداز میں جواب دیتا ہے حقارت کے ساتھ ، جس کے اندر تہدید اور ڈراوے کے اشارات موجود ہیں۔ آیت نمبر 8 (2)

ان کا سوال یہ تھا کہ ” کیا ہمارے درمیان سے نزول قرآن کے لیے صرف اس شخص کا انتخاب کیا جانا تھا ؟ “ جبکہ وہ خود قرآن کی سچائی ہی کے بارے میں مشکوک ہیں۔ ان کے دلوں کے اندر یہ یقین ہی نہیں ہے کہ یہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے۔ وہ تو حقیقت وحی کے بارے میں سخت خلجان میں تھے لیکن اس کے باوجود یہ بھی وہ تسلیم کرتے تھے کہ یہ قرآن ایک عام کلام کے مقابلے میں ایک بلند پایہ کلام ہے۔ اب قرآن کریم کے بارے میں ان کی بات سے روئے سخن پھرجاتا ہے۔ اور ان کے خلجان کو بھی ایک طرف چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور ان کو سخت عذاب کی دھمکی دی جاتی ہے۔

بل لما یذوقوا عذاب (38:8) ” یہ ساری باتین اس لیے کر رہے ہیں کہ انہوں نے میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔ یعنی اللہ نے اپنی مہربانی سے نجات دی ہوئی ہے لیکن جب ان کو عذاب نے آلیا تو پھر وہ ایسی باتیں نہ کریں گے۔ اس وقت ان کو حقیقت حال کا اچھی طرح علم ہوجائے گا۔

اب آخری تبصرہ یہ آتا ہے کہ یہ لوگ حضرت محمد ﷺ پر ہونے والے فضل وکرم کو ان کے استحقاق سے زیادہ سمجھتے ہیں تو سوال یہ کیا جاتا ہے کہ کیا رحمت ربی کی تقسیم کے انچارج یہ ہیں اور ان کا اختیار ہے کہ کسی پر رحمت کریں کس پر نہ کریں۔

اردو ترجمہ

کیا تیرے داتا اور غالب پروردگار کی رحمت کے خزانے اِن کے قبضے میں ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Am AAindahum khazainu rahmati rabbika alAAazeezi alwahhabi

آیت نمبر 9

یہ ان کو سخت تنبیہہ ہے کہ ان کی یہ باتیں بارگاہ عزت میں صریح گستاخی ہیں ۔ یہ ان معاملات میں ٹانگ اڑا رہے ہیں جن میں مداخلت کرنے کا ان کو کوئی حق نہیں ہے۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ کسی پر فضل کرتا ہے یا کسی سے اپنے فضل کو روکتا ہے۔ وہ غالب ہے ، قدرتوں والا ہے ' کوئی شخص اس کے ارادے کے سامنے بطور رکاوٹ کھڑا نہیں رہ سکتا ۔ وہ داتا ہے ، سخی ہے اور اس کی راد وہش کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ لوگ اس بات پر چیں بجبیں ہیں کہ حضرت محمد ﷺ رسول بنادیئے گئے ہیں۔ کیا اللہ کی کرم نوازیوں کی تقسیم ان کے ہاتھ میں ہے ؟ کیا اللہ کے خزانے ان کے چارج میں ہیں ؟

اردو ترجمہ

کیا یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کے مالک ہیں؟ اچھا تو یہ عالم اسباب کی بلندیوں پر چڑھ کر دیکھیں!

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Am lahum mulku alssamawati waalardi wama baynahuma falyartaqoo fee alasbabi

آیت نمبر 10 (1)

اس کا وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے کیونکہ یہ دعویٰ وہ نہیں کرسکتے ۔ اس لئے کہ خود ان کا یہ عقیدہ تھا کہ زمین اور آسمانوں کا مالک اللہ ہے اور وہ دیتا ہے اور وہی روکتا ہے۔ وہ کرم نوازیاں کرتا ہے اور وہی مناسب عطا کرتا ہے۔ اور چونکہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان کا اقتدار انہیں حاصل نہیں ہے۔ اس لیے اللہ مقتدر اعلیٰ کے معالات میں ان کو دخل بھی نہ دینا چاہئے وہ تو بلاقید متصرف ہے۔ اب بطور مزاح اور لاجواب کرنے کی خاطر انہیں کہا جاتا ہے کہ ان کا جواب اثبات میں ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین

اور ان کے درمیان کی چیزوں کے مقتدر اعلیٰ ہیں تو وہ اپنی قوت مقتدر کو کام میں لائیں۔ آ

یت نمبر 10 (2)

تاکہ زمین اور آسمانوں اور ان کے درمیان جو مدارج ہیں ان پر ان کا کنٹرول ظاہر ہو۔ اور وہ اللہ کے کام خود سرانجام دیں ۔ اللہ کے خزانوں کی تقسیم کریں۔ جسے چاہیں ' دیں اور جس سے چاہیں روک لیں۔ جب ان کے رویے کا تقاضا ہے کہ وہ منصب بنوت کی تقسیم پر اعتراضات کرتے ہیں۔ یہ تو تھا مزاح اب کیا ہے اور کس انجام سے دوچار ہونے والے ہیں یہ لوگ ؟

اردو ترجمہ

یہ تو جتھوں میں سے ایک چھوٹا سا جتھا ہے جو اِسی جگہ شکست کھانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Jundun ma hunalika mahzoomun mina alahzabi

آیت نمبر 11

ان کا انجام اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ دور جاکر پھینک دیئے جائیں اور ان کے اس لشکر کو شکست ہوجائے۔ وہ مقام جس کا اپنے لئے یہ دعویٰ کرتے ہیں اس سے بہت دور کسی جگہ ان کا لشکر شکست کھانے والا ہے۔ یہ لشکر اللہ کی مملکت میں دخیل نہیں ہے۔ یہ اللہ کے ارادوں کو نہیں بدل سکتا۔ اور اللہ کی مشیت کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ایک مجہول النسب لشکر ہے ، مجہول الشان ہے اور شکست خوردہ ہے۔ گویا شکست اس کی لازمی صفت ہے۔ اس کی شخصیت کا حصہ ہے اور یہ لشکر مختلف احزاب سے بنا ہوا ہے۔ جن کے رجحانات مختلف ہیں اور جن کی خواہشات مختلف ہیں۔

اللہ اور رسول اللہ کے دشمن صرف اسی قدر ترقی کرسکتے ہیں جس کی تصویر کشی قرآن کریم کمزوری ، عجز اور ضعف کے رنگوں کے ساتھ کرتا ہے۔ اور یہ تاثر دیتا ہے کہ لوگ اللہ کے تصرف اور تدبیر کے دائرے سے بہت ہی دور ہیں۔ اگرچہ دنیا کی نظروں میں وہ جبار وقہار ہوں اور ان کی پکڑ سخت ہو اور کچھ عرصہ کے لیے دنیا میں ان کی بات چلتی ہو۔ پوری تاریخ انسانی میں ایسے جباروں کے بارے قرآن مجید یہ تصویر کشی کرتا ہے۔

جندما ھنالک مھزوم من الاحزاب (38: 11) ” یہ تو جتھوں میں سے ایک چھوٹا سا جتھا ہے جو اسی جگہ شکست کھانے والا ہے

اردو ترجمہ

اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم، اور عاد، اور میخوں والا فرعون

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kaththabat qablahum qawmu noohin waAAadun wafirAAawnu thoo alawtadi

آیت نمبر 12 تا 14

یہ مثالیں تو ان لوگوں کی ہیں جو قریش سے قبل تاریخ میں گزرے ہیں ۔ قوم نوح ، قوم عاد ، فرعون جو بڑے بڑے اہراموں والا تھا۔ یہ اہرام زمین پر ایسے ہیں جیسی میخیں ، قوم ثمود ، قوم لوط ، قوم شعیب جنہیں اصحاب الایکہ بھی کہا جاتا ہے یعنی گھنے جنگلوں والے ، یہ ہیں وہ جتھے جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی ۔ تو انجام کیا ہوا ان کا ۔ حالانکہ وہ بڑے جبار اور پکڑوالے تھے۔ یہ ہوا فحق عقاب (38: 14) ” میرے عذاب کا فیصلہ ان پر چسپاں ہوا “۔ جو ہونا تھا وہ ہوا۔ وہ اس طرح نیست ونابود کردیئے گئے

کہ ان کا کوئی نشان باقی نہیں رہا ہے۔

یہ تھی پوزیشن ان لوگوں کی جو زمانہ ماضی میں گزرے۔ رہے یہ لوگ تو ان کے لیے ایک عذاب آنے والا ہے۔ یہ دن یوم الحساب سے قبل آئے گا اور ایک چیخ ہوگی اور پوری دنیا میں کچھ نہ رہے گا۔

اردو ترجمہ

اور ثمود، اور قوم لوط، اور اَیکہ والے جھٹلا چکے ہیں جتھے وہ تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wathamoodu waqawmu lootin waashabu alaykati olaika alahzabu

اردو ترجمہ

ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا اور میری عقوبت کا فیصلہ اس پر چسپاں ہو کر رہا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In kullun illa kaththaba alrrusula fahaqqa AAiqabi

اردو ترجمہ

یہ لوگ بھی بس ایک دھماکے کے منتظر ہیں جس کے بعد کوئی دوسرا دھماکا نہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama yanthuru haolai illa sayhatan wahidatan ma laha min fawaqin

آیت نمبر 15

یعنی جب یہ وقت آئے گا تو اس میں اس قدر تاخیر بھی نہ ہوگی جس قدر اونٹنی کا دودھ دوہنے کے دو اوقات میں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ دودھ دینے والے جانور کا دودھ وقت مقررہ پر نکالا جاتا ہے جس میں تقدیم و تاخیر نہیں کی جاتی۔ یہ امت آخری امت ہے اور اللہ نے اسے قیامت تک کا وقت اور مہلت دے دی ہے۔ کیونکہ اس امت کو اللہ امم سابقہ کی طرح نیست ونابود نہیں کرتا

یہ اللہ کی بہت بڑی رحمت ہے کہ اس امت کو اللہ نے طویل مہلت دے دی ہے لیکن افسوس کہ اہل قریش نے اس کو غنیمت نہ جانا اور اس پر خدا کا شکرادا نہ کیا ۔ الٹا اپنے مقرر انجام کے جلدی آنے کا مطالبہ کرتے رہے ، دعا کرتے رہے کہ اے اللہ ' تم میں سے جس کا انجام برا ہے جلدی وہ اس تک پہنچ جائے ۔ اور یوم الحساب سے بھی پہلے اسی دنیا میں یہ عذاب آجائے۔

اردو ترجمہ

اور یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب، یوم الحساب سے پہلے ہی ہمارا حصہ ہمیں جلدی سے دے دے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo rabbana AAajjil lana qittana qabla yawmi alhisabi

آیت نمبر 16

بس یہاں آکر قرآن مجید ان کے بارے میں بات ختم کردیتا ہے اور روئے سخن نبی ﷺ کی طرف پھرجاتا ہے ۔ آپ کو تسلی دی جاتی ہے کہ ان کی حماقتوں کی پروانہ کریں۔ یہ عذاب کا مطالبہ کرکے اللہ کے جناب میں سوء ادب کا ارتکاب کررہے ہیں۔ دراصل یہ قیامت کے قیام پر یقین ہی نہیں رکھتے ۔ اللہ کی رحمت پر ناشکری کرتے ہیں۔ آپ کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ آپ انبیائے سابقہ کے حالات پڑھیں کہ ان پر کیا کیا آزمائشیں آئیں۔ اور اسکے بعد اللہ کی رحمتیں ان پر نازل ہوئیں۔

453