سورہ یٰسین: آیت 1 - يس... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ یٰسین

يسٓ

اردو ترجمہ

یٰس

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yaseen

آیت 1 کی تفسیر

درس نمبر 205 تشریح آیات

1 ۔۔ تا۔۔۔ 29

یس والقرآن الحکیم۔۔۔۔۔۔ وکل شیء احصینہ فی امام مبین (1 – 12)

اللہ تعالیٰ دو حرفوں ” یا “ اور ” سین “ کی قسم اٹھا تا ہے اور اسی طرح قرآن کریم کی بھی قسم اٹھاتا ہے ۔ اللہ نے یہاں قسم میں ان حروف اور قرآن کریم کو یکجا فرمایاِ ، اس سے حروف مقطعات کی اس تفیرٹ کو ترجیح حاصل ہوجاتی ہے جو ہم نے ان حروف کے حوالے سے اختیار کی ہے ۔ ان حروف کے تذ کرے اور قرآن کے تذکرے کے درمیان یہ ربط ہے کہ یہ قرآن انہی حروف سے بنا ہے ۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قرآن اللہ کی جا نب سے ہے اور جس پر یہ لوگ تدبر نہیں کرتے ، اس کے ذریعہ قرآن کریم ان لوگوں کو متوجہ کرتا ہے کہ تم اس نکتے پر غور کرو ، کہ یہ قرآن انہی حروف سے بنایا گیا ہے جو تمہاری دسترس میں ہیں۔ لیکن قرآن کا انداز تعبیر ، اس کا انداز بیان اور اس کی منطقی فکر ایسی ہے کہ تم اس جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز آگئے ہو۔

قسم کھائے ہوئے قرآن کی جو صفت یہاں لائی جاتی ہے۔ وہ صفت حکمت ہے۔ حکمت ایک ذی عقل کی صفت ہوتی ہے جو زندہ اور عقلمند ہو۔ قرآن کریم کی یہ صفت بتا کر یہ تاثر دینا مطلوب ہے کہ یہ زندہ اور قصد و ارادے کی مالک کتاب ہے۔ اسی وجہ سے یہ حکیم ہے۔ اگرچہ قرآن کریم کے لئے یہ صفت بطور مجاز استعمال کی گئی ہے لیکن یہ ایک عظیم حقیقت کی مظہر ہے۔ ایک اہم حقیقت کو اذہان کے قریب لایا جا رہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس کتاب کی ایک روح اور ایک زندگی ہے۔ اور جب قاری کا دل صاف ہوجائے اور وہ محبت کے ساتھ اس سے ہم کلام ہوجائے تو یہ کتاب نہایت الفت اور محبت کے ساتھ اس شخص کے ساتھ ہمکلام ہوتی ہے اور وہ ایسے شخص پر پھر اپنے اسرار و رموز کھولتی ہے بشرطیکہ قاری خود اس کے لئے اپنا دل کھول دے اور اپنے دل و جان کے ساتھ اس کا ہوجائے۔ پھر اس کے قاری کو اس کے وہ خدوخال نظر آئیں گے جس طرح کسی دوست کے چہرے میں انسان کو نظر آتے ہیں۔ اور وہ اس کتاب کی طرف اسی شوق کے ساتھ مائل ہوگا جس طرح کوئی اپنے دوست کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اور پھر قرآن میں اسے وہی سکون ملتا ہے جس طرح ایک دوست کی محفل میں ملتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ دوسروں سے قرآن کو سننا پسند فرماتے تھے۔ آپ ایسے دروازوں پر کھڑے ہوجاتے اور سنتے جن میں قرآن حکیم کی تلاوت ہو رہی ہوتی تھی ۔ جس طرح کوئی عاشق اپنے محبوب کی باتیں غور سے سنتا ہے۔

اور قرآن تو حکیم ہے۔ وہ ہر اس شخص سے ہمکلام ہوتا ہے جو اس کا گرویدہ ہوجائے ۔ وہ ایک مومن کے دل کی حساس تاروں کو چھیڑتا ہے۔ اس کے ساتھ اسی مقدار میں ہمکلام ہوتا ہے جس قدر اس کو ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ مکالمہ نہایت حکمت سے ہوتا ہے ۔ اس انداز میں کہ مخاطب کی اصلاح ہوتی ہے اور اس کو ایک سمت ملتی ہے۔

قرآن حکیم ہے ، بڑی حکمت کے ساتھ تربیت کرتا ہے۔ نہایت ہی معقول انداز میں۔ درست نفسیاتی سمت میں۔ ایسے انداز

میں کہ جس میں تمام انسانی صلاحیتوں کو تعمیری انداز میں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے اور انسانی صلاحیتوں کو صحت مند ترقی کے لیے ایک سمت دی جاتی ہے ۔ یہ انسانوں کو زندگی گزارنے کا نہایت ہی حکیمانہ نظام دیتا ہے جس کے کھلے اور وسیع حدود کے اندر انسان زندگی کی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یا اور سین اور پھر قرآن مجید کی قسم کھا کر یقین دہانی فرماتا ہے کہ اے رسول آپ رسولوں میں سے ہیں اور آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ آپ رسول کریم ہیں اور یہ قرآن حکیم ہے۔

ٓیت 1 { یٰسٓ۔ ”یٰـسٓ !“ زیادہ تر مفسرین کی رائے میں ”یٰـسٓ“ حضور ﷺ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اسی طرح ”طٰہٰ“ کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ یہ حضور ﷺ کا نام ہے۔ واللہ اعلم !

آیت 1 - سورہ یٰسین: (يس...) - اردو