سورہ یٰسین: آیت 2 - والقرآن الحكيم... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورہ یٰسین

وَٱلْقُرْءَانِ ٱلْحَكِيمِ

اردو ترجمہ

قسم ہے قرآن حکیم کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalqurani alhakeemi

آیت 2 کی تفسیر

ٓیت 1 { وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ } ”قسم ہے قرآن حکیم کی !“ عربی زبان میں ”قسم“ سے گواہی مراد لی جاتی ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ یہ حکمت بھرا قرآن گواہ ہے۔ اس قسم کا مقسم علیہ کیا ہے ؟ یعنی یہ قسم کس چیز پر کھائی جا رہی ہے ؟ اور یہ قرآن کس عظیم حقیقت پر گواہ ہے ؟ اس کا ذکر اگلی آیت میں ہے :

صراط مستقیم کی وضاحت۔ حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں ہوتے ہیں جیسے یہاں یاسین ہے ان کا پورا بیان ہم سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کرچکے ہیں لہذا اب یہاں اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یٰسین سے مراد اے انسان ہے۔ بعض کہتے ہیں حبشی زبان میں اے انسان کے معنی میں یہ لفظ ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ اللہ کا نام ہے، پھر فرماتا ہے قسم ہے محکم اور مضبوط قرآن کی جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا، کہ بالیقین اے محمد ﷺ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں، سچے اچھے مضبوط اور عمدہ سیدھے اور صاف دین پر آپ ہیں، یہ راہ اللہ رحمٰن و رحیم صراط مستقیم کی ہے، اسی کا اترا ہوا یہ دین ہے جو عزت والا اور مومنوں پر خاص مہربانی کرنے والا ہے۔ جیسے فرمان ہے (وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ 52؀ۙ) 42۔ الشوری :52) ، تو یقیناً راہ راست کی رہبری کرتا ہے جو اس اللہ کی سیدھی راہ ہے جو آسمان و زمین کا مالک ہے اور جس کی طرف تمام امور کا انجام ہے، تاکہ تو عربوں کو ڈرا دے جن کے بزرگ بھی آگاہی سے محروم تھے جو محض غافل ہیں۔ ان کا تنہا ذکر کرنا اس لئے نہیں کہ دوسرے اس تنبیہہ سے الگ ہیں۔ جیسے کہ بعض افراد کے ذکر سے عام کی نفی نہیں ہوتی۔ حضور ﷺ کی بعثت عام تھی ساری دنیا کی طرف تھی اس کے دلائل وضاحت و تفصیل سے آیت (قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا01508) 7۔ الاعراف :158) کی تفسیر میں بیان ہوچکے ہیں، اکثر لوگوں پر اللہ کے عذابوں کا قول ثابت ہوچکا ہے۔ انہیں تو ایمان نصیب نہیں ہونے کا وہ تو تجھے جھٹلاتے ہی رہیں گے۔

آیت 2 - سورہ یٰسین: (والقرآن الحكيم...) - اردو