سورہ یٰسین: آیت 3 - إنك لمن المرسلين... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورہ یٰسین

إِنَّكَ لَمِنَ ٱلْمُرْسَلِينَ

اردو ترجمہ

کہ تم یقیناً رسولوں میں سے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innaka lamina almursaleena

آیت 3 کی تفسیر

انک لمن المرسلین۔۔۔۔ علی صراط مستقیم (36: 3 – 4) ” تم یقیناً رسولوں میں سے ہو ، سیدھے راستے پر ہو “۔ اللہ تعالیٰ کو قسم اٹھانے کی ضرورت کیا ہے ؟ لیکن قرآن اور حروف قرآن کی یہ قسم ، ان چیزوں کو جلالت شان عطا کرتی ہے جن کی قسم اٹھائی گئی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ کسی عظیم الشان اور اہم چیز کی قسم اٹھاتا ہے یہاں تک کہ اس چیز کی اہمیت ایک شاہد اور ثابت کنندہ کی ہوجاتی ہے۔

انک لمن المرسلین (36: 3) ” تم یقیناً رسولوں میں سے ہو “۔ جس انداز سے یہ آیت آئی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ہاں رسولوں کا بھیجنا اور انتخاب پہلے سے طے شدہ ہے۔ یہاں حضور اکرم ﷺ کو خلیفہ بیان کی صورت میں بتایا جاتا ہے کہ آپ کا نام رسولوں کی فہرست میں ہے اور یہاں مکذبین اور منکرین کو خطاب کرنے کی بجائے رسول اللہ کو خطاب فرمایا جاتا ہے۔ اس میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ رسول اور منصب رسالت ، اس قدر بلند وبالا ہیں کہ جن پر کوئی کلام اور مباحثہ اور مجادلہ نہیں ہوسکتا۔ بس اللہ کی جانب سے رسول کو اطلاع دے دینا ہی مکمل ثبوت ہوتا ہے۔

انک لمن المرسلین۔۔۔۔۔۔ علی صراط مستقیم (36: 3- 4) ” تم یقیناً رسولوں میں سے ہو ، سیدھے راستے پر ہو “۔ رسولوں کے تعین اور تقرر کے بعد بتایا جاتا ہے کہ رسالت کی نوعیت کیا ہے ؟ یہ کہ وہ ایک سیدھا راستہ ہے۔ یہ رسالت تلوار کی دھار کی طرح سیدھی ہوتی ہے ۔ اس میں کوئی ٹیڑھ پن اور کوئی انحراف نہیں ہوتا۔ نہ اس میں کوئی پیچیدگی ہوتی ہے اور نہ کوئی لچک ہوتی ہے۔ یہ ایسی سچائی پر مشتمل ہوتی ہے جو بالکل واضح ہوتی ہے۔ اور اس میں کوئی التباس نہیں ہوتا۔ نہ وہ خواہشات نفاسیہ کی تابع ہے۔ اور نہ وہ مصلحتوں کی سمت میں قبلہ بدلتی ہے۔ جو شخص بھی اس سچائی کی تلاش کرے اور مخلص ہو ، یہ اسے مل جاتی ہے۔

یہ رسالت چونکہ سیدھا راستہ بتاتی ہے اس لیے اس میں نہ کوئی اشکال ہے ، نہ پیچیدگی ہے ، اور نہ کوئی چکر ہے۔ یہ مسائل کو مشکل نہیں بناتی۔ نہ لوگوں کو مشکلات میں ڈالتی ہے ، اس کے اندر جدلیاتی مسائل پر مکالمہ نہیں ہوتا۔ اور نہ فلسفیانہ تصورات میں الجھایا جاتا ہے۔ یہ سچائی کو نہایت ہی سادہ شکل میں پیش کرتی ہے۔ اور اس قدر سادہ شکل میں جس میں کوئی شبہ اور کوئی غلط مبحث نہیں ہوتا۔ اس قدر سادہ کہ اسے مزید تشریح کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ الفاظ کو جوڑ توڑ ، اور باتوں سے بات نکالنا اس میں پیش ہوتا ہے اور نہ پیچیدہ اور ذولیدہ افکار کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اسی رسالت کے ساتھ موجودہ ہدایات اور ظاہری احکام پر عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ یہ امی اور عالم دونوں کے لیے ہدایت ہے۔ یہ دیہاتی اور شہری دونوں کے لیے ہدایت ہے۔ ہر شخص اور ہر طبقہ اس کے اندر اپنی ضرورت کی ہدایت پاتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ اس کی زندگی کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ اسکا نظام زندگی درست ہوجاتا ہے۔ زندگی کے طور طریقے درست ہوجاتے ہیں اور انسانوں کے باہم تعلقات نہایت ہی آسانی کے ساتھ سر انجام پاتے ہیں۔

پھر یہ رسالت اس کائنات کی فطرت اور اس کائنات کے اندر جاری وساری قانون الٰہی کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے۔ انسان اور انسان کے ماحول میں پائے جانے والی اشیاء کے ساتھ بھی یہ رسالت ہم آہنگ ہے۔ یہ نہ دنیا کی اشیاء کے ساتھ متصادم ہے ، نہ انسان کو یہ رسالت حکم دیتی ہے کہ وہ فطرت کے ساتھ متصادم ہو۔ یہ اپنے منہاج پر درست استوار ہے۔ اور اس کائنات کے ساتھ متوازی ہے۔ یہ معاون ہے ، یہ ایک ایسا نظام دیتی ہے جو مکمل کائنات ہے۔

یہ رسالت اللہ تک پہنچنے کا صحیح راستہ بتاتی ہے ، اور اللہ تک پہنچاتی ہے۔ اس رسالت کے متبعین کو کبھی یہ خطرہ درپیش نہیں ہوتا کہ وہ راستہ بھلا دیں۔ نہ ان کی راہ میں کوئی ٹیڑھ آتی ہے جو اس وادی میں داخل ہوتا ہے۔ وہ اس کے نشیب و فراز سے ہوتا ہوا سیدھا رضائے الٰہی اور اپنے خالق عظیم تک جا پہنچتا ہے۔ اس رسالت نے یہ قرآن دیا پ ہے ۔ جو اس سیدھی راہ کا پورا نقشہ بناتا ہے اور ایک گائیڈ ہے۔ جب انسان اس کتاب کی راہنمائی میں چلے تو وہ سچائی کی سیدھی فکر پالیتا ہے۔ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور پھر اس کی قدروں کے بارے میں یہ کتاب فیصلہ کن ہدایت دیتی ہے اور ہر چیز کو اس کی صحیح جگہ پر رکھ دیتی ہے۔

آیت 3 { اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ } ”کہ اے محمد ﷺ ! یقینا آپ رسولوں میں سے ہیں۔“ گویا حضور ﷺ کی رسالت کا سب سے بڑا ”مُصدِّق“ تصدیق کرنے والا اور سب سے بڑا ثبوت قرآن حکیم ہے۔ اور قرآن حکیم ہی آپ ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی نوٹ کرلیجیے کہ قرآن کی قسم اور بھی کئی سورتوں کے آغاز میں کھائی گئی ہے مگر وہاں قسم کے بعد مقسم علیہ کا ذکر نہیں ہے۔ مثلاً سورة صٓ کی پہلی آیت میں یوں فرمایا گیا : { صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ۔ ‘ سورة الزخرف کے شروع میں یوں فرمایا گیا : { حٰمٓ۔ وَالْـکِتٰبِ الْمُبِیْنِ۔ ‘ سورة ق کا آغاز یوں ہوتا ہے : { قٓقف وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ۔۔ اب چونکہ سورة یٰـسٓ کی ان آیات میں قرآن کی قسم کے مقسم علیہ کا ذکر بھی ہے اس لیے قرآن کی جن قسموں کا مقسم علیہ مذکور نہیں ان کا مقسم علیہ بھی وہی قرار پائے گا جس کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ چناچہ قرآن کے ان تمام مقامات پر جہاں قرآن کی قسم تو کھائی گئی ہے لیکن قسم کے بعد مقسم علیہ کا ذکر نہیں ہے ‘ وہاں ان تمام قسموں کے بعد اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ کا جملہ بطور مقسم علیہ محذوف understood مانا جائے گا۔ اس اعتبار سے سورة یٰـسٓ ایسی تمام سورتوں کے لیے ذروہ سنام climax کا درجہ رکھتی ہے جن کے آغاز میں قرآن کی قسم کا ذکر ہے۔

آیت 3 - سورہ یٰسین: (إنك لمن المرسلين...) - اردو