سورۃ المائدہ (5): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المائدہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Maaida
سُورَةُ المَائـِدَةِ
صفحہ 106 (آیات 1 سے 2 تک)

سورۃ المائدہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المائدہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کر لو، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo awfoo bialAAuqoodi ohillat lakum baheematu alanAAami illa ma yutla AAalaykum ghayra muhillee alssaydi waantum hurumun inna Allaha yahkumu ma yureedu

(آیت) ” نمبر 1۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ بندشوں کی پوری پابندی کرو) ۔ زندگی کے بسر کرنے کے لئے کچھ ضوابط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ خود انسان اور اس کے نفس کے درمیان جو تعلق ہے اسکے لئے بھی کچھ اصول اور ضوابط ہوتے ہیں۔ پھر ایک انسان اور انسان کے درمیان تعلق کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور پھر انسان اور تمام دوسری زندہ مخلوق اور غیر زندہ اشیاء کے درمیان بھی تعلق کے ضابطے ہوتے ہیں ۔ لوگوں میں سے رشتہ داروں سے تعلقات ‘ غیر رشتہ داروں اور دور کے لوگوں کے ساتھ تعلقات ‘ خاندان اور قوم کے لوگوں کے ساتھ تعلقات ‘ جماعت کے ساتھ تعلقات اور پھر پوری امت کے ساتھ ایک فرد کا تعلق ‘ دشمنوں کے ساتھ تعلق ‘ دوستوں کے ساتھ تعلق ‘ دنیا کی ان زندہ جیروں کے ساتھ تعلق جنہیں اللہ نے انسان کے قابو میں رکھا ہے اور ان کے ساتھ تعلق جو بےتعلق جو بےقابو ہیں اور اس وسیع و عریض کائنات کی تمام اشیاء کے ساتھ انسان کے تعلق کے اصول و ضوابط اسلامی نظام زندگی کے اندر پورے کے پورے موجود ہیں ۔ پھر انسان کی زندگی کا ربط اپنے رب کے ساتھ ‘ اپنے آقا کے ساتھ تو ایک ایسا تعلق ہے جو زندگی کی بنیادی قدر ہے ۔ یہ تمام امور اس نظام کے اندر مقرر اور منضبط ہیں ۔

اسلامی نظام ان تمام ضوابط اور تعلقات کو انسانی زندگی کے اندر عملا ثابت کرتا ہے ۔ وہ ان تعلقات کو قائم کرتا ہے ‘ ان کے لئے حدود قیود متعین کرتا ہے اور ان کی پوری پوری وضاحت کرتا ہے ۔ اور یہ تمام رابطے رب ذوالجلال کے عنوان سے ہوتے ہیں ۔ وہ ان تمام رابطوں کے احترام کی ضمانت دیتا ہے ۔ ان کی بےحرمتی اور ان کے ساتھ مذاق کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ ان روابط کے بارے میں اسلامی نظام یہ صورت حال برداشت نہیں کرتا کہ انہیں بدلتی ہوئی خواہشات نفسانیہ کے حوالے کر دے یا ان اغراض ومقاصد کے نابع کر دے جن کا تعلق کسی ایک فرد کی خواہش اور سوچ سے ہو ۔ یا کوئی جماعت ان اغراض اور خواہشات میں دلچسپی رکھتی ہو یا اقوام عالم میں سے کسی قوم میں یہ اغراض پائی جاتی ہوں یا تاریخ انسانی کی نسلوں میں سے کوئی نسل ان میں دلچسپی رکھتی ہو اور ان اسباب کی وجہ سے انہیں توڑ دینا چاہتی ہو۔ ان تمام روابط ہی میں انسان کی مصلحت ہے بشرطیکہ ان روابط کو اللہ اور رسول نے لوگوں کے لئے وضع کیا ہو ‘ اگرچہ کوئی فرد ‘ کوئی جماعت ‘ کوئی قوم یا کوئی نسل یہ سمجھتی ہو کہ ان میں انسانوں کی مصلحت نہیں ہے اس لئے کہ اللہ خوب جانتا ہے ۔

اور لوگوں کا علم محدود ہے ۔ جو فیصلہ اللہ کرتا ہے وہ بہتر ہے اس سے جو خود لوگ کرتے ہیں ۔ اللہ میاں کے ادب واحترام کا پہلا زینہ یہ ہے کہ انسان اپنے ذاتی اندازے کو اللہ کی تقدیر کے مقابلے میں نہ لائے اور یہ سمجھے کہ بہتر وہی ہے جو اللہ نے قرار دیا ۔ اور جو اللہ نے قرار دیا ‘ اس کے آگے سرتسلیم خم کر دے ‘ نہایت ہی رضامندی ‘ نہایت ہی وثوق اور پورے اطمینان کے ساتھ ۔

یہ تمام ضوابط جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ‘ ان کی تعبیر اللہ تعالیٰ لفظ ” العقود “ سے فرماتے ہیں اور اہل ایمان کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ان عقود کی پوری پوری پابندی کریں ۔ اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ بندشوں اور عقود کی پابندی کرو اور اس کے بعد پھر حلال و حرام کا بیان شروع کردیا ۔ کھانے پینے میں سے محرمات کو بیان کردیا ۔ نکاح میں جو محرمات ہیں ان کو بیان کردیا اور ان کے بعد دوسرے شرع احکام اور عبادات کے طریقوں کی تفصیلات بیان کیں ۔ اس کے والا صحیح عقائد ونظریات کی تشریح بھی کی گئی ۔ بندگی اور عبادت کے طریقے بھی بیان ہوئے اور اللہ کی حاکمیت کی تفصیلات بھی دی گئیں ۔

پھر امت مسلمہ اور دوسری امم کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا تذکرہ بھی ہوا اور احکام بھی ذکر ہوئے ۔ امت مسلمہ کا فریضہ ہے کہ وہ شہادت حق ادا کرے ۔ دنیا میں انصاف قائم کرے ۔ پوری انسانیت کی نگرانی کرے ‘ اس لئے کہ اس کی کتاب بھی تمام کتب پر حاوی اور نگہبان ہے ۔ اور پھر یہ حکم کہ اسلامی معاشرے میں فیصلے اللہ کے قانون کے مطابق ہوں اور یہ حکم کہ فتنے میں نہ پڑو اور ذاتی اور شخصی وجوہات کی بنا پر عدل و انصاف کا رشتہ ہاتھ سے نہ چھوڑو ۔ یہ تمام امور العقود کی تشریح کرتے ہیں ۔

غرض اس سورة کا افتتاح لفظ العقود سے اور اس کے بعد تمام احکام و عقائد و عبادات کی تشریح اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ لفظ عقود اور عقد کا مفہوم اس لغوم سے بہت ہی وسیع ہے جو اس لفظ کے سنتے ہی ذہن میں آجاتا ہے بلکہ اس سے مراد وہ تمام ضابطہ حیات ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے مقرر فرمایا ہے ۔ انسان کے لیے اللہ نے جو ضابطہ حیات مقرر فرمایا ہے اس کی اساس ایمان باللہ اور اس معرفت پر ہے کہ اللہ کی الوہیت کا مفہوم کیا ہے اور اللہ کی الوہیت ‘ حاکمیت اور معبودیت کے تقاضے کیا ہیں ؟ یہ عقد اس ایمان اور تصور حاکمیت الہیہ سے پھونٹا ہے اور زندگی کے تمام ضوابط اس ایمان اور عقیدہ اور پابندی عقود پر استوار ہوتے ہیں ۔

اللہ پر ایمان لانے کا عقد ‘ اللہ کی حاکمیت ‘ ربوبیت اور اس کے قوام اور نگران ہونے کا اعتراف اور اس عقد واعتراف کے نتیجے میں اللہ کی مکمل بندگی کرنے کے تقاضے اور ہمہ گیر اور عمیق اطاعت اور سرتسلیم خم کردینے کے وعدے وہ امور ہیں جن پر اسلام کی عمارت استوار ہے ۔ یہ عہد سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم سے اس وقت لیا تھا جب اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب خلافت فی الارض کی چابیاں سپرد فرمائی تھیں ۔ اس معاہدے اور میثاق کو قرآن کریم نے ان الفاظ اور شرائط کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔

(آیت) ” قلنا اھبطوا منھا جمیعا فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون (38) والذین کفروا وکذبوا بایتنا اولئک اصحب الناس ھم فیھا خالدون (39) (2 : 38۔ 39)

(ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر جب میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے ‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ‘ ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا ۔ اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ‘ وہ آگ میں جانے والے ہیں ‘ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ ) حضرت آدم اور آپ کے بعد مطلق انسان کو جو مقام خلافت فی الارض دیا گیا ہے وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اللہ کے رسول جو ہدایت لے کر آئیں گے ان کو قبول کیا جائے گا ۔ اگر اللہ کے رسولوں اور ان پر نازل شدہ ہدایات کو قبول نہ کیا گیا تو یہ عہد کی صریح خلاف ورزی ہوگی اور پھر انسان کو اس کرہ ارض پر زندہ رہنے کا کوئی حق نہ ہوگا نہ وہ اس زمین کا مالک ہوگا ۔ اگر اس عہد کی خلاف ورزی کی گئی تو جو کام بھی اس عہد کے خلاف ہوں گے وہ باطل (Void) اور کالعدم ہوں گے ۔ انکی کوئی قانونی حیثیت نہ ہوگی اور نہ ان افعال کو از سرنو درست کیا جاسکے گا اس لیے جو شخص بھی اللہ پر صحیح ایمان رکھتا ہو ‘ اللہ کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنا چاہتا ہو ‘ اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اس باطل کی مدافعت کرے ‘ اس کو ہر گز قبول نہ کرے اور اس باطل کی اساس پر کوئی معاملہ نہ کرے ، اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ ہر گز وفائے عہد نہ کر رہا ہوگا ۔

اللہ کے ساتھ اس عقد اور اس عہد کی ذریت آدم کے ساتھ تجدید ہوتی رہی ہے ۔ آدم (علیہ السلام) کی جو جو نسل وجود میں آتی رہی ہے اس کے ساتھ یہی از سر نو ہوتا رہا ہے ۔ ایک دوسری آیت میں ہے ۔

(آیت) ” واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظھورھم ذریتھم واشھدھم علی انفسھم الست بربکم قالوا بلی شھدنا ان تقولوا یوم القیمۃ انا کنا عن ھذا غفلین (172) او تقولوا انما اشرک ابآونا من قبل وکنا ذریۃ من بعدھم افتھلکنا بما فعل المبطلون (173) (7 : 172۔ 173)

(اور اے نبی لوگوں کو یاد دلاو وقت جب کہ تمہارے رب نے نبی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہوں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ” کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ “ انہوں نے کہا : ” ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ہم اس پر گواہی دیتے ہیں “۔ یہ ہم نے اس لئے کہا کہ کہیں قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ” ہم اس بات سے بیخبر تھے ۔ “ یا یہ کہنے لگو کہ ” شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے ۔ پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا ؟ـ)

غرض یہ ایک دوسرا صریح معاہدہ تھا جو ہر فرد کے ساتھ طے ہوا ۔ اور یہ عہد ایسا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تمام بنی آدم کے ساتھ طے پایا تھا اور یہ اس وقت ہوا جب وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے ۔ ہم یہاں یہ سوال نہیں کرسکتے کہ یہ عہد کیسے طے پایا کیونکہ یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ کیسے طے پایا ۔ لوگوں کے ساتھ اللہ نے کس طرح خطاب کیا۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے جبکہ وہ آباء کی پشتوں میں تھے ۔ بہرحال اللہ نے ان سے خطاب کی اور ان پر اتمام حجت کیا ۔ اور ان سے عہد یہ لیا گیا کہ وہ ان کا رب ہے اور انہوں نے اس کا اقرار کای جس طرح اللہ نے بیان کیا ہے ۔ اب اگر لوگ اللہ کی الوہیت کو تسلیم نہ کریں گے تو یہ ان کی جانب سے عہد کی خلاف ورزی ہوگی ۔

پھر اگے چل اس سورة میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بھی ایسا ہی عہد لیا تھا ‘ اس وقت جب پہاڑ کو ان کے اوپر ابر کی طرح لٹکا دیا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ یہ پہاڑ ان کے اوپر گرنے ہی والا ہے ۔ آگے بتایا جائے گا کہ انہوں نے کس طرح اس عہد ومیثاق کی خلاف ورزی کی اور پھر ان پر خدا کا عذاب کس طرح نازل ہوا۔

اسی طرح حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانے والے لوگوں نے بھی درحقیقت ‘ آپ پر ایمان لا کر اللہ سے معاہدہ کیا ۔ انہوں نے سمع اور اطاعت پر عہد کیا ، خوشی میں بھی اور مشکلات میں بھی اور یہ کہ اس عہد کو ہر چیز پہ مقدم رکھیں گے اور کسی کام کے اہل شخص اور مستحق شخص کے استحقاق کو چیلنج نہ کریں گے ۔

اس عام عہد اور عقد کے بعد خصوصی عہد بھی ہوتے رہے ۔ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقعہ پر جس کے نتیجے میں ہجرت کا عمل شروع ہوا اور آپ ﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف منتقل ہوئے انصار کے نمائندوہ کے ساتھ ایسا ہی عقد ہوا تھا اور حدیبیہ میں بھی ایک عقد بیعت الرضوان کے نام سے ہوا تھا۔

غرض اللہ پر ایمان لانے کے عقد ‘ اور اللہ کی بندگی کرنے کے عہد پر تمام دوسرے عقود مرتب ہوتے ہیں ‘ چاہے ان کا تعلق اللہ کے اوامر سے ہو یا نواہی سے ہو یا ان کا تعلق عام لوگوں ‘ زندہ چیزوں یا اس کائنات کی دوسری چیزوں سے ہو یا ان حدود میں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی شرعی حکم دیا ہے ۔ یہ سب عقود ہیں اور اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو بحیثیت مومن یہ حکم دے رہے ہیں کہ وہ ان عقود کو پوری طرح سرانجام دیں اس لئے کہ ایمان لاتے ہی ان پر یہ پابندی عائد ہوگئی ہے اور ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ وہ ایسا کریں اور یہی وجہ ہے کہ خطاب یوں ہوا (آیت) ” یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود) اور اس کے بعد اب مزید تفصیلات ان عقود کی اس طرح آتی ہیں ۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خد ا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کر لو، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو، نہ اُن جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں، نہ اُن لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جا رہے ہوں ہاں جب احرام کی حالت ختم ہو جائے تو شکار تم کرسکتے ہو اور دیکھو، ایک گروہ نے جو تمہارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تواس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو نہیں! جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو اللہ سے ڈرو، اس کی سز ا بہت سخت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la tuhilloo shaAAaira Allahi wala alshshahra alharama wala alhadya wala alqalaida wala ammeena albayta alharama yabtaghoona fadlan min rabbihim waridwanan waitha halaltum faistadoo wala yajrimannakum shanaanu qawmin an saddookum AAani almasjidi alharami an taAAtadoo wataAAawanoo AAala albirri waalttaqwa wala taAAawanoo AAala alithmi waalAAudwani waittaqoo Allaha inna Allaha shadeedu alAAiqabi

قابل ذبح جانوروں میں تحریم وتحلیل ‘ مختلف چیزوں میں سے حلال و حرام مختلف جگہوں میں حلال و حرام ‘ مختلف اوقات میں حلال و حرام کی یہ حدود وقیود سب کی سب عقود ہیں۔ یہ تمام عقود اور عہد و پیمان ایمان کی بنیاد پر قائم ہیں اس لئے جو لوگ ایمان لائے ہیں ‘ ان کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حلال و حرام کی بابت تمام ہدایات اللہ سے اخذا کریں اور اس معاملے میں غیر اللہ سے کچھ نہ لیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بیان کے آغاز ہی میں کہا گیا کہ عقود اور بندشوں کی پوری طرح پابندی کرو اب اس کے بعد حلال و حرام کا بیان شروع ہوتا ہے ۔ (آیت) ” احلت لکم بھیمۃ الانعام الا ما یتلی علیکم) (تمہارے لئے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کئے گئے ‘ سوائے ان کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے)

یعنی اس وجہ سے کہ اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا اور اس وجہ سے کہ اس حلت کو اللہ نے تمہارے لئے بیان کیا ہے ‘ کسی اور حلال و حرام کرنے والے نے نہیں کیا ‘ تمہارے لئے ان تمام جانوروں کا کھانا جائز ہوگیا جو مویشیوں کی قسم کے ہوں یعنی مذبوحہ جانور اور شکار کے جانور سوائے ان کے جن کی حرمت آگے خود اللہ تعالیٰ بیان فرما رہے ہیں اور آئندہ جن کی حرمت بیان کی جانے والی ہے ‘ وہ یا تو کسی وقت کے ساتھ مخصوص ہے یا کسی جگہ کے ساتھ مخصوص ہے یا وہ مطلق حرمت ہے اور ہر زمان ومکان کے ساتھ اس کا تعلق ہے ۔ بہیمۃ الانعام کے لفظ میں اونٹ ‘ گائے اور بکری وغیرہ آتے ہیں ۔ ان جیسے وحشی جانور بھی ان میں داخل ہیں مثلا وحشی گائے ‘ ہر نی اور جنگلی گدھے وغیرہ ۔

اب اس عمومی حلت کے حکم سے بعض استثنائی صورتوں کو پیش کیا جاتا ہے اور پہلی صورت یہ ہے کہ احرام میں شکار کرنا حرام قرار دیا گیا ہے ۔ (غیر محلی الصید وانتم حرم (105) (لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لئے حلال نہ کرلو) اس تحریم کا اطلاق شکار کرنے کے فعل پر ہوگا ۔ حج اور عمرہ کے لئے احرام باندھتے ہی انسان معمول کی زندگی ترک کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے ۔ وہ زندگی کے نئے انداز سے اللہ کے گھر میں داخل ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس گھر کے لئے کچھ آداب مقرر فرمائے ہیں ۔ اسے دارالامن اور دار الامان قرار دیا ہے ۔ اس کی حدود کے اندر جو شخص بھی آتا ہے ‘ اس کے لئے کسی بھی زندہ چیز پر ہاتھ اٹھانا حرام قرار دیا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی وقفہ ہوتا ہے اور نفس انسانی کے لئے ایسے وقفے ضروری ہوتے ہیں ۔ اس طرح تمام زندہ اشیاء کا تعلق زندگی بخشنے والے کے ساتھ استوار ہوتا ہے اس عرصے میں اور اس مقام کے حدود کے اندر کوئی زندہ پر کسی قسم کی دست درازی نہیں کرسکتا ۔ اس حکم کے ذریعے انسانی ضروریات کا دائرہ بھی محدود کردیا جاتا ہے ‘ جسکی وجہ سے شکار کا کھانا جائز قرار دیا گیا تھا اور دوسرے حیوانات کا کھانا حلال کیا گیا تھا تاکہ انسان اس عرصے میں عام جاری زندگی سے ذرا بلند ہو کر اللہ کے گھر میں زمینی کثافتوں سے اوپر اٹھے اور اس کی نظریں بلند اور روشن افق پر ہوں ۔

اور آگے بڑھنے اور حلال و حرام کی تفصیلات میں جانے سے پہلے اس عقد کو اس عظیم عقد سے مربوط کردیا جاتا ہے اور جو ہر مومن اور ہر انسان نے اللہ کے ساتھ کیا تھا ۔ اہل ایمان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ بڑا معاہدہ اللہ کے ساتھ ہوا تھا اور اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے ۔ (آیت) ” ان اللہ یحکم ما یرید “۔ (5 : 1) (بےشک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے) اللہ کی مشیت آزاد ہے ۔ اس کا ارادہ ہی اصل حاکم ہے ‘ وہ اس حق حکمرانی میں اکیلا ہے لہذا جو چاہے حکم دے ، کوئی دوسرا نہیں ہے جو اس کے ارادے میں شریک ہو ۔ اس کے علاوہ دوسرے کو بھی حکم حکمرانی نہیں ہے ۔ کوئی اس کے احکام کو مسترد کرنے والا نہیں ہے اور یہاں بھی وہ جسے چاہے حرام کر دے اور جسے چاہے حلال کر دے کیونکہ وہی قانون ساز ہے ۔ اس کے بعد مزید بیان ہوتا ہے اور تاکید کی جاتی ہے کہ اللہ کے ہاں محترم چیزوں کی بےحرمتی تمہارے لئے جائز نہیں ہے ۔

(آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تحلوا شعآئر اللہ ولا الشھر الحرام ولا الھدی ولا القلائد ولا امین البیت الحرام یبتغون فضلا من ربھم ورضوانا واذا حللتم فاصطادوا “۔ (5 : 2)

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ خدا پرستی کی نشانیوں کو بےحرمت نہ کرو ، حرام مہینوں میں کسی کو حلال نہ کرلو ‘ قربانی کے جانوروں پر دست درازی نہ کرو ‘ ان جانوروں پر ہاتھ نہ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں اور نہ انکو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جارہے ہوں ۔ ہاں جب احرام کی حالت ختم ہوجائے تو شکار تم کرسکتے ہو)

یہ شعائر اللہ کیا ہیں ؟ یہاں جس چیز کی طرف ذہن جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے مراد حج ‘ عمرہ ہیں اور ہو محرمات ہیں کہ حج اور عمرہ کے دوران جن کا ارتکاب حرام قرار دیا گیا ہے اور فرائض وہ ہیں جو ان میں ادا ہوتے ہیں یہاں تک کہ حج اور عمرہ ختم ہوجائیں یعنی قربانی کرنے کے بعد ۔ احرام کی حالت میں احرام باندھنے والے کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ ان شعائر اللہ کو حلال قرار دے یا ان کا احترام ملحوظ نہ رکھے کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ اس احترام کا لحاظ نہ رکھے گا جو اللہ نے ان چیزوں کے ساتھ وابستہ کیا ہے ۔ ان شعائر کی نسبت اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ اللہ کے ہاں یہ نہایت ہی محترم چیزیں ہیں اور ان کا استخفاف نہایت ہی خطرناک جرم ہوگا ۔

حرام مہینے کون سے ہیں ۔ رجب ‘ ذوالقعدہ ‘ ذوالحجہ ‘ اور محرم چار مہینے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان مہینوں کے اندر جنگ کو حرام کیا ہے ۔ اسلام سے قب عرب بھی ان مہینوں میں جنگ کو ناجائز سمجھتے تھے لیکن وہ حسب خواہش ان حرام مہینوں میں ردوبدل کردیتے تھے ۔ اس میں وہ نسئی کا عمل کرتے تھے یعنی کسی مہینے کی حرمت کو کچھ عرصے کے لئے موخر کردیتے تھے اور اس تاخیر کا فتوی وہ کاہنوں سے لیتے تھے یا بعض مضبوط جنگلی قبائل سے اس کا اعلان کروا دیتے تھے ۔ یہ تاخیر ایک سال سے دوسرے سال تک کردی جاتی ۔ جب اسلام آیا تو اسلام نے اس عمل نسئی کو حرام قرار دیا اور ان مہینوں کو اس طرح حرام قرار دیا جس طرح اللہ نے انہیں حرام قرار دیا تھا اور جس طرح یہ مہینے آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش کے وقت سے اللہ نے رکھے تھے ۔ سورة توبہ کی آیت میں اس کا ذکر یوں ہوا ہے ۔

(آیت) ” ان عدۃ الشھور عنداللہ اثنا عشر شھرا فی کتب اللہ یوم خلق السموت والارض منھا اربعۃ حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموا فیھن انفسکم وقاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ واعلموا ان اللہ مع المتقین “۔ (9 : 36)

” حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ رہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسا کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں۔ )

اس سے اگلی آیت میں فیصلہ کیا گیا کہ لسئی کا عمل کفر کے اندر مزید کافرانہ فعل ہے اور صحیح بات اللہ کا حکم ہے اور وہ یہ کہ اس میں قتال حرام ہے بشرطیکہ ان مہینوں میں کوئی مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہو۔ اگر ان پر حملہ ہو تو وہ دفاع کرسکتے ہیں ۔ یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ حملہ آور ان مہینوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کریں اور خود ان مہینوں کے احترام کا لحاظ نہ رکھیں ، ہاں اگر ان کی اسکیم یہ ہو کہ وہ ان مہینوں کو وصال بنا کر مسلمانوں کی طرف جوابی کاروائی سے بچ جائیں تو یہ اجازات نہ ہوگی ۔ اشہر حرام کے اندر قتال کا حکم اس سے قبل سورة بقرہ میں گزر چکا ہے ۔

” ہدی “ وہ جانور ہے جسے حاجی یا عمرہ کرنے والا ساتھ لاتا ہے اور حج اور عمرہ سے فارغ ہو کر اسے ذبح کرتا ہے ۔ اسے نحر کہتے ہیں اور اس پر حج اور عمرہ کرنے والے کے مناسک ختم ہوجاتے ہیں یہ یا تو اونٹ ہوتا ہے یا کوئی مویشی ہوتا ہے یا بھیڑ بکری ہوتی ہے ۔ اور یہ کہ ” ہدی حلال نہیں ہے “ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس غرض کے لئے اسے خریدا گیا یا لایا گیا ‘ اس کے سوا کسی اور غرض کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں ہے ۔ اسے اس وقت تک ذبح نہ کیا جائے گا جب تک حج میں یوم النحر کا دن نہیں آجاتا اور عمرہ کے مناسک ختم نہیں ہوجاتے ۔ ان قربانیوں کے گوشت ‘ چمڑوں ‘ بالوں اور اون وغیرہ سے (بشکل قیمت) کوئی شخص خود نفع اندوز نہیں ہوسکتا اور ضروری ہے کہ وہ ان چیزوں کو فقرا پر صرف کرے ۔

قلائد : سے مراد وہ جانور ہیں جن کے گلے میں اس کا مالک پٹہ ڈال دیتا تھا ۔ یہ پٹہ ان جانوروں کے ہدی ہونے کی علامت ہوا کرتا تھا ۔ یہ پٹہ ڈال کر حاجی جانور کو آزاد چھوڑ دیتے تھے اور یوم النحر پر اسے ذبح کرتے تھے ۔ جانوروں کے گلوں میں جب پٹے ڈالدیئے جاتے اس کے بعد وہ کسی دوسری غرض کے لئے حلال نہ ہوتے اور اس غرض کے سوا انہیں ذبح نہ کیا جاسکتا ۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ قلائد وہ ہیں جن کے گلوں میں پٹے ڈال دیئے جاتے تھے اور مقصد یہ ہوتا تھا کہ یہ جانور حج اور عمرہ کے لئے خریدے گئے ہٰں ۔ اس طرح ان کو ڈاکوؤں ‘ دشمنوں وغیرہ سے بچایا جاتا تھا ۔ وہ حرم کے درختوں سے ایسی چیزیں بناتے تھے جن کو ان جانوروں کی گردنوں میں ڈال دیتے تھے ۔ ان جانوروں کو عام طور پر علاقے میں چھوڑ دیا جاتا تھا اور کوئی بھی ان پر دست درازی نہ کرتا تھا ۔ جن لوگوں نے قلائد کا یہ مفہوم بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اس لئے کہ اس کے بعد نازل ہونے والی آیت :

(آیت) ” یایھا الذین امنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا وان خفتم علیۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ ان شآء ان اللہ علیم حکیم “۔ (9 : 28)

” مشرکین ناپاک ہیں ‘ لہذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکیں اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں دولتمند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے)

اور دوسری جگہ (آیت) ” فخذوھم واقتلوھم حیث ثقفتموھم) (پس انہیں پکڑو ‘ قتل کرو ‘ جہاں بھی تم انہیں پاؤ) لیکن پہلا قول زیادہ قوی ہے اور ظاہر ہے کہ قلائد وہ جانور ہیں جو اللہ کے نام پر نحر کرنے کے لئے نذر کردیئے گئے ہیں اور ان کے گلے میں پٹے ڈال دیئے گئے ہیں اور ان پر یہ بھی دلیل ہے کہ ان کا تذکرہ ہدی کے بعد آیا ۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے ہدی مقلد مراد ہے اور یہ حج اور عمرے کے لئے مقلد جانور ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جو ” آمین البیت “ ہوں یعنی جنہوں نے بیت اللہ کی طرف جانے کا ارادہ کرلیا ہو اور جن کا مقصد اللہ کے فضل کی تلاش اور اس کی رضا مندی ہو ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حج کا ارادہ رکھتے ہوں یا عمرے کا ارادہ رکھتے ہوں ۔ اس میں ان کے کے پیش نظر دو چیزیں ہو سکتی ہیں تجارت اور رضائے الہی کا حصول ۔ اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو امن کی گارنٹی دی ہے ۔

آخر میں وضاحت کردی گئی کہ شکار کرنا تمہارے لئے مستقلا حرام نہیں کردیا گیا ۔ جب تم احرام سے باہر آجاؤ تو تمہارے لئے شکار کرنا جائز ہے لیکن حدود حرم سے باہر ‘ کیونکہ حدود حرم کے اندر شکار ہر حالت میں حرام ہے ۔ (آیت) ” واذا حللتم فاصطادوا “ (اور جب احرام کی حالت ختم ہوجائے تو تم شکار کرسکتے ہو) لیکن حدود حرم سے باہر ‘ اس لئے کہ حرم کے حدود کو اللہ تعالیٰ نے علاقہ امن قرار دے دیا ہے ‘ جیسا کہ اس نے حرام مہینوں کو امن کا عرصہ (Period) قرار دیا ہے ۔ یہ وہ علاقہ ہے جس میں لوگ ’ حیوانات ‘ پرندے اور درخت سب کے سب پرامن رہتے ہیں اور ان کو کسی کی جانب سے دست درازی کا کوئی ڈر نہیں ہوتا ۔ غرض ایک ہمہ گیر امن ہے جو اس گھر کے اوپر ایک گھنے سایہ دار درخت کی طرح ہمیشہ لہلہاتا رہتا ہے ۔ حدود حرم پر یہ ہمہ گیر ” سایہ امن “ اس لئے چھایا ہوا ہے کہ اس امت کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ اس گھر کو پرامن بنادے اور اس دعا کو اللہ نے قبول فرمایا تھا اور امن کی جہ فضا چار ماہ تک پوری سرزمین عرب پر چھائی رہتی ہے اور پورے چار ماہ تک یہ امن وسلامتی اسلامی نظام کے سائے میں اپنی شان دکھاتی ہے ۔ یہ اس قدر ہمہ گیر سلامتی ہوتی ہے کہ ہر انسانی دل اس کے اطمینان ‘ سکون کو اور ہر صاحب ذوق اس کی مٹھاس کو محسوس کرتا ہے ۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم امن وسلامتی کی یہ فضا پیدا کرنے میں نہایت ہی سرگرم ہوں اور ان چار مہینوں کے بعد پوری زندگی کے شب وروز میں ‘ سال کے 12 مہینوں میں اور ہر جگہ ایسی ہی فضا پیدا کرنے کی سعی کریں ۔

اس منطقہ امن کے اندر ‘ ان حرمتوں کی فضا میں ‘ اب اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دعوت دیتے ہیں جو اللہ پر ایمان لائے ہوئے ہیں اور جنہوں نے اللہ کے ساتھ عہد کر رکھا ہے کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں گے اور اپنے مقام اور پروگرام اور موقف کو اتنی بلندی تک لے جائیں گے جہاں تک اس عظیم مقصد اور نصب العین کے لئے ضروری ہو جو ان کے سپرد کردیا گیا ہے ۔ وہ عظیم نصب العین اور مقصد کیا ہے ؟ یہ کہ امت مسلمہ اس دنیا پر بسنے والی تمام امم کے لئے نگران ہے اور اسے اپنی زندگی کے اس مشن کو شخصی جذبات ‘ ذاتی رجحانات اور عارضی حالات سے متاثر ہوئے بغیر ادا کرنا چاہئے ۔ حکم دیا جاتا ہے کہ ان لوگوں پر بھی ظلم و زیادتی نہ کرو جنہوں نے حدیبیہ کے موقعہ پر تمہیں مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا اور اس سے پہلے بھی جب وہ مکہ میں تھے وہ ایسی رکاوٹیں پیدا کیا کرتے تھے ۔ ان کے لگائے ہوئے زخم ابھی تک اگرچہ مسلمانوں کے دلوں میں تازہ تھے ‘ اور مسلمانوں کے دلوں میں مسجد حرام سے روکنے کی وجہ سے ان لوگوں کے خلاف نفرت تازہ تھی۔ اگرچہ یہ صورت حال موجود تھی ‘ لیکن امت مسلمہ کے فرائض اور مقاصد ان چیزوں سے بالاتر تھے امت کے مقاصد وفرائض اس امت کے عظیم کردار کے زاویے سے تھے ۔ فرماتے ہیں :

(آیت) ” ولا یجرمنکم شنان قوم ان صدوکم عن المسجد الحرام ان تعتدوا وتعاونوا علی البر والتقوی ، ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ، واتقوا للہ ، ان اللہ شدید العقاب “۔ (5 : 2)

” اور دیکھو ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیا تو اس پر ۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی انکے مقابلے میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو ۔ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ان میں سب سے تعاون کر گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو ۔ اللہ سے ڈرو اس کی سزا بہت سخت ہے ۔ ‘

ضبط نفس کے میدان میں یہ بلند ترین مقام ہے ۔ دریا دلی میں یہ سب سے اونچا درجہ ہے اور اس مقام تک اس امت کے لئے پہنچنا فرض ہے جسے اب اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کا نگران اور اتالیق مقرر کیا ہے ۔ جسے عوام الناس کی تہذیب اور ترقی کا فریضہ سپرد کیا گیا ہے اور جسے یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ پوری انسانیت کو اس بلند اور روشن افق اور نصب العین کی طرف متوجہ کردے ۔

یہ وہ فرائض ہیں جو منصب قیادت ‘ نگرانی اور امتداب کے از بس ضروری ہیں ۔ یہ مومنین کا فرض ہے کہ وہ ان تمام مصائب وشدائد کو بھول جائیں جو ان کو ان دشمنوں کے ہاتھوں پہنچے تھے ۔ یہ اس لئے کہ وہ اس نمونے کو دنیا کے سامنے عملا پیش کریں جو اسلام کو مطلوب ہے تاکہ وہ رواداری عملا انسانوں کے سامنے پیش ہو جسے اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ صرف اسی طرح امت مسلمہ اسلام کے حق میں شہادت حق دے سکتی ہے ۔ اور لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہو کر اسے پسند کرسکتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے لیکن اس شکل میں وہ نفس انسانی کے لئے گرانبار نہیں ہوتی اور نہ وہ انسان کی قوت اور وسعت سے باہر ہوتی ہے ۔ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ انسان کو غصہ آئے یہ انسان کا حق ہے کہ وہ بری چیز کو ناپسند کرے لیکن انسانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی چیز کو ناپسند کرتے ہی وہ فورا ردعمل ظاہر کردیں یا یہ کہ دشمنی اور کینہ کے ہاتھوں بالکل مجبور ہوجائیں ۔ اسلام ان کو حکم دیتا ہے کہ وہ نیک اور تقوی کے کاموں میں تو فورا اٹھ کھڑے ہوں اور جلدی رد عمل ظاہر کریں لیکن گناہ اوپر ظلم کے کام میں جتھہ بندی نہ کریں ۔ وہ اللہ سے ڈریں اور اس کی سزا سے اپنے آپ کو بچائیں اور تقوی اور خدا خوفی کے ذریعے اپنے نفس پر قابو پائیں ۔ اس کی لگام کھینچ کر رکھیں اور اپنے اندر برداشت اور رواداری پیدا کریں ۔ اللہ سے ڈریں اور اس کی رضا ہمیشہ ان کے پیش نظر رہے ۔

یہ اسلام کا کمال تھا کہ اس کی تربیت نے عرب قوم جیسی اجڈ اور جاہل قوم کو ضبط نفس عطا کر کے ان کے اندر اس سلسلے میں نہایت ہی قوی شعور پیدا کردیا اور انہوں نے نہایت ہی مشفقانہ اور کریمانہ رویہ اپنایا حالانکہ وہ ایسی قوم تھی کہ ان سے اس سطح تک بلند اخلاقی اور حسن سلوک کی کم ہی توقع کی جاسکتی تھی کیونکہ ان کے تمدن کا رخ ہی اس سمت کے خلاف تھا ۔ عربی طرز علم اور اس بارے میں ان کا رویہ یہ تھا ۔ (انصر اخاک ظالما او مظلوما) (اپنے بھائی کی امداد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو) یہ جاہلانہ حمیت تھی اور دور جاہلیت کی عصبیت تھی ، ان کے نزدیک گناہ اور ظلم پر باہم تعاون کرنا ‘ نیکی اور تقوی کے معاملات میں تعاون کرنے سے زیادہ پرکشش تھا ، وہ ہمیشہ باطل وگمراہی پر باہم تعاون کے معاہدے کرلیتے تھے اور حق اور سچائی پر ان کا اجتماع بہت ہی کم ہوا کرتا تھا ۔ تاریخ جاہلیت میں سچائی پر کم ہی حلف منعقد ہوئے ۔ اور یہ ہر اس معاشرے کا قدرتی خاصہ ہے جس کا رابطہ اور تعلق اللہ کی ذات کے ساتھ نہ ہو اور جس کی عادات اور تقالید اسلامی منہاج اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ پیمانوں کے مطابق نہ ہوں ۔ یہ اصول جاہلیت کے اس مشہور مقولے کے اندر پوری طرح منضبط تھا کہ بھائی کی مدد کرو چاہے ظالم ہے یا مظلوم ۔ اور اس اصول کو ایک جاہلی شاعر نے اس پیش کیا ہے ۔

وھل انا الامن غزیۃ ان غوت غویت

وان ترشد غزیۃ ارشد :

(میں تو بس غزیہ قبیلے کا ایک فرد ہوں ‘ گر وہ گمراہ ہوجائے تو میں گمراہ ہوں گا اور اگر وہ راہ ہدایت پالے تو میں بھی پالوں گا) اسلام آیا ‘ اسلامی نظام تربیت آیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا :

(آیت) ” ولا یجرمنکم شنان قوم ان صدوکم عن المسجد الحرام ان تعتدوا وتعاونوا علی البر والتقوی ، ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ، واتقوا للہ ، ان اللہ شدید العقاب “۔ (5 : 2)

” اور دیکھو ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیا تو اس پر ۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی انکے مقابلے میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو ۔ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ان میں سب سے تعاون کر گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو ۔ اللہ سے ڈرو اس کی سزا بہت سخت ہے ۔ ‘

اسلام نے آکر دلوں کو اللہ کے ساتھ جوڑ دیا ۔ اخلاق اور اقدار حیات کے لئے اللہ کے پیمانے میدان میں آگئے اسلام نے عربوں اور پوری انسانیت کو حمیت جاہلیہ سے نکالا ۔ نعرہ عصبیت سے منع کیا ‘ ذاتی میلانات ‘ شخصی تاثرات ‘ خاندانی اور قبائلی محدود سوچ سے نکالا اور دو ستون اور دشمنوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت صرف انسانیت کو محور بنایا ۔

غلبہ اسلام کے بعد جزیرۃ العرب کے اندر ایک نیا انسان پیدا ہوا ‘ یہ انسان الہی اخلاق سے مزین تھا یوں عربوں کو ایک نیا جنم ملا اور جب یہ روشنی دنیا میں پھیلی تو تمام کرہ ارض پر انسانیت کو ایک جدید جنم ملا ۔ اسلام سے قبل جزیرۃ العرب پورے کا پورا جاہلیت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔ جس کا نعرہ یہ تھا ” بھائی کی مدد کرو ‘ ظالم ہو یا مظلوم ہو “ بلکہ پوری دنیا اسی نعرہ جاہلیہ کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی ۔

جاہلیت کے گہرے گڑھے اور اسلام کے روشن افق کے درمیان بہت ہی دوری اور بعد ہے اور یہ دوری ان دو اقوال سے کس قدر خوبصورتی سے واضھ ہوتی ہے ۔ ایک بات یہ کہ ” بھائی کی مدد کرو ظالم ہے یا مظلوم “ اور دوسرا قول باری تعالیٰ کا ہے ۔

” اور دیکھو ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیا تو اس پر ۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی انکے مقابلے میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو ۔ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ان میں سب سے تعاون کر گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو ۔ اللہ سے ڈرو اس کی سزا بہت سخت ہے ۔ ‘

106