اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1 ‘ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بالْعُقُوْدِ ط۔عقدہ گرہ کو کہتے ہیں جس میں مضبوطی سے بندھنے کا مفہوم شامل ہے۔ لہٰذا عُقُود سے مراد وہ معاہدے ہیں جو باقاعدہ طے پاگئے ہوں۔ معاہدوں اور قول وقرار کی اہمیت یوں سمجھ لیجیے کہ ہماری پوری کی پوری سماجی و معاشرتی زندگی قائم ہی معاہدوں پر ہے۔ معاشرتی زندگی کا بنیادی یونٹ ایک خاند ان ہے ‘ جس کی بنیاد ایک معاہدے پر رکھی جاتی ہے۔ شادی کیا ہے ؟ مرد اور عورت کے درمیان ایک ساتھ زندگی گزارنے کا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے سے انسانی معاشرے کی بلند وبالا عمارت کی بنیادی اینٹ رکھی جاتی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق فریقین کے کچھ حقوق ہیں اور کچھ فرائض۔ ایک طرف بیوی کے حقوق اور اس کے فرائض ہیں اور دوسری طرف شوہر کے حقوق اور اس کے فرائض۔ بڑے بڑے کاروبار بھی معاہدوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ آجر اور مستاجر کا تعلق بھی ایک معاہدے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اسی طرح کاروبار حکومت ‘ حکومتی اداروں میں عہدے اور مناصب ‘ چھوٹے بڑے اہلکاروں کی ذمہ ‘ داریاں ‘ ان کی مراعات اور اختیارات کا معاملہ ہے۔ گویا تمام معاشرتی ‘ معاشی اور سیاسی معاملات قرآن حکیم کے ایک حکم پر عمل کرنے سے درست سمت پر چل سکتے ہیں ‘ اور وہ حکم ہے اَوْفُوْ بالْعُقُوْدِ۔اُحِلَّتْ لَکُمْ بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَام الاَّ مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ جن کا حکم آگے چل کر تمہیں بتایا جائے گا ‘ یعنی خنزیر ‘ مردار وغیرہ حرام ہیں۔ باقی جو مویشی قسم کے جانور ہیں ‘ وحوش نہیں مثلاً شیر ‘ چیتا وغیرہ وحشی ہیں وہ حلال ہیں ‘ جیسے ہرن ‘ نیل گائے اور اس طرح کے جانور جو عام طور پر گوشت خور نہیں ہیں بلکہ سبزے پر ان کا گزارا ہے ‘ ان کا گوشت تمہارے لیے حلال کردیا گیا ہے۔ البتہ استثنائی صورتوں کی تفصیل بعد میں تمہیں بتادی جائے گی۔ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ ط۔یعنی اگر تم نے حج یا عمرے کے لیے احرام باندھا ہوا ہے تو تم اس حالت میں ان حلال جانوروں کا بھی شکار نہیں کرسکتے۔ 33اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ یہ اللہ کا اختیار ہے ‘ وہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے ‘ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔
آیت 2 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُحِلُّوْا شَعَآءِرَ اللّٰہِ وَلا الشَّہْرَ الْحَرَامَ یعنی اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو اپنی خواہش کے مطابق حلال مت کرلیا کرو۔ وَلاَ الْہَدْیَ یعنی قربانی کے وہ جانور جو حج یا عمرے پر جاتے ہوئے لوگ ساتھ لے کر جاتے تھے۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ حج یا عمرے پر جاتے وقت قربانی کے جانور ساتھ لے کر جاتے تھے۔ یہاں ان جانوروں کی بےحرمتی کی ممانعت بیان ہو رہی ہے۔وَلاَ الْقَلَآءِدَ اور نہ ان جانوروں کی بےحرمتی ہونے پائے جن کی گردنوں میں پٹے ڈال دیے گئے ہوں یہ پٹے قلادے علامت کے طور پر ڈال دیے جاتے تھے کہ یہ قربانی کے جانور ہیں اور کعبے کی طرف جا رہے ہیں۔ وَلَآ ا آمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یعنی وہ لوگ جو بیت الحرام کی طرف چل پڑے ہوں ‘ حج یا عمرے کا قصد کر کے سفر کر رہے ہوں ‘ اب ان کی بھی اللہ کے گھر کے ساتھ ایک نسبت ہوگئی ہے ‘ وہ اللہ کے گھر کے مسافر ہیں ‘ جیسا کہ اہل عرب حجاج کرام کو کہتے ہیں : مَرْحَبًا بِضُیُوْفِ الرَّحْمٰن مرحبا ان لوگوں کو جو رحمن کے مہمان ہیں۔ یعنی تمام حجاجِّ کرام اصل میں اللہ کے مہمان ہیں ‘ اللہ ان تمام زائرین کعبہ کا میزبان ہے۔ تو اللہ کے ان تمام مہمانوں کی ہتک عزت اور بےحرمتی سے منع کردیا گیا۔ یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرِضْوَانًا ط۔ یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں ‘ اللہ کو راضی کرنے کی کوشش میں مکان محترم کعبہ کی طرف جا رہے ہیں۔ وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ط۔حلال ہوجانا ایک اصطلاح ہے ‘ یعنی احرام کھول دینا ‘ حالت احرام سے باہر آجانا۔ اب تمہیں شکار کی آزادی ہے ‘ اس پر پابندی صرف احرام کی حالت میں تھی۔ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا 7یعنی جیسے اہل مکہ نے تم لوگوں کو چھ سات برس تک حج وعمرہ سے روکے رکھا ‘ اب کہیں اس کے جواب میں تم لوگ بھی ان پر زیادتی نہ کرنا۔ وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ دیکھئے یہ انداز بالکل وہی ہے جو سورة النساء کا تھا ‘ وہی معاشرتی معاملات اور ان کے بارے میں بنیادی اصول بیان ہو رہے ہیں۔ اب آ رہے ہیں وہ استثنائی احکام جن کا ذکر آغازسورۃ میں ہوا تھا کہ الاَّ مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ۔ کھانے پینے کے لیے جو چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں ان کا ذکر یہاں آخری مرتبہ آ رہا ہے اور وہ بھی بہت وضاحت کے ساتھ :