سورہ نور (24): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Noor کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النور کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نور کے بارے میں معلومات

Surah An-Noor
سُورَةُ النُّورِ
صفحہ 350 (آیات 1 سے 10 تک)

سُورَةٌ أَنزَلْنَٰهَا وَفَرَضْنَٰهَا وَأَنزَلْنَا فِيهَآ ءَايَٰتٍۭ بَيِّنَٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ٱلزَّانِيَةُ وَٱلزَّانِى فَٱجْلِدُوا۟ كُلَّ وَٰحِدٍ مِّنْهُمَا مِا۟ئَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِى دِينِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱلزَّانِى لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَٱلزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَآ إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلَّذِينَ يَرْمُونَ ٱلْمُحْصَنَٰتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا۟ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَٱجْلِدُوهُمْ ثَمَٰنِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا۟ لَهُمْ شَهَٰدَةً أَبَدًا ۚ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَٰسِقُونَ إِلَّا ٱلَّذِينَ تَابُوا۟ مِنۢ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ وَٱلَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَٰجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَآءُ إِلَّآ أَنفُسُهُمْ فَشَهَٰدَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَٰدَٰتٍۭ بِٱللَّهِ ۙ إِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ وَٱلْخَٰمِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ ٱللَّهِ عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ ٱلْكَٰذِبِينَ وَيَدْرَؤُا۟ عَنْهَا ٱلْعَذَابَ أَن تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَٰدَٰتٍۭ بِٱللَّهِ ۙ إِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلْكَٰذِبِينَ وَٱلْخَٰمِسَةَ أَنَّ غَضَبَ ٱللَّهِ عَلَيْهَآ إِن كَانَ مِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ وَلَوْلَا فَضْلُ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُۥ وَأَنَّ ٱللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ
350

سورہ نور کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نور کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

یہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، اور اسے ہم نے فرض کیا ہے، اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں، شاید کہ تم سبق لو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sooratun anzalnaha wafaradnaha waanzalna feeha ayatin bayyinatin laAAallakum tathakkaroona

سورة انزلنھا۔۔۔۔۔۔۔ تذکرون

یہ پورے قرآن مجید میں اپنی نوعیت کا واحد مطلع کلام ہے۔ اس میں جو نیا لفظ ہے وہ فرضنھا کا ہے ‘ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سورة میں جو کچھ ہے اس کا اخذ کرنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ یعنی اس کے اندر مذکور آداب پر عمل کرنا بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح حدود پر عمل کرنا لازمی ہے۔ یہ اخلاق و عادات نہایت ہی فطری ہیں۔ ان آداب اور اخلاق کو لوگ بعض ایسے عارضی حالات کی وجہ سے بھول جاتے ہیں جو انسان کو دھوکہ دے کر بدراہ کردیتے ہیں ‘ یہ آیات ایسے لوگوں کو یاد دہانی کرا کے راہ راست دکھاتی ہیں اور پھر ان کو راہ فطرت پر واپس لاتی ہیں جو بالکل واضح ہے۔

اس دو ٹوک تمہید کے بعد قانون حد زنا کا بیان شروع ہوتا ہے۔ اس فعل کو نہایت ہی قبیح گردانتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ زانی اور اسلامی سوسائٹی کے درمیان کوئی رابطہ نہیں رہتا۔

اردو ترجمہ

زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alzzaniyatu waalzzanee faijlidoo kulla wahidin minhuma miata jaldatin wala takhuthkum bihima rafatun fee deeni Allahi in kuntum tuminoona biAllahi waalyawmi alakhiri walyashhad AAathabahuma taifatun mina almumineena

(الزانی۔۔۔۔۔۔ علی المئو منین) (3)

اسلام کے ابتدائی ایام میں حد زنا وہ تھی جو جس کا تذکرہ سورة نساء کی آیت میں ہوا۔

(والتی یا تین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبیلا) (4 : 15) ” اور وہ تمہاری عورتیں جنہوں نے فحاشی کا ارتکاب کرلیا تو ان پر چار گواہ گزارو ‘ اگر چار گواہ شہادت دے دیں تو انہیں گھروں میں روک رکھو ‘ یہاں تک کہ انہیں موت آلے یا ان کے لیے اللہ کوئی راستہ نکال دے “۔ عورت کے لیے سزا یہ تھی کہ اسے گھر میں بند کردیا جائے اور ملامت کر کے اذیت دی جائے۔ اور مرد کو بھی لعنت و ملامت کی جاتی تھی۔

اس کے بعد پھر سورة نور میں حکم آگیا اور یہ تھا وہ راستہ جو زنا کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے نکال دیا گیا جس کے بارے میں اللہ نے سورة نساء میں اشارہ فرمایا تھا۔

کوڑوں کی یہ سزا ان مردوں اور عورتوں کے لیے ہے جو شادی شدہ نہ ہوں یعنی شادی کے ذریعے ارتکاب جرم سیمحفوظ نہ کردیئے گئے ہوں۔ اور یہ سزا تب نافذ ہوگی جبمجرم مسلم ‘ بالغ اور آزاد ہو۔ رہا وہ شخص جو محصن ہے یعنی جس نے شادی کرلی ہے اور شادی کے نتیجے میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ مجامعت کرچکا ہو۔ مسلم ہو بالغ ہو اور آزاد اور نکاح بھی شرعاً نکاح صحیح ہو تو اس کی حد ‘ حد رجم ہے۔

حد رجم سنت سے ثابت ہے جبکہ کوڑوں کی حد قرآن کریم سے ثابت ہے۔ قرآن کی یہ آیت عام تھی اور مجمل تھی۔ رسول اللہ ﷺ محصن زانیوں کو رجم کی سزادیتے تھے اس لیے ثابت ہوگیا کہ کوڑوں کی سزاغیرمحصین کے لیے ہے۔

یہاں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا محصن کو رجم سے قبل کوڑوں کی سزا بھی دی جائے گی یا نہیں۔ جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ دونوں سزائوں کو جمع نہیں کیا جاسکتا ۔ نیز اس میں بھی اختلاف ہے کہ جب غیر محصن زانیکو کوڑوں کی سزادی جائے گی تو پھر اسے بمو جب حدیث جلاوطن بھی کیا جائے گا یا نہیں اسی طرح غلام زانی کی حد میں بھی اختلاف ہے۔ یہ اختلافات بہت طویل مباحث چاہتے ہیں۔ مناسب ہے کہ قارئین انکے بارے میں معلومات کتب فقہ سے حاصل کریں۔ ہم یہاں صرف اس قانون کی تہ میں موجود فلسفہ اور حکمت سے بات کریں گے۔ آپ نے پڑھا کہ کنواروں کی سزا کو ڑوں تک محدود ہے اور شادی شدہ محصنین کی سزا رجم ہے۔ یہ اس لیے کہ جس شخص نے مسلم ‘ بالغ اور حرہوتے ہوئے نکاح صحیح میں عورت کے ساتھ مجاسعت کرلی اس کو تو صحیح پاک اور شریفانہ طریقہ معلوم اور میسر ہوگیا ہے۔ ایسا شخص اگر جنسی بےراہ روی اختیار کرتا ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے اندر فطری بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ یہ شخص راہ فطرت اور راہ اسلام سے منحرف ہے لٰہذا اسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ رہا غیر شادی شدہ غیر محصن تو ان سے غلطی کے وقوع کا امکان زیادہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات وہ جذبات کی شدت سے مغلوب ہو سکتا ہے جبکہ اس پر ابھی نادانی کا دور ہے۔ پھر یہاں نفس جرم میں بھی فرق ہے محصن چونکہ اس کام میں سابق تجربہ رکھتا ہے اس لیے وہ اس فعل سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے بہ نسبت کنوارے کنواروں کے جو زیادہ تجربہ کار نہیں ہوتے۔

قرآن کریم یہاں صرف غیر محصن یعنی کنواروں کی سزا کا ذکر کرتا ہے جیسا کہ ہم نے اس کی تصریح کردی ہے اور یہاں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ اس معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی نرمی نہ کی جائے۔

(الزانیۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ المئومنین) (24 : 2) ” زانیہ عورت اور زانی مرد ‘ دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے “۔

حکم یہ ہے کہ اسلامی حدود کا نفاذ سختی سے کیا جائے اور اس معاملے میں کسی قسم کی رعایت یا نرمی اور رحمد لی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ کیونکہ یہ معاملہ اللہ کے دین کے ساتھ متعلق ہے۔ اور دین کے معاملے میں نرمی ناقابل برداشت ہے۔ نیز نفاذ سزا کے وقت مومنین کی ایک تعداد کو حاضر ہونا چاہیے تاکہ سزا کا اثر مجرم پر زیادہ ہو۔ روحانی لحاظ سے بھی اسے اذیت پہنچے اور دیکھنے والوں کے لیے بھی عبرت انگیز ہو۔

اس کے بعد اس فعل کی کراہت اور ناپسندیدگی کو ظاہر کرنے کے لیے اس فعل کے مرتکبین کو اسلامی معاشرت سے علیحدہ کردیا جاتا ہے یعنی یہ فعل اس قدر شمیع ہے کہ کوئی شخص ایسے مجرموں کے ساتھ نکاح نہ کرے۔

(الزانی۔۔۔۔۔۔ علی المئومنین) (24 : 3) ” زانی نکاح نہ کرنے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک۔ اور یہ حرام کردیا گیا ہے اہل ایمان پر “۔ تو معلوم ہوا کہ اس فعل بد کا ارتکاب جب کوئی کرتا ہے تو وہ اس وقت نہیں کرتا جب وہ مومن ہو۔ اس جرم کا ارتکاب کرنیوالے ایسی نفسیاتی حالت میں ہوتے ہیں کہ اس وقت ان کے شعور اور دل سے ایمان دور ہوجاتا ہے اور اس فعل کے ارتکاب کے بعد کسی نفس مومن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایسے شخص کے ساتھ نکاح کرے۔ جو اس فعل شنیع کی وجہ سے دائرہ ایمان سے نکل گیا ہے۔ ایک مومن ایسے رابطے سے نفرت کرتا ہے اور اس کا ضمیر اس سے ابا کرتا ہے یہاں تک کہ امام احمد (رح) زانی اور عفیفہ کے درمیان نکاح کو حرام سمجھتے ہیں۔ اسی طرح عفیف اور زانیہ کے درمیان بھی وہ نکاح کو حرام سمجھتے ہیں۔ الا یہ کہ دونوں کے درمیان توبہ کے ذریعے صفائی ہوجائے اور یہ گندگی دورہو جائے۔ بہر حال ایک پاکباز مومنہ ایک زانی سے نکاح کرنے سے ابا کرتی ہے اور اسی طرح ایک پاکباز مومن بھی ایک زانیہ سے نکاح کو قابل نفرت سمجھتا ہے۔ اس قسم کے نکاح کے لیے چونکہ حرام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لیے شریعت اور دینی مزاج اس کو بہرحال مسعبد سمجھتا ہے۔

وحرم ذلک علی المئومنین (24 : 3) ” اور اسے مومنین کے لیے حرام کردیا گیا ہے “۔ یوں اسلامی سوسائٹی سے ناپاک اور گندے لوگوں کو علیحدہ کردیا جاتا ہے۔

اس آیت کی شان نزول میں روایت ہے کہ ایک شخص مرتد ابن ابو مرتد مکہ سے ضعیف اسیروں کو اٹھا کر مدینہ لانے کا کام کرتا تھا ” وہ لوگ جن کو اہل مکہ نے مدینہ ہجرت کرکے جانے سے روک دیا تھا “۔ مکہ میں ایک بد کار عورت تھی جس کا نام عناق تھا ‘ جو مرتد کی دوست تھی۔ مرتد نے مکہ کے نظر بندوں میں سے ایک شخص کے ساتھ وقت مقرر کر رکھا تھا کہ وہ اسے رات کو اٹھا کرلے جائے گا کہتے ہیں کہ چاندنی رات تھی اور میں مکہ کے ایک گھر کی دیوار کے سایہ میں تھا۔ عناق آگئی اور اس نے دیوار کے ساتھ لگا ہوا سایہ دیکھ لیا۔ جب وہ میرے پاس آئی تو اس نے مجھے پہچان لیا اور بولی ” مرتد ہو “۔ میں نے کہا ” مرتد ہوں “ تو اس نے کہا مرحبا اہلا وسہلاً ۔ پھر اس نے کہا آئو اور ہمارے ساتھ آج رات رہو۔ تو میں نے اس سے کہا عناق ! اللہ نے توزنا کو حرام قرار دے دیا ہے۔ اس نے علاقے میں شور کردیا کہ دیکھو مرتد تمہارے نظر بندوں کو لے جارہا یہ۔ چناچہ میں باغ میں داخل ہوگیا اور آٹھ افراد مرے پیچھے نکل پڑے۔ میں ایک غار یا کیف میں پہنچ گیا اور اندر داخل ہوگیا۔ وہ لوگ آئے اور انہوں نے میرے سر پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ ان کا پیشاب میرے سر پر گر رہا تھا لیکن اللہ نے ان کو ایسا اندھا کردیا تھا کہ انہوں نے مجھے نہ دیکھا۔ مرتد کہتے ہیں کہ یہ لوگ واپس ہوگئے اور میں نے بھی واپس آکر اپنے آدمی کو لیا۔ یہ بہت عیار شخص تھا ” اذخر “ تک میں پہنچا۔ میں نے اس شخص کی رسیاں کھولیں ۔ میں اس کو اٹھاتا اور وہ بھی میری مدد کرتا۔ یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ ﷺ سے درخواست کی حضور ﷺ میں عناق کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے دو بار حضور ﷺ سے یہ سوال کیا اور حضور ﷺ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

(الزانی۔۔۔۔۔۔۔ علی المئومنین) (24 : 3) ” زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک۔ اور یہ حرام کردیا گیا ہے اہل ایمان پر “۔

اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اے مرتد زانی نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ لہٰذا تمہیں چاہیے کہ اس کے ساتھ نکاح نہ کرو “۔ (ابو دائود ‘ نسائی ‘ ترمذی) ۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زانیہ کے ساتھ مومن کا نکاح اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک توبہ نہ کرے۔ اس طرح کوئی مومنہ بھی زانی سے نکاح نہیں کرسکتی الا یہ کہ وہ توبہ کرے۔ یہ امام احمد کی رائے ہے۔ دوسرے فقہاء نے دوسری آراء کو لیا ہے۔ یہ مسئلہ اختلافی ہے تفصیلات کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال زنا ایک ایسا فعل ہے کہ اس کا مرتکب اسلامی سوسائٹی میں رہنے کا اہل نہیں رہتا۔ اسلامی سوسائٹی سے اسے دور ہونا چاہیے اور دور کردیا جانا چاہیے۔ یہ بھی ایسے مجرموں کے لیے ایک قسم کی سزا ہے جس طرح کوڑوں کی سزا ایک سزا ہے۔

اسلام نے اس مکروہ اور شنیع فعل پر اس قدر سخت اور دو ٹوک سزا تجویز کی ہے ‘ یہ اس لیے نہیں ہے کہ اسلام انسان کے فطری تقاضوں کے خلاف کوئی جنگ لڑنا چاہتا ہے۔ اسلام تو اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ انسان کے لیے اس کے فطری میلانات اور فطری تقاضوں کو پورا کرنے کا انتظام ہونا چاہیے۔ اسلام اس امر میں انسانیت کی بھلائی نہیں دیکھتا کہ انسان کے فطری میلانات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکاجائے۔ نہ اسلام انسان کے ان فطری دواعی کے خلاف ہے جو خالق کائنات نے انسان کی فطرت کے اندر و دیعت کر رکھے ہیں اور یہ اس کائنات کی عظیم زندگی کے قواعد کا ایک حصہ ہیں۔ انہی فطری میلانات کے نتیجے میں سلسلہ حیات کا تسلسل قائم ہے اور زمین کی تعمیر و ترقی کا راز بھی اسی میں مضمر ہے۔ جو فریضہ خلافت ارضی کا ایک حصہ ہے بلکہ اسلامی نظام حیات کی جنگ دراصل حیوانیت کے خلاف جنگ ہے۔ ایک حیوان کے نزدیک ایک جسم اور دوسرے جسم کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ نہ حیوانات کی کوئی فیملی ہوتی ہے۔ نہ ان کے درمیان مشترکہ جائے رہائش ہوتی ہے اور نہ مشترکہ زندگی ہوتی ہے۔ بس چند لحقوں کا جسمانی ملاپ ہوتا ہے فقط۔ اسلام انسانی زندگی کو اس قدر عارضی میلانات پر استوار کرنا نہیں چاہتا بلکہ اسلام جنسی تعلق کو ترقی یافتہ انسانی شعور کی بنیاد پر استوار کرتا ہے کہ ” پاک اور نفیس جسم ایک دوسرے کے ساتھ ملیں۔ دو دل اور دو رو حیں اکٹھی ہوجائیں۔ دو انسان مل جائیں۔ ان کے درمیان ایک مشترکہ زندگی کی تعمیر ہو۔ ان کے درمیان مشترکہ امیدیں ہوں ‘ ان کا دکھ درد مشترک ہو۔ ان کا مستقبل مشترک ہو۔ اور دونوں کی آنے والی اولاد ہو۔ ان کی خوشیوں اور ان کی ذمہ داریوں میں وہ شریک ہوں اور یہ جدید آنے والی نسل ایک ہی مشترکہ جائے رہائش میں پروان چڑھے اور دونوں والدین اس نرسری کی حفاظت اور نشو و نما کے لیے کھڑے ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے زنا کی سزا میں اس قدر شدت اختیار کی ہے کیونکہ جنسی تعلقات میں زنا حیوانیت کی سطح تک گرنے کے مترادف ہے۔ اس سے ان تمام اعلیٰ قدروں کی نفی ہوجاتی ہے جو اسلام کے پیش نظر ہیں اور وہ تمام معاشرتی مقاصد فوت ہوجاتے ہیں جن کو اسلام بروئے کار لانا چاہتا ہے۔ اس سے انسان محض حیوانیت کے مقام تک گرجاتا ہے۔ کیونکہ اگر عورت اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہ ہو اور مرد اور مرد کے درمیان فرق نہ کیا جائے تو یہ حیوانی سطح ہے۔ آزاد شہوات رانی کے نظام میں انسانیت اس قدر مسخ ہوجاتی ہے کہ لوگ گوشت اور خون کی ایک لمحاتی بھوک پر سب کچھ قربان کردیتے ہیں۔ اور اس وقتی اور حیوانی جنسی ملاپ کے نتیجے میں ‘ زندگی کی تعمیر کا جذبہ نہیں ہوتا ‘ اس کرئہ ارض کی تعمیر کا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ نہ اس ملاپ سے اولاد کے حصول کا کوئی جذبہ ہوتا ہے بلکہ اس کی پشت پر کوئی حقیقی اور بلند جذبہ ہوتا ہی نہیں۔ کیونکہ محبت اور میلان کے اندر بھی ایک قسم کا دوام ہونا چاہیے جبکہ زنا کے پیچھے جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ سب کا سب وقتی ہوتا ہے۔ بعض معاشروں میں اگر چہ دوستی اور محبت کے طویل تعلقات ہوتے ہیں لیکن ان کی پشت پر اعلیٰ انسانی اقدار نہیں ہوتیں۔ ان کی پشت پر محض حیوانیت ہی ہوتی ہے۔

جہاں تک اسلام کا تعلق وہ نہ فطری میلانات اور خواہشات کو دباتا ہے اور نہ ان کو کوئی ناپاک چیز سمجھتا ہے۔ اسلام ان کو منظم اور منطبط کر کے پاکیزگی عطا کرتا ہے اور حیوانی مقام سے بلند کر کے اسے ایک ادارہ اور محور بنا دیتا ہے جس کے ارد گرد بیشمار نفسیاتی اور اجتماعی آداب جمع ہوجاتے ہیں۔ رہا زنا اور خصوصاً عصمت فروشی تو اس سے یہ فطری جذبات پاکیزگی اور رواحانیت اور اعلیٰ خواہشات سے عاری ہوجاتے ہیں۔ نیز نسل انسانی کی تاریخ میں اس ادارے سے ہمیشہ جو آداب و اقدار وابستہ رہی ہیں ‘ وہ اس ادارے سے چھن جاتی ہیں اور یہ محض حیوانی لذتیت تک گرجاتا ہے بلکہ حیوان سے بھی زیادہ غلیظ گندا اور گرا ہوا ہوتا ہے اس لیے کہ بیشمار حیوانات اور پرندے ایسے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کی منظم ازدواجی زندگی ہوتی ہے۔ اور اس زندگی میں جنسی تعلق میں طوائف الملوکی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ دو انسان زنا کاروں کے درمیان ہوتی ہے خصوصاً جسم فروش عورتوں کے معاملے میں تو فریقین حیوانوں سے بھی نیچے ہوتے ہیں۔

اسلام چونکہ انسانی معاشرے سے اس گراوٹ کو دور کرنا چاہتا ہے اس لیے اس نے زنا کی سزا میں اس قدر سختی برتی ہے۔ زنا کے جرم کے خلاف علماء نے بعض دوسرے اسباب بھی گنوائے ہیں اور ان میں سے ہر ایک سبب بھی ایک پورا جواز فراہم کرتا ہے کہ زنا کے جرم پر اس قسم کی سخت سزادی جائے ‘ مثلاً یہ کہ اس سے نسب میں اختلاط پیدا ہوتا ہے۔ لوگوں کے درمیان بغض اور کینہ اور دشمنی پیدا ہوتی ہے اور یہ کہ مطمئن گھرانوں کے اطمینان کے اندر فرق پڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میرے خیال میں اس سزا کا اصل اور جامع سبب یہی ہے کہ انسان کو حیرانی جنسی ملاپ کی کر اوٹ سے بلند کیا جائے اور ان اقدار و آداب کو محفوظ کیا جائے جو جنسی ملاپ کے انسانی ادارے سے ہمیشہ وابستہ رہے ہیں۔ نیز یہ کہ اس ادارے کو دوام بخشا جائے اور زوجین اعلیٰ اقدار اور اعلیٰ مقاصد کے لی ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ زندگی بسر کریں۔ یہ سب سے اہم اور جامع وجہ ہے جو جامع الوجوہ والا سباب ہے۔

پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ اسلام اس جرم کی سزا میں تشدد اس وقت کرتا جب اس جرم کے وقوع کے خلاف تمام احتیاطی اور امتناعی تدابیر اختیار کرلی جائیں۔ اسلام زندگی کا ایک مکمل نظام ہے اور جب قائم ہوتا ہے تو اس میں سوسائٹی ایسے خطوط پر منظم ہوچکی ہوتی ہے کہ پاکیزہ زندگی گزارنے کے مواقع عام ہوتے ہیں اور گندی اور غلیظ زندگی گزارنے کے مواقع محدود ہوتے ہیں۔ تب اسلام ان لوگوں پر یہ سزا نافذ کرتا ہے جو پاکیزہ طریقوں کو چھوڑ کر گندے طریقے اپناتے ہیں۔ اور اس صورت میں کئی ایسے نمونے اور مثالیں موجود ہیں جن سے ہماری اس بات کی تصدیق ہوگی۔

نیز اگر یہ جرم واقع بھی ہوجائے تو بھی اسلام نے اس کے ثبوت کے لیے اس قدر مشکل طریق کار رکھا ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں شبہ پیدا ہو ہی جاتا ہے اور اسلام کے قانون جرائم کے سلسل میں یہ اہم اصول وضع کیا گیا ہے کہ شبہات کے ذریعہ الزام جرم ساقط کردیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں پر سے حدود کو ساقط کر دو جہاں تک تم سے ہو سکتا ہے۔ اگر ملزم کے چھوڑے جانے کی کوئی سبیل اور راستہ ہو تو اسے نکلنے دو کیونکہ قاضی اگر معاف کرنے میں غلطی کرجائے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دہی میں غلطی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام چار گواہ طلب کرتا ہے جو عادل بھی ہوں اور جو یہ شہادت دیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے فعل ہوتے دیکھا ہے یا یہ کہ ملزم کی طرف سے ایسا اعتراف ہو جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔

بعض اوقات یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ پھر اسلام نے چار آدمیوں کی شہادت کی جو شرط لگائی ہے تو یہ سزا پھر خیالی سزا ہوگی اور اس سزا کے نفاذ کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔ لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا اسلام اسلامی سوسائٹی سے جرم زنا کو صرف سزا کے ذریعے نہیں مٹاتا بلکہ اسلامی نظام دوسرے امتناعی اسباب بھی اختیار کرتا ہے جن کی وجہ سے یہ جرم واقع ہی کم ہوتا ہے۔ اسلام انسان کی تہذیب و تربیت پر زور دیتا ہے۔ انسانوں کے ضمیر کو پاک کرتا ہے۔ اسلام لوگوں کے اندر یہ ڈر پیدا کرتا ہے کہ جو شخص اس جرم کا ارتکاب کرے اگر اس کا یہ جرم افشا ہوگیا تو وہ اس سوسائٹی کا ایک بد کردار شخص مشہور ہوگا ‘ کوئی اسے اپنی بیٹی۔۔۔۔۔۔۔ نہ دے گا یا کوئی اس کی بیٹی کو بیوی نہ بنائیگا۔ اسلامی سوسائٹی سے وہ کٹ جائے گا۔ اسلام سزا صرف ان لوگوں کو دیتا ہے جو اس جرم کا ارتکاب اس قدر دلیری سے کریں کہ انہیں چار افراد دیکھ لیں یا ایسے لوگوں پر یہ سزا نافذ کرتا ہے جو خدا سے ڈرنے والے ہوں اور جو اپنے آپ کو سزا کے ذریعے سے پاک کرنا چاہتے ہوں اور وہ اقرار جرم کرلیں جیسا کہ حضرت ماعز اور غامد یہہ کے ساتھہوا۔ یہ دونوں خود حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ حضور ﷺ ہمیں پاک کردیں انہوں نے اس بات پر اصرار کیا حالانکہ حضور اکرم ﷺ نے اس معاملے میں چار مرتبہ اعراض فرمایا اور چار مرتبہ اقرار و اصرار کرنے کے بعد آپ نے حکم دیا کہ اب حد قائم کردی جائے۔ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ ” آپس میں حدود کو معاف کردیا کرو ‘ اگر حدود کا کوئی معاملہ مجھ تک پہنچ گیا تو پھر اس کا نفاذ واجب ہوجائے گا “ (ابودائود) ۔

لیکن جب ارتکاب جرم کا یقین ہوگیا اور معاملہ حکام مجاز تک پہنچ گیا تو پھر اس میں کسی نرمی کی اجازت نہیں ہے۔ پھر حدود کا نفاذ واجب ہوجاتا ہے اور پھر یہ دین کا معاملہ بن جاتا ہے اور اس میں رحم کرنا جائز نہیں ہے۔ ثبوت جرم کے بعد رحمدلی کے معنی یہ ہیں کہ مجرم پر رحمدلی کی جائے اور سوسائٹی کے ساتھ سنگدلی کی جائے اور انسانی آداب اور انسانی ضمیر پر ظلم کیا جائے۔ یہ دراصل ایک مصنوعی رحمدلی ہوگی۔ ہمارے مقابلے میں اللہ اپنے بندوں پر زیادہ رحمدل ہے اور اللہ نے یہ سزا تجویز کی ہے اور کسی مومن اور مومنہ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کردیں تو انہیں ان کے لیے اس میں کوئی اپنا اختیار ہو۔ اللہ اپنے بندوں کی مصلحتوں سے خوب واقف ہے۔ نیز اللہ بندوں کے مزاجوں سے بھی ہم سے زیادہ واقف ہے اس لیے کسی کنے والے کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی سزا کے بارے میں یہ کہے کہ یہ سخت ہے۔ ہم کہتے ہیں سوسائٹی میں اس گھنائو نے جرم کے پھیلانے کے مقابلی میں یہ بہت ہی نرم سزا ہے۔ کیونکہ اس جرم کے پھیلنے سے سوسائٹی زوال ‘ پسماندگی اور فساد فطرت اور بےغیرتی جیسے مصائب میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

صرف زنا کی سزا میں تشدد ہی اسلامی سوسائٹی کو بچانا مقصود نہیں ہے۔ نہ اسلامی نظام اسلامی معاشرے کو پاک و صاف رکھنے میں صرف سزائوں پر اعتماد کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اس بات کی وضاحت کردی ہے اسلام سوسائٹی کو اس جرم سے بچانے کے لیے دوسرے اقدامات بھی کرتا ہے۔ اسلام ان تمام کاموں سے منع کرتا ہے جن سے اس جرم کی بو بھی آتی ہو۔

یہی وجہ ہے کہ زانیوں کو امت مسلمہ کے جسم سے دور کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا قدم یہ اٹھایا جاتا ہے کہ پاک دامن عورتوں پر زنا کے الزام لگانے کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے الا یہ کہ کوئی چار گواہ پیش کر دے۔ یہ اس لیے کہ اس گھنائو نے جرم کا الزام لگانے میں لوگ بےباک نہ ہوں۔

اردو ترجمہ

زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہل ایمان پر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alzzanee la yankihu illa zaniyatan aw mushrikatan waalzzaniyatu la yankihuha illa zanin aw mushrikun wahurrima thalika AAala almumineena

اردو ترجمہ

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena yarmoona almuhsanati thumma lam yatoo biarbaAAati shuhadaa faijlidoohum thamaneena jaldatan wala taqbaloo lahum shahadatan abadan waolaika humu alfasiqoona

(والذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھم الفسقون ) (4

زبانوں کو کھلا چھوڑ دینا کہ وہ پاک و صاف عورتوں (محصنات) پر تہمتیں لگاتے پھریں۔ محسنات وہ کنواری اور شادی شدہ عورتیں ہوتی ہیں جن پر زنا کے جرم کے ارتکاب کا الزام لگایا جائے لیکن اس الزام کی پشت پر کوئی دلیل قاطع نہ ہو۔ اس طرح کہ بغیر کسی ثبوت کے کوئی کسی بےگناہ مرد یا عورت پر اس گھٹائو نے جرم کا الزام لگاتا پھرے اور اس پر اسے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ یوں صبح و شام معاشرے میں لوگوں کی عزتوں پر حملہ ہوتا رہے ‘ معاشرہ بد نام ہوتا رہے اور ہر شخص پر الزام لگنے کے مواقع عام ہوں۔ یا مرد اپنی بیوی پر شک کرے۔ ہر شخص کو اپنے اصل و نسل کے بارے میں شک ہوجائے۔ ہر خاندان کے ٹوٹ جانے کا خطرہ ہو۔ تہمت ‘ الزام اور شک کے یہ وہ حالات ہوں گے جن میں کسی شخص کو کوئی اطمینان نہ ہوگا۔

پھر اگر زنا کاری کے الزامات اس طرح لگائے جاتے رہیں تو عام لوگوں کو اس جرم کے ارتکاب کی جرأت ہوگی۔ لوگ کہیں گے کہ سوسائٹی میں ہر طرف اس جرم کا چر چاہے۔ اس طرح جو شخص اس سے بچنا بھی چاہتا ہوگا ‘ وہ بھی اس میں ملوث ہوجائے گا۔ کمازکم بار بار کے الزامات کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں اس کا ارتکاب اس قدر گھنائو نا نہ رہے گا۔ ایک عام آدمی کا تاثر بھی یہ ہوگا کہ عام لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

اگر الزام زنا بلاثبوت کو جرم نہ قرار دیا جائے تو پھر زنا کی اس شدید سزا کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا اور پوری سوسائٹی کی فضا اس جرم میں ملوث ہوگی اور فحاشی کے ارتکاب میں اضافہ ہوگا۔

ان وجوہات کی بناء پر ‘ لوگوں کو ناجائز تہمتوں سے بچانے کی خاطر ‘ اور اس الزام کی وجہ سے لوگوں کی عزت کو بچانے کی خاطر قرآن کریم نے حد قذف کی سزا میں سختی کی ہے۔ اس قدر سختی کہ اس کی سزا کو ارتکاب جرم کی سزا کے قریب قریب قرار دیا ہے۔ یعنی 80 کوڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ ایسا شخص فاسق قرار پائے گا اور آئندہ کبھی بھی اس کی شہادت قبول نہ ہوگی۔ پہلی سزا یعنی 80 کوڑے تو جسمانی سزا ہے اور دوسری سزا تادینی سزا ہے کہ سوسائٹی کے اندر زنا کا الزام لگانے والے کی بات بےوقعت ہوجائے کہ آئندہ اس کی کسی بات پر کوئی اعتبار نہ ہوگا۔ تیسری سزا دینی سزا بھی ہے کہ وہ اسلام کی سیدھی راہ سے پھر گیا ہے الا یہ کہ وہ چار گواہ لائے یا تین گواہ اپنے ساتھ لائے اگر اس نے خود دیکھاہو۔ اس وقت اس کی بات درست سمجھی جائے گی اور ملزم پر پھر حد زنا نافذ ہوگی۔

جہاں تک اسلامی سوسائٹی کی ترجیحات کا تعلق ہے اگر اس میں ایسے الزام کو دبا دیا جائے جس کی پشت پر کوئی ثبوت نہ ہو ‘ تو اس صورت میں کوئی نقصان نہ ہوگا جس طرح کا نقصان اس صورت میں ہوگا کہ فحاشی کا چرچا ہوجائے اور اس پر کوئی ثبوت نہ ہو۔ کیونکہ اس صورت میں کئی لوگ اس گندے جرم کے ارتکاب پر آمادہ ہو سکتے ہیں ‘ جبکہ عام طور پر وہ اس سے بچتے تھے ‘ اور وہ یہ سمھجتے تھے کہ یہ نہایت ہی ممنوع فعل ہے اور اس کا ارتکاب نادرست ہے رہی یہ بات کہ پاک دامن عورتوں پر اس الزام کی وجہ سے کیا گزرتی ہے اور اس سے معاشرے کے اندر جو بےاطمینانی پھیلتی ہے اور جس طرح گھرانے تباہ ہوتے ہیں یہ ایک عام بات ہے اور اسے ہر شریف آدمی اچھی طرح سمجھتا ہے۔ غرض الزام لگانے والے (قاذف) کے سر پر سڑائوں کی تلوار ہر وقت سونتی رہتی ہے۔ الا یہ کہ :

اردو ترجمہ

سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور (اُن کے حق میں) غفور و رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa allatheena taboo min baAAdi thalika waaslahoo fainna Allaha ghafoorun raheemun

(الا الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غفوررحیم ) (5

فقہاء کے درمیان اس استثناء کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا اس کا تعلق صرف آخرت کی سزا سے ہے یعنی اس شخص سے صفت فسق دور ہوجائے گی اور شہادت کے لیے وہ بد ستور نااہل رہے گا یا یہ کہ اس کی شہادت بھی توبہ کے بعد قبول ہوگی۔ امام امحد ‘ امام شافعی اس طرف گئے ہیں کہ اگر تائب ہوجائے تو اس کی شہادت قبول ہوگی کیونکہ فسق کا حکم اٹھ چکا ہے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ یہ استثناء صرف آخری جملے میں ہے یعنی فسق اٹھ جائے گا لیکن یہ شخص بدستور شہادت کے لیے نااہل ہوگا شعبی اور ضحاک نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے کہ اس کی شہادت قبول نہ کی جائے گی اگر چہ توبہ کرے ‘ اس وقت تک جب تک وہ اپنے خلاف یہ اعتراف نہ کرلے کہ اس نے جھوٹ بولا تھا۔ اس کے بعد اس کی شہادت قبول ہوگی۔

میرے خیال میں ضحاک اور شعبی کا مذہب زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس صورت میں جس شخص پر الزام لگایا گیا تھا وہ معاشرتی طور پر اس الزام سے براہ راست بری الذمہ قرار پائے گا۔ اس طرح قذف کے تمام آثار ختم ہوجائیں گے۔ پھر کوئی یہ نہ کہے گا کہ قاذف پر حد اس وجہ سے لگ گئی کہ اس نے شہادت پیش نہ کی اور نہ کسی کے دل میں یہ برا خیال آئے گا کہ ہو سکتا ہے الزام درست ہو لیکن قاذف کو شہادت دستیاب نہ ہوسکی۔ اس طرح مقذوف کی عزت بھی بحال ہوجائے گی اور قاذف کا معاشرتی اعتبار بھی بوجہ توبہ بحال ہوجائے گا۔ یوں اس سابقہ مقدمہ کے تمام آثار ختم ہوجائیں گے۔ اب اس بات کا کوئی جواز باقی نہ رہے گا کہ توبہ کے بعد بھی قاذف کی شہادت مقبول نہ ہو جبکہ اس نے بہتان طرازی کا اعتراف بھی کرلیا ہو اور توبہ کے ذریعہ اصلاح بھی کرلی ہو۔

یہ تو تھا عام الزام زنا کا معاملہ۔ رہا الزام مابین زوجین یعنی کوئی مرد اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا دے تو یہ الگ صورت ہوگی۔ اس مرد سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ چار گواہ لائے یہ بہت بڑی سختی ہوگی لہٰذا شریعت میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ کوئی مرد اپنی بیوی پر جھوٹا الزام نہیں لگا سکتا۔ کیونکہ اس میں خود اس کی اپنی عزت اور اپنی شرافت خطرے میں ہوتی ہے۔ لہذا شریعت میں اس قسم کے الزام کے لیے ایک خاص قانون لعان تجویز کیا گیا ہے۔

اردو ترجمہ

اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام میں) سچا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena yarmoona azwajahum walam yakun lahum shuhadao illa anfusuhum fashahadatu ahadihim arbaAAu shahadatin biAllahi innahu lamina alssadiqeena

والذین یرمون۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وان اللہ تواب حکیم ) (6 تا 10) ” “۔

ان آیات میں حد قذف کے قانون میں میاں بیوی کے لیے قدرے سہولت پیدا کی گئی ہے اور یہ سہولت میاں بیوی کینازک تعلقات کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ اگر خاوند کو یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی بیو نے زنا کا ارتکاب کیا ہے اور اس بات پر گواہ صرف وہ خود ہو تو اس صورت میں طریق کار یہ ہوگا کہ وہ چار بار قسم اٹھا کر یہ کہے گا کہ اس کا دعویٰ درست ہے یعنی الزام زنا اور پانچویں مرتبہ یہ کہے گا کہ مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں۔ اور اس شہادت کو شہادات اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ ایک ہی گواہ کی زیادہ شہادتیں ہیں۔ اگر خاوند نے ایسا کیا تو وہ مہر ادا کرے گا اور عورت پر طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ اور اس پر حد زنا یعنی رجم جاری ہوگی۔ ہاں اگر عورت اپنے اوپر سے اس سزا کو معاف کرانا چاہتی ہے تو وہ سابقہ شہادت کے بالمقابل چار مرتبہ حلف اٹھا کر کہے کہ الزام لگانے والا کا ۔۔۔ ہے اور پانچویں مرتبہ وہ حلف اٹھا کر کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو ‘ اگر میں جھوٹ بولوں۔ اس طرح اس پر سے حد ساقط ہوجائے گی۔ اور لعان کے ذریعے وہ اپنے خاوند سے جدا ہوجائے گی۔ اس کے بیٹے کا نسب والد کے ساتھ لاحق نہ ہوگا اگر وہ حاملہ ہو بلکہ بیٹے کی نسبت ماں کی طرف ہوگی اور اس قسم کے بیٹے پر دلدالزنا کا الزام موجب حد قذف ہوگا۔

اس پر یہ تعقیب اور تبصرہ آتا ہے۔

(ولولا۔۔۔۔۔۔۔۔ تواب حکیم) (24 : 10) ” تم پر اللہ کا فضل اور رحم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا التفات فرمانے والا اور حکیم ہے تو (بیویوں پر الزام کا معاملہ تمہیں بڑی پیچیدگی میں ڈال دیتا) ۔ ہیاں اللہ نے بیان نہیں فرمایا کہ اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا تو کیا ہوتا ؟ اللہ نے مجمل اس لیے چھوڑ دیا کہ لوگ اس سے ڈرتے رہیں۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی بڑا ہی شرہوتا لیکن اللہ نے اسے دفع کردیا۔

اس سلسلے میں بعض صحیح احادیث میں اس قانون سازی کا شان نزول وارد ہے۔ امام احمد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت فرمائی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی “۔

(والذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابدا) (204 : 4) ” اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں ‘ پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں ‘ ان کو اسی (80) کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو۔

تو سعد ابن عبادہ ؓ جو انصار کے سردار تھے ‘ نے کہا کیا یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے کہا : اے گروہ انصار ‘ تم نہیں سنتے تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے ؟ تو انہوں نے کہا ‘ اے رسول خدا اس شخص کو ملامت نہ کریں۔ یہ نہایت ہی غیور آدمی ہے۔ اس نے کبھی بھی کنواری عورت کے سوا کسی عورت سے نکاح نہیں کیا۔ اور اس نے جب کسی عورت کو طلاق دی تو کسی شخص کو جرأت نہیں ہوئی کہ اس کے ساتھ نکاح کرلے کیونکہ وہ اس کی غیرت سے ڈرتا۔ اس پر سعد ؓ نے کہا اے رسول خدا ﷺ واقعہ یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ حق ہے اور یہ اللہ کی جانب سے ہے لیکن مجھے تعجب اس پر ہے کہ میری بیوی کی ران پر ایک شخص ران رکھ دے اور مجھے اجازت نہ ہو کہ میں اسے چھیڑوں اور نہ میں اسے اپنی جگہ سے ہلائوں یہاں تک کہ جب تک کہ میں چار گواہ تلاش کر کے نہ لائوں۔ خدا کی قسم جب تک میں چار گواہ لائوں گا تو وہ اپنا کام کر کے چلا گیا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ٹتھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ ہلال ابن امیہ آگیا۔ یہ اپنی اراضی سے کام کر کے عشاء کے وقت لوٹا۔ اس نے اپنی اہلیہ کے پاس ایک شخص کو دیکھا۔ اپنی آنکھوں سے اس نے دیکھا اور اپنے کانوں سے اس نے سنا تو اس نے اس شخص کو نہ چھیڑا۔ صبح ہوتے ہی وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا حضور میں رات کو عشاء کے وقت اپنے گھر آیا۔ میں نے اپنی اہلیہ کے پاس ایک شخص کو دیکھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں کے ساتھ سنا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کی اس اطلاع کو بہت ہی ناپسند فرمایا۔ آپ ﷺ پر یہ بات بہت ناگوار گزری لیکن انصار اس پر جمع ہوگئے اور انہوں نے کہا : سعد ابن عبادہ نے جو کچھ کہا ہے وہ ہمارے لیے بڑی آزمائش تھی۔ اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ نبی ﷺ ہلال ابن امیہ کو کوڑے لگائیں اور لوگوں کے اندر ان کی شہادت ہمیشہ کے لیے غیر مقبول ہوجائے۔ اس پر ہلال ابن امیہ نے کہا : خدا کی قسم مجھے امید ہے کہ اللہ اس سے نکلنے کی کوئی راہ ضرور نکالے گا۔ ہلال نے حضور اکرم ﷺ سے کہا کہ رسول خدا میں جانتا ہوں کہ میری اس بات سے آپ ﷺ پر کس قدر ناگواری کی حالت آگئی ہے لیکن اللہ جانتا ہے کہ میں سچاہوں۔ خدا کی قسم رسول خدا ﷺ ارادہ کر ہی رہے تھے کہ ہلال ابن امیہ پر حد قذف نافذ کرنے کا حکم دیں کہ اچانک وحی آگئی۔ اور جب آپ ﷺ پر وحی آتی تھی تو صحابہ کرام فوراً سمجھ لیتے تھے کہ نزول وحی شروع ہے۔ تمام صحابہ ؓ آپ ﷺ سے علیحدہ ہوجاتے تھے یہاں تک کہ نزول وحی کا عمل مکمل ہوجاتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

(والذین یرمون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شھدت باللہ) (24 : 7) ” اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام ) میں سچا ہے۔

رسول اللہ ﷺ پر سے حالت وحی دور ہوگئی تو آپ ﷺ نے فرمایا ہلال ! مبارک ہو۔ اللہ نے تیرے لیے آسانی پیدا کردی ہے اور اس مشکل سے نکلنے کی راہ نکالی ہے۔ تو ہلال نے کہا میں امید کررہا تھا کہ اللہ میرے لیے کوئی راہ نکالے گا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ اس عورت کو بلایا جائے۔ وہ آگئی۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیات دونوں کو پڑھ کر سنائیں۔ ان کو نصیحت کی اور ان کو بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کی سزا سے بہت ہی تھوڑا ہے تو ہلال نے کہا رسول خدا ﷺ اللہ کی قسم میں نے اس کے بارے میں سچ کہا ہے اور اس عورت نے جواب میں کہا۔ یہ جھوٹ کہتا ہے۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا ان دونوں کے درمیان لعان کرادو۔ تو ہلال کو کہا گیا تم چار بار شہادت دو کہ تم سچ کہتے ہو۔ جب پانچویں بار شہادت دینے لگا تو اسے کہا گیا : اللہ سے ڈرو ‘ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ اور یہ شہادت جو فریق مخالف پر سزا واجب کرنے والی ہے ‘ تیرے لیے موجب عذاب ہوگی۔ تو ہلال نے کہا خدا کی قسم اس کے بارے میں مجھے اللہ ہر گز عذاب نہیں دے گا۔ جس طرح اس نے مجھے کوڑوں کی سز نہیں دی تو پانچویں مرتبہ ہلال نے شہادت دی کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اس کے بعد عورت سے کہا گیا کہ تم چار شہادتیں دو کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ اس سے کہا گیا خدا سے ڈرو اور دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہی ہلکا ہے اور یہ پانچویں بار عذاب کو واجب کرنے والی ہے اور یہ تم پر عذاب کو واجب کردے گی۔ وہ کچھ دیر کے لیے ہچکچائی اور ارادہ کرلیا کہ اعتراف کرلے۔ اس کے بعد اس نے کہا میں اپنی قوم کو شرمندہ نہیں کروں گی۔ چناچہ اس نے پانچویں مرتبہ شہادت دی کہ اس پر اللہ کا غضب ہوگا۔ اگر وہ سچا ہو۔ رسول اللہ نے دونوں کے درمیان تفریق کردی اور یہ فیصلہ کیا کہ اس کے بچے کو اباپ کی طرف منسوب نہ کیا جائے گا۔ نہ اس کے بچے پر تہمت لگائی جائے گی۔ جس نے اس کے بچے کو دلد الزنا کہا ‘ اس پر حد جاری ہوگی۔ یہ بھی حکم دیا کہ اس عورت کے لیے خاوند کے ذمہ رہائش کی جگہ فراہم کرنا لازم نہ ہوگا نہ خوراک لازم ہوگی۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان بغیر طلاق کے تفریق کردی گئی ہے۔ اور حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس کا بچو قدرے سرخ بالوں والا ‘ دبلے چوتڑ والا اور پتلی ٹانگوں والا ہوا تو وہ ہلال کا بچہ ہوگا اور اگر گندم گوں رنگ لیچدار بالوں والا ‘ موٹے اعضا والا ‘ موٹی پنڈلیوں والا ہوا ‘ بھرے ہوئے چوتڑ والا ہوا تو پھر یہ اس شخص کا بیٹا ہوگا جس کے ساتھ وہ بد نام ہوئی۔ تو جب اس کا بچو پیدا ہوا تو وہ کدرے لیچدار بالوں والا ‘ موٹے اعضا والا اور موٹی ٹانگوں والا اور بھرے ہوئے چوتڑ والا تھا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر ایمان نہ ہوتا تو میں اس عورت کے ساتھ دیکھ لیتا “۔

یہ قانون لعان تھا اور یہ ایک عملی ضرورت کے تحت نازل ہوا ۔ اس نے مسلمانوں کے لیے درپیش ایک مشکل مسئلے کو حل کردیا۔ یہ مسئلہ اس قدر مشکل تھا کہ خود رسول اللہ ﷺ کو اس کا کوئی حل نظر نہ آتا تھا۔ جیسا کہ روایت بخاری میں آتا ہے۔ آپ ﷺ نے ہلال ابن امیہ سے کہا کہ یا تو گواہ لائو اور یا تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی۔ اور ہلال یہی کہتے رہے کہ حضور ﷺ ایک شخص دیکھے کہ اس کی بیوی پر ایک شخص چڑھا ہوا ہے کیا وہ جائے گا کہ گواہ تلاش کرے۔

یہاں سوال کرنے والا یہ سوال کرسکتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو علم نہ تھا کہ حد قذف کے عام قانون کے بعد اس قسم کا مسئلہ پیدا ہوگا تو یہ استثناء اللہ نے پہلے کیوں نہ نازل کردی اور کیوں اللہ تعالیٰ نے ایسی مشکل پیدا ہونے دی ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ جانتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے تشریح کے لیے یہ کمت وضع کی تھی کہ قانون اس وقت نازل ہو جب لوگوں کے اندر اس کی ضرورت کا احساس پیدا ہوجائے تاکہ لوگ اسے نہایت ہی بےتابی کے ساتھ قبول کریں۔ اور ان کو اس قانون کے اندر پائے جانے والی حکمت کا اچھی طرح علم ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد یہ تبصرہ آیا۔

(ولولا۔۔۔۔۔۔۔ حکیم) (24 : 10) ” اگر اللہ کا فضل و رحمت نہ ہوتی اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بہت ہی التفات کرنے والا اور رحیم ہے تو۔۔۔ “ اب ذرا اس واقعہ پر غور کیجئے ۔ دیکھئے کہ اسلام کس طرح کام کررہا تھا اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی تربیت کس طرح کام کررہی تھی اور کس قدر موثر تھی اور اس قرآن کے ذریعے کس طرح ایک بالکل نئی سوسائٹی کو تعمیر کیا جارہا تھا۔ اسلام نے عربوں جیسی غیور قوم کی کس طرح تربیت کردی تھی۔ کس طرح انکو بدل کر رکھ دیا۔ یہ لوگ اس قدر غیور اور جذباتی تھے کہ قانون حد قذف نازل ہوگیا۔ ان جذباتی لوگوں کے لیے یہنہایت ہی مشکل قانون ہے وہ تو مشتعل ہوتے ہی عظیم سے عظیم کام کر گزرنے والے تھے۔ ان پر یہ نہایت ہی شاق گزرتا ہے۔ اس قدر شاق کہ حضرت سعد ابن عبادہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھتے ہیں کہ آیا فی الواقع یہ قانون اسی طرح نازل ہوا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں لیکن ان کو معلوم ہے کہ قانون تو نازل ہوگیا ہے۔ اس سوال سے دراصل وہ اس مشکل کا احساس کرتے ہیں کہ اگر یہ صورت حالات ان کے اپنے گھر میں پیش آجائے تو وہ اس کس طرح برداشت کریں گے۔ وہ اس تلخ حقیقت کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ میں جانتا ہوں کہ یہ حق ہے اور یہ اللہ کی جانب سے ہے لیکن مجھے اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ اگر میں ایک شخص کو دیکھوں کہ اس نے (مکاعض کی ران کے ساتھ ران ملا دی ہے اور مجھے یہ اجازت نہ ہو کہ اسے پریشان کروں یا اسے اپنی جگہ سے ہٹائوں جب تک میں چار گواہ نہ لائوں۔ خدا کی قسم میں چار گواہ لائوں گا مگر اس نے اپنا کام پورا کرلیا ہوگا۔

یہ تو تھا سعد ابن عبادہ کا نظریاتی خیال اور سوچ۔ لیکن ایک متعین شخص اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہا ہے کہ اس کی بیوی کے ساتھ یہ بد کاریہورہی ہے اور وہ رک گیا ہے بلکہ قرآن نے اسے روک دیا ہے۔ یہ شخص اپنے جذبات ‘ جذبہ انتقام ‘ سخت عربی غیرت اور خون کے اندر پیدا ہونے والے فوری جوش اور اعصاب کی ناقابل کنٹرول حرکت کو قابو میں لاتا ہے۔ اپنے اوپر ناقابل شکست کنٹرول کرتا ہے جس کا کوئی عربی معاشرے میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہ بےبس ہو کر آتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کا انتظار کرتا ہے۔ اگر چہ اس کے لیے یہ مسئلہ نہایت ہی شاق گزر رہا ہے لیکن قرآن کریم نے ان لوگوں کی ایسی تربیت کردی ہے کہ یہ شخص جذبات کے اس طوفان کو پوری طرح کنٹرول کرتا ہے تاکہ حکم وہی ہو جو اللہ کی طرف سے آئے۔ اس کے نفس میں اور اس کی ذات کے تمام معاملات میں۔

یہ تربیت کیسے ممکن ہوئی ؟ یہ اس طرح ہوئی کہ ان کو یہ پورا یقین تھا کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور یہ کہ وہ لوگ اللہ کی نگرانی اور حفاظت میں ہیں۔ اللہ ان کی رعایت کرتا ہے اور ان کو ایسی مصیبت میں نہیں ڈالتا جسے وہ برداشت نہ کرسکیں اور یہ کہ اللہ ان کو ایسی مشکلات میں نہیں چھوڑتا کہ وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوں۔ اللہ کبھی بھی انسانوں پر ظلم نہیں کرتا۔ یہ لوگ ہمیشہ اللہ کے زیر سایہ رہتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم کی فضا میں سانس لے رہے تھے۔ وہ ہر وقت اللہ کی طرف اس طرح دیکھ رہے تھے جس طرح ایک بچہ اپنے رحیم و کریم باپ کی طرف دیکھتا ہے۔ ہلال ابن امیہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور کانوں سے سن رہا ہے۔ یہ اکیلا ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے شکایت کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ قانون میں کوئی صورت ماسواء نفاذ حد قذف کے اور نہیں پاتے۔ حضور ﷺ اعلان بھی کردیتے ہیں کہ شہادت یا حد ہے اور تمہاری پیٹھ پر ہے لیکن ہلال ابن امیہ کو یقین ہے کہ اللہ اسے ایسے حالات میں بےسہارا نہیں چھوڑے گا جبکہ وہ ہے بھی سچا۔ چناچہ اللہ کی طرف سے یہ استثناء آجاتا ہے اور رسول اللہ ﷺ ہلال ابن امیہ کو خوشخبری دیتے ہیں اور وہ اپنے اس اطمینان کو پھر دہراتے ہیں کہ مجے رب عزوجل سے یہی امید تھی۔ ان لوگوں کو پورا پورا اطمینان تھا کہ وہ اللہ کی نگرانی میں ہیں اور اللہ دیکھ رہا ہے اور یہ کہ وہ خود اپنے اختیار میں چھوڑ نہیں دیئے گئے کہ معاملات کو خود طے کریں۔ وہ تو اللہ کے سامنے اس کے دربار میں ہیں۔ یہ ہے حقیقی ایمان ‘ اطاعت اور تسلیم ورضا جو اصحاب محمد ﷺ کی شان تھی۔

اب سیاق کلام حد قذف کے قانون کے درمیان سے آگے بڑھتا ہے اور جرم قذف کے گھنائو نے پن کی ایک اور جھلک دکھائی جاتی ہے۔ اس کا تعلق حضور اکرم ﷺ کے گھرانے سے ہے۔ خود حضور اکرم ﷺ کی عزت اس میں دائو پر لگی ہوئی ہے۔ حضور اکرم ﷺ اللہ کے مکرم ترین بندے ہیں۔ پھر اس واقعہ میں حضرت صدیق ؓ کی عزت بھی دائو پر لگی ہوئی ہے جو نبی ﷺ کے ساتھیوں میں سے مکرم ترین انسان ہیں۔ پھر نبی ﷺ کے ایک دوسرے ساتھی صفوان ابن المعطل ؓ کی عزت کا بھی مسئلہ ہے۔ حضور اکرم ﷺ خود شہادت دیتے ہیں کہ صفوان کے بارے میں آپ ﷺ بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ یہ واقعہ ایسا ہے جس میں مدینہ کے اہل اسلام ایک ماہ تک بےحد پریشانی میں مبتلا رہے۔

اردو ترجمہ

اور پانچویں بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ (اپنے الزام میں) جھوٹا ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalkhamisatu anna laAAnata Allahi AAalayhi in kana mina alkathibeena

اردو ترجمہ

اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص (اپنے الزام میں) جھوٹا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayadrao AAanha alAAathaba an tashhada arbaAAa shahadatin biAllahi innahu lamina alkathibeena

اردو ترجمہ

اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اُس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ (اپنے الزام میں) سچا ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalkhamisata anna ghadaba Allahi AAalayha in kana mina alssadiqeena

اردو ترجمہ

تم لوگوں پر اللہ کا فضل اور اس کا رحم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا التفات فرمانے والا اور حکیم ہے، تو (بیویوں پر الزام کا معاملہ تمہیں بڑی پیچیدگی میں ڈال دیتا)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walawla fadlu Allahi AAalaykum warahmatuhu waanna Allaha tawwabun hakeemun
350