اس صفحہ میں سورہ Al-Insaan کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الانسان کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا۔ } ”کیا انسان پر اس زمانے میں ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جبکہ وہ کوئی قابل ذکر شے نہ تھا ؟“ ”دَہْر“ سے مراد وہ لامتناہی زمانہ ہے جس کی نہ ابتدا انسان کو معلوم ہے نہ انتہا ‘ جبکہ ”حِیْن“ سے مراد وہ خاص وقت ہے جو اس لامتناہی زمانے کے اندر کبھی پیش آیا ہو - - چناچہ ”دَہْر“ دراصل وقت کا وہ سمندر ہے جس کے اندر سے کائنات میں رونما ہونے والے ہر قسم کے واقعات و حادثات جنم لیتے ہیں۔ وقت کے اسی سمندر میں سے ہم انسان بھی نکلے ہیں۔ ع ”قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانند ِحباب“ اقبال۔ چناچہ اس قلزم ہستی کے اندر ہر انسان پر ایک وقت ایسا بھی آیا ہے جب اس کا وجود حقیر پانی کی ایک ایسی بوند کی شکل میں تھا جس کا ذکر کرنا اور نام لینا بھی کوئی پسند نہیں کرتا۔
آیت 2 { اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ } ”ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ملے جلے نطفے سے“ موجودہ دور میں سائنس نے اس آیت کا مفہوم بہت اچھی طرح واضح کردیا ہے کہ مرد کی طرف سے spermatozoon اور ماں کی طرف سے ovum ملتے ہیں تو zygote وجود میں آتا ہے۔ لیکنظاہر ہے پندرہ سو سال پہلے صحرائے عرب کا ایک بدو تو لفظ ”اَمْشَاج“ کو اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق ہی سمجھا ہوگا۔ گویا قرآن مجید کے اعجاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے الفاظ کا مفہوم ہر زمانے کے ہر قسم کے انسانوں کے لیے قابل فہم رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان الفاظ کے معانی و مطالب میں نئی نئی جہتیں بھی دریافت ہوتی رہتی ہیں۔ { نَّـبْـتَلِیْہِ } ”ہم اس کو الٹتے پلٹتے رہے“ یعنی رحم مادر میں ہم نے اس ”نُطْفَۃٍ اَمْشَاج“ کو مختلف مراحل سے گزارا۔ نطفہ سے اسے علقہ بنایا۔ علقہ کو مغضہ کی شکل میں تبدیل کیا اور پھر اس کے اعضاء درست کیے۔ ”نَـبْـتَلِیْہِ“ کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے ”تاکہ ہم اس کو آزمائیں“۔ یعنی ہم نے انسان کو امتحان اور آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔ { فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا۔ } ”پھر ہم نے اس کو بنا دیا سننے والا ‘ دیکھنے والا۔“
آیت 3{ اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ } ”ہم نے اس کو راہ سجھا دی“ اس سے مراد ”ایمان“ سے متعلق وہ شعور یا وہ ہدایت اور راہنمائی ہے جو ہر انسان کی فطرت کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہے۔ یعنی انسان اندھا اور بہرہ پیدا نہیں ہوا ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظاہری اور باطنی طور پر بہترین صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جسمانی حواس بھی دیے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسے روح کی بصیرت بھی عطا کی ہے۔ { اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا۔ } ”اب چاہے تو وہ شکر گزار بن کر رہے ‘ چاہے ناشکرا ہوکر۔“ اب ظاہر ہے جس انداز اور طریقے سے انسان زندگی گزارے گا ‘ اسی کے مطابق آخرت میں اس کو بدلہ دیا جائے گا۔
آیت 5{ اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوْرًا۔ } ”یقینا نیکوکار بندے ایسی شراب کے جام نوش کریں گے جس میں کافور کی ملونی ہوگی۔“ ایک طرف کفار و مشرکین زنجیروں اور طوقوں میں جکڑے جہنم کی آگ میں جل رہے ہوں گے تو دوسری طرف اللہ کے فرمانبردار اور نیکوکار بندے جنت کی نعمتوں میں داد عیش دے رہے ہوں گے۔ جنت میں انہیں آبِ کافور کی آمیزش والی شراب طہور بھی پیش کی جائے گی۔ آگے اس چشمہ کافور کی مزید وضاحت ہے :