سورۃ الانسان (76): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Insaan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الانسان کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانسان کے بارے میں معلومات

Surah Al-Insaan
سُورَةُ الإِنسَانِ
صفحہ 578 (آیات 1 سے 5 تک)

سورۃ الانسان کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

کیا انسان پر لا متناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hal ata AAala alinsani heenun mina alddahri lam yakun shayan mathkooran

یہ استفہام تقریری ہے ، یعنی کسی چیز کے بارے میں دریافت کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کی اطلاع دینا مقصود ہے کہ ایسا ضرور تھا۔ لیکن سوالیہ انداز اس لئے اختیار کیا گیا کہ انسان کو خود اس حقیقت کے بارے میں سوال کرنا چاہئے ، اور سوچنا چاہئے کہ وہ کسی وقت کوئی قابل ذکر شے نہ تھا اور جب وہ اب ایک قابل ذکر شے ہے تو اسے دست قدرت کا کسی قدر تو شعور ہونا چاہئے جو اسے عدم سے وجود میں لائی اور تاریکیوں سے روشنی کی طرف لائی۔ جہاں یہ اس دنیا کے اسٹیج پر اپنا کردار ادا کررہا ہے۔

بہرحال استفہامیہ اور سوالیہ انداز میں ، اس مقام پر چند حقائق کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔ یہ نہایت ہی اونچے درجے کے اشارات ہیں۔ گہرے حقائق ہیں اور ان کو پیش نظر رکھ کر قابل غور نکات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔

ایک نکتہ یہ ہے کہ ذرا اپنے وجود میں آنے سے قبل اور آغاز وجود کے زمانے اور حالات پر غور کرو ، کہ یہ دنیا ایسی ہی تھی اور اس پر انسان آباد نہ تھا۔ ذرا غور کرو کہ اس وقت یہ دنیا کیسی لگ رہی ہوگی ؟ انسان اللہ کی ایک مخلوق ہے ، لیکن اپنے آپ کو ایک بڑی چیز سمجھتا ہے اور مغرور ہے۔ لیکن وہ نہیں سوچتا کہ یہ دنیا اس کے وجود میں آنے سے بھی پہلے زمانوں سے ایسی ہی تھی۔ بلکہ اس کائنات کی مخلوق انسان کی تخلیق کی توقع ہی نہ رکھتی تھی۔ لیکن اللہ کا ارادہ ہو اور اس نے انسان کی تخلیق فرمائی۔

ایک نکتہ یہ ہے کہ ذرا ان لمحات پر غور کرو جن میں یہ مخلوق انسانی وجود میں آئی۔ ان لمحات کے بارے میں انسان تو ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے جبکہ تخلیق انسان کے آغاز کا علم تو خالق کائنات ہی کو ہوسکتا ہے۔ یہ تو خالق ہی جانتا ہے کہ اس کائنات اور دنیا میں حضرت انسان کا اضافہ کس طرح ہوا۔ اس کائنات کی طویل تایرخ میں اللہ ہی نے انسان کے لئے مخصوص کردار متعین کیا ہے۔

ایک نکتہ یہ ہے اس ذات انسان کو ، کائنات کے اس اسٹیج پر ، دست قدرت نے کس طرح لاکر کھڑا کیا اور ایک ذمہ داری اور ایک کردار اس کے سپرد کیا ؟ اس کے لئے اسے تیار کیا۔ اس کے کردار کا تانا بانا اس پوری کائنات کے خطوط کے ساتھ ملایا۔ اور وہ حالات اس کے لئے مہیا کیے جن کے اندر اس کے لئے وہ کردار ادا کرنا ممکن اور آسان ہو۔ جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ اور اس کے بعد قدم قدم پر اس کے لئے سہولیات فراہم کیں۔ یوں یہ حضرت انسان اس کائنات کی ہر چیز کے ساتھ وابستہ وپیوستہ ہوگیا۔

بہت سے اشارات ہیں اور بہت سے قابل غور نکات ہیں جو یہ آیات قلب انسانی کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ جن سے انسانی سوچ اور انسانی فکر ، انسان کے مقصد وجود ، اس کے ارادوں اور آغاز سے انجام تک ہر مرحلے پر اس کے نظام تقدیر کے نکات اخذ کرتی ہے۔

یہ تو تھے نکات انسان کے آغاز تخلیق کے متعلق۔ رہا وہ نظام جو نسل انسانی کے بقائے دوام کے لئے اور تاقیامت تسلسل کے لئے وضع کیا گیا تو وہ نظام بالکل مختلف ہے اور اس کا ایک اپنا قصہ ہے۔

اردو ترجمہ

ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اِس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna khalaqna alinsana min nutfatin amshajin nabtaleehi fajaAAalnahu sameeAAan baseeran

انا خلقنا ............................ بصیرا (2:76) ” ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لئے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا “۔

امشاج کے معنی ہیں مخلوط۔ یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جب مرد کا خلیہ عورت کے ہیضے میں داخل ہوکر اس کے ساتھ خلط ہوجاتا ہے اور اس میں مرد اور عورت کی موروثی خصوصیات کی طرف اشارہ بھی ہوسکتا ہے ، جن کو علمائے حیاتیات ” جینز “ کہتے ہیں۔ یہ وہ خصائص ہیں جو جنس انسانی کو دوسرے زندہ اجناس سے ممیز کرتے ہیں ، پھر اس کے ذریعہ خاندانی موروثی خصائص بھی بچے میں منتقل ہوتے ہیں۔ اور انسانی نطفہ انسانی جنین کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اور دوسرے حیوانات سے مختلف شکل اختیار کرتا ہے اور یہی مخلوط نطفہ ہے جس کی طرف مرد اور عورت کی وراثتی خصوصیات منسوب کی جاتی ہیں بلکہ یہ مخلوط نطفہ کئی مختلف وراثتی خصوصیات کا محزن ہوتا ہے۔

یوں اللہ نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔ یہ نہ اتفاقاً پیدا ہوا ہے۔ اور نہ اس کی تخلیق ایک بےمقصد اور عبث ہے۔ اسے کھیل کے طور پر پیدا کیا گیا ہے۔ بلکہ انسان کو ایک ذمہ دار مخلوق کے طور پر امتحان اور آزمائش کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ آزمائش کیا ہے ؟ کیا امتحان ہے ؟ اور اس امتحان کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ البتہ انسان دنیا کے اسٹیج پر جو ڈرامہ کرتا ہے ، یہ محض نتیجے کے اظہار کے لئے ہے تاکہ یہ نتیجہ کھلی عدالت میں پیش ہو اور اس کے اوپر جزا وسزا مرتب ہوں۔ اور لوگ اپنے اچھے اور برے انجام تک پہنچیں۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ نے انسان کو سمیع وبصیر بنایا ہے۔ یعنی اسے ادراک کے وسائل دیئے ہیں کہ وہ نیک وبد کو سمجھ سکے اور جان سکے ۔ اور اس دنیا کے افعال واشیاء کی حقیقت کو اچھی طرح پاسکے اور اس امتحان کو اچھی طرح پاس کرسکے۔

پس اللہ تعالیٰ نے انسان کے سلسلہ توالد وتناسل کو چلانے کا جو ارادہ کیا اور اس کے لئے جو نظام متعین فرمایا وہ نطفہ مخلوط سے اس کی تخلیق کا نظام ہے۔ اور اس میں گہری حکمت اور گہری مقصدیت ہے۔ یہ کوئی اتفاقی اور بےسوچے سمجھے کا سلسلہ نہیں ہے۔ اور یہ حکمت اور مقصد اس انسان کو آزمانا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس ذات کے اندر ہدایت کے اخذ کرنے اور حق کی قبولیت کی استعداد رکھی۔ اور پھر اسے علم ومعرفت اور قدرت واختیار عطا کیا گیا اور یہ تمام صلاحیتیں ، علم وادراک اور اخذ ہدایت اور تربیت کی اللہ نے ایک نہایت ہی متعین وزن اور مقدار کے ساتھ اسے عطا کیں۔

پھر علم ومعرفت اور فہم وادراک کے ساتھ ساتھ اسے یہ قدرت اور اختیار بھی دیا کہ وہ راہ حق کو اختیار کرے۔ چناچہ اسے حق و باطل کی تمیز دے کر چھوڑ دیا کہ جو راہ چاہے اختیار کرے۔ خواہ اللہ کی راہ اختیار کرے یا اس کے سوا کوئی اور راہ اختیار کرے۔

اردو ترجمہ

ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna hadaynahu alssabeela imma shakiran waimma kafooran

انا ھدینہ ............................ کفورا (3:76) ” اور ہم نے اسے راستہ دکھادیا ، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا “۔ یہاں اللہ نے راہ ہدایت کی تعبیر شکر نعمت سے کی ہے۔ کیونکہ جب کسی کو ہدایت عطا کردی جاتی ہے تو اس کے پردہ شعور پر سب سے پہلے شکر کا احساس نمودار ہوتا ہے ، وہ جانتا ہے کہ وہ قابل ذکر چیز نہ تھا ، تو اللہ تعالیٰ نے اسے انسانیت عطا کرکے ایک قابل ذکر چیز بنایا۔ پھر اسے سمع وبصر کرکے دوسرے حیوانات سے ممتاز کیا اور یوں وہ علم ومعرفت پر قادر ہوا ، پھر اسے ازروئے فطرت اور بذریعہ انبیاء ہدایت عطا فرمائی اور آزاد چھوڑ دیا کہ وہ راہ ہدایت اختیار کرکے مشکور بنے یا راہ ضلالت اختیار کرکے کفور اور ناشکرا بنے۔ لفظ کفور کے مفہوم میں ہے کہ ناشکری میں وہ غلو کرے۔

ان تین توجہ مبذول کرنے والی چٹکیوں اور تنبیہات کے بعد اب انسان محسوس کرلیتا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار اور بامقصد مخلوق ہے اور وہ آزاد نہیں ہے بلکہ ایک محور کے گرد بندھا ہوا ہے۔ اور گھوم رہا ہے۔ اور اسے جو صلاحیتیں دی گئی ہیں ان پر اس سے حساب کیا جارہا ہے اور یہ جہاں اس کے لئے دارالامتحان ہے۔ یہاں اسے آزمائشی طور پر رکھا گیا ہے۔ یہاں اسے کھیل کے میدان میں نہیں اتارا گیا بلکہ امتحان کے کمزرہ میں بٹھایا گیا ہے۔ غرض ان مختصرتین آیات سے فکرونظر کا بےبہا خزانہ نکلتا ہے اور بلند افکار اور تصورات اور گہری حکمت کے جوہر ظاہر ہوتے ہیں جبکہ ان تمام نکات کے نتیجے میں انسان پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور شعور کی پختگی اور طرز عمل میں سنجیدگی اور وقار حاصل ہوتا ہے۔ یہ مختصر آیات انسان کا نظریہ حیات متعین کردیتی ہیں۔ اس کے وجود کا مقصد بتاتی ہیں اور زندگی کا شعور عطا کرتی ہیں۔ اور ان کی روشنی میں انسان اپنی زندگی اور اس کی قدروں کا تعین کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان آیات کے بعد متصلایہ بتادیا جاتا ہے کہ اس آزمائش اور ابتلا کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے۔ اور انسان اگر شکر کی راہ لے گا تو نتیجہ کیا ہوگا اور اگر انسان کفر اور کفران کی راہ لے گا تو انجام کیا ہوگا ؟

جو کفر اور ناشکری کی راہ لیں گے ، ان کا انجام نہایت ہی اختصار کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ یہ کیوں ؟ اس لئے کہ پوری سورت کی فضا اور اس کا انداز نرم ونازک اور سہولتوں اور خوشیوں اور جنتوں کی دائمی نعمتوں کا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ عذاب جہنم کی تفصیلات دے کر اس سورت کی فضا کو مکدر کرنا نہیں چاہتے۔ نہایت اختصار کے ساتھ فرماتے ہیں :

اردو ترجمہ

کفر کرنے والوں کے لیے ہم نے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna aAAtadna lilkafireena salasila waaghlalan wasaAAeeran

انا اعتدنا ........................................ سعیرا

” کفر کرنے والوں کے لئے ہم نے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کررکھی ہے “۔ زنجریں ان کے پاﺅں میں ہوں گی ، طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے ، یہ لوگ زنجیروں میں بندھے ہوئے اور ہتھ کڑیوں میں جکڑے ہوئے جہنم میں گرائے جائیں گے۔ لیکن اس مختصر ذکر کے بعد اب جنت کی نعمتوں کی طرف روئے سخن پھرجاتا ہے اور نہایت سرعت کے ساتھ اور قدرے تفصیل کے ساتھ۔

اردو ترجمہ

نیک لوگ (جنت میں) شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آب کافور کی آمیزش ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna alabrara yashraboona min kasin kana mizajuha kafooran

ان الابرار .................................... تفجیرا

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک لوگوں کا مشروب ایسا ہوگا کہ اس میں کافور کی ملاوٹ ہوگی ، یہ مشروب ایک ایسے چشمے سے بھر کردیا جائے گا ، جو ان کے لئے خصوصی طور پر بہایا گیا ہوگا۔ یعنی وہ نہر کی طرح وافر اور کثیر مقدار میں ہوگا۔ عربوں کی یہ عادت تھی کہ شراب میں کبھی کافور اک بھی زنجبیل (سونٹھ) کا آمیزہ کرتے تھے۔ اور اس طرح شراب کو زیادہ لذیذ بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ یہاں انہیں بتایا جاتا ہے کہ جنت میں بھی پاک اور صاف مشروب ہوگا ، جس میں کافور کا آمیزہ ہوگا اور یہ شراب بڑی وافر مقدار میں ہوگی۔ اس کا معیار کیا ہوگا ، یہ دنیا کی شراب کے مقابلے میں بہت خوش ذائقہ ہوگی اور اس کی لذت اس قدر زیادہ ہوگی کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ تو درحقیقت قریب الفہم بنانے کے لئے ان اصطلاحات کے اندر کہا جارہا تھا تاکہ لوگ سمجھ سکیں ورنہ جنت کی نعمتیں عالم غیب میں ہیں۔ ان کا صحیح تصور اور ان کی تصحیح تعبیر ہم نہیں کرسکتے۔

اہل جنت کو پہلی آیت میں الابرار کہا گیا ہے اور دوسری میں عباد اللہ کہا گیا ہے۔ یہ محض قرب و محبت کے اظہار کے لئے اور فضل وکرم کے اعلان کے لئے ہے اللہ کے یہ بندے اللہ کے قریب ہوں گے۔ اور ان کے اوصاف اور خدوخال یہ ہوں گے :

578