سورۃ الجن (72): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Jinn کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الجن کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الجن کے بارے میں معلومات

Surah Al-Jinn
سُورَةُ الجِنِّ
صفحہ 572 (آیات 1 سے 13 تک)

قُلْ أُوحِىَ إِلَىَّ أَنَّهُ ٱسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ ٱلْجِنِّ فَقَالُوٓا۟ إِنَّا سَمِعْنَا قُرْءَانًا عَجَبًا يَهْدِىٓ إِلَى ٱلرُّشْدِ فَـَٔامَنَّا بِهِۦ ۖ وَلَن نُّشْرِكَ بِرَبِّنَآ أَحَدًا وَأَنَّهُۥ تَعَٰلَىٰ جَدُّ رَبِّنَا مَا ٱتَّخَذَ صَٰحِبَةً وَلَا وَلَدًا وَأَنَّهُۥ كَانَ يَقُولُ سَفِيهُنَا عَلَى ٱللَّهِ شَطَطًا وَأَنَّا ظَنَنَّآ أَن لَّن تَقُولَ ٱلْإِنسُ وَٱلْجِنُّ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا وَأَنَّهُۥ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ ٱلْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ ٱلْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا۟ كَمَا ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَبْعَثَ ٱللَّهُ أَحَدًا وَأَنَّا لَمَسْنَا ٱلسَّمَآءَ فَوَجَدْنَٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَٰعِدَ لِلسَّمْعِ ۖ فَمَن يَسْتَمِعِ ٱلْءَانَ يَجِدْ لَهُۥ شِهَابًا رَّصَدًا وَأَنَّا لَا نَدْرِىٓ أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَن فِى ٱلْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا وَأَنَّا مِنَّا ٱلصَّٰلِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ كُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًا وَأَنَّا ظَنَنَّآ أَن لَّن نُّعْجِزَ ٱللَّهَ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَن نُّعْجِزَهُۥ هَرَبًا وَأَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا ٱلْهُدَىٰٓ ءَامَنَّا بِهِۦ ۖ فَمَن يُؤْمِنۢ بِرَبِّهِۦ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَلَا رَهَقًا
572

سورۃ الجن کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الجن کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر (جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا: "ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul oohiya ilayya annahu istamaAAa nafarun mina aljinni faqaloo inna samiAAna quranan AAajaban

قل اوحی ........................ احد

نفر اور رھط کا اطلاق تین سے نو تک ہوتا ہے جبکہ جنوں کے بارے میں روایت ہے کہ یہ نو تھے۔ جس انداز سے یہاں اس واقعہ کا آغاز کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ یوں تھا کہ حضور ﷺ نے قرآن کی تلاوت فرمائی اور جنوں نے قرآن کو سنا اور پھر اپنی قوم کے پاس جاکر انہوں نے تبلیغ کی اور اس کا علم حضور اکرم ﷺ نے قرآن کی تلاوت فرمائی اور جنوں نے قرآن کو سنا اور پھر اپنی قوم کے پاس جاکر انہوں نے تبلیغ کی اور اس کا علم حضور اکرم ﷺ کہ نہ تھا ، اس تمام واقعہ کی اطلاع اللہ نے حضور ﷺ کو بذریعہ وحی دی اور یہ پہلا واقعہ تھا اور اس کے بعد بھی کئی واقعات ہوئے ہوں گے کہ حضور ﷺ نے قرآن پڑھا اور جنوں نے سنا ہوگا۔ اور اس بات کا اظہار حضور ﷺ کی قرات کے بارے میں وارد احادیث سے بھی ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے یہ جانتے ہوئے اسے پڑھا کہ جن بھی سنتے ہیں۔ امام ترمذی نے حضرت جابر ابن عبداللہ سے روایت کی ہے : ” حضور اکرم ﷺ نکلے اور اپنے ساتھیوں کے سامنے سورة رحمان کی تلاوت فرمائی ، اول سے آخر تک ، سب لوگ خاموش ہوگئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا یہ سورت میں جنوں پر تلاوت کی ہے ، وہ اس کا تم سے اچھا جواب دینے والے تھے۔ جب بھی میں پڑھتا۔

فبای ................ تکذبن ، تو وہ جواب میں کہتے۔

لا بشئی ................ الحمد ” اے ہمارے رب ، ہم تیری نعمتوں میں سے کسی چیز کی تکذیب نہیں کرتے لہٰذا سب تعریفیں تیرے لئے ہیں “۔ اس روایت سے ابن مسعود کی روایت کی تائید ہوتی ہے ، جس کو ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔

یہ پہلا موقعہ ہے جس میں جنوں کے سماعت قرآن کی بات کی گئی ہے۔ اسی موقعہ کے بارے میں سورة احقاف کی آیات میں بھی بات کی گئی ہے۔

واذصرفنا ............................ ضلل مبین (64 : 92 تا 23) ” جس وقت متوجہ کیا ہم نے آپ کو طرف جنوں میں سے کچھ لوگ ، جو سننے لگے قرآن مجید کو ، پھر وہ جب وہاں پہنچ گئے ، بولے ، چپ رہو ، پھر جب تلاوت خیم ہوئی تو واپس ہوئے اپنی قوم کی طرف ان کو ڈراتے ہوئے ، کہنے لگے اے ہماری قوم کے لوگو ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد اتری ہے ، یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے ۔ سچائی کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔ ایک سیدھے راستے کی طرف ، اے ہماری قوم کے لوگو ! اللہ کی طرف بلانے والے کو مان لو ، ایمان لاﺅ اس پر ، اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں عذاب الیم سے نجات دے گا۔ اور جو کوئی اللہ کی طرف بلانے والے کی بات مانے گا تو وہ اس بات کو زمین میں روک نہ سکے گا اور اللہ کے سوا اس کا کوئی مددگار نہ ہوگا اور ایسے لوگ کھلی گمراہی میں ہوں گے۔ “

انا سمعنا ............ عجبا (27 : 1) ” ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے “۔ قرآن کریم کی جو پہلی خصوصیت ان کو اضح نظر آئی وہ یہ تھی کہ یہ عجیب اور غیر مالوف ہے اور اس کو سن کر دلوں کے اندر خوف پیدا ہوجاتا ہے۔ جو شخص بھی قرآن مجید کو تیز احساس اور کھلے دل کے ساتھ پڑھے گا ، دل کی کشادگی اور معتدل ذوق کے ساتھ پڑھے گا یا سنے گا ، وہ اس سے مرعوب ہوجائے گا۔ اور اسے نظر آئے گا کہ یہ ایک عجیب چیز ہے۔ اس کے اندر قوت استدلال ہے۔ اس کے اندر بےپناہ جاذبیت ہے۔ اور اس کے اثرات اس قدر شدید ہیں کہ قلب وضمیر کے تاروں کے اندر ایک زبردست ارتعاش اور نغمہ پیدا کردیتا ہے۔ یہ عملاً بھی عجیب ہے۔ اس پر جنات کا رد عمل شاہد ہے کہ انہوں نے اسے ایسا پایا اور فوراً عمل کے لئے تیار ہوگئے۔

اردو ترجمہ

جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اِس لیے ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yahdee ila alrrushdi faamanna bihi walan nushrika birabbina ahadan

یھدی الی الرشد (27 : 2) ” جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے “۔ یہ قرآن مجید کی دوسری ممتاز بد یہی صفت ہے ، جنوں کے اس گروہ نے بادی النظر میں اسے محسوس کرلیا۔ اور انہوں نے جب قرآن کی حقیقت کو اپنے دلوں کے اندر پالیا تو انہوں نے معلوم کرلیا کہ یہ کتاب کتاب ہدایت ہے۔ پھر ہدایت کے بجائے انہوں نے ارشاد کا لفظ استعمال کیا جو ہدایت سے زیادہ وسیع المفہوم ہے۔ یعنی یہ کتاب ہدایت کرتی ہے اور حق وصواب کی راہ دکھاتی ہے۔ اور رسد کے لفظ میں ایک اور مفہوم بھی ہے یعنی سنجیدگی ، اعتدال اور علم ومعرفت تو گویا یہ کتاب علم ومعرفت ، سنجیدگی اور اعتدال کے ساتھ راہ صواب کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اور اس کا انداز عالمانہ ہے۔ اور اس مطالعے سے ان حقائق تک پہنچنے کا ملکہ حاصل ہوجاتا ہے۔ گویا یہ نتائج اس کتاب کے ذاتی اثرات ونتائج ہیں۔

قرآن رشد وہدایت کا سرچشمہ ہے۔ یوں کہ یہ دلوں کے اندر احساس اور کشادگی پیدا کردیتا ہے ، ادراک اور معرفت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اللہ کے ساتھ رابطہ پیدا کرتا ہے ، جو نور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ پھر یہ کتاب اس پوری کائنات کے اندر جاری قوانین فطرت کے ساتھ انسان کو جوڑ دیتی ہے اور پھر عملی زندگی میں یہ کتاب زندگی کا ایک عملی نظام تجویز کرتی ہے۔ اور اس نظام کے نتیجے میں انسانیت کو وہ عروج نصیب ہوتا ہے جو اس کے سوا کبھی کسی اور نظام میں نصیب نہیں ہوتا۔ اور یہ کتاب پھر ایک ممتاز تہذیب و تمدن کو جود میں لاتی ہے۔ جس کے اندر زندگی بسر کرنے والے لوگ فکری ، تصوراتی ، اخلاقی ، قانونی اور عملی اعتبار سے نہایت ہی ممتاز اور ترقی یافتہ لوگ ہوتے ہیں۔

فامنا بہ (27 : 2) اس لئے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں “۔ قرآن سننے کے بعد یہ ایک قدرتی اور فطری رد عمل ہے کہ انسان اسے تسلیم کرلے ، اس کو سمجھ لے۔ اور اس سے حقیقی تاثر حاصل کرلے ۔ اللہ تعالیٰ جنات کا یہ تبصرہ مشرکین مکہ کی غیر آموزی کے لئے نقل کرتے ہیں کہ تم عرصے سے قرآن سن رہے ہو اور مان کر نہیں دیتے۔ اور تم اس کتاب کو جنات کی طرف منسوب کرتے ہو۔ اس طرح کبھی کہتے ہو کاہن ہے ، کبھی کہتے ہو شاعر ہے اور کبھی کہتے ہو مجنون ہے ۔ اور ان تینوں کا جنات سے تعلق ہوتا تھا۔ لیکن ذرا جنوں کی حالت دیکھو کہ وہ قرآن سن کر مدہوش ہوگئے ، انہوں نے اسے سمجھ لیا اور اس دعوت کو لے کر اپنی قوم میں پھیل گئے۔ ایک منٹ بھی انہوں نے دیر نہ کی۔ نہ اپنے آپ کو روک سکے ، فوراً اس دعوت اور تاثر کو لے کر نکل گئے۔ انہوں نے حق کہ پہچان لیا اسے قبول کرلیا ، یقین کرلیا اور اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔ اور کوئی مکروفریب نہ کیا اور کوئی بغض وعناد نہ کیا جس طرح مشرکین مکہ کررہے تھے۔

ولن ................ احدا (27 : 2) ” اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے “۔ یہ خالص ، صریح اور صحیح ایمان ہے ، اس میں نہ شرک شامل ہے ، نہ وہم کا دخل ہے۔ اور نہ خرافات کے لئے کوئی راہ ہے۔ یہ امان حقیقت قرآن کے ادراک کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے اور اس حقیقت کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے جس کی طرف قرآن داعی ہے۔ یعنی خالص توحید بغیر شائبہ شرک۔

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے، اُس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waannahu taAAala jaddu rabbina ma ittakhatha sahibatan wala waladan

وانہ .................... ولدا (27 : 3) ” اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ وارفع ہے اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے “۔ الجد کے معنی حصہ اور نصیب کے ہوتے ہیں۔ یعنی قدر اور مقام ، عظمت اور اقتدار۔ یہ سب امور لفظ ” جد “ میں شامل ہیں اور اس کے پرتو ہیں۔ لیکن اجمالی مفہوم یہ ہے کہ اللہ بہت ہی بلند مرتبے والا ہے۔ وہ بہت عظیم اور جلیل القدر ہے۔ اس لئے اس نے نہ کسی کو بیوی بنایا ہے اور نہ بیٹا بنایا ہے۔

عربوں میں یہ غلط خیال تھا کہ ملائکہ اللہ کی لڑکیاں ہیں اور یہ لڑکیاں اس طرح پیدا ہوئیں کہ اللہ کی بیوی جن تھی۔ خود جنوں کی زبانی اس کہانی اور افسانے کی تردید کردی گئی کہ اللہ ان چیزوں سے پاک وصاف ہے۔ اور انہوں نے بڑی کراہت کے ساتھ اس کی طرف اس غلط نسبت کی نفی کردی کہ نہ اس قسم کی کوئی رشتہ داری ہے اور نہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ گویا یہ اللہ کی بہت بڑی توہین ہے۔ اس قسم کے تمام تصورات اور اس سے ملتے جلتے تصورات غلط اور مشرکانہ ہیں ، چاہے وہ کسی شکل و صورت میں ہوں۔ مشرکانہ کہانیاں ہوں ، یا اقانیم کے افسانے ہوں یا کوئی اور صورت ہو۔

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلاف حق باتیں کہتے رہے ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waannahu kana yaqoolu safeehuna AAala Allahi shatatan

وانہ کان ........................ کذبا (27 : 5) ” اور یہ کہ ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلاف حق باتیں کہتے رہتے ہیں “ اور یہ کہ ” ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے “۔ جن اس بات کو دہرا رہے کہ ہمارے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں خلاف حق تصورات رکھتے تھے اور اللہ کے لئے بیوی اور اولاد کا اعتقاد رکھتے تھے۔ اور قرآن کریم سننے کے بعد ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کے یہ عقائد درست نہ تھے اور جنوں میں سے جو لوگ اس بات کے قائل تھے وہ بڑے جاہل اور احمق تھے۔ اس قدر جاہل کہ وہ یہ تصور کرتے تھے کہ انسانوں اور جنوں میں سے کوئی شخص اللہ پر جھوٹ کیسے باندھ سکتا ہے ؟ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی جھوٹ نہیں باندھ سکتا تھا۔ اس لئے جب بعض احمقوں نے یہ عقیدہ اختیار کرلیا کہ اللہ کی بیوی اور اولاد ہے تو انہوں نے بھی اس بات کو مان لیا ، کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے اللہ پر کوئی افتراء کیسے باندھ سکتا ہے ۔ لیکن یہی شعور ان کے لئے موجب ایمان بن گیا کیونکہ ان کے دل میں یہ پاک خیات تھا۔ ادھر کسی نے اللہ پر جھوٹ باندھا نہیں ادھر اللہ نے اس کی گردن دبوچی نہیں۔ ان جنوں پر گمراہی کا یہ غبار ان کی جہالت کی وجہ سے آگیا تھا۔ جونہی ان کو حق ملا انہوں نے گمراہی کے غبار کو جھاڑ دیا۔ حقیقت کو پالیا۔ اصل حقیقت کو چکھ لیا اور وہ بول اٹھے :

انا سمعنا ........................ ولدا (27 : 1 تا 3) ” ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے “۔ ” اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ وارفع ہے اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے “۔

اور یہ جھاڑ اور صفائی اس وجہ سے ان کو نصیب ہوئی کہ وہ حق تک پہنچ گئے اور یہ حقیقت اس قابل تھی جس پر کبرائے قریش کے اکثر بر خود غلط دماغ اس پر غور کرتے ، جو یہ گمان کرتے تھے کہ اللہ کی بیوی ہے اور بیٹیاں ہیں اور اس حقیقت سے ان کے دلوں میں خدا خوفی اور احتیاط پیدا ہوجاتی اور وہ اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتے جو حضرت محمد ﷺ ان کے سامنے پیش کررہے تھے۔ اور کبرائے قریش کے جو احمقانہ عقائد تھے ، ان کی صداقت میں شک وشبہ پیدا ہوجاتا ، لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ اس قصے کو یہاں لانے کا مقصد بھی یہ تھا کہ کبرائے قریش کے عقائد کی تردید کی جائے۔ قرآن کریم اور کبرائے قریش کے درمیان جو نظریاتی جنگ برپا تھی ، یہ سورت اس کی ایک جھڑپ کا نمونہ تھی۔ اور یہ سورت دراصل ان بیماریوں کا ایک دیرپا علاج کررہی تھی جو زمانہ جاہلیت سے باقی رہ گئی تھیں۔ اور ابھی تک لوگوں کے دلوں پر چھارہی تھیں۔ لوگ سادہ لوح تھے اور وہ ان عقائد سے بری الذمہ تھے ، لیکن گمراہ اور برخود غلط قیادت کی طرف سے ان کو اسی راہ پر چلایا جارہا تھا اور زمانہ جاہلیت کے خرافات کو دین بنا کر ان کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanna thananna an lan taqoola alinsu waaljinnu AAala Allahi kathiban

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اِس طرح اُنہوں نے جنوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waannahu kana rijalun mina alinsi yaAAoothoona birijalin mina aljinni fazadoohum rahaqan

وانہ کان .................... رھقا (27 : 6) ” اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے ، اس طرح انہوں نے انسانوں کی بےچینی کو اور زیادہ بڑھا دیا “۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف جو ایام جاہلیت میں متعارف تھا اور آج بھی کئی معاشروں میں یہ بات متعارف ہے کہ جنوں کو زمین اور انسانوں پر اقتدار حاصل ہے اور یہ کہ وہ انسانوں کو نفع نقصان بھی پہنچا سکتے تھے۔ اور یہ کہ بعض اراضی اور سمندروں اور فضا میں یہ جن محکوم ہیں ، اور ان کے سردار ان پر حکمران ہیں۔ چناچہ جب یہ لوگ کسی ، غیر آباد جگہ جاتے یا کسی جنگل اور پہاڑ میں ہوتے تو یہ اس علاقے کے سردار جن کی پناہ مانگ لیتے کہ اس کے زبردست جن کہیں اسے نقصان نہ پہنچا دیں۔ یہ پناہ مانگنے کے بعد ، وہاں شب باشی کرتے۔

شیطان کو یہ طاقت دے دی گئی ہے کہ وہ انسانوں کے قلوب پر اثر اندازہو ، (ماسوائے ان لوگوں کے جو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں ، ایسے لوگ اس کی دسترس سے بچے رہتے ہیں) لیکن انسانوں میں سے جو شخص شیطان کی طرف جھکتا ہے تو وہ اسے کوئی نفع نہیں دیتا۔ اس لئے کہ شیطان انسانوں کا دشمن ہے۔ یہ دراصل انسان کو گمراہ کرتا ہے ، اور اسے اذیت دیتا ہے۔ چناچہ یہ گروہ جن اس حقیقت واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے۔

وانہ کان .................... رھقا (27 : 6) ” اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ اس طرح انہوں نے انسانوں کی بےچینی اور زیادہ کردیا “۔ اور یہاں رھق کے معنی گمراہی ، قلق ، حیرت کے ہیں اور یہ ان دلوں میں پیدا ہوجاتی ہے جو شخص اپنے دشمن کے سامنے جھک جاتا ہے اور اس پر بھروسہ کرتا ہے۔ اور جو اللہ پر بھروسہ نہیں کرتا اور نہ اللہ سے پناہ مانگتا ہے۔ اہل قریش ایسا ہی کرتے تھے حالانکہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے ادھر تمام انسانوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے۔

انسانی قلب جی غیر اللہ کے ہاں نفع کی امید سے پناہ مانگتا ہے یا اس امید سے کہ غیر اللہ ضرر رفع کردے گا۔ ایسا شخص قلق ، حیرت اور بےثباتی اور بےاطمینانی کے سوا کچھ نہیں پاتا۔ اور یہ رھق کی بدترین صورت ہے۔ یعنی ایسی بےچینی جس کے اندر قلب کوئی آرام اور امن محسوس نہ کرے۔

اللہ کے سوا ہر چیز بدلنے والی ، ہر چیز زائل ہونے والی ہے اور ہر چیز فنا ہونے والی ہے ، جب کوئی دل اللہ کے سوا کسی اور چیز سے متعلق ہوجائے تو وہ ڈگمگاتا رہتا ہے ، وہ حیران وپریشان رہتا ہے۔ اور اس لئے کہ وہ جس چیز کے ساتھ متعلق ہے ، اس کا رخ جدھر ہوگا ، اس کا رخ بھی ادھر ہوگا۔ اللہ وحدہ باقی ہے۔ زوال پذیر نہیں ہے ، زندہ ہے ، مرنے والی ذات نہیں ہے۔ دائم ہے متغیر نہیں ہے۔ اس لئے جو شخص اللہ کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرے گا وہ گویا ایک مستقل محور کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کردے گا اور اس کے اندر بھی ایک قسم کا استقلال پیدا ہوجائے گا۔

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمہارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waannahum thannoo kama thanantum an lan yabAAatha Allahu ahadan

وانھم ................ احدا (27 : 7) ” اور یہ کہ انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمہارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا “۔ جن قوم سے گفتگو کرتے ہیں کہ جس طرح بعض انسان جنوں کی پناہ مانگتے تھے اسی طرح وہ بھی یہ گمان رکھتے تھے جس طرح تم گمان رکھتے ہو کہ اللہ رسول نہ بھیجے گا۔ لیکن دیکھ لو اللہ نے تو رسول بھیج دیا اور رسول کو یہ قرآن بھی دے دیا ہے جو رشد وہدایت کا سامان فراہم کررہا ہے یا مفہوم یہ ہے کہ ان کے عقائد یہ تھے جس طرح تمہارے ہیں کہ اللہ قیامت میں کسی کو نہ اٹھائے گا لہٰذا انہوں نے قیامت کے لئے کوئی تیاری نہ کی اور رسول خدا نے جس انجام سے ڈرایا تھا اس کی پرواہ نہ کی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اللہ کسی کو نہیں اٹھائے گا۔

یہ دونوں ظن و گمان حقیقت کے مطابق نہ تھے۔ یہ جاہلانہ خیالات پر مبنی تھے۔ اور اس پوری کائنات کی حکمت و تخلیق سے بیخبر ی پر مبنی تھے۔ اللہ نے تمام مخلوق کو یوں پیدا کیا ہے کہ اس کے اندر خیر کی صلاحیت بھی تھی اور شر کی صلاحیت بھی تھی۔ (جس طرح اس سورت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کو بھی دوہری صلاحیت دی گئی ہے۔ خیر کی بھی اور شر کی بھی ، ہاں ان میں سے بعض نے اپنے آپ کو شر مجسم کرلیا مثلاً ابلیس ، جس نے اپنے آپ کو رحمت خداوندی سے محروم کرلیا اور خالص شرین گیا) اور اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو بھیج کر خیر کی معاونت کی۔ رسولوں کا مشن قرار پایا کہ وہ انسانوں کے اندر پائی جانے والی خیر کی صلاحیت کو ابھاریں اور ان کی فطرت میں جو خیر کی استعداد ہے اسے جلا دیں ، لہٰذا یہ عقیدہ بالکل غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ رسولوں کو نہ بھیجے گا۔

یہ تو اس صورت میں ہے جب ہم آیت میں بعث سے مراد ” رسولوں کا بھیجنا “ لیں۔ اگر بعث سے مراد آخرت میں اٹھانا ہے تو پھر بھی یہ بات حکمت تخلیق کے خلاف ہے کیونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی نیکی اور بدی کا حساب و کتاب اس دنیا میں پورا نہیں ہوجاتا۔ لہٰذا اللہ کی حکمت تخلیق اور عدل کے تقاضے کے مطابق بھی ضروری ہے کہ ایسا جہاں ہو جہاں مظلوموں کے ساتھ انصاف کیا جائے ، نیکوکاروں کو انعام اور بدکاروں کو سزا دی جائے اور حساب و کتاب بےباک ہو۔ اور جو جس مقام کا حیات دنیا کا مطابق ، اہل بنتا ہو ، اس میں جائے۔ لہٰذا اس بات کا کوئی موقعہ ومقام نہیں ہے کہ اللہ کسی کو دوبارہ نہیں اٹھائے گا۔ یہ اعتقاد حکمت الٰہیہ کے خلاف ہے۔ عدل و انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔

چناچہ اس انداز میں جنوں نے اپنی قوم کے غلط خیالات کو درست کرنے کی سعی کی اور قرآن نے یہ بات مشرکین عرب کے غور کے لئے نقل کی کہ جن تو خود اپنے خیالات پر نظرثانی کررہے ہیں تم کیا کررہے ہو۔

اس آخری رسالت کے اثرات اس پوری کائنات پر مرتب ہوگئے ہیں ، کائنات کے اطراف میں قوائے طیبعیہ بھی بدل گئی ہیں۔ زمین و آسمان میں انتظامی تبدیلیاں آگئی ہیں تاکہ وہ اپنی وہ تمام کاروائیاں ترک کردیں جو اس آخری رسالت کے ساتھ متفق نہیں ہیں۔ ہر قسم کی غیب دانی کا دعویٰ ترک کردیں اور یہ کہ وہ اعلان کردیں کہ اس کائنات میں وہ کچھ قوت بھی نہیں رکھتے۔

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں سے پٹا پڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہو رہی ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanna lamasna alssamaa fawajadnaha muliat harasan shadeedan washuhuban

وانا لمسنا ............................ ربھم رشدا

یہ واقعات جو جنوں کے ذریعہ قرآن نے نقل کیے ہیں ، بتاتے ہیں کہ اس آخری رسالت سے قبل کے زمانے میں ، جس میں رسول نہ تھا یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کے دور میں ، جنوں کا یہ مشغلہ تھا کہ وہ عالم بالا کی طرف جاتے تھے اور عالم بالا میں اس زمین اور کائنات کے بارے میں جو احکام صادر ہوئے تھے یا فرشتوں کے درمیان زیر بحث آتے تھے ، مثلاً اللہ تعالیٰ فرشتوں کو جو احکام برائے نفاذ صادر کرتا تھا ، یہ جن عالم بالا میں بعض مقامات تک پہنچ کر گن سن لے لیتے تھے اور پھر ان سچی معلومات کے ساتھ بہت سی غلط معلومات جمع کرکے ، یہ جن دنیا میں کاہنوں ، قیافہ دانوں اور دوسرے مذہبی رہنماﺅں کو دیتے اور یہ لوگ ان حقیقی معلومات کو شیطانوں کے آمیزے کے ساتھ مزید اپنے مفاد کی چیزیں ملا کر لوگوں میں پھیلاتے ، ان کو گمراہ کرتے اور اس طرح شیطانی منصوبہ چلتا رہتا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اور حضور ﷺ سے قبل یہ نظام کس طرح چلتا تھا ، اس کی تفصیلات قرآن نے نہیں دی ہیں اور نہ یہ تفصیلات جاننے کی کوئی ضرورت ہے۔

چناچہ جنوں کا یہ گروہ کہتا ہے کہ اب عالم بالا سے یہ گن سن ممکن نہیں رہی ہے۔ اب جب وہ یہ کوشش کرتے ہیں جسے وہ ” لمس سمائ “ سے تعبیر کرتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں کہ ہر طرف شدید پہرے لگے ہوئے ہیں اور جو جن بھی ایک حد سے اوپر جاتا ہے آگے سے شہاب ثاقب کی بمباری ہوتی ہے۔ جو بھی ایسی کوشش کرتا ہے شہاب گر کر اسے ختم کردیتا ہے۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم تو غیب نہیں جانتے کہ ان نئے انتظامات کے مقاصد کیا ہیں اور اللہ تعالیٰ کیا چاہتا ہے :

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "پہلے ہم سن گن لینے کے لیے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تھے، مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے گھات میں ایک شہاب ثاقب لگا ہوا پاتا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanna kunna naqAAudu minha maqaAAida lilssamAAi faman yastamiAAi alana yajid lahu shihaban rasadan

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی برا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا اُن کا رب اُنہیں راہ راست دکھانا چاہتا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanna la nadree asharrun oreeda biman fee alardi am arada bihim rabbuhum rashadan

وانا لا لندری ................................ رشدا (27 : 01) ” اور یہ کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی برامعاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کا رب انہیں راہ راست دکھانا چاہتا ہے “۔ یہ تمام غیبی امور صرف اللہ کے علم کے حوالے ہیں ، جن کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ پس پردہ تقدیر سے کیا چیز نمودار ہوتی ہے۔ آیا انسانوں پر کوئی مصیبت آرہی ہے اور وہ گمراہی میں مزید آگے جائیں گے یا ان کے لئے ہدایت اور رحمت کے دروازے کھل گئے ہیں۔ انہوں نے ہدایت کو شر کے مقابلے میں ذکر کیا گویا حقیقی خبر ہے ہی ہدایت۔

جب وہ ذریعہ ہی اس بات کی تردید کردے ، جس کی طرف کاہن اپنا یہ دعویٰ منسوب کرتے تھے کہ وہ اپنے مزعومہ افکار وہاں سے لیتے ہیں ، تو پھر کاہنوں کے مزعومہ دعوﺅں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ جنوں نے یہ کہہ دیا کہ وہ تو علم غیب نہیں جانتے۔ لہٰذا بات ختم ہوگئی ، ہر قسم کے زعم باطل قرار پائے اور کاہنوں اور عرافوں کے دعوﺅں کا اعتبار جاتا رہا۔ یہ بات ثابت ہوگئی کہ غیب صرف اللہ جانتا ہے۔ لہٰذا نہ کوئی غیب کا دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ پیشن گوئی کرسکتا ہے۔ یوں قرآن کریم نے انسانی عقل کو ہر قسم کے اوہام و خرافات سے پاک کردیا اور ان تمام مزعومات کے دروازے بند کر دئیے ، جو کیے جاسکتے تھے اور اعلان کردیا کہ اب انسانی عقل سن رشد کو پہنچ گئی ہے اور انسانی افکار کے اندر اوہام و خرافات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

آسمانوں کے یہ پہریدار کس طرح کھڑے ہیں ، یہ شیاطین کو کس طرح روکتے ہیں ؟ شہاب ثاقب کس طرح فائر کرتے ہیں۔ تو اس بارے میں نہ قرآن نے ہمیں کچھ بتایا ہے اور نہ صحیح احادیث میں اس کی تفصیلات ہیں اگر قرآن وسنت اس کی ضرورت محسوس کرتے کہ اس میں انسانوں کے لئے کوئی خیر ہے تو ضرور بتلادیتے۔ جب اللہ نے کچھ بتایا تو یہ کوشش ہی عبث ہے۔ اس سے ہماری زندگی اور ہمارے علم میں کوئی تعمیری اضافہ نہیں ہوسکتا۔

شہابوں کے بارے میں بھی کسی جدل ومباحثے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ شہاب دراصل اس کائنات کے نظام کے مطابق حرکت کرتے ہیں۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی ایسے تھے ۔ اور بعد میں بھی اور ان کا ضابطہ عمل وہی ہے جس کو سائنس دان اب معلوم کرنے کی سعی کررہے ہیں جن کی سوچ کبھی درست نکلتی ہے اور کبھی غلط ہوکر ترمیم پذیر ہوجاتی ہے۔ اگر سائنس دان اب معلوم کرنے کی سعی کررہے ہیں جن کی سوچ کبھی درست نکلتی ہے اور کبھی غلط ہوکر ترمیم پذیر ہوجاتی ہے۔ اگر سائنس دانوں کے موجودہ نظریات درست بھی ہوں تو اس سے قرآن کے فرمان کی نفی نہیں ہوتی۔ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اور ممکن ہے کہ یہ شہاب شیطانوں کے لئے رجم ہوں اور یہ کام اللہ کی حیثیت کے مطابق ہوتا ہو جس کا ابھی تک ہمیں پورا علم نہیں ہے۔

جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہ ایک تمثیل ہے ، جس میں بتایا گیا ہے کہ کلام الٰہی میں کوئی التباس نہیں ہوسکتا اور اس میں باطل کی آمیزش کرنے والے نہیں کرسکتے اور یہ کہ اس آیت کو اپنے ظاہری مفہوم میں نہیں لیا جاسکتا ، تو ان بےچاروں کی حالت یہ ہے کہ یہ لوگ پہلے سائنسی نظریات پر قطعی ایمان لاکر قرآن کے پاس آتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں یہ نظریات جدید سائنسی نظریات سے آتے ہیں۔ پھر یہ قرآن کی تفسیر ان مزعومہ نظریات کے مطابق کرنے بیٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ ملائکہ کو قوائے خیر اور قوائے مطیعہ کی تفسیر و تمثیل قرار دیتے ہیں ، شیاطین کو قوائے شر اور قوائے مفسدہ کی تمثیل کہتے ہیں اور رجوم شیاطین کو تمثیل حفظ قرآن قرار دیتے ہیں اس لئے کہ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کوئی موجودہ ہو اور مشاہدے سے باہر ہو ، وہ ملائکہ ، جنات اور شیاطین کے وجود کو اس طرح مشاہدہ کرسکیں کہ جس طرح وہ انسانوں اور دوسرے طبیعی اجسام کو دیکھتے ہیں۔ اس لئے وہ ان غیر مرئی اجسام اور موجودات کا انکار کرتے ہیں۔ لیکن اگر انہی سے پوچھا جائے کہ تمہارے ان مزعومات کی حقیقت کیا ہے ، جن کے اوپر تم قرآن وسنت کو پرکھتے ہو تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر اور اسلامی تصور کی تشکیل اور تشریح کا صحیح طریقہ ہی یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن سے پہلے تمام افکار و تصورات نکال دے اور قرآن کو کسی سابقہ تحفظ کے بغیر مطالعہ کرے۔ یہ سابقہ تصورات ، عقلی ہوں ، شعوری ہوں یا نفسیاتی ہوں اور قرآن کا مطالعہ کرکے اپنے تصورات اور افکار کی تشکیل قرآن کے مطابق کرے۔ اور اس کائنات کے حقائق کی روشنی میں ، سنت نبوی کے حدود کے اندر کرے۔ یہ نہ ہو کہ قرآن اور سنت کی بیرونی افکار ونظریات کے کٹھرے لاکر کھڑا کردیا جائے اور ان پر محاکمہ کیا جائے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ہرگز کسی ایسی چیز کا انکار نہ کریں جسے قرآن ثابت کرتا ہے۔ نہ ان میں تاویلات کریں۔ نہ ایسے امور کو قطعی سمجھیں جن کا قرآن انکار کرتا ہے۔ ہاں قرآن وسنت کی منفلیت اور ثابت شدہ حقائق کے دائرے سے باہر انسان آزاد ہے کہ اپنی عقلی اور سائنسی جدوجہد کے ذریعہ جو چاہے نظریات قائم کرے۔

یہ بات ہم قرآن کے بارے میں ، اہل ایمان کی عمومی روش کے پیش نظر کہہ رہے ہیں ، جو قرآن کی نصوص کی تاویلات اپنے ذہنی افکار کے مطابق کرتے ہیں کیونکہ وہ اس دنیا کو اپنے افکار کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں ، میں خوداپنے آپ کو اس روش سے بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا ، ظلال القرآن کے ابتدائی حصوں میں ، میں خودبھی غیر شعوری طور پر اس طرف جھک گیا ہوں گا ، لیکن اگر توفیق الٰہی شامل حال رہی تو آئندہ ایڈیشنوں میں اس قسم کے رجحان کی اصلاح کر دوں گا۔ یہاں میں جو کچھ کہہ رہا ہوں یہی حق ہے ، اور یہ اللہ کی طرف سے میرے لئے خاص عنایت اور ہدایت ہے۔

رہے وہ لوگ جو سرے سے قرآن پر ایمان ہی نہیں لاتے ، اور ان حقائق کے انکار میں ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہیں اور محض اس لئے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ ابھی تک انہوں نے ان کا ادراک نہیں کیا ہے ، تو ایسے لوگوں کا طرز عمل مضحکہ خیز ہے۔ کیونکہ سائنسی ابھی تک ان حقائق کا بھی پوری طرح ادراک نہیں کرسکی۔ جو اس کے سامنے موجود ہیں۔ ان حقائق پر ابھی سائنس تجربہ کررہی ہے۔ لہٰذا ان حقائق کے عدم ادراک سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ موجود نہیں۔ نیز حقیقی سائنس دانوں نے اہل دین کی طرح رب عالم مجہول کو تسلیم کرنا شروع کردیا ہے ، اگر وہکتب سماوی کے طریقے پر کسی چیزکو تسلیم نہیں کرتے تو کسی چیز کا انکار بھی نہیں کرتے۔ کیونکہ انہوں نے سائنسی تجربات کے ذریعے معلوم کرلیا ہے کہ انسان دراصل عالم الغیب کی ایک وسیع دنیا کے دروازے پر کھڑا ہے۔ جبکہ کچھ عرصہ پہلے وہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے تمام حقائق دریافت کرلیے ہیں۔ چناچہ اب سائنس دانوں نے بھی اپنی علم کم مائیگی کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ اور ان کا انداز اب ان مدعیان علوم سائنس کا سا نہیں ہے جہ سماوی حقائق ، نامعلوم حقائق کا انکار بطور فیشن کرتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی اس وسیع و عریض کائنات میں نامعلوم حقائق اور اسرار کے انبار لگے ہوئے ہیں اس کائنات کے اندر بےپناہ قوتیں ہیں اور یہ سورت ہمیں اس کائنات کا ایک حصہ بتاتی ہے۔ چناچہ ان نامعلوم حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کائنات کے بارے میں ہم صحیح اور متوازن تصورات ذہنوں میں رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح اس جہاں کا مادی قوتوں ، روحانی موجودات ، ارواح ، حیوانات ، ہمارے ماحول طبیعی کے حقائق ، ہماری زندگی ، ہماری ذات اور ہمارے افعال کے بارے میں ہماری سوچ درست ہوجاتی ہے۔ یہ متوازن سوچ ہی ایک مسلم کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اچھی طرح نکھار کر ممتاز کردیتی ہے۔ نہ وہ اوہام و خرافات کو تسلیم کرتا ہے ، اور نہ وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اس کائنات کے تمام حقائق پر عبور حاصل کرلیا ہے۔ اور اس متوازن سوچ کا ماخذ ، قرآن اور سنت ہیں۔ چناچہ ایک مسلم اپنی سوچ کو قرآن اور سنت کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور تمام حقائق کو قرآن وسنت کے مطابق جانچتا ہے۔ خواہ وہ اخلاقی حقائق ہو یا طبیعی۔

عالم نامعلوم کے میدانوں میں اترنے کے لئے اور عقل انسانی کی ترک تازیوں کے لئے متعین راستے موجود ہیں۔ اسلام عقل انسانی کو ان میدانوں میں اترنے کے لئے آگے بڑھتا ہے۔ لیکن ان متعین راستوں اور میدانوں سے آگے کچھ ایسے جہاں بھی ہیں جہاں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے عقل کے اندر کوئی قوت نہیں ہے۔ یہ میدان عقل سے ماوراء ہیں۔ پھر عقل انسانی کو ان جہانوں تک پہنچنے کی ضرورت بھی نہیں ہے ، کیونکہ اس زمین پر قدرت نے انسانوں کے لئے جو فریضہ منصبی متعین کیا ہے اور جس کے لئے انسان کی تخلیق ہوئی ہے ، یعنی انسان بطور خلیفة اللہ فی الارض ، تو اس زاویہ سے انسانوں کو ان نامعلوم جہانوں کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کیونکہ جس قدر علم کی اسے ضرورت تھی اللہ نے قرآن وسنت کے ذریعہ اسے یہ علم دے دیا ہے ، تاکہ انسان اس جہاں میں ، اس زمین پر اپنے مقام اور حیثیت اور اپنے ماحول کو جان سکے ، کیونکہ یہ علوم حاصل کرنا انسان کی قدرت ہی میں نہیں ہے اور غیوبات یعنی ملائکہ ، فرشتوں ، جنات اور شیاطین سب اس زمرہ میں آتے ہیں۔ اسی طرح روح انسان ، انسان کی تخلیق اور اس کا انجام اسی دائرے میں آتے ہیں۔ یہ ایسے میدان ہیں جہاں عقل انسانی صرف وحی پر بھروسہ کرسکتی ہے۔

رہے وہ لوگ جو سنت الٰہیہ کی ہدایت کی روشنی میں چلتے ہیں۔ وہ ان میدانوں کے حدود پر جاکر رک جاتے ہیں جو خدا اور رسول نے انسان کو بتادیئے ہیں۔ اللہ اور رسول ﷺ نے ان غائب جہانوں کے بارے میں انسان کو یہ شعور دیا ہے کہ یقین کرلو کہ اللہ بہت ہی عظیم ہے اور وہ بہت بڑا حکیم ہے اور یہ کہ اس جہاں میں انسان کا منصب کیا ہے ؟ اور اس کی حیثیت کیا ہے ؟ اس سلسلے میں انسان کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پہنچ کے دائرے میں ، اپنے ماحول کے اندر ہی غور وفکر کرے ، اور جس قدر اس کی طاقت میں ہے وہ کام کرے۔ اور اپنی طاقت کے حدود کے اندر جس قدر ٹیکنالوجی وہ دریافت کرلے ، اسے اس جہاں میں پیداوار کے اضافے اور سہولیات حیات کی فراہمی کے لئے استعمال کرے اور یہاں اللہ کے نائب ہونے کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے۔ اللہ کی ہدایات کے مطابق کام کرے ، اللہ کی طرف اپنا رخ کرتے ہوئے چلے ، اور اس قدر بلندی اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھے ، جس قدر اللہ نے اس کے لئے پسند کیا ہے۔

رہے وہ لوگ جو اللہ کی ہدایات کو تسلیم نہیں کرتے تو وہ دو بڑے گروہوں کی شکل میں موجود ہیں۔ ایک گروہ تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی حقیقت کو معلوم کرنے کے لئے صرف اپنی عقل کے ہتھیار کو کام میں لاتا ہے ۔ حالانکہ عقل انسانی محدود ہے اور ذات باری لامحدود ہے۔ یہ گروہ غیبی حقائق کو کتب منزلہ کی روشنی میں نہیں بلکہ اپنی عقل کے زور پر معلوم کرنا چاہتا ہے۔ یہ گروہ فلاسفہ ہے ، جنہوں نے اس کائنات اور اس کے رابطوں کی عقلی توجیہ کی ہے۔ ان لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ بچے ایک ایسے عظیم پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے لئے نکلیں جس کی بلندی کا علم ہی نہ ہو اور وہ گرتے پڑتے آگے بڑھ رہے ہیں یا چند بچے ہوں جنہوں نے ابھی تک حروف تہجی بھی نہ سیکھے ہوں ، لیکن وہ اس کائنات کے وجود کو دریافت کرنے کی سعی کررہے ہوں۔ انہی لوگوں میں یونان کے بڑے بڑے فلسفی شمار ہوتے ہیں اور خود مسلمانوں میں سے وہ فلسفی اور منطقی بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ جو یونانی فلاسفہ کی لائن پر سوچتے رہے ہیں۔ اور اسی زمرے میں وہ جدید فلاسفہ بھی آتے ہیں جو اسلامی لائن پر نہیں سوچتے۔ یہ تو رہا ، ایک گروہ۔

دوسرا گروہ وہ ہے جو اس انداز فکر سے مایوس ہوگیا۔ اس گروہ نے اپنے آپ کو تجربے پر مبنی علم تک محدود کردیا۔ اور یہ طبقہ تمام مجہولات سے صرف نظر کرتا ہے۔ اس کی علمی دنیا میں ان میدانوں تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اور اس سلسلے میں یہ طبقہ بھی قرآن وسنت سے کوئی ہدایت لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ طبقہ خدا اور رسول کی ہدایت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار اس لئے نہیں ہوتا کہ یہ سمجھتا ہے کہ انسان کے لئے خدا کا تجرباتی ادراک ممکن نہیں ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی علمی دنیا پر یہ طبقہ چھایا رہا۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے اس طبقے نے معلوم کرلیا کہ اس کا یہ علمی غرور بھی لاعلمی پر مبنی ہے۔ اس لئے کہ اس طبقے کے لوگ اس مادے پر تجرباتی کام کرتے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مادہ بھی دراصل ایک نور اور چمک سے قریب ہے اور نور اور چمک کا بھی ابھی تک حقیقی ادراک نہیں کرسکے۔ اور نور کا قانون اور اس کی حقیقت بھی دراصل انسان کے دائرہ ادراک سے ماوراء ہے۔ اس لئے بیسویں صدی کے طبیعی سائنس دانوں کو بھی اپنی تنگ دامانی کا اچھی طرح ادراک ہوگیا ہے۔

اس کے بعد یہ جنات اللہ کی ہدایت کے حوالے سے ، اپنا حال اور موقف بیان کرتے ہیں۔ یہ کہ وہ بھی بعینہ انسانوں کی طرح ، ہدایت وضلالت کی استعداد رکھتے ہیں اور انسانوں کی طرح ذمہ دار مخلوق ہیں۔ یہاں وہ رب تعالیٰ کے بارے میں اپنا عقیدہ بتاتے ہیں کہ ہم جو ایمان لائے ہیں وہ یہ ہے اور وہ اپنا نظریہ ہدایت وضلالت واضح طور پر پیش کرتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فروتر ہیں، ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanna minna alssalihoona waminna doona thalika kunna taraiqa qidadan

وانا منا .................... حطبا

یہ تو ضیحات کہ جنوں میں سے بعض لوگ اچھے ہیں اور بعض برے ہیں ، بعض مسلم ہیں اور بعض منکر ہیں۔ یہ بتاتی ہیں کہ جن بھی دوہری شخصیت کے مالک ہیں ، جس طرح انسان دوہری شخصیت کا مالک ہے ، جو نیکی اور بدی دونوں کی استعداد رکھتا ہے ، ہاں جنوں میں سے بعض لوگ خالص شر اور خالص بدی کے مجسم ہوگئے ، مثلا ابلیس اور اس کے قبیلے کے لوگ ، ان توضیحات کی بڑی اہمیت ہے اور ان کی وجہ سے اس مخلوق کے بارے میں ہمارے خیالات درست ہوجاتے ہیں ، کیونکہ اکثر لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جن صرف شرارت کی فطرت رکھتے ہیں اور صرف انسان ہی ایسی مخلوق ہے جس کے اندر خشروشر کے دونوں پہلو ہیں۔ اور انسانوں کے یہ خیالات اس لئے تھے کہ ان کو قرآن کی فکری اصلاح پر غور کرنے کا موقعہ نہ ملا تھا لیکن قرآن کی ان توضیحات کے بعد تو انسانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے خیالات کو درست کرلیں۔

جنوں کے اس گروہ کا قول ہے :

وانا منا .................... ذلک (27 : 11) ” اور یہ کہ ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فروتر ہیں “۔ اور اپنا عمومی حال وہ یوں بیان کرتے ہیں۔

کنا طرائق قددا (27 : 11) ” ہم مختلف طریقوں سے بنے ہوئے ہیں “۔ یعنی ہر شخص نے اپنے لئے ایسا طریقہ اپنا لیا ہے جو دوسرے سے مختلف ہے اور کٹا ہوا ہے اور وہ ایمان لانے سے پہلے کے اپنے عقائد یوں بیان کرتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کر سکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اُسے ہرا سکتے ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wanna thananna an lan nuAAjiza Allaha fee alardi walan nuAAjizahu haraban

وانا ............................ ھربا (27 : 21) ” اور یہ کہ ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کرسکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں “۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ کو اس زمین میں ان پر پوری پوری قدرت حاصل ہے۔ یہ بھی وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اللہ سے بھاگ بھی نہیں سکتے۔ یعنی بندہ رب کے سامنے بہت ضعیف ہے۔ اور تمام مخلوق کا مقابلہ نہیں کرسکتی یعنی اسلام لانے سے پہلے بھی یہ گروہ اللہ کی قدرت اقتدار اور غلبے کا شعور اٹھتا تھا۔

یہ تھے وہ جن ، جن کے ہاں بعض انسان دور جاہلیت میں پناہ لیتے تھے۔ اور مشرکین عرب تو اپنی حاجات میں جنوں کو پکارتے تھے اور انہوں نے ان جنوں اور رب تعالیٰ کے درمیان رشتہ داری کا عقیدہ بھی تصنیف کرلیا تھا۔ جبکہ یہ جنات اپنی عاجزی ، اور اللہ کی قدرت کا اقرار کرتے ہیں۔ یہ اپنی ضعیفی اور اللہ کے اقتدار کی بات کرتے ہیں۔ یہ اپنی عاجزی اور اللہ کی قہاری وجباری کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ بات وہ صرف اپنی قوم سے ہی نہیں کہتے بلکہ مشرکین مکہ سے بھی کہتے تھے کہ حقیقی قوت صرف اللہ کے پاس ہے جو اس کائنات کو تھامے ہوئے ہے۔

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے اب جو کوئی بھی اپنے رب پر ایمان لے آئے گا اسے کسی حق تلفی یا ظلم کا خوف نہ ہوگا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanna lamma samiAAna alhuda amanna bihi faman yumin birabbihi fala yakhafu bakhsan wala rahaqan

اور اب وہ ہدایت کا پیغام سننے اور سمجھنے کے بعدیہ کہتے ہیں :

وانا لما ................ امنا بہ (27 : 31) ” اور یہ کہ ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اب جب کوئی بھی اپنے رب پر ایمان لے آئے “۔ اور ہدایت کا پیغام سننے والے ہر شخص کا فریضہ یہی ہے۔ یہ لوگ قرآن کو یہاں ہدایت کا نام دیتے ہیں ۔ کیونکہ قرآن کی اصل ماہیت ہدایت ہی ہے اور اس کا نتیجہ بھی ہدایت ہے .... اور ان کو اپنے رب پر پورا اعتماد بھی ہے۔ جس طرح ہر ایمان لانے والے کو اپنے آقا پر ہونا چاہئے۔

فمن یومن ........................ رھقا (27 : 31) ” اب جو کوئی بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا ، اسے کسی حق تلفی یا ظلم (یعنی طاقت سے زیادہ کام دینے) کا خوف نہ ہوگا “۔ ایک مومن ایمان کے بعد اللہ پر پورا پورا بھروسہ کرنے لگتا ہے۔ اور اسے اللہ کے عدل پر پورا بھروسہ ہوتا ہے اور یہی ہے ایمان کی حقیقت کہ اللہ عادل ہے۔ وہ کسی مومن کا حق نہیں مارتا۔ وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ نہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ ڈیوٹی دیتا ہے۔ اللہ مومن بندے کو اس کے استحقاق سے ذرہ بھر بھی محروم نہیں کرتا۔ اور اللہ اپنے بندے کو رھق سے بھی بچاتا ہے۔ رھق کے معنی ہیں طاقت سے زیادہ جہدومشقت میں ڈالنا۔ لہٰذا کوئی اور شخص بھی ایک مومن پر ظلم کرنے کی جرات نہ کرسکے گا کیونکہ مومن اللہ کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک مومن بعض اوقات اس دنیا کی سہولیات سے محروم رہتا ہے لیکن یہ محرومیاں ” نحس “ کے مفہوم میں نہیں آتیں۔ بعض اوقات ایک مومن کو اذیتیں بھی دی جاتی ہیں اور یہ اس زمین کی بعض چھوٹی قوتوں کی طرف سے ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اذیتیں رھق کے مفہوم میں داخل نہیں ہیں کیونکہ اللہ کو معلوم ہے کہ کون کس قدر مشقت برداشت کرنے کا اہل ہے اور کون کس قدر سہولیات کا اہل ہے۔ اور اللہ بعض بندوں کو مشقتوں میں ڈال کر ان کو اپنے قریب کرتا ہے۔ اور یہ ان کے لئے مفید ہوتی ہیں۔

لہٰذا ایک مومن نفسیاتی لحاظ سے حق تلفی اور قوت برداشت سے زیادہ مشقت اٹھانے سے محفوظ ہوتا ہے۔ اس لئے اسے۔ فلا یخاف ................ رھقا (27 : 31) ” کسی حق تلفی سے بھی نہیں ڈرنا چاہئے اور یہ خیال بھی نہیں کرنا چاہئے کہ اس پر اس کی قوت برداشت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ یہ تصور انسان کے اندر اطمینان ، آرام اور سکون پیدا کردیتا ہے۔ انسان قلق ، چبھن اور بےچینی محسوس کرتا ۔ یہاں تک کہ وہ اگر مشقت میں ہو پھر بھی جزع فزع نہیں کرتا ، نہ ڈرتا ہے ، نہ اپنے اوپر دروازے بند کرتا ہے۔ وہ مشقت کو آزمائش سمجھتا ہے۔ صبر کرتا ہے اور اللہ سے فراخی کی امید رکھتا ہے۔ اور اس پر بھی اسے اجر ملتا ہے۔ لہٰذا امارت وغربت اور ضعف وقوت دونوں حالتوں میں وہ فائدے میں رہتا ہے۔ اور اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اور جنوں کے اس گروہ نے اس حقیقت کو بہت ہی اچھے انداز سے ذہن نشین کرایا اس کے بعد یہ لوگ اب ہدایت وضلالت کی حقیقت ذہن نشین کراتے ہیں اور ہدایت وضلالت پر جزاء وسزا کا ذکر کرتے ہیں۔

572