اس صفحہ میں سورہ At-Tawba کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التوبة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
سورة التوبہ ایک نظر میں
یہ مدنی سورت ہے اور اگر یہ نہ کہا جائے کہ قرآن کے آخری سورت ہے تو اس کا تعلق نزول قرآن کے بالکل آخری دور سے بہرحال ہے۔ کیونکہ راجح روایات میں ہے کہ سورت النصر آخری سورت ہے۔ چناچہ اس میں امت مسلمہ اور کرہ ارض پر رہنے والی دوسری اقوام کے درمیان تعلقات سے متعلق جو احکام وقوانین ہیں ، وہ آخری اور فائنل قوانین ہیں۔ اس سورت میں خود مسلم معاشرے کے اندر پائے جانے والے مختلف طقبات کی قدر و قیمت کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ ہر ایک کے حالات و کوائف بیان کیے ہیں۔ یہاں طبقات سے مراد وہ طبقات نہیں ہیں جن کے لیے آج کل یہ لفظ استعمال ہوتا ہے بلکہ ان سے مراد وہ گروہ ہیں جو اسلامی تصورات کے مطابق مختلف گروہ قرار پائے ہیں ، مثلا انصار ، مہاجرین ، اہل بدر ، اصحاب بیعت رضوان ، وہ لوگ جنہوں نے قبل فتح مکہ مال و دولت اسلام کی راہ میں خرچ کیے ، وہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اپنا مال خرچ کیا ، وہ جو جہاد میں جانے کے بجائے گھر بیٹھ گئے اور پھر وہ جو منافق رہے ، غرض اس سورت میں اسلامی معاشرے کے شب و روز اور ان میں مذکور تمام طبقات اور گروہوں کے حالات بڑی تفصیل اور تجدید کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔
اس پہلو سے اس سورت کی اہمیت بہت زیادہ ہے کہ اس میں تحریک اسلامی کے مختلف مراحل ، اقدامات بیان ہوئے ہیں۔ خصوصا جب اس کے فائنل احکامات کا مقابلہ ان احکامات سے کیا جائے جو اس سے متصلا پہلی سورت میں تھے اور جو وقتی تھے۔ یہ تقابلی مطالعہ بتائے گا کہ یہ انداز تفسیر کس قدر مضبوط اور فیصلہ کن ہے۔ اور اگر یہ انداز مطالعہ اختیار نہ کیا جائے تو احکام و ضوابط کی شکل ہی بدل جاتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص ان آیات کو لے جو ایک خاص مرحلے کے ساتھ مخصوص تھیں اور ان کو آخری اور فائنل احکام قرار دے اور ان آیات میں تاویل شروع کردے جن آخری اور فائنل ہدایات دی گئی تھیں تاکہ یہ فائنل ہدایات ان آیات کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائیں جو وقتی تھیں۔ خصوصاً جہاد اسلامی اور مسلم معاشرے اور دوسرے معاشروں کے درمیان بین الاقوامی تعلقات کے موضوع سے متعلق۔ امید ہے کہ ہم ان میں سے بعض موضوعات کی وضاحت تشریح آیات کے ضمن میں اور سورت توبہ کے اس مقدمے میں کرسکیں گے۔ یہ سورت کب نازل ہوئی ؟ اس سورت کے موضوعات کے مطالعے ، ان کے بارے میں روایات و احادیث کے مطالعے اسباب نزول کی روایات کے ملاحظے اور ان تاریخی حالات و واقعات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت پوری کی پوری نویں صدی ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ لیکن یہ دفعۃ نازل نہیں ہوئی ہے۔ ہم جزم کے ساتھ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس سورت کے مختلف حصے کس کس وقت نازل ہوئے ، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سورت تین مرحلوں میں نازل ہوئی ہے۔ پہلا حصہ نویں سال ہجری میں غزوہ تبوک سے قبل ماہ رجب میں نازل ہوا۔ دوسرا حصہ اس جنگ کے لیے تیاریوں کے دور میں اور جنگ کے دوران نازل ہوا اور تیسرا حصہ اس وقت نازل ہوا جب مسلمان اس غزوہ سے واپس ہوگئے۔ البتہ سورت کا ابتدائی حصہ یعنی آیت 1 تا 28 آخر میں سن نو ہجری کے آخری ایام میں نازل ہوئے یعنی حج سے قبل ذوالقعدہ یا ذوالحجہ میں۔ اجمالاً اسی قدر بات کہی جاسکتی ہے جس پر دل مطمئن ہوتا ہے۔
۔۔۔۔
اس سورت کے پہلے حصے میں یعنی آیت تا 1 تا 28 جزیرۃ العرب میں بسنے والے مشرکین اور مسلمانوں کے تعلقات کی فائنل ضابطہ بندی کی گئی ہے۔ اس ضابطہ بندی کے حقیقی اور عملی اسباب ، اس کی تاریخی وجوہات اور نظریاتی اساسوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ قرآن میں اشاراتی اسلوب اور موثر انداز بیان ، فیصلہ کن اور واضح طرز تعبیر کے ساتھ پیش کیا گیا۔ مناسب ہوگا کہ اس کے چند نمونے برائے غور آپ کے سامنے پیش کیے جائیں۔
بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (1) فَسِيحُوا فِي الأرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ (2) وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الأكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ فَإِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (3)إِلا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (4) فَإِذَا انْسَلَخَ الأشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (5) وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لا يَعْلَمُونَ (6) كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (7) كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلا وَلا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ (8) اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (9) لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلا وَلا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ (10) فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (11) وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ (12) أَلا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (13) قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ (14) وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (15) أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلا رَسُولِهِ وَلا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (16) مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ (17)إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (18) أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (19) الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (20) يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ (21) خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ (22) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الإيمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (23) قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (24) لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الأرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (25) ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (26) ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (27) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (28)
ترجمہ : جن لوگوں کے ساتھ تم نے صلح و امن کا معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان کو صاف صاف جواب ہے۔ پس اے مشرکو ملک میں چار مہینے چل پھر لو ، کوئی روک ٹوک نہیں اور جان لو کہ تم اللہ کو کبھی عاجز نہ کرسکوگے اور اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔ اور حج اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے منادی کی جاتی کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری الذمہ ہے۔ اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اور اگر روگردانی کرتے رہے تو جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور اے پیغمبر کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دے۔ ہاں مشرکین میں سے جن لوگوں کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ کسی قسم کی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی وہ مستثنی ہیں۔ تو ان کے ساتھ جو معاہدہ ہے اس کی مدت تک پورا کرو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔ پھر جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور انہیں گرفتار کرو اور ان کا محاصرہ کرو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کرلیں ، نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو کیونکہ وہ اللہ غفور و رحیم ہے اور اے پیغمبر مشرکین میں سے کوئی پناہ مانگے تو پناہ دے دو تاکہ وہ اچھی طرح کلام الہی سن لے پھر اسے اس کے امن کی جگہ پہنچا دو یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ علم نہیں رکھتے۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان مشرکین کا عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک عہد ہو ؟ ہاں جن لوگوں کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے قریب عہد کیا تھا اور انہوں نے اسے نہیں توڑا تو جب تک وہ تمہارے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں ، تم بھی ان کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے مگر ان کے سوا دوسرے مشرین کے ساتھ عہد کیسے ہوسکتا ہے۔ جن کا حال یہ ہے کہ اگر تم پر غلبہ پائیں تو تمہارے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس کریں اور نہ عہد و پیمان کا یہ لوگ اپنی زبانوں سے تمہیں راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کے دل ان باتوں سے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ ان لوگوں نے اللہ کی آیتیں تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالیں۔ پھر اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکنے لگے۔ افسوس ان پر بہت ہی برے کام تھے جو یہ کرتے رہے۔ یہ کسی مومن کے بارے میں نہ قرابت کا پاس کرتے ہیں نہ عہد و پیمان کا اور یہی لوگ زیادتی کرنے والے ہیں۔ بہرحال اگر یہ توبہ کرلیں ، نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور جو لوگ سمجھ دار ہیں ان کے لیے ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں اور اگر یہ لوگ عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر طعن کریں تو ان کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو۔ ان کی قسمیں ، قسمیں نہیں اور تمہیں ان سے جنگ اس لیے کرنی چاہئے کہ یہ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں۔ مسلمانو کیا تم ان سے نہ لڑو گے جنہوں نے عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالیں اور اللہ کے رسول کو اس کے وطن سے نکال دینے کا قصد کیا اور تم سے لڑائی ہیں پہل بھی انہوں نے کی۔ کیا تم ان سے ڈرتے ہو۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ مسلمانو ان لوگوں سے بلا تامل لڑو۔ اللہ تمہارے ہی ہاتھوں انہیں عذاب دے گا اور ان کو رسوا کرے گا اور ان پر تمہیں غلبہ دے گا اور مومنوں کو اور ان کے دلوں کو ٹھنڈا کرے گا اور ان کے دلوں میں کافروں کی طرف سے جو غصہ بھرا ہوا ہے اس کی خلش کو بھی دور کرے گا اور جس کی چاہے توبہ قبول فرمائے گا اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
مسلمانو کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ سستے چھوٹ جاؤگے حالانکہ ابھی اللہ نے ان لوگوں کو جانا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا اور اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا جگری دوست نہ بنایا۔ اور یاد رکھو جو کچھ بھی تم لوگ کرتے ہو ، اللہ کو اس کی سب خبر ہے۔ مشرکین کو یہ حق نہیں کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں اور مشرکانہ اقوال و افعال سے اپنے اوپر کفر کی گواہی بھی دیتے جائیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سارے عمل اکارت گئے اور یہ دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا تو ان لوگوں کا کام ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں۔ نماز قائم کرتے ہوں ، زکوۃ دیتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں سو ایسے لوگوں سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ہدایت پانے والے ہوں گے۔ لوگو کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے والے اور مسجد حرام کو آباد رکھنے کو اس شخص کے عمل کے برابر سمجھ لیا ہے۔ جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ اللہ کے نزدیک تو یہ لوگ ایک دوسرے کے برابر نہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے نزدیک درجے میں بڑے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہی لوگ کامیاب ہیں۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنود کی بشارت دیتا ہے۔ نیز ایسے باغوں کی جن میں ان کی دائمی آسائش ملے گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ بیشک اللہ کے پاس نیک کرداروں کے لیے بڑا اجر ہے۔ اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلے میں کفر کو عزیز رکھیں تو ان کو اپنا رفیق نہ بناؤ اور تم میں سے جو انہیں رفیق بنائیں گے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں اے پیغمبر مسلمانوں سے کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑجانے کا تمہیں اندیشہ ہے اور وہ مکانات جو تمہیں پسند ہیں اگر یہ ساری چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ پیاری ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ کا مقررہ قانون ہے کہ وہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ مسلمانو ! اللہ نے بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کی ہے اور خاص کر جنگ حنین کے وہ جب کہ تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے مگر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل فرمایا اور مدد کو فرشتوں کے ایسے لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے اور اس طرح ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا تھا ، سخت سزا دی اور کافروں کی یہی جزا ہے۔ پھر تم دیکھ چکے ہو کہ سزا کے بعد اللہ جسے چاہتا ہے توبہ کی توفیق بھی دیتا ہے اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، یہ حقیقت ہے کہ مشرک ناپاک ہیں۔ لہذا اس کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس بھی نہ آنے پائیں۔ اگر ان کے ساتھ لین دین بند ہوجانے سے تمہیں مفلسی کا اندیشہ ہے تو اللہ پر بھروسہ رکھو وہ چاہے گا تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
درج بالا جن آیات کا ہم نے اقتباس پیش کیا۔ ان میں اور اس سبق کی تمام دوسری آیات میں اس بات پر نہایت ہی تاکید اور شدت سے زور دیا گیا ہے کہ مشرکین عرب کے خلاف فیصلہ کن قدم اٹھاؤ اور مسلمانوں کو اس بات پر برانگیختہ کیا گیا ہے کہ مشرکین کے ساتھ بائیکاٹ کرو اور پورے جزیرۃ العرب میں ان کے خلاف جنگی کاروائی شروع کردو۔ اس شدید تاکید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جماعت مسلمہ یا ان میں سے بعض افراد کے رویوں میں یہ خوف تھا کہ پورے جزیرۃ العرب میں مشرکین کے خلاف بیک وقت اس قسم کی کاروائی شروع کرنا مناسب امر نہیں ہے یا ان کو فیصلہ کن انداز میں اس قسم کی کاروائی خوفناک نظر آتی تھی اور وہ اس بارے میں یکسو نہ تھے۔ اور اس کی بعض وجوہات بھی تھیں جن کے بارے میں ہم عنقریب اس تبصرے اور پھر تشریح آیات کے وقت کلام کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
اس سورت کے دوسرے حصے میں ، اسلامی معاشرے اور اہل کتاب کے درمیان تعلقات کی حد بندی کی گئی اور اس میں جو احکامات دیے گئے ہیں ، وہ فائنل ہیں اور ان فیصلوں کے نظریاتی ، تاریخی اور عملی اسباب بھی بیان کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے اسلام نے ان تعلقات کی ایسی ضابطہ بندی کی ہے۔ اس حصے میں اسلام اور اسلام کی مستقل حقیقت کو بھی بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب نے نظریاتی اور عملی ہر لحاظ سے اپنے صحیح دین سے انحراف کرلیا ہے۔ اس لیے اب وہ عملاً اس دین پر قائم نہیں رہے جو اللہ نے ان کی طرف بھیجا تھا اور جس کی وجہ سے وہ اہل کتاب قرار پائے تھے مثلاً درج ذیل آیات پر غور فرمائیں :
قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (29): جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے۔ اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے ، اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں مانتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (30) اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (31): یہود کہتے کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹآ ہے۔ یہ بےحقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ خدا کی مار ان پر یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (32) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (33) : یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے۔ خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے۔ خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الأحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ (35) : اے ایمان لانے والو ! ان اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کا مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ دردناک عذاب کی خوشخبری دو ، ان کو جو سونے اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اس سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔
اس حصے میں جو اسلوب گفتگو اپنایا گیا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات لوگوں کے اس خلجان کو دور کرنے کے لیے نازل ہوئیں ، جو وہ اہل کتاب کے خلاف کسی سخت ایکشن کے سلسلے میں اپنے اندر پاتے تھے ، یا یہ تردد اور خوف ان میں سے بڑی اکثریت کے دلوں میں پایا جاتا تھا کہ وہ اہل کتاب کے حوالے سے پہلی آیت کے مطابق تعلق کا آغآز کس طرح کریں ، لیکن درحقیقت ان آیات میں روئے سخن رومیوں کی طرف تھا جن کے ساتھ شام اور عرب کے عیسائیوں کے حلیفانہ تعقلات تھے۔ رومیوں کے حوالے سے یہ تردد اور خوف بجا بھی تھا ، اس لیے کہ جزیرۃ العرب کے باشندوں کے ہاں رومیوں کی تاریخی شہرت تھی۔ اگرچہ آیت کے الفاظ تمام اہل کتاب کے لیے عام ہیں اور آیت میں مذکور ہونے والے اوصاف سب ان پر منطبق تھے جیسا کہ آیت کی تشریح کے وقت ہم بتائیں گے۔
اس سورت کے تیسرے حصے میں ان کاہل اور سست لوگوں کا ذکر ہے جن کو جب جہاد کے لیے دعوت دی جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو بوجھل بنا کر زمین پر گرا دیتے ہیں اور نفیر عام سے سستی برتتے ہیں۔ یہ سستی کرنے والے سب کے سب منافق نہ تھے جیسا کہ بعد میں واضح ہوگا بلکہ یہ مہم چونکہ پر مشقت تھی اور بعض لوگ مشکلات راہ کی وجہ سے سست پڑگئے تھے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلا قَلِيلٌ (38) إِلا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (39) إِلا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (40) انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (41) : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم اسے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے ؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا ؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیا کی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ تم نہ اٹھوگے تو خدا تمہیں دردناک عذاب دے گا۔ اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا اور تم خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی ، تو کچھ پروا نہیں اللہ اس کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا۔ جب وہ صرف دو میں دوسرا تھا ، جب وہ دونوں غار میں تھے ، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ " غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے " اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے۔ اللہ زبردست دانا و بینا ہے۔ نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ (اگر تم جانو)
یہاں بار بار تاکید ، تہدید اور ملامت کے الفاظ لائے جاتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جہاں تک رسول اللہ کی امداد کا تعلق ہے تو کسی انسان کی شرکت کے بغیر بھی اللہ نے ان کی مدد کی ہے۔ ذرا وہ وقت یاد کرو کہ جب مکہ سے کافروں نے انہیں نکالا تھا۔ کوئی فوج ان کے ساتھ نہ تھی لیکن وہ کامیاب رہے۔ پھر یہ تاکید کہ تم بوجھل ہو یا ہلکے بہرحال اس مہم میں نکلو ، یہ سب امور بتاتے ہیں کہ یہ مہم بہت سخت تھی ، لوگوں کے اندر سستی اور تردد بلکہ خوف طاری تھا۔ اس لیے یہاں سخت ترین الفاظ میں تاکید کی گئی ہے کہ لازماً اس مہم میں نکلو۔
اس کے بعد اس سورت کا چوتھا حصہ آتا ہے اور وہ قدے طویل ہے۔ اس سورت کے نصف حصے پر مشتمل ہے۔ اس میں منافقین اور اسلامی معاشرے کے خلاف ان کی ریشہ دوانیوں کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ غزوہ تبوک ، اس سے پہلے اور اس کے بعد کے ادوار میں ان کی نفسیاتی حالت اور ان کی عملی بوکھلاہٹ کو لیا گیا ہے۔ ان کی نیات ، ان کے حیلوں بہانوں اور ان کے عذرات لنگ کا مضحکہ اڑایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح وہ اس جہاد سے پیچھے رہے۔ کس طرح اسلامی صفوں میں کمزوری ، افتراق اور بےچینی پھیلاتے رہے۔ رسول اللہ ﷺ اور مخلص مومنین کو ایذائیں دیتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مخلص مومنین کو ان کی ریشہ دوانیوں سے متنبہ کیا جاتا ہے۔ چناچہ ان کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں تجویز کیا جاتا ہے کہ مخلصین کو ان سے دور رہنا چاہیے۔ یہ حصہ سورت کا بنیادی حصہ ہے۔ اور بنیادی وجود ہے۔ اس حصے معلوم ہوتا ہے کہ نفاق جو فتح مکہ کے بعد قریبا قریباً ختم ہوگیا تھا کس طرح دوبارہ پھیل گیا تھا اور اگلے پیرا گراف میں آپ دیکھیں گے کہ اس نفاق کے پھیلنے کے اسباب کیا تھے۔ یہاں ہم اس پورے حصے کو تو نقل نہیں کرسکتے البتہ بطور نمونہ چند فقرات ملاحظہ ہوں۔
لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لاتَّبَعُوكَ وَلَكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (42) : اے نبی اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہوجاتے مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہوگیا۔ اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔
وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لأعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ (46) لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ مَا زَادُوكُمْ إِلا خَبَالا وَلأوْضَعُوا خِلالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (47) لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الأمُورَ حَتَّى جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ (48): اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا۔ اس لیے ان کو سست کردیا گیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر سوائے خرابی کے کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے اور تمہپارے گروہ کا یہ حال ہے کہ ابھی اس میں بہت سے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں۔ اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ان لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمہیں ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کی تدبیروں کا الٹ پھیر کرچکے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آگیا اور اللہ کا کام ہوکر رہا۔
وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (61): ان میں سے کچھ لوگ اپنی باتوں سے نبی کو دیکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ کہا " وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے ، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہل ایمان پر اعتماد کرتا ہے اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں میں سے جو تم میں ایماندار ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے "
وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلا تَفْتِنِّي أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ (49)إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَهُمْ فَرِحُونَ (50): ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ " مجھے رخصت دیجئے اور مجھ کو فتنہ میں نہ ڈالیے " سن رکھو ! فتنے میں ہی تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے۔ تمہارا بھلا ہوتا ہے تو انہیں رنج ہوتا ہے۔ اور تم پر کوئی وصیت آتی ہے تو یہ منہ پھیر کر خوش خوش پلٹتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اچھا ہوا ہے ہم نے پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کرلیا تھا۔
وَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَمَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ (56) لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلا لَوَلَّوْا إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ (57): وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہیں میں سے ہیں۔ حالانکہ وہ ہر گز تم میں سے نہیں ہیں۔ اصل وہ تو ایسے لوگ ہیں جو تم سے خوفزدہ ہیں۔ اگر وہ کوئی جائے پناہ لیں یا کوئی کھول یا گھس بیٹھنے کی جگہ تو بھاگ کر اس میں جا چھپیں۔
وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ (58) وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ (59): اے نبی ان میں بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراض کرتے ہیں۔ اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہوجائیں۔ اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ اللہ اور رسول نے جو کچھ بھی انہیں دیا تھا ، اس پر وہ راضی رہتے اور کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔ اور وہ اپنے فضل سے اور بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی ہم پر عنایت فرمائے گا۔ ہم اللہ ہی کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں۔
وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (61): ان میں سے کچھ لوگ اپنی باتوں سے نبی کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ کہو " وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے ، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہل ایمان پر اعتماد کرتا ہے اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایماندار ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے "۔
يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ (62) أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ (63): یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں ، حالانکہ اگر یہ مومن ہیں تو اللہ و رسول اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ ان کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ جو اللہ اور رسول کا مقابلہ کرتا ہے۔ اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔
يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ (64) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ (66): یہ منافق ڈر رہے ہیں کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی ایسی سورت نازل نہ ہوجائے جو ان کے دلوں کے بھید کھول کر رکھ دے۔ اے نبی ان سے کہو " اور مذاق اڑاؤ، اللہ اس چیز کو کھول دینے والا ہے جس کے کھل جانے سے تم ڈرتے ہو " اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے ، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ ان سے کہو " تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اس کے آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی۔ اب عذرات نہ تراشو ، تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے ، اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کرد بھی دیا تو دوسرے گروہ کو ہم ضرور سزا دیں گے ، کیونکہ وہ مجرم ہیں۔
الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (67) وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ (68): منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں۔ برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا۔ یقیناً یہ منافق ہی فاسق ہیں۔ ان منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں کے لیے اللہ نے آتش دوزخ کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ وہی ان کے لیے موزوں ہے۔ ان پر اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (73) يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ وَإِنْ يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الأرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ (74): اے نبی کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ، آخر کار ان کا ٹکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے۔ یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کہی ، حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے۔ وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے۔ یہ ان کا سارا غصہ اس بات پر ہے ، تاکہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کردیا ہے۔ اب اگر یہ اپنی روش سے باز آجائیں تو انہی کے لیے بہتر ہے اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت دردناک سزا دے گا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور زمین میں کوئی نہیں جو ان کا حمایتی اور مددگار ہو۔
وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ (75) فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ (76) فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (77): ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولتمند کردیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انہیں اس کی پروا تک نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بدعہدی کی وجہ سے جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے ، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا ، جو اس کے حضور انکی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔
الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (79) اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (80): جو لوگ برضا ورغبت دینے والے اہل ایمان کی مالی قربانیوں پر باتیں چھانٹتے ہیں اور ان لوگوں کا مذاق اڑانے والوں کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ اے نبی تم ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو ، اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کردینے کی درخواست کروگے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اللہ فاسق لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا ہے۔
فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ (81) فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (82) فَإِنْ رَجَعَكَ اللَّهُ إِلَى طَائِفَةٍ مِنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ (83) وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ (84) وَلا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ (85): جن لوگوں کو پیچے رہنے کی اجازت دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر پر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ " اس سخت گرمی میں نہ نکلو " ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے۔ کاش انہیں اس کا شعور ہوتا۔ اب چاہئے کہ یہ لوگ ہنسنا کم کریں اور روئیں زیادہ۔ اس لیے کہ جو بدی یہ کما رہے ہیں اس کی جزا ایسی ہی ہے۔ اگر اللہ ان کے درمیان تمہیں واپس لے جائے اور آئندہ ان میں سے کوئی گروہ جہاد کے لیے نکلنے کی تم سے اجازت مانگے تو صاف کہہ دینا کہ " اب تم میرے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے اور نہ میری معیت میں کسی دشمن سے لڑسکتے ہو ، تم نے پہلے بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا تو اب گھر میں بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نماز جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں اس حال میں کہ وہ فاسق تھے۔ ان کی مالداری اور ان کی کثرت اولاد تم کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ اللہ نے تو ارادہ کرلیا ہے کہ اس مال اور اولاد کے ذریعے سے ان کو اسی دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔
یہ طویل تنقید جس میں بیشمار انکشافات کیے گئے اس بات کی مظہر ہے کہ اس وقت منافقین کی طرف سے اسلامی جماعت کی ایذا رسانی کے لیے رات دن کوششیں ہوتی رہتی تھیں۔ یہ منافق مختلف قسم کی سازشوں ، فتنہ انگیزیوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے نصب العین سے ہٹآنے کی سعی کرتے رہتے تھے۔ نیز اس تنقیدی تقریر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اسلامی صفوں میں ہم آہنگی اور مکمل اتحاد کی کمی تھی اور جماعت مسلمہ کی عضویاتی تکمیل ابھی تک ادھوری تھی۔ اس کی طرف اس فقرے کے ذریعے اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ و فیکم سمعون لہم " اور تم میں ان کی بات پر کان دھرنے والے موجود ہیں " نیز ایسے لوگوں کے لیے دعا کرنے کی سخت ممانعت اور ان کا نماز جنازہ نہ پڑھنے کی تاکید سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ایسے لوگوں کے لیے ہمدردی کے جذبات اسلامی صفوں میں موجود تھے۔ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوگئی تھی کہ فتح مکہ کے بعد لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے تھے اور ان کے دلوں میں ابھی تک ایمان اچھی طرح جاگزیں نہ ہوا تھا۔ نہ وہ ابھی تک پوری طرح اسلامی رنگ میں رنگے گئے تھے۔ اس کی تفصیلات ہم اس سورت میں ان آیات کے ضمن میں دیں گے جن میں اسلامی جماعت کے اجزائے ترکیبی پر بحث کی گئی ہے جن سے اس وقت جماعت کی تالیف ہوئی تھی۔
(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)
(سورۃ براء ۃ/ توبہ پر ایک نظر کا دوسرا حصہ )
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا (9)إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الأبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا (10) هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالا شَدِيدًا (11) وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلا غُرُورًا (12) وَإِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِنْ يُرِيدُونَ إِلا فِرَارًا (13) وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلا يَسِيرًا (14)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو ، جب لشکر تم پر چڑھ آئے ہو تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی۔ اور ایسی فوجیں جو تم کو دکھائی نہیں دیتی تھیں اور جو کچھ تم کر رہے تھے ، اللہ دیکھ رہا تھا۔ جب تمہارے اوپر کی طرف سے اور تمہارے نیچے کی طرف سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں ، کلیجے منہ کو آگئے اور اللہ کے بارے میں تم لوگ گمان کرنے لگے۔ اس موقعہ پر ایمان والے آزمائے گئے اور بری طرح جھنجھوڑے گئے اور جب منافقین نے اور ان لوگوں نے جن کے دلوں میں روگ تھا ، کہنا شروع کیا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ نرا دھوکہ تھا اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ اے یثرب کے لوگو ، تمہارے لیے اب ٹھہرنے کا موقعہ نہیں ہے ، پس اپنے گھروں کو واپس جاؤ اور ان میں سے ایک فریق نبی سے یہ کہہ کر رخصت مانگ رہا تھا کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ غیر محفوظ نہ تھے۔ وہ جنگ سے بھاگنا چاہتے تھے۔ اگر وہ شہر کے اطراف سے گھس آئے ہوتے۔ اور ان سے فساد کو کہا جاتا تو یہ اسے مان لیتے اور اس میں ذرا بھی دیر نہ کرتے "
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُوا جَمِيعًا (71) وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَيُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُنْ مَعَهُمْ شَهِيدًا (72) وَلَئِنْ أَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ لَيَقُولَنَّ كَأَنْ لَمْ تَكُنْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا (73): اے لوجو جو ایمان لائے ہو۔ اپنی حفاظت اور تیاری میں لگے رہو۔ پھر نکلو الگ الگ گروہوں میں ہو کر یا اکٹھے ہو کر اور یقینا تم میں کوئی ایسا بھی ہے جو دیر کرے۔ پھر اگر کوئی مصیبت آپڑے تو کہتا ہے کہ اللہ نے مجھ پر بڑا ہی احسان کیا کہ ان لوگوں کے ساتھ نہ تھا اور اگر تم پر اللہ کا فضل ہو تو بول اٹھے کہ گویا تمہارے اس کے درمیان محبت کا کوئی رشتہ تھا ہی نہیں کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی کامیابی حاصل کرلیتا۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلا أَخَّرْتَنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلا تُظْلَمُونَ فَتِيلا (77) أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكُكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَمَالِ هَؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا (78): کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ، جن کو حکم دیا گیا کہ تم اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو ، پھر جب ان پر قتال فرض کردیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ انسانوں سے ایسا ڈرنے لگا جسے اللہ سے ڈرا جاتا ہے یا اس سے بھی بڑھ کر۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تونے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی اور مہلت کیوں نہ دی ، کہہ دو ، اس دنیا کا سرمایہ بہت قلیل ہے اور جو شخص تقوی اختیار کرے اس کے لیے آخرت ہی بہتر ہے۔ اور تم لوگوں کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہوگی۔ تم کہیں بھی ہو ، موت تمہیں پا لے گی۔ اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں کیوں نہ ہو۔ اور ان لوگوں کو اگر کچھ فائدہ پہنچ جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری طرف سے ہے۔ تم کہو کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ پھر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ بات ہی نہیں سمجھتے۔
إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ (36)إِنْ يَسْأَلْكُمُوهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا وَيُخْرِجْ أَضْغَانَكُمْ (37) هَا أَنْتُمْ هَؤُلاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ وَمَنْ يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ (38): دنیا کی زندگی تو بس نرا کھیل تماشا ہے۔ اور اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقوی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے اجر تمہیں عطا کرے گا۔ اور تمہارے مال تم سے طلب نہیں کرے گا اور اگر وہ تم سے تمہارے مال طلب کرے پھر انتہا درجے تک تم سے طلب کرتا رہے تو تم ضرور بخل کرنے لگو اور وہ تمہاری ناگواری ضاطر ہکردے۔ تم وہ لوگ ہو کہ تمہیں دعوت دی جا رہی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اس پر بھی تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو بخل کرتے ہیں اور جو بخل کرتا ہے تو درحقیقت وہ خود اپنے سے بخل کرتا ہے۔ ورنہ اللہ تو بےنیاز ہے اور تم محتاج ہو اور اگر تم منہ موڑوگے تو وہ دوسری قوم کو لا بٹھائے گا اور وہ تم جیسی نہ ہوگی۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَا هُمْ مِنْكُمْ وَلا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (14) أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (15) اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ (16) لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (17) يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ (18) اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ (19)إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ فِي الأذَلِّينَ (20) كَتَبَ اللَّهُ لأغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (21) لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الإيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (22) : کیا تونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جنہوں نے ایسے گروہ کو دوست بنایا جن پر اللہ کا غضب ہے اور وہ لوگ نہ تم میں سے اور نہ ان میں سے اور باوجود یہ کہ وہ جانتے ہیں اور پھر بھی جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ بہت برا کر رہے ہیں انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ لہذا ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔ ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ سے انہیں ذرا نہ بچا سکیں گے۔ وہ ہیں دوزخ والے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ جس دن اللہ ان کو اٹھائے گا تو وہ اس کے آگے قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے آگے اٹھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ خوب کر رہے ہیں۔ خوب جان لو وہ جھوٹ ہیں۔ ان پر شیطان مسلط ہوچکا ہے اور اس نے ان کو اللہ کی یاد بھلا دی ہے۔ وہ شیطان کے گروہ کے لوگ ہیں ، سن لو ، شیطان کا گروہ ہی خسارے میں رہنے والا ہے۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں یقینا وہ ذلیل ترین لوگوں میں سے ہیں ، اللہ تو لکھ چکا ہے کہ ہم اور ہمارے پیغمبر ہی غالب ہو کر رہیں گے۔ بلاشبہ اللہ ہی بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ تم کبھی یہ پاؤگے کہ جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں وہ ایسوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں خواہ وہ لوگ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبے کے ہی ہوں ، یہی ہیں جن کے دلوں میں ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کرکے ان کی مدد کی ہے اور وہ ان کو باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ، ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، وہ اللہ کا گروہ ہیں اور اللہ کا گروہ ہی فلاح پانے والا ہے۔ (سورۃ الحشر)
َيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (51) فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ (52) وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ (53): اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، یہود و نصاری کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ یہ لوگ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی ان کو دوست بنائے گا تو وہ بیشک ان ہی میں سے ہوگا۔ یقینا اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔ تم دیکھتے ہو کہ جن لوگوں کے دلوں میں روگ ہے ، وہ ان لوگوں کی طرف دوڑے جا رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ کسی مصیبت کے پھیر میں نہ آجائیں۔ تو وہ وقت دور نہیں جب اللہ تمہیں فتح دے یا اپنی طرف سے کوئی بات لے آئے تو یہ لوگ اس بات پر نادم ہوجائیں جو وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے۔ اور اہل ایمان کہیں گے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو بڑے زور و شور سے اللہ کی قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ان کے تمام اعمال اکارت گئے اور یہ سراسر نقصان میں آگئے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنْتُمْ وَمَنْ يَفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (1)إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ (2) لَنْ تَنْفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلا أَوْلادُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (3) قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لأبِيهِ لأسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (4): اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اگر تم ہماری راہ میں جہاد کرنے اور ہماری رضا جوئی کے لیے نکلے ہو تو ہمارے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ کہ لگو ان کے ساتھ دوستی ڈالنے۔ حالانکہ تمہارے پاس جو حق آیا ہے وہ اس کا انکار کرچکے ہیں۔ رسول کو اور تم کو صرف اس بات پر نکالتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان لائے ہو۔ تم چپکے چپکے ان کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو ، حالانکہ ہم جانتے ہیں جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو اور جو تم میں سے ایسا کرے وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔ اگر یہ تم پر قابو پائیں تو تمہارے دشمن ہوجائیں اور تم پر برائی کے ساتھ دست درازی کریں اور زبان درازی کریں۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم بھی کافر ہوجاؤ۔ قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں تمہارے کام آئیں گی اور نہ تمہاری اولاد۔ اس دن اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ تمہارے لیے اچھا نمونہ تو ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ہے۔ جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کی تم عبادت کرتے ہو ، قطعی بیزار ہیں۔ ہم تمہارا انکار کرتے ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت ہوگئی۔ جب تک تم اللہ وحدہ رپ ایمان نہ لاؤ مگر ابراہیم کا اپنے باپ سے یہ کہنا کہ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا ضرور کروں گا ، اگرچہ آپ کے لیے اللہ کی طرف سے کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے رب ہم نے تجھ ہی پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔
مختلف سورتوں میں یہ دس شواہد ہمارے مدعا کے لیے کافی ہیں کہ اسلامی معاشرہ میں بعض اوقات اس قسم کے عارضی حالات پیش آتے تھے اور یہ اس لیے پیش آتے تھے کہ اسلامی معاشرے میں اچانک نئے لوگوں کا ایک ریلا داخل ہوگیا تھا جو اپنے ساتھ اپنی پرانی عادات لے کر آئے تھے۔ اور یہ عادات مسلسل تربیت اور تطہیر کے بعد ہی دور ہوسکتی تھیں اور اس کے لیے مسلسل تربیتی جدوجہد کی ضرورت تھی۔
لیکن مدینہ طیبہ میں مسلم معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ درست تھا ، اس لیے کہ اس ڈھانچے میں بنیادی اہمیت صرف ان لوگوں کو حاصل تھی جو مہاجرین وانصار میں سے سابقین اولین تھے اور نہایت ہی مضبوط لوگ تھے۔ نیز اس معاشرے کی تعمیر و تربیت میں اتحاد و اتفاق اور اس کے ڈھانچے میں اس قدر پختگی تھی اس نے ان کمزوریوں اور عوارض اور انتشار پر قابو پا لیا تھا اور وہ عناصر جو خوف اور پریشانی سے متاثر ہوجاتے تھے اور جن کی ابھی تک پوری تربیت نہ ہوئی تھی اور وہ اس جدید معاشرے میں ابھی تک ڈھل نہ گئے اور ان کے اندر پوری ہم آہنگی پیدا نہ ہوئی تھی ان کو بھی اجتماعی معاشرتی نظام سنبھالا دیتا تھا۔
بہرحال آہستہ آہستہ یہ جدید عناصر تربیت پا رہے تھے۔ اس معاشرے میں ڈھل رہے تھے اور ان کی تطہیر مسلسل ہو رہی تھی اور وہ اسلامی معاشرے کی اصل قوت کے ساتھ ملتے رہتے تھے۔ اور ضعیف القلب ، نافرمانی کرنے والوں اور ڈھل مل یقین قسم کے لوگوں کی تعداد روز بروز کم ہو رہی تھی۔ مفادات سے ڈرنے والے اور ایسے لوگ جن کے دلوں میں ابھی تک اسلامی نظریہ حیات پوری طرح نہ بیٹھا تھا تاکہ وہ اپنے سوشل روابط بھی اسی نظریہ کی اساس پر استوار کریں۔
یہاں تک کہ فتح مکہ سے پہلے حالت یہ ہوگئی تھی کہ اسلامی معاشرہ تعلیم وتربیت اور اپنی ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے مقام کمال کے قریب پہنچ گیا تھا اور اکثر لوگ مہاجرین وانصار میں سے سابقین اولین کے نقش قدم پر چل پڑے تھے۔ اور یہ معاشرہ اس قدر پاک اور تربیت یافتہ ہوگیا تھا کہ وہ اسلامی نظام حیات کے پیش نظر مطلوبہ معیار کے قریب تر تھا۔
یہ بات درست ہے کہ ابھی تک اس معاشرے میں ایسی قدریں نشوونما پا چکی تھیں کہ جن کا تعلق براہ راست اسلامی نظریات کے ساتھ تھا۔ ان اقدار کی وجہ سے تحریک کے اندر کچھ لوگ زیادہ ممتاز تھے اور زیادہ ثابت قدم تھے اور تحریک کی صفوں میں اوروں سے آگے تھے۔ مثلاً مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین ، اہل بدر ، حدیبیہ میں بیعت رضوان کرنے والے۔ پھر جن لوگوں نے فتح مکہ سے قبل جہاد ، انفاق اور قتال میں حصہ لیا اور جنہوں نے بعد میں لیا۔ نصوص کتاب اللہ ، احادیث نبوی اور تحریک کے بعض عملی اقدامات سے یہ تفاوت مراتب اور اقدار کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ اسلامی اقدار اور تفاوت اسلامی نظریہ حیات کو آگے بڑھانے کے نقطہ نظر سے متعین ہوئیں۔ قرآن مجید کی تصریحات :
وَالسَّابِقُونَ الأوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (100) وہ مہاجرین و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی ، نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ (التوبہ)
ایک حدیث کے الفاظ میں یہ بھی ہے " شاید اللہ نے اہل بدر کو یہ اطلاع کردی ہو کہ تم جو چاہو کرو ، بس درحقیقت تمہارے لیے جنت واجب ہوچکی ہے " یہ بخاری کی حدیث کا ایک حصہ ہے۔ ان الفاظ میں حضرت عمر کی اس تجویز کو مسترد فرمایا جس میں انہوں نے ایک بدری صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کی گردن اڑانے کی اجازت طلب فرمائی تھی ، جنہوں نے یہ کمزوری دکھائی تھی کہ قریش کو فتح مکہ کی تیاریوں کے سلسلے میں اطلاع دی تھی جسے پکڑ لیا گیا تھا۔
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا (18) وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (19): اللہ مومنین سے خوش ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے اور اللہ کو معلوم تھا ، جو کچھ ان کے دلوں میں تھا ، اس لیے ان پر سکینت نازل فرمائی اور ان کو فتح بھی دے دی ، اور بہت سی غنیمتیں بھی دیں جنہیں یہ لوگ لے رہے ہیں اور اللہ زبردست اور حکمت والا ہے۔ (الفتح)
لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (10): تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے خرچ کیا اور دشمنوں سے لڑے وہ لوگ بڑا درجہ رکھتے ہیں ان سے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور دشمن سے لڑے۔ اگرچہ دونوں سے اللہ نے اچھے وعدے فرمائے ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔ (الحدید)
" خالد ذرا آرام سے رہو ، میرے ساتھیوں کو چھوڑ دو ، خدا کی قسم اگر تمہارے پاس اور جتنا سونا بھی ہو اور تم اسے فی سبیل اللہ خرچ کردو تو تم وہ ثواب نہیں کما سکتے جو انہوں نے صبح و شام جہاد میں حصہ لے کر کمایا "۔ یہ حدیث ابن قیم نے زاد المعاد میں نقل کی ہے۔ یہ الفاظ حضور نے حضرت خالد کو متنبہ کرتے ہوئے کہے۔ جب انہوں نے حضرت عبدالرحمن ابن عوف کے ساتھ تلخ کلامی کی۔ خالد اگرچہ سیف اللہ تھے مگر ابن عوف سابقون اولون میں سے تھے۔ " میرے ساتھیوں کو چھوڑ دو " حضور ﷺ و آلہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی معاشرہ میں یہ ممتاز طبقہ ہے۔
اسلامی تحریک نے ان حضرات کے دلوں میں جو ایمان پیدا کیا اور اس کے نتیجے میں ان کے اندر جو قریں پیدا ہوئیں ان کے اختلاف کے مطابق ان کے درجے بھی مختلف تھے ، لیکن فتح مکہ سے قبل یہ تفاوت بہت کم ہوگیا تھا اور اسلامی معاشرہ پوری طرح ہم آہنگ تھا اور اس کی ناہمواریاں پوری طرح چھپ گئی تھیں۔ ان کی اکثر کمزوریاں دور ہوگئی تھیں اور جان و مال کے سلسلے میں ان کی شخصیات میں سے بخل دور ہوگیا تھا۔ ان کے عقائد واضح ہوگئے تھے اور ان کی زندگی سے نفاق پوری طرح دور ہوگیا تھا اور فتح مکہ سے قبل مدنی معاشرہ کی حالت یہ تھی کہ وہ ایک مکمل اسلامی معاشرہ بن گیا تھا جو اسلامی انقلاب کی اساس تھا۔
مگر جب سن آٹویں ہجری میں مکہ فتح ہوا اور اس کے بعد جنگ حنین کے نتیجے میں ہوازن ثقیف اور دوسرے قبائل فتح ہوگئے۔ یہ دو قبائل قریش کے بعد عرب کی ممتاز قوتیں تھیں۔ تو انسانوں کا ایک سیلاب اسلامی معاشرے میں داخل ہوگیا تھا۔ ایمان و اخلاق کے اعتبار سے یہ مختلف سطح کے لوگ تھے۔ ان لوگوں میں منافقین کی ایک بڑی تعداد بھی تھی جو اسلام کو دل سے ناپسند کرتے تھے۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو اسلام کی شوکت کو دیکھ کر بہہ گئے تھے۔ ان میں مؤلفۃ القلوب بھی تھے اور یہ طبقات ایسے تھے کہ وہ اسلامی قالب میں ابھی تک ڈھل نہ گئے تھے اور نہ ان کی پوری تربیت ہوئی تھی۔ اسلام کی حقیقی روح سے یہ نئے لوگ نابلد تھے۔
جزیرۃ العرب میں اسلام کے پھیلاؤ کی راہ میں قریش ایک دیوار اور بند کی طرح کھڑے تھے ، کیونکہ دینی اور دنیاوی معاملات میں قریش کو ایک بڑا مقام حاصل تھا۔ پھر ادبی ، ثقافتی اور علمہ و اقتصادی اعتبار سے بھی وہ دوسرے عربوں کے لیے قابل تقلید تھے۔ اس وجہ سے ان کا مقابلے پر اتر آنا اور اس دین کی راہ روک دینا اس بات کا باعث ہوا کہ تمام عرب نے اس دین سے منہ پھیرلیا۔ اور اسلام میں داخل نہ ہوئے یا اگر انہوں نے صرف نظر نہ کیا تو کم از کم یہ صورت حالات ضرور تھی کہ لوگ تردد میں رہے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ انتظار کیا جائے ، تاکہ مسلمانوں اور قریش کی کشمکش کا کوئی فیصلہ ہوجائے۔ جب فتح مکہ کے بعد قریش سرنگوں ہوئے تو ہوازن ثقیف بھی سرنگوں ہوگئے۔ مدینہ میں جو قوی یہودی قبائل تھے ، ان کی قوت اس سے پہلے ہی ٹوٹ گئی تھی۔ بنی قینقاع ، اور بنو نضیر شام کی طرف جلا وطن ہوگئے۔ بنو قریظہ بھی ختم ہو کر رہ گئے اور خیبر کا معاملہ بھی صاف ہوگیا تھا۔ خیبر کو فتح کرلیا گیا۔ ان واقعات کی وجہ سے اب پورے جزیرۃ العرب میں اسلام پھیل گیا اور لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہونے لگے اور صرف ایک سال کے عرصے میں لوگ دین اسلام میں داخل ہوگئے۔
اسلام کا گراف افقی طور پر بلند ہونے کی وجہ سے وہ کمزوریاں اسلامی صفوں میں در آئیں جو جنگ بدر کی حیران کن کامیابی کی وجہ سے آگئی تھیں۔ اب یہ کمزوریاں بہت بڑے پیمانے پر تھیں۔ بدر الکبری کے بعد جو کمزور عناصر اسلامی صفوں میں در آئے تھے ان کو تعلیم و تربیت کے ذریعے اس قدر پاک و صاف کردیا گیا کہ بدر الکبری کے بعد فتح مکہ تک سات سالوں میں قریب تھا کہ مدنی معاشرہ تمام کمزوریوں سے پاک ہوجائے اور اہل مدینہ اسلامی انقلاب کے لیے مضبوط بیس اور مضبوط بنیاد بن جائے۔ یہاں اولین ، مہاجرین و انصار کی ایک ایسی جمعیت تیار بیٹھی تھی کہ وہ ہر وقت اسلامی نظام کے لیے امین تھی۔ اگر یہ جمعیت نہ ہوتی تو اس عظیم انقلاب کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا۔ لیکن بدر الکبری کے بعد اس جمعیت نے جو مہاجرین و انصار کے سابقین اولین پر مشتمل تھی اس عظیم انقلابی امانت کی مسلسل نگہبانی کی۔ ان سات سالوں میں اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ کی اس جمعیت کو اس کام کے لیے تیار کیا اور تربیت دی کہ یہ لوگ فتح عظیم کے بعد اسلام میں داخل ہونے والے انسانوں کے سیلاب کو کنٹرول کرسکیں۔ اللہ خوب جانتا تھا کہ وہ اپنی اس رسالت اور انقلابی رسالت کی حفاظت کا کام کس کے سپرد کرے۔
ان کمزوریوں کا سب سے پہل ظہور یوم حنین میں ہوا۔ اس کا تذکرہ سورت توبہ میں ان الفاظ میں ہوا ہے :
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الأرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (25) ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (26): " اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کرچکا ہے۔ ابھی غزوہ حنین کے روز۔ اس روز تمہیں اپنی کثرت تعداد کا غرہ تھا۔ مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے۔ اور منکرین حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے ان لوگوں کا جو حق کا انکار کریں "۔
اس جنگ میں ابتدائی شکست کا پہلا سبب یہ تھا کہ دس ہزار اسلامی لشکر میں دو ہزار طلقاء شریک تھے۔۔۔ یہ یوم فتح مکہ پر ایمان لائے تھے اور اسلامی لشکر کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے تھے۔ چناچہ اسلامی لشکر کے ساتھ ان دو ہزار افراد کا وجود ہی اس اتنشار کا سبب بنا۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ ہوازن نے بالکل اچانک حملہ کیا اور لشکر اسلام چونکہ صرف مدینہ طیبہ کی حقیقی تربیت یافتہ فوج پر مشتمل نہ تھا ، جن کی تربیت گذشتہ سات سالوں میں مکمل ہوچکی تھی اور جو اس تحریک کی اصل اساس اور سرمایہ تھے۔ اس لیے انتشار پیدا ہوگیا۔
غزوۂ حنین میں جو کمزوریاں سامنے آئیں وہ اسلام کی عددی قوت کے گراف اچانک عمودی بلندی کی وجہ سے تھیں۔ جدید لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے۔ جو ایمان اور اخلاص کے اعتبار سے مختلف درجات کے لوگ تھے۔ جن کے درمیان تفاوت درجات تھا۔ اور سورت توبہ میں ان کمزوریوں سے بحث کی گئی ہے۔ اور پھر مختلف زاویوں سے اور مختلف پہلوؤں سے سخت تنقید کی گئی ہے۔ جن کے تفصیلی اقتباسات ہم اس سے قبل دے آئے ہیں۔
اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اس کی تربیت کی تاریخ کے مطالعے کے لیے ضروری ہے کہ ہم فتح مکہ کے ٹھیک دو سال بعد کی تاریخ کے واقعات پر نظر ڈالیں۔ ٹھیک دو سال بعد جب حضور اکرم ﷺ کا انتقال ہوا تو تمام جزیرۃ العرب ایک بار مرتد ہوگیا۔ صرف مدینہ کی تربیت یافتہ اسلامی سوسائٹی اپنی جگہ پر قائم رہی اور جیسا کہ ہم نے کہا ، یہی اسلامی معاشرے کی مضبوط بنیاد تھی۔ چناچہ ان حالات کو اگر نظر میں رکھا جائے تو ان کمزوریوں کے ظہور کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ فتح مکہ کے بعد صرف دو سال کے عرصے میں یہ ممکن نہ تھا کہ اسلام میں داخل ہونے والے لوگوں کی اخلاقی تربیت اور تطہیر کردار کے کام کو مکمل کیا جاسکے۔ جبکہ آنے والوں کا معیار درجہ ایمانی کے اعتبار سے مختلف تھا۔ حضور ﷺ کے انتقال کے بعد حالت یہ تھی کہ پورا جزیرۃ العرب فکری انتشار و خلفشار کا شکار تھا اور مدینہ طیبہ کا بیس (Base) اپنے موقف پر سختی سے قائم تھا۔ اپنی مضبوطی اور پختگی کے بل بوتے پر اور اپنے اتحاد اور یگانگت کے ذریعے سے اس انتشار اور سیلاب کے مقابلے میں یہ سوسائٹی جم گئی اور انسانوں کے سیلاب کو غلط بہاؤ سے روک کر اس کا دھارا پھر اسلام کی طرف پھیر دیا۔
ان حقائق کو اس زاویہ سے دیکھنے کے بعد ہمیں اچھی طرح یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ مکہ میں دعوت اسلامی کو جن مشکلات اور مصائب سے دوچار کیا گیا تھا وہ اللہ کی تعمیری حکمت کے تحت ایک با مقصد امر تھا تاکہ یہ سوسائٹی جو اسلام کی بنیاد تھی ، ان مشکلات سے کندن ہوکر نکلے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ میں مشرکین نے مسلمانوں کو کس قدر اذیت دی۔ فتنوں میں مبتلا کیا ، ان کا خون بہایا اور ان کے ساتھ کیا کیا ، کیا۔
اللہ کو معلوم تھا کہ مضبوط اسلامی تحریک کے قیام کے لیے یہی منہاج تربیت ہے تاکہ جماعت کی بنیاد مضبوط ہو ، کیونکہ اس مضبوطی کے بغیر جو بھی عمارت کھڑی ہے ، اس کا بوجھ برداشت کرنا مشکل تھا۔ کیونکہ تحریک کے آغاز کے لیے اس قدر مضبوطی ، خلوص ، نصب العین کے حصول پر اصرار ، اللہ کی راہ میں مشکلات انگیز کرنا ، قلت جلا وطنی ، بھوک اور افلاس ، قلت تعداد اور زمینی وسائل کی کمی جیسی مشکلات کو برداشت کرنے کی صلاحیت ضروری تھی۔ تحریک کے آغاز کے لیے اسی معیار کی پختگی ضروری تھی۔
جب یہ ابتدائی گروہ مدینہ پہنچا تو اس گروہ کے ساتھ انصار میں سے سابقون اولون آ ملے۔ اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ یہ لوگ اسلامی تحریک کے لیے بنیاد بنیں اور بدر الکبری کے بعد آنے والوں کو سنبھال سکیں جن کی مکمل تربیت نہ ہوئی تھی۔
فتح مکہ سے پہلے مدینہ طیبہ کی سوسائٹی کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ یہاں کے باسیوں کی اکثیرت تکمیل و تربیت کے اعلی مدارج طے کرچکی تھی۔ اور یہی تربیت یافتہ صحابہ کا گروہ تھا جنہوں نے فتح مکہ کے بعد آنے والی افواج کو سنبھالا اور پھر حضور ﷺ کی وفات کے بعد ارتداد کے سیلاب کا مقابلہ کیا۔
اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ پورے مکی دور میں اللہ تعالیٰ نے جو اسلامی تحریک کو سخت ترین مشکلات میں مبتلا کیا اور پھر مکی دور میں صلح حدیبیہ تک بروقت اس تحریک کو مشکلات ، جنگوں اور خوف کی حالت میں رکھا۔ اس کی حقیقی حکمت کیا تھی اس سے تحریکی عمل سے ہم یہ اصول اخذ کرسکتے ہیں کہ ہمارے دور میں اسلام کے تحریکی عمل کا منہاج کیا ہونا چاہئے۔
ابتدائی مراحل میں ، تمام اسلامی تحریکات کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ زیادہ توجہ اسلامی تحریک کی بنیادوں کو مضبوط کرنے پر صرف کریں۔ ابتدائی گروہ کی تربیت اور اخلاقی تطہیر پر توجہ دیں تاکہ تحریک کی عمارت کو مضبوط بنیادوں پر اٹھا یا جائے۔ ان کے اندر ایمان کو گہرائی تک اتارا جائے تاکہ ان کے اندر پختگی پیدا ہو ، وہ تحریک کے ساتھ لگن رکھتے ہوں اور ان کو اپنے نصب العین کا اچھی طرح شعور حاصل ہو۔ اور جب تک تحریک کے اندر ابتدائی گروہ کی اچھی طرح تربیت نہ ہوجائے ، دعوت کی توسیع کا کام نہ شروع کیا جائے کیونکہ بنیادی گروہ کی اچھی تیاری سے قبل ہی کسی تحریک کو سعت دے دینے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس آغاز ہی میں انتشار شروع ہوجائے۔ اگر کوئی اس طرح کرے گا تو وہ ربانی طریقہ تربیت کے خلاف کرے گا اور سنت نبوی اور طریقہ نبوی کے خلاف چلے گا۔
اس دعوت کی کامیابی کا کفیل اللہ ہے۔ جب اللہ کو منظور ہوتا ہے کہ کسی تحریک کو مضبوط بنیادوں پر اٹھایا جائے تو اللہ تعالیٰ تحریک کے اتبدائی دستوں کو بےپناہ مشکلات سے دوچار کرکے ان کو کردار کی پختگی عطا کردیتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی کا طویل انتظار کراتا ہے۔ ان کی تعداد قلیل ہوتی ہے۔ لوگ ان سے دور رہتے ہیں لیکن جب معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ اب صبر کرنے والے ہیں۔ یہ ثابت قدم ہوچکے ہیں۔ اور انہوں نے تیار مکمل کرلی ہے اور وہ صلاحیت پیدا کرچکے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان کو ذریعہ بناتا ہے کہ ان سے اس عظیم کام کا آغاز ہوسکے۔ اور وہ اس کے امین اور علمبردار ہوں۔ پھر اللہ ان کو قدم بقدم آگے بڑھاتا ہے۔ اللہ اپنے کاموں پر غالب ہے۔ لیکن لوگ در حقیقت نہیں جانتے۔
ان مباحث کے بعد ہم اس طرح آتے ہیں کہ اس سورت کے مضامین کا اجمالی خلاصہ یہاں دے دیں۔ اس کے بڑے بڑے موضوعات اور خصوصا وہ احکام جن میں مشرکین اور کافرین کے ساتھ اسلامی ریاست کے آئندہ تعلقات کی ضابطہ بندی کی گئی ہے کیونکہ اس موضوع پر جو احکام آئے ہیں ، وہ آخری احکام ہیں۔ لہذا ان میں بلند ترین تحریکی خطوط کھینچے گئے ہیں۔
پارہ نہم میں سورت انفال کے تعارف میں ہم نے کفار و مشرکین کے ساتھ آخری ضابطہ کے بارے میں جو کچھ نقل کیا تھا ، میں سمجھتا ہوں یہاں اس کا خلاصہ دوبارہ نقل کردیا جائے۔ اگرچہ امام ابن قیم کا یہ اقتباس مکرر یہاں آجائے گا لیکن اس تکرار کے باوجود اس کے چند فقرے یہاں نہایت ہی موزوں اور سیاق کلام کے ساتھ مناسب رہیں گے اور ان کی وجہ سے بات میں جان پیدا ہوگی۔
امام ابن قیم جوزی نے اپنی مشہور کتاب زاد المعاد میں حضور ﷺ کی مجاہدانہ زندگی کے بارے میں ایک عنوان قائم کیا ہے ، " بعثت سے لے کر وفات تک کفار اور منافقین کے ساتھ آپ کا طرز عمل " اس عنوان کے تحت وہ رقم طراز ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ کی طرف یہ وحی نازل کی کہ " آپ اپنے رب کے نام سے پڑھیں " یوں ہوا آپ کی نبوت کا آغاز ، اس وقت جو حکم دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ آپ اپنے دل میں پڑھیں۔ ابھی آپ کو تبلیغ کا حکم نہ ملا تھا ، کچھ عرصہ بعد یہ آیت نازل ہوئی یا ایہا المدثر قم فانذر یعنی اقراء سے آپ کو نبوت ملی اور یا ایہا المدثر سے آپ کو منصب رسالت عطا ہوا اور حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ڈرائیں ، رشتہ داروں کے بعد آپ نے اپنی قوم کو انجام بد سے ڈرایا۔ قوم کے بعد مکہ مکرمہ کے ارگرد پھیلے ہوئے قبائل کو تبلیغ کی۔ اس کے بعد یہ پیغام پوری عرب دنیا تک عام کردیا گیا اور بالآخر اس دعوت کو بین الاقوامی دعوت بنا دیا گیا۔
دعوت اسلامی کا کام شروع کرنے کے بعد نبی ﷺ کئی سال تک صرف وعظ اور تبلیغ کرتے رہے اور طاقت کا استعمال نہ کیا ، بلکہ آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ صبر اور درگزر سے کام لیں اور اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیں۔ ایک عرصہ بعد آپ کو ہجرت کی اجازت دی گئی اور ساتھ ہی دشمنوں سے لڑنے کی بھی اجازت دی گئی تاہم یہ اجازت اس حد تک تھی کہ صرف ان لوگوں سے جنگ کی جائے جو لڑنے کے لیے میدان میں اتر آئیں اور دوسروں سے نہ لڑا جائے۔ سب سے آخر میں یہ حکم دیا گیا کہ کفار اور مشرکین سے اس وقت تک جنگ جاری رکھی جائے جب تک دین اللہ کے لیے خالص نہیں ہوجاتا۔ (لیکون الدین کلہ للہ) جس وقت آپ کو جہاد کا حکم دیا گیا ، اس وقت حضور اور کفار کے درمیان تعلقات کی صرف تین شکلیں تھیں ، اہل صلح ، اہل حرب اور اہل ذمہ ، اہل صلح یعنی جن کے ساتھ امن کے معاہدات ہوئے تھے ، ان کے بارے میں حکم ہوا کہ عہد کو آخر تک نبھایا جائے ، لیکن صرف اس صورت میں کہ جانب مخالف اپنے معاہدے کا پابند ہو اور اگر وہ عہد شکنی اور غداری کریں تو آپ بھی معاہدہ ان کے منہ پر دے ماریں ، البتہ ایسے لوگوں کے ساتھ عملاً جنگ اس وقت تک نہ چھیڑی جائے جب تک انہیں باقاعدہ اطلاع نہ دی جائے کہ معاہدہ ختم ہوچکا ہے۔ جب سورة براءت نازل ہوئی تو ان تمام اقسام کے احکام علیحدہ علیحدہ بیان ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ، نبی ﷺ کو حکم دیا کہ وہ اہل کتاب (یہود و نصاری) سے اس وقت تک لڑیں کہ یا وہ جزیہ قبول کریں اور یا اسلام میں داخل ہوجائیں اور مشرکین اور منافقین سے بھی جہاد کا حکم دیا گیا۔ نیز منافقین سے مزید سختی برتنے کا حکم دیا گیا۔ کفار کے ساتھ آپ کا جہاد مسلح جنگ کی شکل میں تھا اور منافقین کے ساتھ زبان اور دلیل سے۔
سورة براۃ میں یہ حکم بھی دیا گیا کہ کفار کے ساتھ کیے ہوئے تمام معاہدات کو ختم کردیا جائے اور علی الاعلان ان سے براءت کا اظہار کردیا جائے۔ اس اعلان کے بعد اہل عہد کی تین اقسام قرار پائیں ، وہ جن کے ساتھ جنگ کا حکم دیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے عہد شکنی کی تھی اور اپنے عہد پر قائم نہیں رہے تھے ، ان لوگوں کے ساتھ حضور نے جنگ کی اور ان پر فتح پائی۔ دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جن کے ساتھ عہد تھا اور وہ اسے نبھاتے بھی رہے۔ آپ کو حکم دیا گیا کہ ان کے ساتھ جو معاہدہ ہے اسے مقرر مدت تک برقرار رکھا جائے اور شرائط کی پابندی کی جائے۔ تیسری قسم ایسے لوگوں کی تھی کہ جن کے ساتھ اگرچہ معاہدہ تو نہ تھا لیکن یہ لوگ آپ کے خلاف کسی جنگ میں بھی شریک نہ ہوئے تھے یا ان کے ساتھ تعین مدت کے بغیر معاہدہ طے پا گیا تھا ، ایسے لوگوں کے بارے میں حکم ہوا کہ انہیں چار ماہ کی مہلت دی جائے اور ان سے کہہ دیا جائے کہ اس کے بعد کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔ یا مسلمان ہوجاؤ ورنہ لڑنے کے لیے تیارہ ہوجاؤ۔
(یہ حکم صرف مشرکین عرب کے لیے ہے انہیں جزیہ دے کر اسلامی ریاست کے زیر سایہ ذمی کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ اس لیے کہ حق کے پورے انکشاف کے بعد ان کے انحراف کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا تھا۔ نبی ﷺ کے متعلق یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ نبی ہیں اور قرآن ان کی اپنی زبان میں نازل ہونے کی وجہ سے انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ محض ہٹ دھرمی کی بناء پر یہ انکار کیے جا رہے تھے اس لیے یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں تھے۔ عرب اہل کتاب اور غیر عرب مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ یہ رعایت رکھی گئی کہ اگر وہ چاہیں تو حفاظت جان و مال کا معاوضہ یا جزیہ دے کر اسلام حکومت کے زیر سایہ باعزت شہری کے طور پر رہیں۔ )
چناچہ انہی ہدایات کے مطابق آپ نے عہد شکنوں کے ساتھ جنگ کی ، اور جن کے ساتھ کوئی عہد نہ تھا انہیں چار ماہ کی مہلت دی اور راست باز معاہدین کے ساتھ اپنا عہد پورا کیا اور ایسے تمام لوگ معاہدہ کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی اہل ایمان اور مسلمانوں کا جزو بن گئے اور اہل ذمہ پر جزیہ عائد ہوا۔
جیسا کہ کہا گیا سورة براءت کے نزول کے بعد کفار کے ساتھ آپ کے تعلقات تین قسم کے رہ گئے تھے یعنی محارب ، اہل ذمہ اور اہل عہد اور چونکہ اہل سب کے سب اسلام میں داخل ہوگئے تھے ، اس طرح صرف اہل ذمہ اور اہل حرب ہی باقی رہ گئے۔ اہل حرب کی حالت یہ رہتی تھی کہ آپ کے دور میں وہ ہمیشہ آپ سے خائف رہتے تھے۔
چناچہ حضور ﷺ کی عمر کے آخری دور میں حضور اور تمام انسانوں کے تعلقات کی نوعیت صرف یہ رہ گئی تھی کہ ان میں سے بعض مسلم اور مومن تھے ، بعض آمن اور مسالم تھے اور بعض آپ سے خائف اور محارب تھے۔
منافقین کے ساتھ آپ کا طرز عمل یہ تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ آپ ان کے اعلان اسلام کو قبول فرمائیں اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کردیں اور ان کے مقابلے میں علم و استدلال کے ہتھیار ہی استعمال کریں اور ان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ اختیار کریں اور ان سے سختی برتیں اور ان کی نفسی کیفیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے ارشادات عالیہ سے ان کی اصلاح کی سعی کریں۔ ان کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کریں اور نہ حضور ان کی قبر پر کھڑے ہوکر دعا کریں اور یہ کہ اگر آپ ان کے لیے دعائے مغفرت مانگ بھی لیں تو بھی اللہ انہیں ہر گز نہ بخشے گا۔ یہ تھا مختصر بیان حضور کے طرز عمل کا اپنے کفار اور منافق دشمنوں کے ساتھ "
علامہ ابن قیم نے اسلامی جہاد کے مختلف مراحل کی یہ بہترین تلخیص پیش کی ہے اور اس سے دین حق کے تحریکی پہلو کی مستقل اور گہری بنیادیں واضح ہوجاتی ہیں جو اس لائق ہیں کہ خاصی دیر ٹھہر کر ان پر اچھی طرح غور کرلیا جائے۔ اس مختصر سی بحث میں ہم صرف چند اشارات پر ہی اکتفاء کریں گے۔
1 ۔ ابن قیم کے اس " سیرت پارہ " سے " اسلامی جہاد کی جو پہلی بنیاد سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ دین حق اپنے طریق کار میں بھرپور واقعیت پسند ہے ، یہ طریق کار در اصل اس حرکت کا نام ہے ، جو زمین پر موجود کسی انسانی سوسائٹی کا سامنا کرتی ہے اور ایسے سب ذرائع سے اس کا سامنا کرتی ہے ، جو سوسائٹی کے واقعی وجود کے مقابلہ میں کام آسکیں۔
وہ جاہلیت کے اس فکری دائرہ پر یلغار کرتی ہے جس پر عملاً زندگی کا چلتا پھرتا ایک نظام قائم ہے جسے وقت کا اقتدار مادی قوت کے ذریعہ سہارا دئیے چلا جاتا ہے۔
اسلامی تحریک عالم واقع میں اس واقعی صورت حال کا مقابلہ کرتی ہے۔ ان تمام ذرائع و وسائل کو کام لاکر جن سے کہ یہ جاہلیت کام لیتی ہے۔ وہ اس جاہلیت کا سامنا بیان و تقریر سے بھی کرتی ہے ، تاکہ سوسائٹی کے افکار و عقائد کی اصلاح ہوسکے اور وہ غایت درجہ سعی کے ساتھ طاقت بھی استعمال کرتی ہے ، تاکہ جاہلیت کے نظام و اقتدار کو ملیا میٹ کیا جاسکے۔
وہی اقتدار جو عوام اور تعمیر افکار کی اصلاح کے کام میں روگ بن کر کھڑا ہے اور جو جبراً ان پر مسلط ہے اور انہیں اندھیرے میں رکھے ہوئے ہے اور جو انہیں رب اکبر کے مقابلہ میں دوسروں کا بندہ بنائے ہوئے ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جو صرف بیان و اظہار پر اکتفاء کرکے ختم نہیں ہوجاتی جس طرح کہ اس تحریک میں یہ بھی نہیں ہے کہ مادی غلبہ حاصل کرکے لوگوں سے جبراً اپنی بات منوالے۔ یہ رد و قبول میں جبر کی قائل ہی نہیں لا اکراہ فی الدین دین حق کے طریق کار میں یہ دنوں ہی باتیں نہیں ہیں وہ تو ایک تحریک ہے۔ اس لیے برپا کی گئی ہے کہ لوگوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلا کر اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی میں داخل کردے۔
(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)
(درس نمبر 87 کا بقیہ حصہ)
اور دین کے معاملے میں ہر قسم کے جبر اور اکراہ کے استعمال کو ممنوع قرار دیا جس طرح ہم نے آیات (256:2، ص 26 ۔ 40 ، ج 3) میں تفصیل سے دیا ہے۔ چناچہ مشرکین نے حضور کا مقابلہ کیا اور مسلمانوں کو فتنہ میں مبتلا کرکے ان پر تشدد کیا۔ اور ان کو اللہ کی راہ سے روکنے کی کوشش کی۔ اور حضور ﷺ کو بھی انہوں نے تبلیغ کرنے سے جبراً منع کردیا۔ اور حالات ایسے ہوگئے کہ آپ کے متبعین میں سے کوئی بھی مامون نہ تھا۔ ہر کسی کو تشدد اور جان کا خطرہ لاحق تھا۔ الا یہ کہ وہ کسی کی پناہ میں ہوں یا کسی کے حلیف ہوں۔ لہذا مسلمانوں نے کئی بار ہجرت کی۔ اس کے بعد ان کی ایذا رسانی اور نیش زنی میں مزید اضافہ ہوگیا ، چناچہ انہوں نے خفیہ فیصلہ کیا کہ آپ کو دائمی طور پر قید کردیا جائے یا ملک بدر کردیا جائے یا قتل کردیا جائے اور یہ مشورہ انہوں نے دار الندوہ میں علانیہ کیا۔ لیکن آخری فیصلہ یہ کیا کہ آپ کو قتل کردیا جائے۔ چناچہ اللہ نے آپ کو ہجرت کا حکم دیا جیسا کہ اس کی تفصیلات ہم نے آیت (3:8) میں دے دی ہیں۔ واذ یمکر بک الذین (ج 9، ص 650) چناچہ آپ نے ہجرت فرمائی اور جن دوسرے لوگوں کی قسمت میں یہ اعزاز لکھا تھا انہوں نے بھی ہجرت فرمائی اور ان لوگوں کو مدینہ میں انصار ملے جن کے دلوں میں رسول اللہ اور ہجرت کرنے والوں کی محبت بسی ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے مثالی ایثار سے کام لیا اور اہل ہجرت اور رسول اللہ اور کفار مکہ کے درمیان اس وقت کے عرف کے مطابق حالت جنگ تھی۔ مدینہ کے ارد گرد پھیلے ہوئے اہل کتاب نے آپ کے ساتھ معاہدہ امن کیا لیکن انہوں نے اس معاہدے کو پورا نہ کیا اور خیانت اور غداری کی۔ اور مشرکین عرب کے ساتھ ساز باز کرکے وہ ہمیشہ رسول اللہ اور مسلمانوں کے خلاف قوتوں کی حمایت کرتے رہے جس کی تفصیلات ہم نے سورت انفال میں دی ہیں۔ دیکھئے اسی جلد کے صفحات (53 تا 68)
اس قبل آپ نے حدیبیہ میں مشرکین کے ساتھ دس سالہ معاہدہ کیا تھا اور یہ معاہدہ آپ نے کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ قوت اور غلبے کے باوجود مشرکین کے شرائط پر کیا۔ محض اس لیے کہ آپ امن و سلامتی کو پسند فرماتے تے۔ اور اپنے دین کو حجت و دلیل کے ساتھ پھیلانا چاہتے تھے۔
(یہ بات اس حد تک درست ہے کہ تحریکی انداز میں تبلیغ اسلام بھی حجت و دلیل کے ساتھ ہے۔ لیکن اگر اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام میں جہاد صرف دفاع کے لیے ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ دفاع کے سوا بھی جہاد مسلمانوں پر فرض ہے۔ )
بنو خزاعہ نے آپ کے ساتھ عہد کیا اور بنوبکر نے قریش کے ساتھ عہد کیا۔ اور اس کے بعد قریش نے بنوبکر کی حمایت کرتے ہوئے خزاعہ پر حملہ کردیا اور اس طرح نقض عہد کے مستحق قرار پائے۔ اور اس نقض عہد کی وجہ سے مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان دوبارہ حالت جنگ عود کر آئی۔ اس کے نتیجے میں مکہ فتح ہوا۔ جس کی وجہ سے شوکت اسلامی قائم ہوئی اور مشرکین ذلیل ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود جس وقت بھی ممکن ہوا یہ لوگ حضور اکرم کے ساتھ غداری کرتے رہے۔ اور یہ بات تجربے سے ثابت ہوگئی کہ وہ قوی ہوں یا ضعیف ہوں ، مسلمانوں کے ساتھ غداری ان کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے اور وہ ہر گز پاس عہد نہیں رکھتے۔ جیسا کہ اسی سورت کی آیت کی تشریح میں آئے گا کہ وہ ہر وقت نقض عہد کے لیے آمادہ تھے۔
کیف یکون للمشرکین عھد عند اللہ تا آخر آیت 12 فقاتلوا ائمۃ الکفر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتھون۔ تک
یعنی ان کے بارے میں یہ سمجھ لو کہ وہ کسی عہد کو پورا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ یعنی ان لوگوں کے ساتھ مسلمانوں کا بذریعہ معاہدہ یکجا رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس طرح کہ ان میں سے ہر فریق دوسرے کے شرر اور فتنہ سے محفوظ و مامون ہو اور مشرکین اپنے نظریات پر رہیں اور قانون ان کا نہ چلے۔ اور اس طرح باہم مل کر دونوں فریق زندہ رہ سکیں۔ کیونکہ ان کی سابقہ غداریوں اور مکاریوں کی وجہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے حالانکہ ان کے حسب حال یہ تھا کہ وہ اہل کتاب ہونے کے ناطے وفائے عہد کرتے۔
(تعجب کی بات ہے کہ مصنف اس گہری حقیقت تک پہنچ گئے ہیں جو ان اقدامات کا اصل سبب ہے اور یہ کہ ان معاہدات کا جو حشر ہوا اس سے ثابت ہوگیا کہ اسلامی محاذ اور مشرکین کے محاذ کے درمیان باہم سلامتی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ الا یہ کہ چند مختصر عرصے کے لیے کوئی وقفہ ایسا ہو ، لیکن اس کے باوجود مصنف اسلامی نظام اور شرکیہ نظام کے درمیان ایسے معاہدات کے قائل ہیں ، جن کی وجہ سے دار الاسلام میں دونوں نظام یکجا ہوکر رہ سکتے ہیں۔ یہ ان کے نزدیک دائماً ممکن ہے اور اس کے خلاف اگر کوئی صورت ہوئی ہے تو وہ استثنائی ہے۔ الا یہ کہ امر مشرکین مکہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ (کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ یہ حکم مشرکین مکہ تک محدود ہے لیکن دوسرے مشرکین کی حالت بھی جزیرۃ العرب کے مشرکین سے مختلف کس طرح ہوسکتی ہے۔ تفصیلات ہم آگے دے رہے ہیں۔ )
" یہ ہے وہ حقیقی شرعی اصول جس کے مطابق مطلق معاہدات کی منسوخی کے احکا امت وارد ہوئے اور جن لوگوں نے معاہدے کی خلاف ورزی نہ کی تھی ان کے ساتھ معاہدات کو اپنی مدت تک پورا کرنے کی ہدایت آئی اور ان احکام کی حکمت یہ تھی کہ جزیرۃ العرب سے شرک جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور جزیرۃ العرب کو مسلمانوں کے لیے مخصوص کردیا جائے ، لیکن سابقہ اصول اپنی جگہ قائم رکھے گئے مثلاً بقرہ 190 میں کہا گیا وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم (یعنی اللہ کی راہ میں ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی جائے جو تمہارے ساتھ لڑتے ہیں) اور دوسری وان جنحوا لسلم فاجنح لھا (یعنی اگر وہ سلامتی و امن کے لیے جھکیں تو تم بھی ان کی طرف جھکو) ۔ حتی الامکان یہ پالیسی رہی۔ اگرچہ جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ یہ سابقہ آیات اس سورت کی آیت سیف کے ذریعے منسوخ ہیں اور اہل شرک کے ساتھ تمام عہد منسوخ ہیں۔
اس اقتباس اور اس پر آخری تعقیب اور تفسیر منار کی دوسری تشریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ مصنف معاہدات کی منسوخی اور مشرکین و اہل کتاب کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف آغاز جنگ کے حقیقی اسباب تک بہرحال پہنچ گئے ہیں لیکن وہ اس سبب کی حقیقی جڑوں تک نہیں پہنچے اور نہ اس سبب کو وہ وسعت دے کر اسے عام پالیسی بنانا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ اس معاملے میں دین کی حقیقت اور اس کے تحریکی مزاج تک نہیں پہنچ سکتے اور وہ اس نکتے تک بھی نہیں پہنچ سکے کہ اسلامی نظام حیات اور انسانوں کے بنائے ہوئے نظامہائے حیات کے درمیان بنیادی اور حقیقی تضاد پایا جاتا ہے اور ان دونوں کا ایک جگہ زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔
تفسیر منار کے علاوہ اس مسئلے پر استاد محمد عزہ کی تصریحات بھی قابل غور ہیں۔ وہ اپنی تفسیر " التفسیر و الحدیث " میں جو کچھ فرماتے ہیں وہ اس حقیقت کبریٰ سے بہت دور ہے اور وہ ان واقعات و احکامات کے حقیقی اسباب کو پا ہی نہیں سکے۔ استاد محمد عزہ زمانہ حال کے دوسرے اہل قلم کی طرح رات دن اس تلاش میں رہتے ہیں کہ وہ اسلام کو امن و آشتی کا دین ثابت کریں اور اس کے لیے دلائل تلاش کریں ، یہ لوگ آج کل جب ان نسلوں کے برے دنوں کو دیکھتے ہیں جن کے آباؤاجداد مسلان تھے اور پھر اس کے مقابلے میں دیکھتے ہیں کہ آج کل کے بےدین ، ملحدین اور نام نہاد اہل کتاب مادی لحاظ سے عروج پر ہیں تو یہ لوگ رات دن یہ ثابت کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ اسلام تو نہایت ہی گوسفندانہ مذہب ہے اور وہ اپنے حدود کے اندر دبک کر رہنے والا ہے۔ اور جب بھی اس کے ساتھ کوئی امن و سلامتی کے سلسلے میں بات کرے وہ قبول کرتا ہے۔
یہ لوگ سورت توبہ کی ان آیات کا سبب نزول صرف اس بات کو قرار دیتے ہیں کہ بعض لوگوں نے حضور اکرم ﷺ کے ساتھ چونکہ نقض عہد کردیا تھا لہذا ان کے خلاف یہ اقدام ہوا اور جن لوگوں نے نقض عہد نہ کیا تھا چاہے ان کے معاہدے موقت ہوں یا دائمی ہوں ان کو یہ سورت بحال رکھتی ہے۔ اور اگر کسی نے نقض عہد کر بھی لیا تھا تو یہ سورت اجازت دیتی ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ از سر نو عہد کرلیا جائے۔ یہ لوگ ابتدائی مراحل کی آیات کو اصل الاصول قرار دیتے ہیں اور اس سورت کی ان آخری آیات کو مفید قرار دیتے ہیں۔
اس لیے یہ صاحب اس آیت 4، 5 توبہ کی تشریح اس طرح کرتے ہیں۔
اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ ۔ فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْم : " بجز ان مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے۔ پھر انہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے۔ جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں کریں اور زکوۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو ۔ اللہ در گزر فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے "
ان دو آیات میں اور ان سے پہلی آیات میں حضور اکرم ﷺ کی زندگی کے مدنی دور کے آخری دنوں کا ایک رنگ ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان فتح مکہ کے بعد یا فتح مکہ کے قبل کے دور میں منعقد ہونے والے کچھ معاہدے تھے۔ مشرکین میں سے کچھ لوگ تو ایسے تھے کہ وہ اپنے معاہدوں کو پورا کرتے رہے اور بعض لوگ ایسے تے جنہوں نے عہد شکنی کی اور مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی قوتوں کی طرفداری کرتے رہے۔ اور غداری اور نقض عہد کے مرتکب ہوتے رہے "۔
ہم اس سے قبل کہہ آئے ہیں کہ مفسرین اور اہل تاویل زیر تفسیر دو آیتوں میں سے دوسری آیت کو آیت السیف کہتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ آیت ان تمام آیات کو منسوخ کردیتی ہے جن میں مشرکین کے حوالے سے تسامح ، تساہل ، چشم پوشی اور صرف نظر کے احکام یا اشارے موجود ہیں۔ بلکہ اس آیت کے بموجب علی الاطلاق ان کا قتل واجب ہے۔ بعض مفسرین نے اتنا کہا ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ معاہدہ ہے ، ان کے بارے یہ حکم دیا ہے کہ وہ لوگ اپنی مدت معاہدہ تک اس کے حکم سے مستثنی ہوں گے اور بعض لوگ ان کو بھی مستثنی نہیں کرتے اور ماسوائے قبول اسلام کے ان سے کوئی اور صورت قبول نہیں کرتے۔
ہم نے اس پر اس سے قبل متنبہ کردیا ہے کہ اس رائے میں غلو پایا جاتا ہے اور یہ رائے قرآن مجید کے صریح احکام کے خلاف ہے۔ جن میں واضھ طور پر کہا گیا ہے کہ ماسوائے اعداء کے کسی اور کو قتل نہ کیا جائے اور یہ کہ دوستی کرنے والوں اور معاہدے کرنے والوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے۔ مفسرین نے اپنے اقوال اور روایات مکرر اسی حوالے سے قدیم اہل تفسیر و تاویل سے نقل کیے ہیں۔ علامہ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو حکم دیا ہے کہ آپ ان تمام لوگوں کی گردن پر تلوار رکھ دیں جن کے ساتھ معاہدات ہوئے تھے یہاں تک کہ وہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور ان کے ساتھ جو معاہدات ہوئے تھے ان کو ختم کردیا جائے۔ خود اس مصنف نے سلیمان ابن عیینہ کا ایک عجیب قول نقل ہے جنہوں نے آیات اور سورت اور دوسری سورتوں میں آنے والی دوسری آیات جن میں مشرکین کے ساتھ قتال کا حکم نہیں ہے ، کے درمیان تطابق اس طرح پیدا کیا ہے کہ یہ آیات تین تلواریں ہیں اور یہ کہ حضور نے حج اکبر کے دن حضرت علی ابن ابوطالب کو یہ تین آیات دے کر بھیجا تھا اور ان میں سے یہ آیت بھی ہے اور اسے انہوں نے عرب مشرکین کے لیے تلوار کہا ہے اور ایک تلوار اہل کتاب کے لیے ہے اور وہ سورت توبہ کی آیت 29 ہے یعنی قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (29): " جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے ، اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہٰں بتاتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں "
ایک تلوار منافقین کے لیے ہے اور وہ سورت توبہ کی آیت (73) ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (73): " اے نبی کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے " اور ایک تلوار باغیوں کے خلاف ہے اور وہ سورت الحجرات کی آیت (9) ہے۔
و ان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما فان بغت احداھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء الی امر اللہ " اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے " اور مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ امام طبری اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت کا اطلاق معاہدین اور غیر معاہدین سب پر ہوتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں۔ حالانکہ سورت ممتحنہ کی آیت (8) کی تفسیر میں انہوں نے یہ قرار دیا کہ یہ آیت محکم ہے۔ آیت یہ ہے۔
لاینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم و تقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین " اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ، اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے "۔ لہذا اللہ مسلمانوں کو اس بات سے نہیں منع کرتا کہ جو شخص ان کے معاملات سے غیر جانبدار رہتا ہے اور امن و سلامتی کا معاہدہ کرتا ہے خواہ جس مذہب و ملت کا ہو ، اس کے ساتھ تم احسان و انصاف کا رویہ اختیار کرو۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگ معاہد بھی نہ ہوں "۔
" یہ تمام دلائل اور اس آیت کے سیاق وسباق سے یہ بات واضح ہے کہ یہ حکم صرف ان لوگوں کے لیے آای ہے جو معاہد تھے اور جنہوں نے اپنے عہد سے روگردانی کرلی تھی اس کے سوا کسی اور گروہ سے مطلق قتال جائز نہیں ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ یہ آیت السیف ہے اور ہر مشرک پر اس کا عموماً اطلاق ہوتا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کی متحمل یہ آیت نہیں ہے اور نہ ہی سیاق کلام سے یہ مطلب نکلتا ہے اور نہ یہ کہنا درست ہے کہ یہ آیت متعدد آیات کی ناسخ ہے۔ خصوصاً ان آیات کی ناسخ ہے جن کا مضمون اصولی اور عمومی ہے۔ مثلاً لا اکراہ فی الدین یا الدعوت بالحکمت اور بذریعہ وعظ حسن یا مباحثہ و مجادلہ بطریق احسن ، یا نیکی اور انصاف کی تلقین کرنے والی آیات خصوصاً جبکہ بعد میں اس مضمون کی آیات آرہی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ مسجد حرام کے پاس تمہارے ساتھ جن لوگوں نے معاہدہ کیا ہے ، جب تک وہ معاہدے پر قائم رہیں اس معاہدے کا احترام کیا جائے جس پر ہم عنقریب تفصیلی بحث کریں گے "
" ان آیات میں جو احکامات ہیں ان کے بارے میں دو سوالات اٹھتے ہیں ؟ پہلا یہ کہ پہلی آیت میں جو استثناء ہے وہ معاہدے کی مدت کے ختم ہونے تک ہے تو کیا معاہدہ کرنے والے مشرکین اس مدت کے خاتمے پر اللہ اور رسول اللہ کی ذمہ داری سے نکل جائیں گے اور اب ان کے ساتھ جنگ فرض ہوگی۔ مفسرین کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ہمیں رسول اللہ ﷺ سے کوئی قابل اعتبار روایت نہیں ملی ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر آیت اول کے مفہوم کو علی الاطلاق لیا جائے تو مفسرین کا اخذ کردہ مفہوم درست ہے۔ اس کی پھر وضاحت کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ دیکھا جائے گا کہ جن لوگوں نے معاہدہ کیا تھا ان کی پوزیشن اس معاہدے سے پہلے کیا تھی ؟ یا تو وہ معاہدے سے پہلے دشمن تھے اور ان کے ساتھ جنگ اور مقاتلہ ہوا تھا۔ پھر مسلمانوں نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا جس طرح قریش کے ساتھ حضور ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کی تھی۔ یا وہ ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے بغیر جنگ وجدال اور مقاتلہ کے مسلمانوں کے ساتھ امن اور دوستی کا معاہدہ کرلیا تھا۔ سورت نساء کی یہ آیت (90) انہی لوگوں کے بارے میں ہے : إِلا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَنْ يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلا (90): " البتہ وہ منافق اس حکم سے مستچنی ہیں جو کسی ایسی قوم سے جا ملیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے ، اسی طرح وہ منافق بھی مستثنی ہیں جو تمہارے پاس آتے ہیں اور لڑائی سے دل برداشتہ ہیں ، نہ تم سے لڑنا چاہتے ہیں اور نہ اپنی قوم سے ، اللہ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردیتا اور وہ بھی تم سے لڑتے لہذا اگر وہ تم سے کنارہ کش ہوجائیں اور لڑنے سے باز رہیں اور تمہاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمہارے لیے ان پر دست درازی کرنے کی کوئی سبیل نہیں رکھی) "۔ تو ایسے لوگوں کا حکم اس آیت میں بطور واقعہ ذکر ہے۔ سیرت کے بعض واقعات میں بھی ایسے لوگوں کی مثالیں موجود ہیں۔ ابن اسحاق نے نقل کیا کہ حضور نے کنانہ کی شاخ بنو صخر سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ آپ ان پر حملہ نہ کریں۔ اور نہ وہ مدینہ پر حملہ کریں گے۔ نہ وہ کسی قوم کی تعداد آپ کے خلاف بڑھائیں گے نہ آپ کے دشمن کی معاونت کریں۔ اسی سلسلے میں آپ نے ان کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ بھی کیا تھا۔ پھر اس آیت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ کسی کے ساتھ تجدید عہد نہ کیا جاسکتا ہو یا یہ کہ کسی ایسی قوم کے ساتھ معاہدے کی مدت کو نہ بڑھایا جاسکتا ہو جبکہ ایسی قوم نے نہ وعدہ خلافی کی ہو اور نہ غداری کا ارتکاب کیا ہو۔ اور مسلمانوں کو اس کا کوئی اختیار بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑیں یا کسی نہ کسی شکل میں دست درازی کریں۔ خصوصاً اس آیت میں جو عنقریب آرہی ہے۔ بصراحت کہا گیا ہے کہ مشرکین کے ساتھ عہد کو پورا کرو جب تک وہ عہد کو پورا کرتے ہیں ، اس آیت میں بھی اس بات پر قرینہ موجود ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ ان شاء اللہ۔
" دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ دوسری آیت کے آخر میں کہا گیا ہے اگر وہ نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے اور ان کے ساتھ قتال کو ختم کردیا جائے "۔
" اس سوال کے سلسلے میں جو بات ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے جن مشرکین نے نقض عہد کیا اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی تو اب وہ اس بات کے مستحق نہیں رہے کہ ان کے ساتھ دوبارہ کوئی معاہدہ کیا جائے لہذا مسلمانوں پر یہ فرض ہوگیا کہ ان پر ایسی شائط مسلط کردیں جن کے نتیجے میں علاقے میں امن و سلامتی کی ضمانت دی جاسکے اور وہ شرائط یہی ہو سکتی ہیں کہ وہ شرک سے توبہ کرلیں۔ اور اسلام میں داخل ہوجائیں اور اسلامی عبادات ادا کریں اور مالی ذمہ داریاں پوری کریں۔ اور ایسے اقدامات کو اکراہ فی الدین تصور نہ کیا جائے گا۔ قطع نظر اس بات سے کہ جس نظام شرک میں وہ پڑے ہوئے ہیں وہ انسانیت کو نہایت ہی ذلت کے مقام تک گراتا ہے اور انسانوں کو ایسے عقائد و اعمال دیتا ہے جو نہایت ہی بودے اور عقل و منطق کے خلاف ہوتے ہیں اور ان نظریات کے نتیجے میں ایک ایسا جاہلی نظام رائج ہوتا ہے جو نہایت ہی ظالمانہ نظام ہوتا ہے۔ جس میں نہایت ہی مکروہ اور منکر فعال کا ارتکاب ہوتا ہے اور لوگ عجیب قسم کے تعصبات کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام ان پر جس نظام اسلامی میں داخلے کی شرائط عائد کرتا ہے اس میں ان کے لیے آزادی ، ترقی عقلی اور عملی کمال کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسلامی نظام ان کو عبادت کے اچھے طریقے ، اخلاق کا اعلی معیار اور فکر و نظر کا منطقی نظام دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم یہ نہیں سمجھتے کہ ایسے نقض عہد کرنے والوں کے ساتھ دوبارہ کسی معاہدے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر فریقین کی مصلحت اسی میں ہو اور بعض اوقات ایسا ہو سکتا ہے کہ مسلمان جنگ کرنے کے قابل ہی نہ ہوں یا ایسے لوگوں کو وہ جنگ کے ذریعے زیر نگیں لانے کی قوت ہی نہ کر رکھتے ہوں واللہ اعلم "۔
مصنف کی تفسیر سے ہم نے جو فقرے اوپر منتخب کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف اور ان جیسے دوسرے لوگ اسلام کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ اٹھے اور اس پوری دنیا سے انسانوں کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے آزاد کرے اور انہیں اللہ کی غلامی میں داخل کردے ، جہاں جہاں بھی اسلام کے لیے یہ ممکن ہو اور جب بھی ممکن ہو ، قطع نظر اس سے کہ کہیں مسلمانوں پر زیادتی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اور یہ زیادتی مسلمانوں پر ان کے اقلیمی حدود کے اندر ہوئی ہو یا باہر۔ ایسے لوگ اس اصول ہی کو مسترد کردتے ہیں حالانکہ اس اصول پر اسلامی کا نظام جہاد مرتب ہوتا ہے اور اس اصول کے سوا دین اسلام کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اپنی راہ سے وہ تمام مادی رکاوٹیں دور کردے۔ اگر اس اصول کی نفی کردی جائے تو پھر اسلامی نظام واقعیت اور سنجیدگی کے ساتھ مساوی وسائل و مواقف کے ساتھ انسانیت کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور نہ وہ مختلف حالات اور مراحل میں ان کے حسب حال اور حالات کے مطابق کوئی حکمت عملی اختیار کرسکتا ہے اور اسلام کے لیے صرف یہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ مادی قوتوں کے سامنے صرف وعظ و ت
تبلیغ سے کام لے۔ یہ ایک ایسی کمزور پوزیشن ہے جو اللہ اپنے دین کے لیے ہرگز پسند نہیں کرتا۔
(تفصیلات کے لیے دیکھئے مولانا ابو الاعلی مودودی کی کتاب الجہاد فی الاسلام اور اس تفسیر کے نویں پارے میں ہم نے اس کتاب کے جو اقتباسات دیے ہیں)
ان اقتباسات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کے فکر و نظر میں احیائے اسلام کا تحریکی منہاج نہیں ہے جس میں ہر موقع پر دشمن کے مقابلے میں برابر کے ہتھیار استعمال کیے جانے ضروری ہیں۔ مصنف نے جو انداز تفسیر اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ تحریک اسلامی کے سابقہ مراحل والی آیات کو فائنل قرار دے کر آخری دور میں آنے والی آیات کو ان کے ذریعے مقید کرتا ہے۔ اور وہ یہ نہیں دیکھتے کہ سابقہ ادوار میں جو آیات نازل ہوئیں وہ سابقہ مراحل اور حالات جیسے کے لیے ہیں۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ یہ احکام در اصل منسوخ نہیں ہیں بایں معنی کہ اب بھی کسی جگہ اگر ایسے حالات درپیش ہوں جس طرح کے حالات سابقہ آیات کے وقت تھے تو ان آیات کے احکام پر عمل نہ ہوگا اور سورتوبہ کی ان آخری آیات ہی کو لیا جائے گا۔ سابقہ آیات اب بھی باقی رہیں لیکن یہ آیات مسلمانوں کو اس بات کے لیے پابند نہیں کرتیں کہ اگر وہ سورت توبہ کی آخری آیات جیسے حالات میں داخل ہوچکے ہیں تو بھی وہ مناسب اقدامات نہ کرسکیں۔ اور زیر بحث آیات کو نافذ نہ کریں۔
یہ موضوع نہایت ہی وسعت قلبی اور گہری سوچ کا تقاضا کرتا ہے اور اس کا حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ احیائے اسلام میں اسلام کے مزاج اور اس کے تحریکی منہاج کو سمجھا جائے جیسا کہ ہم نے اوپر کہا۔
اب میں سمجھتا ہوں ان سطور پر ایک بار پھر نظر ڈالی جائے جن سے ہم نے اس سبق پر تبصرے کا آغاز کیا تھا۔
" جو لوگ سیرت النبی کے احوال و واقعات کا اچھی طرح مطالعہ کریں تو انہیں اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ احیائے اسلام کا تحریکی منہاج کیا ہے۔ اس کی نوعیت اور مزاج کیا ہے اور اس عمل میں مختلف اقدامات کے لیے مراحل کیا ہیں ؟ اور اس کے آخری اہداف کیا ہیں۔ نیز وہ بآسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ اسلامی محاذ اور جزیرۃ العرب کے مشرکین اور اہل کتاب کے مختلف کیمپوں کے درمیان اس سورت میں تعلقات کے جو آخری خطوط کھینچے گئے ہیں وہ بالکل بروقت تھے۔ ان کے لی زمین تیار ہوگئی تھی ، حالات سازگار تھے اور یہی خطوط اور اقدامات فیصلہ کن تھے اور ان کو اپنے وقت پر ہونا تھا "۔
بار بار کے تجربات سے یہ اصول اور قانون متعین ہو رہا تھا کہ ایک ایسے معاشرے جس میں حاکمیت اور اقتدار اعلی صرف اللہ کے لیے مخصوص ہو اور جس کے قوانین اللہ کے بنائے ہوئے ہوں اور ایک ایسے معاشرے کے درمیان جو جاہلی معاشرہ ہو جس میں یہ تمام امور غیر اللہ کے لیے مخصوص ہوں یا ان میں اللہ کے ساتھ کوئی غیر اللہ بھی شریک ہو ، کے درمیان تعلقات کی آخری نوعیت کیا ہو اور یہ تعلقات کا حتمی اصول وہ دائمی کشمکش ہے جو ایک اسلامی اور کسی بھی جاہلی معاشرے کے درمیان ہر وقت برپا ہوتی ہے۔ جس کا تذکرہ سورت الحج کی اس آیت میں کیا گیا ہے۔
الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (40): " اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ریعے سے دفع نہ کرتا رہے تو زمین میں فساد برپا ہوجائے) اس آخری اور حتمی قانون کے آثار دو طرح ظاہر ہوئے۔
ایک یہ اسلام قدم بقدم آگے بڑھتا رہا۔ ایک غزوے کے بعد دوسرا غزوہ پیش آیا۔ ایک مرحلے کے بعد دوسرا مرحلہ آیا اور اسلام ارد گرد کے علاقے میں پھیلتا رہا۔ اور اللہ کا کلمہ علاقوں کے بعد دوسرے علاقوں اور قبیلے کے بعد دوسرے قبائل تک پھیلتا رہا۔ اس طرح پورے کرہ ارض تک دعوت اسلامی کو پہنچانا اور اس تبلیغ اور اشاعت کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا تاکہ دنیا کے تمام انسانوں تک یہ دعوت بغیر کسی مادی رکاوٹ کے پہنچ سکے۔ ان مراحل کے آخر میں مسلمانوں نے مکہ مکرمہ کو فتح کرلیا اور اسلام کے پھیلاؤ کی راہ میں آنے والی بڑی رکاوٹ دور ہوگئی اور ہوازن اور ثقیف جو قریش کے بعد طاقتور قبیلے تھے ، انہوں نے بھی اسلام کی برتری کو قبول کرلیا۔ اور اس مرحلے میں اسلام ایک ایسی قوت بن گیا جس سے اسلام کے دشمن خوف کھانے لگے اور اس طرح جزیرۃ العرب میں آخری اور فیصلہ کن اقدام کے لی راہ ہموار ہوگئی اور یہ بات جزیرۃ العرب تک موقوف نہ تھی بلکہ یہی پالیسی تھی۔ پوری دنیا میں کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے ہوجائے۔
دوسرا مظہر یہ ہے کہ جاہلی کیمپ بار بار ان معاہدوں کو تور دیتا تھا ، جو معاہدے وہ خود اسلامی محاذ سے کرتا تھا اور جب بھی اسے موقعہ ملتا وہ یہ عہد توڑ دیتا تھا۔ جب بھی اہل جاہلیت کو یہ احساس ہوتا اسلامی محاذ خطرے میں ہے اور زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے یا کم از کم عہد تڑنے والے مشرکین اور اہل کتاب کو یہ یقین ہو کہ ان کا مستقبل محفوظ ہے۔ جس قدر بھی معاہدے ان لوگوں نے کیے ان کے پیچھے یہ خواہش نہ تھی کہ یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ فی الواقعہ امن و آشتی چاہتے تھے بلکہ یہ انہوں نے نہایت ہی مجبوری کی حالت میں کیے تھے اور ایک مناسب وقت کے لیے تھے۔ یہ معاہدے تو وہ کرلیتے لیکن وہ جب دیکھتے کہ اسلام موجود ہے اور ترقی کر رہا ہے تو وہ بےبس ہوجاتے اور ان معاہدوں کو توڑ دیتے تھے۔ کیونکہ اسلام اپنے وجود کے اعتبار سے ان کے وجود کے لیے متضاد تھا۔ اور زندگی کے چھوٹے اور بڑے معاملات میں ان کے طور طریقوں کے متضاد تھا۔ اسلام میں چونکہ سچائی ، زندگی ، حرکت ، پھیلاؤ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس لیے وہ ان کے وجود کے لیے خطرہ تھا کیونکہ اسلام کا مقصد وحید ہی یہ تھا کہ تمام لوگوں کو الل کی غلامی میں داخل کیا جائے۔
یہ آخری مطہر اور وہ اصول جس کے نتیجے میں یہ رنگ ظاہر ہوتا تھا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں اشارہ کیا ہے۔ ولا یزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم ان استطاعوا (اور وہ مسلسل تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں ، اگر وہ ایسا کرسکیں) یہ تو تھا مشرکین کے بارے میں اور اہل کتاب کے بارے میں۔
ود کثیر من اھل الکتب لو یردونکم من بعد ایمانکم کفارا حسدا من عند انفسہم من بعد ما تبین لھم الحق " اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے ، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لی ان کی یہ خواہش ہے) اور دوسری جگہ ہے ولن ترضی عنک الیھود والنصری حتی تتبع ملتھم (یہودی اور عیسائی تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے جب تک کہ تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو) چناچہ ان قطعی نصوص کے ذریعے اللہ تعالیٰ خود اسلام کے خلاف تمام محاذوں کی سرگرمیوں کی اطلاع دیتا ہے ، کہ وہ اسلام کے خلاف متحد ہیں اور ان کا یہ موقف عارضی نہیں ہے بلکہ دائمی ہے اور عالم گیر موقف ہے اور کسی زمان و مکان کا پابند نہیں ہے۔
اسلامی معاشرے اور اس کی حکومت اور جاہلی نظاموں اور حکومتوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے اسلام کے حتمی اور آخری قانون اور ضابطے کو سمجھے بغیر اور اس قانون اور ضابطے کے تاریخی مظاہر پر غور کیے بغیر اور اسلامی تاریخ کے حوالے سے دونوں محاذوں کے موقف کو سمجھے بغیر اسلام کے نظریہ جہاد کو بالکل نہیں سمجھا جاسکتا۔ نہ اس طویل تاریکی کشمکش کو سمجھا جاسکتا ہے۔ موجودہ سو سال سے اسلامی کیمپ اور جاہلیت کے کیمپوں کے درمیان قائم رہی ہے۔ نہ یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ صحابہ کرام کے مجاہد گروہ نے کیوں یہ کارروائیاں کیں ، نہ بعد کے ادوار میں ہونے والی اسلامی فتوحات کو سمجھا جاسکتا ہے ، نہ بت پرستی اور اسلام کی جنگ کو سمجھا جاسکتا ہے ، نہ اسلام اور صلیبی جنگوں کی طویل جنگوں کی طویل کشمکش کو سمجھا جاسکتا ہے ، جو چودہ سو سال تک رہیں اور آج یہ جنگیں مسلمانوں کی اولاد کے خلاف بھی جاری ہیں ، اگرچہ بدقسمتی کی وجہ سے انہوں نے اسلام کی حقیقت کو ایک عرصہ ہوا ہے ، خیر باد کہہ دیا ہے ، ان کے ہاں اسلام کا صرف نام اور عنوان ہی رہ گیا ہے۔ مسلمانوں کی اولاد کے خلاف یہ صلیبی جنگ روسی علاقوں اور عیسائی صلیبی علاقوں میں آج بھی جاری ہے۔ روس میں ، چین میں ، یوگو سلاویہ میں ، جاپان میں ، ہندوستان اور کشمیر میں غرض ہر جگہ یہ جنگ جاری ہے۔ حبشہ ، زنجبار ، کینیا ، جنوبی افریقہ اور امریکہ ہر جگہ اسلام کے خلاف صلیبی جنگ جاری ہے۔ پھر جہاں جہاں اسلامی تحریکات اٹھتی ہیں ان کو سر اٹھانے نہیں دیا جاتا۔ خود عالم اسلام کے اندر یا اس خطے میں جو کبھی اسلامی تھا ، اسلام کی احیاء کی تحریکات اٹھتی ہیں ان کو سر اٹھانے نہیں دیا جاتا۔ خود عالم اسلام کے اندر یا اس خطے میں جو کبھی اسلامی تھا ، اسلام کی احیاء کی تحریکات کو ختم کیا جاتا ہے بلکہ کچلا جاتا ہے۔ اور اس معاملے میں بت پرست ، مغرب کے صلیبی اور مشرق کے کمیونسٹ بالکل متفق اور متحد ہیں۔ اور جو حکومتیں یہ فریضہ سر انجام دیتی ہیں ان کو اس قدر امداد دی جاتی ہے کہ ان کی تمام ضروریات کے لیے کفیل ہوتی ہے اور پھر یہ حکمران جو اسلامی لیڈوں پر ظلم کرتے ہیں ان کے بارے میں ان نام نہاد ترقی یافتہ اور بنیادی حقوق کے داعی ممالک مکمل خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ حالانکہ احیائے اسلام کا کام کرنے والے لوگ نہایت ہی معزز شہری ہوتے ہیں۔
یہ اسلامی قانون بین الممالک سورت توبہ کے نزول سے قدرے پہلے ہی واضح ہوکر سامنے آگیا تھا اور فتح مکہ کے بعد یہ درج بالا دو مناظر و مظاہر کی شکل میں عیاں ہوگیا تھا ، اس لیے جزیرۃ العرب میں مشرکین کے حوالے سے جو اقدامات بھی کیے گئے یا اہل کتاب کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا گیا اس کی تصیلات سورت توبہ کے اس حصہ میں دی گئی ہیں۔
اس قانون اور ان اقدامات کے بارے میں تو اسلامی قیادت کو شرح صدر حاصل تھا لیکن اس وقت اسلامی جماعت کے اندر جو مختلف گروہ تھے ، خصوصاً وہ لوگ جو ابھی ابھی ایمان لائے تھے یا مؤلفۃ القلوب میں شامل تھے یا ضعیف الایمان مسلمان یا منافقین تھے ان کی سمجھ میں اسلام کا نظریہ جہاد یا جزیرۃ العرب میں یہ پالیسی نہ آرہی تھی۔
اسلامی معاشرے میں ایسے لوگ بھی تھے اور شاید وہ مسلمانوں میں معزز ترین اور مدبر و فہیم لوگ تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ تمام مشرکین کے ساتھ کیے ہوئے معاہدوں کو کیوں ختم کیا جا رہا ہے۔ یعنی جن لوگوں نے نقض عہد کیا تھا ، ان کو چار ماہ کی مہلت دی گئی۔ جن کے معاہدے میں کوئی وقت مقرر نہ تھا ، یا ایسے لوگ جن کے ساتھ نہ معاہدہ تھا اور نہ ہی انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی تھی ، یا جن کے ساتھ چار ماہ سے کم کے لیے تھا ، یا جن لوگوں کے ساتھ موقت معاہدے تھے لیکن انہوں نے معاہدوں کی خلاف ورزی نہ کی تھی اور نہ مسلمانوں کے خلاف محاذ میں شریک ہوتے تھے۔ مسلمانوں کے یہ گروہ اگرچہ نقض عہد کرنے والوں یا جن سے خیانت کا خطرہ ہوتا ان کے ساتھ معاہدوں کے ختم کرنے کے اس حکم کو سمجھ رہے تھے جیسا کہ سورت انفال میں آچکا ہے۔
و اما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ الیھم علی سواء ان اللہ لا یحب الخائنین " اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا " لیکن دوسرے لوگوں کے معاہدوں کو چار ماہ کے بعد ختم کردینا یا ان کو مقررہ مدت کے بعد ختم کردینا ان کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کیونکہ وہ دور جاہلیت میں اس قسم کے احکام کے عادی ہیں کیونکہ جاہلیت میں جب تک فریقین معاہدے کی پابندی کرتے یا ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرتے یا امن و سلامتی سے رہتے تو ایسے لوگوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جاتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی اسکیم اس عادی اسکیم سے زیادہ دور رس تھی اور عربوں کے اندر انقلاب جہاں تک ہپنچ گیا تھا یہ اس کا طبیعی مرحلہ اور اقدام تھا۔
پھر اسلامی صٖوں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے اور ہوسکتا ہے کہ سربرآوردہ اور اہم لوگوں میں بھی ایسے لوگ ہوں جن کے خیال میں تمام مشرکین جزیرہ کے ساتھ قتال اور جنگ شروع کردینا مناسب نہ تھا۔ خصوصاً یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھنا جب تک یہ لوگ اسلام کے سامنے جھک نہیں جاتے جبکہ اسلام جزیرۃ العرب میں فاتح و غآلب ہوگیا تھا۔ صرف چند منتشر دور دراز علاقے رہ گئے جو اسلام کے زیر نگیں نہ تھے اور ان علاقوں سے اسلام کو کوئی ڈر نہ تھا۔ اور یہ توقع بھی تھی کہ یہ علاقے بھی اسلام کو قبول کرلیتے۔ خصوصاً پر امن حالات کے اندر خصوصاً ایسے لوگ اپنے اقرباء ، ہم قبیلہ اور سماجی اور اقتصادی تعلقات رکھنے والے گروہوں اور لوگوں سے بھی لڑنا مناسب نہ سمجھتے ہوں۔ جبکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس سخت کارروائی کے بغیر بھی ان لوگوں کے داخل اسلام ہونے کی راہ ہموار ہوگئی ہے لیکن اللہ کی منشا یہ تھی کہ دار الاسلام میں لوگوں کے باہم تعلقات صرف اسلامی نظریہ حیات کی اساس پر رہ جائیں۔ دوسرے تمام روابط کٹ جائیں اور جزیرۃ العرب اسلام کے لیے خالص ہوجائے اور یہ اسلام کا محفوظ مرکز بن جائے۔ جبکہ اللہ کو معلوم تھا کہ رومی شام کی جانب سے اسلام پر حملہ آور ہونے کی تیاریاں کر رہے تھے۔
اسلامی معاشرے میں بعض ایسے لوگ بھی تھے ، شاید یہ ان میں سے معزز اور معتبر لوگ ہوں ، جو یہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح مکہ و مدینہ کی منڈیاں کساد بازاری کا شکار ہوجائیں گی اور جزیرۃ العرب کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات بگڑ جائیں گے کیونکہ اب مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان ہر جگہ جنگ اور قتل و مقاتلہ شروع ہوجائے گا۔ خصوصا موسم حج اس سے متاثر ہوگا جبکہ اس اعلان میں یہ بات بھی ہے کہ مشرک اور ننگے حج نہ کریں گے۔ اور اب مشرکین کا حصہ تعمیر مساجد میں بھی نہ ہوگا جبکہ ایسے لوگوں کے خیال میں اسی اقدام کی کوئی جنگی ضرورت نہ تھی۔ اور اس مقصد کو تدریجی اور پر امن طریقوں سے بھی حاصل کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اللہ کا منشا یہ تھا کہ اجتماعی معاملات و تعلقات صرف نظریات کی اساس پر ہوں اور یہ کہ مومنین کے دلوں میں عقائد و نظریات کی اہمیت تمام دوسرے مقاصد و اہداف سے برتر ہو ، چاہے یہ تعلقات قرابت داری کے ہوں ، چاہے یہ صدقوں اور تجارتی منافع کے ہوں ، چناچہ اللہ نے فرمایا کہ وہی رزاق ہے اور اسباب رزق اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اللہ جس طرح چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے۔
پھر اسلامی معاشرے میں اس وقت ضعیف العقیدہ ، متردد ، مؤلفۃ القلوب ، منافقین اور دوسرے غیر جانبدار عافیت کوش لوگ بھی تھے اور یہ دین اسلام میں فوج در فوج داخل ہوگئے تھے اور یہ پوری طرح اسلامی رنگ میں نہ رنگے گئے تھے ، اور یہ لوگ مشرکین کے خلاف عمومی اعلان جنگ سے ذرا خوف کھاتے تھے۔ خصوصاً تجارتی کساد بازاری اور جنگ کی حالت میں مواصلات کی خرابی اور تجارتی راستوں کی بندش اور سب سے زیادہ یہ کہ جہاد کی مشکلات کو برداشت کرنا ، جبکہ وہ اپنے اندر اس کی قوت نہ پاتے تھے ، کیونکہ عوام کا جم غفیر اسلام کے غلبے کو دیکھ کر داخل ہوگیا تھا۔ کیونکہ یہ نفع کا سودا تھا۔ لیکن یہ اعلان عام تو ان کے حاشیہ خیال ہی میں نہ تھا کیونکہ یہ لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور اس راہ کی مشکلات سے ابھی خبردار ہی نہ تھے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اسلامی صفوں کو پاک و صاف کردے اس کا فرمان تو یہ تھا۔
أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلا رَسُولِهِ وَلا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (16): " کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤگے اور اللہ ان لوگوں کو ممتاز نہ کردے گا جو تم میں سے جہاد کرتے ہیں اور جنہوں نے اللہ اور رسول اللہ اور مومنین کے سوا کسی اور کو ولی نہیں بنایا اور اللہ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے "
غرض اس مخلوط اسلامی معاشرے میں فتح مکہ کے بعد مختلف الاغراض لوگ تھے ، اس لیے سورت توبہ کے اس حصے میں اس قدر مفصل اور مختلف اسلوب کلام میں ہدایات دی گئیں اور اشارات دیے گئے تاکہ لوگوں کے دلوں میں جو کمزوریاں یا غلط خیالات رہ گئے تھے ان کو دور کیا جاسکے ، اسلامی صفوں میں سے بےچینی ، انتشار اور خیالات و افکار سے شبہات کو پاک کیا جاسکے ، جو بعض مخلص ترین لوگوں کے دلوں میں بھی تھے۔
چناچہ ایسے حالات میں اس سورت کا آغاز اس دو ٹوک اعلان سے ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول مشرکین سے اب بری الذمہ ہیں۔ اور ایک آیت کے بعد اعلامیہ میں دوبارہ بتکرار یہ بات دہرائی گئی کہ اللہ اور رسول اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہیں اور نہایت ہی پر زور الفاظ میں تاکہ کوئی مسلمان ان لوگوں سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھے جن سے اللہ اور رسول اللہ نے براءت کا اظہار کردیا ہے۔
بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ : " اعلان براءت ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان کو مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے " اور مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے اور کافروں کو ڈرانے کے لیے یہ ضروری تھا کہ یہ اعلان بھی کردیا جائے کہ اللہ منکرین حق کو رسوا کرنے والا ہے اور جو لوگ روگردانی کریں گے وہ اللہ کے عذاب سے بچ کر نکلنے والے نہیں ہیں۔
وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ڏ وَرَسُوْلُهٗ : " اطلاع عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی "
فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ : " ملک میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو الا یہ کہ اللہ منکرین حق کو رسوا کرنے والا ہے "
فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۭ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ : " اب اگر تم توبہ کرلو ، تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ اور اے نبی انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سنا دو "
اس بات پر سخت ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ ان مشرکین کے ساتھ اللہ اور رسول اللہ کا عہد کیسے ہوسکتا ہے ؟ ماسوائے ان لوگوں کے جنہوں نے عہد کیا اور پھر اس پر پوری طرح قائم رہے ، تو یہ عہد بھی مدت عہد تک جاری رہے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو متنبہ کردیا گیا کہ یہ مشرکین جب بھی قدرت پائیں گے وہ عہد و پیمان کا کوئی پاس نہ رکھیں گے۔ اور وہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی اقدام کو مذموم نہیں سمجھتے۔ بشرطیکہ وہ اس پر قادر ہوں۔ چناچہ ان کے کفر کا نقشہ کھینچا گیا اور کہا گیا کہ یہ لوگ بڑے جھوٹے ہیں۔
كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (7) كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلا وَلا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ (8) اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (9) لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلا وَلا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ (10): " ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی آخر کیسے ہوسکتا ہے ؟ بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے مگر ان کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے ، جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پاجائیں تو تمہارے معاملے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدے کی ذمہ درای کا ؟ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کرلی پھر اللہ کے راستے میں سد راہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ بہت برے کرتوت تھے جو یہ کر رہے ہیں۔ کسی مومن کے معاملے میں یہ نہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا اور زیادتی ہمیشہ انہی کی طرف سے ہوتی ہے "
مسلمانوں کے دلوں میں جو تلخ یادیں تھیں یا ان کے شعور اور جذبات میں انتقام کے لیے جو غیظ و غضب تھا ، حالات کا تقاضا یہ تھا کہ ذرا اسے ابھارا جائے ، اس طرح اللہ کے دشمنوں ، اللہ کے دین کے دشمنوں اور خود مسلمانوں کے دشمنوں کو کچل کر دلوں کو ٹھنڈا کیا جائے۔
أَلا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (13) قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ (14) وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (15): " کیا تم نہ لڑو گے ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہتے ہیں اور جنہوں نے رسول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے ؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ ان سے لڑو ، اللہ تمہارے ہاتھوں ، ان کو سزا دلوائے گا اور انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلے میں تمہاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق بھی دے دے گا۔ اللہ سب کچھ جانے والا اور دانا ہے "
حالات کا تقاضا یہ تھا کہ نظریات کی اساس پر مکمل جدائی ہوجائے اور ذاتی مصلحوں اور رشتہ داری کے جذبات کا مقابلہ کیا جائے اور ان کو اللہ ، رسول اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کی راہ میں رکاوٹ بننے نہ دیا جائے۔ چناچہ مسلمانوں کو دو راستوں کے درمیان کھڑا کردیا جاتا ہے کہ وہ ایک کے بارے میں فیصلہ کریں۔
(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)
عام اصول کے بیان کے بعد اب وقتی استثنائی حالت کی طرف آتے ہیں یعنی یہ استثنائی حالت بھی ختم ہوکر پہلی آیت میں آنے والی اصولی حالت کی طرف لوٹنے والی ہے۔
اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ : " بجز ان مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے ، پھر انہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے "۔ یہ استثنائی دفعہ جن لوگوں کے بارے میں آئی ؟ اس بارے میں صحیح روایات یہی ہیں کہ بنی بکر کی ایک شاخ کے بارے میں ہے یعنی بنی خزیمہ ابن عامر ، یہ بکر ابن کنانہ کی ایک شاخ تھی۔ حدیبیہ میں قریش اور اس کے حلفاء کے ساتھ جو عہد ہوا تھا انہوں نے اسے قائم رکھا اور یہ لوگ بنی بکر کے ساتھ خزاعہ کے خلاف لشکر کشی میں شریک نہ ہوئے تھے جبکہ قریش نے بنی بکر کی حمایت کی تھی اور ان کی حمایت ہی سے انہوں نے خزاعہ پر حملہ کیا تھا۔ اس طرح بنی بکر اور قریش نے صلح حدیبیہ کو توڑ دیا تھا اور اس معاہد حدیبیہ کے دو سال بعد مکہ فتح ہوا تھا۔ حالانکہ یہ معاہدہ دس سالوں کے لیے تھا۔ یہ جماعت بنی بکر یعنی بنی خزیمہ ابن عامر نے عہد قائم رکھا اور شرک پر بھی قائم رہے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ان کے ساتھ عہد کو اپنی مدت تک پورا کیا جائے۔ ہماری اس رائے کی تائید محمد ابن عباد ابن جعفر کی روایت سے بھی ہوئی ہے۔ سدی کہتے ہیں : " کہ یہ لوگ بنی ضمرہ اور بنو مدلج تھے۔ یہ بنی کنانہ سے دو قبیلے تھے " اور مجاہد کہتے ہیں : " بنی مدلج و خزاعہ کے ساتھ عہد تھا اور انہی کے بارے میں اللہ نے فرمایا فاتموا الیھم عھدھم الی مدتھم " ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو " لیکن یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد خزاعہ نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ لہذا یہ بات ان مشرکوں پر صادق ہوگی جو شرک پر قائم رہے۔ اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے۔
كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعِنْدَ رَسُوْلِهٖٓ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ : " مشرکین کے ساتھ رسول اللہ کا کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے۔۔ بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس عہد کیا تھا تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے "
چناچہ یہ دو قبیلے تھے بنی کناہ سے جنہوں نے حدیبیہ کے دن مسجد حرام کے پاس رسول اللہ سے عہد کیا تھا اور انہوں نے اس عہد میں کوئی کمی نہ کی تھی اور انہوں نے رسول اللہ کے مقابلے میں کسی دشمن کی مدد نہ کی تھی چناچہ اس استثنائی دفعہ سے مراد یہی لوگ تھے اور بس اور تمام مفسرین نے یہی رائے قبول کی ہے۔ استاذ رشید رضا نے یہی قول اختیار کیا ہے لیکن استاد عزہ و روزہ نے اپنی تفسیر میں ان سے مراد استثناء اول میں مراد لوگوں کے مقابلے میں اور لوگ لیے ہیں۔ اور یہ رائے انہوں نے اس لیے اختیار کی ہے کہ وہ دائمی طور پر مشرکین کے ساتھ معاہدات کے قائل ہیں۔ چناچہ اس نے اپنے نظریے کی بنیاد اس فقرے پر رکھی ہے۔ فماستقاموا لکم فاستقیموا لھم " جب تک وہ تم سے سیدھے رہیں ، تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو "۔ اور وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ مشرکین کے ساتھ معاہدہ دائمی طور پر ہوسکتا ہے۔ یہ در اصل ایک بعید قول ہے اور یہ قول ان آیات اور اسلامی نظام کے حقیقی موقف اور خود اس دین کے مزاج کے خلاف ہے جیسا کہ ہم نے بار بار کہا ہے۔
اسلام نے یہ استثنائی دفعہ اس لیے رکھی ہے کہ جن لوگوں نے تحریک اسلامی کے ساتھ وفاداری کی ان سے وفاداری کی جائے۔ اس لیے اسلام نے ان کی مہلت کو چار مہینوں تک محدود نہ کیا۔ جیسا کہ دوسرے لوگوں کے لیے چار ماہ کی مہلت مقرر کردی گئی تھی۔ بلکہ ان لوگوں کو مدت معاہدہ تک مہلت دی گئی کیونکہ انہوں نے نقص عہد نہ کیا تھا اور نہ دشمنوں کے ساتھ معاونت کی تھی۔ اس وفاداری کا تقاضا تھا کہ ان کے ساتھ وفا داری کی جائے اور یہ طویل مدت اس پالیسی کے باوجود دی گئی کہ اللہ تعالیٰ جزیرۃ العرب کو مشرکین سے پاک کرنا چاہتے تھے۔ اور اسے اسلام کا محفوظ مرکز بنانا چاہتے تھے۔ کیونکہ جزیرۃ العرب کی حدود کے ساتھ متصل دوسرے دشمنوں نے اسلام کو ایک عظیم خطرہ تصور کرلیا تھا اور جیسا کہ غزوہ تبوک کی تفصیلات میں بات آئے گی۔ انہوں نے اس نوئی قوت کے مقابلے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اس سے قبل موتہ کا واقعہ ہوچکا تھا۔ اور اس نے آنکھیں کھول دی تھیں کہ رومی کس قدر تیاریوں میں مصروف ہیں۔ پھر یہ مشرکین جنوبی یمن میں اہل ایران سے ہمدردی رکھتے تھے اور ایران کی حمایت سے دین جدید پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتے تھے۔
علامہ ابن قیم نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ جن لوگوں کو اس آیت کے ذریعے مستثنی کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ وفائے عہد کا حکم دیا گیا ہے وہ مدت عہد ختم ہونے سے پہلے ہی مسلمان ہوگئے تھے ، بلکہ دوسرے لوگ جنہوں نے نقض عہد کا ارتکاب کیا تھا اور جن کو چار ماہ کی مہلت دی گئی تھی کہ وہ چار ماہ تک چل پھر لیں ، انہوں نے بجائے چلنے پھرنے اور جلا وطنی کے اسلام قبول کرلیا۔
اللہ تعالیٰ کو خوب علم تھا اور اللہ تعالیٰ تحریک اسلامی کو اپنے دست قدرت سے آگے بڑھا رہا تھا یہ جانتا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ جزیرۃ العرب سے شرک و کفر کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے ۔ اس آخری ضرب کے لیے حالات تیار ہوگئے تھے اور صحیح وقت آپہنچا تھا اور یہ اقدام صحیح اور مناسب وقت پر کیا گیا تھا۔ حقیقی حالات و واقعات کے عین مطابق ، اللہ کے قانون قضا و قدر کے مطابق۔
اللہ نے وفائے عہد کا جو حکم دیا ہے وہ یہاں قابل غور ہے کہ وفا کرنے والوں کے ساتھ وفا کیا جائے۔ فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ : " ان لوگوں کے ساتھ مدت عہد تک وفا کرو ، بیشک اللہ متقین کو محبوب رکھتا ہے " جہاں وفائے عہد کو خوف خدا ڈر اور محبت الٰہی سے منسلک کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ متقین کو محبوب رکھتا ہے۔ لہذا وفائے عہد بھی ایک قسم کی عبادت ہے ، تقوی ہے اور اللہ تقوی کو محبوب رکھتا ہے۔ یہ ہے اسلام کا اخلاقی نقطہ نظر۔ اسلام کے نظام قانون و اخلاق میں مصلحت اور مفادات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ نہ اس میں رسم و رواج کی کوئی گنجائش ہے کیونکہ رسم و رواج بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اسلامی نظام اخلاق کی بنیاد اللہ کی بندگی اور خدا خوفی پر رکھی گئی ہے۔ ایک مسلمان کا اساسی فرض ہے کہ وہ ان امور پر عمل پیرا ہو جسے اس کا رب پسند کرتا ہے۔ چناچہ اسلامی اخلاق خوف خدا اور رضائے الٰہی کی بنیاد پر مرتب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام میں اخلاقیات اپنے اندر مضبوط قوت رکھتے ہیں۔ ان کو اس حقیقی اور وجدانی شعور سے قوت ملتی ہے۔ اس شعور کے ساتھ ساتھ عملاً اسلامی اخلاق لوگوں کے لیے مفید بھی ہوتے ہیں۔ اور ان میں ان کی مصلحت بھی پوشیدہ ہوتی ہے اور ان کے نتیجے میں ایک ایسا اجتماعی معاشرہ اور سوسائٹی وجود میں آتی ہے جس میں باہم مفادات کی کشمکش کم سے کم ہوتی ہے۔ اس نظام میں انسان کی شخصیت بلند ہوجاتی ہے۔ اور وہ زمین کی آلودگیوں کے مقابلے میں عالم بالا سے متعلق ہوتی ہے۔
اللہ اور رسول اللہ کی جانب سے مشرکین کے بارے میں اعلان براءت کے بعد ، یہ مشرکین چاہے معاہدہ کرنے والے ہوں یا غیر معاہد ہوں ، ماسوائے ان لوگوں کے جنہوں نے عہد نہ توڑا اور نہ مسلمانوں کے خلاف کسی کی معاونت کی۔
اب یہا بتایا جاتا ہے کہ مسلمان اس مدت کے اختتام پر کیا اقدامات کریں گے ؟
یہاں لفظ الاشہر الحرام (حرام مہینے) کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں کہ ان سے مراد کون سے مہینے ہیں ؟ عام مشہور حرام مہینے ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور پھر رجب تو پھر چار مہینوں سے مراد تین ماہ اور ذوالحجہ کے باقی بیس دن ہوں گے۔ یہ پچاس دن ہوئے ، یعنی اعلان کے بعد یا اس سے مراد مردت چار ماہ ہے اور اس کا آغاز دس ذوالحجہ سے ہے اور اختتام دس ربیع الاخر تک ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ پہلی مدت ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے عہد توڑا اور دوسری مدت ان لوگوں کے لیے جن کے ساتھ اس سے قبل کوئی معاہدہ ہی نہ تھا۔ یہ ہیں مختلف اقوال۔
میرے نزدیک یہاں جن چار مہینوں کا تذکرہ ہوا ہے اس سے اصطلاحی اشہر حرم مراد نہیں ہیں اور ان چار مہینوں کو اشہر حرم (محترم مہینے) اس لیے کہا گیا ہے کہ ان میں قتل و مقاتلہ حرام قرار دے دیا گیا تھا تاکہ اس عرصے میں مشرکین چل پھر سکیں۔ یہ عام میعاد تھی۔ البتہ جن لوگوں کے معاہدوں میں مدت مقرر تھی اور ان کے لیے مدت تک مہلت دے دی گئی تھی۔۔ چونکہ اللہ نے ان کو چار مہینے آزادی کا اختیار دے دیا تھا۔ اس لیے اس مدت کا آغاز اس کے اعلان سے ہونا چاہیے اور جس نوعیت کا یہ اعلامیہ تھا اس کی نسبت سے یہی راجح ہے کہ اس مدت کا آغاز روز اعلان سے چار ماہ تصور کیا جائے۔
اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس مدت کے خاتمے کے بعد جہاں بھی مشرک ملے ، اسے قتل کردیں یا قید کردیں اور ہر راہ اور گھات پر بیٹھ جائیں تاکہ ان میں سے کوئی بھاگ کر نکلنے نہ پائے ، ماسوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں استثناء وارد ہے۔ اور وہ اس کے سوا کوئی دوسرا سلوک ان کے ساتھ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ مشرکین کو ایک عرصہ تک انجام بد سے ڈرایا گیا اور انہیں مہلت دی گئی۔ اس لیے ان کے خلاف یہ ایکشن نہ اچانک ہے اور نہ ہی غیر منصفانہ ہے۔ جبکہ ان کے ساتھ طے شدہ معاہدے ختم کردیے گئے ہیں۔ اب ان کے لیے کوئی بات غیر متوقع نہیں ہے۔
بہرحال مشرکین کے خلاف یہ ایکشن اس غرض کے لیے نہ تھا کہ ان کو نییست و نابود کردیا جائے بلکہ اس لیے تھا کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: " پس اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو ۔ اللہ در گزر فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے " اس سے قبل ان کے ساتھ تحریک اسلامی کے 12 سال گزرے تھے اور اس عرصے میں دعوت و تبلیغ کا حق ادا کردیا گیا تھا۔ اس عرصے میں انہوں نے مسلمانوں کو بےپناہ اذیتیں پہنچائیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف لشکر کشیاں کیں اور ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوششیں کیں۔ پھر دین اسلام نے ان کے ساتھ جس قدر نرم رویہ اختیار کیا (اللہ کے رسول نے ان کے ساتھ جس قدر شریفانہ سلوک کیا وہ ایک طویل تاریخ ہے۔ اس کے باوجود اسلام کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو جن کی اذیت دی گئی ، جن کے ساتھ جنگ کی گئی اور جن کو ملک سے نکالا گیا اور قتل کیا گیا ایسے مسلمانوں اور نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ اگر یہ مشرکین توبہ کرلیں تو ان سے ہاتھ کھینچ لو اگر وہ سچے دل سے اسلام کو قبول کرلیں اور اسلامی شعائر کو قبول کرلیں۔ جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہو کہ وہ سچے دل سے مسلمان ہوگئے ہیں اس لیے کہ اللہ کسی بھی ایسے شخص کو مایوس نہیں کرتا جو سچی توبہ کرکے لوٹ آتا ہے۔ ان اللہ غفور رحیم " بیشک اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے " اس آیت کے بارے میں فقہاء کے درمیان جو فقہی مباحث چلے ہیں ، ہم ان سے کوئی تعرض نہیں کرتے یعنی فان تابوا و اقاموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ " یعنی اگر توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں " فقہاء نے یہ بحثیں کی ہیں کہ آیا ادائے نماز اور ادائے زکوۃ شروط اسلام میں سے ہیں یا ان کے تارک کو کافر کہا جائے گا ؟ اور کب وہ کافر ہوگا ؟ اور کیا نماز اور زکوۃ ہی کو علامت توبہ سمجھا جائے گا یا دوسرے ارکان اسلام کا مطالبہ بھی ان سے کیا جائے گا
میں سمجھتا ہوں کہ ان سوالات میں سے کسی سوال کے حل کے لیے یہ آیت نازل ہی نہیں ہوئی ہے۔ یہ نص اس وقت مشرکین عرب کے واقعی حالات کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور اس وقت یہ تصور ہی نہ تھا کہ کوئی توبہ کرے تو صرف نماز اور زکوۃ پر عمل پیرا ہو اور دوسرے اعمال کو نظر انداز کردے ، جو توبہ کرتا تھا وہ پورے اسلام میں داخل ہوتا تھا بلکہ اس آیت نے اگرچہ ان دو باتوں کا ذکر کیا ہے لیکن یہ اس لیے کہ اسوقت جو لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے وہ اسلام کی تمام شرائط کے ساتھ اس میں داخل ہوتے تھے۔ اور ان میں سے پہلی شرط یہ ہوتی کہ وہ پوری زندگی میں اللہ کا دین نافذ کریں گے۔ اور محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لے آئیں۔۔۔ لہذا فقہاء اور مفسرین نے جو بحثیں کی ہیں۔ اس آیت کے وہ پیش نظر نہ تھیں بلکہ یہ ایک عملی کارروائی کے سلسلے میں ہدایت تھی۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ چار ماہ کی مدت کے بعد بھی اسلام رواداری ، سنجیدگی اور واقعیت پسندی کا دامن نہیں چھوڑتا ، جیسا کہ ہم نے کہا اسلام کی یہ جنگ نسل کشی کے لیے نہیں ہے ، بلکہ وہ ہدایت کی ایک مہم ہے۔ وہ مشرکین جو جاہلی سوسائٹی کی صورت میں جتھ بند نہیں ہیں ، افراد کی شکل میں ہیں ، اور وہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے ، ان کے لیے دار الاسلام میں مکمل امن وامان کے حقوق محفوظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ اور مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں کہ آپ ان کو پناہ دیں اور وہ اللہ کے کلام کو سنیں اور سمجھیں اور پھر ان کو ایسے علاقے میں پہنچا دیں جہاں وہ امن سے ہوں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی بےحد خواہش ہے کہ ہر شخص ہدایت پائے اور راہ راست پر آجائے اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص دار الاسلام میں پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دینا دار الاسلام کا فرض ہے ، کیونکہ جب مشرکین دار الاسلام پناہ گیر ہوں گے تو پھر وہ دار الاسلام کے ساتھ جنگ نہ کرسکیں گے۔ لہذا ان کو پناہ دینا اور قرآن سنان اور دین اسلام کے اصولوں سے ان کو شناسا کرنا مفید مطلب ہے۔ ممکن ہے کہ اس طرح ان کے دل کھل جائیں ، وہ ہدایت پا لیں اور قبول کرلیں۔ اگر وہ نہ بھی قبول کریں تب بھی اللہ نے اہالیان دار الاسلام پر یہ فرض کردیا ہے کہ وہ ان کی حفاظت کریں اور ایسے ملک تک پہنچا دیں جہاں وہ امن وامان سے رہ سکیں۔
مشرکین کے لیے دار السلام کی یہ پناہ گاہ در اصل اسلام کے مقامات بلند سے ایک اعلی مقام تھا۔ اور اس کے علاوہ بھی اسلام میں ایک بلند چوٹی سے اگے دوسری بلند چوٹیاں اور رفعتیں نظر آتی ہیں ، اور ان میں سے یہ ایک نہایت ہی بلند مقام ہے کہ ایک مسلمان ایک مشرک کا محافظ ہے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن کا محافظ ہے۔ جس نے مسلمان اور اسلام کو سخت اذیتیں دی ہیں اور مشکلات میں مبتلا کیا اور یہاں تک کہ حفاظت کی جا رہی ہے کہ وہ دار الاسلام سے باہر کسی مقام پر پہنچ جائے یہ رواداری کا ایک نہایت ہی بلند مقام ہے۔
معلوم ہوا کہ اسلام ہدایت کا نظام ہے اور یہ نسل کشی کا نظام نہیں ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اسلام کے لیے ایک نہایت ہی مامون اور محفوظ مرکز کا بندوبست کرے۔
جو لوگ اسلامی نظام کے نظریہ جہاد پر یہ اعتراضات کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے لوگوں کو زبردستی اسلامی عقائد قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور پھر مسلمانوں میں سے جو لوگ مشتشرقین کے یہ الزامات پڑھتے ہیں تو وہ خائف ہوجاتے ہیں اور ھر ان الزامات کے جواب میں دفاعی انداز اختیار کرتے ہیں اور پھر یہ موقف اختیار کرلیتے ہیں کہ اسلام تو صرف دفاع میں لڑتا ہے اور وہ دفاع بھی اپنی ریاستی حدود کے اندر کرتا ہے۔ ان دونوں طبقات یعنی الزامات لگانے والوں اور ان کا دفاع کرنے والوں کو ذرا اسلام کے اس مقام بلند پر جا کر دنیا پر نظر ڈالنا چاہیے اور پھر دوبارہ اس آیت کو پڑھ کر غور کرنا چاہیے۔ انہیں انسان کی پوری تاریخ پست نظر آئے گی ، تہی دامن نظر آئے گی۔
وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُوْنَ : " اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہئے تاکہ اللہ کا کلام سنے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ کلام سن لے۔ پھر اسے اس کے مامن تک پہنچا دے۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے " گویا یہ دین ان لوگوں کے لیے ایک خبرداری ہے جو جانتے نہیں ہیں۔ اور یہ دین ان لوگوں کے لیے جائے پناہ ہے جو پناہ چاہتے ہیں۔ بلکہ ان اعدا کے لیے بھی جنہوں نے اس کے خلاف تلوار اٹھائی ، اس کے خلاف جنگ کی اور اس کے ساتھ عناد رکھا۔ اسلام علم جہاد اس وقت بلند کرتا ہے جب دعوت اسلامی اور عوام الناس کے درمیان مادی قوتیں حائل ہوجاتی ہیں اور ان کے کان تک دعوت پہنچنے میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ اور کلام الٰہی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ہدایت کی راہ روکتی ہیں۔ نیز یہ مادی قوتیں لوگوں کو انسانی کی غلامی اور بندگی سے رہا کرنے کی راہ میں مزاحم ہوتی ہیں اور لوگوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ غیر اللہ کی بندگی کرتی رہیں۔ اور جب ان قوتوں کو توڑ دیا جائے اور یہ رکاوٹیں دعوت اسلامی کی راہ سے دور ہوجائیں تو پھر تمام افراد آزاد ہوجاتے ہیں " اپنی رائے میں آزاد ہیں۔ اسلام پھر انہیں صرف تعلیم دیتا ہے ، نہ مجبور کرتا ہے اور نہ خواہ مخواہ کسی کو قتل کرتا ہے بلکہ ان کو پہنچا دیتا ہے ، ان کی حفاظت کرتا ہے اور پھر ان کو ان کے جائے امن تک پناہ دیتا ہے۔ یہ سلوک باوجود ان کے اس طرز عمل کے ہوتا ہے کہ وہ اسلامی نظام کا انکار کرتے ہیں۔
اس وقت دنیا میں ایسے نظام اور ایسے طور طریقے رائج ہیں جنہیں خود انسانوں نے تشکیل دیا ہے۔ اگر ان انسان کے بنائے ہوئے نظاموں اور طور طریقوں کی کوئی مخالفت کرے تو اس کی جان محفوظ نہیں رہتی ، نہ اس کا مال محفوظ رہتا ہے ، نہ اس کی عزت محفوظ رہتی ہے اور نہ اس کے دوسرے انسانی حقوق محفوظ رہتے ہیں۔ بعض لوگ عملاً ایسی صورت حال کو دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ور پھر بھی اسلام کے خلاف ان بےبنیاد الزامات اور اتہامات کے جواب میں شف شف کرتے ہیں اور ان کے جواب میں شکست خوردہ ذہنیت ، کمزور موقف اور تلوار اور توپ کے مقابلے میں محض معذرت اور قلم کو کام میں لاتے ہیں اور پھر ہمارے دور جدید ہیں۔