سورۃ الحاقہ (69): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Haaqqa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحاقة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الحاقہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Haaqqa
سُورَةُ الحَاقَّةِ
صفحہ 566 (آیات 1 سے 8 تک)

سورۃ الحاقہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الحاقہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ہونی شدنی!

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alhaqqatu

اس سورت کا موضوع اور محور ہولناک مشاہد قیامت ہیں۔ آغاز بھی قیامت کے ایک نام سے ہے اور نام بھی اس سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ نام قیامت کے واقعات کا اظہار اپنے تلفظ اور مفہوم دونوں سے کرتا ہے۔ الحاقہ اس آفت کو کہا جاتا ہے جس کا آنا ٹھہر گیا ہو۔ وہ حق ہوچکی ہو اور اس کا نزول لازمی ہوگیا ہو اور جس نے ہونا ہو اور اٹل ہو۔ یہ سب مفہوم ایسے ہیں کہ جن کے اندر قطعیت ، جزم ، شدنی کا مفہوم ہے۔ لہٰذا قیامت کے لئے اس لفظ کا استعمال سورت کے موضوع اور مضمون کے ساتھ نہایت ہی مناسب ہے۔ پھر اس لفظ کے تلفظ کے اندر بھی وہ اشارہ موجود ہے ، جو بات اس کے مفہوم میں ہے اور آگے سورت میں جو فضا بیان ہوئی ہے اس کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے۔ نیز تکذیب کرنے والوں کا دنیا وآخرت میں جو انجام ہونے والا ہے اس کے لئے لفظ الحاقہ حق ہے اور برحق ہے۔

پوری سورت کی فضا نہایت سنجیدہ اور قطعیت کی فضا ہے اور خوفناک فضا ہے۔ ایک طرف تو اس میں قدرت الٰہیہ کی ہیبت ناکیاں ہیں۔ اور دوسری جانب اس میں اس انسان کی ، اس قدرت الٰہیہ کے سامنے بےبسیاں ہیں اور پھر ان کے ساتھ اس کی خرمستیاں ہیں اور جب وہ اللہ کی شدید گرفت میں آتا ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت کے مناظر میں بھی ، اس دنیا میں اس وقت جب یہ اسلامی نظام کو رد کرکے رسولوں کی تکذیب کرتا ہے ، تو اللہ کی شدید پکڑ میں آتا ہے اور اس گرفت اور پکڑ کے پھر کئی رنگ ہیں اور ہر رنگ دوسرے سے خوفناک ہے۔ اس لئے کہ یہ اس دنیا میں شتر بےمہار نہیں چھوڑا گیا تھا۔ نہ اس لئے کہ یہاں یہ کچھ اور بن جائے۔ بلکہ اس کا فریضہ یہ تھا کہ رسولوں کا احترام کرے اور ان کی اطاعت کرے۔

اس پوری سورت کے الفاظ ، اپنے تلفظ ، ترنم ، اپنے مفہوم ، اپنے اجتماع اور ترکیب کے لحاظ سے یہ فضا بنانے میں شریک ہیں۔ سورت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایک مفرد کلمہ لایا جاتا ہے۔ یہ متبدا ہے اور اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔

الحاقة (96 : 1) اس کے بعد اس عظیم حادثہ کے بارے میں ایک بھر پور خوفناک اور ہولناک سوال اور استفہام ہے۔

ما الحاقة (96 : 2) ” کیا ہے ، یہ واقعہ “ تمہیں اس کا کیا پتہ ہے کہ یہ کس قدر ہولناک ہوگا۔ اس کے بعد خود ہی بتادیا جاتا ہے کہ تمہیں کچھ پتہ نہیں ہے کہ یہ کس قدر ہیبت ناک واقعہ ہوگا ؟ مخاطب کو لاعلم اور جاہل بنا کر اور بتا کر اس کے ہول اور خوف کو دوچند کردیا گیا اور اس کے بعد مزید خوفناک بات یہ ہے کہ کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔ کوئی وضاحت ابھی نہیں کی جاتی تاکہ خوف اور ہراس کی یہ فضا ذرا دیر تک قائم رہے۔ انسان سوچے کہ کوئی بہت بڑا واقعہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں ہے اور نہ بتایا جارہا ہے۔ کیا ہی محیرالعقول انداز ہے !

اس سوال کو یہاں چھوڑ کر مکذبین کو لیا جاتا ہے۔ جن پر اس دنیا میں قیامت گزر گئی جو پیس کر رکھ دیئے گئے۔ بہت ہی ناقابل انکار ، سنجیدہ واقعات ، کوئی شخص ان واقعات کی تکذیب پر اصرار نہیں کرسکتا۔

الحاقة (96 : 1) کے بعد قیامت کا دوسرا نام آتا ہے القارعة۔ یہ نام الحاقة (96 : 1) سے بھی سخت۔ الحاقہ تو وہ واقعہ جو ہونی شدنی ہے اور القرع کے معنی ہیں۔ ایک سخت چیز کو دوسری اس قسم کی سخت چیز پر مارنا اور قیامت کے قیام کو القارعة اسی لئے کہا گیا ہے ، اس کی وجہ سے دلوں پر ہولناک اور خوفناک ضربات پڑیں گی اور یہ پوری کائنات توڑ پھوڑ کر شکار ہوجائے گی۔ لفظ القارعة بھی اپنے تلفظ ، اپنی سخت آواز کی وجہ سے ٹکراتا ، مارتا اور دلوں کے اندر جزع وفزع پیدا کرتا ہے۔ عاد اور ثمودنے اس ہونی شدنی کا انکار کیا ، اس کھڑکھڑاکر ٹوٹ پڑنے والی آفت یعنی قیامت کا انکار کیا۔

اردو ترجمہ

کیا ہے وہ ہونی شدنی؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma alhaqqatu

اردو ترجمہ

اور تم کیا جانو کہ وہ کیا ہے ہونی شدنی؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama adraka ma alhaqqatu

اردو ترجمہ

ثمود اور عاد نے اُس اچانک ٹوٹ پڑنے والی آفت کو جھٹلایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kaththabat thamoodu waAAadun bialqariAAati

اردو ترجمہ

تو ثمود ایک سخت حادثہ میں ہلاک کیے گئے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faamma thamoodu faohlikoo bialttaghiyati

فاما ................ بالطاغیة (96 : 5) ” ثمودایک بڑے حادثہ سے ہلاک کیے گئے “۔ جیسا کہ دوسری سورتوں میں آیا ہے۔ ثمود شمالی حجاز کے علاقہ حجر میں رہتے تھے ، حجاز اور شام کے درمیان۔ یہ ایک سخت دھماکے کی آواز سے ہلاک کیے گئے۔ دوسری جگہوں پر اس کے لئے الصیحہ کا لفظ آیا ہے ، لیکن یہاں اسے الطاغیہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ الطاغیہ کے معنی ہیں ایک ایسا حادثہ جس پر کنٹرول نہ کیا جاسکتا ہو ، اور یہاں اس سورت کی فضا میں ہوگنا کی اور خوفناکی کے اظہار کے لئے بھی لفظ الطاغیہ موزوں تھا اور جو قافیہ سابقہ آیات کا چلا آرہا تھا اس کے لئے بھی یہ تبدیلی ضروری تھی ، اس لئے الصحیہ کی جگہ الطاغیہ کا لفظ آیا۔ ثمود کا قصہ صرف اس ایک آیت سے تمام کردیا گیا۔ دفتر لپیٹ لیا گیا ، وہ ڈوب گئے اور ہوا نے ان کی خاک بھی اڑادی اور الطاغیہ نے انہیں یوں روندا کہ ان کا سایہ تک باقی نہ رہا۔

لیکن عاد کی تباہی کو ذرا تفصیل اور طوالت سے لیا جاتا ہے۔ یہ اس لئے کہ ان کا عذاب بھی سات راتیں اور آٹھ دنوں تک مسلسل جاری رکھا گیا تھا۔ جبکہ ثمود ایک چیخ ، ایک کڑک کے ساتھ چشم زدن میں تباہ ہوگئے تھے۔

اردو ترجمہ

اور عاد ایک بڑی شدید طوفانی آندھی سے تباہ کر دیے گئے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma AAadun faohlikoo bireehin sarsarin AAatiyatin

واما .................... عاتیة (96 : 6) ” عاد ایک بڑی شدید طوفانی آندھی سے تباہ کردیئے گئے “۔ الریح الصرصر کے معنی ہیں ، سخت ٹھنڈی ہوا۔ لفظ صر صر سے ہوا کی آواز بھی ظاہر ہورہی ہے۔ اور اس ہوا کی زیادہ شدت ایک دوسرے لفظ عاتیة سے ظاہر کی گئی تاکہ عاد کی سرکشی کا علاج اس سرکش ہوا سے کیا جائے۔ مناسب عمل کی مناسب سزا۔ یہ عادی سخت جبار اور سرکش تھے۔ قرآن نے دوسری جگہ تفصیلات دی ہیں۔ یہ لوگ یمن اور حضرت موت کے درمیان احقاف میں رہتے تھے۔ یہ نہایت سخت گیر اور جبار تھے۔ یہ ہوا جو صر صر تھی اور ” عاتی “ تھی ” شدید سرد اور سرکش “۔

اردو ترجمہ

اللہ تعالیٰ نے اُس کو مسلسل سات رات اور آٹھ دن اُن پر مسلط رکھا (تم وہاں ہوتے تو) دیکھتے کہ وہ وہاں اِس طرح پچھڑے پڑے ہیں جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sakhkharaha AAalayhim sabAAa layalin wathamaniyata ayyamin husooman fatara alqawma feeha sarAAa kaannahum aAAjazu nakhlin khawiyatun

سخرھا ................ حسوما (96 : 7) ” اللہ تعالیٰ نے مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر مسلط کیا “۔ الحسوم کے معنی مسلسل کاٹ دینے والی۔ یہ شدید چلنے والی ، دھاڑتی چنگھارتی اور تباہی مچاتی ہوئی ، اس طویل عرصے کے لئے مسلسل جاری تھی۔ جس وقت قرآن تعین کے ساتھ کررہا ہے۔

فتری .................... خاویة (96 : 7) ” تم دیکھتے کہ وہ وہاں اس طرح پچھڑے پڑے ہیں گویا وہ کھجور کے بوسیدہ تنے “۔ گویا یہ منظر اسکرین پر پیش ہورہا ہے یا سامنے ہے۔ انداز تعبیر ایسا ہے کہ پردہ احساس پر منظر نمودار ہوجاتا ہے۔ صرعی ۔ وہ گرے پڑے اور بکھرے ہوئے۔ گویا وہ ایسے ہیں جیسے اعجاز نخل۔ (کھجور کے تنے جڑوں اور تنوں کے ساتھ) خاویہ یعنی بوسیدہ جو اندر سے خالی ہوں اور بوسیدگی کی وجہ سے جگہ جگہ گرے ہوئے ہوں۔ یہ ایک ایسا منظر ہے کہ چندالفاظ میں اس کا نقشہ قرآن ہی کھینچ سکتا ہے۔ اب نہایت ہی ٹھہراﺅ ہے اور وہ منظر کہ جب ہوا چنگھاڑتی ہوئی گزر گئی ہے۔

فھل ............ باقیة (96 : 8) ” پھر کیا اب ان میں سے کوئی باقی بچا ہوا نظر آتا ہے “۔ نہیں کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ ویرانی ہی ویرانی ہے۔

یہ تو ہے عاد وثمود کا قصہ ، یہی حال ہے دوسرے مکذبین کا۔ اب فقط دو آیات میں کئی واقعات۔

اردو ترجمہ

اب کیا اُن میں سے کوئی تمہیں باقی بچا نظر آتا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fahal tara lahum min baqiyatin
566