سورہ نساء (4): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Nisaa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النساء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نساء کے بارے میں معلومات

Surah An-Nisaa
سُورَةُ النِّسَاءِ
صفحہ 77 (آیات 1 سے 6 تک)

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٰحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَآءً ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ٱلَّذِى تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا وَءَاتُوا۟ ٱلْيَتَٰمَىٰٓ أَمْوَٰلَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا۟ ٱلْخَبِيثَ بِٱلطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوٓا۟ أَمْوَٰلَهُمْ إِلَىٰٓ أَمْوَٰلِكُمْ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا۟ فِى ٱلْيَتَٰمَىٰ فَٱنكِحُوا۟ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ مَثْنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا۟ فَوَٰحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَلَّا تَعُولُوا۟ وَءَاتُوا۟ ٱلنِّسَآءَ صَدُقَٰتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَىْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيٓـًٔا مَّرِيٓـًٔا وَلَا تُؤْتُوا۟ ٱلسُّفَهَآءَ أَمْوَٰلَكُمُ ٱلَّتِى جَعَلَ ٱللَّهُ لَكُمْ قِيَٰمًا وَٱرْزُقُوهُمْ فِيهَا وَٱكْسُوهُمْ وَقُولُوا۟ لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا وَٱبْتَلُوا۟ ٱلْيَتَٰمَىٰ حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغُوا۟ ٱلنِّكَاحَ فَإِنْ ءَانَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَٱدْفَعُوٓا۟ إِلَيْهِمْ أَمْوَٰلَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَآ إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا۟ ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَٰلَهُمْ فَأَشْهِدُوا۟ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ حَسِيبًا
77

سورہ نساء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نساء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnasu ittaqoo rabbakumu allathee khalaqakum min nafsin wahidatin wakhalaqa minha zawjaha wabaththa minhuma rijalan katheeran wanisaan waittaqoo Allaha allathee tasaaloona bihi waalarhama inna Allaha kana AAalaykum raqeeban

درس 03 ایک نظر میں :

سورت کا یہ پہلا پیراگراف اپنی افتتاحی آیت کے ساتھ ‘ لوگوں کو صرف رب واحد اور خالق واحد کی طرف رجوع کرنے کی دعوت سے شروع ہوتا ہے ۔ اس میں بتایا جاتا ہے کہ تمام لوگوں کو ایک ہی ماں باپ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ وہ ایک ہی خاندان سے بکھرے ہیں ‘ انسانی نفس ہی دراصل اصل انسانیت ہے ۔ اور انسانی خاندان ہی دراصل انسانی معاشرے کی اکائی ہے ۔ اس لئے نفس انسانی کے اندر خدا خوفی کے جذبات کو جوش میں لایا جاتا ہے اور خاندانی نظام کو جذبہ صلہ رحمی سے مستحکم کیا جاتا ہے تاکہ اس مستحکم اساس پر ایک خاندان کے اندر باہم تکافل (Social Security) اور باہم محبت کے فرائض پر وان چڑھیں ۔ اس کے بعد پوری انسانیت کے اندر باہم محبت اور باہم پشتیبانی کے اصول رائج کئے جاسکیں ۔ غرض اس سورت کے اندر کی جانے والی تمام قانون سازی اور انسانیت کی تمام شیرازہ بندی اسی اصول پر کی گئی ہے ۔

آیات کا یہ حصہ درج بالا اصول وقوانین کے ساتھ ساتھ کسی معاشرے یا کسی خاندان کے اندر پائے جانے والے یتیموں کے بارے میں معاشرتی اور اجتماعی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی ہدایات دیتا ہے ۔ یتیموں کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں کہ ان کی نگرانی کس طرح کی جائے ، ان کے مال کی نگہداشت کس طرح ہو ‘ نیز افراد خاندان کے درمیان میراث کی تقسیم کے اصول بھی وضع کئے گئے ہیں ، جن میں مختلف اطراف کے رشتہ داروں کے حصص کا تعین بھی کیا گیا ہے ۔ مختلف حالات میں حصص کا فرق بھی بتایا گیا ہے ۔ اور یہ سب کچھ اس ہمی گیر انسانی اصول کی روشنی میں کیا گیا ہے جس کا ذکر آیت افتتاحیہ میں بیان ہوا ہے ۔ یہ ہمی گیر انسانی اصول بعض آیات کی ابتدا میں بعض کے در میان میں اور بعض آیات کے خامتہ پر اس سبق میں بار بار دہرایا گیا ہے ۔ اور اس حقیقت کی توثیق کی گئی ہے کہ ان تمام ہدایت اور قانون سازی اس کا خصوصی حق ربوبیت ہے ۔ اسلامی نظام میں ہر قسم کی قانون سازی اللہ جل شانہ کی اس شان ربوبیت کا اظہار ہے ۔

موجودہ آیت کی تفسیر۔

ترجمہ : ” لوگو ! اپنے سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے ، اسی خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو ۔ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے ۔ “

یہ خطاب تماما نسانیت سے ہے ۔ بحیثیت انسان ان سے خطاب ہے تاکہ وہ سب کے سب رب واحد کی طرف لوٹ آئیں ۔ وہی تو ہے جس نے ان کی تخلیق کی ہے اور پھر اس نے ان سب انسانوں کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے ۔ پھر اس جان سے اس کیلئے جوڑا تخلیق کیا اور پھر ان دونوں سلسلہ نسب چلا کر بہت سے مرد اور عورتوں کو پوری دنیا میں پھیلا دیا ۔

بظاہر تو یہ باتیں بہت سادہ اور ابتدائی معلوم ہوتی ہیں لیکن درحقیقت یہ عظیم حقائق ہیں ۔ یہ بہت ہی بھاری باتیں ہیں اور انسانی زندگی پر ان کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اگر یہ ” لوگ “ ان باتوں پر کان دھریں ‘ اور انہیں سمجھنے کی کوشش کریں تو ان باتوں سے اس کرہ ارض پر حیات انسانی کے اندر عظیم تغیر واقعہ ہوجائے اور لوگ جاہلیت یا مختلف جاہلیتوں سے نکل کر ایمانی زندگی ‘ ہدایت یافتہ زندگی اور انسانیت کے لائق مہذب زندگی کی جانب بسہولت منتقل ہوجائیں ‘ یہ مہذب زندگی نفس انسانی کے حسب حال ہوگی اور اس کے خالق اور رب کی مرضی کے مطابق بھی ہوگی ۔

اس آیت میں وہ ابتدائی حقائق بیان ہوئے ہیں ‘ وہ قلب ونظر کیلئے درج ذیل میدان فراہم کرتے ہیں :

(1): ۔ اس میں پوری انسانیت کو یہ بتایا ہے کہ اس کی اصل کیا ہے ؟ اور اسے یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اس خالق کی طرف رجوع کرے جس نے اسے پیدا کرکے اس زمین پر بسایا ہے ۔ یہ آیات بتاتی ہے کہ ” انسانیت “ نے چونکہ اپنی اس اصلیت کو فراموش کردیا ہے ۔ اس لئے وہ سب کچھ بھول گئی ہے اور اس کا کوئی کام درست نہیں رہا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ لوگ اس کرہ ارض پر تشریف لائے ‘ جبکہ پہلے وہ اس پر نہ تھے ۔ سوال یہ ہے کہ اس جہاں میں انہیں کون لایا ہے ؟ یہاں وارد ہونے میں ان کے اپنے ارادے کا دخل نہیں ہے ۔ اس لئے کہ یہاں آنے سے قبل وہ معدوم تھے اور کسی معدوم کیلئے ارادے کا تصور ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے کہ معدوم تو اس جہاں میں آنے اور نہ آنے کا کوئی فیصلہ کر ہی نہیں سکتا ۔ اس لئے لازما انسان کے علاوہ کسی اور ذات نے انسانوں کو یہاں لا کر بسایا ۔ یہ ارادہ ذات انسان سے علیحدہ ارادہ تھا ۔ ایک بالا ارادہ تھا جس نے تخلیق انسانیت کا فیصلہ کیا ۔ اور یہ ” خالق ارادہ “ انسانی ارادہ نہ تھا ۔ اس بالائی ارادہ نے انسانیت کیلئے یہاں جینے اور زندگی بسر کرنے کے خطوط وضع کئے اسی دوسرے ارادہ نے انسان کو وجود بخشا ‘ انسان کو انسانی خواص عطا کئے ، انسان کو اس کے خواص اور صلاحیتیں دیں ۔ انسان کو وہ قوانین عطا کیے کہ وہ انہیں کام میں لا کر اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرے ۔ اس لئے کہ وہ اس کائنات میں نووارد تھا اور وہ جہاں سے آیا ‘ اس کے بارے میں بھی انسان کو کچھ علم نہ تھا ۔ نہ انسان کے اندر ان کے علاوہ صلاحیتیں تھیں جو اس ارادہ بالا نے انسان کو عطا کیں۔

یہ ہے وہ حقیقت کہ اگر موجودہ انسان اسے ذہن نشین کرلے تو وہ پہلے دن سے راہ راست پالے ۔ جبکہ یہ حقیقت ہے بھی بالکل واضح لیکن افسوس یہ ہے کہ انسان اس بدیہی حقیقت کبری سے مکمل طور پر غافل ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ برتر اور عظیم ارادہ الہیہ جو انسان کو یہاں لایا ‘ یہاں اس نے انسان کو زندگی گزارنے کے خطوط دیئے اور اس کائنات میں زندگی بسر کرنے کی قدرت اور صلاحیت اسے عطا کی ۔ یہی عظیم ارادہ انسان کی پوری کائنات کا مالک ہے ۔ یہی ہے جو انسانی امور میں ہر قسم کا تصرف کر رہا ہے ۔ اور یہی وہ ارادہ ہے جو انسانیت کیلئے ہر قسم کی تدبیر یہاں کرتا ہے ۔ اس لئے یہی ارادہ الہیہ اس بات کا مستحق ہے کہ وہ انسان کیلئے نظام زندگی کے خطوط متعین کرے ۔ انسان کیلئے ضابطے اور قوانین وضع کرے ۔ اس کیلئے اقدار حیات اور حسن وقبح کے اصوال وضع کرے ۔ یہی ارادہ ہے جس کی طرف انسان کو رجوع کرنا چاہئے یہی وہ ارادہ ہے کہ جس کے حسن وقبح کے پیمانوں اور جس کے قوانین کی طرف رجوع کرنا فرض ہے ۔ اس وقت جب کہ اس امر کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف واقعہ ہوجائے ۔ اس لئے کہ وہ ارادہ رب العالمین ہے جو وحدہ لا شریک ہے ۔

(2) :۔ یہ حائق جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں اس بات کا مظہر ہیں کہ یہ بشریت ایک ہی ارادے کے نتیجے میں عالم وجود میں آئی ہے ۔ تمام انسان ایک ہی رحم مادر سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ان کے درمیان ایک ہی رشتہ ہے ۔ وہ ایک ہی جڑ سے پھیلے ہوئے ہیں اور یہ کہ ان کا نسب نامہ بھی ایک ہے ۔

(آیت) ” یایھا الناس اتقوا

ترجمہ : ” لوگو ! اپنے سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے ۔ “

اگر لوگ اس ایک حقیقت کو ہی اچھی طرح ذہن نشین کرلیں تو بیشتر فرقہ بندیاں جو ان کے افکار پر چھائی ہوئی ہیں ختم ہو کر رہ جائیں ، جو ان بعد کے ادوار میں انسانوں کی عملی زندگی میں پیدا ہوگئی ہیں ‘ جنہوں نے ایک ہی جان سے پیدا ہونے والے عوام الناس کے اندر فرقے فرقے پیدا کردیئے ہیں ۔ اور ایک ہی ماں سے پیدا ہونے والوں کو ٹکڑے ٹکرے کر کے رکھ دیا ہے ۔ جبکہ انسانوں کے اوپر یہ حالات بعد میں طاری ہوئے اور مناسب نہ تھا کہ یہ حالات انسانوں کے درمیان رحم و محبت کے حقیقی جذبات کو ختم کردیں ، حالانکہ اس رحم و محبت کا پاس ضروری تھا ، ایک جان کی اولاد ہونے کے ناطے باہم انسانی محبت ضروری تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے رب اور خالق کے ساتھ رابطہ اور اس کے حقوق کا لحاظ اور اس کا ڈر اور تقوی دل میں رکھنا ضروری تھا ۔

اگر صرف اسی حقیقت کو مستحکم کر دیاجائے تو تمام فرقہ وارانہ کشیدگیاں ختم ہوجائیں ۔ اس وقت پوری انسانیت فرقہ وارانہ کشیدگی کی تباہ کاریوں کا مزہ اچھی طرح چکھ چکی ہے ۔ اس کرہ ارض پر فرقہ وارانہ کشیدگیاں قائم ہیں اور رنگ ونسل کی اساس پر قومتیں قائم ہیں اور لوگوں کے اپنا انسانی شجرہ نسب پوری طرح بھلا دیا ہے ۔ اور پھر اپنے رب کے ساتھ تعلق ربوبیت کو بھی پس پست ڈال دیا ہے ۔

اگر اس حقیقت کو انسان قبول کرلیں اور اچھی طرح اپنے نظریات میں مستحکم کردیں تو ہندوستان میں جو طبقاتی غلامی کا نظام رائج ہے وہ اس دنیا سے فی الفور مٹ جائے ۔ اسی طرح مشرق کے سوشلسٹ ممالک کے اندر طبقاتی جنگوں میں جو خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے وہ ختم ہوجائے اور قومیت کا وہ فتنہ بھی ختم ہوجائے جو جاہلیت جدیدہ کے فکری تصورات اور فلسفوں کا فائدہ اساسی ہے ۔ اور یہ دنیا سے طبقاتی کشمکش کے خاتمے کا نقطہ آغاز بن جائے جن میں ہمیشہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی ایک طبقے کو دوسرے طبقات پر قیادت وسیادت کا مقام حاصل ہوجائے ۔ اور جس میں اس حقیقت کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ انسان تو سب کے سب دراصل ایک ہی جان سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کا پیدا کرنے والا رب ذوالجلال بھی ایک ہی ہے ۔

(3):۔ تیسری حقیقت جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ انسانیت نفس واحد سے تخلیق ہوئی ہے ۔ اور اس نفس سے پھر اس کیلئے جوڑا پیدا کیا گیا ‘ اگر انسانیت اس پر غور کرے اور اس کی حقیقت کو پالے تو وہ ہمت کر کے ان غلطیوں اور اذیت ناک تصورات کی تلافی کرلے گی جن میں وہ صنف نازک کے بارے میں مختلف اوقات میں مبتلا رہی ہے ۔ انسانیت نے عورت کے ساتھ عجیب و غریب تصورات وابستہ کئے ۔ اسے گندگی اور گناہ کا منبع سمجھا گیا ۔ اسے ہر مصیبت اور ہر شر کا سبب گردانا گیا ۔ حالانکہ وہ اپنی فطرت اور اپنے مزاج کے اعتبار سے نفس اول یعنی آدم کا جزء تھی ۔ اور اسے اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی اس لئے کیا تھا کہ وہ اس کی ہم نشین وہمدم ہو اور اس کے ذریعہ سے انسان کی نسل کشی کی جائے ۔ اسی لئے مرد و عورت کی فطرت میں فرق نہیں ہے بلکہ ان کی استعداد اور ان کی صنفی فرائض میں فرق ہے ۔

اس معاملہ میں ‘ انسانیت ایک عرصہ تک بادیہ پیمائی کرتی رہی اور گمراہ ہوتی رہی ۔ اس نے عورت کو تمام انسانی حقوق سے محروم رکھا اور اس کی خاصیت انسانی سے بھی انکار کیا ۔ ایک عرصہ تک بچاری پر مظالم ہوتے رہے ۔ اور یہ محض ان غلط خیالات و تصورات کی وجہ سے جن کی کوئی حقیقت نہ تھی لیکن جب ان غلط خیالات کی تصحیح کی گئی تو ترازو کے دوسرے پلڑے کو بہت ہی بھاری کردیا گیا ۔ عورت کو شتر بےمہار بنا دیا گیا ۔ وہ اپنی اس حیثیت کو بھول گئی کہ بیشک وہ انسان ہے لیکن اسے دوسرے انسانوں کیلئے پیدا کیا گیا ہے ۔ وہ ایک جان ہے لیکن اسے دوسری جان کے لئے پیدا کیا گیا ہے ۔ وہ انسانیت کا ایک حصہ ہے لیکن وہ دوسرے حصے کیلئے تکمیلی ہے ۔ مرد اور عورت دونوں علیحدہ مکمل شخصیات نہیں ہیں بلکہ وہ جوڑا ہیں اور ایک دوسرے کیلئے تکمیلی حیثیت کے حامل ہیں ۔

اس عظیم اور طویل گمراہی کے بعد اسلامی نظام زندگی نے انسانیت کو واپس لا کر اصل شاہراہ پر ڈالا اور اسے صحیح تصورات دیئے ۔

(4):۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ زندگی کا ابتدائی سیل (Cell) خاندان ہے ۔ دنیا میں منشائے الہی یہ ہے کہ یہ انسانی پودا ایک خاندان میں پھلے پھولے ‘ اس لئے ابتداء ایک جان پیدا کی گئی اس کے بعد اس جان ہی سے اس کیلئے جوڑا پیدا کیا گیا ۔ اس طرح یہ ابتدائی خاندان دو افراد پر مشتمل تھا ۔ اور اس کے بعد ” ان دو سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کی گئیں ۔ “ اگر اللہ کی مرضی ہوتی تو وہ پہلے سے بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں پیدا فرما دیتا اور اس کے بعد انہیں بہت سے جوڑوں کی شکل دیدی جاتی ۔ اور ابتداء ہی میں بہت سے خاندان وجود میں آجاتے ۔ اور ابتداء ہی سے ان کے درمیان رحم مادر کا رشتہ نہ ہوتا اور ان کے درمیان صرف یہ رابطہ ہوتا کہ انہیں ایک ہی صانع کی مخلوق کی پہلی کھیپ ہونے کا مشترکہ تعلق حاصل ہے اور بس ۔ اور صرف یہی ان کے درمیان پہلا تعلق اور ربط ہوتا ، لیکن اللہ تعالیٰ علیم وخبیر تھا ‘ اس کے پیش نظر ایک حکمت تھی ‘ اللہ تعالیٰ انسانوں کے درمیان پختہ رابطے قائم کرنا چاہتے تھے ۔ پہلا رابطہ یہ تھا کہ ان کا رب ایک ہی تھا اور یہی تمام انسانی رابطوں کا سرچشمہ تھا اور ہے ۔ اس کے بعد باہم صلہ رحمی کا رشتہ آتا ہے ‘ جس کی وجہ سے ایک خاندان وجود میں آتا ہے ۔ جو ایک مرد اور ایک عورت سے شروع ہوتا ہے ۔ یہ دونوں ایک ہی نفس سے پیدا ہوئے ‘ ان کی طبیعت بھی ایک ہے ۔ فطرت بھی ایک ہے ابتدائی خاندان بھی ایک جس سے پھر بہت سے مرد اور عورت پھیلے ۔ ان تمام افراد کے درمیان پہلا رابطہ وحدانیت ربوبیت ‘ اس کے بعد ان کے درمیان وحدت خاندان کا رابطہ ہے ۔ اور خاندان وہ ابتدائی سیل ہے ‘ جس کے اوپر انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔ لیکن عقیدہ اور نظریہ اس خاندانی رابطے سے بھی پہلے نمبر پر آتا ہے ۔

یہ حکمت ہے کہ اسلامی نظام زندگی میں خاندانی نظام کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ۔ اور خاندان کی شیرازہ بندی اور پختگی کیلئے تمام تدابیر اختیار کی جاتی ہیں ۔ اس کی اساس کو مستحکم کیا جاتا ہے اور اسے ان تمام عوامل اور موثرات سے بچایا جاتا ہے ‘ جو کسی بھی طرح اس کی کمزوری کا باعث ہوں ، خاندانی نظام کی تباہی میں سب سے پہلا موثر عامل یہ ہوتا ہے کہ انسان فطری روش کے خلاف طریق کار اختیار کرے ۔ اور مرد کی صلاحیتوں اور عورت کی صلاحیتوں کا اچھی طرح ادراک نہ کرے نیز مرد اور عورت دونوں کی صلاحیتوں کے اندر توازن پیدا نہ کیا جائے اور ان قوتوں کو مرد اور عورت پر مشتمل ایک خاندان کی تشکیل اور تعمیر میں استعمال نہ کیا جائے ۔

اس سورت میں اور اس کے علاوہ دوسری سورتوں میں بھی اسلامی نظام میں خاندان کی تشکیل اور تقویت کے سلسلے میں بیشمار تدابیر اختیار کی گئی ہیں ۔ لیکن خاندانی نظام کو اچھی طرح مضبوط بنیادوں پر اس وقت تک استوار نہ کیا جاسکتا تھا ‘ جب تک عورت ذات کے ساتھ دور جاہلیت کا ظالمانہ سلوک روا رکھا جاتا ۔ چاہے یہ جاہلیت قدیمہ ہو یا جدیدہ ہو ‘ اور جب تک عورت کے بارے میں ان توہین آمیز افکار وخیالات کا قلع قمع نہ کردیا جاتا جو دور جاہلیت میں اس سے وابستہ تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سب سے پہلے عورت پر ہونے والے مظالم کو ختم کیا اور اس کے بعد قرآن نے اسے انسانی معاشرہ میں ایک معزز مقام دیکر اس کے بارے میں فرسودہ تصورات کو دفع کیا ۔ (1) (دیکھئے میری کتاب ” اسلام اور عالم امن “ کا باب ” گھر کی سلامتی “۔

(5): ۔ سب سے آخر میں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ ایک ہی جان اور ایک ہی خاندان میں پیدا کرنے کے بعد تمام افراد بنی نوع انسانی کے اندر اشکال اور صلاحیتوں کا یہ عظیم فرق ‘ جس میں کوئی دو فرد ‘ تاریخ انسانی کے پورے عرصے میں ‘ کبھی بھی باہم کلی طور پر مماثل نہیں ہوئے ‘ جبکہ گزشتہ تاریخی ادوار میں آنے اور جانے والے افراد کی تعداد کا بھی علم نہیں ہے ‘ یہ شکلوں کا اختلاف ‘ خدوخال کا تباین ‘ طبیعت اور مزاج کا اختلاف شعور اور اخلاق کا اختلاف استعداد اور صلاحتیوں کا اختلاف ‘ رجحانات اور دلچسپیوں کا اختلاف غرج یہ ہمہ گیر اور ہمہ پہلو اختلاف اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بےمثال خالق اور موجد ہے ۔ وہ حکیم وعلیم ہے اور اس کے اس پیدا کردہ انسانی باغ میں رنگا رنگ پھولوں میں قلب ونظر کا غیر مختتم سامان ہے ۔ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے وہ ایک نئی شخصیت لئے ہوئے ہے ۔ اور اپنی مثال آپ ہے ‘ اور یہ کام صرف قادر مطلق ہی کا ہے ‘ اور یہ کاریگری ذات باری تعالیٰ کے سوا کسی اور کے حیطہ قدرت میں نہیں ہے ۔ وہ ذات ہے جس کا ارادہ بےقید ہے ۔ اور وہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے ۔ وہ کن فیکون ہے اور عظیم ہے اور لاتعداد انسانی شخصیت کے اندر یہ کلی امتیاز وتباین صرف وہی قائم کرسکتا ہے ۔ جبکہ تمام انسان صرف ایک ہی باپ آدم سے پھیلے ہیں ۔

اس نہج پر انسانی شخصیات وافراد پر غور وفکر اس بات کیلئے ضامن ہے کہ تقوی اور ایمان کے اساسی توشہ پر قلب مومن کو انس و محبت کا مزید سامان عطا کرے ۔ یہ غور وفکر نفع کے اوپر مزید نفع ہے اور خیالات کی بلندی پر مزید سربلندی ہے ۔

خیالات و افکار کے اس جم غفیر کے بعد اس آیت افتتاح کے خاتمے پر لوگوں کو خدا خوفی کی دعوت دی جاتی ہے ۔ اس خدا کی خشیت کی طرف لوگوں کو بلایا جاتا ہے جس کے نام پر وہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں ۔ اور اس کے نام کا واسطہ دیتے ہیں ‘ نیز لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ باہم تعلقات میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں ‘ اس لئے کہ تم سب لوگوں کی اصل تو بہر حال ایک ہی ہے ۔

” اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو۔ “

اس خدا سے ڈرو ‘ جس کے نام پر تم ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے کرتے ہو ‘ ایک دوسرے کے ساتھ عقد کرتے ہو اور تم میں سے بعض لوگ بعض دوسروں سے اپنے حقوق اور وفاداری کا مطالبہ اس کے نام کے ساتھ کرتے ہیں ‘ تم اس کے نام کے ساتھ قسمیں کھاتے ہو ‘ غرض آپس کے روابط ‘ تعلقات ‘ رشتہ داریوں اور باہمی معاملات میں خدا خوفی کا طرز عمل اختیار کرو ۔

قرآن کریم میں تقوی اور خدا خوفی کا مفہوم واضح ہے ‘ اس لئے کہ قرآن کریم میں بار بار اس کا ذکر ہوا ہے رہی یہ بات کہ رشتہ و قرابت کے تعلقات سے ڈرو ‘ یہ ایک عجیب قسم کا انداز کلام ہے جس کا شعوری سایہ نفس پر سایہ فگن ہوتا ہے ۔ اور اس شعوری پر تو کا نفس انسانی خود بخود مفہوم نکال لیتا ہے یعنی رشتہ قرابت سے ڈرو ‘ ان تعلقات کے بارے میں اپنے احساس کو تیز کرو ‘ ان کے حقوق کا احساس کرو ‘ ان حقوق کی پامالی اور ان میں ظلم سے بچو ‘ ان کو چھونے اور خراش لگانے سے بچو ‘ رشتہ میں اذیت نہ دو ‘ رشتہ داروں کے جذبات مجروح نہ کرو اور ان کے حقوق تلف نہ کرو ‘ غرض رشتہ کے معاملے میں احساس کو تیز رکھو ‘ احترام کرو اور رشتہ کو محبت دو اور محبت کے سایہ میں رہو۔

اختتام اللہ کی نگرانی میں ہوتا ہے ۔

” یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے “

اور اس کی نگرانی کس قدر ہولناک ہوتی ہے ‘ جب ذات باری خود نگران ہو ! وہ رب ہے ‘ خالق ہے اور اپنی تمام مخلوق کی بابت اچھی طرح باخبر ہے ‘ وہ ایسا علیم وخبیر ہے جس پر کوئی بات مخفی نہیں رہتی ۔ نہ ظاہری افعال اس سے پوشیدہ ہیں اور نہ خفیہ افکار اس سے پوشیدہ ہیں۔

اس پر شوکت اور موثر افتتاحی اور اس کے اندر بیان ہونے والے سادہ فطری حقائق اور پوری انسانیت کیلئے عظیم اساسی اصول کے بیان کے بعد ایسی بنیادی باتوں کا تذکرہ شروع کیا جاتا ہے جن پر کسی معاشرے کا اجتماعی نظام اور اجتماعی زندگی استوار ہوتی ہے ۔ مثلا خاندان اور جماعت کا باہم معاشی تعاون وتکافل ‘ معاشرہ میں ضعیفوں کے حقوق کا تحفظ ‘ معاشرہ میں عورت کے حقوق کا تحفظ اور اس کیلئے مقام شرافت کا تعین ‘ معاشرہ کی عمومی دولت کا تحفظ ‘ میراث اور ترکہ کی ایسی تقسیم جو عدل و انصاف کی کفیل ہو اور جس میں تمام افراد معاشرے کی بھلائی ہو ۔

سب سے پہلے ان لوگوں کو حکم دیا جاتا ہے جو یتیموں کے اموال کے نگران مقرر ہوئے ہیں کہ جب وہ یتیم سن رشد کو پہنچ جائیں تو ان کی پوری دولت انہیں لوٹا دی جائے اور یہ کہ یہ اولیاء ان یتیم لڑکیوں کے ساتھ محض اس لئے نکاح نہ کریں کہ ان کی دولت انکے قبضے میں آجائے ، ہاں یتیموں میں سے ایسے لوگ جن کے بارے میں یہ خوف ہو کہ اگر ان کی دولت ان کے حوالے کردی گئی تو وہ اسے تلف کردیں گے تو اس بات کی اجازت ہے کہ ان کی دولت انہیں نہ دی جائے اس لئے کہ ہر شخص کی دولت دراصل معاشرے کی اجتماعی دولت ہوتی ہے ۔ اس میں معاشرے کی اجتماعی مصلحت ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ مال ایسے شخص کے حوالے نہیں کیا جاسکتا جو اسے برباد کر دے ۔ اگرچہ وہ مالک ہو ‘ اور یہ کہ عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت عدل و انصاف کے اصولوں کے مطابق کی جائے ۔

اردو ترجمہ

یتیموں کے مال اُن کو واپس دو، اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو، اور اُن کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waatoo alyatama amwalahum wala tatabaddaloo alkhabeetha bialttayyibi wala takuloo amwalahum ila amwalikum innahu kana hooban kabeeran

اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو ‘ تین تین ‘ چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاو جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں ۔ بےانصافی سے بچنے کیلئے یہ زیادہ قرین ثواب ہے ۔

اور عورتوں کے مہر خوشدلی کے ساتھ ادا کرو ‘ البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کردیں تو اسے تم مزے سے کھا سکتے ہو ۔

اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لئے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے ‘ نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو البتہ انہیں کھانے اور پہننے کیلئے دو اور انہیں نیک ہدایات کرو ۔

اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو ‘ یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو ‘ ایسا بھی نہ کرنا کہ حد انصاف سے تجاوز کر کے اس خوف سے ان کے مال ہی جلدی جلدی کھا جاو کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے ۔ یتیم کا جو سرپرست مالدار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو اس پر گواہ بناو اور حساب لینے کے لئے اللہ کافی ہے ۔ “

جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا درج بالا موکد ہدایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کے جاہلی معاشرے میں عورتوں اور بچوں اور ضعفاء کو بری طرح پامال کیا جاتا تھا ، مدینہ طیبہ کے اسلامی معاشرے میں دور جاہلیت کے یہ آثار ابھی تک باقی تھے ‘ اس لئے کہ مدینہ کا اسلامی معاشرہ اصلا عرب کے جاہلی معاشرے سے کٹ کر وجود میں آیا تھا اور قرآن مجید اس کی تہذیت وتربیت کر رہا تھا ‘ اور اسلامی جماعت کو نئی اقدار اور نئے تصورات سے مزین کیا جارہا تھا ‘ مسلمانوں کو نیا شعور دیا جارہا تھا ‘ ان کے اندر نئے خدوخال پیدا کئے جارہے تھے اور جدید رسم و رواج پیدا کئے جارہے تھے ۔

(آیت) ” واتوا الیتمی اموالھم ولا تتبدلوا الخبیث بالطیب ولا تاکلوا اموالھم الی اموالکم ، انہ کان حوبا کبیرا “۔ (2)

ترجمہ : ” یتیموں کے مال ان کو واپس دو ‘ اچھے کو برے مال سے نہ بدل لو ‘ ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاو ‘ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ “

یتیموں کو وہ مال دیدو جو تمہارے تصرف میں ہیں ‘ اور یہ نہ کرو کہ یتیموں کو مال دیتے وقت ردی اموال ان کو دیدو اور قیمتی اپنے پاس رکھ لو ۔ مثلا یہ کہ ان کی اچھی اراضی خود لے لو اور اپنی کم درجے کی اراضی انہیں دیدو ‘ اسی طرح اچھے مویشی خود لے لو اور انہیں بےکار مویشی دیدو ‘ یا تقسیم کرکے وہ انہیں گھٹیا حصہ دیدو ‘ یا نقد مال میں انہیں کھوٹے سکے دیدو کیونکہ نقد میں قیمتی اور کھوٹے دونوں سکے ہوتے ہیں ۔ نیز ان کی دولت کو اپنی دولت کے اندر ملا کر بھی نہ کھاو ۔ سب کا سب یا اس کا کوئی حصہ ۔ اللہ کے نزدیک یہ گناہ کبیرہ ہے ۔ اللہ تمہیں اس گناہ کبیرہ سے متنبہ کرتا ہے ۔

یہ سب واقعات اس وقت سوسائٹی میں بالعموم ہوا کرتے تھے جب اسلام آیا اور لوگوں کو ان ہدایات سے خطاب کیا گیا ۔ اس خطاب ہی سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ مخاطبین کے اندر ایسے لوگ موجود تھے ‘ جن سے اس قسم کی غلطیاں سرزد ہوا کرتی تھیں ۔ اور یہ امور جاہلیت کے آثار باقیہ میں سے تھے ۔ ہر جاہلی نظام میں ایسے ہی امور بالعموم پائے جاتے ہیں ۔ آج ہم گاؤں اور شہروں میں جاہلیت جدیدہ کے نظاموں میں روز ان امور کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ آج بھی مختلف طریقوں سے یتیموں کے مال کھائے جاتے ہیں ‘ اور اس کیلئے مختلف حیلے اور بہانے تراشے جاتے ہیں ۔ آج کل مفصل قانونی تدابیر اور افسران حکومت کی جانب سے یتیموں کے اموال کی کڑی نگرانی کے باوجود اولیاء زیر کفالت لوگوں کے مال و جائیداد میں خرد برد کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں جو مشکلات ہیں انہیں قانون سازی اور حکومتی نگرانی کے ذریعہ سے حل نہیں کیا جاسکتا ‘ اس مسئلہ میں یہ چیزیں کبھی بھی کامیاب نہیں سکتیں اس لیے اس کا کوئی حل ہے تو وہ صرف تقوی اور خدا خوفی میں ہے ۔ یہ تقوی ہی ہے جو دل اور ضمیر کے اندر ایک چوکیدار بٹھا دیتا ہے ۔ اور اس کے بعد ہی قانون سازی اور عمال حکومت کی نگرانی موثر ہو سکتی ہے ۔ یہ تقوی ہی تھا جس کی وجہ سے اس آیت کے نزول کے بعد حیران کن واقعات وجود میں آئے ۔ یتیموں کے اولیاء نے اس قدر احتیاط شروع کردی کہ یتیموں کے اموال کو اپنے مالوں سے علیحدہ کردیا گیا ‘ ان کا کھانا پینا جدا کردیا گیا ‘ تاکہ صحابہ کرام اس گناہ کبیرہ میں مبتلا ہونے سے پوری طرح بچ نکلیں ۔ جس کی بابت اللہ تعالیٰ نے ڈراتے ہوئے فرمایا ” یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ “

اس کرہ ارض پر صرف قانون سازی اور اجتماعی تنظیم کے ذریعہ کوئی اصلاحی اسکیم کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ قانون سازی اور تنظیم سے پہلے دلوں کے اندر خدا خوفی اور تقوی کا چوکیدار بٹھانا ضروری ہے ۔ جس کا دل پر قبضہ ہو اور ضمیر خود نظم قائم کرنے اور قانون پر عمل کرنے پر آمادہ ہو ‘ اور یہ تقوی اس وقت تک کسی نظم اور قانون کے بارے میں پر جوش نہیں ہوسکتا ۔ جب تک یہ قانون ایسے منبع سے صادر نہ ہو جو تمام انسانی خفیہ رازوں سے واقف نہ ہو ‘ وہ منبع ضمیر پر بھی حکمران نہ ہو ‘ صرف ایسے حالات ہی میں ایک فرد کے دل کے اندر شدید احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہو قانون کا احترام کرے ۔ وہ اللہ جل شانہ سے خیانت نہ کرے وہ اس کے حکم اور اس کے ارادے کے ساتھ تصادم کا رویہ اختیار نہ کرے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس فرد کی نیت اور اس کے اعمال دونوں سے اچھی طرح باخبر ہوتا ہے ۔ اس احساس کے دباو میں ارتکاب گناہ کے معاملے میں اس کے قدم متزلزل ہوجاتے ہیں ۔ وہ ڈر کی وجہ سے کانپنے لگتا ہے اور اس کے جذبہ خدا خوفی میں جوش آجاتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب جانتا ہے اور ان کی فطرت سے اچھی طرح واقف ہے ۔ وہ خود انسان کے نفس اور اس کے اعصاب کا خالق ہے ۔ اور اسی نے ان کی تخلیق کی مناسبت سے ان کے لئے اپنے قانون کو قانون قرار دیا ہے ۔ اپنی شریعت قرار دیا ہے ۔ اس کیلئے اپنے نظام زندگی کو نظام قرار دیا ہے ۔ اور اس کے نفاذ کیلئے خود اپنا منہاج اور طریق کار دیا ہے ۔ تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان چیزوں کا وزن ہو ۔ اور وہ اس قانون اور منہاج کی خلاف ورزی کی جرات نہ کریں ۔ اور اللہ سے ڈریں ۔ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح علم تھا کہ دنیا میں کوئی بھی قانونی نظام اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اس کی نسبت ذات باری کی طرف نہ ہو ‘ اس لئے کہ لوگوں کے دلوں میں ذات باری کا خوف اور اس کی رحمت کی امید ہوتی ہے ۔ نیز انہیں پورا یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دل کی خفیہ باتوں سے واقف ہیں اور وہ دلی بھیدوں کے جاننے والے ہیں ۔ نیز انسان کا بنایا ہوا قانون اس وقت تک چلتا ہے اور اس پر عمل ہوتا ہے جب تک پکڑ دھکڑ کا خوف قائم رہتا ہے اور سخت ترین ظاہری نگرانی اپنا کام کر رہی ہوتی ہے ۔ جس کا دخل اور اثر لوگوں کے دلوں پر نہیں ہوتا لیکن جونہی یہ ظاہری نگرانی کمزور ہوتی ہے لوگ اس قانون کی خلاف ورزی شروع کردیتے ہیں یا جب بھی انہیں حیلے اور بہانے کا موقعہ ملتا ہے ‘ باوجود اس کے کہ انہیں پتہ ہو سکتا ہے کہ اگر وہ پکڑے گئے اور ان کی سخت سرزنش ہوگی اور جانی اور مالی نقصان ہوگا ۔

اردو ترجمہ

اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain khiftum alla tuqsitoo fee alyatama fainkihoo ma taba lakum mina alnnisai mathna wathulatha warubaAAa fain khiftum alla taAAdiloo fawahidatan aw ma malakat aymanukum thalika adna alla taAAooloo

(آیت) ” وان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی فانکحوا ما طاب لکم من النسآء مثنی ثلث وربع ، فان خفتم الا تعدلوا فواحدة او ماملکت ایمانکم ، ذالک ادنی الا تعولوا “۔

حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے دریافت فرمایا کہ آیت ” اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو “۔ کا مفہوم کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا بھانجے ! یہ یتیم بچی وہ تھی جو اپنے ولی کی تحویل میں ہوتی تھی ۔ یہ ولی کے ساتھ مال میں شریک ہوتی تھی ‘ اسے اس کے مال اور اس کی خوبصورتی میں دلچسپی ہوتی تھی ، اس طرح اس کا ولی یہ چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ نکاح کرلے بغیر اس کے کہ اسے مہر ادا کرے ‘ اور اسے وہ حقوق دے جو اسے دوسرے دلچسپی رکھنے والے دینے کیلئے تیار ہوتے تھے ۔ چناچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان اولیاء کو یہ حکم دیا کہ ان کے زیر کفالت یتیموں سے صرف اس صورت ہی ہی میں نکاح کرسکتے ہیں جب ان کے ساتھ عدل کرسکیں ، ان کو ان کے معیار کے مطابق مہر ادا کرسکیں ۔ اگر وہ نہیں کرسکتے تو وہ دوسری عورتوں سے نکاح کرلیں۔ “ عروہ فرماتے ہیں ‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ” اس آیت کے نزول کے بعد لوگوں نے حضور ﷺ سے فتوی دریافت کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ “ ” لوگ عورتوں کے بارے میں تم سے فتوی پوچھتے ہیں ‘ کہو اللہ تمہیں ان کے معاملے میں فتوی دیتا ہے ‘ اور ساتھ ہی وہ احکام بھی یاد دلاتا ہے جو پہلے سے تم کو اس کتاب میں سنائے جارہے ہیں ۔ یعنی وہ احکام جو ان یتیم لڑکیوں کے متعلق ہیں ‘ جن کے حق تم ادا نہیں کرتے اور جن کے نکاح کرنے سے تم باز رہتے ہو ۔ “ (4 : 731) حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ جو کہا ہے ۔ ” اور جن کے نکاح کرنے سے تم باز رہتے ہو ۔ “ یہ اس صورت میں ہوتا ہے کہ اس کے پاس نہ پیسے ہوں اور نہ خوبصورتی ہو ‘ اس لئے انہیں صاحب مال و جمال یتیمہ سے بھی نکاح کرنے سے منع کردیا گیا ‘ الا یہ کہ اس کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے ، اس لئے کہ مال و جمال نہ ہونے کی صورت مین تو وہ ایسی یتیموں سے نکاح نہ کرتے تھے ۔ “ (بخاری)

حضرت عائشہ ؓ کی مذکورہ بالا حدیث سے ایام جاہلیت کی مروجہ رسومات میں سے بعض رسموں کی یہاں تصویر کشی کی گئی ہے اور یہ رسوم جاہلیت کے زمانہ سے اسلامی معاشرے میں بھی ابھی تک موجود تھیں ، اس لئے قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں اور ان کی ممانعت کرکے انکی جڑ کاٹ دی گئی ، غرض یہ رفیع الشان ہدایات دیکر معاملے ، کو پھر انسان کے ضمیر اور اس کے دلی تقوی کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ اور کہا جاتا ہے کہ (آیت) ” وان خفتم الا تقسطوا ” (اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو)

اس معاملے کا تعلق محض انسان کے قلب وضمیر کے ساتھ ہے اور اس کے شعور خدا خوفی سے ہے ۔ اگر ولی کو یہ خطرہ ہو کہ وہ عدل نہ کرسکے گا تو اسے چاہئے کہ وہ اس قسم کے نکاح سے اجتناب کرے ۔ لیکن آیت کی عبارت عام ہے ‘ حکم اور ہدایت یہی ہے کہ عدل کے ہر مقام پر عدل کا برتاو کیا جائے ۔ چاہے اس کا تعلق مہر کے معاملے سے ہو یا اس کے علاوہ زندگی کے دوسرے نشیب و فراز سے ہو ‘ مثلا یہ کہ وہ صرف مال کیلئے یہ نکاح کر رہا ہو اور عورت کی ذات سے اسے دلچسپی نہ ہو ‘ یا اسے اس کے ساتھ حسن معاشرے کے سلسلے میں کوئی رغبت نہ ہو ‘ یا یہ کہ مرد اور عورت کی عمر میں بہت زیادہ فرق ہو اور نباہ ممکن نہ ہو ‘ اور نہ نکاح کے معاملے میں مرد سنجیدہ ہو اور بعض اوقات صورت حال یہ ہوتی ہے کہ لڑکی شرم وحیاء کے وجہ سے کچھ کہہ نہیں سکتی یا اسے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اگر اس کا نکاح باہر ہوا تو اس کا مال جاتا رہے گا وغیرہ وغیرہ ‘ جن حالات میں عدل ممکن نہیں ہوتا ، قرآن کریم کا یہ طریق کار یہ ہے وہ ضمیر کے اندر چوکیدار بتھاتا ہے ۔ اور تقوی کی نگرانی قائم کرتا ہے ۔ اس کی پہلی آیت کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوا تھا (آیت) ” ان اللہ کان علیکم رقیبا “ (1) (اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے)

اگر اولیاء ان یتیم عورتوں کے ساتھ انصاف کرنے کی قدرت اپنے اندر نہیں پاتے تو ان کے علاوہ دوسری عورتیں بہت ہیں ‘ اس لئے بدگمانی اور شبہات سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے موزوں یہی ہے کہ وہ دوسری عورتوں سے نکاح کرلیں ۔

(آیت) ” وان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی فانکحوا ما طاب لکم من النسآء مثنی ثلث وربع ، فان خفتم الا تعدلوا فواحدة او ماملکت ایمانکم ، ذالک ادنی الا تعولوا “۔

ترجمہ : ” اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسندآئیں ان میں سے دو ‘ تین تین ‘ چار چار سے نکاح کرلو ۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انکے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاو جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں ‘ بےانصافی سے بچنے کیلئے یہ زیادہ قرین صواب ہے ۔

تعداد ازواج کی یہ رخصت مشروط ہے ۔ یہ کہ اگر تمہیں بےانصافی کا خوف تو نہ کرو صرف ایک کرو ‘ یا اپنی مملوکہ عورتوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرلو ۔

مناسب یہ ہے کہ ان تحفظات کے ساتھ تعدد ازواج کی رخصت کی حکمت اور مصلحت پر یہاں کچھ کہہ دیا جائے ، خصوصا ہمارے اس دور میں ‘ جس میں لوگ اپنے آپ کو اپنے رب کے مقابلے میں زیادہ عالم سمجھتے ہیں ‘ وہ رب جس نے انہیں پیدا کیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ انسانی زندگی ‘ انسانی فطرت اور انسانی مصلحتوں کی بابت خالق تعالیٰ کے مقابلے میں زیادہ بصیرت کے مالک ہیں ۔ اور وہ ان معاملات میں محض اپنی ذاتی آراء اور خواہشات نفسانیہ کے تحت کلام کرتے ہیں اور جہالت اور تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں ۔ گویا آج کے جدید حالات اور ضروریات کو خود انہوں نے پیدا کیا ہے وہ انہیں اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان حالات کا مقابلہ خود ہی کرسکتے ہیں اور گویا یہ حالات اللہ میاں کے پیش نظر نہ تھے ، نہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اس وقت کوئی فیصلہ کیا ہے جس وقت وہ انسانوں کیلئے قانون سازی کر رہا تھا ۔

اس معاملے میں ایسے حضرات کا دعوی اور ان کے فیصلے جہالت اور کور چشمی پر مبنی ہیں جبکہ ایک پہلو سے یہ ان کی جانب سے نہایت ہی کبرو غرور اور بارگاہ الہی میں کھلی گستاخی ہے ۔ اور اپنے معنوی اعتبار سے یہ گمراہی اور بےراہ روی ہے اور ایک قسم کا کفر ہے ۔ لیکن اس کے باوجود لوگ ایسی باتیں کئے چلے جاتے ہیں اور کوئی نہیں ہے جو ان جاہلوں کور چشموں ‘ متکبرین ‘ بےراہ و کفار کو چیلنج کرے ، حالانکہ وہ اللہ اور اس کی شریعت کے مقابلے میں ایسی جسارت کر رہے ہیں جو ناقابل برداشت ہے ۔ وہ اللہ اور اس کی جلالت شان پر ہاتھ ڈال رہے ہیں ۔ اور اللہ کی ذات اور اس کے تجویز کردہ نظام حیات کے خلاف یہ قبیح حرکت کر رہے ہیں ۔ اور بڑے امن و سکون اور کامیابی اور عافیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ان لوگوں کو ان حلقوں سے برملا امداد مل رہی ہے جن کی دلچسپی ہے کہ مسلمانوں اور ان کے دین کے خلاف یہ کام ہوتا رہے ۔

یہ مسئلہ یعنی مسئلہ تعدد ازواج جسے اسلام نے ان تحفظات اور شرائط کے ساتھ جائز رکھا ہے ‘ مناسب ہے کہ اسے بڑی سادگی ‘ وضاحت اور فیصلہ کن انداز میں لیاجائے ۔ اور ان حالات اور واقعات کو پیش نظر رکھا جائے جو کسی معاشرے میں عملا موجود ہوتے ہیں اور اس وقت بھی موجود تھے ۔

امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی مسند کے ساتھ یہ روایت کی ہے کہ غیلان ابن سلمہ ثقفی اسلام لائے ۔ اس وقت اس کی دس بیویاں تھیں ۔ اسے حضور ﷺ نے حکم دیا : ” ان میں سے چار کو چن لیں ۔ “

امام ابو داود نے روایت فرمائی ہے کہ عمیر اسدی نے فرمایا : جس وقت میں نے اسلام قبول کیا ‘ میری آٹھ بیویاں تھیں ، میں نے اس کا تذکرہ رسول خدا ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ” ان میں سے چار کو چن لو “۔

امام شافعی رحمة اللہ علیہ نے اپنی مسند میں فرمایا مجھے ایک شخص نے یہ اطلاع دی جس نے یہ بات ابو الزیاد سے سنی تھی انہیں عبدالمجید نے بتایا تھا ‘ انہیں سہیل ابن عبدالرحمن نے بتایا ‘ انہوں نے عوف ابن الحارث سے نقل کیا ‘ انہیں نوفل ابن معاویہ دیلمی سے انہوں کہا ۔ ” جس وقت میں اسلام لایا میرے ہاں پانچ بیویاں تھیں ، مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا : ” ان میں سے چار چن لو ‘ جو بھی تمہیں پسند ہوں اور جس ایک کو چاہو علیحدہ کر دو ۔ “

جس وقت اسلام آیا ‘ اس وقت لوگوں کے ہاں دس یا دس سے بھی زیادہ بیویاں ہوا کرتی تھیں ۔ اور بیویوں کی تعداد پر کوئی قید وبند نہ تھا ۔ ان حالات میں اسلام نے تعداد پر یہ پابندی عائد کردی اور حکم دیا کہ کوئی مسلمان اس حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ یعنی وہ صرف چار کی حد تک جاسکتا ہے ۔ اس کے ساتھ اسلام نے مزید ایک اور پابندی عائد کردی ۔ وہ یہ کہ اگر تعداد زیادہ ہو تو ان کے درمیان مکمل عدل اور انصاف کا قائم کرنا بھی فرض ہے ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ انصاف نہ کرسکے گا تو اس پر لازم ہے کہ وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے ۔ یا ان عورتوں پر اکتفا کرے جو کسی کی مملوکہ ہیں۔

اس پس منظر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے تعدد ازواج کی اجازت بالکل نہیں دی ۔ اسلام نے زیادہ بیویوں کی تعداد کی تحدید کردی ۔ وہ یہ کہ اگر تعداد زیادہ ہو تو ان کے درمیان مکمل عدل اور انصاف کا قائم کرنا بھی فرض ہے ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ انصاف نہ کرسکے گا تو اس پر لازم ہے کہ وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے ۔ یا ان عورتوں پر اکتفا کرے جو کسی کی مملوکہ ہیں۔

اس پس منظر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے تعدد ازواج کی اجازت بالکل نہیں دی ۔ اسلام نے زیادہ بیویوں کی تعداد کی تحدید کردی اسلام نے اس معاملے کو مرد کی خواہش نفس ہی پر نہیں چھوڑ دیا بلکہ اسے عدل و انصاف کی شرط کے ساتھ مشروط کردیا ۔ اگر عدل نہ ہوگا تو تعدد ازواج کی اجازت نہ ہوگی ۔

اب سوال یہ ہے کہ اسلام نے تعدد ازواج کی رخصت اور اجازت ہی کیوں دی ؟ اسلامی نظام زندگی انسانوں کیلئے وضع کیا گیا ہے ۔ وہ ایک مثبت اور عملی نظام ہے ۔ وہ انسان کی فطرت اور اس کے وجود کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔ وہ انسان کے حالات اور انسان کی ضروریات کے مطابق وضع کیا گیا ہے وہ مختلف حالات ‘ مختلف علاقوں اور مختلف زمانوں میں انسان کے تغیر پذیر شب وروز کو سامنے رکھ کر وضع کیا گیا ہے ۔ وہ فی الواقعہ ایک مثبت اور حقیقت پسندانہ نظام ہے ۔ وہ انسان کو یوں لیتا ہے جس طرح کسی دور میں انسان فی الواقعہ ہوتا ہے ۔ اسنان جہاں کھڑا ہوتا ہے یہ نظام اسی مقام سے اس کے سفر کا آغاز کرتا ہے ۔ اور اسے وہاں سے لیکر ترقیوں کے اعلی مدارج تک بلند کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اسے بام عروج تک پہنچا دیتا ہے وہ انسان کی فطرت حقیقی کا نہ انکار کرتا ہے نہ اسے کراہیت کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ وہ انسان کے حقیقی واقعات سے نہ صرف نظر کرتا ہے اور نہ ان سے لاپرواہی برتتا ہے ۔ وہ اس کی رفتار اصلاح و ترقی میں نہ تو تشدد کرتا ہے اور نہ بےاعتدالی کرتا ہے ۔

اسلامی نظام زندگی خالی خوالی ڈھینگ نہیں ہے نہ وہ سوقیانہ گپ شب ہے ‘ نہ وہ خالی اور غیر واقعی مثالی تصور ہے ۔ اور نہ ہی وہ محض تصورات اور امیدوں پر مبنی ہے ۔ جن کا فطرت انسانی کے ساتھ تصادم ہو ‘ جن کا انسان کے واقعات اور حالات کے ساتھ کوئی جوڑ نہ ہو اور جو اس طرح ہو جس طرح بخارات ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں بلکہ وہ ایک ایسا نظام ہے جو انسان کی تخلیق کو مدنظر رکھتا ہے وہ انسانی معاشرہ میں پاکیزگی کا داعی ہے ‘ اس لئے وہ انسانی معاشرہ میں صرف مادیت کو رواج نہیں دیتا ۔ ایسی مادیت جو انسان کے چہرے بشرے کو خراب کر دے ۔ جو انسانی معاشرے کو آلودہ کر دے اور یہ سب کچھ ان نام نہاد ضرورت کے پھندوں کی صورت میں جو حقائق سے متصادم بلکہ اسلام یہ ہدایت کرتا ہے کہ ایسی صورت حال پیدا کی جائے جس میں تخلیق انسانیت محفوظ ہو ‘ جس میں معاشرہ پاکیزہ ہو ‘ اور یہ سب کچھ بسہولت اور نہایت ہی قلیل جدوجہد سے حاصل کیا جائے اور اس کے لئے فرد اور معاشرے کو کم سے کم جدوجہد کرنا پڑے ۔

اسلامی نظام زندگی کے ان اساسی تصورات کو جب ہم پیش نظر رکھیں اور پھر مسئلہ تعدد ازواج پر غور کریں تو جو نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں :

(1) : سب سے پہلے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اکثر معاشروں میں ایسے حالات پائے جاتے ہیں جن میں شادی کے قابل عورتوں کی تعداد اور شادی کے قابل مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے ۔ یہ واقعات گزشتہ تاریخی معاشروں میں بھی رہے ہیں اور دور حاضر کے معاشروں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ نیز عورتوں کی زیادتی کی نسبت 1 : 4 سے کبھی بھی زیادہ نہیں رہی ہے ۔ یہ کمی بیشی ہمیشہ ایک اور چار کے درمیان ہی رہی ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم ایسی صورت حال کا کیا حل کریں گے ، کیونکہ ایسے حالات بار بار پیش آتے ہی رہتے ہیں ۔ اگرچہ ان میں مرد اور عورت کے درمیان نسبت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ یہ ایسی صورت حال کا علاج ممکن ہے ؟

کیا محض شانے ہلانے سے اس صورت حال کا علاج ممکن ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم ایسی صورت حال سے لاتعلق ہوجائیں اور اسے یونہی چھوڑ دیں ؟ اور جس طرح ممکن ہو حالات اپنا رخ خود متعین کریں اور جو صورت حال پیدا ہو اسے قبول کرتے چلے جائیں ۔

محض شانے ہلانے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے اور کسی معقول انسان کیلئے یہ حل قابل قبول ہے کہ حالات جو بھی رخ اختیار کریں اسے قبول کر کیا جائے ۔ کسی خود دار انسان اور کسی سنجیدہ شخص کے نزدیک یہ موقف قابل قبول نہ ہوگا جو نسل انسانی کو محترم سمجھتا ہو ۔

اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی نظم اور ضابطہ موجود ہو اور اس مسئلے کے حل کیلئے کوئی عملی قدم اٹھایا جائے ۔ غور وخوض کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس مسئلے کے صرف تین حل ممکن ہیں :

(1) یہ کہ ہر شخص جو شادی کے قابل ہے وہ شادی کی ایک قابل عورت کے ساتھ شادی کرے ۔ اور اس کے علاوہ ایک یا دو دو عورتیں رہتی ہیں ان کو بغیر خاوند کے یونہی چھوڑ دیا جائے اور انہیں ان کی پوری زندگی میں خاوند نہ ملے ۔

(2) یہ کہ ہر وہ شخص جو شادی کے قابل ہے ایک شادی کی قابل عورت کے ساتھ قانونی نکاح کرے اور اس کے ساتھ وہ جائز تعلقات قائم کرے لیکن دوسری عورتوں کے ساتھ وہ دوستی اور حرام اور ناجائز تعلقات قائم کرے یعنی ان عورتوں کے ساتھ جن کے خاوند نہیں ہیں ۔ اس طرح ان کے تعلقات ناجائز تعلقات ہوں اور وہ تاریکی میں زندگی بسر کریں ۔

(3) تیسری صورت یہ ہے کہ شادی کے قابل لوگ ایک سے زیادہ شادی کے قابل عورتوں کے ساتھ شادی کریں ۔ اور اسی طرح ایک مرد ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ جائز تعلقات قائم کرے اور اس کی بیوی ہو اور کھلے طور پر وہ روشنی اور دائرہ قانون کے اندر اس کے ساتھ زندگی بسر کرے اور چوری اور حرام کاری کا ارتکاب نہ ہو ۔

ذرا غور فرمائیے پہلی صورت خلاف فطرت ہے ۔ اور ایک عورت کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ پوری زندگی تنہائی میں بسر کرے ۔ اور کسی مرد کے ساتھ تعلق قائم نہ کرے ۔ اس حقیقت کو ان لوگوں کے دعاوی سے رد نہیں کیا جاسکتا ہے جو منہ پھٹ ہیں جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ عورت محنت اور مزدوری کرکے مردوں سے مستغنی ہو سکتی ہے ۔ اس لئے کہ ایسے سطحی غیر سنجیدہ اور جاہل گپیں ہانکنے والوں کے فہم وادراک سے یہ مسئلہ بہت ہی اونچا ہے ۔ اس لئے کہ یہ لوگ فطرت انسانی سے بیخبر ہیں ۔ عورت کی ہزار محنت اور اس کی ہزار ملازمتیں بھی اسے اپنی فطری احتیاج اور اپنے فطری تقاضے سے مستغنی نہیں کرسکتیں ۔ چاہے یہ تقاضے اس کے جسمانی تقاضے ہوں یا اس کی عقل اور روح کے تقاضے ہوں ۔ وہ یہ کہ عورت امن و سکون کے ساتھ اپنے خاندان کے اندر رہے اور مرد کسب معاش کیلئے جدوجہد کرے ، اسی طرح مرد بھی اپنی معاشی جدوجہد اور معاشی سرگرمیوں کے بعد اس بات کی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک خاندان کی طرف لوٹے ۔ اس معاملے میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں ۔ اس لئے کہ وہ ایک ہی جان سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کی ایک ہی فطرت ہے ۔

دوسری صورت اسلام کے پاکیزہ رجحانات کے بالکل متضاد ہے ۔ اور اسلام کے پاکیزہ معاشرتی نظام سے بھی لگا نہیں کھاتا ۔ نیز یہ صورت حال عورت کی اسلامی شرافت کے بھی خلاف ہے ۔ جو لوگ معاشرہ میں عریانی اور فحاشی کے پھیلاو کے خلاف نہیں ہیں ‘ وہ وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنے آپہ کو زیادہ عالم سمجھتے ہیں اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت پر دست درازی کرتے ہیں اور اس فعل کا ارتکاب یہ لوگ محض اس لئے کرتے ہیں کہ اس فعل قبیح سے ان کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے ۔ بلکہ اس قسم کے لوگ شریعت اسلامیہ کے دشمنوں کی جانب سے ہر قسم کی حوصلہ افزائی پاتے ہیں ۔

اب رہ گئی صرف تیسری صورت حال اور اسلام نے اسے اختیار کیا ہے ۔ اسلام نے صرف تعدد ازواج کی اجازت دی ہے اور اس پر کئی حدود وقیود وعائد کی ہیں اور یہ اجازت اسلام نے اس حقیقی صورت حال کے حل کرنے کیلئے دی ہے جس میں محض شانے ہلانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور نہ ایسے حقیقی حالات اور مشکلات کا حل محض متفلسفانہ ادعاء سے ممکن ہوتا ہے اور اس تیسری صورت کو اسلام نے اس لئے اختیار کیا ہے کہ یہی اس واقعی صورت حال کا مثبت حل ہے ۔ اور ایک مثبت طرز عمل ہے یعنی یہ کہ انسان کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے ۔ جس طرح انسان ہے ۔ اپنی موجودہ فطرت اور اپنے موجودہ حالات کے ساتھ ۔ نیز پاکیزہ اخلاق اور ایک صاف اور ستھرے معاشرے کے مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ۔ نیز انسان کو بدکاری اور گندگی کے دلدل سے نکالنے کیلئے اسلام نے جو منہاج تجویز کیا ہے اس کے عین مطابق یعنی نہایت ہی نرمی اور محبت کے ساتھ انسان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بام عروج تک پہنچانے کا طریقہ کار۔

یہ تو تھا ایک پہلو ‘ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی معاشروں میں چاہے وہ قدیم ہوں یاجدید ‘ آج کے ہوں یا کل کے ‘ ان میں ایک دوسری حقیقت نظر آتی ہے ۔ نہ اس سے انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔ وہ یہ کہ مرد میں بچے پیدا کرنے کی قدرت اور صلاحیت ستر سال یا اس کے بھی آگے کی عمر تک طویل ہوتی ہے ۔ جبکہ عورت میں یہ صلاحیت 05 سال کے لگ بھگ ختم ہوجاتی ہے ۔ اس طرح بیس سال ایسے آجاتے ہیں جن میں مرد تو بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں عورت بچے پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ اور یہ حقیقت بھی بالکل واضح ہے کہ مرد اور عورت کو الگ پیدا کرکے ان کے درمیان ملاپ کی زندگی اور نسل انسانی کو جاری رکھنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے ۔ اس کرہ ارض کی آبادی کا انتظام انسان کی آبادی میں کثرت اور پھیلاو¿ کے ذریعہ کیا گیا ہے ۔ اس لئے یہ امر خلاف فطرت انسانی ہوگا کہ ہم کوئی ایسی رسم ڈالیں جس سے ایک مرد بیس سال تک اپنے فطری وظائف پورے کرنے کا اہل ہی نہ رہے جبکہ اسلام نے جو قانون بنایا ہے وہ ہر دور کے حالات میں ہر قسم کے معاشروں کیلئے موزوں ہے اور فطری تقاضوں کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے ۔ جبکہ یہ قانون بھی محض اجازت کی شکل میں ہے ۔ یہ بات لازم نہیں کی گئی کہ ہر شخص لازما چار شادیاں کرے ۔ بلکہ ایک عام اباحت دی گئی ہے اور لوگوں کے لئے ایک قسم کی وسعت پیدا کی گئی ہے کہ اگر ان کو ضرورت پڑے تو وہ حالت ضرورت میں اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ یہ وہ ہم آہنگی ہے جو خدائی قانون اور انسانی فطرت کے اندر ہمیشہ پائی جاتی ہے ۔ جبکہ اس تناسق اور ہم آہنگی کا خیال انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں بالعموم نہیں رکھا جاتا ، اس لئے کہ انسان کا معاملہ ہمیشہ محدود ہوتا ہے اور وہ دور رس انفرادی حالات اور جزئیات کا مطالعہ کرنے سے اکثر قاصر رہتا ہے ۔ اس سے کئی گوشے پوشیدہ رہ جاتے ہیں اور زندگی کے کئی حالات و احتمالات اس کے دائرے سے باہر رہ جاتے ہیں ۔

اس مذکورہ بالا حقیقت کے حوالے سے بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ مرد زیادہ بچے پیدا کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے جبکہ عورت کو مزید بچے پیدا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ یہ عدم دلچسپی بعض اوقات کبرسن کی وجہ سے ہوتی ہے اور بعض اوقات بیماری کی وجہ سے ہوتی ہے اور ان حالات میں فریقین کی دلی خواہش بھی ہوتی ہے کہ وہ رشتہ زوجیت میں بندھے رہیں اور ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار نہ کریں ۔ اب ایسے حالات میں ہم کیا حل پیش کریں گے ۔

کیا محض شانے اچکانے سے یہ مسائل حل ہوجائیں گے ؟ یا اس طرح مسئلہ حل ہوگا کہ زوجین میں سے کوئی فریق اپنے سر کو دیوار سے پھوڑ دے یا ان وسائل اور حقیقی سوالات کا جواب ہم محض گپ شپ میں ٹال دیں اور ظریفانہ بذلہ سنجیاں کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ بذلہ سنجیوں اور محض شانے اچکانے سے کبھی حقیقی مسائل حل نہیں ہوا کرتے ۔ زندگی اور اس کے فطری حقائق سنجیدہ امور ہیں ۔ زندگی کی مشکلات حقیقی ہوتی ہیں اور ان کا حل بھی حقیقت پسندی سے ممکن ہے ۔

اس سوال کا حل بھی صرف تین طریقوں سے ممکن ہے ۔

(1) یہ کہ ہم مرد پر یہ پابندی عائد کردیں کہ وہ پچاس سال کے بعد فطری وظائف کی ادائیگی بند کر دے اور ہم اسے کہہ دیں کہ اسے مرد ‘ اب یہ بات تمہارے ساتھ نہیں جڑتی ، نیز آپ کے نکاح میں جو عورت موجود ہے اس کی کرامت و شرافت اور عزت واحترام اور حقوق کے یہ بات منافی ہے ۔

(2) دوسری صورت یہ ہے کہ ہم ایسے شخص کو آزاد چھوڑ دیں اور وہ جس عورت سے چاہے دوستیاں گانٹھتا پھرے ۔

(3) تیسری صورت یہ ہے کہ ہم اسے اجازت دیدیں کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھ سکے ۔ اپنے حالات اور اپنی ضروریات کے مطابق اور ہم پہلی بیوی کو طلاق دلوانے سے بھی بچ جائیں ۔

جہاں تک پہلی صورت کا تعلق ہے وہ انسانی فطرت کے خلاف ہے ۔ یہ تجرد انسانی نفس برداشت ہی نہیں کرسکتا ۔ انسانی اعصاب اور انسانی نفس اس پابندی کو برداشت نہیں کرسکتا ۔ اور اگر ہم بذریعہ قانون اور قوت یہ پابندی عائد کردیں کہ اس صورت میں تو معاشرے کیلئے عائلی زندگی عذاب جہنم بن جائے گی اور ہر شخص عائلی زندگی کو ان مشکلات ومصائب کی وجہ سے پسند نہیں کرے گا اور اس کے خوفناک نتائج نکلیں گے ، اور یہ سب امور وہ ہیں جنہیں اسلام کسی معاشرے کیلئے پسند نہیں کرتا ‘ اس لئے کہ اسلام کی پالیسی تو یہ ہے کہ وہ ایک گھر کو پرسکون بنادے اور مرد کیلئے اس کی بیوی کو محبوبہ اور لباس بنا دے ۔

دوسری صورت اسلام کے اخلاقی رجحانات کے خلاف ہے ۔ اور انسانی زندگی کی ترقی جس نہج پر اسلام چاہتا ہے وہ اس کے بھی خلاف ہے ۔ نیز انسانی معاشرے کی تطہیر اور پاکیزگی کیلئے اسلام نے جو منہاج اپنایا ہے ‘ یہ اس کے بھی خلاف ہے ۔ اس لئے کہ اسلام انسانی معاشرے کو اس لائق بناتا ہے جو ایک حیوانی مقام سے اس کو انسان کے اشرف مقام تک بلند کر دے ۔

اب صرف تیسری صورت رہ جاتی ہے جو انسان کی واقعی فطری ضروریات کو بھی پوا کرتی ہے ۔ وہ اسلام کے اخلاقی نقطہ نظر سے بھی ہم آہنگ ہے ، یہ صورت پہلی بیوی کے حقوق زوجیت کو بھی مدنظر رکھتی ہے اور اس صورت میں بھی یہ ممکن ہے کہ زوجین اپنی خواہش کے مطابق اپنی ازدواجی زندگی جاری رکھ سکیں ۔ اور ان کی ایک دوسرے کے ساتھ جو یادیں وابستہ ہیں وہ بھی اپنی جگہ قائم رہیں ۔ اور انسان کیلئے یہ ممکن اور آسان ہوجائے کہ وہ نرمی ‘ سہولت اور حقیقت پسندی کے ساتھ اپنی زندگی کو ترقی کی جانب گامزن رکھے ۔

اور یہی صورت حال اس وقت درپیش آجاتی ہے جب کسی کی بیوی بانج ہوتی ہے ۔ اور مرد کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد ہو ‘ ایسے حالات میں بھی صرف دو صورتیں ہوتی ہیں کوئی تیسری صورت نہیں ہوتی ۔

(1) یہ کہ اسے خاوند طلاق دیدے اور دوسری بیوی لا کر اس کے ذریعہ وہ حصول اولاد کی فطری خواہش کو پورا کرے ۔

(2) یہ کہ وہ دوسری بیوی بھی کرے لیکن پہلی کو بھی اپنی زوجیت میں رکھے اور اس کے حقوق ادا کرے ۔

ہمارے دور میں بعض مرد اور عورتیں اپنے آپ کو دانشور ظاہر کر کے ایسے بکواس کرتے ہیں کہ تعدد ازواج کے مقابلے میں پہلی صورت بہتر ہے لیکن کم از کم 99 عورتیں ایسی ہوں گی جو طلاق کے مقابلے میں ایسے حالات میں تعدد ازواج کو ترجیح دیتی ہیں ۔ اور اگر انکو کوئی یہ مشورہ دے کہ وہ طلاق لے لیں تو وہ اس کے منہ پر تھوکیں گی اور ان مشیران کرام پر لعنت بھیجیں گی جو ان کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ بستے گھر خراب ہوں اور اس خرابی کے عوض انہیں کچھ بھی ہاتھ نہ آئے ۔ اس لئے کہ اگر کسی عورت کا بانجھ پن ظاہر ہوچکا ہو اور وہ طلاق لے لے تو کون ہے جو اسے نکاح میں لینے کیلئے تیار ہوگا ؟ اس کے مقابلے میں اکثر یوں ہوتا ہے کہ ایک بانجھ عورت پر جب خاوند دوسری شادی کرتا ہے تو دوسری عورت کے جو بچے پیدا ہوتے ہیں ان کے ساتھ سابق بیوی کو بہت ہی انس و محبت ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ کسی گھر میں بچے تو پھول کی طرح ہوتے ہیں اور جب اس قدر انتظار کے بعد وہ کسی گھر میں آتے ہیں تو اس سے احساس محرومی ختم ہوجاتا ہے اور گھر میں چہل پہل پیدا ہوجاتی ہے ۔

غرض ہم جہاں بھی جائیں اور انسانی زندگی کا حقیقت پسندانہ عملی مطالعہ کریں ‘ تو یہ حالات تعدد زوجات کے خلاف کسی بکواس کی تائید نہیں کرتے ‘ نہ ان نام نہاد دانشوروں کی آراء کی کہیں سے تائید حاصل ہوتی ہے ۔ زندگی کے واقعات وحقائق ان دانشوروں کی سطحی گپ شب اور بےراہ روی اور آزادی فکر وعمل کی تائید نہیں کرتے اس لئے کہ یہ موضوع نہایت ہی سنجیدہ ہوتا ہے اور اس میں گپ کے بجائے قطعی اور فیصلہ کن موقف کی ضرورت ہوتی ہے غرض زندگی کے حقائق پر گہرے غور وفکر کے نتیجے ہی میں باری تعالیٰ کی وہ گہری حکمت واضح ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس نے تعدد زوجات کو قرآن کے عائد کردہ حدود و شرائط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے ۔ فرماتے ہیں ۔

(آیت) ” فانکحوا ما طاب لکم من النسآء مثنی وثلث وربع فان خفتم الا تعدلوا فواحدة “۔

ترجمہ : ” جو عورتیں تم کو پسندآئیں ان میں سے دو ‘ تین تین ‘ چار چار سے نکاح کرلو ۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انکے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو۔ “

تعدد زوجات کی یہ رخصت اور اجازت زندگی کے عملی حقائق اور تقاضائے فطرت کے پیش نظر دی گئی ہے ۔ اس کے ذریعہ شریعت نے انسانی معاشرے کو بتقاضائے فطرت اور زندگی کے حقائق کے دباو میں بےراہ روی اور نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہونے سے بچا لیا ہے اور اس اجازت کو جس شرط سے مشروط کیا گیا ہے ‘ اس کے ذریعہ عائلی زندگی کو انارکی ‘ افراتفری سے بچایا گیا ہے ۔ نیز بیوی کو بھی خانگی ظلم وستم سے بچایا گیا ہے ۔ نیز اس کی وجہ سے عورت کی عزت کو بھی محفوظ کردیا گیا ہے ۔ اور غیر ضروری طور پر توہین آمیز سلوک سے محفوظ کردیا گیا ہے ۔ اور احتیاط کامل کے ساتھ عورت کو ایسے مواقع سے بچا لیا گیا کہ جن میں اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جائے ۔ اور ضروری حالات اور زندگی کے تلخ حقائق کے پیش نظر تعدد زوجات کی اجازت کے ساتھ ساتھ عورت کیلئے مکمل عدل و انصاف کی ضمانت دی گئی ہے ۔

جو شخص اسلام کی روح اور اس کی پالیسی کا ادراک رکھتا ہو ‘ وہ ہر گز یہ نہیں کہہ سکتا کہ تعدد ازواج اسلام میں بذاتہ مطلوب ہے اور بغیر فطری اور اجتماعی معاشرتی ضروریات کے جائز ہے ۔ اور اس کیلئے محض حوانی لذتیت اور ایک بیوی کو چھوڑ کر دوسری اختیار کرلینا ہی وجہ جواز ہے ۔ جس طرح ایک شخص ایک دوست کو چھوڑ کر دوسرے دوست کو اختیار کرلیتا ہے ۔ بلکہ اسے ایک حقیقی صورت میں جائز کیا گیا ہے ۔ بعض معاشرتی مشکلات پر قابو پانے کیلئے اسے جائز کیا گیا ہے ۔ اور ایسی مشکلات ہر معاشرے میں زندگی کا لازمہ ہوتی ہیں ۔

اب اگر انسانی تاریخ کے کسی دور میں بعض لوگوں نے اس اسلامی اجازت اور رخصت سے غلط فائدہ اٹھایا اور انہوں نے اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر عائلی زندگی کو حیوانی لذتیت کیلئے ایک اسٹیج بنادیا اور انہوں نے بیویوں کو اس طرح بدلنا شروع کردیا جس طرح دوستوں میں تبدیلی آجاتی ہے تو اس صورت حال کا اسلام ذمہ دار نہیں ہے ۔ اور نہ اس قسم کے عیاش لوگ اسلام کے نمائندے ہو سکتے ہیں ۔ اس قسم کے لوگ پستی کے ایسے گہرے گڑھے میں محض اس لئے گر گئے ہیں کہ وہ اسلام سے دور ہوگئے تھے ۔ اور اسلام کی پاک وصاف اور شریفانہ روح کا وہ ادراک نہ کرسکے ۔ پھر اسے لوگ ایسے معاشروں میں رہ رہے تھے ‘ جن پر اسلام کی حکمرانی نہ تھی ان میں اسلام کا نظام قانون ‘ اسلامی شریعت نافذ نہ تھی ‘ ان معاشروں پر اسلامی قوانین غالب نہ تھے ، تاکہ وہ اسلامی پالیسی اور اسلامی شریعت کے مطیع فرمان ہوتے ‘ لوگ اسلام کی تعلیمات اور اسلام کی شریعت پر عمل پیرا ہوتے اور اسلام آداب اور اسلامی روایات کا لحاظ رکھتے ۔

اسلام کی عائلی زندگی میں گزشتہ اسلامی تاریخ کے دوران جو نقائص پیدا ہوئے ان کے ذمہ دار وہ معاشرے ہیں جو اسلام کے دشمن تھے جنہوں نے اپنے آپ کو اسلامی شریعت اور اسلامی قانون سے آزاد کرلیا تھا ‘ یہی معاشرے ان ” محلات “ اور ان ” حریموں “ کے ذمہ دار تھے جو انتہائی گھٹیا انداز میں وجود میں آئے اور یہی معاشرے اس امر کے ذمہ دار تھے جنہوں نے عائلی زندگی کو حیوانی لذت کوشی کا اسٹیج ڈراما بنایا ۔ اس لئے جو لوگ عائلی زندگی سے ان عیوب کو دور کرنا چاہتے ہیں اور اسے صحت مند اصولوں پر استوار کرنا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ لوگوں کو اسلامی نظام حیات اور اسلامی شریعت کی حکمرانی کی طرف لوٹائیں ۔ انہیں چاہئے کہ وہ معاشرے کو پاکیزگی طہارت ‘ استقامت اور اعتدال کی اساس پر از سر نو استوار کرنے کی جدوجہد کریں جو بھی مصلح ہے اور اصلاح چاہتا ہے ۔ اسے چاہئے کہ بس لوگوں کو اسلامی نظام حیات کی طرف لوٹائے ۔ اگر کوئی صرف اس ایک عائلی پہلو میں اصلاح چاہتا ہے تو یہ ممکن نہیں ہے ، پورے نظام حیات کے اندر انقلاب ضروری ہے ۔ اس لئے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور وہ صرف اس صورت میں ہی قائم ہو سکتا ہے کہ اسے پورے طور پر اور ہر پہلو سے قائم کیا جائے ۔

یہاں جس عدل کا ذکر کیا ہے اور جو مطلوب ہے ‘ وہ ہمہ گیر عدل ہے ۔ معاملات میں عدل ‘ خرچ میں عدل ‘ حسن معاشرت میں بیویوں کے درمیان عدل ‘ ہم بستری میں سب کے ساتھ عدل ‘ رہی یہ بات کی دلی احساسات میں عدل اور نفس انسانی میں پائے جانے والے گہرے میلان کے اندر عدل تو اسلام اس کا مطالبہ کسی انسان سے نہیں کرتا۔ اس لئے کہ گہرے نفسیاتی میلانات ورجحانات انسان کے دائرہ ضبط و ارادہ سے خارج ہوتے ہیں ۔ اس عدل سے مراد وہ عدل ہے جس کی تشریح اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں دوسری جگہ خود کردی ہے ۔ ” اور تم ہر گز عورتوں کے درمیان مکمل عدل نہیں کرسکتے ہو ‘ اگرچہ تم بہت چاہو ‘ ‘ اس لئے پوری طرح ایک ہی طرف مائل نہ ہو جاو جس کا نتیجہ یہ ہو کہ دوسری عورت معلق ہو کر رہ جائے “۔ بعض تجدد پسندوں نے اس آیت سے یہ معانی نکالے ہیں کہ چونکہ مکمل عدل ممکن نہیں ہے ‘ اس لئے تعدد ازواج نتیجتا حرام ہوگیا ۔ حالانکہ مفہوم یہ نہیں ہے ۔ اسلامی شریعت ایک نہایت ہی سنجیدہ قانون ہے ‘ اس میں اس قسم کا مزاح نہیں کیا جاتا کہ وہ ایک آیت میں ایک بات کو جائز قرار دیدے اور ساتھ ہی دوسری آیت میں بالواسطہ اس اجازت کو واپس لے لے ۔ مثلا دائیں ہاتھ سے کوئی کسی کو کچھ دے اور بائیں ہاتھ سے چھین لے ۔ اس لئے پہلی آیت میں جس عدل کا ذکر ہے اور ہدایت دی گئی ہے کہ اگر تم ایسا عدل نہیں کرسکتے تو صرف ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرو ‘ اس سے مراد معاملات زندگی نفقات ازواج ‘ معاشرتی سلوک ‘ اور مباشرت میں عدل ہے ۔ نیز ان چیزوں کے علاوہ زندگی کے تمام مظاہر میں عدل و مساوات ہے ۔ اسی طرح کے بظاہر کسی ایک بیوی کی حیثیت دوسری سے کم نہ نظر آئے ۔ کسی ایک کو دوسری بیویوں پر ترجیح نہ دی جائے جس طرح حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ ﷺ افضل البشر تھے ۔ اور آپ کے تمام ساتھیوں اور پڑوسیوں کو یہ معلوم تھا کہ آپ کو حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ زیادہ محبت تھی اور آپ کے قلبی جذبات میں عائشہ ؓ کی جگہ زیادہ تھی ۔ اور اس مقام میں اس کے ساتھ آپ ﷺ کی دوسری ازواج مطہرات میں سے کوئی شریک نہ تھا ۔ اس لئے کہ کسی شخص کو اپنے دل پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا ۔ دل تو اللہ میاں کی دو انگلیوں کی گرفت میں ہیں اور یہ اللہ میاں کی مرضی ہوتی ہے کہ قلوب کو جس طرح پھیر دے ۔ حضور اکرم ﷺ اپنے دین سے بھی اچھی طرح باخبر تھے ۔ اور اپنے دلی جذبات سے بھی وہ اچھی طرح واقف تھے ۔ آپ فرمایا کرتے تھے ۔ ” اللہ ! یہ تو وہ تقسیم ہے جو میرے کنڑول میں ہے ‘ اور میں نے کردی ہے ۔ پس آپ مجھے اس معاملے میں ملامت نہ کیجیو جس پر مجھے کنٹرول نہیں ہے ‘ جو تیرے ہاتھ میں ہے ۔ “۔ (1) (ابو داود ‘ ترمذی اور نسائی)

اس موضوع پر بات ختم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم دوبارہ اس نکتے کی وضاحت کردیں ۔ اس دنیا میں اسلامی نظام حیات نے تعدد زوجات کے اصول کو رائج (Introkluce) نہیں کیا ۔ بلکہ موجودہ نظام لاتعداد تعدد زوجات میں چار کی حد تک تحریر کردی ، نیز اسلام نے یہ حکم نہیں دیا کہ تم خواہ مخواہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھو بلکہ اسلام نے اس کی اجازت دی اور اس اجازت کو شرط وقیود میں مقید کیا ۔ اور اجازت بھی اس لئے دی کہ انسانی زندگی کے حقیقی مسائل اور مشکلات کا حل نکالا جائے ۔ اور بعض حالات میں انسانی فطرت کے تقاضوں کی ضرورت کو پورا کیا جائے ۔ یہ فطری تقاضے اور حقیقی ضروریات زندگی جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ‘ وہ جن میں سے کچھ کا معمولی ادراک ابھی تک نہیں ہوا ہے ‘ لیکن ان میں سے بعض حالات زندگی بھی ہوں گے جن کا وقوع مستقبل میں ہوگا ۔ جن میں یہ رخصت کام آئے گی ، جس طرح اسلامی نظام زندگی کی ہدایات اور اسلامی شریعت کی حکمتوں کا ظہور آئے دن ہوتا رہتا ہے ۔ کیونکہ یہ ربانی نظام زندگی ہے اور انسان کا فہم وادراک اپنی گزشتہ تاریک میں اس کی تمام حکمتوں اور مصلحتوں کے احاطے سے قاصر رہا ہے ۔ اس لئے کہ ہر اسلامی قانون سازی میں مصلحت اور حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ۔ چاہے انسانی فہم اس کا ادراک کرسکے یہ نہ کرسکے یا اس کا ادراک انسانی تاریخ میں فہم انسانی کو پہلے حاصل ہو یا کچھ عرصہ بعد میں حاصل ہو ‘ اس لئے کہ یہ فہم نہایت ہی محدود ہے ۔

اب ہم اس انتظام پر بحث کرتے ہیں جو مکمل عدل و انصاف نہ کرسکنے کی ضرورت میں اسلام نے کیا ہے ۔

(آیت) ”۔ فان خفتم الا تعدلوا فواحدة او ماملکت ایمانکم ، “

ترجمہ : ” لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انکے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاو جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں ۔

یعنی اگر عدل قائم نہ رکھ سکنے کا اندیشہ ہو تو پھر یہ صورت متعین ہوجاتی ہے کہ ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرو ۔ اس صورت میں ایک سے زیادہ کی اجازت ختم ہوجاتی ہے یا ان عورتوں کو جو تمہارے قبضے میں ہیں ۔ “ بطور لونڈی استعمال کرو یازوجیت میں لو ‘ اس لئے کہ آیت کے الفاظ نے کسی صورت کی تحدید نہیں کی ہے ۔

فی ظلال القرآن کے پارہ دوئم کی تفسیر میں ہم نے غلامی کے مسئلے پر ایک مختصر بحث کی تھی ۔ یہاں مناسب ہے کہ غلام عورتوں کے ساتھ مباشرت کرنے کے مسئلے پر قدرے بحث ہوجائے ۔

مملوکہ عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے سے ان کا اعتماد ‘ ان کی شرافت اور انسانی عزت نفس بحال ہوجاتی ہے ۔ اس نکاح کی وجہ سے انہیں آزادی حاصل ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ہی اس عورت کی اولاد بھی آزاد ہوجاتی ہے ۔ اگر نکاح کے وقت اسے خاوند آزادی نہ بھی دے تو بھی بچہ پیدا ہونے کے بعد وہ ام ولد کہلاتی ہے ۔ اس کا مالک اسے اب فروخت نہیں کرسکتا ۔ مالک کی وفات کے بعد وہ آزاد ہوجاتی ہے ۔ اس سے قبل اس کی اولاد پیدا ہوتے ہیں آزاد ہوتی ہے ۔

اور اگر کوئی مالک نکاح کے بغیر ہی اپنی مملوکہ کے ساتھ مباشرت کرے تو بھی جب وہ بچہ دیدے ” ام ولد “ بن جاتی ہے ۔ اب اس کی فروخت ممنوع ہوجاتی ہے ۔ اور مالک کی وفات کے بعد وہ آزاد ہوجاتی ہے ۔ نیز اگر مالک اپنی لونڈی کے بچے کے نسب کا اعتراف کرلے تو وہ بھی آزاد تصور ہوتا ہے ۔ اور یہ اعتراف بالعموم لوگ کرتے ہیں ۔

لہذا غلام عورتوں کی آزادی کیلئے اسلام نے جو مختلف تدابیر (Devices) وضع کی ہیں ‘ انمیں سے اپنی لونڈی کے ساتھ نکاح اور ہم بستری بھی ان کی آزادی کا ایک طریقہ ہے ۔ البتہ بعض اوقات بغیر نکاح کے مملوکہ کے ساتھ ہم بستری کا فعل دل کو کھٹکتا ہے ۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت پیش نظررکھنا چاہئے کہ غلامی کا مسئلہ ایک اجتماعی ضرورت تھی اور اب بھی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اس سے قبل بیان کیا کہ اسلامی حکومت کا ایک سربراہ ‘ جو شریعت کا نافذ کرنے والا ہو اور اگر اعلان جنگ کردیتا ہے تو اس صورت میں قید میں آنیوالی عورتوں کا غلام ہونا جس طرح ایک اجتماعی اور بین الاقوامی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ان عورتوں کے ساتھ ہم بستری کرنا بھی ایک اجتماعی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ اسلامی کیمپ سے آزاد عورتیں جو دشمن کی غلامی میں جاتی تھیں ان کا انجام ان عورتوں سے برا ہوتا تھا جو کفار کے کیمپ سے گرفتار ہو کر اسلامی کیمپ میں آتی تھیں ۔

پھر یہ بات بھی ہمارے پیش نظررہنی چاہئے کہ ان گرفتار ہونیوالی عورتوں کے بھی تو کچھ فطری مطالبات اور خواہشات ہوا کرتی ہیں ۔ اور ان خواہشات اور میلانات کا مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے ۔ اور اسلام جیسا پسند نظام زندگی ان حقیقی فطری جذبات کو ہر گز نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ اس لئے کہ یہ نظام ہی بذات خود فطری اصولوں پر استوار ہے ۔ اب عورت اسیر عورت کے ان فطری خواہشات کو پورے کرنے کے طریقے یا تو یہ ہو سکتے ہیں کہ ان کو مالک یا غیر مالک کے نکاح میں دیدیا جائے یا مالک کو اگر ضرورت ہو تو وہ مملوکہ کے ساتھ ہم بستری کرے ۔ جب تک غلامی کا نظام قائم ہو یا ان کو آزادانہ اجازت دیدی جائے کہ وہ جہاں چاہیں جنسی خواہش پوری کریں ۔ اس آخری صورت میں پورے اسلامی معاشرے میں جنسی انار کی اور جنسی بےراہ روی کے پھیلنے اور عام ہونے کا خطرہ لازما موجود ہوگا اور اس صورت میں جنسی تعلقات پر کوئی ضابطہ نافذ نہیں ہو سکے گا ۔ اس لئے کہ اس طرح انہیں جسم فروشی اور جنسی دوستی کی مکمل آزادی ہوگی ۔

اور یہ صورت حال دور جاہلیت میں ’ اسلام سے قبل عملا موجود تھی ۔

قرن اول کے بعد اسلامی تاریخ کے بعض ادوار میں لونڈیوں کی جو کثرت رہی ۔ لونڈی کی یہ فوج خریداری ‘ بردہ فروشی اور اغوا کے ذریعہ پیدا کی گئی ، انہیں بڑے بڑے محلات میں جمع کیا گیا ، اور انہیں حیوانی جنسی تلذذ کا ذریعہ بنایا گیا ۔ اور ان لونڈیوں کے غولوں میں رنگیں راتیں بسر ہوتی رہیں ‘ رقص و سرود اور ناو ونوش کے بازار گرم رہے اور اسلامی تاریخ میں بعض لوگوں نے اس کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی کی اور بعض نے اس میدان میں مبالغہ آرائی سے کام لیا تو یہ سب کچھ اسلام نہ تھا ‘ نہ یہ اسلام کا کوئی کارنامہ تھا ‘ نہ اسلام نے کسی کو ایسی کوئی ہدایات دی تھی ۔ اور نہ یہ بات درست ہوگی کہ اس قسم کے واقعات کو اسلام کے کھاتے میں ڈالا جائے ، اور نہ اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ ان واقعات کو اسلام کی حقیقی تاریخ کا حصہ قرار دیا جائے ۔

اسلامی تاریخ کا حصہ وہ واقعات ہوں گے جو اسلامی نظریہ حیات اسلامی تصور زندگی اور اسلامی اقدار اور پیمانوں کے مطابق رد بعمل لائے جائیں ۔ رہے وہ واقعات جو ان معاشروں میں رد بعمل لائے گئے جو اپنی نسبت اسلام کی طرف کرتے رہے ہیں اور جو اسلامی اصول و مبادی کے مطابق نہیں تھے ‘ تو یہ بات بالکل قرین انصاف نہ ہوگی کہ ان واقعات کو اسلام کے کھاتے میں ڈالا جائے ، اس لئے کہ یہ واقعات تو درپیش اس لئے ہوئے کہ لوگوں نے اسلامی نظام زندگی سے انحراف کیا ۔

حقیقت یہ ہے اسلام مسلمانوں کی زندگی سے باہر اپنا ایک ڈھانچہ رکھتا ہے ۔ اور ہر دور میں اسلام کا اپنا ڈھانچہ رہا ہے ۔ اس لئے کہ مسلمانوں نے اسلامی نقشہ یا ڈھانچہ تیار نہیں کیا بلکہ یہ اسلامی نظام زندگی کا نقشہ ہے جس نے دنیا میں مسلمان تیار کئے ہیں اور مسلمانوں کی ایک سوسائٹی وجود میں آئی ہے ۔ اسلام اصل ہے اور مسلمان اس کیلئے فرع کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اسلام کے پیدا کرنے سے مسلمان پیدا ہوئے ہیں ، اس لئے اسلام وہ نہیں ہے جسے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام ہے نہ اسلام وہ افعال و اعمال ہیں جن کا ارتکاب اہل اسلام کرتے ہیں بلکہ لوگوں کے وہی افعال واطوار اسلام ہوں گے جو اسلامی اصول حیات اور اسلام تصور حیات کے مطابق ہوں گے اور اصل ڈھانچہ اصولی اسلام ہے جس کے مطابق ہم لوگوں کی علمی زندگی کو پرکھیں گے کہ وہ کس قدر اسلام کے مطابق ہے اور کس قدر اسلام کے خلاف ہے ۔

لیکن دنیا میں چلنے والے دو نظامہائے زندگی جو انسانوں کے اپنے نظریات کی اساس پر بنائے جاتے ہیں یا ان کی اساس خود انسان کے بنائے ہوئے مذاہب پر ہوتی ہے ان کا معاملہ اس سے مختلف ہے ۔ اس لئے کہ جب یہ لوگ اسلام کو چھوڑ کر از سر نو جاہلیت میں داخل ہوجاتے ہیں تو یہ لوگ گویا اللہ کا انکار کردیتے ہیں اگرچہ انکادعوی یہ ہو کہ وہ اللہ کے ماننے والے ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ پر ایمان لانے کا پہلا مظاہرہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مومن اپنا نظام اسلامی منہاج سے اخذ کرے اسے اسلامی شریعت پر استوار کرے ۔ اس عظیم اصولی قاعدے کے بغیر ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ یہ اس لئے کہ اس صورت میں لوگوں کے نزدیک تغیر پذیر مفاہیم اور بدلتے زندگیوں میں نافذ کرتے ہیں ۔

رہی صورت حال اسلامی نظام حیات کی تو اسلامی نظام کو لوگوں نے خود اپنے لئے وضع نہیں کیا ہے اس کی تشکیل اور تشریح رب الناس نے ان کیلئے کی ہے جو ان کا خالق بھی ہے ‘ مالک بھی ہے اور رازق بھی ہے ۔ تو اس نظام میں لوگ یا تو اس کی اطاعت کریں گے اور اوضاع واطوار کو اس کے مطابق استوار کریں گے تو ان لوگوں کے شب و روز اسلامی تاریخ کے شب وروز ہوں گے ۔ یا صورت حال یہ ہوگی کہ وہ اس سے انحراف کریں گے یا ” کلینا “ اسے ترک کریں گے تو اس صورت میں ان کے شب وروز اسلامی تاریخ کا حصہ تصور نہ ہوں گے ۔ اسے اسلامی تاریخ سے انحراف تصور کیا جائے گا ۔

اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے اسی نقطہ نظر کا لحاظ رکھنا اشد ضروری ہے ۔ اسی نقطہ نظر سے اسلام کے تاریخی تصور کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ اسلام کا تاریخی تصور تمام دوسرے تاریخی تصورات سے مختلف ہے ۔ اس لئے کہ دوسری سوسائٹیوں کے نظریات میں ان سوسائٹیوں کی عملی صورت حال کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے ۔ اور اسے کسی نظریہ اور مذہب کی عملی تعبیر تصور کیا جاتا ہے ۔ اس عملی مظہر کے مطابق پھر اس مذہب یا نظریہ کے اندر نرمی اور تبدیلی پر بحث کی جاتی ہے ۔ یعنی نظریہ پر بحث اس سوسائٹی کو پیش نظر رکھ کر کی جاتی ہے ۔ جو سوسائٹی اس نظریہ ایمان رکھنے کا دعوی کرتی ہے ۔ اور اس سوسائٹی کے اندر اس نظریہ کی بابت جو فکری تغیرات ہوتے ہیں اس پر بحث کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد یہ لوگ اس منہاج بحث کو اسلامی نظام کے مطالعہ پر بھی منطبق کرتے ہیں حالانکہ اسلام کی اپنی منفرد نوعیت کی وجہ سے یہ منہاج بحث اس پر چسپاں نہیں ہوتا ، اس لئے اس منہاج پر اسلام کا مطالعہ کرنے والے اسلام کے حقیقی مفہوم کے تعین میں خطرناک غلطیاں کرتے ہیں ۔

اخر میں اس آیت میں ان تمام انتظامات کی حکمت عملی کی وضاحت کردی جاتی ہے کہ یہ تمام انتظامات اس لئے کئے جارہے ہیں کہ تم ظلم و زیادتی کے ارتکاب سے بچ سکو (آیت) ” ذلک ادنی الا تعولوا “۔ ” بےانصافی سے بچنے کیلئے یہ زیادہ قرین صواب ہے ۔ “ یعنی یہ کہ اگر تم انصاف نہیں کرسکتے تو ان یتیم بچیوں کو اپنے نکاح میں لینے سے باز رہو اور دوسری عورتوں سے نکاح کرلو ۔ دو دو ‘ تین تین ‘ اور چار چار ‘ اور اگر عدل ممکن نہ ہو تو فقط ایک پر اکتفا کرو۔ یا اپنی مملوکہ عورتوں پر اکتفاء کرو ۔ یہی صورت اس کے قریب ہے کہ تم بےانصافی سے بچو اور ظلم نہ کرسکو ۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر معاملے میں عدل و انصاف کی تلاش اسلامی نظام زندگی کا نصب العین ہے اور اسلام کی جزئیات میں سے ہر جزء میں عدل مطلوب ہے ۔ اور ایک خاندان جس کے اندر اس کے تمام افراد رہائش پذیر ہوتے ہیں ‘ اس کے اندر عدل و انصاف کا قیام دوسرے مقامات کے مقابلے میں زیادہ ضروری ہے ۔ اس لئے کہ کسی سوسائٹی کی تعمیر اور کسی اجتماعی نظام کی تشکیل میں خاندان خشیت اول کی حیثیت رکھتا ہے ۔ خاندان اجتماعی زندگی کا نقطہ آغاز ہے ۔ قوموں کی تربیت خاندان کے قالب میں ہوتی ہے ۔ یہاں انسانوں کی شخصیات کی تشکیل ہوتی ہے اور اسی میں رنگ بھرا جاتا ہے ۔ اگر خاندانی نظام کی بنیاد عدل و انصاف اور اخوت و محبت پر نہ ہو تو پھر پورے معاشرے میں عدل و انصاف قائم نہ ہو سکے گا ۔ (1) (دیکھئے میری کتاب ” السلام العالمی والاسلام “ کی فصل ” سلام البیت “۔ )

اسی مناسبت سے یہاں عورتوں کے بعض دوسرے حقوق بیان کر دئیے جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ اس سورت کے آغاز میں ان کا ذکر خصوصیت سے ہوا تھا ‘ اس سورت کا نام بھی نساء رکھا گیا تھا ۔ اس لئے یتیم عورتوں کی بابت بات ختم کرنے سے پہلے بعض حقوق کا بیان مناسب تھا ۔

اردو ترجمہ

اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کر دیں تو اُسے تم مزے سے کھا سکتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waatoo alnnisaa saduqatihinna nihlatan fain tibna lakum AAan shayin minhu nafsan fakuloohu haneean mareean

(آیت) ” واتوالنساء صدقتھن نحلة فان طبن لکم عن شیء منہ نفسا فکلوہ ھنیئا مریئا (4)

یہ آیت عورت کے لئے ایک واضح حق (Right) کی بنیاد رکھتی ہے جو اس کا ذاتی حق ہے ۔ یعنی اس کا مہر ‘ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ دور جاہلیت میں عورت کے اس حق کو مختلف حیلوں بہانوں سے مارا جاتا تھا ، ایک صورت یہ تھی کہ عورت کا ولی اس مہر کو لے لیتا اور پھر اسے وہ خود استعمال کرتا ، اسی طرح جس طرح ایک شخص کوئی چیز فروخت کرکے زر ثمن وصول کرتا ہے ۔ ایک صورت اس حق کو مارنے کی نکاح شغار کی صورت میں تھی ۔ کہ ایک ولی الامر اپنی زیر تولیت لڑکی دوسرے شخص کو نکاح کر کے دیتا ہے ۔ اور اس کے مقابلے میں دوسرا ولی الامر اپنی تولیت میں پائی جانے والی کسی لڑکی کا نکاح پہلے ولی کا کسی رشتہ دار سے کردیتا ۔ یعنی لڑکی کے مقابلے میں لڑکی آجاتی ، یہ سودا دو اولیاء کے درمیان ہوتا اور اس سے ان دو لڑکیوں کو کچھ نہ ملتا ۔ جس طرح دو مویشیوں کو آپس میں تبادلہ کردیا جاتا ہے ۔ اسلام نے نکاح شغار کو بالکل منع کردیا ۔ اور یہ حکم دیا کہ نکاح صرف اسی صورت میں ہو کہ دونوں فریق براہ راست اس پر رضا مند ہوں اور اپنے اختیار سے معاملہ کریں ۔ اور یہ کہ مہر صرف عورت کا حق ہے ۔ وہ خود اسے وصول کرے گی ۔ اس کے ولی کو وصول کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اسلام نے مہر کے تعین کو لازمی قرار دیا ہے تاکہ عورت اسے اپنے قبضہ میں لے سکے ۔ کیونکہ یہ اس کیلئے ایک فریضہ ہے ۔ یہ ایک لازمی اور واجبی حق ہے جو کسی طرح بھی منسوخ یا معطل نہیں ہو سکتا ۔ یہ لازمی کیا گیا کہ مرد اس حق کو خوشدلی کے ساتھ ادا کرے ۔ اور اسے اس طرح دلی آمادگی سے ادا کرے جس طرح شخص ھبہ صرف اپنی دلی رضامندی سے دیتا ہے یعنی ہے تو فرض لیکن اسے اس طرح طیب نفس اور خوشی سے ادا کیا جائے کہ گویا فرض نہیں ہے بہ ہے ۔ ہاں ادائیگی کے بعد اگر عورت اپنی مکمل رضا مندی اور خوشدلی کے ساتھ یہ پورا مہر یا اس کا کوئی حصہ اپنے شوہر کو لوٹادیتی ہے تو وہ اس معاملے میں پوری طرح آزاد ہے ۔ وہ بھی جو واپس کرے وہ بھی مکمل آزادی اور طیب خاطر کے ساتھ ہو ‘ کوئی جبر نہ ہو ۔ اس صورت میں مرد کیلئے بھی اس مہر کا کھانا حلال ہے ۔ بلکہ وہ اسے مزے سے کھا سکتا ہے بغیر کسی قلبی خلجان کے ۔ غرض زوجین کے درمیان تعلقات مکمل رضا مندی کے ساتھ ہونے چاہئیں ۔ فریقین مکمل طور پر مختار خود ہوں ‘ وہ ایک دوسرے کے ساتھ جو معاملہ کریں دلی خوشی اور آزادی کے ساتھ کریں ، اور محبت تو چیز ہی ایسی ہے جس میں کسی جہت سے بھی کدورت نہیں ہونی چاہئے ۔

اس طرح اسلامی نظام حیات نے آثار جاہلیت میں سے ایک اور اثر کو ختم کردیا ، جو عورت کے مہر کے بارے میں عرب معاشرہ میں مروج تھا ۔ اور عورت کیلئے اس کی ذات اور اس کے مہر و مال کے بارے میں مکمل حقوق (Rights) بحال کردیئے گئے ۔ اس طرح اس کی عزت وقار کو بحال کیا گیا ۔ لیکن ان قانونی حقوق کی بحالی کے ساتھ ساتھ زن وشو کے باہمی تعلقات کو خشک قانونی پیمانوں کے حوالے بھی نہیں کردیا گیا ۔ اور اس سلسلے میں رضا مندی ‘ محبت اور باہم فیاضی کے راستے بھی کھلے رکھے گئے ہیں ۔ اس لئے کہ میاں بیوی نے مشترکہ طور پر زندگی گزارنی ہے ۔ اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تعلقات کو خشک قانونی فضا سے نکال کر باہم محبت اور برواحسان کی شبنم سے تروتازہ رکھا جائے ۔

جب یہ موضوع یہاں ختم ہوتا ہے تو بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے ، چونکہ اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی تھی کہ یتیم عورتوں کے ساتھ عام عورتوں کی بات بھی ہوجائے ۔ اب یہاں یتیموں کے مالی حقوق کا ذکر بھی مناسب تھا ۔ مفصلا حکم دیا جاتا ہے کہ ان کی دولت ان کو لوٹا کردی جائے جبکہ اس سے پہلے آیت نمبر 2 میں کہ ان کی دولت انہیں دی جائے ۔

دولت چاہے یہ ییتموں کی ہو یا بالغ مرد عورتوں کی ہو ‘ یہ ان لوگوں کی انفرادی ملکیت ہونے سے بھی پہلے یہ پوری سوسائٹی کی دولت ہوتی ہے ۔ اور کسی سوسائٹی کو جو دولت دی گئی ہوتی ہے ‘ اس دولت پر اس پوری سوسائٹی کا قیام ہوتا ہے ۔ اور اس دولت سے جو اس سوسائٹی میں گردش کرتی ہے ‘ پوری سوسائٹی استفادہ کرتی ہے ۔ اور یہ استفادہ اس کے حسن انتظام سے ہوتا ہے ۔ گویا تمام دولت کا ابتدائی مالک عام معاشرہ ہوتا ہے اور یتیم اور دوسرے وارث اس کے مالک محض اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ وہ اس دولت کو مزید ترقی دیں ، اور یہ ترقی اجتماعی نظام کی اجازت سے ہو ‘ وہ خود بھی اس سے استفادہ کریں اور سوسائٹی بھی اس سے مستفید ہو ۔ یہ ان پرائیویٹ ہاتھوں میں اس وقت تک رہے گی جب تک وہ اسے بڑھانے اور اس میں اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ، اور اسی دولت میں تصرف کرنے اور اس کا انتظام کرنے میں وہ صحیح طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہوں ۔ اس اجتماعی دائرے کے اندر انفرادی حقوق ملکیت قائم رہیں گے (1) (تفصیلات کیلئے دیکھئے میری کتاب العہد الا الاجتماعیہ کی فصل ” مالی پالیسی “ ) رہے وہ نادان یتیم جو مالدار ہیں لیکن اپنے مالی انتظامات سے قاصر ہیں اور اسے ترقی نہیں دے سکتے تو انکے کنٹرول میں ان کی دولت نہ دی جائے گی ۔ ان کو ان کے اموال میں تصرف اور اپنے ہاتھ میں بسنے اور اپنی نگرانی میں چلانے کے حق سے محروم کردیا جائے گا ۔ اگرچہ ان کی انفرادی ملکیت کا حق ان اموال پر باقی رہتا ہے ۔ یہ دولت ان سے چھین لینے کی اجازت نہیں ہے ۔ صرف اسی دولت کو سوسائٹی کے ان افراد کی تحویل میں دیدیا جائے گا جو ان میں اچھا تصرف کرسکتے ہوں ۔ ہاں اس سلسلے میں ان لوگوں کو ترجیح دی جائے گی جو یتیم کے ساتھ قرابت اور رشتہ داری رکھتے ہوں ۔ تاکہ خاندانی کفالت کا انتظام بھی ساتھ ساتھ چلتا رہے ۔ اس لئے کہ خاندان کے کفالتی نظام ہی کے ذریعہ سوسائٹی کے بڑے خاندان کا کفالتی نظام قائم ہوتا ہے ۔ ہاں نادان لوگوں کیلئے ان کے اخراجات اور اچھی طرح گزر بسر کا انتظام ہوگا ۔

اردو ترجمہ

اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالہ نہ کرو، البتہ انہیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tutoo alssufahaa amwalakumu allatee jaAAala Allahu lakum qiyaman waorzuqoohum feeha waoksoohum waqooloo lahum qawlan maAAroofan

(آیت) ” ولا توتوا السفہآء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیما وارزقوھم فیھا واکسوھم وقولوا لھم قولا معروفا “۔ (5)

نادانی اور دانائی کا پتہ بلوغ کے بعد چل جاتا ہے ۔ بالعموم نادان اور دانا کے درمیان ہو ہی جاتی ہے ۔ اس لئے اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ قانون کے اندر اس کیلئے کوئی فارمولا وضع کردیا جائے ، ہر خاندان اس بات کی تمیز اچھی طرح کرلیتا ہے کہ اس کے اندر نادان کون ہے اور دانا کون ہے ۔ اسے اچھی طرح تجربہ ہوتا ہے کہ یہ راشد ہے اور یہ سفیہ ہے نیز سوسائٹی سے بھی کسی شخص کے معاملات اور تصرفات پوشیدہ نہیں ہوتے ۔ لہذا جانچ پڑتال اس بات کی ہوگی کہ یتیم بالغ ہوگیا ہے یا نہیں ۔ یہاں آیت میں اس بلوغ کی تعبیر لفظ نکاح سے کی گئی ہے کیونکہ بلوغ میں سے نکاح ایک اہم اثر ہوتا ہے ۔

اردو ترجمہ

اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم اُن کے اندر اہلیت پاؤ تو اُن کے مال اُن کے حوالے کر دو ایسا کبھی نہ کرنا کہ حد انصاف سے تجاوز کر کے اِس خوف سے اُن کے مال جلدی جلدی کھا جاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے یتیم کا جو سرپرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے پھر جب اُن کے مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو اس پر گواہ بنا لو، اور حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waibtaloo alyatama hatta itha balaghoo alnnikaha fain anastum minhum rushdan faidfaAAoo ilayhim amwalahum wala takulooha israfan wabidaran an yakbaroo waman kana ghaniyyan falyastaAAfif waman kana faqeeran falyakul bialmaAAroofi faitha dafaAAtum ilayhim amwalahum faashhidoo AAalayhim wakafa biAllahi haseeban

(آیت) ” وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغوا النکاح فان انستم منھم رشدا فادفعوا الیھم اموالھم ولا تاکلوھا اسرافا وبدارا ان یکبروا ومن کان غنیا فلیستعفف ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف فاذا دفعتم الیھم اموالھم فاشھدوا علیھم وکفی باللہ حسیبا “۔ (6)

اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے یتیموں کو ان کی دولت حوالے کرنے کے سلسلے میں شریعت نے کس قدر سخت کاروائی کی ہے ۔ جب وہ بالغ ہوجائیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت بلوغ اور سیانے ہونے کے بعد جلد از جلد ان کی دولت انکے حوالے کرنے کیلئے کاروائی کرنے پر زور دیتی ہے ۔ یعنی جونہی وہ بالغ ہوں ‘ ان کی دولت ان کے حوالے کی جائے ۔ اور یہ دولت پوری کی پوری صحیح سالم ان کے حوالے کی جائے ۔ اور جب تک ولی کی حفاظت میں ہو اس کی حفاظت ایمانداری کے ساتھ کی جائے اور اسے بےدردی کے ساتھ خرچ نہ کیا جائے ۔ اس ڈر سے کہ یتیم بالغ ہونے والے ہیں اور یہ دولت انہیں لوٹانی ہوگی ۔ نیز شریعت کی پالیسی یہ ہے کہ اگر محافظ مالدار ہو تو وہ اس نگرانی اور حفاظت کا کوئی معاوضہ نہ لے اور اگر وہ نادار ہو تو اسے چاہئے کہ معروف طریقے کے مطابق کم سے کم ضرورت کی حد تک کھائے ۔ اور شریعت یہ بھی لازمی قرار دیتی ہے کہ جب کسی یتیم کو اس کا مال حوالے کیا جا رہا ہو تو اس پر شہادت ضرور قائم کی جائے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ کی شہادت تو ہر وقوعہ پر قائم ہے اور اللہ کے سامنے جو حساب ہوگا وہ آخری حساب ہوگا ۔

(آیت) ” وکفی باللہ حسیبا “۔ (6) ”’ اور حساب لینے کیلئے اللہ کافی ہے ۔ “

یہ تمام تشدید وتاکید اور تمام تفصیلات وتشریحات اور یہ تمام تنبیہات وتذکیرات اس حقیقت کی مظہر ہیں کہ جس معاشرے میں اسلامی نظام نافذ ہوا ۔ اس میں ہر طرف ییتموں کی حق تلفی ہو رہی تھی ۔ یتیموں کے علاوہ دوسرے کمزوروں کے مال بھی کھائے جاتے تھے ۔ اس لئے کہ اس رسم و رواج کو ختم کرنے کیلئے اس قدر تاکید وتشدید کی ضرورت پیش آئی ۔ اور جزوی تفصیلات کو قرآن کریم کے اندر قلم بند کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی ۔ تاکہ آئندہ لوگ قانونی حیلوں اور بہانوں سے کام لیکر قانون شکنی نہ کرسکیں اور قانون سے بچنے کی کوئی راہ کھلی نہ رہے ۔

اس طرح نظام حیات مسلمانوں کی فکری اور عملی دنیا سے جاہلیت کے ایک ایک نشان مٹاتا رہا اور اس کی جگہ اسلامی جھنڈے گاڑتا رہا ۔ جاہلیت کے آثار مٹائے جاتے رہے اور معاشرے کے چہرے کو ان بدنما داغوں سے صاف کیا جاتا رہا ۔ اور ان کی جگہ اسلام کے خوبصورت خدوخال ظاہر ہوتے رہے ۔ اور یوں ایک جدید معاشرہ ڈھلتا رہا ۔ جدید معاشرے کی رسوم اور روایات قائم ہوتی چلی گئیں ۔ اس کے اصول و ضوابط اور قوانین و احکام نازل ہوتے رہے ۔ اور یہ سب کچھ خدا خوفی کی فضا میں اور اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں ہوتا رہا ۔ اور اسلامی قانون اور اسلامی احکام کی آخری گارنٹی ذات باری کے خوف اور رضا مندی کو قرار دیا جاتا رہا حقیقت یہ ہے کہ خدا خوفی ‘ خدا کی رضا مندی اور اللہ کی نگرانی کے تصور کے سوا ‘ اس دنیا میں کسی بھی قانونی نظام کی استواری اور چلت کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔ اصل مدار اس پر ہے کہ (آیت) ” وکفی باللہ حسبیا “۔ ” اور حساب لینے کیلئے اللہ کافی ہے ۔ “

جاہلیت کی رسم یہ تھی کہ وہ لڑکیوں اور بچوں کو وراثت نہ دیتے تھے ۔ عام رواج یہی تھا ۔ البتہ بعض جگہوں پر اس کے خلاف بھی تھا مگر شاذ ۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ تھی کہ یہ لوگ گھوڑے پر سوار نہیں ہوتے تھے ۔ دشمن کے مقابلے میں شریک نہ ہوتے تھے ۔ گویا اصل مدار جنگ پر تھا ۔ اسلامی نظام قانون نے میراث کو قرابت کے اصول پر استوار کیا ۔ جو تقسیم میراث کا حقیقی سبب تھا ۔ ہاں جس طرح قرابت کے مختلف درجے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح اقرباء کے حصص اور فرائض میں بھی فرق ہے ۔ جیسا کہ بعد میں تفصیلات آرہی ہیں ۔ نظام میراث کو اسلام نے نظام قرابت پر اس لئے استوار کیا کہ اسلام اجتماعی تکافل کے نظام کی اکائی ایک خاندان کو قرار دیتا ہے ۔ وہ سب سے پہلے ایک خاندان کے افراد کے درمیان باہم کفالت کا نظام قائم کرتا ہے ۔ اور یہ خاندانی نظام بھی اجتماعی کفالتی نظام کے فریم ورک کے اندر ہوتا ہے ۔ نیز اس اصول کے تحت کہ حقوق ذمہ داریوں کی نسبت سے متعین ہوتے ہیں تو اس طرح قریبی رشتہ داروں پر خاندان کے کسی غریب فرد کی بابت اس کی قرابت کے اعتبار سے ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ مثلا قتل میں دیت کی ادائیگی بھی قرابت اور رشتہ داری کے اصول پر ہوتی ہے ۔ نیز زخموں کی مرہم پٹی کی ادائیگی بھی قرابت کے اصول پر ہوا کرتی ہے ۔ اس لئے پھر انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی رشتہ دار فوت ہوجائے اور اس کا ترکہ رہ جائے تو اسے اصول قرابت پر تقسیم کیا جائے ، کیونکہ اسلامی نظام زندگی ایک مکمل اور باہم متناسق نظام ہے ۔ اور اس کی یہ ہمہ گیری اور ہم آہنگی اس وقت اچھی طرح ظاہر ہوتی ہے جب اس کے اندر حقوق وفرائض متعین ہوتے ہیں ۔

غرض میراث کی تقسیم میں شریعت نے عموما ان قریبی ذمہ داریون کو ملحوظ رکھا ہے ۔ بعض لوگ اس قانون کے اصول تقسیم پر نکتہ جہنیاں کرتے ہیں ‘ یہ حرکت وہ اس لئے کرتے ہیں کہ درحقیقت ذات باری کی شان میں گستاخی کیلئے تیار ہیں ۔ حالانکہ خود ان کا حال یہ ہے کہ وہ کود ات انسانی سے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ اور نہ وہ انسانی زندگی کے مختلف احوال کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے نظام میراث کی اساس جن اصولوں پر رکھی گئی ہے اگر یہ لوگ ان کا اچھی طرح ادراک کرلیں تو یہ ہر گز یہ جسارت نہ کریں۔

اسلامی نظام میراث کا اصل الاصول سوشل سیکورٹی ہے ۔ اس کفالتی نظام کو شریعت نے ان اصولوں پر استوار کیا ہے ۔ جو نہایت ہی مستحکم ہیں اور ان اصولوں کو وضع کرتے وقت اسلام نے نفس انسانی کے فطری رجحانات کو بھی مد نظر رکھا ہے ۔ اور یہ وہ رجحانات ہیں جن کا خالق اللہ ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فطرت انسانی کے اندر ان رجحانات کو عبث طور پر پیدا نہیں کیا ہے ۔ یہ فطری میلانات انسانی زندگی کے ارتقاء وبقا میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔

ایک خاندان کے اندر قریبی یا دور کے رشتوں کے جو رابطے ہوتے ہیں ‘ وہ چونکہ فطری روابط ہوتے ہیں اور نہایت ہی حقیقی روابط ہوتے ہیں اور وہ ایسے رابطے ہوتے ہیں ‘ جن کی تخلیق کسی ایک نسل یا سوسائٹی نے نہیں کی ہے ۔ اور نہ ہی ان رابطوں کی تخلیق میں پوری انسانی نسلوں کے اتفاق کا کوئی دخل ہے ۔ اس لئے ان رابطوں کی حقیقت پسندی ‘ ان کی گہرائی انسانی زندگی کے بچاو اس کی ترقی اور اس کی سربلندی میں ان رابطوں کی اہمیت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ اور اگر کوئی ان حقیقی رابطوں کی اہمیت کا انکار کرتا ہے تو ان کلیہ انکار نظر انداز کرنے کا مستحق ہے ۔ اس لئے اسلام نے اپنے کفالتی نظام کی اکائی ایک خاندان کے کفالتی نظام کو قرار دیا ہے ۔ اور اس کفالتی یونٹ کو پھر اپنے اجتماعی اور ملکی کفالتی نظام کا سنگ میل قرار دیا ہے ۔ اسلام نے نظام میراث کو اس خاندانی کفالتی نظام کا ایک مظہر اور علامت قرار دیا ہے ۔ جبکہ اقتصادی اور اجتماعی نظام معیشت وسیاست میں اس کے اور مفید اثرات بھی اپنی جگہ مسلم ہیں ۔

اگر کسی شخص کے تکافل میں یہ پہلا قدم کامیاب نہیں ہوتا اور خاندان کسی شخص کی کفالت میں ناکام ہوجاتے ہے تو پھر مقامی مسلم سوسائٹی سامنے آتی ہے اور وہ اس شخص کی کفالت کرتی ہے ۔ اور اگر محلہ اور مقامی سوسائٹی بھی ناکام رہیں تو اس کے بعد اسلامی حکومت ان تمام لوگوں کی کفالت کی ذمہ دار ہے جو خود اپنا انتظام نہیں کرسکتے ۔ اس انتظام کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تمام نادار لوگوں کا انتظام کرنا صرف حکومت کے نظم ونسق کے کاندھوں پر یکدم نہیں پڑتا ۔ یہ انتظام اس لئے کیا گیا ہے کہ ایک خاندان اور ایک محدود سوسائٹی کے اندر باہم تکافل کے انتظام کے نتیجے میں افراد معاشرہ کے دلوں میں باہم دگر محبت ‘ لطف وکرم اور رحم اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور ان جذبات کی وجہ سے لوگوں کے درمیان باہم تعاون اور ہمدردی کے فطری فضائل اخلاق پروان چڑھتے ہیں اور یہ بالکل حقیقی ہوتے ہیں ان میں کوئی بناوٹ نہیں ہوتی ۔ اس خاندانی کفالت کے علاوہ بھی رشتہ داروں کی امداد اور ہمدردی کے جذبات رکھنا ایک ایسا انسانی فعل ہے جسے ایک بدفطرت اور گٹھیا درجے کا خبیث شخص ہی نظر انداز کرسکتا ہے ۔ ایک خاندان کے اندر کفالت کرنا تو ایک ایسا فعل ہے جس کے انسانی فطرت اور مزاج پر بہت ہی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ جو عین فطرت کے مطابق ہوتے ہیں ۔ ایک شخص کا یہ شعور کہ اس کی شخصی جدوجہد اس کے تمام رشتہ داروں کیلئے مفید عمل ہے ۔ خصوصا اس کی اپنی اولاد کیلئے تو اس شعور کی وجہ سے اس کی قوت عمل دو چند ہوجاتی ہے اسی طرح ایک شخص جدوجہد بالواسطہ پورے معاشرے کیلئے مفید ثابت ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام حیات میں فرد اور جماعت کے درمیان فاصلے نہیں رکھے جاتے ۔ (1) (تفصیلات کیلئے دیکھئے فصل ” فرد اور معاشرہ “ کتاب الانسان بین المادیتہ والسلام۔ مصنفہ محمد قطب اور مصنف کی کتاب العدالتہ الاجتماعیہ فی اسلام ‘ فصل اجتماعی تکافل اور مالی پالیسی اور میری کتاب ” دراسات اسلامیہ ۔ “

اس لئے کہ فرد کی تمام ملکیت بھی دراصل پورے معاشرے کی ملکیت ہوتی ہے ۔ اگر معاشرے کو اس کی ضرورت پڑے ۔

اس آخری اصول کی روشنی میں اسلامی نظام وراثت پر کئے جانے والے وہ تمام اعتراضات زائل ہوجاتے ہیں ‘ جن میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ نظام ان لوگوں کو بھی وارثت منتقل کردیتا ہے جنہوں نے اس کیلئے کوئی جدوجہد نہیں کی ہوتی ۔ اس لئے کہ یہ وارث درحقیقت موروث منہ کا تسلسل ہوتا ہے اور اگر یہی موروث منہ محتاج ہوتا اور یہ وارث مالدار ہوتا تو اپنے اسلامی اور معاشرتی فرائض کے تحت وہ اس کی کفالت کرتا ، اور ان امور کے بعد یہ قاعدہ اپنی جگہ مسلم ہے کہ یہ دولت جس کے پاس بھی ہو اور جس طرح بھی تقسیم ہو یہ پورے معاشرے کی اجتماعی دولت ہے اور اسے اجتماعی ضروریات کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ (2) (تفصیلات کیلئے دیکھئے فصل ” فرد اور معاشرہ “ کتاب الانسان بین المادیتہ والسلام۔ مصنفہ محمد قطب اور مصنف کی کتاب العدالتہ الاجتماعیہ فی اسلام ‘ فصل اجتماعی تکافل اور مالی پالیسی اور میری کتاب ” دراسات اسلامیہ ۔ “

ان امور کے علاوہ وارث اور مورث کے درمیان جو رابطہ ہوتا ہے خصوصا مورث اور اس کی اولاد کے درمیان وہ صرف مالی رابطہ نہیں ہوتا ۔ اگر ہم وارث اور مورث کے درمیان مالی مفادات کو از روئے قانون کاٹ بھی دیں تو بھی ان کے درمیان جو خونی رشتے موجود ہیں اور جو دوسرے رشتے موجود ہیں وہ کاٹنے سے نہیں کٹتے ۔

آباو اجداد اور دوسرے رشتہ دار اپنے بچوں ‘ پوتوں اور رشتہ داروں کو صرف مالی وراثت ہی منتقل نہیں کرتے ‘ بلکہ وہ اپنی اچھی صلاحیتیں اچھی عادات ‘ بری عادات اور کمزوریاں بھی منتقل کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے بچوں اور پوتوں کی طرف بعض موروثی بیماریاں بھی منتقل کرتے ہیں اور اگر وہ صحت مند ہیں تو اپنی صحت مندی بھی وارثت میں دیتے ہیں ۔ اسی طرح ایک شخص کے حسن اخلاق وبداخلاقی اس کی اچھائیاں اور برائیاں اور زکاوت اور غبی ہونا بھی وراثتا ‘ منتقل ہوتا ہے ۔ اور یہ تمام صفات وارثوں کی طرف منتقل ہو کر ہمیشہ کیلئے ان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اور ان کے نتائج ان وارثوں کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔ اس لئے انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ مورث کا مال اگر کوئی ہے تو وہ بھی وارثوں کی طرف منتقل ہو ۔ اس لئے کہ اگر ہم کسی شخص کا مال اس کے وارثوں کو نہیں دیتے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم وارثوں کو موروثی بیماریوں ‘ اخلاقی کمزوریوں ‘ بدعملی اور ذہنی اور جسمانی کمزوریوں سے بھی نجات دلائیں اور یہ اس وقت بھی ممکن نہیں جب ہم اپنے پورے وسائل اس کام میں لگا دیں ۔

انسانی زندگی کے ان فطری اور واقعاتی حقائق کی وجہ سے اور ان تمام دوسری حکمتوں کی وجہ سے جو شریعت الہیہ میں پوشیدہ ہوتی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے میراث کی تقسیم کا یہ موجودہ نظام وضع فرمایا ہے ۔ (3) (تفصیلات کیلئے دیکھئے فصل ” فرد اور معاشرہ “ کتاب الانسان بین المادیتہ والسلام۔ مصنفہ محمد قطب اور مصنف کی کتاب العدالتہ الاجتماعیہ فی اسلام ‘ فصل اجتماعی تکافل اور مالی پالیسی اور میری کتاب ” دراسات اسلامیہ ۔ “ فرماتے ہیں ۔

77