سورہ نساء (4): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Nisaa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النساء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نساء کے بارے میں معلومات

Surah An-Nisaa
سُورَةُ النِّسَاءِ
صفحہ 77 (آیات 1 سے 6 تک)

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٰحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَآءً ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ٱلَّذِى تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا وَءَاتُوا۟ ٱلْيَتَٰمَىٰٓ أَمْوَٰلَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا۟ ٱلْخَبِيثَ بِٱلطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوٓا۟ أَمْوَٰلَهُمْ إِلَىٰٓ أَمْوَٰلِكُمْ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا۟ فِى ٱلْيَتَٰمَىٰ فَٱنكِحُوا۟ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ مَثْنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا۟ فَوَٰحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَلَّا تَعُولُوا۟ وَءَاتُوا۟ ٱلنِّسَآءَ صَدُقَٰتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَىْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيٓـًٔا مَّرِيٓـًٔا وَلَا تُؤْتُوا۟ ٱلسُّفَهَآءَ أَمْوَٰلَكُمُ ٱلَّتِى جَعَلَ ٱللَّهُ لَكُمْ قِيَٰمًا وَٱرْزُقُوهُمْ فِيهَا وَٱكْسُوهُمْ وَقُولُوا۟ لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا وَٱبْتَلُوا۟ ٱلْيَتَٰمَىٰ حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغُوا۟ ٱلنِّكَاحَ فَإِنْ ءَانَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَٱدْفَعُوٓا۟ إِلَيْهِمْ أَمْوَٰلَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَآ إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا۟ ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَٰلَهُمْ فَأَشْهِدُوا۟ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ حَسِيبًا
77

سورہ نساء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نساء کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnasu ittaqoo rabbakumu allathee khalaqakum min nafsin wahidatin wakhalaqa minha zawjaha wabaththa minhuma rijalan katheeran wanisaan waittaqoo Allaha allathee tasaaloona bihi waalarhama inna Allaha kana AAalaykum raqeeban

آیت 1 یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ دیکھئے معاشرتی مسائل کے ضمن میں گفتگو اس بنیادی بات سے شروع کی گئی ہے کہ اپنے خالق ومالک کا تقویٰ اختیار کرو۔وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا نوٹ کیجیے کہ یہاں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ اس نے تمہیں ایک آدم سے پیدا کیا اور اسی آدم سے اس کا جوڑا بنایا ‘ بلکہ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ایک جان کا لفظ ہے۔ گویا اس سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ عین آدم علیہ السلام ہی سے ان کا جوڑا بنایا گیا ہو ‘ جیسا کہ بعض روایات سے بھی اشارہ ملتا ہے ‘ اور یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ آدم کی نوع سے ان کا جوڑا بنایا گیا ‘ جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے۔ اس لیے کہ نوع ایک ہے ‘ جنسیں دو ہیں۔ انسان Human beings نوع species ایک ہے ‘ لیکن اس کے اندر ہی سے جو جنسی تفریق sexual differentiation ہوئی ہے ‘ اس کے حوالے سے اس کا جوڑا بنایا ہے۔ وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً ج۔مِنْہُمَاسے مراد یقیناً آدم و حوا ہیں۔ یعنی اگر آپ اس تمدن انسانی کا سراغ لگانے کے لیے پیچھے سے پیچھے جائیں گے تو آغاز میں ایک انسانی جوڑا آدم و حوا پائیں گے۔ اس رشتہ سے پوری نوع انسانی اس سطح پر جا کر رشتۂ اخوت میں منسلک ہوجاتی ہے۔ ایک تو سگے بہن بھائی ہیں۔ دادا دادی پر جا کر cousins کا حلقہ بن جاتا ہے۔ اس سے اوپر پڑدادا پڑدادی پر جا کر ایک اور وسیع حلقہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح چلتے جایئے تو معلوم ہوگا کہ پوری نوع انسانی بالآخر ایک جوڑے آدم و حوا کی اولاد ہے۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ط۔تقویٰ کی تاکید ملاحظہ کیجیے کہ ایک ہی آیت میں دوسری مرتبہ پھر تقویٰ کا حکم ہے۔ فرمایا کہ اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس کا تم ایک دوسرے کو واسطہ دیتے ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ فقیر بھی مانگتا ہے تو اللہ کے نام پر مانگتا ہے ‘ اللہ کے واسطے مانگتا ہے ‘ اور اکثر و بیشتر جو تمدنی معاملات ہوتے ہیں ان میں بھی اللہ کا واسطہ دیا جاتا ہے۔ گھریلو جھگڑوں کو جب نمٹایا جاتا ہے تو آخر کار کہنا پڑتا ہے کہ اللہ کا نام مانو اور اپنی اس ضد سے باز آجاؤ ! تو جہاں آخری اپیل اللہ ہی کے حوالے سے کرنی ہے تو اگر اس کا تقویٰ اختیار کرو تو یہ جھگڑے ہوں گے ہی نہیں۔ اس نے اس معاشرے کے مختلف طبقات کے حقوق معین کردیے ہیں ‘ مثلاً مرد اور عورت کے حقوق ‘ رب المال اور عامل کے حقوق ‘ فرد اور اجتماعیت کے حقوق وغیرہ۔ اگر اللہ کے احکام کی پیروی کی جائے اور اس کے عائد کردہ حقوق و فرائض کی پابندی کی جائے تو جھگڑا نہیں ہوگا۔ ّ مزید فرمایا کہ رحمی رشتوں کا لحاظ رکھو ! جیسا کہ ابھی بتایا گیا کہ رحمی رشتوں کا اوّلین دائرہ بہن بھائی ہیں ‘ جو اپنے والدین کی اولاد ہیں۔ پھر دادا دادی پر جا کر ایک بڑی تعداد پر مشتمل دوسرا دائرہ وجود میں آتا ہے۔ یہ رحمی رشتے ہیں۔ انہی رحمی رشتوں کو پھیلاتے جایئے تو کل بنی آدم اور کل بنات حوا سب ایک ہی نسل سے ہیں ‘ ایک ہی باپ اور ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا ۔یہ تقویٰ کی روح ہے۔ اگر ہر وقت یہ خیال رہے کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے ‘ میرا ہر عمل اس کی نگاہ میں ہے ‘ کوئی عمل اس سے چھپا ہوا نہیں ہے تو انسان کا دل اللہ کے تقویٰ سے معمور ہوجائے گا۔ اگر یہ استحضار رہے کہ چاہے میں نے سب دروازے اور کھڑکیاں بند کردیں اور پردے گرا دیے ہیں لیکن ایک آنکھ سے میں نہیں چھپ سکتا تو یہی تقویٰ ہے۔ اور اگر تقویٰ ہوگا تو پھر اللہ کے ہر حکم کی پابندی کی جائے گی۔ یہ حکمت نبوت ہے کہ اس آیت کو نبی اکرم ﷺ نے خطبۂ فکاح میں شامل فرمایا۔ نکاح کا موقع وہ ہوتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان رشتۂ ازدواج قائم ہو رہا ہے۔ یعنی آدم کا ایک بیٹا اور حوا کی ایک بیٹی پھر اسی رشتے میں منسلک ہو رہے ہیں جس میں آدم اور حوا تھے۔ جس طرح ان دونوں سے نسل پھیلی ہے اسی طرح اب ان دونوں سے نسل آگے بڑھے گی۔ لیکن اس پورے معاشرتی معاملے میں ‘ خاندانی معاملات میں ‘ عائلی معاملات میں اللہ کا تقویٰ انتہائی اہم ہے۔ جیسے ہم نے سورة البقرۃ میں دیکھا کہ بار بار وَاتَّقُوا اللّٰہَ کی تاکید فرمائی گئی۔ اس لیے کہ اگر تقویٰ نہیں ہوگا تو پھر خالی قانون مؤثر نہیں ہوگا۔ قانون کو تو تختہ مشق بھی بنایا جاسکتا ہے کہ بظاہر قانون کا تقاضا پورا ہو رہا ہو لیکن اس کی روح بالکل ختم ہو کر رہ جائے۔ سورة البقرۃ میں اسی طرزعمل کے بارے میں فرمایا گیا کہ : وَلَا تَتَّخِذُوْا اٰیٰتِ اللّٰہِ ھُزُوًاز آیت 231 اور اللہ کی آیات کو مذاق نہ بنالو“۔

اردو ترجمہ

یتیموں کے مال اُن کو واپس دو، اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو، اور اُن کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waatoo alyatama amwalahum wala tatabaddaloo alkhabeetha bialttayyibi wala takuloo amwalahum ila amwalikum innahu kana hooban kabeeran

آیت 2 وَاٰتُوا الْیَتٰمٰٓی اَمْوَالَہُمْ معاشرے کے دبے ہوئے طبقات میں سے یتیم ایک اہم طبقہ تھا۔ دور جاہلیت میں ان کے کوئی حقوق نہیں تھے اور ان کے مال ہڑپ کرلیے جاتے تھے۔ وہ بہت کمزور تھے۔ وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بالطَّیِّبِ ایسا ہرگز نہ ہو کہ یتیموں کے مال میں سے اچھا اچھا لے لیا اور اپنا ردّی مال اس میں شامل کردیا۔ وَلاَ تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَہُمْ الآی اَمْوَالِکُمْ ط اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا یتیموں کے بعض سرپرست جو تقویٰ اور خوف خدا سے تہی دامن ہوتے ہیں ‘ اوّل تو ان کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں ‘ اور اگر ایسا نہ بھی کریں تو ان کا اچھامال خورد برد کر کے اپنا ردّی اور بےکار مال اس میں شامل کردیتے ہیں اور اس طرح تعداد پوری کردیتے ہیں۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا لیتے ہیں تاکہ اسے بآسانی ہڑپ کرسکیں۔ ان کو ایسے سب ہتھکنڈوں سے روک دیا گیا۔

اردو ترجمہ

اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain khiftum alla tuqsitoo fee alyatama fainkihoo ma taba lakum mina alnnisai mathna wathulatha warubaAAa fain khiftum alla taAAdiloo fawahidatan aw ma malakat aymanukum thalika adna alla taAAooloo

آیت 3 وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ج اس آیت میں یَتَامٰیسے مراد یتیم بچیاں اور خواتین ہیں۔ یتیم لڑکے تو عمر کی ایک خاص حد کو پہنچنے کے بعد اپنی آزاد مرضی سے زندگی گزار لیتے تھے ‘ لیکن یتیم لڑکیوں کا معاملہ یہ ہوتا تھا کہ ان کے ولی اور سرپرست ان کے ساتھ نکاح بھی کرلیتے تھے۔ اس طرح یتیم لڑکیوں کے مال بھی ان کے قبضے میں آجاتے تھے ‘ اور یتیم لڑکیوں کے پیچھے ان کے حقوق کی نگہداشت کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا تھا۔ اگر ماں باپ ہوتے تو ظاہر ہے کہ وہ بچی کے حقوق کے بارے میں بھی کوئی بات کرتے۔ لہٰذا ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا تھا۔ چناچہ فرمایا گیا کہ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم ان کے بارے میں انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر تم ان یتیم بچیوں سے نکاح مت کرو ‘ بلکہ دوسری عورتیں جو تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو۔ اگر ضرورت ہو تو دو دو ‘ تین تین ‘ چار چار کی حد تک نکاح کرسکتے ہو ‘ اس کی تمہیں اجازت ہے۔ لیکن تم یتیم بچیوں کے ولی بن کر ان کی شادیاں کہیں اور کرو تاکہ تم ان کے حقوق کے پاسبان بن کر کھڑے ہو سکو۔ ورنہ اگر تم نے ان کو اپنے گھروں میں ڈال لیا تو کون ہوگا جو ان کے حقوق کے بارے میں تم سے باز پرس کرسکے ؟۔۔ منکرین سنت اور منکرین حدیث نے اس آیت کی مختلف تعبیرات کی ہیں ‘ جو یہاں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ اس کا صحیح مفہوم یہی ہے جو سلف سے چلا آ رہا ہے اور جو حضرت عائشہ صدیقہ رض سے مروی ہے۔ مزید برآں تعدد ازدواج کے بارے میں یہی ایک آیت قرآن مجید میں ہے۔ اس آیت کی رو سے تعدد ازدواج کو محدود کیا گیا ہے اور چار سے زائد بیویاں رکھنے کو ممنوع کردیا گیا ہے۔ ّ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً یہ جو ہم نے اجازت دی ہے کہ دو دو ‘ تین تین ‘ چار چار عورتوں سے نکاح کرلو ‘ اس کی شرط لازم یہ ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل کرو۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اس شرط کو پورا نہیں کرسکو گے اور ان میں برابری نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی شادی کرو ‘ اس سے زائد نہیں۔ بیویوں کے مابین عدل و انصاف میں ہر اس چیز کا اعتبار ہوگا جو شمار میں آسکتی ہے۔ مثلاً ہر بیوی کے پاس جو وقت گزارا جائے اس میں مساوات ہونی چاہیے۔ نان نفقہ ‘ زیورات ‘ کپڑے اور دیگر مال و اسباب ‘ غرضیکہ تمام مادّی چیزیں جو دیکھی بھالی جاسکتی ہیں ان میں انصاف اور عدل لازم ہے۔ البتہ دلی میلان اور رجحان جس پر انسان کو قابو نہیں ہوتا ‘ اس میں گرفت نہیں ہے۔اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط۔ یعنی وہ عورتیں جو جنگوں میں گرفتار ہو کر آئیں اور حکومت کی طرف سے لوگوں میں تقسیم کردی جائیں۔ وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے اور ان کی تعداد پر کوئی تحدید نہیں ہے۔ ذٰلِکَ اَدْنآی الاَّ تَعُوْلُوْا ۔کہ بس ایک ہی بیوی کی طرف میلان ہے اور ‘ جیسا کہ آگے آئے گا ‘ دوسری معلق ہو کر رہ گئی ہیں کہ نہ وہ شوہروالیاں ہیں اور نہ آزاد ہیں کہ کہیں اور نکاح کرلیں۔

اردو ترجمہ

اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کر دیں تو اُسے تم مزے سے کھا سکتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waatoo alnnisaa saduqatihinna nihlatan fain tibna lakum AAan shayin minhu nafsan fakuloohu haneean mareean

آیت 4 وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃً ط۔عورتوں کے مہر تاوان سمجھ کر نہ دیا کرو ‘ بلکہ فرض جانتے ہوئے ادا کیا کرو۔ صَدُقَاتٌ صِدَاقٌکی جمع ہے ‘ جبکہ صَدَقَۃٌ کی جمع صَدَقَاتٌ آتی ہے۔فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْہُ نَفْسًا تم نے جو مہر مقرر کیا تھا وہ انہیں ادا کردیا ‘ اب وہ تمہیں اس میں سے کوئی چیز ہدیہ کر رہی ہیں ‘ تحفہ دے رہی ہیں تو کوئی حرج نہیں۔فَکُلُوْہُ ھَنِیْءًا مَّرِیْءًا تم اسے بےکھٹکے استعمال میں لاسکتے ہو ‘ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن یہ ہو ان کی مرضی سے ‘ زبردستی اور جبر کر کے نہ لے لیا جائے۔

اردو ترجمہ

اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالہ نہ کرو، البتہ انہیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tutoo alssufahaa amwalakumu allatee jaAAala Allahu lakum qiyaman waorzuqoohum feeha waoksoohum waqooloo lahum qawlan maAAroofan

آیت 5 وَلاَ تُؤْتُوا السُّفَہَآءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو نادانوں اور ناسمجھ لوگوں سُفَہاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں جو ابھی سن شعور کو نہیں پہنچے۔ ایسے بچے اگر یتیم ہوجائیں تو وہ وراثت میں ملنے والے مال کو اللوں تللوں میں اڑا سکتے ہیں۔ لہٰذا یہاں ہدایت کی گئی ہے کہ ایسے مال کے بےجا استعمال کی معاشرتی سطح پر روک تھام ہونی چاہیے۔ یہ تصور ناقابل قبول ہے کہ میرا مال ہے ‘ میں جیسے چاہوں خرچ کروں ! چناچہ اس مال کو اَمْوَالَکُمْ“ کہا گیا کہ یہ اصل میں معاشرے کی مشترک بہبود کے لیے ہے۔ اگرچہ انفرادی ملکیت ہے ‘ لیکن پھر بھی اسے معاشرے کی مشترک بہبود میں خرچ ہونا چاہیے۔ ِ وَّارْزُقُوْہُمْ فِیْہَا وَاکْسُوْہُمْ وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا اسی اصول کے تحت برطانوی دور کے ہندوستان میں of wards Court مقرر کردیے جاتے تھے۔ اگر کوئی بڑا جاگیردار یا نواب فوت ہوجاتا اور یہ اندیشہ محسوس ہوتا کہ اس کا بیٹا آوارہ ہے اور وہ سب کچھ اڑا دے گا ‘ ختم کر دے گا تو حکومت اس میراث کو اپنی حفاظت میں لے لیتی اور ورثاء کے لیے اس میں سے سالانہ وظیفہ مقرر کردیتی۔ باقی سب مال و اسباب جمع رہتا تھا تاکہ یہ ان کی آئندہ نسل کے کام آسکے۔

اردو ترجمہ

اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم اُن کے اندر اہلیت پاؤ تو اُن کے مال اُن کے حوالے کر دو ایسا کبھی نہ کرنا کہ حد انصاف سے تجاوز کر کے اِس خوف سے اُن کے مال جلدی جلدی کھا جاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے یتیم کا جو سرپرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے پھر جب اُن کے مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو اس پر گواہ بنا لو، اور حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waibtaloo alyatama hatta itha balaghoo alnnikaha fain anastum minhum rushdan faidfaAAoo ilayhim amwalahum wala takulooha israfan wabidaran an yakbaroo waman kana ghaniyyan falyastaAAfif waman kana faqeeran falyakul bialmaAAroofi faitha dafaAAtum ilayhim amwalahum faashhidoo AAalayhim wakafa biAllahi haseeban

آیت 6 وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰیٓ اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ج فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْہُمْ رُشْدًا تم محسوس کرو کہ اب یہ باشعور ہوگئے ہیں ‘ سمجھ دار ہوگئے ہیں۔ فَادْفَعُوْآ اِلَیْہِمْ اَمْوَالَہُمْ ج وَلاَ تَاْکُلُوْہَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا ط ایسا نہ ہو کہ تم یتیموں کا مال ضرورت سے زیادہ اور جلد بازی میں خرچ کرنے لگو ‘ اس خیال سے کہ بچے جوان ہوجائیں گے تو یہ مال ان کے حوالے کرنا ہے ‘ لہٰذا اس سے پہلے پہلے ہم اس میں سے جتنا ہڑپ کرسکیں کر جائیں۔وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ ج۔یتیم کا ولی اگر خود غنی ہے ‘ اللہ نے اس کو دے رکھا ہے ‘ اس کے پاس کشائش ہے تو اسے یتیم کے مال میں سے کچھ بھی لینے کا حق نہیں ہے۔ پھر اسے یتیم کے مال سے بچتے رہنا چاہیے۔ وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بالْمَعْرُوْفِ ط۔اگر کوئی خود تنگ دست ہے ‘ محتاج ہے اور وہ یتیم کی نگہداشت بھی کر رہا ہے ‘ اس کا کچھ وقت بھی اس پر صرف ہو رہا ہے تو معروف طریقے سے اگر وہ یتیم کے مال میں سے کچھ کھا بھی لے تو کچھ حرج نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیم بڑی فطری ہے ‘ اس میں غیر فطری بندشیں نہیں ہیں جن پر عمل کرنا ناممکن ہوجائے۔ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْہِمْ اَمْوَالَہُمْ فَاَشْہِدُوْا عَلَیْہِمْ ط۔ان کا مال و متاع گواہوں کی موجودگی میں ان کے حوالے کیا جائے کہ ان کی یہ یہ چیزیں آج تک میری تحویل میں تھیں ‘ اب میں نے ان کے حوالے کردیں۔ وَکَفٰی باللّٰہِ حَسِیْبًا ۔یہ دنیا کا معاملہ ہے کہ اس کے لیے لکھت پڑھت اور شہادت ہے۔ باقی اصل حساب تو تمہیں اللہ کے ہاں جا کردینا ہے۔

77