سورة آل عمران (3): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورة آل عمران کے بارے میں معلومات

Surah Aal-i-Imraan
سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ
صفحہ 50 (آیات 1 سے 9 تک)

الٓمٓ ٱللَّهُ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْحَىُّ ٱلْقَيُّومُ نَزَّلَ عَلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنزَلَ ٱلتَّوْرَىٰةَ وَٱلْإِنجِيلَ مِن قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَأَنزَلَ ٱلْفُرْقَانَ ۗ إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ ذُو ٱنتِقَامٍ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَىْءٌ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فِى ٱلسَّمَآءِ هُوَ ٱلَّذِى يُصَوِّرُكُمْ فِى ٱلْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَآءُ ۚ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ عَلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ مِنْهُ ءَايَٰتٌ مُّحْكَمَٰتٌ هُنَّ أُمُّ ٱلْكِتَٰبِ وَأُخَرُ مُتَشَٰبِهَٰتٌ ۖ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَٰبَهَ مِنْهُ ٱبْتِغَآءَ ٱلْفِتْنَةِ وَٱبْتِغَآءَ تَأْوِيلِهِۦ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُۥٓ إِلَّا ٱللَّهُ ۗ وَٱلرَّٰسِخُونَ فِى ٱلْعِلْمِ يَقُولُونَ ءَامَنَّا بِهِۦ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّآ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَٰبِ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْوَهَّابُ رَبَّنَآ إِنَّكَ جَامِعُ ٱلنَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُخْلِفُ ٱلْمِيعَادَ
50

سورة آل عمران کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورة آل عمران کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

الف لام میم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aliflammeem

اردو ترجمہ

اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، حقیقت میں اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu la ilaha illa huwa alhayyu alqayyoomu

آیت الکرسی اور اسم اعظم آیت الکرسی کی تفسیر میں پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ اسم اعظم اس آیت اور آیت الکرسی میں ہے اور الم کی تفسیر سورة بقرہ کے شروع میں بیان ہوچکی ہے جسے دوبارہ یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں، آیت (اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ) 2۔ البقرۃ :255) کی تفسیر بھی آیت الکرسی کی تفسیر میں ہم لکھ آئے ہیں۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے تجھ پر اے محمد ﷺ قرآن کریم کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے جس میں کوئی شک نہیں بلکہ یقینا وہ اللہ کی طرف سے ہے، جسے اس نے اپنے علم کی وسعتوں کے ساتھ اتارا ہے، فرشتے اس پر گواہ ہیں اور اللہ کی شہادت کافی وافی ہے۔ یہ قرآن اپنے سے پہلے کی تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور وہ کتابیں بھی اس قرآن کی سچائی پر گواہ ہیں، اس لئے کہ ان میں جو اس نبی ﷺ کے آنے اور اس کتاب کے اترنے کی خبر تھی وہ سچی ثابت ہوئی۔ اسی نے حضرت موسیٰ بن عمران پر توراۃ اور عیسیٰ بن مریم پر انجیل اتاری، وہ دونوں کتابیں بھی اس زمانے کے لوگوں کیلئے ہدایت دینے والی تھیں۔ اس نے فرقان اتارا جو حق و باطل، ہدایت و ضلالت، گمراہی اور راہ راست میں فرق کرنے والا ہے، اس کی واضح روشن دلیلیں اور زبردست ثبوت ہر معترض کیلئے مثبت جواب ہیں، حضرت قتادہ حضرت ربیع بن انس کا بیان ہے کہ فرقان سے مراد یہاں قرآن ہے، گو یہ مصدر ہے لیکن چونکہ قرآن کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے اس لئے یہاں فرقان فرمایا، ابو صالح سے یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے توراۃ ہے مگر یہ ضعیف ہے اس لئے کہ توراۃ کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے واللہ اعلم۔ قیامت کے دن منکروں اور باطل پرستوں کو سخت عذاب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ غالب ہے بڑی شان والا ہے اعلیٰ سلطنت والا ہے، انبیاء کرام اور محترم رسولوں کے مخالفوں سے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب کرنے والوں سے جناب باری تعالیٰ زبردست انتقام لے گا۔

اردو ترجمہ

اُس نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے، جو حق لے کر آئی ہے اور اُن کتابوں کی تصدیق کر رہی ہے جو پہلے سے آئی ہوئی تھیں اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل کر چکا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Nazzala AAalayka alkitaba bialhaqqi musaddiqan lima bayna yadayhi waanzala alttawrata waalinjeela

اردو ترجمہ

اور اس نے وہ کسوٹی اتاری ہے (جو حق اور باطل کا فرق د کھانے والی ہے) اب جو لوگ اللہ کے فرامین کو قبول کرنے سے انکار کریں، ان کو یقیناً سخت سزا ملے گی اللہ بے پناہ طاقت کا مالک ہے اور برائی کا بدلہ دینے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Min qablu hudan lilnnasi waanzala alfurqana inna allatheena kafaroo biayati Allahi lahum AAathabun shadeedun waAllahu AAazeezun thoo intiqamin

اردو ترجمہ

زمین اور آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna Allaha la yakhfa AAalayhi shayon fee alardi wala fee alssamai

خالقِ کل اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ آسمان و زمین کے غیب کو وہ بخوبی جانتا ہے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں، وہ تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ میں جس طرح کی چاہتا ہے اچھی، بری نیک اور بد صورتیں عنایت فرماتا ہے، اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں وہ غالب ہے حکمت والا ہے، جبکہ صرف اسی ایک نے تمہیں بنایا، پیدا کیا، پھر تم دوسرے کی عبادت کیوں کرو ؟ وہ لازوال عزتوں والا غیرفانی حکمتوں والا، اٹل احکام والا ہے۔ اس میں اشارہ بلکہ تصریح ہے کہ حضرت عیسیٰ بھی اللہ عزوجل ہی کے پیدا کئے ہوئے اور اسی کی چوکھٹ پر جھکنے والے تھے، جس طرح تمام انسان اس کے پیدا کردہ ہیں انہی انسانوں میں سے ایک آپ بھی ہیں، وہ بھی ماں کے رحم میں بنائے گئے ہیں اور میرے پیدا کرنے سے پیدا ہوئے، پھر وہ اللہ کیسے بن گئے ؟ جیسا کہ اس لعنتی جماعت نصاریٰ نے سمجھ رکھا ہے، حالانکہ وہ تو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف رگ و ریشہ کی صورت ادھراُدھر پھرتے پھراتے رہے، جیسے اور جگہ ہے آیت (يَخْلُقُكُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِيْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ) 39۔ الزمر :6) وہ اللہ جو تمہیں ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے، ہر ایک کی پیدائش طرح طرح کے مرحلوں سے گزرتی ہے۔

اردو ترجمہ

وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں، جیسی چاہتا ہے، بناتا ہے اُس زبردست حکمت والے کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee yusawwirukum fee alarhami kayfa yashao la ilaha illa huwa alAAazeezu alhakeemu

اردو ترجمہ

وہی خدا ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے اِس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات جن لوگوں کے دلو ں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا بخلا ف اِس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ "ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں" اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee anzala AAalayka alkitaba minhu ayatun muhkamatun hunna ommu alkitabi waokharu mutashabihatun faamma allatheena fee quloobihim zayghun fayattabiAAoona ma tashabaha minhu ibtighaa alfitnati waibtighaa taweelihi wama yaAAlamu taweelahu illa Allahu waalrrasikhoona fee alAAilmi yaqooloona amanna bihi kullun min AAindi rabbina wama yaththakkaru illa oloo alalbabi

ہماری سمجھ سے بلند آیات یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ قرآن میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے۔ ہر شخص اس کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے، اور بعض آیتیں ایسی بھی ہیں جن کے مطلب تک عام ذہنوں کی رسائی نہیں ہوسکتی، اب جو لوگ نہ سمجھ میں آنے والی آیتوں کے مفہوم کو پہلی قسم کی آیتوں کی روشنی میں سمجھ لیں یعنی جس مسئلہ کی صراحت جس آیت میں پائیں لے لیں، وہ تو راستی پر ہیں اور جو صاف اور صریح آیتوں کو چھوڑ کر ایسی آیتوں کو دلیل بنائیں جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں، ان میں الجھ جائیں تو منہ کے بل گرپڑیں، ام الکتاب یعنی کتاب اللہ اصل اصولوں کی وہ صاف اور واضح آیتیں ہیں، شک و شبہ میں نہ پڑو اور کھلے احکام پر عمل کرو انہی کو فیصلہ کرنے والی مانو اور جو نہ سمجھ میں آئے اسے بھی ان سے ہی سمجھو، بعض اور آیتیں ایسی بھی ہیں کہ ایک معنی تو ان کا ایسا نکلتا ہے جو ظاہر آیتوں کے مطابق ہو اور اس کے سوا اور معانی بھی نکلتے ہیں، گو وہ حرف لفظ اور ترکیب کے اعتبار سے واقعی طور پر نہ ہو تو ان غیر ظاہر معنوں میں نہ پھنسو، محکم اور متشابہ کے بہت سے معنی اسلاف سے منقول ہیں، حضرت ابن عباس تو فرماتے ہیں کہ محکمات وہ ہیں جو ناسخ ہوں جن میں حلال حرام احکام حکم ممنوعات حدیں اور اعمال کا بیان ہو، اسی طرح آپ سے یہ بھی مروی ہے (آیت قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم الخ،) اور اس کے بعد کے احکامات والی اور (آیت وقضی ربک ان لا تبعدوا الخ،) اور اس کے بعد کی تین آیتیں محکمات سے ہیں، حضرت ابو فاختہ فرماتے ہیں سورتوں کے شروع میں فرائض اور احکام اور روک ٹوک اور حلال و حرام کی آیتیں ہیں، سعید بن جبیر کہتے ہیں انہیں اصل کتاب اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ تمام کتابوں میں ہیں، حضرت مقاتل کہتے ہیں اس لئے کہ تمام مذہب والے انہیں مانتے ہیں، متشابہات ان آیتوں کو کہتے ہیں جو منسوخ ہیں اور جو پہلے اور بعد کی ہیں اور جن میں مثالیں دی گئیں ہیں اور قسمیں کھائی گئی ہیں اور جن پر صرف ایمان لایا جاتا ہے اور عمل کیلئے وہ احکام نہیں، حضرت ابن عباس کا بھی یہی فرمان ہے حضرت مقاتل فرماتے ہیں اس سے مراد سورتوں کے شروع کے حروف مقطعات ہیں۔ حضرت مجاہد کا قول یہ ہے کہ ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والی ہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ) 39۔ الزمر :23) اور مثانی وہ ہے جہاں دو مقابل کی چیزوں کا ذکر ہو جیسے جنت دوزخ کی صفت، نیکوں اور بدوں کا حال وغیرہ وغیرہ۔ اس آیت میں متشابہ محکم کے مقابلہ میں اس لئے ٹھیک مطلب وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کیا اور حضرت محمد بن اسحاق بن یسار کا یہی فرمان ہے، فرماتے ہیں یہ رب کی حجت ہے ان میں بندوں کا بچاؤ ہے، جھگڑوں کا فیصلہ ہے، باطل کا خاتمہ ہے، انہیں ان کے صحیح اور اصل مطلب سے کوئی گھما نہیں سکتا نہ ان کے معنی میں ہیرپھیر کرسکتا ہے۔ متشابہات کی سچائی میں کلام نہیں ان میں تصرف و تاویل نہیں کرنی چاہئے۔ ان سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ایمان کو آزماتا ہے جیسے حلال حرام سے آزماتا ہے، انہیں باطل کی طرف لے جانا اور حق سے پھیرنا چاہئے۔ پھر فرماتا ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ٹیڑھ پن گمراہی اور حق سے باطل کی طرف ہی ہے وہ تو متشابہ آیتوں کو لے کر اپنے بدترین مقاصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور لفظی اختلاف سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد کی طرف موڑ لیتے ہیں اور جو محکم آیتیں ان میں ان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کے الفاظ بالکل صاف اور کھلے ہوئے ہوتے ہیں نہ وہ انہیں ہٹا سکتے ہیں نہ ان سے اپنے لئے کوئی دلیل حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی لئے فرمان ہے کہ اس سے ان کا مقصد فتنہ کی تلاش ہوتی ہے تاکہ اپنے ماننے والوں کو بہکائیں، اپنی بدعتوں کی مدافعت کریں جیسا کہ عیسائیوں نے قرآن کے الفاظ روح اللہ اور کلمۃ اللہ سے حضرت عیسیٰ کے اللہ کا لڑکا ہونے کی دلیل لی ہے۔ پس اس متشابہ آیت کو لے کر صاف آیت جس میں یہ لفظ ہیں کہ (آیت ان ھو الا عبد الخ، یعنی حضرت عیسیٰ اللہ کے غلام ہیں، جن پر اللہ کا انعام ہے، اور جگہ ہے آیت (اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ) 3۔ آل عمران :59) یعنی حضرت عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت آدم کی طرح ہے کہ انہیں اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے کہا کہ ہوجا، وہ ہوگیا، چناچہ اسی طرح کی اور بھی بہت سی صریح آیتیں ہیں ان سب کو چھوڑ دیا اور متشابہ آیتوں سے حضرت عیسیٰ کے اللہ کا بیٹا ہونے پر دلیل لے لی حالانکہ آپ اللہ کی مخلوق ہیں، اللہ کے بندے ہیں، اس کے رسول ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ ان کی دوسری غرض آیت کی تحریف ہوتی ہے تاکہ اسے اپنی جگہ سے ہٹا کر مفہوم بدل لیں، حضور ﷺ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں میں جھگڑتے ہیں تو انہیں چھوڑ دو ، ایسے ہی لوگ اس آیت میں مراد لئے گئے ہیں۔ یہ حدیث مختلف طریق سے بہت سی کتابوں میں مروی ہے، صحیح بخاری شریف میں بھی یہ حدیث اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے، ملاحظہ ہو کتاب القدر، ایک اور حدیث میں ہے یہ لوگ خوارج ہیں (مسند احمد) پس اس حدیث کو زیادہ سے زیادہ موقوف سمجھ لیا جائے تاہم اس کا مضمون صحیح ہے اس لئے کہ پہلے بدعت خوارج نے ہی پھیلائی ہے، فرقہ محض دنیاوی رنج کی وجہ سے مسلمانوں سے الگ ہوا۔ حضور ﷺ نے جس وقت حنین کی غنیمت کا مال تقسیم کیا اس وقت ان لوگوں نے اسے خلاف عدل سمجھا اور ان میں سے ایک نے جسے ذواخویصرہ کہا جاتا ہے اس نے حضور ﷺ کے سامنے آکر صاف کہا کہ حضرت عدل کیجئے، آپ نے اس تقسیم میں انصاف نہیں کیا، آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اللہ نے امین بنا کر بھیجا تھا، اگر میں بھی عدل نہیں کروں تو پھر برباد ہو اور نقصان اٹھائے، جب وہ پلٹا تو حضرت عمر فاروق نے درخواست کی کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں اسے مار ڈالوں، آپ ﷺ نے فرمایا چھوڑ دو ، اس کے ہم خیال ایک ایسی قوم پیدا ہوگی کہ تم لوگ اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلہ اور اپنی قرآن خوانی کو ان کی قرآن خوانی کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے لیکن دراصل وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے، تم جہاں انہیں پاؤ گے قتل کرو گے، انہیں قتل کرنے والے کو بڑا ثواب ملے گا، حضرت علی کی خلافت کے زمانہ میں ان کا ظہور ہوا اور آپ نے انہیں نہروان میں قتل کیا پھر ان میں پھوٹ پڑی تو ان کے مختلف الخیال فرقے پیدا ہوگئے، نئی نئی بدعتیں دین میں جاری ہوگئیں اور اللہ کی راہ سے بہت دور چلے گئے، ان کے بعد قدریہ فرقے کا ظہور ہوا، پھر معتزلہ پھر جہمیہ وغیرہ پیدا ہوئے اور حضور ﷺ کی پیشنگوئی پوری ہوئی کہ میری امت میں عنقریب تہتر فرقے ہوں گے سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک جماعت کے۔ صحابہ نے پوچھا وہ کون لوگ ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ جو اس چیز پر ہوں جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب (مستدرک حاکم) ایویعلیٰ کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے ایک قوم پیدا ہوگی جو قرآن تو پڑھے گی لیکن اسے اس طرح پھینکے گی جیسے کوئی کھجور کی گٹھلیاں پھینکتا ہو، اس کے غلط مطالب بیان کرے گی، پھر فرمایا اس کی حقیقی تاویل اور واقعی مطلب اللہ ہی جانتا ہے، لفظ اللہ پر وقف ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے، حضرت عبداللہ بن عباس تو فرماتے ہیں تفسیر چار قسم کی ہے، ایک وہ جس کے سمجھنے میں کسی کو مشکل نہیں، ایک وہ جسے عرب اپنے لغت سے سمجھتے ہیں، ایک وہ جسے جید علماء اور پورے علم والے ہی جانتے ہیں اور ایک وہ جسے بجزذات الہٰی کے اور کوئی نہیں جانتا۔ یہ روایت پہلے بھی گزر چکی ہے، حضرت عائشہ کا بھی یہی قول ہے، معجم کبیر میں حدیث ہے کہ مجھے اپنی امت پر صرف تین باتوں کا ڈر ہے۔ مال کی کثرت کا جس سے حسد و بغض پیدا ہوگا اور آپس کی لڑائی شروع ہوگی، دوسرا یہ کہ کتاب اللہ کی تاویل کا سلسلہ شروع ہوگا حالانکہ اصلی مطلب ان کا اللہ ہی جانتا ہے اور اہل علم والے کہیں گے کہ ہمارا اس پر ایمان ہے۔ تیسرے یہ کہ علم حاصل کرنے کے بعد اسے بےپرواہی سے ضائع کردیں گے، یہ حدیث بالکل غریب ہے اور حدیث میں ہے کہ قرآن اس لئے نہیں اترا کہ ایک آیت دوسری آیت کی مخالف ہو، جس کا تمہیں علم ہو اور اس پر عمل کرو اور جو متشابہ ہوں ان پر ایمان لاؤ (ابن مردویہ) ابن عباس حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرت مالک بن انس سے بھی یہی مروی ہے کہ بڑے سے بڑے عالم بھی اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے، ہاں اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ پختہ علم والے یہی کہتے ہیں اس کی تاویل کا علم اللہ ہی کو ہے کہ اس پر ہمارا ایمان ہے۔ ابی بن کعب بھی یہی فرماتے ہیں، امام ابن جریر بھی اسی سے اتفاق کرتے ہیں، یہ تو تھی وہ جماعت جو الا اللہ پر وقف کرتی تھی اور بعد کے جملہ کو اس سے الگ کرتی تھی، کچھ لوگ یہاں نہیں ٹھہرتے اور فی العلم پر وقف کرتے ہیں، اکثر مفسرین اور اہل اصول بھی یہی کہتے ہیں، ان کی بڑی دلیل یہ ہے کہ جو سمجھ میں نہ آئے اس بات کا ٹھیک نہیں، حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے میں ان راسخ علماء میں ہوں جو تاویل جانتے ہیں، مجاہد فرماتے ہیں راسخ علم والے تفسیر جانتے ہیں، حضرت محمد بن جعفر بن زبیر فرماتے ہیں کہ اصل تفسیر اور مراد اللہ ہی جانتا ہے اور مضبوط علم والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے پھر متشابہات آیتوں کی تفسیر محکمات کی روشنی کرتے ہیں جن میں کسی کو بات کرنے کی گنجائش نہیں رہتی، قرآن کے مضامین ٹھیک ٹھاک سمجھ میں آتے ہیں دلیل واضح ہوتی ہے، عذر ظاہر ہوجاتا ہے، باطل چھٹ جاتا ہے اور کفر دفع ہوجاتا ہے، حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عباس کیلئے دعا کی کہ اے اللہ انہیں دین کی سمجھ دے اور تفسیر کا علم تھے، بعض علماء نے تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے، قرآن کریم میں تاویل دو معنی میں آئی ہے، ایک معنی جن سے مفہوم کی اصلی حقیقت اور اصلیت کی نشاندہی ہوتی ہے، جیسے قرآن میں ہے (يٰٓاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ ۡ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّيْ حَقًّا) 12۔ یوسف :100) میرے باپ میرے خواب کی یہی تعبیر ہے، اور جگہ ہے آیت (هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِيْلَهٗ ۭ يَوْمَ يَاْتِيْ تَاْوِيْلُهٗ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بالْحَقِّ) 7۔ الاعراف :53) کافروں کے انتظار کی حد حقیقت کے ظاہر ہونے تک ہے اور یہ دن وہ ہوگا جب حقیقت سچائی کی گواہ بن کر نمودار ہوگی، پس ان دونوں جگہ پر تاویل سے مراد حقیقت ہے، اگر اس آیت مبارکہ میں تاویل سے مراد یہی تاویل لی جائے تو الا اللہ پر وقف ضروری ہے اس لئے کہ تمام کاموں کی حقیقت اور اصلیت بجز ذات پاک کے اور کوئی نہیں جانتا تو راسخون فی العلم مبتدا ہوگا اور یقولون امنابہ خبر ہوگی اور یہ جملہ بالکل الگ ہوگا اور تاویل کے دوسرے معنی تفسیر اور بیان اور ہے اور ایک شئی کی تعبیر دوسری شے ہے، جیسے قرآن میں ہے آیت (نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِهٖ) 12۔ یوسف :36) ہمیں اس کی تاویل بتاؤ یعنی تفسیر اور بیان، اگر آیت مذکورہ میں تاویل سے یہ مراد لی جائے تو فی العلم پر وقف کرنا چاہئے، اس لئے کہ پختہ علم والے علماء جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کیونکہ خطاب انہی سے ہے، گو حقائق کا علم انہیں بھی نہیں، تو اس بنا پر امنا بہ حال ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بغیر معطوف علیہ کے معطوف ہو، جیسے اور جگہ ہے آیت (لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ) 59۔ الحشر :8) سے (يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ) 59۔ الحشر :10) تک دوسری جگہ ہے آیت (وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا) 89۔ الفجر :22) یعنی وجاء الملائکۃ صفوفا صفوفا اور ان کی طرف سے یہ خبر کہ ہم اس پر ایمان لائے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ متشابہ پر ایمان لائے، پھر اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب یعنی محکم اور متشابہ حق اور سچ ہے اور یعنی ہر ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اور گواہی دیتا ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس میں کوئی اختلاف اور تضاد نہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا) 4۔ النسآء :82) یعنی کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے، اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف ہوتا، اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ اسے صرف عقلمند ہی سمجھتے ہیں جو اس پر غور و تدبر کریں، جو صحیح سالم عقل والے ہوں جن کے دماغ درست ہوں، حضور ﷺ سے سوال ہوتا ہے کہ پختہ علم والے کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس کی قسم سچی ہو، جس کی زبان راست گو ہو، جس کا دل سلامت ہو، جس کا پیٹ حرام سے بچا ہو اور جس کی شرم گاہ زناکاری سے محفوظ ہو، وہ مضبوط علم والے ہیں (ابن ابی حاتم) اور حدیث میں ہے کہ آپ نے چند لوگوں کو دیکھا کہ وہ قرآن شریف کے بارے میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا سنو تم سے پہلے لوگ بھی اسی میں ہلاک ہوئے کہ انہوں نے کتاب اللہ کی آیتوں کو ایک دوسرے کیخلاف بتا کر اختلاف کیا حالانکہ کتاب اللہ کی ہر آیت ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے، تم ان میں اختلاف پیدا کرکے ایک کو دوسری کے متضاد نہ کہو، جو جانو وہی کہو اور جو نہیں جانو اسے جاننے والوں کو سونپ دو (مسند احمد) اور حدیث میں ہے کہ قرآن سات حرفوں پر اترا، قرآن میں جھگڑنا کفر ہے، قرآن میں اختلاف اور تضاد پیدا کرنا کفر ہے، جو جانو اس پر عمل کرو، جو نہ جانو اسے جاننے والے کی طرف سونپو جل جلالہ (ایویعلی) راسخ فی العلم کون ؟نافع بن یزید کہتے ہیں راسخ فی العلم وہ لوگ ہیں جو متواضح ہوں جو عاجزی کرنے والے ہوں، رب کی رضا کے طالب ہوں، اپنے سے بڑوں سے مرعوب نہ ہوں، اپنے سے چھوٹے کو حقیر سمجھنے والے نہ ہوں۔ پھر فرمایا کہ یہ سب دعا کرتے ہیں کہ ہمارے دلوں کو ہدایت پر جمانے کے بعد انہیں ان لوگوں کے دلوں کی طرح نہ کر جو متشابہ کے پیچھے پڑ کر برباد ہوجاتے ہیں بلکہ ہمیں اپنی صراط مستقیم پر قائم رکھ اور اپنے مضبوط دین پر دائم رکھ، ہم پر اپنی رحمت نازل فرما، ہمارے دلوں کو قرار دے، ہم سے گندگی کو دور کر، ہمارے ایمان و یقین کو بڑھا تو بہت بڑا دینے والا ہے، رسول اللہ ﷺ دعا مانگا کرتے تھے حدیث (یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک) اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر جما ہوا رکھ، پھر یہ دعا ربنا لاتزغ پڑھتے اور حدیث میں ہے کہ آپ بکثرت یہ دعا پڑھتے تھے حدیث (اللھم مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک حضرت اسماء نے ایک دن پوچھا کیا دل الٹ پلٹ ہوجاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہر انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے، اگر چاہے قائم رکھے اگر چاہے پھیر دے، ہماری دعا ہے ہمارا رب دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمتیں عنایت فرمائے، وہ بہت زیادہ دینے والا ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ میں نے کہا یارسول اللہ ﷺ مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیے کہ میں اپنے لئے مانگا کروں، آپ نے فرمایا یہ دعا مانگ (حدیث اللھم رب محمد النبی اغفرلی ذنبی و اذھب غیظ قلبی و اجرنی من مضلات الفتن) اے اللہ اے محمد نبی ﷺ کے رب میرے گناہ معاف فرما، میرے دل کا غصہ اور رنج اور سختی دور کر اور مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے بچا لے، حضرت عائشہ صدیقہ نے بھی آپ کی دعا یا مقلب القلوب سن کر حضرت اسماء کی طرح میں نے بھی یہی سوال کیا اور آپ نے وہی جواب دیا اور پھر قرآن کی یہ دعا سنائی، یہ حدیث غریب ہے لیکن قرآنی آیت کی تلاوت کے بغیر یہی بخاری مسلم میں بھی مروی ہے، اور نسائی میں ہے کہ حضور ﷺ جب رات کو جاگتے تو یہ دعا پڑھتے (حدیث لا الہ الا انت سبحانک استغفرک لذنبی واسئلک رحمۃ اللھم زدنی علما ولا تزغ بعد اذ ھدیتنی وھب لی من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب) اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں، اللہ میرے علم میں زیادتی فرما اور میرے دل کو تو نے ہدایت دے دی ہے اسے گمراہ نہ کرنا اور مجھے اپنے پاس کی رحمت بخش تو بہت زیادہ دینے والا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے مغرب کی نماز پڑھائی، پہلی دو رکعتوں میں الحمدشریف کے بعد مفصل کی چھوٹی سی دو سورتیں پڑھیں اور تیسری رکعت میں سورة الحمد شریف کے بعد یہی آیت پڑھی۔ ابو عبد اللہ صبالجی فرماتے ہیں میں اس وقت ان کے قریب چلا گیا تھا، یہاں تک کہ میرے کپڑے ان کے کپڑوں سے مل گئے تھے اور میں نے خود اپنے کان سے ابوبکر صدیق کو یہ پڑھتے ہوئے سنا (عبدالرزاق) حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جب تک یہ حدیث نہیں سنی تھی آپ اس رکعت میں قل ھو اللہ پڑھا کرتے تھے لیکن یہ حدیث سننے کے بعد امیرالمومنین نے بھی اسی کو پڑھنا شروع کیا اور کبھی ترک نہیں کیا۔ پھر فرمایا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اے اللہ تو قیامت کے دن اپنی تمام مخلوق کو جمع کرنے والا ہے اور ان میں فیصلے اور حکم کرنے والا ہے، ان کے اختلافات کو سمیٹنے والا ہے اور ہر ایک کو بھلے برے عمل کا بدلہ دینے والا ہے اس دن کے آنے میں اور تیرے وعدوں کے سچے ہونے میں کوئی شک نہیں۔

اردو ترجمہ

وہ اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ: "پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے رستہ پر لگا چکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana la tuzigh quloobana baAAda ith hadaytana wahab lana min ladunka rahmatan innaka anta alwahhabu

اردو ترجمہ

پروردگار! تو یقیناً سب لوگوں کو ایک روز جمع کرنے والا ہے، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں تو ہرگز اپنے وعدے سے ٹلنے والا نہیں ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana innaka jamiAAu alnnasi liyawmin la rayba feehi inna Allaha la yukhlifu almeeAAada
50