سورہ فاطر (35): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Faatir کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ فاطر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ فاطر کے بارے میں معلومات

Surah Faatir
سُورَةُ فَاطِرٍ
صفحہ 434 (آیات 1 سے 3 تک)

سورہ فاطر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ فاطر کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کر نے والا ہے، (ایسے فرشتے) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو ہیں وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alhamdu lillahi fatiri alssamawati waalardi jaAAili almalaikati rusulan olee ajnihatin mathna wathulatha warubaAAa yazeedu fee alkhalqi ma yashao inna Allaha AAala kulli shayin qadeerun

درس نمبر 199 تشریح آیات

1 ۔۔۔ تا۔۔ 3

الحمدللہ فاطر السمٰوٰت ۔۔۔۔۔۔۔۔ کل شیء قدیر (1) “۔ سورة کا آغاز حمد باری سے ہو رہا ہے ۔ اس پوری سورة کا مضمون یہ ہے کہ انسانی دل کو اللہ کی طرف متوجہ کیا جائے ۔ اللہ کی نعمتوں کو دیکھا جائے ، اللہ کی رحمتوں کا شعور زندہ کیا جائے اور انسان کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ اپنی مخلوقات میں اللہ نے کیا کیا عجائبات پیدا لیے ہیں ۔ انسانی احساس کو ان عجائنات کے شعور سے بھر دیا جائے اور نتیجہ انسان اللہ کی حمد وثنا میں رطب اللسان ہو۔

سب حمد اللہ کے لیے ہے ۔

الحمدللہ (35: 1) ” سب تعریف اللہ کے لیے ہے “۔ اور اس کے بعد اللہ کی وہ صفت بیان ہورہی ہے جو خلق اور ایجاد پر دلالت کرتی ہے ۔

فاطرالسموت والارض (35: 1) ” جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے “۔ وہ ان عظیم اور ہولناک مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے جنہیں ہم اپنے اوپر نیچے دیکھ رہے ہیں ۔ جہاں بھی ہم ہوں اور ان میں سے نہایت ہی چھوٹے اجسام اور ہم سے قریب ترین اجسام کے بارے میں ہم کچھ معلومات رکھتے ہیں ۔ ان تمام اجسام کو ایک ہی قانون قدرت کنٹرول کرتا ہے ، نہایت ہی تناسب اور توافق کے ساتھ ۔ یہ سب چیزیں چلتی ہیں اور ان کا تصور بھی ہم اپنے ذہن پر بہت بڑا بوجھ ڈال کر ، کرسکتے ہیں۔ یہ تمام اجسام اپنی عظمت اور خوفناکی کے ساتھ ساتھ ایک ایسے دقیق اور پیچیدہ تناسب کے ساتھ اپنے مدارات میں ایک ہی رخ پر چلتے ہیں کہ اگر اس تناسب میں بالفعل ایک معمولی فرق آجائے تو یہ تمام عظیم اجسام ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراکر پاش پاش ہوجائیں اور قیامت برپا ہوجائے اور سب کے سب روٹی کے گالوں کی طرح بکھر جائیں ۔

قرآن کریم اسی عظیم تخلیق سماوات کی طرف باربار اشارہ کرتا ہے اور ہم اس پر سے یو نہی گزر جاتے ہیں ، بغیر اس کے کہ ہم اس کے سامنے رک کر قدرت تامل اور تدبر کریں ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ یہ کہ ہمارا احساس جمود اختیار کر گیا ہے ۔ ہماری عقل وخرد کے تار زنگ آلود ہوگئے ہیں اور ان پر قرآن کو یم کے منصراب کی اس قدر سخت ضربات بھی کارگر نہیں ہیں اور ان ضربات کے باوجود ان سے کوئی نغمہ نہیں نکلتا۔ وہ سرودجو کبھی اللہ کے لیے جڑے ہوئے دلوں سے نکلتا تھا ، جو اللہ کو یاد کرتے تھے اور اللہ کی قدرت کی ان نشانیوں کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ ہے اور یہ بڑی وجہ ہے کہ اس عظیم کائنات کو ہم دیکھتے دیکھتے اس کے اس قدر عادی بن گئے ہیں کہ اس کے عجائبات ہمیں عجائبات ہی نہیں لگتے ۔ ان کو بےمثال حسن ہمیں متاثر ہی نہیں کرتا اور ان کی نہایت ہی پیچیدہ ٹیکنا لوجی ہمیں ششدر نہیں کرتی ۔ اگر ہم ان پر ایسی نظر ڈالیں جس طرح کوئی انہیں پہلی مرتبہ دیکھتا ہے اور بہت ہی حیران ہوجاتا ہے ۔

یاد رہے کہ کھلے دل ، اللہ کے ساتھ جڑے ہوئے دل کے لیے آسمان میں ، ستاروں کے مواقع دمدار ات پر غور اور تد بر کرنے کے لیے ، ان کے حجم اور عظمت کو دیکھنے کے لیے ، اور ان کے ماحول کے مطالعے کے لیے ، بعض کا دوسرے کے ساتھ تعلق اور کشش کے معلوم کرنے کے لیے ۔ اور ہر ایک کے حجم ، ہر ایک کی حرکت اور ہر ایک کی حالات معلوم کرنے کے لیے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں ہے ، جو دل اللہ سے جڑا ہوا ہو ، اس کے لیے کسی بڑے اور گہرے علم کی ضرورت نہیں ہے ۔ معمولی توجہ سے اس کائنات کے حسن و جمال کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ یہ مناظر ایک خدا سیدہ شخص کے دماغ کے تاروں کے اندر نغمہ پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ رات کے وقت ذراصاف ستھری فضا اور صاف موسم میں ان گنت تاروں ہی کو چمکتا ہوا دیکھ لیجئے ! تاریک رات ہو اور موسم صاف ہو اور ہر ستارہ زمین پر ضوپاشی کررہاہو۔ پھر صبح کے وقت ذراسپیدۂ صبح کی نموداری اور سورج کے طلوع ہونے کے منظر کو دیکھئے ۔ اسی طرح پہاڑوں کی اوٹ میں ذدبنے والے سورج اور سرخ شفق ہی کو دیکھئے ۔ پھر اس چھوٹی سی زمین اور اس کے مختلف مواقع اور مناظر کو دیکھئے ۔ ان مناظر کو کوئی سیاح ختم نہیں کرسکتا اور نہ ان کی سیر سے سیر ہوسکتا ہے ۔ بلکہ میں کہوں گا کہ صرف ایک پھول ہی کو دیکھئے ۔ اس کا رنگ اور اس کی پتیاں اور اس کی تشکیل اور رنگوں کی تنظیم سبحان اللہ احسن الخالقین ۔

قرآن کریم ان امور کی طرف جابجا اشارات کرتا ہے ۔ بڑے بڑے مناظر کی طرف بھی اور چھوٹے چھوٹے پیش پا افتادہ مناظر کی طرف بھی ۔ اگر کوئی زندہ دل ان میں سے ایک کی طرف بھی اشارہ کر دے تو زندہ دبیدار مغز انسان کی ہدایت کے لیے صرف ایک ہی چیز یا ایک ہی پھول کا مطالعہ کا فی ہے اور کسی ایک چیز کے اندر موجود عجائبات پر بھی انسان اللہ کی حمد وثنا کا حق ادا نہیں کرسکتا ۔

الحمداللہ ۔۔۔۔ وربع (35: 1) ” تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کرنے والا ہے ، جن کے دودو ، تین تین ، اور چارچار بازو ہیں “۔ اس سورة میں موضوع سخن رسولوں ، وحی الٰہی اور نزول وحی ہے ، فرشتوں کا اس کے اندر بہت اہم کردار ہے کیونکہ یہ فرشتے ہی آسمانوں سے وحی لے کر مختار رسولوں کے پاس آیا کرتے ہیں اور یہ پیظام رسانی جو اللہ سے رسولسوں کے پاس آتی ہے ، نہایت ہی اہم اور نہایت ہی بھاری کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کائنات کی عظیم تخلیقات کے بعد فرشتوں کی تخلیق کا خصوصی ذکر ہوا کیونکہ یہ فرشتے ہی زمین اور آسمان کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہیں۔ وہی رابطہ ہوتے ہیں خالق سماوات وارض اور اللہ کے مختار بندوں یعنی رسولوں کے درمیان اور یہ پیغام رسانی اور ذریعہ ربط اس کائنات کا اہم کام فریضہ رسالت کے بارے میں ہوتا ہے۔

قرآن کریم میں آغاز سے یہاں تک فرشتوں کا ذکر ہوتا رہا ہے لیکن فرشتوں کی شکل و صورت کے بارے میں پہلی مرتبہ بتایا گیا ہے ۔ اس سے قبل فرشتوں کی طبیعت اور ان کے فریضہ منصبی کی بات ہوتی رہی ہے مثلاً

ومن عندہ لا ۔۔۔۔۔ لا یفترون (انبیاء : 19- 20) ” اور جو اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں۔ نہ ملول ہوتے ہیں۔ شب و روز تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ دم نہیں لیتے “۔ دوسری جگہ ہے۔

ان الذین عند ۔۔۔۔۔ ولہ یسجدون (7: 206) ” جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے۔ اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں “۔ (7: 206) یہاں ایک نیہ بات یہ کہی گئی ہے کہ ان کی تخلیقی صورت کیا ہے کہ ” جن کے دو دو ، تین تین اور چار چار بازو ہیں “۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے ، نہ اس کا ہم کوئی تصور کرسکتے ہیں کہ ان کے بازو اور پر کیسے ہیں۔ ہمیں بس چاہئے اور ہم یہی کرسکتے ہیں کہ بس اجمالاً ایمان لائیں کہ ان کے پر ایسے ہوں گے۔ اس بارے میں کوئی متعین تصور ہم نہیں کرسکتے کیونکہ ہم جو اندازہ بھی کریں گے اس میں غلطی ہوگی جبکہ ان کی شکل کے بارے میں تفصیلات ہمیں احادیث صحیحہ سے بھی نہیں ملتیں۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ ان کی ایک اور صفت آئی ہے اور وہ یہ ہے۔

علیھا ملئکۃ ۔۔۔۔ ما یومرون (66: 6) ” جن پر نہایت تندخو اور سخت گیر فرشتے ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں “۔ اس میں بھی فرشتوں کی شکل کو متعین نہیں کیا گیا۔ احادیث میں جو کچھ آتا ہے وہ یہ ہی ہے کہ رسول اللہ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دو مرتبہ اپنی اصل شکل میں دیکھا۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ اس کے چھو سو پر تھے اس سے بھی ان کی شکل وہیبت کا تعین نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ معاملہ بھی علوم غیبیہ میں سے ایک ہے۔

ان کے دو دو یا تین تین یا چار چار پر ہیں اور انسانوں نے صرف پرندوں کے پر دیکھے ہیں۔ اس لیے اللہ فرماتے ہیں۔

یزید فی الخلق ما یشآء (35: 1) ” وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے ، اضافہ کرتا ہے “۔ یوں اللہ کی مشیت بےقید ہے اور وہ خود اپنی بنائی ہوئی اشکال کا پابند نہیں ہے۔ اس کی مخلوقات میں ہم دیکھتے ہیں کہ لاتعداد شکلیں ہیں اور لاتعداد شکلیں ایسی ہیں جو ابھی تک ہمارے علم ہی سے باہر ہیں۔

ان اللہ علی کل شئ قدیر (35: 1) ” اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ یہ تبصرہ نہایت وسیع ہے اور زیادہ جامع ہے “۔ لہٰذا کسی صورت کے تعین کی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی تمام شکلیں اللہ کی قدرت کے دائرے کے اندر آتی ہیں۔ ہر قدم کا تغیر و تبدل اللہ کی قدرت کے تحت ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں وہ زبردست اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma yaftahi Allahu lilnnasi min rahmatin fala mumsika laha wama yumsik fala mursila lahu min baAAdihi wahuwa alAAazeezu alhakeemu

ما یفتح اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ وھو العزیز الحکیم (2) ” “۔

اس سورة کی اس دوسری آیت میں اللہ کی قدرتوں کا ایک رنگ دکھایا گیا ہے جبکہ پہلی آیت میں اللہ کی قدرت کا ذکر تھا۔ جب یہ رنگ کسی انسان کے تصور اور عمل میں بیٹھ جاتا ہے تو اس کے تصورات ، اس کا شعور ، اس کا رخ ، اس کے حسن و قبح کے پیمانے بھی اس رنگ میں رنگے جاتے ہیں اور اسکی پوری زندگی اس رنگ میں رنگی جاتی ہے۔

یوں کہ یہ رنگ انسان کو اس کائنات کی پوری قوتوں سے کاٹ کر اللہ کی قوت سے جوڑ دیتا ہے۔ اسے زمین و آسمان کی تمام مشکوک رحمتوں سے مایوس کردیتا ہے۔ صرف اللہ کی رحمت سے جو ڑتا ہے اور اس کے امیدوار بنا دیتا ہے۔ زمین و آسمان کے تمام دروازے بند کرکے صرف اللہ کا دروازہ کھلا چھوڑتا ہے اور اس کے سامنے زمین و آسمان کے تمام راستے بند کرکے صرف اللہ کا دروازہ کھلا چھوڑتا ہے۔ اس کے سامنے زمین و آسمانوں کے تمام راستے بند کرکے صرف اللہ کا راستہ کھلا چھوڑتا ہے۔

اللہ کی رحمت کے مظاہر متعدد ہوتے ہیں ، لا تعداد ہوتے ہیں۔ اللہ نے انسانوں کی جس انداز سے تخلیق کی ، اس کی نفس

کے اندر جو ممتاز قوتیں ودیعت کیں اور اپنی مخلوق میں سے جس طرح اسے مکرم بنایا صرف ان رحمتوں کو اگر انسان قلم بند کرنا چاہئے تو وہ انتہاؤں تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس طرح اللہ نے انسان کے لیے اس کے ماحول کو سازگار بنایا ہے۔ اس کے اردگرد ، اس کے اوپر نیچے ہر چیز کو اس کے لیے مسخر کیا ہے اور اس کے اوپر جو انعامات کیے ہیں جنہیں وہ جانتا ہے اور وہ انعامات جنہیں وہ نہیں چاہتا ، یہ انعامات بیشمار ہیں ، ان گنت ہیں۔

اللہ کی رحمت ان چیزوں میں بھی موجود ہے جو ممنوع ہیں۔ ان میں بھی موجود ہے ، جن کی اجازت ہے اور جس شخص پر اللہ کی رحمتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے ، اسے یہ رحمت ہر چیز میں نظر آتی ہے۔ ہر حال ، ہر ماحول ، اور ہر جگہ نظر آتی ہے۔ اس کے شعور میں ، اس کے ماحول میں جہاں بھی وہ ہو ، جیسا بھی ہو ، اگرچہ انسان ان تمام نعمتوں سے محروم ہوجائے جنہیں لوگ محرومیت سمجھتے ہیں۔ اس رحمت سے اپنی آپ کو وہ ہر شخص محروم پاتا ہے جس پر اللہ اس کا دروازہ ہر چیز میں بند کردیتا ہے۔ ایسا شخص پھر ہر حال میں ، ہر صورت میں اور ہر جگہ محروم ہی ہوتا ہے اگرچہ اس کے پاس بظاہر وہ سازوسامان موجود ہوں جس کو لوگ خوشحالی تصور کرتے ہیں۔ دنیا کے بیشمار سازوسامان ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ اللہ کی رحمت شامل نہیں ہوتی ، وہ عذاب الٰہی بن جاتے ہیں اور کئی ایسی مشکلات ہوتی ہیں جن کے ساتھ اللہ کی رحمت شامل ہوتی ہے۔ یہ مشکلات بذات خود رحمت بن جاتی ہیں۔ بعض اوقات انسان کانٹوں پر سوتا ہے مگر اس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ یہ کانٹے اس کے لیے نرم بچھونا ہوجاتے ہیں ۔ بعض اوقات نرم و نازک بستر انسان کے لیے کانٹے بن جاتے ہیں اور بہت ہی اذیت کا باعث ہوتے ہیں۔ انسان مشکل ترین کام کر رہا ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے اللہ کی رحمت ہوتے ہی پر تعیش زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ اس کے لیے مصیبت ہوتی ہے۔ بعض اوقات وہ ایک خوفناک صورت حالات میں گھس جاتا ہے اور وہ اس کے لیے امن ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ مشکلات کے بغیر مراحل عبور کرلیتا ہے اور وہ اس کے لیے ہلاکت کا باعث بن جاتے ہیں۔

اللہ کی رحمت کے ساتھ کوئی تنگی ، تنگی نہیں رہتی۔ اگرچہ کوئی جیل کی تاریکیوں میں ہو ، یا ہلاکت کی دیواروں میں یا سخت مصائب میں ہو ، بلکہ اللہ کی رحمت کے سوا تمام کشادگیاں تنگی ہوتی ہیں۔ اگرچہ کوئی نعمتوں اور سہولتوں میں زندگی بسر کر رہا ہو۔ خوشحال ہو ، اسے زندگی کی تمام سہولیات حاصل ہوں۔ جب انسان اللہ کی رحمت کی وجہ سے قلبی طمانیت کا مقام حاصل کرلیتا ہے تو اس کے اندر سے نیک بختی ، رضا مندی اور اطمینان کے سرچشمے پھوٹنے لگتے ہیں اور یوں نفس کے اندر قلق ، تھکاوٹ ، واماندگی اور محنت و مشقت کی تکلیف وہ نیش زیناں ختم ہونا شروع ہوجاتی ہیں اگرچہ وہ نفس کے اندر جمی ہوئی ہوں۔

اللہ کی رحمت کی کنجی تمام دروازوں کے لیے ماسٹر چابی ہے۔ اس سے تمام دروازے کھل جاتے ہیں ، اس سے تمام چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں بند ہوجاتی ہیں اور تمام غلط راہیں مسدود ہوجاتی ہیں ، انسان بےفکر ہوجاتا ہے ، اللہ کی رحمت کا دروازہ کھل جانے سے پھر وسعتیں ، کشادگیاں اور آرام و سکون حاصل ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک ایسا دروازہ ہے کہ اس کے کھل جانے سے تمام نفع بخش دروازے اور راستے کھل جاتے ہیں اور تمام غیر نفع بخش دروازے بند ہوجاتے ہیں اور جب یہ دروازہ بند ہوجائے تو تمام ایسے دروازے ، کھڑکیاں اور راستے کھل جاتے ہیں جو نفع بخش نہیں ہوتے اور انسان تنگی ، کرب ، سختی ، بےچینی اور داماندگی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

بعض اوقات اللہ کا یہ فیض انسان کو ڈھانپ لیتا ہے ، پھر اگر زندگی تنگ ہو یا مالی حالت اچھی نہ ہو ، رہنے اور سہنے کے حالات خراب ہوں تو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ یہ فیض رحمت ہی دوام ، راحت ، سعادت ہے۔ اور جب اس رحمت کا دروازہ بند ہوتا ہے اور دوسری جانب سے رزق کشادہ ہوتا ہے اور ہر سامان کی آمد آمد ہوتی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اسے سے تنگی ، حرج اور شقاوت و بدبختی حاصل ہوتی ہے۔ مال و دولت ، صحت و قوت ، شان و شوکت بھی بسا اوقات رنج الم اور تھکاوٹ اور مشقت کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر دست قدرت اپنا فضل و رحمت کھینچ لے۔

بعض اوقات اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور متاع حسن اور دنیا کے سازو سامان کو جمع کردیا ۔ پھر کیا ہوتا ہے ہر طرف آرام اور سکون ہوتا ہے۔ دنیا میں عیش و عشرت اور آخرت کے لیے پوری تیاری ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف پھر دنیا پرستوں کے دل میں حسد اور کینہ برپا ہوتا ہے لیکن مال و دولت کے ساتھ ایک شخص کو اگر بخل دے دیا جائے تو وہ محروم ہوجاتا ہے یا مال و دولت کے ساتھ بیماری بھی دے دی جائے تو بھی وہ دنیا کے انعامات سے محروم ہوجاتا ہے اور بعح اوقات مالدار سرکش ہوجاتا ہے اور اس کا مال تلف بھی ہوجاتا ہے۔

بعض اوقات اللہ کسی بو اولاد دیتا ہے اور اس اولاد کے ساتھ رحمت خداوندی بھی شامل ہوتی ہے ۔ پھر یہ اولاد زینت حیات بن جاتی ہے۔ خوشی اوسعادت کا باعث بن جاتی ہے اور آخرت میں ، مزید اجر کا باعث بنتی ہے۔ وہ اس شخص کے لیے نیک اور اچھے جانشین بن جاتے ہیں اور اسی اولاد کے ساتھ اگر رحمت خداوندی نہ ہو تو یہی میٹھی اولاد زحمت بن جاتی ہے ، بلائے جان ہوتی ہے ، باعث بدبختی اور پریشانی ہوتی ہے۔ راتوں کی نیند حرام کردیتی ہے اور دن کا آرام غارت کردیتی ہے۔ اللہ انسان کو صحت اور قوت دیتا ہے۔ اب اگر اس صحت اور قوت کے ساتھ رحمت خداوندی بھی ہو تو یہ نعمت ہوتی ہے۔ زندگی اچھی طرح بسر ہوتی ہے۔ زندگی کی لذتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر اس صحت و قوت کے ساتھ رحمت خداوندی شامل نہ ہو تو یہ صحت اور یہ قوت بلائے جان بن جاتی ہے۔ اور ایک صحیح اور قوی شخص مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی صحت اور اپنی قوت کو ان کاموں میں کھپا دیتا ہے جو خود اس کی صحت اور قوت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی روح اور اس کے اخلاق کی تباہی کے ساتھ ساتھ اس کی آخرت بھی تباہ ہوجاتی ہے۔

بعض لوگوں کو اللہ مرتبہ اور مقام دیتا ہے اور اس کی رحمت ایسے لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے ۔ یہ مرتبہ و مقام اصلاح کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ ملک میں امن قائم ہوجاتا ہے اور یہ مرتبہ و جاہ اس بات کا ذریعہ بن جاتے ہیں کہ انسان اپنے پیچھے اچھے اعمال اور اچھے آثار چھوڑے جو آخرت کا بہترین ذخیرہ ہوں ۔ اگر اللہ کی رحمت اقتدار اور جاہ کے ساتھ شامل نہ ہو تو وہ شخص بےچین رہتا ہے۔ لوگوں پر ظلم کرتا ہے ۔ حد دے تجاوز کرتا اور سرکشی اختیار کرتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ نہایت بغض اور کینہ رکھتا ہے۔ یہ جاہ و اقتدار ہی ایسے لوگوں کے لیے عداوت کا ذریعہ بن جاتا ہے اور ایسا شخص پھر ایسے کام کرتا ہے کہ اپنے لیے آخرت میں آگ کا ایک بہت بڑا سرمایہ جمع کرلیتا ہے۔

گہرا علم اور طویل عمر اور جاہ و مرتبہ بدلتے رہتے ہیں۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ علم و معرفت کسی کے لیے مفید ہوتے ہیں اور کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ طویل عمر باعث برکت ہو۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ قلیل عمر ہی برکت کا باعث ہوتی ہے اور نہایت ہی قلیل مال و دولت بڑی سعادت مندی کا ذریعہ ہوجاتا ہے۔

جماعت بھی ایک فرد کی طرح ہوتی ہے اور ملت بھی ایک فرد ہے۔ ہر حال اور ہر صورت میں اور مثالوں پر غور کرنے سے کوئی نتیجہ نکالنا مشکل کام نہیں ہے۔ اللہ کی رحمت کی علامت یہ ہے کہ انسان اللہ کی رحمت کو محسوس کرے۔ اس طرح اللہ کی رحمت پھر انسان کو سینے سے لگا لیتی ہے اور رحمر الٰہی کی بارش ہوجاتی ہے۔ فیوض و برکات نازل ہوتے ہیں۔ لیکن کسی کا یہ شعور کہ اس پر اللہ کی رحمت ہے ، سب سے بڑی رحمت یہی ہے ۔ کسی انسان کا صرف اللہ سے امیدوار ہونا ، اسی پر بھروسہ کرنا رحمت ہے۔ ہر معاملے میں اللہ سے امیدیں وابستہ کرنا اور اللہ پر اعتماد کرنا ہی رحمت ہے۔ اور حقیقی عذاب یہ ہے کہ انسان اس سے چھپ جائے۔ اس سے مایوس ہوجائے اور اس میں شک کرے۔ یہ ایک ایسا عذاب ہے جو کسی مومن کے کبھی قریب ہی نہیں جاتا۔

انہ لا بیئس ۔۔۔۔۔ الکفرون ” اس میں شک نہیں ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس صرف کافر ہوا کرتے ہیں “۔

اللہ کی رحمت کا اگر کوئی طالب ہو تو وہ ہر کسی کو ہر جگہ مل جاتی ہے۔ کسی کے لیے ناپید نہیں ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے آگ میں پایا۔ یونس (علیہ السلام) نے اسے مچھلی کے پیٹ کے اندھیروں میں پایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے سمندر کی لہروں میں پایا جبکہ وہ طفل ناتواں تھے۔ پھر انہوں نے اسے فرعون کے محل میں پایا جبکہ وہ ان کا دشمن ہوگیا اور اس کی تلاش میں نکل گیا۔ اصحاب کہف نے اسے غار میں پایا جبکہ محلات اور شہروں میں وہ اس سے محروم رہے جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔

فاوا الی الکھف ینشرلکم ربکم من رحمتہ (18: 16) ” غار میں پناہ لے لو ، تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت کی چادر بچھا دے گا “۔ رسول اللہ ﷺ اور ان کے رفیق نے اسے غار میں پایا جبکہ کفار ان لوگوں کا تعاقب کر رہے تھے۔ اور ان کے قدموں کے نشانات کو تلاش کرکے غار کے دھانے تک پہنچ گئے تھے۔ یہ رحمت ہر اس شخص کو ملتی ہے جو تمام دوسرے ذرائع سے مایوس ہوجائے اور اسے بالکل یہ امید نہ رہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور قوت بھی بچانے والی ہے اور وہ پوری طرح یقین کرتا ہے کہ اب اللہ کی رحمت ہی بچانے والی ہے اور تمام دروازوں کو چھوڑ کر وہ اللہ کے در پر سوالی ہوگیا ہو۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر اللہ اپنی رحمت کا دروازہ کسی پر کھول دے تو اس کا بند کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور جب اللہ اپنی رحمت کے دروازے کسی پر بند کر دے تو کوئی کھولنے والا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایک سچے مومن کے دل میں کسی کا ڈر نہیں ہوتا۔ کسی سے کچھ امید نہیں رہتی۔ کسی چیز کے چلے جانے کا خوف نہیں رہتا اور کسی چیز کی امید نہیں رہتی کسی ذریعے کے فوت ہونے کا ڈر نہیں ہوتا اور کسی وسیلے کی موجودگی کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اللہ کی مطلق مشیت ہی اصل فیکٹر ہے۔ لہٰذا اللہ اپنی رحمت کے دروازے کھول دے تو کوئی بند کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ بند کر دے تو کوئی کھولنے والا نہیں ہے۔ معاملہ براہ راست اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ عزیز و حکیم ہے۔ وہ ایسے اندازے اور تقدیر مقرر کرتا ہے کہ کسی کو روکنے یا عطا کرنے کا کوئی اختیار ہی نہیں رہتا۔ اللہ کی عطا اور اللہ کا روک لینا اس کی اپنی رحمت کے مطابق ہوتا ہے۔ بلکہ اس کی اپنی حکمتوں کے مطابق ہوتا ہے اور اللہ کے ہر کام کے پیچھے ایک حکمت کام کر رہی ہوتی ہے۔

ما یفتح اللہ ۔۔۔۔۔ ممسک لھا ” اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا ہی نہیں ہے “۔ اللہ کی رحمت اور لوگوں کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں۔ لوگ براہ راست اللہ سے براہ راست طلب کرسکتے ہیں۔ وہ بلا وسیلہ طلب کرسکتے ہیں۔ صرف بندے کی طرف سے توجہ ، اطاعت ، امید ، بھروسے اور سر اطاعت ختم کردینے کی ضرورت ہے

وما یمسک فلا مرسل لہ من بعدہ ” اور جسے وہ بند کر دے اسے پھر اللہ کے سوا کوئی کھولنے والا نہیں ہے “۔ یہ آیت انسانی ضمیر کو انتہائی قرار و سکون اور انسانی شعور اور تصور کو نہایت ہی نمایاں کرتی اور انسانی اقدار اور پیمانوں کو اونچا معیار عطا کرتی ہے۔ انسانی شخصیت کو وقار اور اطمینان ملتا ہے۔ یہ ایک مختصر آیت ہے لیکن زندگی کے لیے بالکل ایک نیا نقشہ تیار کرتی ہے۔ انسانی تصور اور شعور کو نہایت مستحکم قدریں عطا کرتی ہیں۔ ایسی قدریں جن میں نہ تزلزل ہے ، نہ جھکاؤ اور نہ وہ وقتی باتوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ یہ اثرانداز ہونے والے فیکٹر آئیں یا جائیں ، بڑے ہوں یا چھوٹے ہوں ، عظیم ہوں یا چھوٹے ہوں ، ان کا مبدا لوگ ہوں یا واقعات ہوں ، یا اشیاء ہوں۔ ان سے یہ قدریں متاثر نہیں ہوتیں۔

یہ زندگی کی ایک صورت ہے اگر یہ عقیدہ انسانی زندگی میں بیٹھ جائے تو وہ واقعات ، اشیاء ، افراد ، بڑی بڑی قوتوں ، اقدار اور حالات کے سامنے پہاڑ کی طرح سینہ سپر ہو کر کھڑا ہوجائے۔ اگرچہ اس پر جن و انس باہم مل کر ، سب کے سب ٹوٹ پڑیں۔ یہ تمام جن و انس نہ اللہ کی رحمت کے دروازے کو بند کرسکتے اور نہ اگر بند ہوں تو کھول سکتے ہیں۔ صرف اللہ ہی العزیز اور الحکیم ہے۔

اسلام کے آغاز میں اسلام اور قرآن نے انسانوں کا ایک ایسا ہی گروہ پیدا کردیا تھا۔ یہ ایسا گروہ تھا کہ اللہ نے خود اپنی نگرانی میں اس قرآن کے ذریعہ پیدا کردیا تھا ، تاکہ یہ گروہ قدرت الہیہ کے لیے دست قدرت ہو۔ یہ گروہ اس زمین کے اندر وہ عقائد و تصورات تخلیق کرے جنہیں اللہ چاہتا تھا۔ وہ قدریں عطا کرے جن کو اللہ کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ وہ حالات اور صورت حالات پیدا کر دے جو اللہ چاہتا تھا اور دنیا کے اندر ایک ایسی زندگی ، عملی زندگی قائم کرکے چلا جائے جس کے بارے میں آج جب ہم پڑھتے ہیں تو وہ ہمیں افسانہ اور قصے نظر آتے ہیں۔ وہ گروہ جو اللہ کی تقدیر تھا ، اسے اللہ جس پر چاہتا تھا ، مسلط کردیتا تھا۔ اس کے ذریعہ اللہ نے کچھ کو اقوام کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور کچھ کو قائم کردیا۔ جنہیں اللہ مٹانا چاہتا تھا یا جنہیں اللہ کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ یہ اس لیے کہ یہ یہ گروہ اس قرآن کے الفاظ ہی کے ساتھ معاملہ نہ کرتا تھا ، نہ خوبصورت نطریات و تصورات ہی سے بحث کرتا تھا بلکہ اس نے قرآن کو اپنی زندگیوں کے اندر عملاً قائم کردیا تھا اور وہ گروہ قرآن کی دنیا میں زندہ رہتا تھا۔

وہی قرآن لوگوں کے پاس موجود ہے۔ یہ قرآن اب بھی ایسے گروہ پیدا کرسکتا ہے جو دنیا سے اقوام کو مٹا دیں اور دوسری

اقوام کو اٹھا دیں۔ لیکن یہ تب ہوگا کہ قرآنی تصورات کسی گروہ کی زندگی میں ٹھوس شکل میں ، عملی شکل میں بیٹھ جائیں ، رائج ہوجائیں اور قرآن کسی گروہ کی زندگی میں چلتا پھرتا نظر آئے ۔ اسے لوگ آنکھوں سے دیکھ سکیں اور ہاتھوں سے چھو سکیں۔

اب میں اس طرح آتا ہوں کہ اس مختصر آیت کے ذریعے میں نے معلوم کرلیا ہے کہ اللہ کی مجھ پر خاص رحمت ہے۔ میں نے جب اس آیت کا سامنا کیا تو میں روحانی لحاظ سے نہایت ہی خشک ، فکری لحاظ سے بہت تنگ ، نفسیاتی لحاظ سے بہت ہی پریشان ، جسمانی اور سازوسامان کے لحاظ سے مشکل حالات میں تھاما۔ ایسے سخت اور شدید حالات میں ، میں نے اس آیت کا مطالعہ کیا۔ اللہ نے مجھے اس آیت کی حقیقت تک پہنچا دیا۔ یہ حقیقت میری روح میں انڈیل دی گئی۔ گویا وہ ایک شراب طہور ہے جو میرے جسم کی رگ رگ میں سرایت کر رہی ہے اور میں اسے محسوس کر رہا ہوں۔ یہ حقیقت ہے جس کا میں ادراک کر رہا ہوں۔ محض تصور نہیں ہے۔ یہ حقیقت بذات خود میرے لیے رحمت ہے اور یہ آیت میرے سامنے خود اپنی تفسیر بیان کر رہی ہے۔ یہ ایک واقعی اور عملی تفسیر تھی۔ جس طرح اس آیت کے اسرار و رموز میرے سامنے کھلے اسی طرح اللہ کی رحمت کے دروازے بھی میرے سامنے کھلے۔ اس سے قبل میں اس آیت کو پڑھتا رہا اور اس آیت کے پاس سے اس سے قبل میں بارہا گزرا ہوں لیکن آج یہ آیت مجھ پر رحمت کا فیضان کر رہی ہے۔ میں اس کے معانی اور مفہومات سے سیراب ہو رہا ہوں۔ میں اس آیت کی حقیقت کو صاف صاف دیکھ رہا ہوں۔ یہ آیت مجھے پکار رہی ہے کہ آئیے میں ادھر ہوں۔ میں اللہ کی رحمت ہوں ، جس کا دروازہ کبھی کبھی کھلتا ہے۔ ذرا دیکھئے اللہ کی رحمت کے کرشمے۔

غور کیجئے میرے ماحول کی کوئی چیز نہیں بدلی لیکن میرے احساس نے اب ہر چیز کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔ یہ ایک نہایت عظیم رحمت ہے جو کسی پر ہوجاتی ہے۔ اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ جس طرح اس آیت کے خزانے مجھ پر کھل گئے۔ یہ ایک نعمت خدواندی ہے اور جب یہ کسی پر آتی ہے تو انسان اسے چکھتا ہے۔ اس کے اندر زندگی بسر کرتا ہے لیکن اس کے لیے اس کا بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح اس احسا کو اور اس ذوق کو قلم بند کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ میں ایک عرصہ رحمت خداوندی کے اس فیضان میں زندہ رہا ہوں ، اسے محسوس کرتا رہا ہوں اور اسے پہچانتا رہا ہوں۔ اپنی زندگی کے مشکل ترین حالات میں مجھ پر یہ کیفیت طاری ہوئی ہے۔ اب میری حالت یہ ہے کہ میں کشادگی ، خوشی ، سیرابی ، آزادی اور بےقیدی محسوس کرتا ہوں۔ ہر چیز سے آزادی ، ہر کرب اور ہر رنج سے آزادی محسوس کرتا ہوں اور میں اسی جگہ ہوں ، جہاں تھا۔ یہ اللہ کی رحمت ہی ہے جس کے دروازے مجھ پر کھل گئے ہیں۔ یہ اللہ کا فیض ہی ہے جس کی مجھ پر اس آیت کے ذریعہ بارش ہو رہی ہے۔ یہ آیت ہے ، قرآن کی بس ایک ہی آیت لیکن اس نے تاریک کوٹھڑی میں روشنی کا ایک طاق کھول دیا ہے۔ اس نے میری سیرابی کے لیے خشک جگہ پر ایک چشمہ آب صافی بہا دیا ہے اور میں اب نہایت ہی کھلی شاہراہ پر رضائے الٰہی کی سمت نہایت ہی اطمینان کے ساتھ بڑھ رہا ہوں۔ اور چشم زون میں۔ اذیت کے بجائے میری زندگی راحت میں بدل گئی ہے۔ الحمدللہ ، حمدا کثیرا ” اے پروردگار ، جس نے اس قرآن کو اللہ کی رحمت بنا کر بھیجا مومنین کے لیے رحمت اور شفاء اور ہدایت “۔

مطالعہ کلام الٰہی کے دوران یہ ایک چمک تھی جسے میں نے قلم بند کردیا۔ اب دوبارہ ہم سورة کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پہلی دو آیات کے اندر جو اشارات تھے وہی تیسری آیت میں بھی ہیں۔ لوگوں پر ان کے حوالے سے اللہ کے انعامات اور رحمتوں کا ذکر ہے۔ اللہ جس کے سوا کوئی الٰہ مالک اور حاکم اور رازق نہیں ہے۔ تعجب انگیز اسلوب سے کہا جاتا ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی یہ لوگ یہ اختیارات اللہ کے سوا کسی اور معبود کو دیتے ہیں۔

اردو ترجمہ

لوگو، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انہیں یاد رکھو کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ کوئی معبود اُس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnasu othkuroo niAAmata Allahi AAalaykum hal min khaliqin ghayru Allahi yarzuqukum mina alssamai waalardi la ilaha illa huwa faanna tufakoona

یایھا الناس ۔۔۔۔۔ فانی تؤفکون (3) اللہ کی نعمتوں کی تو یاد دہانی کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ یہ نعمتیں بہت ہی واضح اور کھلی ہیں ، جو ان کو دیکھتے ہیں ، محسوس کرتے ہیں اور چھوتے ہیں ۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں ۔ ان کو یہ نعمتیں یاد نہیں رہتیں ۔

ذرا اس زمین و آسمان اور انسان کو گھیرے ہوئے اس کائنات پر نگاہ دوڑاۂ ، ہر وقت اللہ کے انعامات انسان پر برسارہی ہے ۔

رزق کے دروازے ان پر کھل گئے ہیں ۔ ہر قدم پر ایک نعمت ہے ۔ ہر خظہ میں ایک نیا فیض ہے ۔ آسمانوں اور زمین سے انسان کے لیے سہولیات چلی آرہی ہیں اور یہ اللہ کی طرف سے آرہی ہیں جو وحدہ خالق و رازق ہے ۔ اللہ کا فیض عام ہے اور یہ کس کی طرف سے ہے ؟ سخت سے سخت شرک بھی یہ نہیں کہہ سکتے ۔

کیا ان فیوض دبرکات اور رحمتوں کا نزدل خالق کائنات اللہ کے سوا کوئی اور کررہا ہے ۔ جب اللہ کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں ہے تو پھر کیوں وہ نصیحت حاصل کرکے شکر الہٰی بجا نہیں لاتے ؟ پھر کیوں وہ اللہ کی حمدوثنا نہیں کرتے اور صرف اسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور بندگی سے منہ موڑتے ہیں ؟ اس کے سوا تو کوئی حاکم نہیں ہے ۔ آخر وہ ایسے خدا پر ایمان لانے سے کیوں منہ موڑتے ہیں جس میں کوئی شک نہیں ہے ۔

فانی توفکون (35: 3) یایھا الناس ” آخر تم کہاں دھوکہ کھا رہے ہو ؟ “ تعجب انگیز بات ہے کہ ایک ایسے واضح حق اور بین سچائی سے عقل مندلوگ منہ موڑیں جو رات اور دن انہیں رزق بھی دے رہا ہے اور پھر اس سے بڑا تعجب خیز امراد اور کیا ہوگا کہ لوگ رب ذوالجلال کا انکار بھی نہیں کرپاتے اور اس کا اعتراف بھی نہیں کرتے ؟

یہ تین ضربات تھیں ، نہایت ہی قوی اور تیز جو عقل وخرد کی تاروں پر لگائی گئیں اور سورة کا آغاز ہوا تاکہ پوری سورة کے زمزمے کو لوگ توجہ سے سنیں ۔ ہر آیت میں انسان کو جو تعلیم دی گئی ہے وہ انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے اور اس کے شعور میں ایک گہری حقیقت کے طور پر بیٹھ جاتی ہے ۔ یہ تینوں ضربات باہم مربوط اور متناسب ہیں اور مختلف سمتوں سے ایک ہی اثر ڈالتی ہیں ۔

434