سورہ محمد (47): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Muhammad کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ محمد کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ محمد کے بارے میں معلومات

Surah Muhammad
سُورَةُ مُحَمَّدٍ
صفحہ 507 (آیات 1 سے 11 تک)

ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَصَدُّوا۟ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَٰلَهُمْ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ وَءَامَنُوا۟ بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّـَٔاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ٱتَّبَعُوا۟ ٱلْبَٰطِلَ وَأَنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّبَعُوا۟ ٱلْحَقَّ مِن رَّبِّهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ ٱللَّهُ لِلنَّاسِ أَمْثَٰلَهُمْ فَإِذَا لَقِيتُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَضَرْبَ ٱلرِّقَابِ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا۟ ٱلْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَآءً حَتَّىٰ تَضَعَ ٱلْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَآءُ ٱللَّهُ لَٱنتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَٱلَّذِينَ قُتِلُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَٰلَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ وَيُدْخِلُهُمُ ٱلْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن تَنصُرُوا۟ ٱللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَتَعْسًا لَّهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَٰلَهُمْ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا۟ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَٰلَهُمْ ۞ أَفَلَمْ يَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ دَمَّرَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْ ۖ وَلِلْكَٰفِرِينَ أَمْثَٰلُهَا ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ مَوْلَى ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَأَنَّ ٱلْكَٰفِرِينَ لَا مَوْلَىٰ لَهُمْ
507

سورہ محمد کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ محمد کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا، اللہ نے ان کے اعمال کو رائیگاں کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena kafaroo wasaddoo AAan sabeeli Allahi adalla aAAmalahum

ارشاد ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے خود بھی اللہ کی آیتوں کا انکار کیا اور دوسروں کو بھی راہ اللہ سے روکا اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے ان کی نیکیاں بیکار ہوگئیں، جیسے فرمان ہے ہم نے ان کے اعمال پہلے ہی غارت و برباد کر دئیے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے دل سے اور شرع کے مطابق اعمال کئے بدن سے یعنی ظاہر و باطن دونوں اللہ کی طرف جھکا دئیے۔ اور اس وحی الہٰی کو بھی مان لیا جو موجودہ آخر الزمان پیغمبر ﷺ پر اتاری گئی ہے۔ اور جو فی الواقع رب کی طرف سے ہی ہے اور جو سراسر حق و صداقت ہی ہے۔ ان کی برائیاں برباد ہیں اور ان کے حال کی اصلاح کا ذمہ دار خود اللہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے نبی ہو چکنے کے بعد ایمان کی شرط آپ ﷺ پر اور قرآن پر ایمان لانا بھی ہے۔ حدیث کا حکم ہے کہ جس کی چھینک پر حمد کرنے کا جواب دیا گیا ہو اسے چاہیے کہ دعا (یھدیکم اللہ ویصلح بالکم) کہے یعنی اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت سنوار دے پھر فرماتا ہے کفار کے اعمال غارت کردینے کی مومنوں کی برائیاں معاف فرما دینے اور ان کی شان سنوار دینے کی وجہ یہ ہے کہ کفار تو ناحق کو اختیار کرتے ہیں حق کو چھوڑ کر اور مومن ناحق کو پرے پھینک کر حق کی پابندی کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے انجام کو بیان فرماتا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ خوب جاننے والا ہے۔

اردو ترجمہ

اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اُس چیز کو مان لیا جو محمدؐ پر نازل ہوئی ہے اور ہے وہ سراسر حق اُن کے رب کی طرف سے اللہ نے ان کی برائیاں اُن سے دور کر دیں اور ان کا حال درست کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena amanoo waAAamiloo alssalihati waamanoo bima nuzzila AAala muhammadin wahuwa alhaqqu min rabbihim kaffara AAanhum sayyiatihim waaslaha balahum

اردو ترجمہ

یہ اس لیے کہ کفر کرنے والوں نے باطل کی پیروی کی اور ایمان لانے والوں نے اُس حق کی پیروی کی جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے اِس طرح اللہ لوگوں کو اُن کی ٹھیک ٹھیک حیثیت بتائے دیتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika bianna allatheena kafaroo ittabaAAoo albatila waanna allatheena amanoo ittabaAAoo alhaqqa min rabbihim kathalika yadribu Allahu lilnnasi amthalahum

اردو ترجمہ

پس جب اِن کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو، تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے یہ ہے تمہارے کرنے کا کام اللہ چاہتا تو خود ہی اُن سے نمٹ لیتا، مگر (یہ طریقہ اُس نے اس لیے اختیار کیا ہے) تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha laqeetumu allatheena kafaroo fadarba alrriqabi hatta itha athkhantumoohum fashuddoo alwathaqa faimma mannan baAAdu waimma fidaan hatta tadaAAa alharbu awzaraha thalika walaw yashao Allahu laintasara minhum walakin liyabluwa baAAdakum bibaAAdin waallatheena qutiloo fee sabeeli Allahi falan yudilla aAAmalahum

جب کفار سے میدان جہاد میں آمنا سامنا ہوجائے یہاں ایمان داروں کو جنگی احکام دئیے جاتے ہیں کہ جب کافروں سے مڈبھیڑ ہوجائے دستی لڑائی شروع ہوجائے تو ان کی گردنیں اڑاؤ، تلواریں چلا کر گردن دھڑ سے اڑا دو۔ پھر جب دیکھو کہ دشمن ہارا اس کے آدمی کافی کٹ چکے تو باقی ماندہ کو مضبوط قیدوبند کے ساتھ مقید کرلو جب لڑائی ختم ہوچکے معرکہ پورا ہوجائے تو پھر تمہیں اختیار ہے کہ قیدیوں کو بطور احسان بغیر کچھ لئے ہی چھوڑ دو اور یہ بھی اختیار ہے کہ ان سے تاوان جنگ وصول کرو پھر چھوڑو۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے غزوے کے بعد یہ آیت اتری ہے کیونکہ بدر کے معرکہ میں زیادہ تر مخالفین کو قید کرنے اور قید کرنے کی کمی کرنے میں مسلمانوں پر عتاب کیا گیا تھا اور فرمایا تھا آیت (مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67؀) 8۔ الانفال :67) ، نبی کو لائق نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ ایک مرتبہ جی کھول کر مخالفین میں موت کی گرم بازاری نہ ہو لے کیا تم دنیوی اسباب کی چاہت میں ہو ؟ اللہ کا ارادہ تو آخرت کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کا لکھا ہوا نہ ہوتا تو جو تم نے لیا اس کی بابت تمہیں بڑا عذاب ہوتا۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اختیار منسوخ ہے اور یہ آیت ناسخ ہے آیت (فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 9۔ التوبہ :5) ، یعنی حرمت والے مہینے جب گذر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ وہیں قتل کرو۔ لیکن اکثر علماء کا فرمان ہے کہ منسوخ نہیں۔ اب بعض تو کہتے ہیں قتل کر ڈالنے کا بھی اختیار ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو معیط کو رسول اللہ ﷺ نے قتل کرا دیا تھا اور یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ ثمامہ بن اثال نے جب کہ وہ اسیری حالت میں تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا تھا کہ کہو ثمامہ کیا خیال ہے ؟ تو انہوں نے کہا اگر آپ ﷺ قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان رکھیں گے تو ایک شکر گذار پر احسان رکھیں گے اور اگر مال طلب کرتے ہیں تو جو آپ مانگیں گے مل جائے گا۔ حضرت امام شافعی ایک چوتھی بات کا بھی اختیار بتاتے ہیں یعنی قتل، احسان، بدلے کا اور غلام بنا کر رکھ لینے کا۔ اس مسئلے کی تفصیل کی جگہ فروعی مسائل کی کتابیں ہیں۔ اور ہم نے بھی اللہ کے فضل و کرم سے کتاب الاحکام میں اس کے دلائل بیان کر دئیے ہیں۔ پھر فرماتا ہے یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے یعنی بقول مجاہد حضرت عیسیٰ نازل ہوجائیں۔ ممکن ہے حضرت مجاہد کی نظریں اس حدیث پر ہوں جس میں ہے میری امت ہمیشہ حق کے ساتھ ظاہر رہے گی یہاں تک کہ ان کا آخری شخص دجال سے لڑے گا۔ مسند احمد اور نسائی میں ہے کہ حضرت سلمہ بن نفیل خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے میں نے گھوڑوں کو چھوڑ دیا اور ہتھیار الگ کر دئیے اور لڑائی نے اپنے ہتھیار رکھ دئیے اور میں نے کہہ دیا کہ اب لڑائی ہے ہی نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا اب لڑائی آگئی، میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ لوگوں پر ظاہر رہے گی جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہوجائیں گے یہ ان سے لڑیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے روزیاں دے گا یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے اور وہ اسی حالت پر ہوں گے مومنوں کی زمین شام میں ہے۔ گھوڑوں کی ایال میں قیامت تک کے لئے اللہ نے خیر رکھ دی ہے یہ حدیث امام بغوی نے بھی وارد کی ہے اور حافظ ابو یعلی موصلی نے بھی، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ جو لوگ اس آیت کو منسوخ نہیں بتاتے گویا کہ یہ حکم مشروع ہے جب تک لڑائی باقی رہے اور اس حدیث نے بتایا کہ لڑائی قیامت تک باقی رہے گی یہ آیت مثل اس آیت کے ہے آیت (وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ۚ فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ 39؀) 8۔ الانفال :39) ، یعنی ان سے لڑتے رہو جب تک کہ فتنہ باقی ہے اور جب تک کہ دین اللہ ہی کیلئے نہ ہوجائے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں لڑائی کے ہتھیار رکھ دینے سے مراد شرک کا باقی نہ رہنا ہے اور بعض سے مروی ہے کہ مراد یہ ہے کہ مشرکین اپنے شرک سے توبہ کرلیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کوششیں اللہ کی اطاعت میں صرف کرنے لگ جائیں پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو آپ ہی کفار کو برباد کردیتا اپنے پاس سے ان پر عذاب بھیج دیتا لیکن وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں آزما لے اسی لئے جہاد کے احکام جاری فرمائے ہیں سورة آل عمران اور برات میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا ہے۔ آل عمران میں ہے آیت (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ01402) 3۔ آل عمران :142) ، کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ بغیر اس بات کے کہ اللہ جان لے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور تم میں سے صبر کرنے والے کون ہیں تم جنت میں چلے جاؤ گے ؟ سورة براۃ میں ہے آیت (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14 ۙ) 9۔ التوبہ :14) ان سے جہاد کرو اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب کرے گا اور تمہیں ان پر نصرت عطا فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینے شفا والے کر دے گا اور اپنے دلوں کے ولولے نکالنے کا انہیں موقعہ دے گا اور جس کی چاہے گا توبہ قبول فرمائے گا اللہ بڑا علیم و حکیم ہے اب چونکہ یہ بھی تھا کہ جہاد میں مومن بھی شہید ہوں اس لئے فرماتا ہے کہ شہیدوں کے اعمال اکارت نہیں جائیں گے بلکہ بہت بڑھا چڑھا کر ثواب انہیں دئیے جائیں گے۔ بعض کو تو قیامت تک کے ثواب ملیں گے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ شہید کو چھ انعامات حاصل ہوتے ہیں اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتے ہی اس کے کل گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسے اس کا جنت کا مکان دکھا دیا جاتا ہے اور نہایت خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہتا ہے وہ عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے اسے ایمان کے زیور سے آراستہ کردیا جاتا ہے۔ ایک اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے۔ جو در و یاقوت کا جڑاؤ ہوتا ہے جس میں کا ایک یاقوت تمام دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے گراں بہا ہے۔ اسے بہتر حور عین ملتی ہیں اور اپنے خاندان کے ستر شخصوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے صحیح مسلم شریف میں ہے سوائے قرض کے شہیدوں کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں شہیدوں کے فضائل کی اور بھی بہت حدیثیں ہیں پھر فرماتا ہے انہیں اللہ جنت کی راہ سمجھا دے گا۔ جیسے یہ آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ ۚ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ) 10۔ یونس :9) ، یعنی جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کئے ان کے ایمان کے باعث ان کا رب انہیں ان جنتوں کی طرف رہبری کرے گا جو نعمتوں سے پر ہیں اور جن کے چپے چپے میں چشمے بہہ رہے ہیں اللہ ان کے حال اور ان کے کام سنوار دے گا اور جن جنتوں سے انہیں پہلے ہی آگاہ کرچکا ہے اور جن کی طرف ان کی رہبری کرچکا ہے آخر انہی میں انہیں پہنچائے گا۔ یعنی ہر شخص اپنے مکان اور پانی جگہ کو جنت میں اس طرح پہچان لے گا جیسے دنیا میں پہچان لیا کرتا تھا۔ انہیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے گی یہ معلوم ہوگا گویا شروع پیدائش سے یہیں مقیم ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جس انسان کے ساتھ اس کے اعمال کا محافظ جو فرشتہ تھا وہی اس کے آگے آگے چلے گا جب یہ اپنی جگہ پہنچے گا تو ازخود پہچان لے گا کہ میری جگہ یہی ہے۔ یونہی پھر اپنی زمین میں سیر کرتا ہوا جب سب دیکھ چکے گا تب فرشتہ ہٹ جائے گا اور یہ اپنی لذتوں میں مشغول ہوجائے گا۔ صحیح بخاری کی مرفوع حدیث میں ہے جب مومن آگ سے چھوٹ جائیں گے تو جنت، دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لئے جائیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر جو مظالم تھے ان کے بدلے اتار لئے جائیں گے جب بالکل پاک صاف ہوجائیں گے تو جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی قسم اللہ کی جس طرح تم میں سے ہر ایک شخص اپنے دنیوی گھر کی راہ جانتا ہے اور گھر کو پہچانتا ہے اس سے بہت زیادہ وہ لوگ اپنی منزل اور اپنی جگہ سے واقف ہوں گے پھر فرماتا ہے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط کر دے گا، جیسے اور جگہ ہے آیت (وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ 40؀) 22۔ الحج :40) اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا اس لئے کہ جیسا عمل ہوتا ہے اسی جنس کی جزا ہوتی ہے اور وہ تمہارے قدم بھی مضبوط کر دے گا حدیث میں ہے جو شخص کسی اختیار والے کے سامنے ایک ایسے حاجت مند کی حاجت پہنچائے جو خود وہاں نہ پہنچ سکتا ہو تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پل صراط پر اس کے قدم مضبوطی سے جما دے گا پھر فرماتا ہے کافروں کا حال بالکل برعکس ہے یہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھائیں گے حدیث میں ہے دینار درہم اور کپڑے لتے کا بندہ ٹھوکر کھا گیا وہ برباد ہوا اور ہلاک ہوا وہ اگر بیمار پڑجائے تو اللہ کرے اسے شفا بھی نہ ہو ایسے لوگوں کے نیک اعمال بھی اکارت ہیں اس لئے کہ یہ قرآن و حدیث سے ناخوش ہیں نہ اس کی عزت و عظمت ان کے دل میں نہ ان کا قصد و تسلیم کا ارادہ۔ پس انکے جو کچھ اچھے کام تھے اللہ نے انہیں بھی غارت کردیا۔

اردو ترجمہ

وہ ان کی رہنمائی فرمائے گا، ان کا حال درست کر دے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sayahdeehim wayuslihu balahum

اردو ترجمہ

اور ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس سے وہ ان کو واقف کرا چکا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayudkhiluhumu aljannata AAarrafaha lahum

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo in tansuroo Allaha yansurkum wayuthabbit aqdamakum

اردو ترجمہ

رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے، تو اُن کے لیے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena kafaroo fataAAsan lahum waadalla aAAmalahum

اردو ترجمہ

کیونکہ انہوں نے اُس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے، لہٰذا اللہ نے اُن کے اعمال ضائع کر دیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika biannahum karihoo ma anzala Allahu faahbata aAAmalahum

اردو ترجمہ

کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہ تھے کہ اُن لوگوں کا انجام دیکھتے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ اللہ نے اُن کا سب کچھ اُن پر الٹ دیا، اور ایسے نتائج اِن کافروں کے لیے مقدر ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afalam yaseeroo fee alardi fayanthuroo kayfa kana AAaqibatu allatheena min qablihim dammara Allahu AAalayhim walilkafireena amthaluha

تمام شہروں سے پیارا شہر۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے جو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور اس کے رسول کو جھٹلا رہے ہیں زمین کی سیر نہیں کی ؟ جو یہ معلوم کرلیتے ہیں اور اپنی آنکھوں دیکھ لیتے ہیں کہ ان سے اگلے جو ان جیسے تھے ان کے انجام کیا ہوئے ؟ کس طرح وہ تخت و تاراج کر دئیے گئے اور ان میں سے صرف اسلام و ایمان والے ہی نجات پا سکے کافروں کے لئے اسی طرح کے عذاب آیا کرتے ہیں پھر بیان فرماتا ہے مسلمانوں کا خود اللہ ولی ہے اور کفار بےولی ہیں۔ اسی لئے احد والے دن مشرکین کے سردار ابو سفیان (صخر) بن حرب نے فخر کے ساتھ جب نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے دونوں خلفاء کی نسبت سوال کیا اور کوئی جواب نہ پایا تو کہنے لگا کہ یہ سب ہلاک ہوگئے پھر اسے فاروق اعظم نے جواب دیا اور فرمایا جن کی زندگی تجھے خار کی طرح کھٹکتی ہے اللہ نے ان سب کو اپنے فضل سے زندہ ہی رکھا ہے ابو سفیان کہنے لگا سنو یہ دن بدر کے بدلے کا دن ہے اور لڑائی تو مثل ڈولوں کے ہے کبھی کوئی اوپر کبھی کوئی اوپر۔ تم اپنے مقتولین میں بعض ایسے بھی پاؤ گے جن کے ناک کان وغیرہ انکے مرنے کے بعد کاٹ لئے گئے ہیں میں نے ایسا حکم نہیں دیا لیکن مجھے کچھ برا بھی نہیں لگا پھر اس نے رجز کے اشعار فخریہ پڑھنے شروع کئے کہنے لگا (اعل ھبل اعل ھبل) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اسے جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے پوچھا حضور ﷺ کیا جواب دیں ؟ فرمایا کہو (اللہ اعلی واجل) یعنی وہ کہتا تھا ہبل بت کا بول بالا ہو جس کے جواب میں کہا گیا سب سے زیادہ بلندی والا اور سب سے زیادہ عزت و کرم والا اللہ ہی ہے۔ ابو سفیان نے پھر کہا (لنا العزی ولا عزی لکم) ہمارا عزیٰ (بت) ہے اور تمہارا نہیں۔ اس کے جواب میں بفرمان حضور ﷺ کہا گیا (اللہ مولانا ولا مولاکم) اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہار مولا کوئی نہیں پھر جناب باری خبر دیتے ہیں کہ ایماندار قیامت کے دن جنت نشین ہوں گے اور کفر کرنے والے دنیا میں تو خواہ کچھ یونہی سا نفع اٹھا لیں لیکن ان کا اصلی ٹھکانا جہنم ہے۔ دنیا میں ان کی زندگی کا مقصد صرف کھانا پینا اور پیٹ بھرنا ہے اسے یہ لوگ مثل جانوروں کے پورا کر رہے ہیں جس طرح وہ ادھر ادھر منہ مار کر گیلا سوکھا پیٹ میں بھرنے کا ہی ارادہ رکھتا ہے اسی طرح یہ ہے کہ حلال حرام کی اسے کچھ تمیز نہیں، پیٹ بھرنا مقصود ہے، حدیث شریف میں ہے مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں، جزا والے دن اپنے اس کفر کی پاداش میں ان کے لئے جہنم کی گوناگوں سزائیں ہیں۔ پھر کفار مکہ کو دھمکاتا ہے اور اپنے عذابوں سے ڈراتا ہے کہ دیکھو جن بستیوں والے تم سے بہت زیادہ طاقت قوت والے تھے ان کو ہم نے نبیوں کو جھٹلانے اور ہمارے احکام کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے تہس نہس کردیا تم جو ان سے کمزور اور کم طاقت ہو اس رسول کو جھٹلاتے اور ایذائیں پہنچاتے ہو جو خاتم الانبیاء اور سید الرسل ہیں سمجھ لو کہ تمہارا انجام کیا ہوگا ؟ مانا کہ اس نبی رحمت کے مبارک وجود کی وجہ سے اگر دنیوی عذاب تم پر بھی نہ آئے تو اخروی زبردست عذاب تو تم سے دور نہیں ہوسکتے ؟ جب اہل مکہ نے رسول کریم ﷺ کو نکالا اور آپ ﷺ نے غار میں آکر اپنے آپ کو چھپایا اس وقت مکہ کی طرف توجہ کی اور فرمانے لگے اے مکہ تو تمام شہروں سے زیادہ اللہ کو پیارا ہے اور اسی طرح مجھے بھی تمام شہروں سے زیادہ پیارا تو ہے اگر مشرکین مجھے تجھ میں سے نہ نکالتے تو میں ہرگز نہ نکلتا۔ پس تمام حد سے گزر جانے والوں میں سب سے بڑا حد سے گذر جانے والا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے نکل جائے یا حرم الہٰی میں کسی قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کرے یا جاہلیت کے تعصب کی بنا پر قتل کرے پس اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ پر یہ آیت اتاری۔

اردو ترجمہ

یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں کا حامی و ناصر اللہ ہے اور کافروں کا حامی و ناصر کوئی نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika bianna Allaha mawla allatheena amanoo waanna alkafireena la mawla lahum
507