سورہ شعراء (26): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Ash-Shu'araa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الشعراء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ شعراء کے بارے میں معلومات

Surah Ash-Shu'araa
سُورَةُ الشُّعَرَاءِ
صفحہ 367 (آیات 1 سے 19 تک)

طسٓمٓ تِلْكَ ءَايَٰتُ ٱلْكِتَٰبِ ٱلْمُبِينِ لَعَلَّكَ بَٰخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا۟ مُؤْمِنِينَ إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ ءَايَةً فَظَلَّتْ أَعْنَٰقُهُمْ لَهَا خَٰضِعِينَ وَمَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّنَ ٱلرَّحْمَٰنِ مُحْدَثٍ إِلَّا كَانُوا۟ عَنْهُ مُعْرِضِينَ فَقَدْ كَذَّبُوا۟ فَسَيَأْتِيهِمْ أَنۢبَٰٓؤُا۟ مَا كَانُوا۟ بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ أَوَلَمْ يَرَوْا۟ إِلَى ٱلْأَرْضِ كَمْ أَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ وَإِذْ نَادَىٰ رَبُّكَ مُوسَىٰٓ أَنِ ٱئْتِ ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ قَوْمَ فِرْعَوْنَ ۚ أَلَا يَتَّقُونَ قَالَ رَبِّ إِنِّىٓ أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ وَيَضِيقُ صَدْرِى وَلَا يَنطَلِقُ لِسَانِى فَأَرْسِلْ إِلَىٰ هَٰرُونَ وَلَهُمْ عَلَىَّ ذَنۢبٌ فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ قَالَ كَلَّا ۖ فَٱذْهَبَا بِـَٔايَٰتِنَآ ۖ إِنَّا مَعَكُم مُّسْتَمِعُونَ فَأْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُولَآ إِنَّا رَسُولُ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ أَنْ أَرْسِلْ مَعَنَا بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ ٱلَّتِى فَعَلْتَ وَأَنتَ مِنَ ٱلْكَٰفِرِينَ
367

سورہ شعراء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ شعراء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ط س م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Taseenmeem

طسم ……المبین (2)

حروف تہجی سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ کتاب مبین اور یہ سورت انہی حروف سے بنائی گئی ہے اور جو لوگ تکذیب پر اصرار کرتے ہیں یہ حروف ان کے علم میں ہیں اور ان سے مرکب کلمات وہ بولتے ہیں لیکن وہ ایسی کتاب مبین پیش نہیں کرسکتے۔ اس کتاب کے بارے میں اس سورت میں بہت سی باتوں پر بحث کی گئی ہے۔ مقدمے میں بھی اور آخری نتائج میں بھی۔ اور یہ اندازان تمام سورتوں کا ہوتا ہے جن کے آغاز میں حروف مقطعات لائے گئے ہوتے ہیں۔

اس تنبیہ کے بعد حضور کو براہ راست مخاطب کیا جاتا ہے کیونکہ حضور مشرزکین کے مقابلے میں ایک انتھک جدوجہد کر رہے تھے اور ان کی مسسل تکذیب سے آپ کو دکھ پہنچ رہا تھا۔ تو حضور اکرم ﷺ کو یہاں تسلی دی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ آپ اس کام کے لئے زیادہ پریشان نہ ہوں۔ بتایا جاتا ہے کہ ٹھیک ہے کہ آپ بہت کچھ برداشت کر رہے ہیں اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ اگر ہم چاہیں تو چشم زون میں ان کی گردنیں جھکادیں لیکن اللہ کی ایک اسکیم ہے۔ ذرا انتظار کریں۔

اردو ترجمہ

یہ کتاب مبین کی آیات ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tilka ayatu alkitabi almubeeni

اردو ترجمہ

اے محمدؐ، شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

LaAAallaka bakhiAAun nafsaka alla yakoonoo mumineena

لعلک باخع ……خضعین (4)

انداز کلام ایسا ہے کہ گویا خود نبی ﷺ کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ اپنی جان کو اس وجہ سے خطرے میں ڈال رہے ہیں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

لعلک باخع نفسک (26 : 3) ” اے نبی شاید آپ اس غم میں اپنی جان کھو دو گے۔ “ مع النفس کے معنی قتل النفس ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم کفار قریش کے عدم ایمان پر کس قدر دل گیر تھے۔ کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ اگر یہ ایمان نہ لائے تو دوسری اقوام کی طرح کہیں یہ بھی نیست و نابود نہ کردیئے جائیں۔ یوں آپ اپنے آپ کو اس غم میں گھول رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ آپ کے رشتہ دار ، اہل خاندان اور اہل قوم تھے۔ اس کی وجہ سے آپ زیادہ پریشان تھے۔ لیکن رب تعالیٰ کو سے زیادہ ہمدردی تھی۔ اللہ نے آپ کو اس تباہ کن دل کر فتگی سے منع کردیا۔ فرمایا کہ آپ ذرا آرام اور سکون سے کام جاری رکھیں۔ آپ کا یہ فریضہ نہیں ہے کہ لوگ ایمان لائیں ، اگر محض لوگوں کا ایمان ہی مطلوب ہوتا تو ہم ایک ہی حکم سے ان کی گردنیں جھکا سکتے تھے۔ آسمان سے ہم ایسا معجزہ نازل کرتے کہ یہ لوگ سرجھکا دیتے اور نہ ماننے کی کوئی صورت نہرہتی اور نہ یہ لوگ ایمان سے منہ نہ موڑ سکتے اور یکدم دبک کر رہ جاتے۔

فظلت اعنا قھم لھا خضعین (26 : 3) ” ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں۔ “ یہ لوگ گردنیں جھکا کر اس طرح کھڑے ہوجاتے کہ گویا باندھے ہوئے ہیں اور اپنی جگہ سے یہ حرکت ہی نہیں کرسکتے۔ دست بستہ کھڑے ہوجاتے۔

لیکن اللہ کی مشیت یہ نہ تھی کہ اپنی اس آخری رسالت کو ان لوگوں سے زبردستی منوایا جائے۔ اس رسالت کو صرف ایک ہی معجزہ دیا گیا اور وہ معجزہ قرآن تھا۔ یہ قرآن زندگی کا ایک مکمل نظام دیتا ہے اور یہ ہر پہلو کے اعتبار سے معجزہ ہے۔ بس اس کو آگے بڑھ کر قبول کریں۔

یہ قرآن انداز تعبیر اور فنی نظم و نسق کے اعتبار سے بھی معجز ہے۔ پورے قرآن میں یہ کلام اپنے اعلیٰ معیار اور بلند سطح کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ فنی اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اس میں کوئی نشیب وقرار نہیں ہے۔ یعنی کسی جگہ کلام اپنے معیار سے گرا ہوا نہیں ہے۔ کسی جگہ اس نے اپنی خصوصیات کو نہیں چھوڑا۔ ایسا نہیں ہے جس طرح انسانی کلام ہوتا ہے۔ جس میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ کسی جگہ اونچا کسی جگہ درمیانہ اور کسی جگہ صاف ہی گرا ہوا۔ کسی جگہ پر شوکت اور کسی جگہ جھولدار۔ مثلاً ایک ہی مصنف ایک جگہ ایک طرح کی بات کرتا ہے اور دوسری جگہ انداز بدل جاتا ہے۔ لیکن قرآن ہے کہ آغاز سے انجام تک جوئے رواں ہے۔ ایک ہی سطح پر ایک ہی رفتار سے اور ایک معیار پر جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سرچشمہ بھی ایک ہے۔

پھر اپنے افکار و نظریات کے اعتبار سے بھی یہ معجزہ ہے۔ اس کے فکری اجزاء باہم مربوط ہیں۔ اس میں کوئی ایک بات نہیں ہے جو اس کے مجموعی فیصل ی سے لگا نہ کھاتی ہو۔ نہ کوئی اتفاقیبات ہے۔ تمام ہدایات ، اور تمام ضابطہ بندیاں ایک ہی ضابطے کے مطابق متکامل اور متناسق ہیں۔ یہ تعلیمات انسان کی پوری زندگی کو گھیرے ہوئے ہیں۔ زندگی کے مسائل کا پورا استیاب ہے اور پوری انسانی زندگی کے مسائل کا جواب شافی اسی میں موجود ہے۔ اس کا ایک جزئیہ بھی ایسا نہیں ہے جو قرآن کریم کے تمام دوسرے جزئیات کے مخلاف اور متضاد ہو۔ پھر یہ پورا فکری نظام ، نظام فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ تمام اجزاء فکر ایک ہی محور کے اردگرد گھوم رہے ہیں۔ ایک ہی رسی میں سب کچھ بندھا ہا ہے۔ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ۔ انسان اپنی محدود مہارت کے ساتھ کوئی ایسامربوط نظام فکر و عمل پیش کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ماہر مطلق کا ارسال کرد نظام ہے اور یہ زمان و مکان کی حدود قیود سے ماوراء ہے۔ غرض قرآن کا یہ نظام اس قدر جامعیت لئے ہوئے ہے۔ اس کی فکری اور عملی تنظیم حیرت انگیز ہے۔

پھر اس کے اندر ایک اور اعجاز بھی ہے ، اس کی آواز سننے ہی دلوں میں اتر جاتی ہے ، یہ دلوں کی کنجیاں رکھتا ہے۔

اس کو سنتے ہی دل کھل جاتے ہیں اور انسان کے اندر تاثر قبول کرنے والی پنہاں قوتیں جاگ اٹھتی ہیں اور اس کی آواز پر لبیک کہتی ہیں۔ یہ الجھے ہوئے دینی مسائل کو اس قادر سادگی اور آسانی کے ساتھ حل کردیتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ بغیر کسی مشکل اور پیچیدگی اور زیادہ محنت کے۔ محض ایک نچ کے ساتھ دلوں کی دنیا کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی مشیت کا تقاضا یوں ہوا کہ قرآن کریم کو اپنی اس آخری رسالت کے لئے ایک معجزہ قرار دے اور اللہ نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ کوئی مادی اور طبیعی معجزہ نازل کرے ، جس کو دیکھ کر لوگوں کی گردنیں جھک جائیں اور وہ بامر مجبوری اسے تسیم کرلیں۔ یہ اس لئے کہ یہ آخری نبوت تمام انسانوں کے لئے ایک عام اور کھلی رسالت تھی۔ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے قیامت تک یہی ہدایت تھی اور یہ کسی ایک قوم تک محدود اور کسی محدود وقت کے ساتھ مقید اور موقف رسالت نہ تھی ۔ اس لئے اللہ نے اس رسالت کو ایک ایسا معجزہ دیا جو اقوام قریب و بعید دونوں کے لئے عام ہو۔ ہر قوم اور ہر نسل کے لئے ہو۔ جہاں تک مادی معجزات کا تعلق ہے ان کے سامنے تو صرف وہ لوگجھکتے ہیں جو اسے دیکھتے ہیں۔ اور ان اقوام کے بعد تو وہ واقعات قصص و روایات بن جانے ہیں۔ وہ آنے والی نسلوں کے لئے مشاہد نہیں ہوتے۔

رہا قرآن مجید تو وہ چودہ سو سال سے ایک معجزہ ہے۔ یہ ایک کھلی کتاب ہے ، ایک زبردست نظام زندگی ہے۔ اگر اس کو کسی بھی زمانے کے لوگ اپنا راہنما اور امام بنا لیں۔ تو وہ اس سے فائد اٹھا سکتے ہیں اور وہ ان کی زندگی کے پورے مسائل حل کرسکتا ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کر سکات ہے بلکہ وہ ان کو ایک نہایت ہی اعلیٰ افیق پر افضل زندگی اور بہترین نتائج تک پہنچا سکتا ہے۔ یہ وہ خزانہ ہے کہ آجہم نے اپنے دور میں اس سے جو کچھ معلوم نہیں کیا ، آنے والے نسلیں اس سے معلوم کرلیں گی۔ یہ ہر سائل کو اس کے سوال کے مطابق دیتا ہے اور جھلوی بھر کے دیتا ہے اور اس کے خزانے ختم نہیں ہونے بلکہ از سر نو نئے نئے ذخیرے ملتے ہیں ۔ لیکن لوگ ہیں کہ اس قرآن کے عظیم خزانوں اور حکمتوں کو پا نہیں رہے اور اعراض کرتے ہیں۔ جوں جوں قرآن کی کوئی نئی آیت نازل ہوتی تو وہ کہتے :

اردو ترجمہ

ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کر سکتے ہیں کہ اِن کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In nasha nunazzil AAalayhim mina alssamai ayatan fathallat aAAnaquhum laha khadiAAeena

اردو ترجمہ

اِن لوگوں کے پاس رحمان کی طرف سے جو نئی نصیحت بھی آتی ہے یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama yateehim min thikrin mina alrrahmani muhdathin illa kanoo AAanhu muAArideena

یہاں اللہ کے ناموں میں سے رحمٰن کو لایا گیا ہے ، اشارہ اس طرف ہے کہ یہ کتاب اور یہ نصیحت نازل کر کے اللہ نے مخلوق پر بہت بڑی رحمت کی ہے اور اس رحمت سے وہ منہ موڑ رہے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ ان کا یہ فعل بہت ہی قبیح اور شفیع ہے۔ آسمانوں سے ان پر رحمت کا نزول ہو رہا ہے اور وہ اس سے بھاگ رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اللہ کی چیز سے محروم کر رہے ہیں جس کے وہ فی الحقیقت بہت ہی محتاج ہیں۔

اس لئے ان کے اس اعراض پر اللہ کی طرف سے بہت ہی سخت تہدید نازل ہوتی ہے کہ اللہ کا عذاب ان کے لئے منتظر ہے۔ بہت جلد یہ لوگ اس سے دوچار ہوں گے۔

اردو ترجمہ

اب کہ یہ جھٹلا چکے ہیں، عنقریب اِن کو اس چیز کی حقیقت (مختلف طریقوں سے) معلوم ہو جائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faqad kaththaboo fasayateehim anbao ma kanoo bihi yastahzioona

فقد ……یستھزء ون (6)

اور یہ تہدید نہایت خفیہ اور مجمل ہے اور عذاب مجہول ہے۔ یہ لوگ چونکہ ان دھمکیوں کو ایک مذاق سمجھنے تھے ، اس لئے اللہ نے دھمکی کا انداز بیان بھی استہزائیہ کردیا۔

فسیاتیھم انبواما کانوا بہ یستھزون (26 : 6) ” عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت معلوم ہوجائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ “ یعنی اس عذاب کی خبریں ان تک پہنچ جائیں گی۔ جس کا یہ مذاق اڑاتے ہیں۔ ان لوگوں تک اس عذاب کی صرف خبریں ہی نہ پہنچیں گی بلکہ یہ لوگ عذاب چکھیں گے بھی اور یہ بذات خود خبر بن جائیں گے۔ اور ان پر جو مصیبت آئے گی لوگ گلی کوچوں میں اس کی داستانیں ایک دوسرے کو سناتے رہیں گے۔ یہ چونکہ مذاق اڑاتے تھے ، اس لئے اس تہدید میں بھی مذاقیہ جواب دیا گیا۔ لیکن یہ مذاق تہدید سے بھرا ہوا ہے۔

یہ لوگ ایک خارق عادت طبیعی معجزے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اللہ کی ان روشن اور روشن اور چمک دار آیات و معجزات کا نوٹس نہیں لیتے جو ان کے اردگرد پھیلی ہوئی ہیں اور ان آیات و نشانات کے ہوتے ہوئے کسی قلب مفتوح اور کسی حساس بصیرت کو تو مزید کسی دلیل اور برہان کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کائنات کا صفحہ اس قدر عجیب ہے کہ انسانی دل و دماغ اس کو دیکھ کر مطمئن ہوجاتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور کیا انہوں نے کبھی زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ نباتات اس میں پیدا کی ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Awalam yaraw ila alardi kam anbatna feeha min kulli zawjin kareemin

اولم ……مئومنین (8)

1033

اس مردہ زمین سے ایک گونہ زندہ نباتات کا نکالنا کیا کم معجزہ ہے۔ پھر ان نباتات سے نر اور مادہ بنانا۔ بعض انواع میں نر اور مادہ علیحدہ علیحدہ پودوں میں ہوتے ہیں اور یا پھر ایک ہی پودے میں نر اور مادہ پھول ہوتے ہیں جیسا کہ اکثر نباتات میں ہوتا ہے یعنی ایک ہی شاخ میں نر اور مادہ اجزا ہوتے ہیں اور یہ معجزہ ان کے ماحول میں رات دن رونما ہوتا رہتا ہے۔

اولم یروا (26 : 8) ” کیا انہوں نے نہیں دیکھا ہے۔ یہ ایسے معجزات ہیں کہ جن کے صرف ایک ہی مشاہدے کی ضرورت ہے۔ قرآن کے نظام تربیت کا یہ خاص انداز ہے کہ قرآن انسانی دل و دماغ کو اس کائنات کے مشاہد پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن بجھے ہوئے احساس کو جگاتا ہے کند ذہن کو تیز کرتا ہے اور بند قوائے مدرکہ کو آزاد کرتا ہے اور ان کو اس کائنات میں پائے جانے والے ان معجزات کی متوجہ کرتا ہے جو قدم قدم پر بکھرے ہوئے ہیں تاکہ انسان ایک زندہ دل دماغ کے ساتھ اس کائنات کو دیکھے۔ اللہ کی عجیب و غریب مصنوعات کو دیکھے اور اسے اللہ کا شعور حاصل ہو اور وہ اللہ کی معرفت اللہ کے عجائب مخلوقات کے ذریعے حاصل کرے اور وہ اللہ سے ہر وقت ڈرا رہے اور اسے یہ شعور ہو کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ پھر ہر انسان کو یہ شعور ہو کہ اللہ کی مخلوقات میں سے صرف وہی ہے جو یہ شعور رکھتا ہے ۔ اور اللہ کی مخلوقات سے بھی وابستہ ہے اور اللہ کے اس ناموس فطرت کیساتھ بھی پیوستہ ہے۔ جس کو اللہ نے اس کائنات کے اندر جاری وساری کر رکھا ہے۔ پھر اسے یہ بھی شعور ہو کہ اس کائنات میں اس نے ایک خاص کردار ادا کرتا ہے۔ خصوصاً کے اندر جاری وساری کر رکھا ہے ۔ پھر اسے یہ بھی شعور ہو کہ اس کائنات میں اس نے ایک خاص کردار ادا کرتا ہے۔ خصوصاً اس کرہ ارض کے حوالے سے تو اس کے کاندھوں پر ایک خاص ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔

اولم یروا الی الارض کم انبتنا فیھا من کل زوج کریم (62 : 8) ” کیا انہوں نے کبھی زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے کثیر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ نباتات اس میں پیدا کی ہیں۔ “ یہ نہایت ہی عمدہ ہیں ، اس لئے کہ ان کے اندر زندگی ہے اور یہ زندگی رب کریم نے ان کے اندر پیدا کی ہے۔ لفظ کریم سے اللہ یہ تاثر دیتا ہے کہ اللہ کی صنعت کاریوں کو نہایت ہی توجہ ، اہمیت اور تکریم کی نگاہوں سے دیکھنا چاہئے۔ یہ کوئی معمولی حقائق نہیں ہیں کہ ان پر سے محض ایک نادان اور غافل کی طرح گزرا جائے۔

ان فی ذلک لایۃ (26 : 8) ” ان میں تو یقینا ایک نشانی ہے۔ “ ان کے علاوہ مزید نشانیاں طلب کرنے کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ حالانکہ یہ لوگ ان پیش پا افتادہ نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے۔

وما کان اکثرھم مئومنین (26 : 8) ” مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں۔ “ سورت کا یہ دیباچہ ایک ایسے سبق آموز فقرے پر ختم ہوتا ہے۔ جو اس سورت میں بار بار دہرایا گیا ہے۔

اردو ترجمہ

یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna fee thalika laayatan wama kana aktharuhum mumineena

اردو ترجمہ

اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainna rabbaka lahuwa alAAazeezu alrraheemu

و……الرحیم (9)

۔ “ یعنی وہ زبردست ہے اور قسم قسم کی معجزانہ مخلوق کی پیدائش ، قسم قسم کے معجزات دکھانے اور مکذبین اور منکرین کو سزا دینے پر قدرت رکھتا ہے اور وہ الرحیم بھی ہے کہ وہ اپنی کتاب میں اپنی مخلوقات میں سے۔ ان عجائب وغرائب کی کو پیش کرتا ہے اور دلائل و معجزات کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ اس طرح جن کا دل مائل بہدایت ہوتا ہے وہ ایمان لے آتے ہیں اور پھر وہ مکذبین کو بھی مہلت دیتا ہے اور جب تک ان کے پاس کوئی واضح پیغام دینے والا نہیں بھیجتا۔ اس وقت تک سزا بھی نہیں دیتا۔ حالانکہ اس کائنات کے نشانات میں بہت ہی وافر مقدار میں چیزیں موجود ہیں۔ مزید کسی دلیل وبرہان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ اللہ کی رحمت ہے کہ وہ لوگوں کے ضمیر کو روشن کرنے کے لئے ، ان کو بصیرت فراہم کرنے کے لئے اور ان کو اچھے انجام کی بشارت دینے کے لئے اور برے انجام سے خبردار کے لئے رسول بھی بھیجتا ہے اس لئے وہ رحیم ہے کریم ہے۔

اردو ترجمہ

اِنہیں اس وقت کا قصہ سناؤ جب کہ تمہارے رب نے موسیٰؑ کو پکارا "ظالم قوم کے پاس جا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith nada rabbuka moosa ani iti alqawma alththalimeena

درس نمبر 162 ایک نظر میں

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کا یہ حصہ ، اس سورت کے موضوع اور محور کے ساتھ بہت ہی ہم آہنگ ہے۔ اس سورت میں مدار کلام زیادہ تر اس پر ہے کہ مکذبین کا انجام کیسا ہوا کرتا ہے۔ پھر اس سورت میں بھی حضور اکرم ﷺ کو تسلی دی گئی ہے اور مشرکین کی جانب سے روگردانی اور تکذیب کے نتیجے میں آپ کو جو مشکلات درپیش تھیں۔ ان پر آپ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی اس سورت کا موضوع سخن ہے۔ پھر اس سورت میں اس بات کی یقین دہانی بھی ہے کہ اس دعوت اور اس کی حامل تحریک کا حامی و مددگار اور محافظ اللہ ہے۔ اگرچہ یہ لوگ کمزور ہیں اور ان کے مخالفین زاد و عتاد یعنی ساز و سامان سے لیس ہیں۔ اہل قوت اور جبار ہیں اور ان پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔ کیونکہ اس سورت کے نزول کے وقت مکہ میں تحریک اسلامی کچھ ایسے ہی حالات سے گزر رہی تھی۔ انبیائے سابقین کے قصص قرآن کے منہاج تربیت میں ایک اہم مواد اور وسائل تربیت ہیں۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کی بعض کڑیاں سورت بقرہ ، سورت مائدہ ، سورت اعراف ، سورت یونس ، سورت اسرائ، سورت کہف اور سور طہ میں گزر چکی ہیں۔ جبکہ بعض دوسری سورتوں میں بھی حیات موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف مجمل سے اشارات موجود ہیں۔

جہاں جہاں بھی اس قصے کی کڑی کی طرف کوئی اشارہ آیا ہے یا کوئی کڑی تفصیل کے ساتھ دی گئی ہے وہاں موضوع سخن کے ساتھ وہ کڑی اور وہ حصہ نہایت ہی موزوں رہا ہے ہر جگہ سیاق کلام کے ساتھ مناسب حصہ لایا گیا ہے۔ جس طرح اس قصے میں جو کڑیاں ہیں وہ اس سورت کے موضوع کے ساتھ متناسب ہیں اور اسی مقصد کو واضح کرتی ہیں۔ (تفصیلات کے لئے دیکھیے فی ظلال پارہ ششم)

یہاں جو حلقہ دیا گیا ہے وہ رسالت او اس کی تکذیب کے ساتھ متعلق ہے اور تکذیب نیز حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سازش کی وجہ سے فرعون اور اس کی قوم کی غرقابی کے واقعات دیئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ اور آپ کے ساتھی ظالموں کے چنگل سے ربانی پا گئے ۔ چناچہ یہ پوری کڑی اس آیت کی تصدیق ہے۔

وسیعلم الذین طلموا ای منقلب ینقلبون (26 : 228) ” اور عنقریب جان لیں گے وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا کہ وہ کس انجام تک پہنچتے ہیں۔ “ اور اللہ کے اس قول کی بھی تصدیق ہے۔

فقد کذبوا فسیاتیھم انبوا ماکانوا بہ یستھزء ون (26 : 6) ” اب جبکہ انہوں نے جھٹلا دیا تو عنقریب پہنچ جائیں گی ان تک خبریں اس چیز کی جس کے ساتھ وہ مذاق کرتے تھے۔ “ حضرت موسیٰ کے قصے کا یہ حصہ چند مناظر پر مشتمل ہے جن کو دکھانا ضروری تھا۔ ان مناظر کے درمیان گیپ اور وقفے ہیں جن کے اندر منظر پر پردہ گر جاتا ہے او اس کے بعد جب پردہ اٹھتا ہے تو دوسرا منظر نظروں کے سامنے ہوتا ہے۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو پورے قرآن کریم میں قصص کے پیش کرتے وقت محلوظ رہی ہے۔

اس کڑی میں سات مشاہد ہیں۔ پہلے منظر میں اللہ کی جانب سے ندا آتی ہے۔ حضرت موسیٰ رب سے ہمکلام ہوتے ہیں اور ان کو منصب نبوت سے سرفراز کیا جاتا ہے اور ان پر وحی آتی ہے۔ دوسرے منظر میں کلیم اور فرعون کو آمنا سامنا ہوتا ہے۔ اس میں فرعون کے درباری بھی موجود ہیں۔ حضرت موسیٰ رسالت پیش فرماتے ہیں اور عصا اور ید بیضا کے معجزے بھی دکھائے جاتے ہیں۔ تیسرے منظر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں جادوگروں کو لایا جاتا ہے۔ ایک وسیع میدان میں لوگ جمع ہو کر مقابل ی کی تدابیر پر بحث ہوتی ہے۔ چوتھے منظر میں جادو گر فرعون کے دربار میں جمع ہیں اور انعام و اکرام کے پکے وعدے لے رہے ہیں۔ اگر وہ میدان مار لیں۔ پانچواں منظر مقابلے کا منظر ہے ، مقابلہ ہوتا ہے ، جادوگر ایمان لاتے ہیں۔ فرعون ان کو دھمکیاں دیتا ہے۔ چھٹے منظر میں دونوں کیمپوں کی جھلکیاں ہیں ایک طرف وحی الٰہی کا منظر ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے کہ تم تیاری کرو اور میرے بندوں کو لے کر رات کے وقت نکل جائو اور دوسری طرف فرعون تمام علاقوں میں اپنے کارندے بھیجتا ہے اور فوجیں جمع ہوتی ہیں۔ ساتویں منظر میں یہ تعاقب کرنے والی افواج اور بھاگنے والوں مسلمان ایک سمندر کے سامنے ہیں۔ سمندر پھٹ جاتا ہے او ان آبی راستوں سے یہ مظلوم پار ہوجاتے ہیں اور ظالم غرق ہوجاتے ہیں۔

یہی مناظر سورت اعراف ، سورت یونس اور سورت طہ میں بھی پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن ہر جگہ انداز اور قصے کا رنگ مختلف ہے اور بات جس رخ پر جا رہی ہوتی ہے ، قصے کو بھی اسی انداز پر لایا جاتا ہے۔ چناچہ قصے کا وہ پہلو اجاگر کیا جاتا ہے جو زیر بحث موضوع کے ساتھ متعلق ہو۔

اعراف میں قصے کا آغاز ہی کلیم اور فرعون کے مختصر مکالمے سے ہوا ہے۔ پھر جادوگروں کے ساتھ مقابلے کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے جبکہ فرعون او اس کے سرداروں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو اچھی طرح تفصیل کے ساتھ دکھایا گیا ہے اور جادوگروں کے مقابلے اور لشکر فرعون کی غرقابی کے درمیان مصر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مصر میں معجزات دکھاتے ہوئے منظر پر لایا گیا ہے۔ پھر جب یہ لشکر کامیابی کے ساتھ سمندر سے گزر جاتا ہے تو پھر ہجرت کی زندگی کے کئی حلقے پیش کئے گئے ہیں ، جبکہ یہاں اس سورت میں یہ کڑیاں حذف کردی گئی ہیں اور حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان توحید کے موضوع پر مکالمہ طوالت کے ساتھ دیا گیا ہے کیونکہ یہ اس سورت کا موضوع ہے اور مشرکین مکہ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان یہی مکالمہ زوروں پر ہے اور سورت یونس میں مختصر مکالمہ کلیم و فرعون سے آغاز ہوتا ہے اور عصا اور ید بیضا کے معجزات بھی نہیں دکھائے جاتے اور جادوگروں کے ساتھ مکالمے کی تفصیلات بھی حذف کردی گئی ہیں جبکہ یہاں ان دونوں کو مفصل لایا گیا ہے اور طہ میں حضرت موسیٰ اور رب تعالیٰ کے درمیان مناجات کو مفصل لایا گیا ہے۔ پھر موسیٰ اور فرعون کا سامنا ، جادوگروں کا مقابلہ سرسری طور پر اور بنی اسرائیل کا سفر ہجرت مفصل ہے۔ یہاں فرعون کی غرقابی پر قصہ کے مناظر ختم کردیئے جاتے ہیں۔

اس طرح جب ہم اس قصے کو قرآن کریم کی مختلف سورتوں میں بار بار پاتے ہیں تو قرآن کے اسلوب بیان کا یہ کمال ہمارے سامنے آتا ہے کہ کسی جگہ بھی ہمیں یہ نظر نہیں آتا کہ یہ وہی قصہ ہے جو دہرایا جا رہا ہے کیونکہ ہر جگہ مختلف کڑیاں دکھائی گئی ہیں۔ مختلف مناظر ہیں۔ قصے کا ایک مخصوص پہلو کھول کر بیان کیا جاتا ہے اور انداز بیان تو ہر جگہ نیا ہوتا ہے۔ یہ تمام خصوصیات قصے کو ہر جگہ نیا بنا دیتی ہیں اور ہر جگہ قصہ اپنے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہوتا ہے۔

درس نمبر 162 تشریح آیات

10……تا……68

واذ نادی ……اسرائیل (17)

اس سورت میں جو قصے لائے گئے ان کے ذریعے حضور اکرم ﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ ذرا سورت کے آغاز کو ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیں۔

لعلک باخع ……یستھزء ون (6) (26 : 3 تا 6) ” اے نبی شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کرسکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں۔ لوگوں کے پاس رحمٰن کی طرف سے جو نئی نصیحت بھی آتی ہے یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں ، اب جبکہ یہ جھٹلا چکے ہیں۔ عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت معلوم ہوجائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے ہیں۔ “ اب جبکہ یہ جھٹلا چکے ہیں۔ عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت معلوم ہوجائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے ہیں۔ ‘ ‘ اس تمہید کے بعد یہ تمام قصص لائے گئے ہیں اور ان میں بیان شدہ حصوں کا بنیادی مقصد مکذبین اور مستھزئین کا انجام بتانا ہے۔

واذ نادی ربک موسیٰ ان ائت القوم الظلمین (26 : 10) قوم فرعون الا یتقون (26 : 11) ” انہیں اس وقت کا قصہ سنائو جب کہ تمہارے رب نے موسیٰ کو پکارا ” ظالم قوم کے پاس جا…فرعون کی قوم کے پاس …کیا وہ نہیں ڈرتے ؟ “ یہ ہے یہاں اس قصے کا پہلا منظر ، اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو منصب رسالت عطا کر کے ایک مشن دے دیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تم نے ایک ظالم قوم کے پاس جانا ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنی ذات پر ظلم کیا ہے کہ کفر و گمراہی میں مبتلا ہیں۔ پھر انہوں نے بنی اسرائیل پر ظلم کیا ہے کہ وہ ان کی عورتوں کو زندہ رکھتے ہیں اور مردوں کو ذبح کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جگہ جگہ مذاق کرتے ہیں اور طرح طرح کی سزائیں دیتے ہیں۔ اس قوم کی صفات پہلے بیان کرنے کے بعد اب ان کا نام لیا جاتا ہے۔ قوم فرعون کے پاس جائو۔ حضرت موسیٰ اور تمام انسان تعجب کرتے ہیں کہ کیا یہ ظالم قوم اپنے برے انجام سے نہیں ڈرتی۔ کیا ان کو خدا کا خوف نہیں ہے۔ کیا اپنے ان مظالم کا انجام انہیں معلوم نہیں ہے۔ کیا یہ لوگ اس قدر گھنائونے جرائم کے بعد بھی باز نہیں آتے۔ ان کا معاملہ تو عجیب ہے اور تعجب انگیز ہے اور اسی طرح تمام ایسی اقوام کا معاملہ ہے جو حدت گزر جاتی ہیں۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے فرعون اور اس کی قوم کا معاملہ کوئی نیا نہیں تھا وہ تو ان کو اچھی طرح جانتے تھے وہ فرعون کے ظلم ، اس کے جبر اور اس کی سرکشی سے اچھی طرح باخبر تھے اور اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ تو ایک عظیم اور مشکل مشن ہے جو ان کے حوالے کردیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے اپنی کمزوریاں رکھ دیتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ وہ اس دعوت سے پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں اور مستقلاً معذرت کرنا چاہتے ہیں بلکہ اس مشن کے لئے مزید ضروری امداد اور معاونت کے طلبگار ہیں۔

قال رب انی اخاف ان یکذبون (26 : 12) ویضیق صدری ولاینطلق لسانی فارسل الی ھرون (26 : 31) ولھم علی ذنب فاخاف ان یقتلون (26 : 13) اس نے عرض کیا ، ” اے میرے رب ، مجھے خوف ہے کہ وہ مجھ کو جھٹلا دیں گے۔ میرا سینہ گھٹتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی۔ آپ ہارون کی طرف رسالت بھیجیں اور مجھ پر ان کے ہاں ایک جرم کا الزام بھی ہے ، اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کردیں گے۔ “

یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جو بات نقل کی گئی ہے اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے وہ محض تکذیب کے خوف سے یہ فرماتے ہیں بلکہ ان کو رسالت ایسے حالات میں دی جا رہی ہے کہ ان کے دل کے اندر تنگی پائی جاتی ہے اور ان کو طلاقت لسانی کا ملکہ حاصل نہیں ہے۔ رسالت کے سلسلے میں ان کو ہر کسی سے مباحثہ اور گفتگو کرنی ہوگی اور ان کی حالت یہ ہے کہ ان کی زبان میں لکنت ہے اور اس کے بارے میں سورت طہ میں انہوں نے تصریح فرمائی ہے۔

واحلل عقدہ من لسانی یفقھوا قولی ” اور میری زبان میں جو گرہ ہے اسے کھول دے تاکہ وہ میری بات کو سمجھیں۔ “ جب انسان کی زبان میں لکنت ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے سینہ میں تنگی پیدا جاتی ہے۔ یہ تنگی اس وقت سخت تکلیف دہ ہوتی ہے کہ انسان بات کرنا چاہتا ہے اور جذبات کے ساتھ دلائل کا اظہار چاہتا ہے اور زبان اس وقت ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ جوں جوں خیالات اور جذبات کا سیلاب رواں ہوتا ہے ، زبان بند ہوتی ہے اور دل تنگ ہوجاتا ہے اور انسان کی حالت قابل دید ہوتی ہے۔ یہ صورت حال ہر کسی کی دیکھی ہوتی ہے۔ اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر یشان ہیں کہ اگر ایسے حالات میں ان کی زبان کو گرہ لگ جائے تو بڑی عجیب پوزیشن ہوگی۔ خصوصاً جبکہ مقابلہ فرعون جیسے قہار و جبار کے ساتھ ہو۔ چناچہ حضرت نے اپنی کمزور یاپنے رب کے سامنے رکھی اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ حضرت ہارون کو بھی مقام رسالت عطا کردیا جائے۔ ان کو بھی اس منصب میں شریک کردیا جائے تاکہ وہ دونوں مل کر اس عظیم فریضے کو ادا کریں۔ مقصد یہ نہ تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس منصب کو قبول کرنے سے ہچکچا رہے ہیں یا پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں اور حضرت ہارون چونکہ حضرت موسیٰ سے زیادہ فصیح اللسان تھے اور جذباتی اعتبار سے وہ ٹھنڈے دل دماغ کے مالک تھے ۔ جب دوران کلام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان کو اگر گرہ لگ گئی تو حضرت ہارون ساتھ موجود ہوں گے وہ استدلال اور مکالمے کو آگے بڑھائیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی اس لکنت کو دور کرنے کے لئے خصوصی دعا بھی فرمائی جس طرح سورت طہ میں ہے اور ہو سکتا ہے کہ اللہ نے اسے دور بھی کردیا ہو لیکن آپ نے پھر بھی حضرت ہارون کو شریک منصب کرنے کے لئے دعا فرمائی اور فرمایا کہ انہیں ان کے لئے وزیر مقرر فرمایا جائے۔

اسی طرح حضرت نے فرمایا۔

ولھم علی ذنب فاخاف ان یقتلون (26 : 13) ” اور مجھ پر ان کے ہاں ایک جرم کا الزام بھی ہے اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کردیں گے۔ “ لہٰذا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون سے مقابلہ کرنے سے نہیں ڈرتے تھے اور نہ وہ ادائیگی فرض سے پہلوتہی چاہتے تھے بلکہ آپ حضرت ہارون کو وزیر اور شریک کار مقرر کروانا چاہتے تھے کہ اگر یہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جرم قتل میں سزائے موت دے دیں تو ان کے بعد رسالت کا کام حضرت ہارون جاری رکھیں اور اس طرح فریضہ رسالت ادا ہوتا رہے جس طرح اللہ کا حکم تھا۔

چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ احتیاطی تدابیر دعوت اسلامی اور رسالت کی خاطر اختیار کیں۔ داعی کی ذات کے لئے کچھ زیادہ فکر نہ تھی۔ یعنی اگر حضرت موسیٰ کی زبان کو گروہ لگ جائے او آپ تقریر نہ کرسکیں تو حضرت ہارون تیار ہوں ، یہ نہ ہو کہ نیا آنے والا نبی لوگوں کے سامنے تقریر کر رہا ہے اور اچانک اس کی بات ہی رک جائے اور اس طرح دعوت اسلامی کو ایک کمزوری کا سامنا کرنا پڑے۔ اسی طرح اگر ان کو قتل ہی کردیا جائے تو دعوت کا کام ہی رک جائے۔ حالانکہ دعوت کا کام جاری رہنا ضروری ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ سوچ بالکل فطری تھی۔ اس لئے کہ اللہ نے ان کو منتخب ہی اسی کام کے لئے کیا تھا اور اللہ نے اپنی نگرانی میں ان کی تربیت ہی اسی مقصد کے لئے فرمانی تھی اور ان کو اللہ نے اپنے کام کے لئے ہی بنایا تھا۔

جب حضرت موسیٰ نے اپنی اس دلچسپی کا اظہار کیا ، دعوت کے بارے میں اپنے خدشات اور احتیاطی تدابیر کا اظہار کیا تو اللہ نے ان کی درخواست قبول کرلی۔ اور آپ کو تسلی دے دی کہ آپ ڈریں نہیں ، یہاں قبولیت دعا کا مرحلہ نہایت ہی مختصر ہے۔ ہارون (علیہ السلام) کو نبی بنانا ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مصر میں پہنچنا ، ہارون (علیہ السلام) سے ملنا ، تمام واقعاتک و حذف کر کے صرف یہ دکھایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ اور ہارون دونوں اپنے رب کے احکام لے کر فرعون کے ساتھ ہمکلام ہونے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن حضرت موسیٰ کے خدشات کو صرف ایک ہی سخت لفظ سے روکا جاتا ہے جو غنی کے معنی میں آتا ہے اور جو تنبیہ کے لئے ہے کلا ” ہرگز نہیں۔ “

قال کلا ……اسرائیل (18) (26 : 15 تا 18) ” فرمایا ” ہرگز نہیں ، تم دونوں جائو ہماری نشانیاں لے کر ، ہم تمہار یساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے۔ فرعون کے پاس جائو او اس سے کہو ہم کو رب العالمین نے اس لئے بھیجا ہے کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے۔ ہرگز نہیں نہ تمہارا دل تنگ ہوگا اور نہ تمہاری زبان میں لکنت ہوگی اور وہ ہرگز تمہیں قتل نہ کرسکیں گے۔ یہ سب خدشات آپ اپنے دل سے نکال دیں تم اور تمہارا بھائی دونوں جائو۔

فاذھبا بایتنا (26 : 15) ” جائو ہماری نشانیاں لے کر “ ان نشانیوں میں سے عصا اور ید بیضا کی نشانی تو حضرت موسیٰ نے دیکھی ہوئی تھی۔ یہاں ان سب باتوں کو مختصر کردیا جاتا ہے کیونکہ اس سورت میں پیش نظر فرعون کے سامنے رسالت کا پیش کرنا ، جادوگروں کے کرتب دکھانا اور فرعون کی غرقابی کی منظر کشی کرنا ہے۔ جائو انا معکم مستمعون (26 : 15) ” ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے “ نہایت ہی زور دار اور تاکیدی الفاظ میں کہا جاتا ہے ، جائو تمہیں اللہ کی حمایت یا رعایت اور تحفظ حاصل ہے۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے جس طرح وہ ہر وقت ، ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے لیکن یہاں اللہ کی موجودگی کا مقصد یہ ہے کہ ہم تمہاری مدد اور تائید کے لئے حاضر ہیں۔

یہاں نصرت و تائید کا یقین یوں دلایا گیا ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں ، سن رہے ہیں یعنی حضوری اور توجہ انسانوں کے نزدیک اپنے عروج پر ہوتی ہے جب انسان سنتا ہے اس لئے ان کو یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ میری امداد اور نصرت ہر وقت حاضر ہے۔ یہ ہے قرآن کریم کا انداز کہ وہ ہر چیز کو ایک شخص اور مجسم صورت میں پیش کرتا ہے۔ اذھبا ” جائو “

فاتبا فرعون ” فرعون کے پاس جائو “ اور اس کو اپن یمہم سے آگاہ کردیا اور بغیر کسی خوف کے اس کے سامنے اپنا مطلب صاف صاف بیان کر دو ۔

فقولا انا رسول رب العلمین (26 : 16) ” کہ ہم رب العالمین کے بھیجے ہوئے ہیں۔ ‘ یہ تو دو ہیں لیکن چونکہ ہم ایک ہیں ، رسالت ایک ہے ، اس لئے دونوں ایک رسول ہیں۔ یہ اس فرعون کے سامنے کھڑے ہیں جو الوہیت کا دعویٰ کرتا تھا اور اپنی قوم کو یوں باور کراتا تھا۔

ماعلمت لکم من الہ غیری ” میں تمہارے لئے ، اپنے سوا کسی دوسرے الہ کو نہیں جانتا۔ “ یوں اس فرعون کے سامنے سب سے پہلے اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہم دونوں رب العالمین کے فرستادہ ہیں یعنی وہ عالمین کا رب ہے اور وہ عالمین کا رب ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے اور اس میں کوئی مداہنت اور لیپا پوتی نہیں ہو سکتی۔

انا رسول رب العلمین (26 : 16) ان ارسل معنا بنی اسرآئیل (26 : 18) ” ہم کو رب العالمین نے اس لئے بھیجا ہے کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔ “ قصہ موسیٰ کے ان اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) کو فرعون کے پاس اس لئے رسول بنا کر نہ بھیجا تھا کہ حضرت موسیٰ فرعون اور اس کی قوم کو دین اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دیں اور اسلام کے دین کو قبول کریں بلکہ ان کے پاس صرف اس لئے بھیجا گیا تھا کہ فرعون اور اس کی قوم سے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کردیں۔ وہ اس کی غلامی سے آزاد ہوجائیں اور پھر جس طرح چاہیں اپنے رب کی بندگی کریں۔ وہ تو پہلے سے دین اسلام کے پیروکار تھے۔ حضرت یعقوب ، حضرت یوسف کے دین کو مانتے تھے البتہ ان کے نظریات اور ان کے ذہن میں انحراف ہوگیا تھا ان کے عقائد میں بگاڑ پیدا وہ گیا تھا اس لئے اللہ نے ان کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو دوبارہ ارسال کیا کہ وہ ان کے عقائد بھی درست کردیں اور ان کو فرعون کی غلامی سے بھی نجات دلائیں اور ان کو اچھی تربیت دے کر دوبارہ عقیدہ توحید پر قائم کردیں۔

……

یہاں تک تو ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) کو نبوت عطا ہوئی ، ان پر وحی آئی اور ان کو دعوت اسلامی کا مشن عطا ہوا۔ اب پردہ گرتا ہے اور دوسرے منظر میں پھر ہم فرعون کے دربار میں کھڑے ہیں۔ ان دونوں مناظر کے درمیان جو غیر ضروری افعال و حرکات ہیں ان کو کاٹ دیا جاتا ہے اور یہ قرآن کریم کا ایک مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ مناظر و مشاہد کے درمیان سے غیر ضروری حصے کاٹ دیتا ہے یا مختصر کردیتا ہے۔

اردو ترجمہ

فرعون کی قوم کے پاس، کیا وہ ڈرتے نہیں؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qawma firAAawna ala yattaqoona

اردو ترجمہ

اُس نے عرض کیا "اے رب، مجھے خوف ہے کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala rabbi innee akhafu an yukaththibooni

اردو ترجمہ

میرا سینہ گھٹتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی آپ ہارونؑ کی طرف رسالت بھیجیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayadeequ sadree wala yantaliqu lisanee faarsil ila haroona

اردو ترجمہ

اور مجھ پر اُن کے ہاں ایک جرم کا الزام بھی ہے، اس لیے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walahum AAalayya thanbun faakhafu an yaqtulooni

اردو ترجمہ

فرمایا "ہرگز نہیں، تم دونوں جاؤ ہماری نشانیاں لے کر، ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala kalla faithhaba biayatina inna maAAakum mustamiAAoona

اردو ترجمہ

فرعون کے پاس جاؤ اور اس سے کہو، ہم کو رب العٰلمین نے اس لیے بھیجا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fatiya firAAawna faqoola inna rasoolu rabbi alAAalameena

اردو ترجمہ

کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

An arsil maAAana banee israeela

اردو ترجمہ

فرعون نے کہا "کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا؟ تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں گزارے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala alam nurabbika feena waleedan walabithta feena min AAumurika sineena

قال الم نربک ……بنی اسرآئیل (22)

فرعون کو سخت تعجب ہوتا ہے۔ وہ یقین نہیں کرسکتا کہ موسیٰ اس قدر عظیم دعویٰ بھی کرسکتے ہیں کہ میں (رسول رب العالمین) ہوں اور پھر وہ فرعون سے اس قدر عظیم مطالبہ کرتے ہیں۔

ان ارسل معنا بنی اسرآئیل (26 : 18) ” کہ ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دو ۔ “ کیونکہ انہوں نے جب موسیٰ کو آخری بار دیکھا تھا تو وہ ان کے گھر میں ان کا پروردہ تھا ، جس کے صندوق کو انہوں نے دریا سے اٹھا لیا تھا اور پھر ایک قبطی کے قتل کے بعد بھاگ گیا تھا۔ وہ قطبی جو ایک اسرائیل کے ساتھ ناحق الجھ رہا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ قبطی فرعون کے حاشیہ نشینوں میں سے تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) دس سال تک غائب رہے اور اب آئے تو اس عظیم اور ناقابل تصور مطالبے کے ساتھ یہی وجہ ہے کہ فرعون بات کا آغاز نہایت تعجب ، حقارت اور مزاحیہ انداز سے کرتا ہے کہ تم وہی تو ہو جس نے یہ یہ کام کئے اور اب :

قال الم …الکفرین (26 : 19) ” فرعون نے کہا ” کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا ؟ تو نے اپنی عمر کے کء سال مہارے ہاں گزارے اور اس کے بعد کر گیا جو کچھ کر گیا تو بڑا احسان فراموش آدمی ہے۔ “ کیا اس پرورش اور عزت کا یہ صلہ ہے جو تو ہمیں دے رہا ہے ؟ اب تو آیا ہے اور ہم جس نظام زندگی کے مطابق اپنا نظام چلا رہے ہیں تو اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ تاکہ تو اس بادشاہ کے خلاف بغاوت کر دے جس کے گھر میں پلا ہے اور میرے سوا تو کسی اور الہ اور رب اور حاکم کی بات کرتا ہے۔ تو ایک عرصہ تک ہمارے اندر رہ چکا ہے ، اس وقت تو تو نے کبھی ایسا کوئی پروگرام نہیں بنایا۔ نہ ایسے دعوے کئے جو اب کر رہا ہے۔ اس عظیم پروگرام سے تو ، تو نے ہمیں خبردار نہیں کیا۔

اور فرعون قبطی کے قتل کے واقعہ کو نہایت مبالغے کے ساتھ پیش کرتا ہے اور دھمکی آمیز انداز میں یاد دلاتا ہے۔

وفعلت فعلتک التی فعلت (62 : 19) ” اور تو نے وہ اپنا کام کیا جو تو نے کیا۔ “ یعنی بہت ہی برا کام ، اس قدر برا کہ اس کو صراحت کے ساتھ منہ پر لانا ہی اچھا نہیں ہے۔ تو نے اس قدر عظیم جرم کا ارتکاب کیا۔

وانت من الکفرین (26 : 19) ” اس طرح تو رب العالمین کا منکر بن گیا۔ “ اور اب تو اسی رب العالمین کی باتیں کرتا ہے۔ اس وقت تو تو رب العالمین کی بات نہ کرتا تھا۔

یوں فرعون نے حضرت موسیٰ کی تردید میں تمام مسکت دلائل گنوا دیئے اور اس نے یہ خیال کیا کہ شاید موسیٰ (علیہ السلام) ان دلائل کے بعد لاجواب ہوجائیں گے۔ کوئی مقابلہ نہ کرسکیں گے ، خصوصاً اس نے ایک سابق مقدمہ قتل کی

طرف بھی اشارہ کردیا اور بالواسطہ دھمکی دے دی ہے کہ تمہارے خلاف اس مقدمہ کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے اور سزائے قصاص تم پر نافذ ہو سکتی ہے۔

لیکن حضرت موسیٰ کی تو دعا قبول ہوچکی تھی۔ اب ان کی زبان میں کوئی گرہ نہ تھی۔ وہ بڑی روانی سے کہہ رہے تھے۔

قال فعلتھا ……المرسلین (26 : 21) وتلک نعمۃ تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل (26 : 22) ” موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا ” اس وقت وہ کام میں نے نادانستگی میں کردیا تھا۔ پھر میں تمہارے خوف سے بھاگ گیا۔ اس کے بعد میرے رب نے مجھ کو حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں شامل فرما لیا۔ رہا تیرا احسان ، جو تو نے مجھ پر جتایا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا۔ “ میں نے جو مستحق کا ارتکاب کیا تو اس وقت میں نادان تھا۔ اس وقت میں نے اپنی مظلوم قوم کی حمایت کی بنا پر یہ فعل کیا تھا۔ یہ کام میں اپنے اس نظریہ حیات کی حمایت میں نہ کیا تھا جو اللہ نے اب مجھے بطور حکمت عطا کیا ہے۔

فقرت منکم لما خفتکم (26 : 21) ” پھر میں تمہارے خوف سے بھاگ گیا “۔ کیونکہ مجھے جان کا ڈر تھا۔ اللہ کو میری خیریت مطلوب تھی۔ اس نے مجھے یہ حکمت عطا کرنی تھی۔

وجعلنی من المرسلین (26 : 21) ” اور مجھے رسولوں میں شامل کرلیا۔ “ میں کوئی نیا رسول نہیں ہوں۔ میں جماعت رسل میں سے ایک ہوں۔

اب حضرت موسیٰ اس شخص کی طنز کا جواب طنزیہ انداز میں دیتے ہیں۔

وتلک نعمۃ تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل (26 : 22) ” یہ احسان جو تو نے مجھ پر جتایا ہے ، اس کی حقیقت یہ ہے کہ تو نے بنی اسرائیل غلام بنا لیا تھا۔ “ میں تمہارے گھر میں باہر مجبوری پلا ، کیونکہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا۔ تو ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا ، اس وجہ سے میری ماں مجبور ہوئی کہ مجھے صندوق میں بند کر کے موجوں کے حوالے کر دے ۔ اس طرح تم لوگوں نے صندوق کو پکڑ لیا اور اس طرح میں تمہارے گھر میں پلا اور والدین کے گھر میں پلنے سے محروم رہا تو کیا یہ ہے وہ احسان جو تم جتلاتے ہو اور کیا یہ تمہاری مہربانیاں ہیں ؟

اب فرعون اپنی بات بدل دیتا ہے۔ اس موضوع کو چھوڑ کر اب وہ اصل بات پر آجاتا ہے لیکن یہاں بھی وہ مستکبرین کی طرح تجاہل عارفانہ کے انداز میں بات کرتا ہے۔ مزاحیہ اور گستاخانہ انداز اور گستاخی بھی رب العالمین کے نجاب میں۔

اردو ترجمہ

اور اس کے بعد کر گیا جو کچھ کہ کر گیا، تو بڑا احسان فراموش آدمی ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WafaAAalta faAAlataka allatee faAAalta waanta mina alkafireena
367