اس صفحہ میں سورہ At-Takwir کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التكوير کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 4{ وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ۔ } ”اور جب گابھن اونٹنیاں چھٹی پھریں گی۔“ العِشار سے دس مہینوں کے حمل والی اونٹنیاں مراد ہیں ‘ یعنی ایسی اونٹنیاں جن کے وضع حمل کا وقت بہت قریب ہو۔ عربوں کے ہاں ایسی اونٹنی بہت قیمتی سمجھی جاتی تھی اور اس لحاظ سے وہ لوگ اس کی خصوصی حفاظت اور خدمت کرتے تھے۔ آیت میں اس حوالے سے قیامت کی ہولناک کیفیت کی تصویر دکھائی گئی ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی تو بہت قیمتی اونٹنیاں بھی لاوارث ہوجائیں گی ‘ انہیں کوئی سنبھالنے والا نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے اس وقت جبکہ خود عورتوں کو اپنے حمل کی کوئی فکر نہیں ہوگی تو اونٹنیوں کی کسے ہوش ہوگی۔
آیت 5{ وَاِذَا الْــوُحُوْشُ حُشِرَتْ۔ } ”اور جب وحشی جانور جمع کردیے جائیں گے۔“ عام طور پر جنگلی جانور ایک دوسرے سے دور بھاگتے ہیں ‘ لیکن اس دن خوف کے مارے ان کی وحشت بھی جاتی رہے گی اور مختلف اقسام کے جانور بھی اکٹھے ہوجائیں گے۔
آیت 6{ وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ۔ } ”اور جب سمندر دہکا دیے جائیں گے۔“ اگلی سورت یعنی سورة الانفطار میں سمندروں کے پھاڑے جانے { وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ۔ } کا ذکر ہے۔ ان دونوں آیات پر غور کریں تو یوں لگتا ہے کہ جب زمین کو کھینچ کر پھیلایا جائے گا { وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ۔ } الانشقاق تو اس کی اندرونی تپش اوپری سطح پر آجائے گی۔ چناچہ دہکتے ہوئے لاوے کے عین اوپر سمندراُبل رہے ہوں گے اور اس طرح سمندروں کا پانی بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہوجائے گا۔ واللہ اعلم !
آیت 7{ وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ۔ } ”اور جب جانوں کے جوڑ ملائے جائیں گے۔“ یعنی پوری نسل انسانی کے مختلف افراد کی گروہ بندی کردی جائے گی۔ یہ گروہ بندی لوگوں کے اعمال اور انجام کے حوالے سے ہوگی جیسے سورة النمل ‘ آیت 83 اور سورة حٰمٓ السجدۃ ‘ آیت 19 میں اہل جہنم کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیے جانے کا ذکر آیا ہے۔ اس آیت کا مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ جب جانیں جسموں کے ساتھ جوڑ دی جائیں گی۔
آیت 9{ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ۔ } ”کہ وہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی تھی ؟“ م یہ تذکیر و انذار کا بہت لطیف انداز ہے۔
آیت 1 1{ وَاِذَا السَّمَآئُ کُشِطَتْ۔ } ”اور جب آسمان کی کھال اتار لی جائے گی۔“ یعنی آسمان پر سے پردہ اٹھادیا جائے گا اور اس کے وہ سب رموز اور مناظر جو انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ تھے ان پر ظاہر ہوجائیں گے۔ اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ آسمان اس دن کھال اترے ہوئے کسی جانور کے جسم کی طرح سرخ نظر آئے گا ‘ جیسا کہ سورة الرحمن کی اس آیت میں بھی بتایا گیا ہے : { فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآئُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّہَانِ۔ } ”پھر جب آسمان پھٹ جائے گا اور ہوجائے گا گلابی ‘ تیل کی تلچھٹ جیسا۔“
آیت 13{ وَاِذَا الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ۔ } ”اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی۔“ ان تیرہ آیات میں قیامت کے دن کی مختلف کیفیات کا ذکر کرنے کے بعد جو اہم اور اصل بات بتانا مقصود ہے وہ یہ ہے :
آیت 14{ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ۔ } ”اُس دن ہر جان جان لے گی کہ اس نے کیا کچھ حاضر کیا ہے۔“ یعنی ہر انسان کے تمام اعمال کی پوری تفصیل اس کے سامنے آجائے گی۔
آیت 15 ‘ 16{ فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ - الْجَوَارِ الْکُنَّسِ۔ } ”تو نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے ‘ چلنے والے اور چھپ جانے والے ستاروں کی۔“ یعنی ایسے ستارے جو سیدھا چلتے چلتے پھر پیچھے ہٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی رح لکھتے ہیں :”کئی سیاروں مثلاً زحل ‘ مشتری ‘ مریخ ‘ زہرہ ‘ عطارد کی چال اس ڈھب سے ہے کہ کبھی مغرب سے مشرق کو چلیں ‘ یہ سیدھی راہ ہوئی ‘ کبھی ٹھٹک کر الٹے پھریں اور کبھی سورج کے پاس آکر کتنے دنوں تک غائب رہیں۔“بہرحال یہ آیات آج کے ماہرین فلکیات کو دعوت تحقیق دے رہی ہیں کہ وہ جدید معلومات کی روشنی میں ان الفاظ الْخُنَّساور الْجَوَارِ الْکُنَّس کے لغوی معانی کے ساتھ ستاروں کی دنیا کے رموز و حقائق کی مطابقت ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔
آیت 17{ وَالَّیْلِ اِذَا عَسْعَسَ۔ } ”قسم ہے رات کی جب وہ روانہ ہونے لگے۔“ یہ آیت اور سورة المدثر کی یہ آیت باہم مشابہ اور ہم معنی ہیں : { وَالَّـیْلِ اِذَا اَدْبَرَ۔ } ”اور قسم ہے رات کی جب کہ وہ پیٹھ موڑے۔“
آیت 18{ وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ۔ } ”اور صبح کی جب وہ سانس لے۔“ یعنی صبح صادق کا وہ وقت جب رات کے سناٹے میں سے زندگی انگڑائی لیتی ہوئی آہستہ آہستہ بیدار ہوتی ہے۔
آیت 19{ اِنَّہٗ لَـقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ۔ } ”یقینا یہ قرآن ایک بہت باعزت پیغامبر کا قول ہے۔“ یہاں ”رَسُوْلٍ کَرِیْم“ سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ یہ آیت قبل ازیں سورة الحاقہ میں بھی بطور آیت 40 آچکی ہے اور وہاں ”رَسُوْلٍ کَرِیْم“ سے مراد محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ سورة الحج آیت 75 میں فرمایا گیا ہے : { اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِط } ”اللہ ُ چن لیتا ہے اپنے پیغامبر فرشتوں میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی“۔ چناچہ فرشتوں میں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ُ چنا اور انسانوں میں سے حضرت محمد ﷺ کو اور یوں ان دو ہستیوں کے ذریعے سے ”رسالت“ کا سلسلہ تکمیل پذیر ہوا۔ زیر مطالعہ آیات میں رسول کریم بشر محمد ٌرسول اللہ ﷺ اور رسول کریم ملک حضرت جبرائیل کی ملاقات کا ذکر بھی آ رہا ہے کہ رسالت کی ان دو کڑیوں کے ملنے کا ثبوت فراہم ہوجائے۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة النجم میں بھی آچکا ہے۔
آیت 20{ ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ۔ } ”جو جبرائیل بہت قوت والا ہے ‘ صاحب ِعرش کے نزدیک بلند مرتبہ ہے۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے خاص مقربین میں سے ہیں۔
آیت 21{ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ۔ } ”جس کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ امانت دار بھی ہے۔“ حضرت جبرائیل علیہ السلام تمام فرشتوں کے سردار ہیں۔ اس لحاظ سے آپ علیہ السلام تمام فرشتوں کے مطاع ہیں یعنی تمام فرشتے آپ علیہ السلام کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور آپ علیہ السلام امانت دار ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام جوں کا توں انبیاء و رسل - تک پہنچاتے رہے ہیں۔
آیت 22{ وَمَا صَاحِبُـکُمْ بِمَجْنُوْنٍ۔ } ”اور تمہارے یہ ساتھی محمد ﷺ کوئی مجنون نہیں ہیں۔“ زیر مطالعہ آیات سورة النجم کی ابتدائی آیات کے ساتھ خصوصی مناسبت اور مشابہت رکھتی ہیں۔ وہاں بھی اس مضمون کا آغاز ستارے کی قسم وَالنَّجْم سے ہوا ہے اور یہاں بھی اس موضوع پر بات شروع کرنے سے پہلے آیات 15 اور 16 میں ستاروں کی قسمیں کھائی گئی ہیں۔ وہاں صَاحِبُکُمْ سے بات شروع ہو کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذکر تک آئی ہے ‘ جبکہ یہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر پہلے اور صَاحِبُکُمْ کا بیان بعد میں آیا ہے۔ وہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر شَدِیْدُ الْقُوٰی کے لقب سے ہوا ہے جبکہ یہاں ان علیہ السلام کی شان میں ذِیْ قُوَّۃٍ کے الفاظ آئے ہیں۔
آیت 23{ وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ۔ } ”اور انہوں نے دیکھا ہے اس کو کھلے افق پر۔“ یعنی ہمارے نبی ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو کھلے اور روشن افق پر دیکھا ہے ‘ اس میں کوئی اشتباہ نہیں ہے۔ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْن کے لیے سورة النجم میں ’ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی ‘ آیت 7 کی ترکیب آئی ہے۔
آیت 24{ وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ۔ } ”اور وہ غیب کے معاملے میں حریص یا بخیل نہیں ہیں۔“ ’ ضَنِیْن ‘ کا ترجمہ حریص بھی کیا گیا ہے اور بخیل بھی۔ دراصل بخل اور حرص دونوں لازم و ملزوم ہیں اور ایک ہی مفہوم کے دو پہلوئوں کو واضح کرتے ہیں۔ حریص کے معنی میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ہمارے نبی ﷺ کی پوری زندگی تم لوگوں کے سامنے ہے۔ کیا انہوں ﷺ نے کاہنوں اور نجومیوں کے ساتھ کبھی دوستی رکھی ہے ؟ یا غیب کی خبریں معلوم کرنے کے لیے کیا انہوں ﷺ نے کبھی ریاضتیں وغیرہ کرنے کی کوشش کی ہے ؟ ظاہر ہے ان ﷺ کی زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ چناچہ تم لوگ یہ نہیں کہہ سکتے ہو کہ وہ غیب کی خبروں کے معاملے میں شروع ہی سے ”حریص“ تھے۔ اسی طرح وہ ﷺ اس بارے میں بخیل بھی نہیں ہیں اور اس حقیقت کے بھی تم خود گواہ ہو۔ انہیـں ﷺ غیب کی جو خبریں معلوم ہوتی ہیں وہ تم لوگوں کو بتاتے ہیں۔ کیا کاہن اور نجومی بھی غیب کی خبریں اسی طرح کھلے عام لوگوں کو بتاتے ہیں ؟ کسی کاہن کے پاس تو غیب کا علم ہوتا ہی نہیں اور جو کسی قیاس آرائی یا ظن وتخمین کی بنا پر وہ کچھ جانتا ہے اس پر وہ اپنا کاروبار چمکاتا ہے۔ گویا ”ہلدی کی گانٹھ“ مل جانے پر وہ پنساری بن کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی ایک ایک بات کے عوض منہ مانگے نذرانے وصول کرتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے رسول ﷺ نے اگر فرشتے کو دیکھا ہے تو انہوں ﷺ نے سرعام تم لوگوں کو بتادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں غیب کا جو علم دیا جا رہا ہے وہ ﷺ من وعن تم لوگوں کو بتاتے ہیں اور اس معاملے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ 1
آیت 25{ وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ۔ } ”اور یہ کسی شیطانِ مردود کا قول نہیں ہے۔“ شیاطین جن چونکہ غیب کے نام پر جھوٹی سچی خبریں کاہنوں تک پہنچاتے رہتے تھے اس لیے یہاں اس امکان کی بھی تردید کردی گئی ہے۔ یعنی تم لوگ یہ مت سمجھو کہ جنوں میں سے کسی شیطان نے انہیں ﷺ کوئی پٹی ّپڑھا دی ہے معاذ اللہ۔ یہی مضمون سورة الحاقہ میں زیادہ وضاحت اور زیادہ ُ پرزور انداز میں یوں بیان ہوا ہے : { فَلَآ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ - وَمَا لَا تُبْصِرُوْنَ۔ } ”میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جو تم دیکھتے ہو اور ان کی بھی جو تم نہیں دیکھتے ہو“۔ یہاں پر مَا تُبْصِرُوْنَ سے شاعری وغیرہ مراد ہے ‘ اس لیے کہ شاعر لوگ اپنی سوچ اور فکر سے شعر کہتے ہیں ‘ جبکہ مَا لَا تُبْصِرُوْنَ کے الفاظ میں شیاطین جن کی خبروں کی طرف اشارہ ہے جو وہ کاہنوں تک پہنچاتے تھے۔ { اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ - وَّمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍط قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ - وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍط قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ۔ } ”یہ قول ہے رسول کریم کا۔ اور یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔ کم ہی ہے جو تم یقین کرتے ہو۔ اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے۔ کم ہی ہے جو تم غور کرتے ہو۔“
آیت 26{ فَاَیْنَ تَذْہَبُوْنَ۔ } ”تو تم کدھر چلے جا رہے ہو ؟“ تمہاری بھلائی اور کامیابی تو اس میں تھی کہ تم لوگ ہمارے رسول ﷺ پر ایمان لاتے اور ان ﷺ کی طرف جو وحی آرہی ہے اس کے نور سے اپنے دلوں کو منور کرتے ‘ لیکن تم لوگوں نے اس کے بجائے ان ﷺ کی تکذیب اور مخالفت کی روش اپنا رکھی ہے۔ تم لوگ کبھی سنجیدگی سے غور تو کرو کہ اللہ کے کلام سے منہ موڑ کر تم لوگ کس طرف جا رہے ہو۔
آیت 27{ اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ } ”نہیں ہے یہ مگر تمام جہان والوں کے لیے ایک یاد دہانی۔“ قرآن مجید اس مفہوم میں ذکر یعنی یاد دہانی ہے کہ یہ انسان کی فطرت میں پہلے سے موجود حقائق کی یاد تازہ کرتا ہے۔ دراصل انسان فطری طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات اور توحید کے تصور سے آشنا ہے ‘ مگر دنیا میں رہتے ہوئے اگر انسان کی فطرت پر غفلت کے پردے پڑجائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ سورة الحشر کی آیت 19 میں اس حوالے سے ہم اللہ تعالیٰ کا یہ حکم پڑھ چکے ہیں : { وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹھُمْ اَنْفُسَھُمْط } کہ اے اہل ایمان ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے ہی غافل کردیا۔ بہرحال اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان باللہ سے متعلق وہ حقائق جو ہر انسان کی فطرت میں مضمر ہیں پس ِپردہ چلے جاتے ہیں۔ چناچہ قرآنی تعلیمات انسانی فطرت میں موجود ان تمام حقائق کو خفتہ dormant حالت سے نکال کر پھر سے فعال active کرنے میں اس کی مدد کرتی ہیں۔
آیت 28{ لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَ۔ } ”ہر اس شخص کے لیے جو تم میں سے سیدھے راستے پر چلنا چاہے۔“ یعنی قرآن ہر اس شخص کے لیے یاد دہانی ہے جو ہدایت کا طالب ہو اور پورے خلوص سے چاہتا ہو کہ وہ گمراہی سے نکل کر ہدایت کے راستے پر آجائے۔
آیت 29 { وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۔ } ”اور تمہارے چاہے بھی کچھ نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ نہ چاہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔“ یہ مضمون قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے ‘ یعنی کسی انسان کو ہدایت تبھی ملے گی جب وہ خود بھی اس کے لیے ارادہ کرے اور پھر اللہ بھی اسے ہدایت دینا چاہے۔ ظاہر ہے ہر کام اللہ ہی کے اذن اور اسی کی توفیق سے ہوتا ہے۔ لیکن ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ انسان کی اپنی خواہش اور طلب کا شامل ہونا بہت ضروری ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ زبردستی کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا۔ اگر ایسا ہو تو پھر سزا اور جزا کا سارا فلسفہ ہی غلط ہوجاتا ہے۔