اس صفحہ میں سورہ Al-Mujaadila کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المجادلة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1 { قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا } ”اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اے نبی ﷺ ! آپ سے جھگڑ رہی ہے اپنے شوہر کے بارے میں“ { وَتَشْتَـکِیْٓ اِلَی اللّٰہِ } ”اور وہ اللہ سے بھی فریاد کر رہی ہے۔“ { وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا } ”اور اللہ سن رہا ہے آپ دونوں کے مابین ہونے والی گفتگو۔“ { اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌم بَصِیْرٌ۔ } ”یقینا اللہ سب کچھ سننے والا ‘ سب کچھ دیکھنے والا ہے۔“ ”قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ“ کے معنی یہاں محض سن لینے کے نہیں ‘ بلکہ قبول کرلینے اور فریاد رسی کرنے کے ہیں۔ یہ ”ظہار“ کے معاملے کا ذکر ہے جو ایک صحابی حضرت اوس رض بن صامت انصاری اور ان کی بیوی حضرت خولہ رض بنت ثعلبہ کے درمیان پیش آیا۔ کسی شخص کا اپنی بیوی کو اپنی ماں یا اپنی ماں کے کسی عضو سے تشبیہہ دینا اصطلاحاً ”ظہار“ کہلاتا ہے ‘ مثلاً کسی کا اپنی بیوی کو یوں کہہ دینا کہ تم میرے لیے میری ماں کی طرح ہو یا میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہو۔ عربوں کے ہاں اس کے لیے یہ الفاظ کہے جاتے تھے : ”اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّی“ یعنی اب تجھ کو ہاتھ لگانا میرے لیے گویا اپنی ماں کی پیٹھ کو ہاتھ لگانا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں ظہار کو طلاق ہی کی طرح سمجھا جاتا تھا ‘ بلکہ طلاق میں تو حالات و قرائن کے مطابق پھر بھی رجوع کی گنجائش تھی ‘ لیکن ظہار کی صورت میں میاں بیوی میں عمر بھر کے لیے علیحدگی ہوجاتی تھی اور وہ دوبارہ کبھی کسی بھی صورت میں میاں بیوی کے طور پر اکٹھے نہیں ہوسکتے تھے۔ روایات میں مذکورہ معاملے کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے کہ حضرت اوس رض غصے کی حالت میں اپنی بیوی سے ظہار کر بیٹھے۔ اس پر ان کی بیوی حضرت خولہ رض بنت ثعلبہ فریاد لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ حضور ﷺ اوس رض نے یہ کردیا ہے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ‘ اب میں ان کو لے کر کہاں جائوں گی ؟ ان کو کیسے پالوں گی ؟ آپ ﷺ اس پریشانی کا کوئی حل بتائیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ظہار کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ابھی تک کوئی حکم نازل نہیں فرمایا ‘ اس لیے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حضور ﷺ کے توقف پر وہ بدستور اصرار کرتی رہیں کہ حضور ﷺ آپ کچھ کریں ! ‘ میرا کیا بنے گا ؟ میرے بچے ہلاک ہوجائیں گے ! اسی کیفیت میں کبھی وہ اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتیں کہ اے اللہ ! تو میری فریاد کو سن لے اور میرے لیے کوئی راستہ پیدا کر دے ! روایات کے مطابق اس اصرار و تکرار کے دوران ہی زیر مطالعہ آیات نازل ہوئیں۔ پہلی آیت کا انداز خصوصی طور پر بہت شفقت بھرا ہے کہ اے نبی ﷺ ! اللہ نے اس خاتون کی اس بحث و تکرار کو سن لیا ہے جو وہ آپ ﷺ کے ساتھ کر رہی ہے۔ حضرت خولہ رض بنت ثعلبہ کی فریاد پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دریا موج میں آیا اور ظہار کے بارے میں مستقل قانون بنا دیا گیا۔ یہ قانون اگلی تین آیات میں بیان ہوا ہے۔
آیت 2 { اَلَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَآئِہِمْ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمْ } ”اے مسلمانو ! تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں کو مائیں کہہ بیٹھتے ہیں ‘ وہ ان کی مائیں نہیں بن جاتی ہیں۔“ جس طرح کسی کو کوئی بیٹا کہہ دے تو وہ اس کا بیٹا نہیں بن جاتا اور جس طرح منہ بولے بیٹے کی کوئی قانونی و شرعی حیثیت نہیں اسی طرح زبان سے اگر کوئی اپنی بیوی کو اپنی ماں کہہ دے تو ایسے کسی دعوے یا جملے کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ { اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا اللّٰٓئِیْ وَلَدْنَہُمْ } ”ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنا ہے۔“ { وَاِنَّہُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا } ”البتہ یہ لوگ ایک نہایت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔“ یہ لوگ اپنی بیویوں کو اپنی مائیں کہہ کر ایک نہایت بےہودہ ‘ شرمناک اور نامعقول بات منہ سے نکالتے ہیں۔ پھر یہ بات جھوٹی بھی ہے کہ ان کی بیویاں ان کے لیے اب مائیں ہوگئی ہیں۔ { وَاِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ۔ } ”اور یقینا اللہ بہت معاف فرمانے والا ‘ بہت بخشنے والا ہے۔“ ان الفاظ میں یہ اشارہ دے دیا گیا کہ ظہار سے متعلق چونکہ ابھی تک کوئی قانون نازل نہیں ہوا تھا ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ مذکورہ صحابی رض کو اس معاملے میں معاف فرما دے گا ‘ بلکہ اس سے پہلے جس کسی سے بھی یہ حرکت سرزد ہوئی ‘ اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمائے گا۔
آیت 3 { وَالَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِہِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُـوْا } ”اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کربیٹھیں ‘ پھر وہ اپنی کہی ہوئی بات سے واپس لوٹنا چاہیں“ { فَتَحْرِیْرُ رَقَـبَۃٍ مِّنْ قَـبْلِ اَنْ یَّـتَمَآسَّا } ”تو ایک غلام کا آزاد کرنا ہوگا ‘ اس سے پہلے کہ وہ ایک دوسرے کو مس کریں۔“ یعنی اس معاملے کا کفارہ ادا کرو اور پھر سے میاں بیوی کی طرح رہو ! { ذٰلِکُمْ تُوْعَظُوْنَ بِہٖ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۔ } ”یہ بات ہے جس کی تمہیں نصیحت کی جا رہی ہے۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔“
آیت 4 { فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا } ”تو جو کوئی غلام نہ پائے وہ دو مہینوں کے روزے رکھے لگاتار ‘ اس سے پہلے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں۔“ یعنی دو ماہ کے روزے اس طرح متواتر رکھے جائیں کہ درمیان میں کسی دن کا روزہ چھوٹنے نہ پائے۔ { فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا } ”تو جو کوئی یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔“ اگر کوئی شخص کمزور ہے ‘ ضعیف العمر ہے یا ایسا مریض ہے کہ دو ماہ کے لگاتار روزے رکھنا اس کے لیے ممکن نہیں تو وہ ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ اس کے لیے اوسط معیار وہی ہوگا جو سورة المائدۃ کی آیت 89 میں قسم کے کفارے کے ضمن میں بیان ہوا ہے : { مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ } یعنی جس معیار کا کھانا متعلقہ شخص اپنے اہل و عیال کو معمول کے مطابق کھلاتا ہے ‘ ویسا ہی کھانا وہ ساٹھ مسکینوں کو کھلائے۔ { ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ } ”یہ اس لیے تاکہ تم ایمان رکھو اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر۔“ اس فقرے پر میں بہت عرصہ سوچ بچار کرتا رہا ‘ بالآخر مجھے اس بارے میں یہ نکتہ سمجھ میں آیا کہ جب کوئی شخص کفارہ کو اللہ کا قانون سمجھتے ہوئے اس کی سختی برداشت کرتا ہے تو اس کے ایمان میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی جس طرح ایمان سے عمل صالح پیدا ہوتا ہے ‘ اسی طرح عمل صالح سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ‘ جیسے کہ سورة الحجرات میں فرمایا گیا :{ یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْ بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰٹکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ } ”اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ پر احسان دھر رہے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں ! ان سے کہیے کہ مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ دھرو ‘ بلکہ اللہ تم پر احسان دھرتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کے راستے پر ڈال دیا ہے ‘ اگر تم سچے ہو۔“یعنی تم لوگ اسلام میں داخل ہو کر گویا ایمان کے راستے پر چل پڑے ہو۔ اس بارے میں تم اللہ کا احسان مانو کہ وہ تمہیں ایمان کے راستے پر لے آیا ہے۔ اگر تم اخلاص کے ساتھ اس راستے پر چلتے ہوئے اعمالِ صالحہ کا اہتمام کرتے رہو گے تو تم ایمان تک بھی ضرور پہنچ جائو گے۔ یہاں { ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ } کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص غلطی کے بعد توبہ کرتے ہوئے کفارہ ادا کرے گا تو اللہ کے قانون پر عمل درآمد کرنے کی وجہ سے اس کے دل میں ایمان باللہ اور ایمان بالرسول مزید راسخ اور پختہ ہوجائے گا۔ { وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ } ”اور یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ‘ اور کافروں کے لیے بہت دردناک عذاب ہے۔“
آیت 5{ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ } ”یقینا وہ لوگ جو تل گئے ہیں مخالفت کرنے پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی“ اس مضمون کا تعلق سورة الحدید کے مرکزی مضمون کے ساتھ ہے۔ سورة الحدید کی آیت 25 میں انبیاء و رسل علیہ السلام کی بعثت اور کتاب و میزان کے نزول کا مقصد یہ بتایا گیا ہے : لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ تاکہ انسانی معاشرے میں اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے نظامِ عدل وقسط کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔ اب ظاہر ہے اہل ایمان جونہی اس مشن کے علمبردار بن کر اٹھیں گے تو شیطانی قوتیں بھی ان کا راستہ روکنے کے لیے پوری قوت سے سرگرم عمل ہوجائیں گی۔ ان حالات میں معاشرے کا سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ نظام عدل و قسط کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا۔ یہ لوگ تو کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ مزدوروں اور کسانوں کو ان کے حقوق ملیں۔ چناچہ وہ اپنے تمامتر وسائل کے ساتھ روایتی ظالمانہ نظام کے دفاع کے لیے میدان میں کود پڑیں گے۔ اس طرح فریقین کے درمیان ایک بھرپور کشمکش کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ آیت زیر مطالعہ میں انہی قوتوں کی سرگرمیوں کا ذکر ہے۔ آئندہ آیات میں ان دونوں گروہوں کے کردار اور رویے کا ذکر حزب اللہ اور حزب الشیطان کے نام سے آئے گا۔ واضح رہے کہ لفظ یُحَادُّوْنَ کا تعلق بھی حدید سورۃ الحدید ‘ آیت 25 ہی سے ہے۔ یہ حدّ سے باب مفاعلہ ہے ‘ جیسے جہد سے مجاہدہ یا قتل سے مقاتلہ۔ چناچہ اس لفظ میں پوری قوت اور منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کی مخالفت کرنے کا مفہوم پایاجاتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے مراد اللہ کا دین ہے اور یہ مخالفت جس کا یہاں ذکر ہے وہ دراصل اللہ کے دین کی مخالفت ہے۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکومت جو پوری دنیا میں قائم ہے اسے تو سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کسی کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ سے بھی کسی کو کوئی ذاتی دشمنی نہیں۔ چناچہ دنیا میں جہاں کہیں اللہ کے رسول ﷺ کی مخالفت کی جاتی ہے وہ بھی اللہ کے دین کی وجہ سے ہی کی جاتی ہے۔ اس نکتہ کو سورة الانعام کی اس آیت میں یوں واضح کیا گیا ہے : { فَاِنَّھُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰـکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ۔ } ”اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلا رہے بلکہ یہ ظالم تو اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں“۔ چناچہ باطل قوتوں کی اصل دشمنی اللہ کے دین سے ہے ‘ اور یہ دین بھی جب تک کتابوں اور لائبریریوں تک محدود رہے تب تک اس پر بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ دینی مسائل کے بارے میں کوئی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرے ‘ مقالے لکھے ‘ کتابیں تصنیف کرے ‘ کسی کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ لیکن جب کوئی اللہ کا بندہ یہ دعویٰ کرے کہ ہم اللہ کے دین اور اس کے دیے ہوئے نظامِ عدل و قسط کی معاشرے میں بالفعل ترویج و تنفیذ چاہتے ہیں تو اس کی یہ بات باطل پسند قوتوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں ہوسکتی۔ چناچہ یہ لوگ ایسی کسی بھی کوشش کا راستہ روکنے کے لیے خم ٹھونک کر میدان میں آجاتے ہیں۔ اب ایسے لوگوں کے انجام کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔ { کُبِتُوْا کَمَا کُبِتَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ } ”وہ ذلیل و خوار کردیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جا چکے ہیں“ ان سے پہلے قوم فرعون ‘ قومِ عاد اور بہت سی دوسری اقوام نے بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں علیہ السلام کی مخالفت کی یہی روش اختیار کر کے اپنی بربادی کو دعوت دی تھی۔ چناچہ جو انجام مذکورہ اقوام کا ہوا ویسے ہی انجام سے اب یہ لوگ یعنی قریش مکہ بھی دوچار ہونے والے ہیں۔ { وَقَدْ اَنْزَلْنَـآ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ } ”اور ہم اتار چکے ہیں روشن آیات۔“ یعنی قرآن میں گزشتہ اقوام کے واقعات بہت تفصیل سے بیان کردیے گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر قومیں قریش مکہ کی نسبت بہت طاقتور تھیں۔ جب ایسی طاقتور اقوام بھی اپنے پیغمبروں کے انکار کی بنا پر صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں تو آج ان لوگوں کی سرکشی و نافرمانی کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ { وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ۔ } ”اور کافروں کے لیے بہت ذلت والاعذاب ہے۔“ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مخالفین کو دنیا میں بھی ہزیمت اٹھانا پڑے گی اور آخرت میں بھی انہیں بہت رسوا کن عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔
آیت 6{ یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا } ”جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا ‘ پھر انہیں جتلا دے گا ان کے اعمال کے بارے میں جو انہوں نے کیے تھے۔“ { اَحْصٰٹہُ اللّٰہُ وَنَسُوْہُ } ”اللہ نے ان اعمال کو محفوظ کر رکھا ہے جبکہ وہ انہیں بھول چکے ہیں۔“ یہ لوگ تو بھول چکے ہوں گے کہ انہوں نے اپنی دنیوی زندگی میں کیسی کیسی حرام خوریاں کی تھیں اور کس کس کے ساتھ کیا کیا زیادتی کی تھی۔ لیکن ظاہر ہے اللہ کے ہاں تو ہر شخص کے ایک ایک عمل اور ایک ایک حرکت کا ریکارڈ محفوظ ہوگا۔ { وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدٌ۔ } ”اور اللہ تو ہرچیز پر خودگواہ ہے۔