سورۃ المجادلہ (58): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Mujaadila کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المجادلة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المجادلہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Mujaadila
سُورَةُ المُجَادلَةِ
صفحہ 542 (آیات 1 سے 6 تک)

قَدْ سَمِعَ ٱللَّهُ قَوْلَ ٱلَّتِى تُجَٰدِلُكَ فِى زَوْجِهَا وَتَشْتَكِىٓ إِلَى ٱللَّهِ وَٱللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَآ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌۢ بَصِيرٌ ٱلَّذِينَ يُظَٰهِرُونَ مِنكُم مِّن نِّسَآئِهِم مَّا هُنَّ أُمَّهَٰتِهِمْ ۖ إِنْ أُمَّهَٰتُهُمْ إِلَّا ٱلَّٰٓـِٔى وَلَدْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرًا مِّنَ ٱلْقَوْلِ وَزُورًا ۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ وَٱلَّذِينَ يُظَٰهِرُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا۟ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِّن قَبْلِ أَن يَتَمَآسَّا ۚ ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِۦ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَآسَّا ۖ فَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ۚ ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ ۗ وَلِلْكَٰفِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ إِنَّ ٱلَّذِينَ يُحَآدُّونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ كُبِتُوا۟ كَمَا كُبِتَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ وَقَدْ أَنزَلْنَآ ءَايَٰتٍۭ بَيِّنَٰتٍ ۚ وَلِلْكَٰفِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ ٱللَّهُ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوٓا۟ ۚ أَحْصَىٰهُ ٱللَّهُ وَنَسُوهُ ۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ
542

سورۃ المجادلہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المجادلہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اللہ نے سن لی اُس عورت کی بات جو ا پنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad samiAAa Allahu qawla allatee tujadiluka fee zawjiha watashtakee ila Allahi waAllahu yasmaAAu tahawurakuma inna Allaha sameeAAun baseerun

جاہلیت کا یہ قانون تھا کہ مرد کسی وجہ سے بیوی سے ناراض ہوجاتا تو اسے یہ کہہ دیتا ” تو میرے لئے اس طرح ہے جس طرح میری ماں کی پیٹھ “۔ اس فقرے سے نہ عورت طلاق ہوتی تھی اور نہ وہ اس کے ساتھ تعلق زناشوئی قائم کرسکتا تھا۔ یوں یہ عورت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معلق رہ جاتی تھی۔ یہ دوسرے مظالم کے علاوہ ایک ظلم تھا جس میں کوئی عورت زمانہ جاہلیت میں مبتلا ہوجاتی تھی۔

جب اسلام ظہور پذیر ہوا تو اسلامی سوسائٹی میں اظہار کا یہ پہلا واقعہ پیش آیا جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ ابھی تک اسلامی قانون اظہار نافذ نہ ہوا تھا۔ امام احمد روایت کرتے ہیں۔ سعد ابن ابراہیم اور یعقوب سے ، یہ دونوں ابی سے ، وہ محمد ابن اسحاق سے ، وہ معمرابن عبداللہ ابن حنظلہ سے ، وہ یوسف ابن عبداللہ ابن سلام سے ، وہ خویلہ بنت ثعلبہ ؓ سے وہ کہتی ہیں : ” خدا کی قسم سورة مجادلہ کی ابتدائی آیات میرے اور اوس ابن الصامت کے بارے میں نازل ہوئیں۔ میں ان کی بیوی تھی۔ یہ بہت بوڑھے اور سخت مزاج تھے۔ ایک دن وہ آئے میں نے کسی معاملے میں ان کے ساتھ تکرار کرلیا۔ انہیں بہت غصہ آیا تو انہوں نے مجھے کہا تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ۔ اس کے بعد وہ چلے گئے۔ اور لوگوں کی محفل میں کچھ دیر تک رہے۔ پھر واپس آگئے۔ تو کیا دیکھتی ہوں کہ یہ میرے ساتھ تعلق زنا شوئی کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں خویلہ کی جان ہے ، تم میرے قریب نہیں آسکتے۔ تم نے جو کچھ کہا ہے وہ تو کہہ دیا ہے۔ اب یہ معاملہ رسول اللہ کے پاس جائے گا۔ اور جب تک اللہ اور رسول اللہ کا کوئی حکم نہیں آجاتا تم میرے قریب نہیں آسکتے۔ تو انہوں نے مجھ پر حملہ کردیا اور میں نے انہیں روکا جس طرح ایک عورت بوڑھے شخص کو رک لیتی ہے۔ غرض میں انہیں اپنے سے پرے پھینک دیا۔ اس کے بعد میں اپنی بعض پڑوسنوں کے پاس گئی اور ان سے کپڑے عاریتاً مانگے۔ پھر میں رسول اللہ کے پاس پہنچ گئی۔ میں آپ کے سامنے بیٹھ گئی۔ تو میں نے آپ کے سامنے پورا ماجرہ سنایا اور میں نے سو ہر کی بداخلاقی کی شکایت بھی کی۔ تو رسول اللہ فرمانے لگے ” وہ تمہارا چچازاد بوڑھا ہے اس کے بارے میں اللہ سے ڈرو “ خدا کی قسم میں اصرار کرتی ہی رہی یہاں تک کہ قرآن مجید نازل ہوگیا۔ رسول اللہ پر فوراً ایک حالت طاری ہوگئی۔ جو عموماً آپ پر نہ ہوتی تھی۔ اس کے بعد آپ سے یہ حالت دور ہوگئی تو مجھے آپ نے فرمایا ” خویلہ ، اللہ نے تمہارے اور تمہارے خاوند کے بارے میں قرآن نازل کردیا ہے۔ “ اس کے بعد آپ نے مجھے یہ آیات سنائیں۔

قد سمع اللہ .................................... عذاب الیم (4) (75 : 1 تا 4)

” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کررہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے ، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے اظہار کرتے ہیں کہ ان کی بیویاں ان کی مائیں بہنیں ہیں ، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ یہ لوگ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں ، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے اظہار کریں پھر اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی ، تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ، ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے ، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ یہ حکم اس لئے دیا جارہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ یہ اللہ کی مقرر کی گئی ہوئی حدیں ہیں ، اور کافروں کے لئے درد ناک سزا ہے۔ “

کہتی ہیں مجھے رسول اللہ نے بتایا کہ اس کو حکم دیں کہ وہ ایک غلام آزاد کردے۔ تو میں نے حضور سے عرض کی ” اس کے پاس کیا ہے کہ وہ غلام آزاد کرے “ تو آپ نے فرمایا “ پھر وہ مسلسل دو ماہ تک روزے رکھے۔ “ تو میں نے کہا کہ : ” خدا کی قسم وہ تو بڑھا آدمی ہے۔ وہ دو ماہ کے مسلسل روزے نہیں رکھ سکتا۔ “ تو آپ نے فرمایا ” پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے فی مسکین ایک وسق کھجوریں دے۔ “ کہتی ہیں میں نے کہا رسول خدا ، خدا کی قسم اس کے پاس یہ بھی نہیں ہے۔ تو رسول اللہ نے فرمایا کہ ” میں اسے کھجور کی ایک ” عرق “ (ساٹھ صاع) دے دوں گا۔ “ تو میں نے کہا ” حضور ﷺ ایک عرق میں دے دوں گی “۔ تو اس پر حضور ﷺ نے فرمایا ” تونے ٹھیک رویہ اختیار کیا اور احسان کیا ، لہٰذا جاؤ اور اس کی طرف سے صدقہ کرو ، اور اس کے بعد اپنے چچا زاد کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کرو۔ “ کہتی ہیں ” میں نے ایسا ہی کیا۔ “ (اس روایت کو امام ابوداؤد نے کتاب الطلاق میں نقل کیا ہے) ۔

یہ حالات تھے جن میں حضور اکرم اور ایک عورت کے درمیان گفتگو ہوئی اور اس بارے میں پھر سات آسمانوں کے اوپر سے حکم آیا تاکہ اس عورت کو اس کا حق دیا جائے اور اس کے اور اس کے خاوند کے دلوں کو سکون دیا جائے اور اس قسم کے معاملات ، روز مرہ معاملات میں مسلمانوں کے لئے ضابطہ وضع کردیا جائے۔

یہ وہ حالات ہیں ، جن سے قرآن کی ایک سورت کا آغاز ہورہا ہے۔ قرآن اللہ کی ایک دائمی اور لازوال کتاب ہے اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ کے ساتھ پوری کائنات ہم رکاب ہوجاتی ہے۔ سورت کا آغاز یوں ہوتا ہے۔

قد سمع .................... زوجھا (85 : 1) ” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کررہی تھی “ تو اللہ مسلمانوں کی ایک عام عورت کے معاملات کی طرف بھی متوجہ ہے۔ اس عظیم کائنات ، ناپیدا کنار کائنات کے انتظام وانصرام نے اللہ کو ان معاملات سے مشغول نہ کردیا تھا ، نہ کسی اہم معاملے نے اللہ کو اس سے باز رکھا۔

یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے کہ اس طرح کے ایک چھوٹے سے روزہ مرہ کے معاملے میں اللہ کی مداخلت ہوجائے اور پوری جامعت مسلمہ یہ شعور لے کر اللہ ان کے ساتھ ہے ، ان کے حالات میں ، ان کے معاملات میں کسی بڑے معاملے میں یا چھوٹے معاملے میں ، روز مرہ کے معاملے میں یا دائمی اور بڑے مسئلے اور مسائل میں۔ حالانکہ اللہ بہت ہی بڑا ، برتر ، جلیل القدر ، جبار اور متکبر ہے۔ تمام آسمان اور زمین اسی کے ہیں اور وہ غنی ہے اور اپنی ذات میں محمود ہے۔

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : تعریفیں ہیں اس ذات کے لئے جو تمام آوازوں کو سنتا ہے ، رسول اللہ سے تکرار کرنے والی کا نام خولہ تھا ، وہ آئی گھر کے ایک کونے میں وہ رسول اللہ سے بات کررہی تھی اور میں اس کی باتیں نہ سن سکتی تھی ، اللہ نے یہ آیت نازل کی۔

قدسمع ........................ الی اللہ (85 : 1) ” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملے میں تم سے تکرار کررہی تھی اور اللہ سے فریاد کئے جاتی تھی۔ “ (بخاری)

خولہ کی روایت میں ، جسے خویلہ تصغیر اور تذلیل کے لئے کہا گیا ہے ، یہ بات ہے کہ یہ حادثہ ، اس میں اس عورت کی کاروائی ، رسول اللہ تک پہنچنا ، تکرار کرنا ، قرآن کا نازل ہونا ، ان سب باتوں سے اس زندگی کا ایک نقشہ سامنے آجاتا ہے جو انسانی تاریخ کی یہ منفرد سوسائٹی گزار رہی تھی۔ یہ عجیب دور تھا ، لوگوں کا رابطہ براہ راست عالم بالا سے قائم تھا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کی ہدایات کے منتظر رہتے تھے۔ گویا سب لوگ عیال اللہ تھے۔ لوگوں کی نظریں عالم بالا پر اس طرح لگی ہوئی تھیں جس طرح ایک بچہ ہر وقت ماں باپ کی طرف دیکھتارہتا ہے۔

قرآن کے اندر اس واقعہ کی جو روایت ہے اس سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ عالم بالا کی طرف سے مسلسل ہدایت اور تربیت بھی ہورہی ہے اور ساتھ ساتھ قانون سازی بھی۔ قرآن اپنے اسلوب کے مطابق قانون بنارہا تھا۔ یہ بصورت ایک خشک قانون سازی نہیں ہے۔

قد سمع .................... سمیع بصیر (85 : 1) ” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملے میں تم سے تکرار کررہی تھی اور اللہ سے فریاد کیے جاتی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے اور وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ “ یہ نہایت ہی موثر آغاز ہے۔ دیکھو تم دونوں جو باتیں کررہے ہو ، اکیلے نہیں ہو۔ تمہارے ساتھ اللہ موجود ہے۔ وہ سن رہا ہے ۔ اس نے عورت کی بات سن لی۔ اپنے خاوند کے بارے میں تکرار اور اللہ سے شکایت۔ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے ، وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔ یہ تھے حالات اس حادثہ کے جس میں دونوں کے ساتھ ثالث اللہ تھا .... یہ سب باتیں چٹکیاں اور دل کے تاروں پر مضراب ہیں۔

اور اس کے بعد اصل مسئلے کو لیا جاتا ہے :

اردو ترجمہ

تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے یہ لوگ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yuthahiroona minkum min nisaihim ma hunna ommahatihim in ommahatuhum illa allaee waladnahum wainnahum layaqooloona munkaran mina alqawli wazooran wainna Allaha laAAafuwwun ghafoorun

الذین ........................ لعفو غفور (85 : 2) ” تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے اظہار کرتے ہیں کہ ان کی بیویاں ان کی مائیں بہنیں ہیں ، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ یہ لوگ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں ، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔ “

مسئلے کا حل نہایت ہی گہرائی سے کردیا گیا۔ ایام جاہلیت میں ظہار کا جو قانون مروج تھا وہ تھا ہی بےبنیاد ، بیوی ماں تو ہوتی نہیں کہ وہ ماں کی طرح حرام ہوجائے۔ ماں تو صرف وہ ہوتی ہے جس نے جنا۔ ایک لفظ کہنے سے نہ بیوی ماں بن جاتی ہے جو حرام ہوجاتی ہے۔ یہ نہایت ہی ناپسندیدہ کلمہ ہے۔ حقیقت اس کی منکر ہے۔ سچائی اس کی منکر ہے ، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ سوشل معاملات واضح اور متعین ہوں۔ مجمل ، مضطرب اور پیچیدہ نہ ہوں اور سابقہ معاملات اور حادثات اللہ نے معاف کردیئے۔

وان اللہ لعفو غفور (85 : 2) اصل مسئلے کے سلسلے میں فیصلہ دینے کے بعد اب قانون سازی یوں کی جاتی ہے :

اردو ترجمہ

جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی اُس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی، تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، ایک غلام آزاد کرنا ہوگا اِس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena yuthahiroona min nisaihim thumma yaAAoodoona lima qaloo fatahreeru raqabatin min qabli an yatamassa thalikum tooAAathoona bihi waAllahu bima taAAmaloona khabeerun

والذین .................... خبیر (85 : 3) ” جو لوگ اپنی بیویوں سے اظہار کریں پھر اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی ، تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ، ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے ، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “

اللہ تعالیٰ نے کئی کفاروں میں غلام کی آزادی کی تجویز رکھی ہے۔ یہ اسلام نے دنیا سے غلامی کو ختم کرنے کے لئے ایک تدبیر کی تھی۔ کیونکہ اس دور میں جنگ کے بین الاقوامی قوانین میں غلامی کو جائز رکھا گیا تھا۔ اسلام نے بہرحال اس کے ختم کرنے کے لئے مختلف تدابیر اختیار کیں۔ یہاں آیت۔

ثم یعودون لمام قالوا (85 : 3) ” پھر وہ اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی۔ “ کے مفہوم میں بہت سے اقوال وارد ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دوبارہ مجامعت کا ارادہ کرلیں جسے انہوں نے بذریعہ ظہار اپنے اوپر حرام کردیا ہے ، یہ مفہوم سیاق کلام کے زیادہ قریب ہے۔ لہٰذا غلام کا آزاد کرنا ، اس مجامعت سے قبل ہوگا۔ اس پر نصیحت۔

ذلکم توعظون بہ (85 : 3) ” اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے “۔ کفارہ ایک قسم کی یاد دہانی اور تازیانہ عبرت ہے کہ دوبارہ یہ حرکت نہ کرو ، کیونکہ یہ رسم نہ حق ہے اور نہ معروف طریقہ ہے۔

واللہ بما تعملون خبیر (85 : 3) ” اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “ اللہ کو اس کی حقیقت معلوم ہے۔ واقعات سے بھی وہ خبردار ہے اور تمہاری معاشرت سے بھی وہ خبردار ہے۔

یہ نصیحت اور عبرت آموزی قانون ظہار کی تکمیل سے پہلے آگئی۔ نفوس کی تربیت کے لئے اور اس لیے کہ اللہ جو قانون بنارہا ہے وہ اپنے علم اور اپنی حکمت کے مطابق بنارہا ہے۔ وہ ظاہر سے بھی خبردار ہے اور باطن سے بھی۔ اب اس کے بعد حکم کو مکمل کیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلائے یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں، اور کافروں کے لیے دردناک سزا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faman lam yajid fasiyamu shahrayni mutatabiAAayni min qabli an yatamassa faman lam yastatiAA faitAAamu sitteena miskeenan thalika lituminoo biAllahi warasoolihi watilka hudoodu Allahi walilkafireena AAathabun aleemun

فمن لم ................ مسکینا (85 : 4) ” اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ “

اب اس قانون کے توضیحی بیان اور مسلمانوں کو ہدایت کے لئے تبصرہ آتا ہے۔

ذلک لتومنو باللہ ورسولہ (85 : 4) ” یہ حکم اس لئے دیا جارہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ “ وہ تو پہلے سے مومن ہیں ؟ لیکن یہ بیان کہ یہ کفارات اور جرمانے اور ان کے حالات کو اللہ کے احکام وقوانین سے مربوط کرنے سے ایمان میں قوت اور اضافہ ہوتا ہے۔ عملی زندگی ایمان کے ساتھ مربوط ہوتی ہے اور عملی زندگی پر ایمان کا کنٹرول قائم ہوتا ہے۔

وتلک ........................ الیم (85 : 4) ” یہ اللہ کی مقرر کی گئی ہوئی حدیں ہیں ، اور کافروں کے لئے درد ناک سزا ہے۔ “ یہ حدیں اللہ نے اس لئے قائم کی ہیں کہ لوگ ان حدوں سے آگے نہ بڑھ جائیں۔ اور جو شخص ان کا خیال نہیں رکھتا اور ان سے ادھر ہی رک کر نہیں رہتا اس کے غضب کا مستحق ہوتا ہے۔

وللکفرین عذاب الیم (85 : 4) ” اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ “ کیونکہ وہ ظلم کرتے ہیں ، اللہ کو چیلنج کرتے ہیں ، ایمان نہیں لاتے۔ اللہ کی حدود پر نہیں رکھتے ، جس طرح اہل ایمان رکتے ہیں۔

یہ آخری عبارت وللکفرین عذاب الیم (85 : 4) ” اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ “ سابقہ آیت کے خاتمے کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور آنے والی آیت کا سابق آیت کے ساتھ رابطہ بھی قائم کردیتی ہے۔ جس کا موضوع یہ ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہیں وہ ذلیل ہوکر رہیں گے۔

اردو ترجمہ

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ اسی طرح ذلیل و خوار کر دیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جا چکے ہیں ہم نے صاف صاف آیات نازل کر دی ہیں، اور کافروں کے لیے ذلت کا عذاب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena yuhaddoona Allaha warasoolahu kubitoo kama kubita allatheena min qablihim waqad anzalna ayatin bayyinatin walilkafireena AAathabun muheenun

پہلے پیراگراف میں یہ بتایا گیا تھا کہ اللہ اہل اسلام کے ساتھ کس قدر مہربانی کرنے والا ہے اور جماعت مسلمہ کے مسائل حل کرنے کے لئے وہ ہر وقت تیار ہے۔ یہ دوسرا پیراگراف کافروں کی سرکوبی کے لئے ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو اللہ اور رسول اللہ کی دشمنی پر اتر آئے ہیں یعنی وہ مسلمانوں کی حدود پر متضاد اور مخالفانہ موقف اختیار کرتے ہیں اور محاذ آرائی کرتے ہیں۔ پہلے چونکہ حدود اللہ کا ذکر ہے اور حدود پر جو جھگڑتا ہے وہ دشمن ہوتا ہے یعنی سرحدوں پر جو لڑتا ہے اس لئے یہاں ایسے دشمنان اسلام کا ذکر کردیا گیا۔ جو رسول اللہ کے مقابلے میں حد پر کھڑے ہیں اور مقابلے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ اس سے دو مقابل فریقوں کی ایک تصویر دی گئی جو حدود پر لڑتے ہیں۔ اس سے کافروں کے اس فعل کی قباحت اور گھناؤنے پن کا اظہار مقصود ہے۔ اس لئے کہ یہ لوگ اپنے خالق اور رازق سے لڑنے نکل آئے ہیں اور انہوں نے اللہ کی حدوں پر اپنی شیطانی افواج جمع کررکھی ہیں۔

کبتوا .................... قبلھم (85 : 5) ” اسی طرح ذلیل و خوار کردیئے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جاچکے ہیں۔ “ راجح بات یہ ہے کہ یہ ایسے لوگوں کے لئے بددعا ہے اور اللہ کی طرف سے بددعا دراصل حکم الٰہی ہی ہوتا ہے۔ کیوں کہ اللہ تو فعال لما یرید ہے۔ کبت کے معنی قہر نازل ہونے اور ذلیل کرنے کے ہیں۔ پہلے لوگوں سے مراد یا تو وہ ہیں جو گزر چکے ، انبیائے سابقہ کی امتیں۔ جن کو اللہ نے اسی جرم میں پکڑ لیا ان سے مراد وہ مشرکین اور یہود ہیں جن کو مسلمانوں کے ذریعہ اللہ نے ذلیل کردیا تھا ، ان آیات کے نزول سے پہلے ، مثلاً غزوہ بدر میں۔

وقد .................... بینت (85 : 5) ” ہم نے تو صاف صاف آیات نازل کردی ہیں۔ “ اس آیت میں ان لوگوں کے انجام کو مفصل اور جدا کرکے بیان کیا ہے جو اللہ اور رسول سے دشمنی کرتے ہیں۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ یہ اس لئے کہ یہ انجام جو ان آیات میں بیان ہوا ہے وہ لوگ اس انجام تک کسی جہالت کی وجہ سے نہیں پہنچ رہے یا اس لئے اس انجام تک نہیں پہنچ گئے کہ ان کی سمجھ میں بات نہیں آئی۔ بلکہ ان کو بات بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھادی گئی تھی۔ اس کے بعد ان کا اخروی انجام نہایت ہی سبق آموز انداز میں لایا جاتا ہے تاکہ اہل ایمان کی اصلاح اور تربیت ہو۔

وللکفرین .................... شھید (85 : 6) ” اور کافروں کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔ اس دن (یہ ذلت کا عذاب ہونا ہے) جب اللہ ان سب کو پھر سے زندہ کرکے اٹھائے گا۔ اور انہیں بتادے گا کہ وہ کیا کچھ کرکے آئے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں مگر اللہ نے ان کا سب کیا دھڑاگن گن کر محفوظ کررکھا ہے اور اللہ ایک ایک چیز پر شاہد ہے۔ “

یہاں تو توہین آمیز عذاب ، ان کے تکبر کے بدلے ، ان کو دیا جائے گا۔ جب لوگوں کو اللہ اٹھائے گا تو ان نام نہاد بڑوں کو اللہ عوام کے سامنے توہین آمیز عذاب دے گا۔ یہ وہ عذاب ہوگا جو حق پر دیا جائے گا۔ اور ان کا مفصل اعمال نامہ اس کی پشت پر ہوگا جسے یہ اس دن بڑی بےپرواہی سے بھول جائیں گے۔ حالانکہ اللہ نے اسے یوں تیار کیا ہوگا کہ اس میں سے کوئی چیز بھی باقی نہ رہی ہوگی کیونکہ اللہ تو سب کچھ جانتا ہے۔

وللہ .................... شھید (85 : 6) ” اور اللہ ہر ایک چیز پر گواہ ہے۔ “

یہاں رعایت اور فضل وکرم اور جنگ اور انتقام کی دونوں تصاویر آمنے سامنے ہیں۔ اللہ کا علم اور موجود گی ہر جگہ ہے۔ وہ رعایت امداد اور مہربانی کے لئے بھی حاضر ہے اور وہ جنگ اور انتقام اور دشمنوں کو عذاب دینے کے لئے بھی حاضر ہے۔ لہٰذا اللہ کے حضوری اور موجودگی پر اہل ایمان مطمئن ہوجائیں اور کافر اور دشمن خوفزدہ ہوجائیں۔

یہ کہ اللہ ہر چیز پر شاہد ہے۔ اب یہاں اس کی ایک زندہ تصویر پیش کی جاتی ہے۔ یہ اس قدر موثر ہے کہ قلب و شعور کی تاروں میں اضطرابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

اردو ترجمہ

اُس دن (یہ ذلت کا عذاب ہونا ہے) جب اللہ ان سب کو پھر سے زندہ کر کے اٹھائے گا اور انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کچھ کر کے آئے ہیں وہ بھول گئے ہیں مگر اللہ نے ان سب کا کیا دھرا گن گن کر محفوظ کر رکھا ہے اور اللہ ایک ایک چیز پر شاہد ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma yabAAathuhumu Allahu jameeAAan fayunabbiohum bima AAamiloo ahsahu Allahu wanasoohu waAllahu AAala kulli shayin shaheedun
542