اس صفحہ میں سورہ Al-Ghaafir کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ غافر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 2 { تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ } ”نازل کیا جانا ہے اس کتاب کا اس اللہ کی جانب سے جو زبردست ہے ‘ صاحب علم ہے۔“
آیت 3 { غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ لا ذِی الطَّوْلِ } ”وہ اللہ کہ جو بخشنے والا ہے گناہ کا ‘ قبول کرنے والا ہے توبہ کا ‘ سزا دینے میں بہت سخت ہے ‘ وہ بہت طاقت اور قدرت والا ہے۔“ یہاں اللہ تعالیٰ کی چار شانوں کا ذکر مرکب اضافی کی صورت میں ہوا ہے۔ آگے چل کر بھی اس سورت میں اسمائے حسنیٰ کے حوالے سے یہ انداز اور اسلوب نظر آئے گا۔ { لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَط اِلَـیْہِ الْمَصِیْرُ } ”اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ‘ اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“ یہاں یہ اہم نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اس سورت میں ”توبہ“ اور ”استغفار“ کا ذکر بار بار آئے گا ‘ بلکہ اس حوالے سے فرشتوں کا ذکر بھی آئے گا کہ وہ بھی بندوں کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ سورة المومن کا سورة الزمر کے ساتھ چونکہ جوڑے کا تعلق ہے اس لیے ان دونوں سورتوں کے بنیادی اور مرکزی مضمون میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس مماثلت کے حوالے سے قبل ازیں تمہیدی کلمات میں بھی وضاحت کی جا چکی ہے کہ سورة الزمر کا مرکزی مضمون ”توحید فی العبادت“ ہے اور سورة المومن کا مرکزی مضمون ”توحید فی الدعاء“ ہے۔ ”دعا“ کے بارے میں حضور ﷺ کا فرمان ہے : اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ 1 یعنی دعا عبادت کا جوہر ہے۔ ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں : اَلدُّعُائُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ 2 کہ دعا ہی اصل عبادت ہے۔ اس لحاظ سے توحید فی العبادت اور توحید فی الدعاء آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ چناچہ جس طرح عبادت کے حوالے سے سورة الزمر میں بار بار ”مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ“ کی تکرار ہے ‘ اسی طرح اس سورت میں { فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ } کی بار بار تاکید ہے۔ یعنی دعا کرو اللہ سے اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ ایسا نہ ہو کہ دعا تو اللہ سے مانگو اور اطاعت کسی اور کی کرو۔ اگر ایسا ہوگا تو یہ انتہائی بےتکی حرکت ہوگی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کو جزوی اطاعت قبول نہیں اسی طرح اسے اس شخص کی دعا سننا بھی منظور نہیں جو اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ کسی اور کی اطاعت کا طوق بھی اپنی گردن میں ڈالے ہوئے ہے۔ چناچہ ایسے شخص کو چاہیے کہ جس ”معبود“ کی وہ اطاعت کرتا ہے ‘ دعا بھی اسی سے کرے۔ آج ہم پاکستانیوں کو من حیث القوم اس تناظر میں اپنی حالت کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آج ہم ہر میدان میں ذلیل و رسوا کیوں ہو رہے ہیں اور روز بروز ہمارے قومی و ملکی حالات بد سے بد تر کیوں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ 1971 ء میں نہ صرف ہمارا ملک دولخت ہوگیا بلکہ بد ترین شکست کا داغ بھی ہمارے ماتھے پر لگ گیا۔ آج ہماری حالت پہلے سے بھی بدتر ہے۔ اس وقت ہمارے باقی ماندہ ملک کی سلامتی بھی ڈانواں ڈول ہے۔ انتہائی خضوع و خشوع کے ساتھ مانگی گئی ہماری دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں اور رو رو کر کی گئی فریادیں بھی نہیں سنی جاتیں۔ یہ دراصل کوئی غیر متوقع اور غیر معمولی صورت ِحال نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی و قومی رویے کا منطقی نتیجہ ہے۔ اور یہ رویہ ّیا طرز عمل کیا ہے ؟ آج ہم نے اپنی ترجیحات بدل لی ہیں ‘ ہماری اطاعت اللہ کے لیے خالص نہیں رہی ‘ بلکہ ہم اللہ کی اطاعت کو چھوڑ کر بہت سی دوسری اطاعتوں کے غلام بن گئے ہیں۔ ہم نے اللہ کے نام پر یہ ملک اس وعدے کے ساتھ حاصل کیا تھا کہ اس ملک میں ہم اللہ کے دین کا بول بالا کریں گے۔ مگر آج ہم اللہ کے ساتھ کیے گئے اس وعدے سے ِپھر چکے ہیں۔ ایسی صورت حال میں وہ ہماری دعائیں کیونکر سنے گا ؟ کیوں وہ ہماری فریاد رسی کرے گا اور کیوں ہماری مدد کو پہنچے گا ؟ چناچہ آج اصولی طور پر ہمیں چاہیے کہ ہم دعائیں بھی اسی ”سپر پاور“ سے کریں جس کی اطاعت کا طوق اپنی گردنوں میں ڈالے پھرتے ہیں۔
آیت 4 { مَا یُجَادِلُ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ اِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْکَ تَقَلُّبُہُمْ فِی الْْبِلَادِ } ”نہیں جھگڑتے اللہ کی آیات میں مگر وہی لوگ جو کفر کرتے ہیں ‘ تو اے نبی ﷺ ! زمین میں ان کی چلت پھرت آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے۔“ یہاں حضور ﷺ کو مخاطب کر کے سب مسلمانوں کو سمجھانا مقصود ہے کہ اے مسلمانو ! ان غیر مسلموں کے مادی وسائل ‘ ان کی طاقت ‘ ترقی اور ٹیکنالوجی تمہیں مرعوب نہ کرے۔ دیکھو ! کسی دنیوی ”سپر پاور“ کے دھوکے میں آکر کہیں تم اللہ کی قدرت اور طاقت کو بھول نہ جانا !
آیت 5 { کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّالْاَحْزَابُ مِنْم بَعْدِہِمْ } ”ان سے پہلے نوح علیہ السلام کی قوم نے جھٹلایا تھا اور ان کے بعد بہت سی دوسری قوموں نے بھی۔“ { وَہَمَّتْ کُلُّ اُمَّۃٍم بِرَسُوْلِہِمْ لِیَاْخُذُوْہُ } ”اور ہر قوم نے اپنے رسول کے متعلق ارادہ کیا کہ اسے پکڑ لے اور قتل کر دے“ { وَجٰدَلُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِہِ الْحَقَّ فَاَخَذْتُہُمْ قف فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ } ”اور وہ باطل دلیلوں کے ساتھ جھگڑتے رہے تاکہ اس کے ذریعے حق کو پسپا کردیں ‘ بالآخر میں نے انہیں پکڑ لیا ‘ تو کیسی رہی میری سزا ؟“
آیت 6 { وَکَذٰلِکَ حَقَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ } ”اور اسی طرح ان کافروں پر بھی آپ کے رب کی بات پوری ہوچکی ہے کہ یہ سب کے سب جہنمی ہیں۔“ اللہ کے جس قانون کی زد میں زمانہ ماضی کے کفار آئے تھے اب وہی قانون مشرکین عرب پر بھی لاگو ہوچکا ہے۔
آیت 7 { اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ } ”وہ فرشتے جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو ان کے ارد گرد ہیں“ اس آیت کو پڑھتے ہوئے سورة الزمر کی آخری آیت کو ذہن میں رکھیے جس میں میدانِ حشر میں عدالت ِالٰہی کا اختتامی منظر دکھایا گیا تھا : { وَتَرَی الْمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْج } ”اور تم دیکھو گے فرشتوں کو کہ وہ گھیرے ہوئے ہوں گے عرش کو اور اپنے ربّ کی تسبیح بیان کر رہے ہوں گے حمد کے ساتھ“۔ چناچہ یہاں ان حاملین عرش اور ان کے ساتھی ملائکہ کا ذکر دوبارہ ہو رہا ہے کہ : { یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ } ”وہ سب تسبیح کر رہے ہوتے ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور اس پر پورا یقین رکھتے ہیں“ { وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } ”اور اہل ایمان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔“ { رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا } ”اے ہمارے پروردگار ! تیری رحمت اور تیرا علم ہرچیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے“ { فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ } ”پس بخش دے ُ تو ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے کی پیروی کی“ اے پروردگار ! ہم تجھ سے کیا عرض کریں ؟ تجھے ہر شے کا علم ہے ‘ تیری رحمت پہلے ہی ہرچیز کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے۔ پھر بھی ہم تجھ سے تیری رحمت کی درخواست کرتے ہیں اور اہل زمین میں سے جو مومنین اور نیک لوگ ہیں ان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اے پروردگار ! تو ان کی خطائیں بخش دے اور ان کے گناہوں سے درگزر فرما ! اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن مومنین کے حق میں فرشتے بھی شفاعت کریں گے۔ یہ شفاعت ِحقہ ّہے۔ { وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ } ”اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لے۔“