سورہ غافر (40): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Ghaafir کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ غافر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ غافر کے بارے میں معلومات

Surah Al-Ghaafir
سُورَةُ غَافِرٍ
صفحہ 467 (آیات 1 سے 7 تک)

حمٓ تَنزِيلُ ٱلْكِتَٰبِ مِنَ ٱللَّهِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْعَلِيمِ غَافِرِ ٱلذَّنۢبِ وَقَابِلِ ٱلتَّوْبِ شَدِيدِ ٱلْعِقَابِ ذِى ٱلطَّوْلِ ۖ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ إِلَيْهِ ٱلْمَصِيرُ مَا يُجَٰدِلُ فِىٓ ءَايَٰتِ ٱللَّهِ إِلَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَلَا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِى ٱلْبِلَٰدِ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَٱلْأَحْزَابُ مِنۢ بَعْدِهِمْ ۖ وَهَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍۭ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ ۖ وَجَٰدَلُوا۟ بِٱلْبَٰطِلِ لِيُدْحِضُوا۟ بِهِ ٱلْحَقَّ فَأَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ وَكَذَٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَنَّهُمْ أَصْحَٰبُ ٱلنَّارِ ٱلَّذِينَ يَحْمِلُونَ ٱلْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُۥ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِۦ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَىْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَٱغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا۟ وَٱتَّبَعُوا۟ سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ ٱلْجَحِيمِ
467

سورہ غافر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ غافر کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ح م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hameem

درس نمبر 223 تشریح آیات

آیت نمبر 1 تا 3

یہ سورت ان سات سورتوں میں سے پہلی سورت ہے جن کا آغاز حا اور میم کے حروف مقعات سے ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک سورت ایسی ہے جس میں حا ۔ میم کے بعد عین ، سین اور قاف بھی آیا ہے۔ حرف مقطعات کے بارے میں ہم تمام سورتوں میں کہہ آئے ہیں کہ ان میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہ کلام انہی حروف تہجی سے بنا ہے اور یہ ایک معجز کلام ہے حالانکہ یہ حروف تہجی تمہاری دسترس میں ہیں۔ یہ تمہاری زبان کے حروف ہیں اور اس زبان کو تم بولتے بھی ہو ، لکھتے بھی ہو۔

ان حروف کے بعد پھر نزول کتاب کی طرف اشارہ ہے۔ یہ وہ بات ہے جو اکثر مکی سورتوں کے اغاز میں کہی جاتی ہے جن کا مضمون اکثر اسلامی نظریہ حیات اور کلمہ توحید سے ہوتا ہے۔

تنزیل ۔۔۔۔ العلیم (40: 2) ” اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست ہے اور سب کچھ جاننے والا ہے “۔

اس اشارے کے بعد اب بات اس ذات کی بعض صفات کی طرف منتقل ہوتی ہے جس نے یہ کلام نازل کیا ہے ۔ یہ وہ صفات ہیں جن کا اس سورت کے موضوع کے ساتھ گہرا ربط ہے۔ اس سورت میں جو موضوعات اور جو مسائل لیے گئے ہیں ان کے ساتھ ان صفات الہٰی کا ربط ہے۔

غافر الذنب۔۔۔۔ المصیر (40: 3) ” زبردست ہے ، سب کچھ جاننے والا ہے ، گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے ، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحب قضل ہے ، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ، اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے “۔ اس آیت میں عزت ، علم ، گناہوں کی مغفرت ، توبہ کی قبولیت ، سخت سزا ، فضل وکرم ، الوہیت اور حاکمیت کی وحدت اور سب لوگوں کا اس کی طرف لوٹنے کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ اور اس سورت کے تمام موضوعات انہی معافی کے اردگرد گھومتے ہیں جن کو اس آیت میں قلم بند کیا گیا ہے۔ اس آیت میں نہایت زور دار انداز ، زور دار آواز میں اور قومی ترتراکیب اور جملوں میں نہایت پختگی اور استقلال سے لایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی وہ صفات یہاں متعارف کرائی ہیں جن کا انسانی وجود اور انسانی زندگی پر گہرا اثر ہے۔ یوں اللہ نے انسانوں کے دلوں اور ان کے شعور کے احساسات کو تیز کیا۔ ان کے اندر رجائیت پیدا کی اور امید کو جگایا۔ ان کے اندر خوف اور تقویٰ پیدا کیا گیا اور ان کو یہ یقین دلایا گیا کہ وہ اللہ کے قبضے میں ہیں۔ وہ اللہ کے تصرفات سے کہیں بھاگ نہیں سکتے ۔ ذرا ان صفات کا تفصیلی جائزہ لیں۔

العزیز (40: 2) ” وہ قوی اور قادر مطلق جو ہر کسی پر غالب ہے ، اور اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا ۔ وہ تمام امور میں تصرف کرتا ہے اور اس پر کوئی قدرت نہیں رکھتا اور نہ اس کے اوپر کوئی نگران ہے۔

العلیم (40: 2) وہ ذات ہے جو اس کائنات کو علم اور مہارت سے چلاتی ہے ، اس پر اس کائنات کا کوئی راز مخفی نہیں ہے۔ اور کوئی چیز اس کے علم سے غائب نہیں ہے۔

غافر الذنب (40: 3) وہ جو بندوں کے گناہوں کو بخشتا ہے ، ان بندوں کے گناہوں کو جن کے بارے میں اپنے شامل علم کے ذریعے اللہ جانتا ہے کہ وہ بخشش کے مستحق ہیں۔

وقابل التوب (40: 3) وہ جو نافرمانوں پر مہربانی کرتا ہے اور ان کو لوٹا کر اپنے خطیرۂ امن میں لاتا ہے اور ان کے لیے اپنی رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہے اور بلاروک ٹوک ان کو اندر آنے دیتا ہے۔

شدید العقاب (40: 3) جو متکبرین کو نیست ونابود کرتا ہے ، اور اسلام کے دشمنوں کو سزا دیتا ہے ، جو نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ استغفار کرتے ہیں۔

ذی الطول (40: 3) وہ جو لوگوں کو انعامات دیتا ہے ، جو نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے اور لوگوں کو اس قدر دیتا ہے کہ ان انعامات کا کوئی حساب نہیں کیا جاسکتا ۔

لاالٰه الاھو (40: 3) الوہیت ، حاکمیت اسی کی ہے۔ ، اور وہ وحدہ لاشریک ہے ، اپنی ذات وصفات ہیں۔

الیه المصیر (40: 3) حساب و کتاب کے لیے ہر کسی نے اس کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اس سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اور اس سے ملاقات ہوگی۔ تمام مخلوق نے اسی کی طرف لوٹنا ہے اور وہی لوٹنے کی جگہ ہے۔

یوں بندوں کا تعلق اللہ سے اور اللہ کا تعلق بندوں سے واضح کیا جاتا ہے۔ بندوں کے شعور ان کے تصورات ، ان کے ارداک ، اور ان کے علم میں اللہ سے رابطہ بیٹھ جاتا ہے۔ اس طرح انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ کس قدر چوکنا ہو کر اور احتیاط سے معاملہ کرنا ہے اور یہ جانتے ہوئے معاملہ کرنا ہے کہ کس چیز سے اللہ ناراض ہوتا ہے اور کس چیز سے راضی ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے ادیان اور عقائد افسانوی ہیں ، وہ اپنے الہوں کے بارے میں جو تصور رکھتے ہیں ، وہ اس کے بارے میں حیرت میں رہتے ہیں ، انہیں ان الہوں کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں ہوتیں ، ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ کیا چیز انہیں ناراض کرتی ہے اور کس سے وہ راضی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے الہوں کی جو تصویر کھینچتے ہیں۔ اس کے مطابق ان الہوں کی خواہشات بدلتی رہتی ہیں ، ان کا رجحان صاف نہیں ہوتا۔ وہ الہہ جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ ان الہوں کے ساتھ ہمیشہ بےچینی کی زندگی گزارتے ہیں اور ہر وقت اس بات کی تلاش میں رہتے ہیں کہ ان کی رضا کس میں ہے اور کس میں نہیں ہے۔ آیا وہ تعویذوں سے راضی ہوتے ہیں ، قربانیوں سے راضی ہوتے ہیں۔ ذبیحوں سے راضی ہوتے ہیں یا اور اگر وہ یہ کام کر بھی گزریں تو بھی ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ راضی ہوگئے یا نہیں ہوئے۔

ان حالات میں اسلام آیا ، اس نے واضح اور ستھرے و عقائد دیئے ، لوگوں کو اپنے سچے خدا سے ملا دیا۔ ان کو اللہ کی صحیح صفات سے آگاہ کردیا ۔ ان کو اللہ کی مشیت کے بارے میں بتا دیا ، یہ بھی صاف صاف بتادیا کہ وہ اللہ کے قریب کس طرح ہوسکتے ہیں ، اسکی رحمت کی امیدوہ کس طرح کرسکتے ہیں۔ اسکے عذاب سے کسطرح ڈرسکتے ہیں اور اللہ کا سیدھا اور درست راستہ کونسا ہے۔

اردو ترجمہ

اِس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست ہے، سب کچھ جاننے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tanzeelu alkitabi mina Allahi alAAazeezi alAAaleemi

اردو ترجمہ

گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحب فضل ہے کوئی معبود اس کے سوا نہیں، اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ghafiri alththanbi waqabili alttawbi shadeedi alAAiqabi thee alttawli la ilaha illa huwa ilayhi almaseeru

اردو ترجمہ

اللہ کی آیات میں جھگڑے نہیں کرتے مگر صرف وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے اِس کے بعد دنیا کے ملکوں میں اُن کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma yujadilu fee ayati Allahi illa allatheena kafaroo fala yaghrurka taqallubuhum fee albiladi

آیت نمبر 4 تا 6

اس فیصلے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ بہت ہی صفات رکھتا ہے اور وہ وحدہ لاشریک ہے ، اب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حقائق ، اس کائنات کی ہر چیز کی طرف سے مسلم ہیں کیونکہ اس کائنات کی فطرت ان حقائق کے ساتھ مربوط ہے اور یہ تعلق براہ راست ہے جس میں تنازعہ اور کوئی مجادلہ نہیں ہے۔ یہ پوری کائنات بڑے اطمینان سے آیات الہیہ کو تسلیم کرتی ہے ، اللہ کی وحدانیت پر شاہد عادل ہے ۔ اور اس میں مجادلہ وہی لوگ کرتے ہیں جو کفر پر تلے ہوئے ہیں اور یہ لوگ اس کائنات سے منحرف ہیں۔

مایجادل۔۔۔۔ کفروا (40: 4) ” اللہ کی آیات میں جھگڑے نہیں کرتے مگر وہی لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے “۔” یہی لوگ “ یعنی اس کائنات میں سے وہی لوگ اکیلے ان آیات کا انکار کرتے ہیں جو کفر پر تلے ہوئے ہیں۔ اس عظیم مخلوقات میں سے صرف یہی لوگ منحرف ہیں۔ اور ان کی اس عظیم الشان دجود میں چیونٹی سے بھی کم حیثیت ہے۔ جس طرح اس کرۂ ارض کی نسبت سے ایک چیونٹی حقیر شے ہے۔ اس طرح اس کائنات کے حوالے سے انسان ایک چیونٹی سے بھی کم ہے۔ لیکن جھگڑتا ہے یہ حضرت انسان اللہ کی نشانیوں کے بارے میں ، جبکہ یہ عظیم کائنات اہل کفر کے مقابلے میں کھڑی ہے۔ اور حق تعالیٰ کا اعتراف کررہی ہے۔ اور عزیز وجبار کی قوتوں کی معترف ہے۔ یہ لوگ ، اس موقف میں انجام کے خلاف کھڑے ہیں۔ یہ لوگ چاہے دنیا میں قوت رکھتے ہوں اور جاہ ومال کے مالک ہوں اور مقتدر اعلیٰ ہوں ، لیکن جس جگہ انہوں نے جانا ہے ، اس کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔

فلایغررک تقلبھم فی البلاد (4 ہ : 4) ” اس کے بعد دنیا کے ملکوں میں ان کی چلت پھرت تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے “۔ وہ جس قدر دوڑ دھوپ کریں ، جس قدر اقتدار اور مال وجاہ کے وہ مالک ہوں ، جس قدر وہ عیش و عشرت میں ہوں ، آخر کار یہ لوگ تباہ برباد اور ہلاک ہونے والے ہیں۔ ان کی اس جنگ کا انجام معروف ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اس عظیم خالق کائنات کے درمیان اور اس کائنات کے درمیان اور اس کائنات کی ایک حقیر چیونٹی کے درمیان کوئی معرکہ برپا ہوسکتا ہے۔

ان سے پہلے ان جیسی کئی اقوام اس زمین پر گزری ہیں ، ان کا جو انجام ہوا ، اس سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ ایسی اقوام کا انجام کیا ہوا کرتا ہے ، جو اللہ کی قوت کے مقابلے میں آجائیں ۔ اللہ کی قوت ان کو پیش کر رکھ دیا کرتی ہے اور ہر اس قوت کو پیس ڈالتی ہے جو اللہ کے ساتھ جنگ کے لیے اٹھتی ہے۔

کذبت قبلھم۔۔۔۔۔ کان عقاب (40: 5) ” ان سے پہلے نوح کی قوم بھی جھٹلاچ کی ہے اور ان کے بعد بہت سے دوسرے جتھوں نے بھی یہ کام کیا۔ ہر قوم اپنے رسول پر جھپٹی تاکہ اسے گرفتار کرے۔ ان سب نے باطل کے ہتھیاروں سے حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کی مگر آخر کار میں نے ان کو پکڑلیا۔ پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی تھی “۔ یہ سلسلہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے چلا آرہا ہے اور یہ ایک ایسا معرکہ ہے جو ہر زمان ومکان میں برپا ہے ، اور یہ آیت اس قصے کا خلاصہ بتاتی ہے۔ رسولوں اور

انکی تکذیب کا قصہ۔ اور ان کے اور اللہ کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ ہر زمان ومکان میں یونہی ہوتا رہا ہے اور انجام بھی ایک رہا ہے

رسول آیا ہے ، اس کی قوم کے سرکشوں نے اس کی تکذیب کی ہے۔ انہوں نے دلیل کا جواب دلیل سے نہیں دیا ، بلکہ دلیل کے مقابلے میں تشدد کے ہتھیار لے کر آئے اور انہوں نے رسول کو پکڑ کر گرفتار کرنے کی کوشش کی اور جمہور عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کی کوشش کی تاکہ حق کا مقابلہ کریں ، حق کو نیچا دکھائیں مگر اللہ کی قوت جبارہ نے مداخلت کی ہے۔ اور ایسے سرکشوں کو اس طرح چوٹی سے پکڑا کہ وہ آنے والوں کے لیے عبرت بن گئے۔

فکیف کان عقاب (40: 5) ” میری سزا کیسی سخت تھی “۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی سزا تباہ کن تھی ، بہت سخت تھی۔ ان اقوام کے جو آثار بھی آج باقی ہیں ، وہ بتاتے ہیں کہ یہ سزا بہت سخت تھی۔ اور احادیث وروایات بھی یہ بتاتی ہیں کہ وہ سزا بہت سخت تھی۔ اور یہ معرکہ یہاں ختم نہیں ہوگیا بلکہ قیامت تک چلا گیا :

وکذٰلک۔۔۔۔ النار (40: 6) ” اسی طرح تیرے رب کا یہ فیصلہ بھی ان سب لوگوں پر چسپاں ہوچکا ہے جو کفر کے مرتکب ہوئے ہیں کہ وہ واصل بجہنم ہونیوالے ہیں “۔ جب یہ اللہ کا فیصلہ حق ہوا ، چسپاں ہوا ، گویا نافذ ہوگیا ، اور ہر قسم کا مباحثہ ہی ختم ہوگیا

یوں قرآن کریم ایک حقیقی صورت حال کی تصویر کشی کرتا ہے۔ ایمان اور کفر کے طویل معرکہ کی تصویر کشی۔ حق اور باطل کے درمیان معرکہ آرائی ، ان لوگوں کے درمیان جو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور ان لوگوں کے درمیان معرکہ آرائی جو زمین میں سرکشی اختیار کرتے ہیں ، بغیر دلیل کے بات کرتے ہیں۔ یوں قرآن یہ بتاتا ہے کہ یہ معرکہ حق و باطل آغاز انسانیت سے شروع ہے اور اس کا میدان زمین سے بھی آگے ہے۔ اس پوری کائنات میں بھی یہ جاری ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہے لیکن ایک کافرنہ صرف اہل ایمان سے بلکہ پوری کائنات کے ساتھ بھی برسرپیکار ہوتا ہے۔ یہ اس کائنات کے اندر موجود اللہ کی نشانیوں سے بھی لڑتا ہے اور اس معرکہ آرائی کا انجام بھی معلوم ہوتا ہے کہ حق کی قوتیں ، بہت بڑی ، بہت طاقتور ہیں۔ اللہ ہے ، پوری کائنات ہے ، اہل ایمان ہیں اور اس کے مقابلے کی قلیل و حقیر قوت ہے۔ اگرچہ عارضی طور پر اس کا پلہ بھاری ہوا اور بظاہر یہ قوت بہت ہی خوفناک نظر آئی ہو مگر آخر کار یہ تباہ ہونے والی ہے۔

یہ حقیقت کہ حق و باطل کا معرکہ اور اس میں لڑنے والی قوتیں اور اس کا میدان جنگ یعنی طویل انسانی تاریخ ، اس کی تصویر کشی قرآن اس لیے کرتا ہے کہ اہل ایمان کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ جائے ، خصوصاً ان اہل ایمان کے دلوں میں جو پیغمبروں کے اصول ومنہاج پر دعوت حق لے کر آئے ہیں اور ہر زمان ومکان میں دعوت ایمان دیتے ہیں وہ اچھی طرح جان لیں اور یقین کرلیں کہ باطل کی قوت کچھ بھی نہیں ہے۔ اگرچہ وہ بظاہر پھولی ہوئی نظر آئے ، ایک محدود وقت کے لیے کسی محدود سرزمین میں ، یہ قوت حقیقت نہیں ہے۔ اصل حقیقت وہ ہے ، جس کی نشاندہی اللہ کی کتاب کررہی ہے ، جسے وہ کلمتہ الحق کہتی ہے ،

اور حق غالب ہوا کرتا ہے۔ اللہ سب سے سچا ہے اور اس کی بات سچی ہے۔

اس حقیقت کے ساتھ ساتھ کہ دعوت حق ہے اور اس کے حامل مومنین ہیں۔ ان کے ساتھ وہ مومنین بھی شامل ہیں ، جو

اللہ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے اردگرد متعین وہ بھی اہل ایمان کے ساتھ تائید میں کھڑے ہیں۔ وہ ہر وقت انسان مومنین کی رپورٹ اللہ کے ہاں پیش کرتے ہیں ، ان کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں اور ان کے لیے جو اللہ کا وعدہ ہے ، اللہ سے اس کے پورا کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ کیوں ؟ اس لیے کہ یہ انسان بھی مومن ہیں اور وہ مومن ہیں۔

اردو ترجمہ

اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم بھی جھٹلا چکی ہے، اور اُس کے بعد بہت سے دوسرے جتھوں نے بھی یہ کام کیا ہے ہر قوم اپنے رسول پر جھپٹی تاکہ اُسے گرفتار کرے اُن سب نے باطل کے ہتھیاروں سے حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کی مگر آخر کار میں نے ان کو پکڑ لیا، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kaththabat qablahum qawmu noohin waalahzabu min baAAdihim wahammat kullu ommatin birasoolihim liyakhuthoohu wajadaloo bialbatili liyudhidoo bihi alhaqqa faakhathtuhum fakayfa kana AAiqabi

اردو ترجمہ

اِسی طرح تیرے رب کا یہ فیصلہ بھی اُن سب لوگوں پر چسپاں ہو چکا ہے جو کفر کے مرتکب ہوئے ہیں کہ وہ واصل بجہنم ہونے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakathalika haqqat kalimatu rabbika AAala allatheena kafaroo annahum ashabu alnnari

اردو ترجمہ

عرش الٰہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں: "اے ہمارے رب، تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذاب دوزخ سے بچا لے اُن لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yahmiloona alAAarsha waman hawlahu yusabbihoona bihamdi rabbihim wayuminoona bihi wayastaghfiroona lillatheena amanoo rabbana wasiAAta kulla shayin rahmatan waAAilman faighfir lillatheena taboo waittabaAAoo sabeelaka waqihim AAathaba aljaheemi

آیت نمبر 7 تا 9

ہم نہیں جانتے کہ عرش کی حقیقت کیا ہے ، نہ اس کی صورت متعین کرسکتے ہیں اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کے اٹھانے والے اسے کس طرح اٹھاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کا ماحول کیسا ہے اور اس کے اردگرد فرشتے کیسے ہیں ، لہٰذا ہمیں ان چیزوں کی ہئیت اور ماہیت معلوم کرنے کی فضول جدوجہد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ اشیاء انسانی ادراک کے دائرہ سے ماوراء ہیں۔ نہ ہمیں ان غیبی امور کے پیچھے پڑتا چاہئے ، جن کے بارے میں مباحثے کرنے والوں کو کوئی علم نہیں دیا گیا۔ جو بات آیات سے سمجھ میں آتی ہے ، وہ صرف یہ ہے کہ اللہ کے بعض مقرب بندے ، رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں ، اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور قرآن کریم ان کے ایمان کی تصریح اس لیے کررہا ہے کہ ان کا ربط مومن انسانوں کے ساتھ واضح ہوجائے اور اللہ کے یہ مقرب بندے ان مومن انسانوں کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں جو یہاں اس دنیا میں معرکہ خیر وشر میں کودے ہوئے ہیں ۔ یہ بندے جس انداز سے دعا کرتے ہیں اس میں ہمارے لیے تعلیم ہے کہ ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ کو یوں مخاطب کرے ۔ وہ کہتے ہیں

ربنا وسعت کل شئ رحمة وعلما (40: 7) ” اے ہمارے رب ، تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے “۔ وہ اللہ کے سامنے طلب رحمت کے لیے یوں درخواست کرتے کہ (اے اللہ) ہم انسانوں کے لیے وہ رحمت طلب کرتے ہیں جو دراصل ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور اللہ کے علم کو ذریعہ بناتے ہیں جو ہر چیز کو شامل ہے۔ وہ اللہ کے سامنے کوئی نئی چیز پیش نہیں کرتے جو اللہ کے پیش نظرنہ ہو۔ اللہ کی رحمت اور علم جو ہر چیز کو محیط ہیں انہی کے واسطہ سے وہ التجا کرتے ہیں۔

فاغفر۔۔۔۔ الجحیم (40: 7) ” پس معاف کردے اور عذاب دوزخ سے بچا لے ، ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کرلیا ہے “۔ اس دعا میں ایک اشارہ مغفرت اور توبہ کا ہے جو آغاز سورت میں غافر الذنب اور قابل التوب کے

ساتھ موافق ہے اور دوسرا اشارہ عذاب جہنم سے بچانے کی طرف ہے جو آغاز سورت میں شدید العقاب کے ساتھ موافق ہے۔

اس کے بعد یہ بندے دعا میں ذرا آگے بڑھتے ہیں ، اب وہ مغفرت اور عذاب جہنم سے بچانے سے بھی آگے جنت عطا کرنے کا سوال کرتے ہیں اور ان وعدوں کے پورے کیے جانے کا سوال کرتے ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں سے کر رکھے ہیں۔

ربنا۔۔۔۔ العزیز الحکیم (40: 8) ” اے ہمارے رب ، اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی اب جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے ، اور ان کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (ان کو بھی وہاں ان کے ساتھ ہی پہنچادے) ۔ تو بلاشبہ قادر مطلق اور حکیم ہے “۔ جنت میں داخلہ ، بیشک بڑی نعمت اور بہت بڑی کامیابی ہے ، اور اس پر مزید کہ آباء ، ازواج اور اولاد بھی ساتھ ہوں۔ یہ مزید نعمت ہے۔ اس سے اس بات کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ مومنین جنت میں بھی اکٹھے خاندانی نظام کی شکل میں ہوں گے۔ یہ ایمان ہے جو اباء ، ازواج اور اولا کے درمیان اکٹھ پیدا کرتا ہے ، اگر ایمان نہ ہوتا تو یہ رشتے کٹ جاتے۔ اور اس فقرے پر جو آخری نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔

انت العزیز الحکیم (40: 8) ” تو قادر مطلق اور حکیم ہے “۔ اس میں ایک طرف قوت ہے اور دوسری طرف حکمت۔ بندوں کے معاملے میں کوئی فیصلہ قوت اور حکمت کے سوا نہیں ہوسکتا۔

وقھم السیاٰت ۔۔۔۔ العظیم (40: 9) ” اور بچا دے ان کو برائیوں سے ' جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اس پر تو نے بڑا رحم کیا ، یہی بڑی کامیابی ہے “۔ جنت میں داخل ہونے کی دعا کے بعد یہ دعا کہ ان کو برائیوں سے بچا ، یہ توجہ دلاتی ہے کہ ذرا غور کرو کہ یہ سیئات اور برائیاں ہی ہیں جو ان کا ارتکاب کرنے والوں کو برباد کرتی ہیں۔ اور یہ بربادی آخرت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ یہی جہنم رسید کرتی ہیں۔ جب اللہ نے مومنین کو برائیوں سے بچالیا تو وہ جہنم سے ہی بچ گئے اور برے نتائج سے بھی ۔ یہی رحمت خداوندی کا عروج ہوگا اس مشکل وقت میں ۔ اور

وذٰلک ھوالفوز العظیم (40: 9) ” یہی بڑی کامیابی ہے “۔ کہ کوئی برائیوں سے بچ جائے۔

ایک طرف عرش کے حاملین اپنے مومنین بھائیوں کے لیے دعا گو ہیں ، دوسری جانب کفار کی حالت یہ ہے کہ وہ سخت مصیبت میں پھنس گئے ہیں ، کسی مدد گار کی تلاش میں ہیں اور کوئی مددگار نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے اور پوری کائنات کے درمیان کوئی ربط نہیں رہا ہے۔ ہر طرف سے ان پر پھٹکار اور لعنت و ملامت ہے۔ دنیا کے استکبار کے بعد اب یہاں وہ سخت ذلت میں ہیں۔ اور بےیار مددگار ہیں ، لیکن پھر بھی موہوم امیدوں کے سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ، لیکن کہاں ہے منزل مراد !

467