سورہ یوسف (12): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Yusuf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يوسف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ یوسف کے بارے میں معلومات

Surah Yusuf
سُورَةُ يُوسُفَ
صفحہ 235 (آیات 1 سے 4 تک)

سورہ یوسف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ یوسف کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

ا، ل، ر یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aliflamra tilka ayatu alkitabi almubeenu

تعارف قرآن بزبان اللہ الرحمن سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں حروف مقطعات کی بحث گزر چکی ہے۔ اس کتاب یعنی قرآن شریف کی یہ آیتیں بہت واضح کھلی ہوئی اور خوب صاف ہیں۔ مبہم چیزوں کی حقیقت کھول دیتی ہیں یہاں پر تلک معنی میں ھذہ کے ہے۔ چونکہ عربی زبان نہایت کامل اور مقصد کو پوری طرح واضح کردینے والی اور وسعت و کثرت والی ہے، اس لے یہ پاکیزہ تر کتاب اس بہترین زبان میں افضل تر رسول ﷺ ، رسول کے سردار فرشتے کی سفارت میں، تمام روئے زمین کے بہتر مقام میں، وقتوں میں بہترین وقت میں نازل ہو کر ہر ایک طرح کے کمال کو پہنچی تاکہ تم ہر طرح سوچ سمجھ سکو اور اسے جان لو ہم بہترین قصہ بیان فرماتے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ حضور ﷺ اگر کوئی واقعہ بیان فرماتے ؟ اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ ایک زمانے تک قرآن کریم نازل ہوتا گیا اور آپ صحابہ کے سامنے تلاوت فرماتے رہے پھر انہوں نے کہا حضور ﷺ کوئی واقعہ بھی بیان ہوجاتا تو ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں پھر کچھ وقت کے بعد کہا کاش کہ آپ کوئی بات بیان فرماتے اس پر یہ (اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ڰ تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهْدِيْ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ 23؀) 39۔ الزمر :23) اتری۔ اور بات بیان ہوئی۔ روش کلام کا ایک ہی انداز دیکھ کر صحابہ نے کہا یا رسول اللہ بات سے اوپر کی اور قرآن سے نیچے کی کوئی چیز ہوتی یعنی واقعہ، اس پر یہ آیتیں اتریں، پھر انہوں نے حدیث کی خواہش کی اس پر (آیت اللہ نزل الخ،) اتری۔ پس قصے کے ارادے پر بہترین قصہ اور بات کے ارادے پر بہترین بات نازل ہوئی۔ اس جگہ جہاں کہ قرآن کریم کی تعریف ہو رہی ہے۔ اور یہ بیان ہے کہ یہ قرآن اور سب کتابوں سے بےنیاز کردینے والا ہے۔ مناسب ہے کہ ہم مسند احمد کی اس حدیث کو بھی بیان کردیں جس میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کو کسی اہل کتاب سے ایک کتاب ہاتھ لگ گئی تھی اسے لے کر آپ حاضر حضور ﷺ ہوئے اور آپ کے سامنے سنانے لگے آپ سخت غضب ناک ہوگئے اور فرمانے لگے اے خطاب کے لڑکے کیا تم اس میں مشغول ہو کر بہک جانا چاہتے ہو اسکی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اس کو نہایت روشن اور واضح طور پر لے کر آیا ہوں۔ تم ان اہل کتاب سے کوئی بات نہ پوچھو ممکن ہے کہ وہ صحیح جواب دیں اور تم سے جھٹلا دو۔ اور ہوسکتا ہے کہ وہ غلط جواب دیں اور تم اسے سچا سمجھ لو۔ سنو اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آج خود حضرت موسیٰ ؑ بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی سوائے میری تابعداری کے کوئی چارہ نہ تھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے آپ ﷺ سے کہا کہ بنو قریضہ قبیلہ کے میرے ایک دوست نے تورات میں سے چند جامع باتیں مجھے لکھ دی ہیں۔ تو کیا میں انہیں آپ کو سناؤ ؟ آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ حضرت عبداللہ بن ثابت نے کہا کہ اے عمر کیا تم حضور ﷺ کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ اب حضرت عمر کی نگاہ پڑی تو آپ کہنے لگے ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے رسول ﷺ ہونے پر دل سے رضامند ہیں۔ اب آپ کے چہرہ سے غصہ دور ہوا اور فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے کہ اگر تم میں خود حضرت موسیٰ ہوتے پھر تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع میں لگ جاتے تو تم سب گمراہ ہوجاتے امتوں میں سے میرا حصہ تم ہو اور نبیوں میں سے تمہارا حصہ میں ہوں۔ ابو یعلی میں ہے کہ سوس کا رہنے والا قبیلہ عبدالقیس کا ایک شخص جناب فاروق اعظم ؓ کے پاس آیا آپ نے اس سے پوچھا کہ تیرا نام فلاں فلاں ہے ؟ اس نے کہا ہاں پوچھا تو سوس میں مقیم ہے ؟ اس نے کہا ہاں تو آپ کے ہاتھ میں جو خوشہ تھا اسے مارا۔ اس نے کہا امیر المومنین میرا کیا قصور ہے ؟ آپ نے فرمایا بیٹھ جا۔ میں بتاتا ہوں پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اسی سورت کی (آیتیں لمن الغافلین) تک پڑھیں تین مرتبہ ان آیتوں کی تلاوت کی اور تین مرتبہ اسے مارا۔ اس نے پھر پوچھا کہ امیرالمومنین میرا قصور کیا ہے آپ نے فرمایا تو نے دانیال کی ایک کتاب لکھی ہے۔ اس نے کہا پھر جو آپ فرمائیں۔ میں کرنے کو تیار ہوں، آپ نے فرمایا جا اور گرم پانی اور سفید روئی سے اسے بالکل مٹا دے۔ خبردار آج کے بعد سے اسے خود پڑھنا نہ کسی اور کو پڑھانا۔ اب اگر میں اس کے خلاف سنا کہ تو نے خود اسے پڑھا یا کسی کو پڑھایا تو ایسی سخت سزا کروں گا کہ عبرت بنے۔ پھر فرمایا بیٹھ جا، ایک بات سنتا جا۔ میں نے جاکر اہل کتاب کی ایک کتاب لکھی پھر اسے چمڑے میں لئے ہوئےحضور ﷺ کے پاس آیا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا تیرے ہاتھ میں یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ایک کتاب ہے کہ ہم علم میں بڑھ جائیں۔ اس پر آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ غصے کی وجہ سے آپ کے رخسار پر سرخی نمودار ہوگئی پھر منادی کی گئی کہ نماز جمع کرنے والی ہے۔ اسی وقت انصار نے ہتھیار نکال لیے کہ کسی نے حضور ﷺ کو ناراض کردیا ہے اور منبر نبوی ﷺ کے چاروں طرف وہ لوگ ہتھیار بند بیٹھ گئے۔ اب آپ نے فرمایا لوگو میں جامع کلمات دیا گیا ہوں اور کلمات کے خاتم دیا گیا ہوں اور پھر میرے لیے بہت ہی اختصار کیا گیا ہے میں اللہ کے دین کی باتیں بہت سفید اور نمایاں لایا ہوں۔ خبردار تم بہک نہ جانا۔ گہرائی میں اترنے والے کہیں تمہیں بہکا نہ دیں۔ یہ سن کر حضرت عمر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے میں تو یارسول اللہ ﷺ اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر آپ کے رسول ﷺ ہونے پر دل سے راضی ہوں۔ اب جو ﷺ منبر سے اترے اس کے ایک روای عبدالرحمن بن اسحاق کو محدثین ضعیف کہتے ہیں۔ امام بخاری ان کی حدیث کو صحیح نہیں لکھتے۔ میں کہتا ہوں اس کا ایک شاہد اور سند حافظ ابوبکر احمد بن ابراہیم اسماعیلی لائے ہیں کہ خلافت فاروقی کے زمانے میں آپ نے محصن کے چند آدمی بلائے ان میں دو شخص وہ تھے جنہوں نے یہودیوں سے چند باتیں منتخب کر کے لکھ لی تھیں۔ وہ اس مجموعے کو بھی اپنے ساتھ لائے تاکہ حضرت سے دریافت کرلیں اگر آپ نے اجازت دی تو ہم اس میں اسی جیسی اور باتیں بھی بڑھا لیں گے ورنہ اسے بھی پھینک دیں گے۔ یہاں آکر انہوں نے کہا کہ امیرالمومنین یہودیوں سے ہم بعض ایسی باتیں سنتے ہیں کہ جن سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں تو کیا وہ باتیں ان سے لے لیں یا بالکل ہی نہ لیں ؟ آپ نے فرمایا شاید تم نے ان کی کچھ باتیں لکھ رکھیں ہیں ؟ سنو میں اس میں فیصلہ کن واقعہ سناؤ۔ میں حضور ﷺ کے زمانے میں خیبر گیا۔ وہاں کے ایک یہودی کی باتیں مجھ بہت پسند آئیں۔ میں نے اس سے درخواست کی اور اس نے وہ باتیں مجھے لکھ دیں۔ میں نے واپس آکر حضور ﷺ سے ذکر کیا آپ نے فرمایا جاؤ وہ لے کر آؤ میں خوشی خوشی چلا گیا شاید حضور ﷺ کو میرا یہ کام پسند آگیا۔ لاکر میں نے اس کو پڑھنا شروع کیا۔ اب جو ذرا سی دیر کے بعد میں نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ حضور ﷺ تو سخت ناراض ہیں۔ میری زبان سے تو ایک حرف بھی نہ نکلا اور مارے خوف کے میر رواں رواں کھڑا ہوگیا۔ میری یہ حالت دیکھ کر اب آپ نے ان تحریروں کو اٹھا لیا اور ان کا ایک ایک حرف مٹانا شروع کیا اور زبان مبارک سے ارشاد فرماتے جاتے تھے کہ دیکھو خبردار ان کی نہ ماننا۔ یہ تو گمراہی کے گڑھے میں جا پڑے ہیں اور یہ تو دوسروں کو بھی بہکا رہے ہیں۔ چناچہ آپ نے اس ساری تحریر کا ایک حرف بھی باقی نہ رکھا۔ یہ سنا کر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ اگر تم نے بھی ان کی باتیں لکھی ہوئی ہوتیں تو میں تمہیں ایسی سزا کرتا جو اوروں کے لیے عبرت ہوجائے۔ انہوں نے کہا واللہ ہم ہرگز ایک حرف بھی نہ لکھیں گے۔ باہر آتے ہی جنگل میں جاکر انہوں نے اپنی وہ تختیاں گڑھا کھود کر دفن کردیں۔ مراسیل ابی داؤد میں بھی حضرت عمر ؓ سے ایسی ہی روایت ہے واللہ اعلم۔

اردو ترجمہ

ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم (اہل عرب) اس کو اچھی طرح سمجھ سکو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna anzalnahu quranan AAarabiyyan laAAallakum taAAqiloona

اردو ترجمہ

اے محمدؐ، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں، ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزو ں سے) تم بالکل ہی بے خبر تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Nahnu naqussu AAalayka ahsana alqasasi bima awhayna ilayka hatha alqurana wain kunta min qablihi lamina alghafileena

اردو ترجمہ

یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا "ابا جان، میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith qala yoosufu liabeehi ya abati innee raaytu ahada AAashara kawkaban waalshshamsa waalqamara raaytuhum lee sajideena

بہترین قصہ حضرت یوسف ؑ حضرت یوسف ؑ کے والد حضرت یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ ہم السلام ہیں۔ چناچہ حدیث شریف میں ہے کہ " کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ؑ ہیں۔ (بخاری) آنحضرت ﷺ سے سوال ہوا کہ سب لوگوں میں زیادہ بزرگ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جس کے دل میں اللہ کا ڈر سب سے زیادہ ہو۔ انہوں نے کہا ہمارا مقصود ایسا عام جواب نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا پھر سب لوگوں میں زیادہ بزرگ حضرت یوسف ہیں جو خود نبی تھے، جن کے والد نبی تھے جن کے دادا نبی تھے، جن کے پردادا نبی اور خلیل تھے۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں پوچھتے۔ آپ نے فرمایا پھر کیا تم عرب کے قبیلوں کی نسبت یہ سوال کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا سنو جاہلیت کے زمانے میں جو ممتاز اور شریف تھے۔ وہ اسلام لانے کے بعد بھی ویسے ہی شریف ہیں، جب کہ انہوں نے دینی سمجھ حاصل کرلی ہو000بخاری) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں نبیوں کے خواب اللہ کی وحی ہوتے ہیں۔ مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں گیارہ ستاروں سے مراد حضرت یوسف ؑ کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج چاند سے مراد آپ کے والد اور والدہ ہیں۔ اس خواب کی تعبیر خواب دیکھنے کے چالیس سال بعد ظاہر ہوئی۔ بعض کہتے ہیں اسی برس کے بعد ظاہر ہوئی۔ جب کہ آپ نے اپنے ماں باپ کو تخت شاہی پر بٹھایا۔ اور گیارہ بھائی آپ کے سامنے سجدے میں گرپڑے۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ میرے مہربان باپ یہ دیکھئے آج اللہ تعالیٰ نے میرے خواب کو سچا کر دکھایا۔ ایک روایت میں ہے کہ بستانہ نامی یہودیوں کا ایک زبردست عالم تھا۔ اس نے آنحضرت ﷺ سے ان گیارہ ستاروں کے نام دریافت کئے۔ آپ خاموش رہے۔ جبرائیل ؑ نے آسمان سے نازل ہو کر آپ کو نام بتائے آپ نے اسے بلوایا اور فرمایا اگر میں تجھے ان کے نام بتادوں تو تو مسلمان ہوجائے گا اس نے اقرار کیا تو آپ نے فرمایا سن ان کے نام یہ ہیں۔ جریان، طارق۔ ذیال، ذوالکتفین۔ قابل۔ وثاب۔ عمودان۔ فلیق۔ مصبح۔ فروح۔ فرغ۔ یہودی نے کہا ہاں ہاں اللہ کی قسم ان ستاروں کے یہی نام ہیں (ابن جریر) یہ روایت دلائل بیہقی میں اور ابو یعلی بزار اور ابن ابی حاتم میں بھی ہے۔ ابو یعلی میں یہ بھی ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے جب یہ خواب اپنے والد صاحب سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا " یہ سچا خواب ہے یہ پورا ہو کر رہے گا "۔ آپ فرماتے ہیں سورج سے مراد باپ ہیں اور چاند سے مراد ماں ہیں۔ لیکن اس روایت کی سند میں حکم بن ظہیر فزاری منفرد ہیں جنہیں بعض اماموں نے ضعیف کہا ہے اور اکثر نے انہیں متروک کر رکھا ہے یہی حسن یوسف کی روایت کے راوی ہیں۔ انہیں چاروں ہی ضعیف کہتے ہیں۔

235