سورۃ المومنون (23): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Muminoon کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المؤمنون کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المومنون کے بارے میں معلومات

Surah Al-Muminoon
سُورَةُ المُؤۡمِنُونَ
صفحہ 342 (آیات 1 سے 17 تک)

قَدْ أَفْلَحَ ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ هُمْ فِى صَلَاتِهِمْ خَٰشِعُونَ وَٱلَّذِينَ هُمْ عَنِ ٱللَّغْوِ مُعْرِضُونَ وَٱلَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَوٰةِ فَٰعِلُونَ وَٱلَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَٰفِظُونَ إِلَّا عَلَىٰٓ أَزْوَٰجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ٱبْتَغَىٰ وَرَآءَ ذَٰلِكَ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْعَادُونَ وَٱلَّذِينَ هُمْ لِأَمَٰنَٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَٰعُونَ وَٱلَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَٰتِهِمْ يُحَافِظُونَ أُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْوَٰرِثُونَ ٱلَّذِينَ يَرِثُونَ ٱلْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ مِن سُلَٰلَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَٰهُ نُطْفَةً فِى قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا ٱلنُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا ٱلْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا ٱلْمُضْغَةَ عِظَٰمًا فَكَسَوْنَا ٱلْعِظَٰمَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَٰهُ خَلْقًا ءَاخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ ٱللَّهُ أَحْسَنُ ٱلْخَٰلِقِينَ ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ تُبْعَثُونَ وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآئِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ ٱلْخَلْقِ غَٰفِلِينَ
342

سورۃ المومنون کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المومنون کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

یقیناً فلاح پائی ہے ایمان والوں نے جو:

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad aflaha almuminoona

درس نمبر 145 تشریح آیات (1 تا 22)

قد افلح خلدون (ا تا 11)

یہ ایک پختہ وعدہ ہے بلکہ یہ عالم بالا کی ایک وہ ٹوک قرار داد ہے کہ مومنین فلاح پائیں گے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ تو کبھی اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ پھر یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اللہ کے فیصلے کو کوئی رد نہیں کرسکتا کہ مومنین دنیا میں بھی فلاح پائیں گے اور آخرت میں بھی فلاح پائیں گے ۔ ایک مومن انفرادی طور پر فلاح پائے گا اور اہل ایمان کی جماعت بھی فلاح پائیں گی۔ ایسی کامیابی جسے ایک مومن اپنے دل اپنی حقیقی زندگی میں محسوس کرتے ہوں اور اس کے اندر فلاح کے وہ تمام مفہوم پائے جاتے ہوں جن سے دنیا با خبر ہے اور وہ مفاہیم بھی پائے جاتے ہیں جن سے اہل ایمان با خبر بھی نہ ہوں اللہ نے مستقبل مین ان کے لیے اس کا فیصلہ کر رکھا ہو۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ مومنین کون ہیں جن کے ساتھ اللہ نے اس قدر پختہ وعدہ کرلیا ہے اور پیشگی ان کی فلاح اور کامیابی کا اعلان کردیا ہے۔

یہ کون لوگ ہیں جن کے لیے بھلائی ، نصرت ، سعادت ، توفیق اور دنیا کا سازو سامان لکھ دیا گیا ہے ، اور جن کے لیے آخرت کا اجر ، کامیابی اور نجات لکھ دی گئی ہے اور سب سے بڑھ کر ان کے رب نے ان سے راضی ہونے کا اعلان کردیا ہے اور ان کے لیے اللہ نے اس جہان اور اس جہاں کی فلاح لکھ دی ہے اور وہ کچھ لکھ دیا ہے جس کے بارے میں انسانوں کو عہم ہی نہیں ہے۔

یہ کون لوگ ہیں جو جنت کے وارث ہونے والے ہیں اور جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ یہ لوگ ہو ہیں جن کے بارے میں سیام کلام یہ تفصیلات دیتا ہے۔

O جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔

O جو لغویات سے دور رہتے ہیں۔

O جو زکوٰۃ کے طریقے پر عامل رہتے ہیں۔

O جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کے ملک یمین میں ہوں۔

O جو اپنی امانتوں اور عہد و یمان کا پاس رکھتے ہیں ۔

جو اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان صفات کی قدرو قیمت کیا ہے ؟

یہ صفات ایک مسلمان کی شخصیت کے مختلف رنگ ہیں ۔ ان کے ساتھ ایک مسلم انسانیت کے افق پر تمام انسانوں کے مقابلے میں بلند نظر آنا ہے۔ وہ افق کا معیار حضرت محمد ﷺ نے متعین فرمایا ہے ، کیونکہ آپ تمام مخلوقات سے بر تر اخلاق کے مالک تھے۔ آپ کی تربیت اللہ نے فرمائی تھی اور بہترین تربیت فرمائی تھی اور اس امر کی شہادت اپنی کتاب میں دی۔

وانک لعلی خلق عظیم ــ” اے محمد ؐ آپ خلق عظیم کے مالک ہیں “ ۔ حضرت عائشہ ؓ سے جب آپ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا

کان خلقہ القران ” آپ کا اخلاق قرآن تھا “۔ اور اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے سورة المومنون کی یہ آیات (11) تلاوت فرمائیں اور فرمایا ایسے تھے رسول اللہ ﷺ ۔

الذین ھم فی صلاتھم خشعون (23 : 2) ” وہ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں “۔

جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو ان کے دلوں میں یہ خوف بیٹھا ہوتا ہے کہ وہ رب ذوالجلال کے سامنے کھڑے ہیں ، نہایت سکون اور نہیات ہی دھیمے پن کے ساتھ ۔ ان کی حرکات ، ان کے انداز قیام ، ان کے انداز سجود سے خوف خدا اور خشوعیاں ہوتا ہے ان کی روح اللہ کی عظمت اور جلال سے بھری ہوئی ہے۔ اس لیے ان کے ذہن سے تمام دوسرے مشاغل غائب ہوجاتے ہیں اور اللہ کے ہاں حضوری کے سوا تمام تصورات اوجھل ہوجاتے ہیں ۔ ان کے پر دئہ احساس سے ان کا پورا ماحول اور ان کے تمام دوسرے حالات اور تعلقات ان کے جسم و خیال سے محو ہوجاتے ہیں ۔ وہ صرف اللہ کا احساس رکھتے ہیں اور صرف ذلت باری کی معرفت کو محسوس کررہے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کا وجد ان تمام کثافتوں سے پاک ہوتا ہے۔ وہ تمام دنیاوی روابط کو کچھ دیر کے لیے جھٹک دیتے ہیں غرض نماز کے وقت اللہ کے جلال کے سوا ان کی نظروں میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یوں تو حقیر زدہ اپنے حقیقی مصدر سے مل جاتا ہے۔ ایک حیران روح کو طاقت پر وز مل جاتی ہے۔ ایک پریشان دل کو جائے قرار مل جاتی ہے۔ اس مقام پر تمام چیزیں ، تمام دنیاوی قدریں اور تمام افراد اشخاص نظروں سے گر جاتے ہیں اور ان چیزوں کا وہی پہلو نظروں میں ہوتا ہے جس کا تعلق اللہ سے ہو۔

والذین ھم عن الغو معرضون (23 : 3) ” جو لغویات سے دور رہتے ہیں “۔ ایسی باتون سے ادور رہتے ہیں جو لغو ہوں۔ ایسے افعال سے دور رہتے ہیں جو لغو ہو ، ایسی ترجیحات سے دور رہتے ہیں جو لغو ہوں ، ایسے خیالات سے دور رہتے ہیں جو لغو ہوں۔ ایک مومن کے دل کی وہ چیز ہوتی ہے جو اسے لہو و لعب اور لغو ہوں سے دور رکھتی ہے۔ یعنی وہ ذکر الہی میں مشغول رہتا ہے ۔ اللہ کی جلالت قدر کے بارے میں سوچنا رہتا ہے ۔ وہ نفس انسانی اور آفاق کائنات میں موجود آیات کے تدبر میں مصروف رہتا ہے۔ اس کائنات کے مناظر میں سے ہر منظر اس کے دماغ کو مصروف رکھے ہوئے ہوتا ہے۔ اس کی فکر ہر وقت ان مناظر میں غور کرتی رہتی ہے اور اس کا وجدان ہر وقت متحرک رہتا ہے۔ ہر وقت اپنے قلب و نظر کی تطمیر میں لگا رہتا ہے ، تزکیہ نفس کرتا رہتا ہے اور ضمیر کو پاک کرتا رہتا ہے۔ نیز ایک مومن نے اپنے طرز عمل میں جو تبدیلی لانی ہوتی ہے وہ رات اور دن اسی میں مصروف رہتا ہے۔ پھر ایمان کی راہ میں اسے جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ ان کے دور کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی المنکرکے فرائض کی ادائیگی اسے کرنی ہوتی ہے۔ پھر اس نے اپنی جماعت کی صف بندی بھی کرنی ہوتی ہے اور اسے فتنہ فساد سے بچانا ہوتا ہے ۔ ایک مسلم کو جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ اسلامی سوسائٹی کی نصرت اور حمایت کرنی ہوتی ہے اور اسلامی سو سائٹی کے مخالفین اور معاندین سے اسے بچانا ہوتا ہے ۔ یہ وہ فرائض ہیں جو ایک مسلمان کے لیے ہر حال میں واجب الاداء ہیں۔ یہ تمام کام فرض عین ہیں یا فرض کفایہ ہیں یہ وہ فرائض ہیں کہ اگر ان کو صحیح طرح سے انجام دیا جائے تو انسان کی پوری زندگی سعی و جہد کے لیے یہ کام کفایت کرتے ہیں کیونکہ انسان کی عمر محدود ہے اور اس کی طاقت بھی محدود ہے۔ اس طاقت کو کوئی شخص یا تو مذکورہ بالا کاموں میں صرف کرکے انسانی نشونما ، ترقی اور اصلاح میں کھپائے گا یا اس محدود قوت کو لہو و لعب من اور فضولیات میں خرچ کے گا۔ یاد رہے کہ یہ تما فرائض اور شریعت کی تمام ہدایات کسی مسلمان کو وقتا فوقتا جائز تفریح سے نہیں روکتے۔ کیونکہ جائز تفریح اور لہو و لعب اور زندگی کو بالکل بےمعنی بنانے کے درمیان بہت فرق ہے۔

والذین ھم للزکوۃ فعلون (23 : 3) ” وہ لوگ جو زکواۃ کے طریقے پر عمل پیرا رہتے ہیں “۔ اللہ کی طرف متوجہ ہونے اور لہو و لعب اور بےمعنی زندگی سے دور ہونے کے بعد زکواۃ پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ زکواۃ انسانی دل اور انسانی دولت دونوں کے لیے پاکیزگی کا باعث ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے انسان کا دل کنجوسی سے پاک ہوتا ہے اور انسان ذاتی مفاد کو قربان کردیتا ہے اور شیطان کی اس وسوسہ اندازی کا بھی مقابلہ کرتا ہے کہ تم غریب ہو جائو گے نیز زکواۃ کی وجہ سے سوسائٹی کا یہ روگ بھی دور ہوجاتا ہے کہ اس میں کچھ لوگ تو مالدار ہوں اور کچھ ایسے ہوں جن کے پاس کچھ نہ ہو۔ گویا یہ ایک لحاظ سے سوشل سکیورٹی کا ایک نظام ہے اور غریبوں کے لیے اجتماعی کفالت کا ذریعہ۔ اس کے ذریعہ ۔ اس کے ذریعے تمام لوگوں اور پوری سو سائٹی کے درمیان امن وا طمینان اور اتحاد و اتفاق کا سامان کیا جاسکتا ہے اور طبقاتی کشمکش کو دور کیا جاسکتا ہے۔

والذین ھم لفروجھم حفظون (23 : 5) ” وہ لوگ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں “۔ یہ روح کی پاکیزگی ہے ، یہ ایک خاندان کی پاکیزگی ہے ۔ اور پھر پوری سوسائٹی طہارت ہے۔ اس کے ذریعے ایک نفس ، ایک خاندان اور ایک معاشرے کو گندگی سے بچانا مقصود ہے ا۔ انسانی کی شرمگاہ کو غیر حلال اور ناجائز مباشرت سے محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ انسانی دل حرام کاری سے محفوظ رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جنسی تسکین کے لیے ایک سخت ضابطہ تجویز کیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ جن سو سائیٹیوں میں آزاد شہوت رانی کا رواج ہوتا ہے ان کا نظام ڈھیلا پڑجاتا ہے اور ایسی سو سائٹیاں فساد کا شکار ہوجاتی ہیں۔ کسی بھی ایسی سوسائٹی میں خاندانی نظام میں خلل واقع ہوجاتا ہے اور خاندان کا کوئی احترام نہیں رہتا۔

جبکہ فیملی کسی بھی سو سائٹی کے لیے پہلی وحدت اور پہلا یونٹ ہوتی ہے کیونکہ یہ وہ نرسری ہوتی ہے جس میں انسانی پود پروان چرھتی ہے اور درجہ بدرجہ برھتی ہے۔ لہذا خاندان ان کے ماحول میں امن و سکون اور پاکیزگی کا دور دورہ ہونا بھی ضروری ہے تاکہ یہ نرسری تدریج کے ساتھ نشو نما پائے اور والدین ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے نئی انسانی پود کی پرورش کریں۔ خصوصاً نہایت ہی چھوٹے بچوں کی پرورش اور خاندانی نظام کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔

پھر جس سوسائٹی کے اندر آزاد شہوت رانی بےحد و حساب اور بےباک روک ٹوک ہو وہ ایک گندی اور غلیظ سوسائٹی ہوتی ہے ۔ اس کے افراد گرے ہوئے اور بےہمت ہوتے ہیں کیونکہ وہ معیار جس میں انسانی ترقی میں کوئی غلطی نہیں ہوتییہ ہے کہ انسان کی قوت ارادی اس کے تمام امور اور تمام میلانات پر حاوی ہو۔ انسان کے تمام فطری تقاضے اس طرح منظم ہوں کہ وہ پاک و صاف ہوں اور اس سوسائٹی کے اندر انسانی پود کی جو نرسری تشکیل پائے وہ شرمندہ طریقوں کے مطابق نہ ۔ اور بچے اس دنیا میں ایسے پاک طریقے کے مطابق آئیں کہ ہر بچے کو اپنا باپ معلوم ہو ۔ اور یہ نہ ہو کہ اس میں ایک مادہ حیوان کسی بھی نر حیوان سے نطفہ لے اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حیوان کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کس طرح آیا ہے اور کون اسے لایا ہے۔

یہاں قرآن کریم متعین طور پر بتا دیتا ہے کہ انہوں نے اس نرسری کے لیے بیج کس طرح بونا ہے اور زندگی کی یہ تخم ریزی کہاں کرنی ہے۔

الل علی ازواجھم او ماملکت ایمانھم غیر ملومین (23 : 2) ” سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کے ملک یمین میں ہو۔ جہاں تک بیویوں کا تعلق ہے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں ہے “۔ اور نہ اس میں کوئی قیل و قال ہے ۔ یہ تو ایک معروف اور قانونی نظام ہے لیکن ملک یمین کے مسئلے کی تشریح ضروری ہے ۔ غلامی کے مسئلے پر ہم القران کی جلد دوئم میں منصل بحث کر آئے ہیں جس میں یہ کہا گیا تھا کہ جب اسلامی نظام آیا تو غلامی ایک عالمی نظام کے طور پر رائج تھی۔ اسی طرح جنگی قیدیوں کو غلام بنانا بھی ایک عالمی مسئلہ تھا۔ اسلام اور کفر کی کشمکش میں دشمنان اسلام پوری مادی قوت لے کر میدان میں اترے ہوئے تھے ، اس لیے اسلام کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس نظام کو یکطرفہ طور پر ختم کردے اور صورت حال یہ ہوجائے کہ مسلمان تو قیدی بن کر کفار کے غلام بن جائیں اور کفار قیدی ہو کر آئیں تو وہ اس قانون کی رو سے آزاد ہوجائیں ۔ اسلام نظام نے بامر مجبوری جنگی قیدیوں کی غلامی کا قانون تو بحال رکھا جبکہ غلامی کے دوسرے سرچشمے بند کردیئے ۔ اور یہ بھی اس وقت تک کہ قانون بین الاقوام مین غلامی کے خلاف کوئی قانون پاس نہیں ہوتا۔

چناچہ اس قانون کے مطابق اسلامی کیمپ میں بعض قیدی عورتیں آجاتی تھیں جو غلام ہوتی تھیں اور اس غلامی کی وجہ سے ان کا درجہ ایک آزاد منکوحہ عورت کے نہیں ہوتا تھا لیکن اسلام نے ان کے ساتھ مباشرت کی اجازت صرف اس شخص کو دے دی جو ان کا مالک ہوتا۔ یہاں تک کہ ان کو ان طریقوں کے مطابق آزادی مل جائے جو اسلام نے غلاموں کی آزادی کے لیے وضع کیے اور یہ طریقے متعدد تھے۔

اسلام نے ملک یمین میں مباشرت کی جو آزادی دی ہے اس میں خود اسیر عورتوں کی فطری ضروریات کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے تاکہ یہ نہ ہو کہ قیدی عورتیں اسلامی معاشرے میں آزاد شہوت رانی کرتی پھریں۔ جس طر آج ہمارے دور میں جنگی قیدی عورتوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ خصوصاً اس دور کے بعد جبکہ جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنانے کا بین الاقوامی معاہدہ ہوگیا۔ اسلام نے یہ قانون اسلیے جاری رکھا ہے کہ اسلام آزاد شہوت رانی اور جنسی بےراہ روی کے خلاف ہے۔ یہ ایک عارضی نظام تھا اور اس وقت تک کے لیے تھا جب تک اللہ کی طرف سے ان کی آزادی کا انتظام نہیں کردیا جاتا ۔ اور یہ غلام عورتیں آزادی کے مقام تک نہیں پہنچ جائیں۔ اسلام نے ایسے قوانین بنائے کے کوئی غلام عورت بہت سے ذرائع استعمال کرکے آزادی حاصل کرسکتی ہے ۔ مثلا اگر اس سے مالک سے اس کا لڑکا یا لڑکی پیدا ہوجائے اور یہ مالک فوت ہوجائے تو غلام عورت آزاد ہوجائے گی یا یہ مالک خود اسے آزاد کردیگا یا کسی کفارہ میں وہ آزاد ہوجائے۔ نیز مکاتبت کے ذریعے بھی غلام عورت آزاد ہوسکتی ہے ۔ مکاتبت وہ تحریری معاہدہ وہوتا ہے جس میں ایک غلام اپنی آزادی کے لیے اپنے مالک کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے ۔ (مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیے میری کتاب شبہات حول الاسلام)

بہر حال غلامی ایک عارضی جنگی ضرورت تھی اور یہ اس طرح تھی کہ بین الاقوامی سطح پر جنگی قوانین مشل بالمشل ہوتے ہیں۔ یعنی جس طرح دشمن قوم جنگی قیدیوں سے سلوک کرے گی ، اسلام بھی ویسا ہی سلوک کرے گا۔ غرض آزاد لوگوں کو غلام بنانا اسلامی نظام کا کوئی مستقل اصول نہ تھا کیونکہ یہ ایک بین الاقوامی ضرورت تھی۔

فمن ابتغی ورآء ذلک فا ولئک ھم العدون (23 : 7) ” البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں “۔ یعنی جو شخص اپنی منکوحہ بیویوں اور مملوکہ لونڈیوں کے علاوہ دوسرے کسی طریقے سے بھی شہوت رانی کرے گا وہ جائز دائرہ سے تجاوز کرنے والا ہوگا۔ وہ حرام میں پڑجائے گا۔ تعدی یوں ہوگی کہ نکاح اور جہاد کے بغیر وہ دوسرے طریقے سے شہوت رانی کر رہاے ہے۔ یو اس کا ضمیر بھی اسے ملامت کرے گا کیونکہ وہ ایک ایسی چراگاہ میں چر رہا ہے جو اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر اس حرام کاری کے نتیجے مین جو نر سری ہوگی وہ بھی شتر بےمہار ہوگی اور اس کی وجہ سے پوری سوسائٹی فساد کا شکار ہوگی۔ اس سو سائٹی کے بھیڑئے آزاد ہوجائیں گے اور جہاں سے چاہیں گے گوشت نچ لیں گے۔ یہ تمام ایسی صورتیں ہیں جنہیں اسلام ناپسند کرتا ہے۔

وا ؛ ذہم لل منتھم عھد رعون (23 : 8) ” جو اپنی امانتوں اور عہد ویمان کا خیال رکھتے ہیں “۔ یعنی انفرادی طور پر بھی وہ اپنے عہد و یمان کے محافظ ہوتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی وہ عہد ویمان کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔

امانتوں میں وہ تمام ذمہ داریاں آتی ہیں جو کسی فرد یا جماعت کے ذمہ لازم ہوتی ہیں۔ پہلی امانت تو فطرت انسانی ہے۔ فطرت انسانی کو اللہ نے نہایت ہی سیدھا بنایا ہے اور فطرت انسانی ناموس کائنات کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے ۔ اور یہ دونوں پھر اللہ کی وحدانیت اور اس کی تخلیق پر شاہد عادل ہیں کیونکہ اس پوری کائنات میں ایک ہی قانون قدرت کام کر رہا ہے جس میں خود ذلت انسانی بھی شامل ہے اور یہ وحدت ناموس فطرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کائنات کے پیچھے ایک ہی ارادہ مدبرہ کام کررہا ہے۔ اہل ایمان کا یہ فریضہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ کائنات کی اس فطرت کو تبدیل نہ ہونے دیں۔ کیونکہ یہ ان کہ پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور ذلت باری پر یہ شاہد عادل بھی ہے اور اسکے بعد پھر تمام دوسری امانتوں کا یہی حکم ہے۔

عہد کی رعایت کا مطلب بھی یہ ہے کہ سب سے پہلے اس عہد کی رعایت کی جائے جو از روئے فطرت انسان پر عائد ہے۔ انسان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اللہ وحدہ کو ازروئے فطرت پہچانے کہ وہ موجود ہے اور واحد ہے پھر اس عہد کے بعد تمام عہدو یمان آتے ہیں۔ ان عقود کی رعایت کرتے ہیں۔ گویا یہ اہل ایمان کی صفت دائمہ اور قائمہ ہے اور کسی بھی سو سائٹی کا نظم و نسق اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک اس کے افراد میں استقامت نہ اختیار کریں۔ اپنے عہد ویمان کا خیال نہ رکھیں اور اس مشترکہ نظام زندگی پر اس سوسائٹی کے تمام افراد مطمئن نہ ہوجائیں تاکہ تمام لوگوں کو امن و اطمینان حاصل ہو اور وہ اعتماد سے زندگی بسر کریں۔

والذین ھم علی صلوتھم یحافظون (23 : 9) ” جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں “۔ وہ اپنی نماز ہرگز قضا نہیں کرتے نہ وہ انہیں ضائع کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنی نمازوں کی کیفیت میں کمی نہیں کرے۔ وہ ان نمازوں کے فرائض سنن اور مستحبات کو پوری طرح ادا کرتے ہیں ۔ پورے ارکان اور آداب کے ساتھ نمازیں پڑھتے ہیں۔ ان کی نمازیں زندہ نمازیں ہوتی ہیں۔ اور پوری توجہ سے وہ ان میں غرق ہوتے ہیں ، ان کی روح اور ان کا وجدان نمازوں سے اچھا اثر لیتا ہے۔ نماز دراصل بندے اور رب کے درمیاں ایک رابطہ ہوتی ہے ۔ جو شخص نماز کی حفاظت نہیں کرتا وہ درحقیقت اپنے اور اپنے رب کے درمیاں اس رابطے کو کاٹ دیتا ہے۔ اور ایسا شخص پھر دو سرے بنی نوع انسان کے ساتھ بھی اچھے روابط نہیں رکھتا۔ بیان صفات اہل ایمان کا آغاز بھی نماز کے ذکر سے ہوا اور اختتام بھی نماز کے ذکر سے ہوا۔ مقصد یہ بتلانا ہے کہ اسلام اور ایمان کے بعد نماز سب سے اہم فریضہ ہے۔ یہاں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نماز کو اپنی پوری صفات کے ساتھ ادا کیا جائے اور اس میں اپنی پوری توجہ اللہ کی طرف مبذول کردی جائے کہ اسلام میں اول بھی نماز اور آخر بھی نماز ہے۔

یہ ان اہل ایمان کی صفات ہیں جن کے لیے اللہ نے فلاح لکھ دی ہے ۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو یہ طے کرتی ہیں کہ اہل ایمان کی زندگی کے خدوخال کیا ہوتے ہیں اور اہل ایمان کو کیسی زندگی بسر کرنا چاہئے۔ یعنی ایسی زندگی جو ایک ایسے انسان کے ساتھ لائق ہے جسے پوری مخلوق پر کرامت اور شرف عطا کیا گیا ہے۔ نہ زندگی سے اس طرح لطف اندوز ہو کہ وہ اپنی زندگی کو مزید ترقی دے اور محض حیوانات کی طرح زندگی بسر کرے۔ نہ زندگی سے اس طرح لطف اندوز ہو جس طرح حیوانات ہوتے ہیں اور نہ اس طرح کھاتا پیتا ہو جس طرح حیوانات کھاتے پیتے ہیں۔

لیکن دنیا کی اس ہم گیر ترقی کے باوجود وہ ترقی اور کمال اس دنیا میں حاصل نہیں کیا جاسکتا جو اہل ایمان کے لائق ہے اس لیے اللہ نے انسان کو راہ ترقی اور کمال اس دنیا میں حاصل نہیں کیا جاسکتا جو اہل ایمان کے لائق ہے اس لیے اللہ نے انسان کو راہ ترقی پر مزید آگے بڑھاتے ہوئے ، کمال اور ترقی کے اعلیٰ ترین مدارج تک یعنی جنت الفردوس میں پہنچایا۔ ترقی و کمال کے ان اعلیٰ مدارج پر ، پھر اہل ایمان ہمیشہ فائز رہیں گے۔ یہاں ان کے لیے کوئی خوف و خطر نہ ہوگا اور وہاں وہ بلا زوہل قرار و سکون رہیں گے۔

اولئک ھم الورثون (10) الذین یرثون الفردوس ھم فیھا خلدون

” یہی وہ لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے “۔ یہ وہ آخری مطلوب ہے جو اہل ایمان کے لیے لکھا گیا ہے ۔ اس کے سوا ایک مومن کا کوئی نصب العین نہیں ہے اور نہ اس کے حصول کے بعد اس کا کوئی اور نصب العین رہتا ہے جس کی وہ آرزو کرے۔

اہل ایمان کی صفات میں سے ایک اہم صفت یہ ہے کہ وہ خود اپنے نفوس کے اندر پائے جانے والے دلائل ایمان پر غور کریں۔ سب سے پہلے وہ ذرا اپنے وجود اور اس کی نشو نما کی حقیقت پر غور کریں کہ اس کی شخصیت کا آغاز کس چھوٹے سے چرثومے سے ہوا اور پھر بعث بعد الموت اور آخرت کی زندگی کا حال کیا ہوگا۔ ان دونوں زندگیوں کی دنیاوی اور اخروی کیفیت کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟

اردو ترجمہ

اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena hum fee salatihim khashiAAoona

اردو ترجمہ

لغویات سے دور رہتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena hum AAani allaghwi muAAridoona

اردو ترجمہ

زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena hum lilzzakati faAAiloona

اردو ترجمہ

اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena hum lifuroojihim hafithoona

اردو ترجمہ

سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین میں ہوں کہ ان پر (محفوظ نہ رکھنے میں) وہ قابل ملامت نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa AAala azwajihim aw ma malakat aymanuhum fainnahum ghayru maloomeena

اردو ترجمہ

البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Famani ibtagha waraa thalika faolaika humu alAAadoona

اردو ترجمہ

اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena hum liamanatihim waAAahdihim raAAoona

اردو ترجمہ

اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena hum AAala salawatihim yuhafithoona

اردو ترجمہ

یہی لوگ وہ وارث ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Olaika humu alwarithoona

اردو ترجمہ

جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yarithoona alfirdawsa hum feeha khalidoona

اردو ترجمہ

ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad khalaqna alinsana min sulalatin min teenin

ولقد تبعثون (12 تا 16)

یہ انداز تخلیق ، یہ منظم انداز نشونما اس کے اندر پایا جانے وا لا تسلسل ۔ سب سے پہلے تو یہ بتاتا ہے کہ اس پورے نظام کا ایک خالق ہے اور پھر اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا عمل اس کے ارادہ مدبرہ کے مطابق ہے۔ یہ نہایت ہی پچیدہ عمل محض اتفاق سے یونہی نہیں ہوجاتا اور نہ یہ پورا عمل بغیر کسی ارادے اور تدبیر کے یونہی اتفاقاً ہوتا ہے۔ خصوصاً اس کا یہ پہلو کہ اس پورے نظام واقعات میں کبھی بھی یہ سلسلہ منقطع نہیں ہوتا۔ انسان کا یہ نظام تخلیق عقلاً کئی دوسرے طریقوں سے ممکن ہے لیکن کبھی یہ طریق کار تبدیلی کو قبول نہیں کرتا۔ یہ پہلوخصوصاً ٓاس بات کا اظہار کرتا ہے کہ ایک مخصوص ارادہ جو اس نظام کی پشت پر ہے۔

حیات انسانی کی یہ تدریجی نشونما اپنے اس تسلسل کے ساتھ بظاہر ایک اعجوبہ ہے اور اسے صرف اس صورت میں حل کیا جاسکتا ہے کہ اس سورة کے مطابق ایک انسان سیدھی طرح اللہ پر ایمان لے آئے۔

بس یہی ایک طریقہ ہے جس سے اس تخلیق اور اس نشو نما کو اپنے کمال تک پہنچانے کا تصور دیا جاسکتا ہے۔ صرف ایمان باللہ ہی کی صورت میں دنیا و آخرت کی زندگی با معنی اور با مقصد ہوسکتی ہے۔ صفات مومنین کے بعد یہاں زندگی کی اس عجیب نشونما کے مدارج کو کیوں لایا گیا ہے ؟

ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین (23 : 12) ” ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ، پھر ایک محفوظ جگہ ٹپی کی ہوئی بوند میں تبدیل کیا “۔ یہ آیت انسانی زندگی کی نشونما کے انداز کو نہایت ہی تعین کے ساتھ بتاتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان موجود انسانی شکل تک کئی مراحل طے کرکے پہنچتا ہے۔ یو وہ پہلے مٹی سے انسان تک پہنچا ، کیچڑ گویا انسان کی تخلیق درجہ اول ہے۔ اور انسان اپنی موجودہ شکل میں اس عمل تخلیق کا فائنل مرحلہ ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی قرآن کریم صراحت کرتا ہے۔ ہم انسان کے اس عمل تخلیق کی تصدیق ان سائنسی مشاہدات سے کرنا نہیں چاہتے جنہوں نے اس عمل کو تخلیقی کا بڑی باریکی سے مشاہدہ کیا ہے کہ انسانی زندگی کس طرح نشونما پاتی ہے۔

قرآن کریم نے تخلیق کس قدر پچیدہ ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کیچڑ سے انسان کی تخلیق تک کس قدر تبدیلی ہے ۔ قرآن کریم نے اس سے زیادہ تفصیلات نہیں دی ہیں کیونکہ قرآن کریم کا مقصد ان موٹے موٹے مدارج تخلیق کے ذکر ہی سے پورا ہوجاتا ہے ۔ رہے موجودہ سائنسی مشاہدات تو ان کے پیش نظر نشونما کے نہایت ہی مفصل مدارج کا بیان ہوتا ہے تاکہ وہ کیچڑ سے مکمل انسان کی تخلیق تک مدارج کو تفصیل سے لیں۔ سائنس دانوں کے مشاہدات درست بھی ہوسکتے ہیں اور بعض اوقات وہ غلط مشاہدات بھی کرتے ہیں۔ آج زیادہ وہ مدارج بتاتے ہیں اور کل ان میں کمی کردیتے ہیں کیونکہ آلات مشاہدہ میں آئے دن تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔

قرآن کریم کبھی تو ان مدارج کو اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہے اور کبھی ان کی تفصیلات دیتا ہے۔ بعض اوقات صرف یہ فقرہ ہوتا ہے۔

و بدا خلق الانسان من طین (32 : 7) ” انسان کی ابتدائی تخلیق مٹی سے کی گئی “۔ اب اس میں مراحل کا ذکر بالکل نہیں ہے اور جس آیت میں تفصیلات دی گئی ہیں اس میں کہا ہے۔

من سللۃ من طین (23 : 12) ” دوسری آیت میں اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ رہی یہ بات کہ انسان مٹی سے کس طرح تسلسل کے ساتھ اپنی موجودہ کامل حالت تک پہنچاتو قرآن کریم نے اس کی تفصیلات نہیں دی ہیں اور جیسا کہ ہم نے دوسری جگہ تفصیلات دے دی ہیں یہ امور قرآن کریم کے مقاصد میں شامل ہی نہیں ہیں۔ قرآن کریم نے جو مدارج حیات بیان کیے ہیں وہ سائنسی مشاہدات کے مطابق بھی ہوسکتے ہیں اور خلاف بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ عمل کسی نامعلوم ذریعہ سے ہوا ہو اور ابھی بھی انسان نے اسے دریافت نہ کیا ہو یا کچھ ایسے فیکٹر ہوں جو ابھی انسان کے علم سے باہر ہوں۔ لیکن قرآن انسان کو جس نظر سے دیکھتا ہے اور یہ دوسرے سائنسی نظریات اسے جن مقاصد کے لیے مشاہدہ کرتی ہیں ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قرآن کریم انسان کو ایک نہایت ہی مکرم اور برگزیدہ مخلوق قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس ذات کے اندر اللہ کی روح پھونگی گئی ہے اور اس روح ہی نے اسے مٹی سے انسان بنادیا اور اسے دو خصوصیات عطا کیں جن کی وجہ سے انسان کہلایا اور حیوان سے ممتاز قرار پایا یوں قرآن کا نقطہ نظر انسان کے بارے میں مادہ پرستوں سے بالکل جدا ہے اور اللہ کا قول تمام لوگوں سے زیادہ سچا ہے۔

(دیکھئے الانسان بین المادیۃ والاسلام محمد قطب) یہ ہے جنس انسانی کی اصل تخلیق مٹی کے ست سے۔ رہا بعد کا سلسلہ نسل انسانی تو اس کا طریق کا بالکل کار بالکل جدا ہے اور ایک معروف اور مشاہدہ کیا ہواطریقہ ہے۔

ثم جعلنہ نطفۃ فی قرار مکین (23 : 13) ” پھر ہم نے اسے ایک محفوظ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کردیا ”۔ اللہ نے جنس انسانی (آدم) کو تو مٹی کے ست بنایا۔ رہا سلسلہ تناسل تو اس سلسلے کو اللہ تعالیٰ نے پانی کے ایک قطرے سے چلایا۔ پانی کا یہ قطرہ مرد صنب سے نکلتا ہے۔ یہ قطرہ رحم مادر میں ٹھرتا ہے۔ یہ پانی کا نہایت ہی چھوٹا نکتہ ہوتا ہے بلکہ یہ ہزار ہا خلیوں میں سے ایک خلیہ ہوتا ہے اور پانی کے اس قطرے میں یہ خلیے ہزار ہا کی تعداد میں ہوتے ہیں۔

فی قرار مکین (23 : 13) ” محفوظ جگہ میں “ یہ نقطہ رحم میں جاکر رحم کی ہڈیوں کے درمیان ایسی جگہ محفوظ جگہ میں ہوتا ہے کہا اس پر جسم کی حرکات کا کو ئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ جگہ ایسی ہوتی ہے کہ انسان کی پیٹھ اور پیٹ کو جھٹکے اور چوٹیں اور حرکات اور تاثرات پہنچتے ہیں یہ جگہ ان سے محفوظ ہوتی ہے۔

قرآن کریم اس نقطے کو انسان کی تخلیق کا ایک مرحلہ قرار دیتا ہے اس نقطے سے بڑھ کر انسان ایک مکمل انسان بنتا ہے ۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے لیکن یہ عجیب اور قابل غور حقیقت ہے۔ جب اس عظیم الحبثہ انسان کو ہم مختصص کرکے اس نقطے کے اندر وہ تمام انسانی خصائص پائے جاتے ہیں تو پھر ایک کامل انسان اندر سے اس قسم کے اور جینز تخلیق ہوتے رہتے ہیں ۔ سلسلہ تخلیق کا یہ ایک عجیب نظام ہے۔

اس نقطے سے انسان پھر علفہ بن جاتا ہے یعنی خون کا ایک لوتھڑا۔ اس مرحلے میں مرد کا جرثومہ عورت کے انڈے کے ساتھ مکس ہوجاتا ہے اور ابتداء میں رحم مادر کے ساتھ معلق یہ ایک باریک نقطہ ہی ہوتا ہے ۔ یہ نقطہ رحم مادر کے خون سے غذاپاتا ہے۔ علقہ سے پھر المضغۃ ” خون کی بوٹی “ کی شکل میں آجاتا ہے ۔ بوٹی کی شکل میں اب یہ نقطہ قدرے بڑا ہے ۔ اب یہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے ۔ یہ خون کا ایک موٹا ٹکڑا ہوتا ہے ۔

یہ چھوٹی سی مخلوق اپنی اس راہ پر چلتی ہے۔ یہ اپنی ڈگر تبدیل نہیں کرتی۔ نہ اپنی راہ سے ادھر ادھر جاتی ہے ۔ اس کی حرکت معظم اور مرتب ہوتی ہے اور یہ اس ناموس کے مطابق ہوتی ہے جو پہلے سے اللہ نے مقرر کردیا ہے۔۔ یعنی اللہ کی تدبیر و تقدیر کے مطابق ۔ اس کے بعد ہڈیوں مرحلہ آتا ہے۔

فخلقنا المضغۃ عظما (23 : 13) پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں۔ اور اس کے بعد یہ مرحلہ آیا کہ ہڈیوں پر گوشت چڑھ آیا۔

فکسونا العظم لحما (23 : 31) ” پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا “۔ ان مراحل کو پڑھ کر اور پھر دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ قرآن کریم نے کے ان مراحل کو جس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے وہ سائنس دانوں کے مشاہدے میں بہت بعد میں آئی ہے ۔ سائنس دانوں نے بعد میں یہ بات معلوم ہوئی کہ ہڈیوں کے خلیے اور ہیں ۔ اور گوشت کے خلیے اور ہیں۔ اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ جنین کے اندر ہڈیوں کے خلیے پہلے چڑھتے ہیں اور بعد میں ان پر گوشت کے خلیے چڑھتے ہیں اور جب تک ہڈیوں کے خلیے مکمل نہیں ہوتے اس وقت تک گوشت کے خلیے پاپید ہوتے ہیں اور بعد میں جنین کا ڈھانچہ بنتا ہے۔ یہ حیران کن حقیقت ہے جسے جسے قرآن کریم ریکارڈ کرتا ہے۔

فخلقنا المضغۃ عظما فکسونا العظم لحما (23 : 14) ” پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں “ اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ۔ ثم انشانہ خلقا اخر (23 : 14) ” پھر اسے ایک دوسری مخلوق بنا کھڑا کیا “۔ اور یہ مخلوق انسان ہے۔ یہ امتیازی خصوصیات کا حامل ہے ۔ ابتداء مین انسان کا جنین اور حیوان کا جنین جسمانی ساخت کے اعتبار سے ایک جیسے نظر آتے ہیں لیکن آخر میں جاکر انسان کا جنین ایک دوسری مخلوق کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ ایک مکرم اور صاحب امتیاز مخلوق ہوتی ہے اور یہ ارتقاء اور ترقی کی بےپناہ استعداد اپنے اندر رکھتی ہے ۔ حیوان کا جنین حیوان کے ہی درجے میں رہ جاتا ہے۔ وہ انسانی خصائص کو اخذ نہیں کرسکتا۔ اور ان کمالات تک نہیں پہنچ پاتا جن تک انسان پہنچتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ انسانی جنین کو متعین اور مخصوص خصوصیات دی گئی ہیں اور یہی خصوصیات ہیں جو بعد کے زمانے مین انسان کو انسانیت کی راہ پر ڈالتی ہیں۔ اس طرح انسان ” ایک دوسری “ مخلوق بن جاتا ہے ۔ اور یہ اس وقت ہی بن جاتا ہے جب یہ جنین اپنے آخری دور میں نشونما میں ہوتا ہے۔ حیوان اپنے آخری دور میں انسان سے پیچھے رہ جاتا ہے اس لیے کہ اس کو انسانی خصوصیات نہیں دی گئیں۔ چناچہ کسی حیوان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے حیوانی مقام سے آگے بڑھ پائے اور اس طرح آگے بڑھتے بڑھتے حیوان سے انسان بن جائے جیسا کہ مادی نطریہ کے قائلین اس پر یقین رکھتے ہیں لیکن انسان اپنی انسانی خصوصیات کے اعتبار سے ایک مقام جا کر رک جاتا ہے اور انسان خلق آخر بن جاتا ہے اور ان ذمہ داریوں کے اٹھانے کے قابل بن جاتا ہے جو اس نے اس کرہ ارض پر ادا کرنی ہیں۔ یہ فرق ان امتیازی خصوصیات کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہیں ۔ اس معاملے میں یہ نظریہ بالکل غلط ہے کہ حیوانات نے ترقی کرتے کرتے درجہ انسانی تک بلندی حاصل کی ہے۔

نظریہ ارتقاء اسلام کے نظریہ سے متضاد تصور پر قائم ہے۔ یہ نظریہ فرض کرتا ہے کہ موجودہ انسان حیوانی ارتقاء کا ایک درجہ ہے ۔ اور یہ کہ حیوان بھی ترقی کرکے انسان بن سکتا ہے لیکن واقعی صورت حالات یہ ہے کہ واضح طور پر یہ کہ نظریہ محض مفروضہ اور جھوٹ نظر آتا ہے ۔ حیوان کبھی بھی انسانی خصوصیات کا حامل نہیں ہوسکتا ۔ وہ ہمیشہ ہی اپنی حدود میں رہتا ہے ان سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ یہ ممکن ہے کہ کسی نوع کے اندر شکلی اعتبار سے کوئی نوع حیوان ترقی کرلے جس طرح ڈرائون کہتا ہے۔ لیکن ہر نوع اپنے نوع اپنے نوعی حدود کے اندر رہتی ہے وہ نوعی خصوصیات بدل نہیں سکتی کیونکہ ہر نوع حیوانی کی خصوصیات علیحدہ ہوتی ہیں اور کسی خارجی قوت نے اسے دی ہوتی ہیں جبکہ نوع انسانی بالکل ایک علیحدہ نوعیت اور خصوصیات کی حامل ہے اور یہ خصوصیات اسے بعض مخصوص مقاصد کے لیے اللہ کی قوت نے دی ہیں۔

فتبرک اللہ احسن الخلقین (23 : 14) ” بس بڑا ہی با برکت ہے اللہ ، سب کا کاریگروں سے اچھا کاریگر “۔ جس نے انسان کے جنین کے اندر یہ صلاحیت رکھی ہے وہ اس انداز نشونما کے مطابق ایک خود کار نظام کے مطابق آگے برھتا ہے۔ ایک نہایت ہی پچیدہ سنت الیہ کے مطا بق جس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ اس کے مراحل میں سے مرحلہ حذف ہوتا ہے یہاں تک کہ انسان ترقی و کمال مقررہ درجہ کمال تک پہنچ جاتا ہے ۔

لوگ سائنس کے انکشافات کو معجزہ قرار دیتے ہیں اور ان کو سن سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ خصوصا جب انسان ایک ایسا آلہ یا مشین تیار کرتا ہے جو خود کار طریقے کے مطابق چلتا ہے اور انسان کی مداخلت کے بغیر کام کرتا ہے ۔ کیا یہ لوگ اس جنین کو نہیں دیکھتے کہ یہ نہایت ہی خود کار طریقے کے مطابق اپنے مختلف مراحل طے کرتا چلا جاتا ہے۔ بظاہر ان مراحل سے گزرنے میں اسے گزارنے والا نظر نہیں آتا ۔ جب ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو اس کی ماہیت میں بھی مکمل تبدیلی آجاتی ہے۔ پھر نظر آتا ہے کہ ان دونوں مراحل میں اس کے اندر ایک تبدیلی آگئی ہے۔ لوگ رات دن ان تغیرات اور واقعات کو دیکھتے ہیں لیکن اپنی آنکھیں بند کرکے چلے جاتے ہیں ، ان کے دل و دماغ اس عظیم خود کار نظام پر غور نہیں کرتے۔ یہ کیوں ؟ اس لیے کہ ہم اس نظام کے عادی ہوگئے ہیں حالانکہ یہ اپنی جگہ حیرت انگیز نظام ہے۔ محض انسان کی اس پچیدہ تخلیق پر غور و فکر ہی انسان کی ہدایت کے لیے کافی ہے جس کی تمام خصوصیات ، تمام خدوخال ، اس چھوٹے نکتے کے اندر موجود ہوتے ہیں جو اس قدر چھو ٹا ہوتا ہے کہ انسان خوردبین کے بغیرا سے دیکھ نہیں سکتا ۔ یہ تمام خصوصیات اور تمام خدو خال آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں اور اپنے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے پھر ہماری نظروں میں آجاتے ہیں ۔ جب انسان بچے کی صورت میں ہوتا ہے تو انسان کے انسانی خصائص نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ پھر ہر بچہ عام انسانی خصائص کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی مخصوص خصوصیات کو بھی وراثت میں پاتا ہے اور یہ دونوں قسم کی خصوصیات اس چھوٹے سے نکتے کے اندر مرکوز ہوتی ہیں۔ غرض یہ عمل جو رات اور دن ہمارے درمیان اور ہمارے سامنے قدرت دہراتی ہے ، انسان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے اور انسانی غورو فکر کے لیے اس میں عظیم مواد موجود ہے۔

اب سیاق کلام ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے تاکہ زندگی کے اس سفر کو انتہا تک پہنچا دے ۔ اب زندگی کے ایک نئے مرحلے کا ذکر ہوتا ہے ۔ کیونکہ یہ زندگی جس کی تخلیق اس متی سے کی گئی ہے اس دنیا ہی میں ختم نہیں ہوجاتی کیونکہ یہ صرف مٹنی نہیں ہے بلکہ اس میں روح کا آمیزہ کیا گیا ہے ، لہذا اس کو اس سے بھی آگے بڑھنا ہے۔ اس زندگی میں چونکہ عالم بالا کی طرف سے روح پھونکی گئی ہے اس لیے اس کا آخری منزل یہی جسمانی منزل نہیں ہے ۔ خون اور گوشت کی اس قریبی منزل سے آگے اور جہان بھی ہیں ۔ چناچہ زندگی کا آخری مرحلہ سامنے آتا ہے۔

اردو ترجمہ

پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma jaAAalnahu nutfatan fee qararin makeenin

اردو ترجمہ

پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma khalaqna alnnutfata AAalaqatan fakhalaqna alAAalaqata mudghatan fakhalaqna almudghata AAithaman fakasawna alAAithama lahman thumma anshanahu khalqan akhara fatabaraka Allahu ahsanu alkhaliqeena

اردو ترجمہ

پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma innakum baAAda thalika lamayyitoona

ثم انکم بعدذلک لمیتون (23 : 15) ثم انکم یوم القیمۃ تبعثون (23 : 16) ” پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے ، “۔ یہ موت دنیا کی زندگی کا اختتام ہے اور دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے درمیان بھی ایک مرحلہ ہے۔ لہذا برزخ کی زندگی بھی حیات انسانی کی ترقی کا ایک مرحلہ ہے۔ اور برزخ انسانی زندگی کا اختتام نہیں ہے۔

اس کے بعد انسان نے حکم الہی کے مطابق دوبارہ اٹھنا ہے۔ یہ بھی زندگی کا ایک دور ہوگا ، ایک مرحلہ ہوگا لیکن یہ ایک کامل زندگی ہوگی۔ اس زندگی میں کوئی نقص نہ ہوگا ، اس میں خون اور گوشت کی زندگی کی ضروریات درکار نہ ہوں گی۔ نہ اس میں خوف اور بےچینی ہوگی ، نہ اس میں کوئی تبدیلی ہوگی اور نہ نشیب و فراز ہوں گے بلکہ یہ انسان کے لیے ایک آخری آرام گاہ ہوگی لیکن یہ کامل زندگی اس شخص کے لیے ہوگی جو ترقی و کمال کی راہوں پر چلنے والاہو۔ وہ زندگی کے اس سورة کی ابتدا ئی آیات جس کے خدوخال طے کردیئے گئے ہیں یعنی ایمان والوں کی زندگی ، ۔ لیکن جس نے اپنی زندگی کے بنیادی مرحلے کو ترقی نہ دی بلکہ اسے تنزل سے دوچارکرکے اسے حیوانی زندگی جیسا بنا دیا وہ آخرت میں بھی اسی طرح معکوس کرے گا۔ وہاں اس کی انسانیت جمادات کا کام کرے گی۔ وہ جہنم کا ایندھن ہوگا۔ جبکہ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھرہوگے تو اس قسم کے لوگ نباتات سے بھی نیچے پتھر ہوجائیں گے۔

اب سیاق کلام نفس انسانی کے اندرونی دلائل ایمان سے آفاق کائنات میں موجود دلائل ایمان کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔ لوگ ان آفاقی دلائل کو رات اور دن دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کو اچھی طرح سمجھتے بھی ہیں لیکن پھر بھی غافل ہو کر گزر جاتے ہیں ۔

اردو ترجمہ

پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے، پھر قیامت کے روز یقیناً تم اٹھائے جاؤ گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma innakum yawma alqiyamati tubAAathoona

اردو ترجمہ

اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad khalaqna fawqakum sabAAa taraiqa wama kunna AAani alkhalqi ghafileena

ولقد تحملون (آیت نمبر 17 تا 22)

سیاق کلام ان دلائل کو پیش کرتا ہے اور ان تمام دلائل کو باہم مربوط کرتا ہے کہ یہ تمام دلائل قدرت الہیہ کے نشانات ہیں۔ پھر یہ سب نشانات یہ بھی دکھاتے ہیں کہ اس کائنات کو کس شان اور تدبیر کے ساتھ چلایا جاتا ہے۔ قدرت کے یہ تمام مظاہر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں ان نشا نات کے کام اور فرائض منصبی بھی باہم مربوط ہیں اور جس سمت کی یہ نشاہدہی کرتے ہیں وہ بھی ایک ہے یعنی ایک خالق۔ سب کے سب ایک ہی ناموس فطرت کے مطیع ہیں ، اپنے فرائض تکوینی میں باہم متعاون ہیں اور ان کی خدمات سب کی سب اس حضرت انسان کے لیے ہیں جسے اللہ نے معزز اور مکرم بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تخلیق انسان اور دوسرے مظاہر فطرت کو یکجا کیا گیا ہے۔

ولقد خلقنا فو قکم سبع طرائق وما کنا عن الخلق غفلین (23 : 17) ” اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے ، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نا بلد نہ تھے “۔ یہ سات راستے طرائق کیا ہیں ، یہ دراصل طبقات ہیں ، بعض ، بعض کے اوپر ہیں یا بعض دوسرے کی نسبت بہت دور ہیں ۔ سیع طرائق سے اہم فلکی مدار بھی ہوسکتے ہیں ۔ اور اسی طرح ان سے مرادوہ سات ، کہکشاں بھی ہو سکتے ہیں جس طرح ہم سورج کی کہکشاں میں بستے ہیں ، یا ان سے سات سدم بھی مراد ہوسکتے اور سدم سے مراد فلکیات والوں کے نزدیک ستاروں کے مجموعے (Nebula) ہیں۔ غرض مراد جو بھی ہو ، یہ سات فلکی مخلوق ہے اور یہ انسانوں کے اوپر ہے ، بہر حال یہ سبع طرائق زمین سے بلندی پر ہیں اور اسی فضائے کائنات میں ہیں ۔ اللہ نے اپنی سان حکیمانہ سے ان کو پیدا کیا ہے اور وہ اللہ وہ اللہ اپنی تخلیق سے غافل نہیں ہے۔

وانزلنا من السماء ماء بقدر فاسکنہ فی الارض وانا علی ذھاب بہ لقدرون (23 : 18) ” اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھرادیا ، ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کرسکتے ہیں “۔ یہاں یہ سات راستے زمین کے ساتھ جمع ہوجاتے ہیں ۔ پانی آسمان سے اترتا ہے۔ ان سات افلاک کے ساتھ پانی کا تعلق ہے۔ کیونکہ اس کائنات کا اس انداز پر پیدا کیا جانا ہی اس بات کا ضامن ہے کہ وہ آسمانوں سے پانی اتارتا ہے ، پھر یہ پانی کے اوپر ٹھرتا ہے ۔

یہ نظریہ کہ زمین کے اندر جو پانی ہے وہ بارشوں ہی کا پانی ہے ۔ یہ پانی مختلف راہوں سے زمین کے اندر جذب ہوجاتا ہے۔ یہ نظریہ بالکل ایک جدید نظریہ ہے۔ ماضی قریب تک لوگ یہ سوچتے تھے کہ بارش کے پانی اور زمین کے اندر کے پانی کا باہم کوئی تعلق نہیں ہے لیکن قرآن نے آج سے تقریباً تیرہ سو سال پہلے اس حقیقت کو بیان کردیا تھا۔

پھر اللہ نے اس پانی کو ٹھیک ٹھیک حساب کے مطابق اتارا ، نہ زیادہ اتارا کہ طوفان کی شکل میں سب کچھ غرق کردے اور نہ ضرورت سے کم اتارا کہ ملکوں کے اندر خشک سالی ہوجائے اور تروتازہ گی اور شادابی ختم ہوجائے۔ نہ بےموسم اتارا کہ پانی ضائع چلا جائے۔

فا سکنہ فی الارض (23 : 61) ” اور اس کو زمین میں ٹھرادیا “۔ تو یہ پانی بھی زمین میں ٹہرا ہوا ہے اور انسان کا نطف بھی قرار مکیں میں ٹھرا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بہترین مشابہت اور تقابل ہے۔ دونوں اللہ کی تدبیر سے ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ ایک زمین میں اور ایک رحم میں۔

وانا علی ذھاب بہ لقدرون (23 : 18) ” اور ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کرسکتے ہیں “۔ یو کہ وہ زمین کے اندر دور تک گہرائیوں میں چلا جائے ، اور جن محفوظ مقامات کے اندر یہ بانی محفوظ رہتا ہے ، ان میں شکاف پر جائیں اور پانی گہرائیوں میں سے نکل کر غائب ہوجائے یا کسی اور طریقے سے ناپید ہوجائے۔ کیونکہ جس خدا نے اپنی قدرت سے پای کو زمین میں ٹھہرایا ہے وہ اپنی قدرت سے اسے غائب بھی کرسکتا ہے ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اسے روک رکھا ہے۔

اور یہ زندگی کی بو قلمو نیاں تو قائم ہی پانی سے ہیں۔

فانشا نا لکم بہ جنت من نخیل و اعناب لکم فیھا فواکہ کثیرۃ ومنھا تاکلون (23 : 19) ” پھر اس پانی کے ذریعے سے ہم نے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کردیئے “۔ تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سے لذیذ پھل ہیں اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو “۔ کھجور اور انگور دوہ نمونے ہیں ان نباتاتی اشیاء کے جو پانی سے پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ انسان اور حیوان نطفے کے پانی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ دونوں نمونے ایسے ہیں جو لوگوں کے ذہنوں میں اسی دور میں رچے بسے تھے جبکہ دوسرے تمام قسم کے فواکہ اور حیوانات بھی پانی ہی سے پیدا ہوئے ہیں ۔

دوسری تمام پیداوار مین زیتون کے درخت کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے۔

و شجرۃ تخرج من طور سیناء تنبت بالدھن وصبغ لااکلین (23 : 20) ” اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طور سینا سے نکلتا ہے ، تیل بھی لیے ہوئے نکلتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی “۔

یہ اکثر درختوں سے زیادہ مفید ہے اس کا تیل ، اس کا پھل اور اس کی ٹکڑی سب ہی مفید ہیں ۔ اور عربستاں کے قریب ترین مقامات جہاں یہ اگتا ہے ، طور سینا ہے۔ یہ اس وادی مقدس کے قریب ہے جہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوئی۔ لہذا اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا۔ یہ درخت بھی وہاں اس پانی کی وجہ پیدہوتا ہے جو زمین کے اندر کے اندر محفوظ ہے۔

اب نبا تات سے آگے عالم حیوانات پر ایک نظر

وان منھا تاکلون (21) وعلیھا وعلی الفلک تحملون (23 : 22) ” اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے ۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز (یعنی دودھ) ہم تمہیں پلاتے ہیں ، اور تمہارے لیے ان میں بہت سے دوسرے فائدے بھی ہیں ۔ ان کو تم کھاتے ہو اور ان پر اور کشتیوں پر سوار بھی کیے جاتے ہو “۔ یہ تمام مخلوقات انسان کے لیے اللہ کی قدرت نے مسخر کردی ہے اور اس کائنات میں یہ مخلوق مختلف قسم کے مقاصد پورے کررہی ہے۔ ان چیزوں میں عبرت ہے ، اس شخص کے لیے جو چشم بصیرت کے ساتھ ان کو دیکھے اور پھر عقل کے ساتھ ان چیزون کے دیکھے اور ان پر غور کرے۔ انسان دیکھتا ہے کہ وہ جو خوشگوار دودھ پیتا ہے۔ وہ ان جانوروں کے پیٹ سے نکلتا ہے ۔ یہ ہے خلاصہ اس غذا کا جو یہ جانور ہضم کرتے ہیں۔ اور پھر دودھ کے غدود سے اسے اس پاک و صاف سفید سیال مادے کی شکل دیتے ہیں جو نہایت ہی خوشگوار اور لطیف غذا بھی ہے۔

ولکم فیھا منافع کثیرۃّ (23 : 21) ” ان کو تم کھاتے ہو اور ان پر اور کشتیوں پر تم سوار ہوتے ہو “۔ اللہ نے انسانوں کے لیے مویشیوں کا کھان حلال قرار دیا ۔ مثلاً اونٹ ، گائے ، اور بھیڑ بکری۔ لیکن اللہ نے ان کو عذاب دینا اور مثلہ بنانے کی اجازت نہیں دی کیونکہ کھانے سے تو ایک ضرورت پوری ہوتی ہے لیکن ان کو عذاب دینا تکلیف پہنچانا اور مثلہ بنانا بےفائدہ تعذیب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے قلب و نظر میں فساد ہے اور اس کی فطرط سلیمہ نہیں رہی ہے جبکہ اس فعل سے زندگی کو کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچا۔

یہاں مویشیوں پر سواری کی منا سبت سے کشتیوں کی سواری کا ذکر بھی کردیا گیا ہے ۔ کشتی بھی ایک کائناتی نظام کے تحت انسان کے لیے مسخر بنا دی گئی ہے اور اس نظام بحری سفر کے نظام میں بھی انسانوں کا مفاد ہے۔ پانی کو بھی انسان کے لیے مفید بنایا۔ پھر کشتی کو اس قابل بنایا کہ وہ پانی کے اوپر تیر رہی ہے اور ہوائوں کو اس طرح چلایا کہ وہ کشتیوں کو منزل مقصود مقصود تل لے جارہی ہیں۔ اگر ان امور میں سے کوئی امر بھی نہ ہو یعنی پانی ، کشتی ، اور ہوا تو بحری سفر مشکل ہوجائے ۔ آج بھی بحری سفر انہی سہولیات پر مبنی ہے۔

یہ تمام امور دلائل ایمان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ، بشرطیکہ کوئی فہم اور ادراک اور تفکر و تدبر کر رے ان پر غور کرے اور ان سب امور کا تعلق اس سورة کے پہلے اور دوسرے پیرا گراف کے ساتھ ہے۔ ان امور سے تمام پیرا گرف مربوط اور ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔

342