سورہ جاثیہ (45): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Jaathiya کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الجاثية کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ جاثیہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Jaathiya
سُورَةُ الجَاثِيَةِ
صفحہ 499 (آیات 1 سے 13 تک)

حمٓ تَنزِيلُ ٱلْكِتَٰبِ مِنَ ٱللَّهِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَكِيمِ إِنَّ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ لَءَايَٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَفِى خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِن دَآبَّةٍ ءَايَٰتٌ لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ وَٱخْتِلَٰفِ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ وَمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مِن رِّزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ ٱلرِّيَٰحِ ءَايَٰتٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ تِلْكَ ءَايَٰتُ ٱللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِٱلْحَقِّ ۖ فَبِأَىِّ حَدِيثٍۭ بَعْدَ ٱللَّهِ وَءَايَٰتِهِۦ يُؤْمِنُونَ وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ يَسْمَعُ ءَايَٰتِ ٱللَّهِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ وَإِذَا عَلِمَ مِنْ ءَايَٰتِنَا شَيْـًٔا ٱتَّخَذَهَا هُزُوًا ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ مِّن وَرَآئِهِمْ جَهَنَّمُ ۖ وَلَا يُغْنِى عَنْهُم مَّا كَسَبُوا۟ شَيْـًٔا وَلَا مَا ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَوْلِيَآءَ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ هَٰذَا هُدًى ۖ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِـَٔايَٰتِ رَبِّهِمْ لَهُمْ عَذَابٌ مِّن رِّجْزٍ أَلِيمٌ ۞ ٱللَّهُ ٱلَّذِى سَخَّرَ لَكُمُ ٱلْبَحْرَ لِتَجْرِىَ ٱلْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِۦ وَلِتَبْتَغُوا۟ مِن فَضْلِهِۦ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَٰتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
499

سورہ جاثیہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ جاثیہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ح م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hameem

درس نمبر 235 تشریح آیات

1۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ 23

آیت نمبر 1 تا 5

حا۔ میم کے بعد ، یہ آتا ہے کہ یہ کتاب اللہ عزیز اور حکیم کی طرف سے ہے اور اس کتاب کا مصدر اور فبع اللہ کی ذات ہے اور دوسرا اشارہ اس میں یہ ہے کہ یہ معجزہ کتاب انہی حروف سے بنائی گئی ہے۔ جیسا کہ حروف مقطعات کے بارے میں ہماری رائے ہے اور یہ کہ یہ چیلنج ہے ان کو کہ تم ان حروف سے ایسی کتاب نہیں بنا سکتے۔ لہٰذا حا میم دلیل ہے تنزیل الکتب پر کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ زبردست قدرت والا ہے اور اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا اور حکیم ہے جس نے اس پوری کائنات کو حکمت سے بنایا اور تمام معاملات اس ذات کے حکم سے طے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تبصرہ ہے جو سورت کی فضا کے ساتھ مناسب ہے ، جس میں طرح طرح کے نفوس اور ان کی ذہنیت دکھائی گئی ہے۔

قبل اس کے کہ لوگوں کے سامنے ، اس کتاب کے حوالے سے ان کا موقف رکھاجائے ، ان کو ان آیات و نشانات کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے جو اس کائنات میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ آیات اور یہ نشانیاں اس بات کے لئے کافی تھیں کہ یہ لوگ ایمان لاتے اور یہ لوگ اپنے دلوں کو اگر ان کی طرف متوجہ کرتے تو ان کے دل کھل جاتے اور اس کتاب کے نازل کرنے والے عظیم اللہ کی طرف ان کا احساس تیز ہوجاتا جو اس کائنات کا ایک عظیم خالق ہے۔

ان فی السموت والارض لایت للمومنین (45 : 3) “ حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں بیشمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں ”۔ اور وہ نشانیاں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ کسی چیز تک محدود نہیں ہیں ، کسی حال تک محدود نہیں ہیں ، اس کائنات کی جس چیز کو بھی انسان دیکھے اور مطالعہ کرے تو دل گواہی دیتا ہے کہ یہی پہلو ایک معجزہ ہے گویا “ جا اینجا است ”۔ سوال یہ نہیں ہے کہ نشانی کہاں ہے ، سوال یہ ہے کہ کون سی چیز نشانی نہیں ہے ؟

ذرا دیکھو ان آسمانوں اور ان کے اندر تیرنے والے عظیم الجثہ اجرام فلکی کو ، پھر اس کی طویل و عریض وسعتوں کو ، یہ اس طرح پھیلے ہوئے ہیں جس طرح ذرات اور رائی کے دانے ، بمقابلہ اس فضا اور خوفناک حد تک عریض و طویل فضا کے نیز یہ نہایت ہی خوبصورت ہیں۔

پھر ذرا اس بات کو دیکھو کہ ان اجرام کی گردش اپنے اپنے مدار میں کس قدر تسلسل کے ساتھ قائم ہے۔ نہایت ہی خوبصورت ہم آہنگی کے ساتھ ، انسان یہ چاہتا ہے کہ دیکھتا ہی رہ جائے اور اس کے ملاحظے سے جی بھرتا ہی نہیں۔ بعض گردشیں کروڑوں سالوں میں مکمل ہوتی ہیں اور ایک سیکنڈ کا فرق نہیں پڑتا۔

اور یہ زمین جسے انسان بہت ہی طویل و عریض سمجھتا ہے ، یہ ایک نہایت ہی چھوٹا سا ذرہ ہے ، بمقابلہ ان بڑے ستاروں کے (صرف مشتری اس سے ایک ہزار گنا زیادہ بڑا ستا ہے ) پھر یہ ذرہ یعنی زمین ، اس وسیع فضائے کائنات کے اندر تیر رہی ہے۔ اگر اللہ کی قدرت نہ ہوتی جس نے اسے تھام رکھا ہے اور اپنے مدار میں بند کر رکھا ہے تو یہ اس فضائے بسیط میں اپنی راہ گم کردیتی لیکن اللہ کی قدرت کا یہ کمال ہے کہ اس کائنات کا ذرہ بھی یہاں گم نہیں ہو سکتا۔

پھر وہ سازوسامان جو اللہ نے اس زمین میں ، اس کے ایک خاص مقام اور نظام کی وجہ سے ودیعت کیا اور جس کی وجہ سے اس کے اوپر زندگی ممکن ہوئی ، اس کا تو ہر ہر پہلو ایک نشانی ہے۔ اس سازو سامان کی ہر چیز کے اپنے اپنے خواص ، نہایت باریک بینی کے ساتھ ، بڑی کثرت اور ہم آہنگی کے ساتھ یہاں جمع کئے گئے ہیں۔ اگر کسی ایک چیز کی خاصیت و ماہیت شمہ برابر بدل جائے تو زندگی کا پورا نظام خلل پذیر ہوجائے یا سرے سے ختم ہوجائے۔ غرض اس زمین کی ہر زندہ شے ایک علیحدہ نشانی ہے۔ ہر چیز کا ایک ایک جزء اور ایک ایک عضو ایک الگ نشانی ہے۔ اس معاملے میں عظیم الجثہ اشیاء اور ذرہ برابر کی اشیاء نشانی ہیں۔ ایک عظیم درخت سے ایک چھوٹا سا پتہ اٹھا لو ، اس کائنات کی پہنائیوں میں ایک چھوٹا سا نباتاتی پودا لے لو اور تجریہ کرو ، اپنے حکم اور اپنی شکل کے اعتبار سے یہ ایک نشانی ہے۔ رنگ میں بھی اور چھوٹے پن میں بھی ۔ اپنے مقاصد کے لئے بھی نشانی اور اپنے جسم میں بھی نشانی۔ انسان یا حیوان کے جسم کا ایک بال ہی لے لو ، یہ بھی ایک نشانی ہے ، اس کی ترکیب ، اس کا رنگ نشانی ہے ، ہر پرندے کا ہر پر ایک نشانی ہے ، اس کا مادہ ترکیب ، اس کے مقاصد ، اور اس کی ہم آہنگی۔ اگر انسان اس زمین و آسمان میں چشم بصیرت کے ساتھ دیکھے تو اسے نشانات الٰہیہ کا اژدہام نظر آئے اور انسان اعلان کر دے کہ اس کی فکر و نظر سے یہ تمام نشانات و راء ہیں۔

لیکن یہ نشانیاں کس کے لئے ہیں ؟ خود یہ آیات بنا دیتی ہے ، یہ نشانیاں کس کے سامنے پردہ افگند ہوتی ہیں ۔ ان کا احساس کس کو ہو سکتا ہے لقوم یوقنون (45 : 4) “ ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں ”۔ جو مومن ہیں اور مومن ہی نور ربی سے دیکھتا ہے۔

پس ایمان ہی وہ قوت ہے جو دلوں کے دروازے کھولتا ہے ، پھر انسان پکار سنتا ہے ، کوئی روشنی دلوں کو اندر آکر منور کرسکتی ہے ، کوئی تازہ باد نسیم کے جھونکے دنیائے دل پر ترو تازگی بکھیر سکتے ہیں اور ایمان ہی کی وجہ سے انسان ، اس کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی نشانیاں دیکھ سکتا ہے ، یہ ایمان ہی ہے جو دلوں کو ایسی فرحت بخش تازگی عطا کرتا ہے اور ان کے اندر رقت اور لطاقت پیدا کرتا ہے ، جس کے نتیجے میں یہ دل وہ اشارات وصول کرتے ہیں جو اس کائنات میں سے ہر طرف سے آرہے ہیں ، جو یہ بتاتے ہیں کہ یہ اشارے دست قدرت کی طرف سے ہیں اور دست قدرت جن جن چیزوں کو بناتی ہے ان کے اندر یہ اشارات موجود ہوتے ہیں۔ اللہ کی پیدا کردہ ہر چیز معجز ہے اور مخلوق اس کی نقل بھی نہیں کرسکتی۔ اب اس کائنات کی طویل اور دور دراز وادیوں سے واپس لا کر انسان کو اس کی اپنی ذات کی طرف لایا جاتا ہے ، جو اس کے قریب ہے۔ اور وہ جانور جو انسان کے قریب ہیں ان پر غوروفکر کی دعوت !

وفی خلقکم ۔۔۔۔۔ یوقنون (45 : 4) “ اور تمہاری اپنی پیدائش میں اور ان حیوانات میں جن کو اللہ زمین میں پھیلا رہا ہے بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو یقین لانے والے ہیں ”۔ انسان کو یہ عجیب ساخت عطا کرنا ، پھر اسے ایسی عجیب خصوصیات عطا کرنا ، اور نہایت ہی گہرے ، لطیف اور پیچیدہ فرائض اس کے حوالے کرنا جن میں سے ہر ایک معجزانہ ہے۔ جسم انسانی کے ایسے اندرونی معجزات ہیں کہ رات اور دن دیکھتے دیکھتے وہ ہمارے لئے عجوبے ہی نہیں ہرے۔ اس لیے کہ ہمارے اندر اور ہمارے قریب ہیں لیکن صرف ایک عضو کا تجربہ کیا جائے تو انسان کا سر چکرا جاتا ہے اور انسان اس پیچیدہ ترکیب کی ہولناکیوں سے مبہوت رہ جاتا ہے۔

زندگی ، چاہے وہ اپنی سادہ ترین صورت میں کیوں نہ ہو وہ تو ایک معجزہ ہے۔ امیبا جس کا ایک ہی خلیہ ہوتا ہے اور امیبا سے بھی چھوٹی زندگی بھی معجزہ ہے۔ رہا انسان تو اس کی زندگی تو بہت ہی پیچیدہ اور سخت اور عجیب و غریب ہے۔ نفسیاتی لحاظ سے بھی وہ نہایت ہی پیچیدہ اور معجزاتی ہے۔ عضوی ترکیب سے اس کی نفسیات زیادہ پیچیدہ ہیں۔

اور وہ مخلوقات جو اس زمین پر ہر طرف رینگتی ہے ، اور جس کی لاتعداد انواع و اقسام ہیں ، بیشمار جسم اور اشکال ہیں جن کی تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس زندگی میں سے چھوٹی سے چھوٹی چیز اور بڑی سے بڑی چیز سب اپنی اپنی جگہ معجزاتی ہیں ، یہ اپنی عمر اور جنس کے اعتبار سے بھی معجزاتی شان رکھتی ہیں۔ اور یہ قدرتی طور پر اپنی نوع کی حفاظت کرتی ہیں اور کوئی نوع دوسری انواع کو فنا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اور دست قدرت نے ان انواع و اقسام کی تعداد اپنے پاس رکھی ہوئی ہے کسی میں کمی کرتا ہے اور کسی میں اضافہ ۔ اور ہر ایک کو اس کے خصائص دیتا ہے اور قوت وصلاحیت دیتا ہے۔ اس طرح حیوانات کے تمام انواع و اقسام کی آبادی کے اندر ایک توازن قائم رہتا ہے۔

گدھ اور باز جارح اور مضر پرندے ہیں اور ان کی عمر بھی لمبی ہے لیکن ان کی آبادی بہت کم ہے اور بہت کم انڈے دیتے ہیں ۔ اگر گدھ اور باز چڑیوں کی طرح ہوتے تو ذرا سوچ لیں کہ اس دنیا میں شاید چھوٹے بڑے کسی پرندے کی نسل نہ ہوتی۔

حیوانات میں سے شیر درندہ جانور ہیں ، اگر ان کی نسل ہر نوں اور بھیڑ بکریوں کی طرح زیادہ ہوتی تو وہ جنگلات میں کوئی حیوانی مواد نہ چھوڑتا۔ لیکن یہ قدرت ہے جس نے اس کی نسل کو محدود رکھا ہے اور وہ مطلوبہ تعداد ہی میں ہوتے ہیں جبکہ ہرن اور بھیڑ اور بکریاں زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ قدرت کو معلوم ہے کہ ان کی زیادہ ضرورت ہے۔

ایک مکھی ایک ہی زندگی میں لاکھوں انڈے دیتی ہے لیکن اس کی زندگی زیادہ سے زیادہ دو ہفتے ہوتی ہے۔ اگر ایک مکھی کی عمر طبیعی کئی ماہ یا سال ہوتی تو تمام انسانی جسموں کو ڈھانپ دیتیں ، آنکھوں کو کھا جاتیں لیکن دست قدرت نے ان پر ایک قدرتی بند بھی رکھا ہے اور اس کی عمر کو محدود کردیا ہے۔

یونہی ، ہر چیز اور ہر نوع کی یہ حالت ہے ۔ اللہ کی تدبیر اور تقدیر انسانوں اور حیوانات میں اپنا کام کرتی ہے اور ہر چیز کے اندر ایک قسم کی نشانی ہے۔ اور یہ نشانی پکار پکار کہتی ہے کہ اللہ کی آیات میں غورو و تدبر کرو اور یہ آیات لقوم یوقنون (45 : 4) “ ان لوگوں کے لئے جو یقین لانے والے ہیں ”۔

یقین ایسی حالت ہے جو دلوں کو تیار اور مائل اور متاثر کرنے والی حالت ہے ، تا کہ وہ احساس کریں ، متاثر ہوں اور اللہ کی طرف مائل ہوں۔ ایمان و یقین دلوں کو ثابت ، برقرار اور مطمئن کردیتا ہے ۔ ایسے دل بڑے ٹھہراؤ سے اس کائنات پر غور کرتے ہیں اور اس سے حقائق اخذ کرتے ہیں۔ ان میں سے بےچینی ، پریشانی ، بےثباتی ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے دلوں کو اگر اس دنیا میں کم کچھ ملے تب بھی وہ اس سے بڑے نتائج اور آثار حاصل کرتے ہیں۔

اس کے بعد اپنی ذات اور اپنے اردگرد کے حیوانات سے انہیں اس پوری کائنات کے مظاہر کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ اس کائنات سے ان کے لئے اور دوسرے زندوں کے لئے جو اسباب حیات پیدا کئے جاتے ہیں اور فراہم کئے گئے ہیں ذرا ان پر بھی غور کرو۔

واختلاف الیل ۔۔۔۔۔ لقوم یعقلون (45 : 5) “ اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں اور اس رزق میں جسے اللہ آسمانوں سے نازل فرماتا ہے۔ پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جلا اٹھاتا ہے ، ہواؤں کی گردش میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں ”۔ گردش لیل و نہار وہ منظر ہے جس کے باربار کی تکرار کی وجہ سے اس کی جدت انسانوں کے ذہن سے محو ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی پہلی مرتبہ ان کو دیکھے یا پہلی مرتبہ رات کو دیکھے تو یہ ایک عجیب منظر ہے جو دل شاعرانہ احساس رکھتے ہیں وہ اس جدت کو سمجھتے ہیں اور گردش لیل ونہار کو اس کائنات کا ایک حیران کن نظام سمجھتے ہیں۔

انسانوں کے علم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور اس کائنات کے بعض مظاہر کے بارے میں تو اب انسانوں نے وسیع معلومات حاصل کرلی ہیں۔ اب انسان جانتے ہیں کہ گردش لیل و نہار دراصل زمین کی گردش محوری سے پیدا ہوتی ہے جو یہ سورج کے سامنے کرتی ہے اور یہ گردش چوبیس گھنٹوں میں مکمل ہوتی ہے لیکن اس علم کے مطابق بھی یہ انوکھا منظر اور عجوبہ ابھی ختم نہیں ہے کیونکہ یہ کرۂ زمین ہوا کے اندر معلق ہے اور ایک خاص رفتار کے ساتھ چل رہا ہے اور وہ کسی چیز کا سہارا نہیں لے رہا ہے۔ اللہ نے اسے تھام رکھا ہے اور وہ ایک سیکنڈ بھی اپنی رفتار کم نہیں کرتا ۔ اور یہ رفتار ایسی ہے کہ تمام زندہ مخلوقات اس کے اوپر بڑے آرام سے رہ رہی ہے اور یہ مخلوق اس فضا میں معلق گولے کے اوپر ٹکی ہوئی ہے جو فضا میں گردش پر ہے۔

اب انسان کا علم قدرے اور وسعت اختیار کرتا ہے کہ اس گردش محوری کے اثرات اس زمین کے اوپر اور تمام زندہ مخلوقات پر کیا ہیں۔ انسان نے معلوم کیا کہ ان اوقات کو اس طرح رات اور دن میں تقسیم کرنے ہی سے اس کرۂ ارض پر زندگی ممکن بنائی گئی ہے۔ اگر گردش لیل و نہار نہ ہوتے یا اس اندازے اور اس نظام اور رفتار سے نہ ہوتے تو اس زمین کی سطح پر موجود ہر چیز بدل جاتی اور خصوصاً انسانی زندگی ختم ہوجاتی۔ چناچہ یوں اس علم کے بعد معلوم ہوا کہ گردش لیل و نہار اللہ کی نشانیوں میں سے اہم نشانی ہے۔

وما انزل اللہ ۔۔۔۔۔۔ بعد موتھا (45 : 5) “ اور اس رزق میں جسے اللہ آسمانوں سے نازل فرماتا ہے۔ پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمینوں کو جلا اٹھاتا ہے ”۔ رزق سے بھی تو پانی مراد ہوتا ہے جو آسمانوں سے آتا ہے جس طرح قدیم مفسرین نے اس سے یہی سمجھا ہے لیکن آسمانوں سے آنے والا صرف پانی بہت وسیع ہے۔ آسمانوں سے جو شعاعیں نکلتی ہیں وہ زمین کو زندہ کرنے میں پانی سے کوئی کم موثر نہیں ہیں بلکہ ان شعاعوں ہی کے اثر سے حکم الٰہی سے پانی پیدا ہوتا ہے۔ سورج کی حرارت ہی پانی کو بخارات میں بدلتی ہے۔ اور یہ بخارات کثیف ہو کر بارش کی شکل اختیار کرتے ہیں اور نہریں اور چشمے بہتے ہیں۔ اور اس سے زمین مردہ ہونے کے بعد زندہ ہوجاتی ہے ، پانی سے بھی اور حرارت سے بھی۔

وتصریف الریح (45 : 5) “ اور ہواؤں کی گردش میں ”۔ یہ ہوائیں شمالاً و جنوباً چلتی ہیں ، شرقاً اور غرباً چلتی ہیں ، سیدھی اور ٹیٹرھی چلتی ہیں ، گرم اور سرد چلتی ہیں۔ اس نہایت ہی پیچیدہ نظام کے مطابق جو دست قدرت نے اس کائنات کی تخلیق کے اندر رکھ دیا ہے اور اس کی ہر چیز کو حساب و مقدار سے رکھا ہے اور اس میں کوئی چیز اتفاق اور مصارفت پر نہیں چھوڑا ، پھر ہواؤں کے چلنے کا زمین کی گردش محوری سے گہرا تعلق ہے۔ اور ان کا تعلق گردش لیل و نہار سے بھی ہے اور اس رزق سے بھی ہے جو آسمانوں سے نازل ہوتا ہے۔ غرض حرارت ، ہوا وار رات اور دن کا نظام سب مل کر یہاں کام کرتے ہیں اور ان میں آیات و نشانات ہیں۔ لقوم یعقلون (45 : 5) “ ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں ”۔ کیونکہ اس میدان میں عقل ہی کام کرسکتی ہے۔

٭٭٭

یہ تو ہیں اس کائنات کی بعض نشانیاں جن کی طرف اشارہ کیا گیا ، ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کے لئے جو یقین کرتے ہیں اور پھر ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ یہ آیات ان کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ اشارات دلوں کو چھوتے ہیں ، ان کو جگاتے ہیں اور یہ آیات الٰہیہ انسانی فطرت سے براہ راست مخاطب ہوتی ہیں کیونکہ فطرت انسانی اور اس کائنات کے درمیان براہ راست فطری رابطہ ہے۔ اور اس رابطے کو قرآن کا طرز استدلال ہی زندہ اور تازہ کرسکتا ہے۔ جو لوگ ان آیات فطرت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان سے کوئی توقع نہیں ہے کہ وہ کسی اور چیز کو تسلیم کریں گے جن لوگوں کو قرآن کریم کے یہ اشارات اور آیات نہیں جگا سکتیں ، ان کو کوئی اور آواز نہیں جگا سکتی خواہ وہ جس قدر تیز آواز ہو۔ ذرا سنئے :

اردو ترجمہ

اِس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tanzeelu alkitabi mina Allahi alAAazeezi alhakeemi

اردو ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna fee alssamawati waalardi laayatin lilmumineena

اردو ترجمہ

اور تمہاری اپنی پیدائش میں، اور اُن حیوانات میں جن کو اللہ (زمین میں) پھیلا رہا ہے، بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو یقین لانے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wafee khalqikum wama yabuththu min dabbatin ayatun liqawmin yooqinoona

اردو ترجمہ

اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں، اور اُس رزق میں جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جِلا اٹھاتا ہے، اور ہواؤں کی گردش میں بہت نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waikhtilafi allayli waalnnahari wama anzala Allahu mina alssamai min rizqin faahya bihi alarda baAAda mawtiha watasreefi alrriyahi ayatun liqawmin yaAAqiloona

اردو ترجمہ

یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں ہم تمہارے سامنے ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں اب آخر اللہ اور اس کی آیات کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tilka ayatu Allahi natlooha AAalayka bialhaqqi fabiayyi hadeethin baAAda Allahi waayatihi yuminoona

آیت نمبر 6

کوئی کلام ، کلام الٰہی کی طرح فصیح نہیں اور کوئی تخلیق مخلوقات الٰہیہ کی طرح بدیع نہیں ہے۔ کوئی حقیقت بھی وجود باری کی طرح ثابت نہیں ہے۔ پس ان دلائل واقیہ کے بعد وجود باری واضح اور یقینی ہے۔ لہٰذا ان دلائل کے بعد بھی اگر کوئی ایمان نہیں لاتا تو اسے دھکمی دینے اور خبردار کرنے کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔

اردو ترجمہ

تباہی ہے ہر اُس جھوٹے بد اعمال شخص کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waylun likulli affakin atheemin

آیت نمبر 7 تا 10

جیسا کہ ہم نے اس سورت کے مقدمے میں بھی وضاحت کی کہ مکہ میں مشرکین نے جس طرح دعوت اسلامی کا استقبال کیا ، اس کی تصویر کشی ان آیات میں کی گئی ہے۔ انہوں نے اپنے باطل موقف پر اصرار کیا۔ ایسی سچی دعوت کا ایک لفظ بھی سننے سے انکار کیا جو حق پر مبنی تھی اور جو اپنی ذات میں واضح تھی۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب تھی۔ انہوں نے اس حقیقت کے ماننے میں اس قدر ہٹ دھرمی سے کام لیا کہ یوں نظر آتا تھا کہ گویا یہ دعوت ان کے ہاں اذہان تک پہنچی ہی نہیں ہے بلکہ الٹا وہ اللہ کے معاملے میں گستاخ ہوگئے۔ اور قرآن کی جو آیات ان تک پہنچی ان سے منہ موڑنے لگے قرآن کریم نے ان کے اس رویے کی نہایت شدید مذمت کی ہے۔ اور سخت دھمکی دی ہے ان کے لئے سخت بربادی ہے اور ان کو شدید توہین آمیز اور دردناک عذاب سے دوچار ہونا ہوگا۔

ویل لکل افاک اثیم (45 : 7) “ تباہی ہے ہر اس جھوٹے بد اعمال شخص کے لئے ”۔ ویل ، یعنی ہلاک ہے۔ افاک ، بہت بڑا جھوٹا جو جھوٹ باندھنے میں مہارت رکھتا ہو۔ بہت زیادہ گناہ کاریاں اور بدکاریاں سمیٹنے والا۔ یہ دھمکی ہر اس شخص کے لئے ہے جس میں یہ صفات موجود ہیں۔ یہ اللہ قہار و جبار کی دھمکی ہے جو ہلاک کرنے اور برباد کرنے پر قدرت رکھتا ہے جس کی دھمکی اور ڈراوا اور تہدید بالکل سچی ہوتی ہے۔ اس لیے اس فقرے میں جو دھمکی دی گئی ، وہ بہت ہی خوفناک ہے۔

ایسے افاک جھوٹے اور بداعمال اور بدکار کی صفت و علامت کیا ہے ؟ یہ کہ وہ باطل پر اصرار کرتا ہے ، سچائی کے مقابلے میں جھکنے کی بجائے اور اکڑتا ہے ، اللہ کی نشانیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے منہ موڑتا ہے اور شریفانہ رویہ اختیار نہیں کرتا بلکہ گستاخی کرتا ہے۔

یسمع ایت اللہ ۔۔۔۔۔ لم یسمعھا (45 : 8) “ جس کے سامنے اللہ کی آیات بڑھی جاتی ہیں اور وہ ان کو سنتا ہے پھر پورے غرور کے ساتھ اپنے کفر پر اڑا رہتا ہے کہ گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں ”۔ یہ نہایت ہی قابل نفرت تصویر ہے۔ اگرچہ یہ مشرکین مکہ کے ایک گروہ کی تصویر ہے جو اس وقت ایسا تھا ، مگر ہر نظام جاہلیت میں یہ تصویر اسی طرح دہرائی جاتی ہے۔ آج بھی ہے اور کل بھی ہوگی۔ اس زمین پر کتنے ہی ایسے لوگ ہیں اور نام نہاد مسلمانوں میں سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور وہ ان کو سنتے ہیں مگر اپنے موقف پر اڑ جاتے ہیں اور غرور میں منہ موڑ لیتے ہیں کیونکہ وہ ان کی خواہشات کے موافق اور ان کے مالوفات سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں اور یہ آیات باطل پر تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں اور یہ اس شر کی تائید نہیں کرتیں جس پر وہ مصر ہوتے ہیں اور یہ آیات اس سمت پر نہ خود چلتی ہیں اور نہ لوگوں کو چلاتی ہیں جس سمت پر وہ جارہے ہیں۔

فبشرہ بعذاب الیم (45 : 8) “ ایسے شخص کو دردناک عذاب کا مژدہ سنا دو ”۔ خوشخبری تو کسی اچھے کام پر ہوتی ہے۔ یہاں ان کے لئے بطور استہزاء خوشخبری کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اگر کوئی ڈرانے والے اور متنبہ کرنے والے کی بات نہیں مانتا تو پھر اگر ہلاکت آتی ہے تو آنے دو ، وہ خود ہلاکت طلب کرتا ہے۔

واذا علم من ایتنا شیئا اتخذھا ھزوا (45 : 9) “ ہماری آیات میں سے جب کوئی چیز اس کے علم میں آتی ہے ، تو وہ ان کا مذاق بنا لیتا ہے ”۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ اللہ کی آیات اور ان کا سرچشمہ ذات باری ہے۔ یہ رویہ اس کی جانب سے شدید جسارت ہے۔ یہ تصویر بھی جس طرح جاہلیت اولیٰ میں تھی اسی طرح آج بھی موجود ہے۔ اور بیشمار لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ، ان میں سے بھی ایسے لوگ ہیں جو آیات الٰہیہ کے ساتھ مذاق کرتے ہیں اور وہ ان آیات اور ان پر ایمان لانے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور ان لوگوں کو بھی جو عوام الناس کی زندگیوں کو ان آیات کے مطابق ڈھالتے ہیں۔

اولئک لھم عذاب مھین (45 : 9) “ ان سب لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے ”۔ اہانت ان کے لئے موزوں سزا ہے کیونکہ یہ بھی تو اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ آیات الٰہیہ ہیں۔

یہ قیامت کا توہین آمیز عذاب حاضر ہے ، اگرچہ قیامت کا برپا ہونا قدرے بعد میں ہے۔

من ورائھم جھنم (45 : 10) “ ان کے پیچھے جہنم ہے ”۔ لفظ “ ان کے پیچھے جہنم ہے ” کا ایک خاص مقصد ہے یعنی یہ اسے دیکھ نہیں سکتے کہ انہوں نے قیامت کو پس پشت ڈال دیا ہے اور اس سے ڈرتے اور بچتے اس لیے نہیں کہ یہ غافل ہیں اور اس لیے وہ اس کے اندر گرنے والے ہیں۔

ولا یغنی عنھم ۔۔۔۔۔۔ اولیاء (45 : 10) “ جو کچھ انہوں نے دنیا میں کمایا ہے اس میں سے کوئی چیز ان کے کسی کام نہ آئے گی ، نہ ان کے وہ سرپرست ہی ان کے لئے کچھ کرسکیں گے جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے اپنا ولی بنا رکھا ہے ”۔ یعنی دنیا میں انہوں نے جو کام کئے یا جو ان کی ملکیت تھی ، وہ انہیں کوئی فائدہ نہ دے سکے گی۔ ان کے اعمال اگرچہ اچھے ہوں وہ تو اکارت جائیں گے۔ کیونکہ ایمان کے بغیر عمل مقبول ہی نہیں۔ اور قیامت میں ان کی ملکیت زائل ہوجائے گی کوئی نہ ان کے پاس ہوگی اور نہ فائدہ دے گی۔ اور ان کے دوست اور یار یا معبود ، جو اللہ کے سوا انہوں نے بنا رکھے تھے ، وہ وہاں ان کے لئے نہ نقصان پہنچا سکیں گے اور نہ نفع۔ نہ کسی کو سفارش کی اجازت ہوگی۔

ولھم عذاب عظیم (45 : 10) “ ان کے لئے بڑا عذاب ہے ”۔ یہ عذاب توہین آمیز بھی ہوگا جیسا کہ پہلے کہا گیا اور عظیم بھی ہوگا۔ توہین آمیز اس لیے کہ یہ آیات کا مذاق اڑاتے تھے ، اور عظیم اس لیے کہ جرم بڑا ہے۔

یہ پیراگراف یہاں ختم ہوتا ہے جس میں آیات الٰہیہ ساتھ مذاق کرنے کی مذمت وارد ہے۔ ان کے مقابلے میں استکبار کرنے کا ذکر ، ان آیات سے لوگوں کو روکنے کا ذکر ہے۔ خاتمہ پر ان آیات کی حقیقت بیان کی جاتی ہے اور ان کے منکرین کی سزا کا دوبارہ ذکر کردیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

جس کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں، اور وہ اُن کو سنتا ہے، پھر پورے استکبار کے ساتھ اپنے کفر پر اِس طرح اڑا رہتا ہے کہ گویا اس نے اُن کو سنا ہی نہیں ایسے شخص کو درد ناک عذاب کا مژدہ سنا دو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

YasmaAAu ayati Allahi tutla AAalayhi thumma yusirru mustakbiran kaan lam yasmaAAha fabashshirhu biAAathabin aleemin

اردو ترجمہ

ہماری آیات میں سے کوئی بات جب اس کے علم میں آتی ہے تو وہ اُن کا مذاق بنا لیتا ہے ایسے سب لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha AAalima min ayatina shayan ittakhathaha huzuwan olaika lahum AAathabun muheenun

اردو ترجمہ

اُن کے آگے جہنم ہے جو کچھ بھی انہوں نے دنیا میں کمایا ہے اس میں سے کوئی چیز اُن کے کسی کام نہ آئے گی، نہ اُن کے وہ سرپرست ہی اُن کے لیے کچھ کر سکیں گے جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے اپنا ولی بنا رکھا ہے اُن کے لیے بڑا عذاب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Min waraihim jahannamu wala yughnee AAanhum ma kasaboo shayan wala ma ittakhathoo min dooni Allahi awliyaa walahum AAathabun AAatheemun

اردو ترجمہ

یہ قرآن سراسر ہدایت ہے، اور اُن لوگوں کے لیے بلا کا درد ناک عذاب ہے جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hatha hudan waallatheena kafaroo biayati rabbihim lahum AAathabun min rijzin aleemin

آیت نمبر 11

اس قرآن کی حقیقت بس یہ ہے کہ یہ ایک رہنمائی ہے۔ خالص ہدایت ، صاف صاف ہدایت ۔ ایسی ہدایت جس میں ضلالت کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ اس لیے اس قسم کی آیات کا جو لوگ انکار کرتے ہیں ، وہ اس بات کے مستحق ہوجاتے ہیں کہ ان کو دردناک عذاب سے دوچار کردیا جائے۔ الیم کے معنی میں شدت الم اور ایذا رسانی کے معنی ظاہر ہیں۔ رجز کے معنی ہیں عذاب شدید۔ اور جس عذاب کی انہیں دھمکی دی جارہی ہے ، وہ الیم بھی ہے اور شدید بھی ۔ یعنی اس کی شدت اور اس کا الم دونوں مکررو مشدد ہیں۔ تاکید بعد تاکید ہے اور جو لوگ واضح خالص اور صریح ہدایت کا انکار کرتے ہیں ان کے لئے ایسا عذاب ہی ہونا چاہئے۔

٭٭٭٭٭

اس شدید دھمکی اور سخت ڈراوے کے بعد اب پھر ان کے دلوں کو باد نسیم کی طرح نرم بات سے راہ راست لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ انعامات دوبارہ یاد دلائے جاتے ہیں جو اس کائنات میں ان کے لئے مسخر کر دئیے گئے ہیں۔

اردو ترجمہ

وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں اُس میں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر گزار ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu allathee sakhkhara lakumu albahra litajriya alfulku feehi biamrihi walitabtaghoo min fadlihi walaAAallakum tashkuroona

آیت نمبر 12 تا 13

اللہ کی یہ چھوٹی سی مخلوق انسان پر اللہ کے بڑے کرم ہیں کہ اس نے اس کے لئے اس کائنات کی عظیم مخلوقات کو مسخر کردیا ہے۔ اور ان مخلوقات سے یہ مختلف طریقوں سے فائدہ اٹھا تا ہے اور اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ سمجھایا ہے کہ اس کائنات کا قانون فطرت کیا ہے ؟ جس کے مطابق یہ کائنات چلتی ہے اور اس کے خلاف نہیں جاسکتی۔ اگر اللہ کی جانب سے انسان کو اس قدر علمی صلاحیت نہ دی گئی ہوتی تو اس کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ ان کائناتی قوتوں کو اس طرح مسخر کر کے ان سے اس طرح استفادہ کرتا بلکہ اس کے لئے ان قوتوں کے اندر زندہ رہنا بھی مشکل ہوجاتا کیونکہ انسان ایک چھوٹا سا کیڑا ہے اور فطرت کی قوتیں نہایت ہی عظیم القوت ، عظیم الجثہ اور بڑے بڑے افلاک ہیں۔

سمندر ان بڑی قوتوں میں سے ایک ہے جسے انسان نے مسخر کرلیا ہے۔ انسان کو اللہ نے اس کی ساخت اور خصوصیات کا علم دیا اور انسان نے معلوم کیا کہ کشتی اس عظیم اور سرکش سمندر کے اوپر چل سکتی ہے اور اس کی بھپری ہوئی جبار موجوں کے ساتھ ٹکرا سکتی ہے اور اسے ان سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔

لتجری الفلک فیہ بامرہ (45 : 12) “ تا کہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں ”۔ اللہ ہی ہے جس نے سمندر کو یہ خصوصیات دیں اور کشتی کے مواد کو تیرنے کی خصوصیات دیں۔ فضا کے دباؤ، ہواؤں کی تیزی اور زمین کی کشش کی خصوصیات پیدا کیں اور وہ دوسرے خصائص اس میں رکھے جن کی وجہ سے بحری سفر آسان ہوا اور انسان کو اس کام کا علم دیا کہ وہ سمندر مخلوق سے نفع اٹھائے اور دوسرے فوائد بھی حاصل کرے۔

ولتبتغوا من فضلہ (45 : 12) “ اور تم اس کا فضل تلاش کرو ”۔ مثلاً سمندر میں شکار ، زیب وزینت کا سامان ، تجارت ، معلوماتی سفر ، تجربات ، مشقیں ، ورزش اور تفریح وغیرہ۔ غرض وہ سارے فوائد جو یہ چھوٹا سا انسان سمندروں سے حاصل کرتا ہے۔

غرض اللہ نے انسان کے لئے کشتی اور سمندر دونوں کو مسخر کیا کہ وہ اللہ کے فضل کی تلاش کرے۔ پھر اللہ کا شکر کرے کہ اللہ نے یہ فضل و کرم ، یہ انعامات اور یہ تسخیر اور یہ علم اسے دیا۔

ولعلم تشکرون (45 : 12) “ اور تم شکر گزار بنو ”۔ اللہ تعالیٰ پھر اس قرآن کے ذریعہ انسان کو ہدایت کرتا ہے کہ اس ذات باری کی وفاداری کرو ، اس سے تعلق قائم کرو ، اور یہ بات معلوم کرو کہ تمہارے اور اس کائنات کے درمیان ایک تعلق ہے اور وہ یہ کہ تم اس کا حصہ ہو اور ایک ناموس فطرت کے تحت چل رہے ہو اور تم دونوں کا رخ اللہ ہی کی طرف ہے۔

سمندروں کی تسخیر کے خصوصی ذکر کے ساتھ یہ پوری کائنات بھی بالعموم تمہارے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ زمین اور آسمانوں کے درمیان پائے جانے والی تمام قوتیں ، نعمتیں اور مفید چیزیں جو اس کے لئے فرائض منصب خلافت کی ادائیگی میں مفید و معاون ہیں۔

وسخر لکم ۔۔۔۔۔۔ جمیعا منہ (45 : 13) “ اس نے زمین اور آسمان کی ساری ہی چیزیں تمہارے لیے مسخر کردیں ، سب کچھ اپنے پاس سے ”۔ اس کائنات میں جتنی چیزیں بھی ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہیں اور اسی کی ہیں۔ وہی ان کا پیدا کرنے والا اور مدبر ہے۔ اس نے ان کو مسخر کر رکھا ہے۔ اور ان پر اس چھوٹی سی مخلوق کو مسلط کردیا ہے۔ انسان جسے اللہ نے اس کائنات کے مزاج اور اس کے قوانین کو سمجھنے کی قوت دی اور وہ اپنی قوت اور طاقت سے کہیں بڑی قوتوں کو مسخر کرتا ہے۔ یہ سب کام اللہ کا فضل و کرم ہے۔ اس انسان پر اور جو لوگ تفکر اور تدبر سے کام لیتے ہیں ان کے لئے اس میں آیات و نشانات ہیں بشرطیکہ وہ اپنی اس عقل سے یہ فائدہ بھی اٹھائیں کہ اس کائنات اور اس انسان کا ایک پیدا کرنے والا بھی ہے جس نے اسے یہ سب کچھ دیا ہے اپنے کرم خاص سے :

ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون (45 : 13) “ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غوروفکر کرنے والے ہیں ”۔ یہ فکر اور یہ تدبر اس وقت تک صحیح ، جامع اور گہرا نہ ہو سکے گا جب تک وہ ان قوتوں ، مسخر شدہ قوتوں کے پیچھے اس بڑی قوت کی طرف جھانکنے کی کوشش نہ کرے گا ، جس نے ان تمام قوتوں کو پیدا کیا اور جس نے انسان کو پیدا کیا اور پھر انسان کو ان رازوں سے آگاہ کیا کہ ان کا راز یہ ہے اور ان کا قانون قدرت یہ ہے اور فطرت کائنات اور فطرت انسان ایک ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان یہ تعلق ہے۔ اس تعلق کا یہ نتیجہ ہے کہ انسان کو علم حاصل ہوا ، اسے قوت اور کنٹرول حاصل ہوا ، اس نے ان قوتوں کو مسخر کر کے اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا۔ اگر یہ تعلق نہ ہوتا تو انسان کو ان چیزوں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوتا۔

٭٭٭

جب بات یہاں تک پہنچی ہے اور ایک مومن اس کائنات کے قلب تک جا پہنچتا ہے۔ اسے شعور حاصل ہوجاتا ہے کہ قوت کا حقیقی سرچشمہ کیا ہے ، یہ کہ اس کائنات کے اسرار و رموز کی آگاہی دراصل قوت کا حقیقی سرچشمہ ہے۔ اب مومنین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ شرافت ، اخلاق عالیہ ، وسعت قلبی اور رواداری اختیار کریں اور جو ضعیف ، ناتواں اور جاہل لوگ اس خزانے اور اس بھرپور خزانہ علم و معرفت سے محروم ہیں ، ان پر رحم کریں ، ان کے ساتھ ہمدردی کریں کہ یہ لوگ ان عظیم حقائق سے محروم ہیں۔ جو اللہ کے نوامیس فطرت کو نہیں دیکھتے ، جو تاریخ میں سنن الٰہیہ کو تلاش نہیں کرتے جو اس کائنات کے اسر اور موز سے واقف نہیں اور اس لیے وہ اس خالق کی عظمت سے بھی بیخبر ہیں۔

اردو ترجمہ

اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے اِس میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wasakhkhara lakum ma fee alssamawati wama fee alardi jameeAAan minhu inna fee thalika laayatin liqawmin yatafakkaroona
499