سورۃ الانفال (8): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Anfaal کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنفال کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانفال کے بارے میں معلومات

Surah Al-Anfaal
سُورَةُ الأَنفَالِ
صفحہ 177 (آیات 1 سے 8 تک)

يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَنفَالِ ۖ قُلِ ٱلْأَنفَالُ لِلَّهِ وَٱلرَّسُولِ ۖ فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَأَصْلِحُوا۟ ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتُهُۥ زَادَتْهُمْ إِيمَٰنًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَمِمَّا رَزَقْنَٰهُمْ يُنفِقُونَ أُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَٰتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ كَمَآ أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنۢ بَيْتِكَ بِٱلْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ لَكَٰرِهُونَ يُجَٰدِلُونَكَ فِى ٱلْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى ٱلْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ وَإِذْ يَعِدُكُمُ ٱللَّهُ إِحْدَى ٱلطَّآئِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ ٱلشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ ٱللَّهُ أَن يُحِقَّ ٱلْحَقَّ بِكَلِمَٰتِهِۦ وَيَقْطَعَ دَابِرَ ٱلْكَٰفِرِينَ لِيُحِقَّ ٱلْحَقَّ وَيُبْطِلَ ٱلْبَٰطِلَ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُجْرِمُونَ
177

سورۃ الانفال کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانفال کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں؟ کہو “یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسُولؐ کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yasaloonaka AAani alanfali quli alanfalu lillahi waalrrasooli faittaqoo Allaha waaslihoo thata baynikum waateeAAoo Allaha warasoolahu in kuntum mumineena

بخاری شریف میں ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سورة انفال غزوہ بدر کے بارے میں اتری ہے۔ فرماتے ہیں انفال سے مراد غنیمتیں ہیں جو صرف رسول اللہ ﷺ کے لئے ہی تھیں ان میں سے کوئی چیز کسی اور کیلئے نہ تھی۔ آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا گھوڑا بھی انفال میں سے ہے اور سامان بھی۔ سائل نے پھر پوچھا آپ نے پھر یہی جواب دیا اس نے پھر پوچھا کہ جس انفال کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ غرض پوچھتے پوچھتے آپ کو تنگ کردیا تو آپ نے فرمایا اس کا یہ کرتوت اس سے کم نہیں جسے حضرت عمر نے مارا تھا۔ حضرت فاروق اعظم سے جب سوال ہوتا تو آپ فرماتے نہ تجھے حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں، ابن عباس فرماتے ہیں واللہ حق تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے والا حکم فرمانے والا حلال حرام کی وضاحت کرنے والا ہی بنا کر بھیجا ہے۔ آپ نے اس سائل کو جواب دیا کہ کسی کسی کو بطور نفل (مال غنیمت) گھوڑا بھی ملتا اور ہتھیار بھی۔ دو تین دفعہ اس نے یہی سوال کیا جس سے آپ غضبناک ہوگئے اور فرمانے لگے یہ تو ایسا ہی شخص ہے جسے حضرت عمر نے کوڑے لگائے تھے یہاں تک کہ اس کی ایڑیاں اور ٹخنے خون آلود ہوگئے تھے۔ اس پر سائل کہنے لگا کہ خیر آپ سے تو اللہ نے عمر کا بدلہ لے ہی لیا۔ الغرض ابن عباس کے نزدیک تو یہاں نفل سے مراد پانچویں حصے کے علاوہ وہ انعامی چیزیں ہیں جو امام اپنے سپاہیوں کو عطا فرمائے۔ واللہ اعلم۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس پانچویں حصے کا مسئلہ پوچھا جو چار ایسے ہی حصوں کے بعد رہ جائے۔ پس یہ آیت اتری۔ ابن مسعود وغیرہ فرماتے ہیں لڑائی والے دن اس سے زیادہ امام نہیں دے سکتا بلکہ لڑائی کے شروع سے پہلے اگر چاہے دے دے۔ عطا فرماتے ہیں کہ یہاں مراد مشرکوں کا وہ مال ہے جو بےلڑے بھڑے مل جائے خواہ جانور ہو خواہ لونڈی غلام یا اسباب ہو پس وہ آنحضرت ﷺ کے لئے ہی تھا آپ کو اختیار تھا کہ جس کام میں چاہیں لگا لیں تو گویا ان کے نزدیک مال فے انفال ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد لشکر کے کسی رسالے کو بعوض ان کی کارکردگی یا حوصلہ افزائی کے امام انہیں عام تقسیم سے کچھ زیادہ دے اسے انفال کہا جاتا ہے۔ مسند احمد میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ بدر والے دن جب میرے بھائی عمیر قتل کئے گئے میں نے سعید بن عاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار لے لی جسے ذوالکتیعہ کہا جاتا تھا سے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا جاؤ اسے باقی مال کے ساتھ رکھ آؤ۔ میں نے حکم کی تعمیل تو کرلی لیکن اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس وقت میرے دل پر کیا گذری۔ ایک طرف بھائی کق قتل کا صدمہ دوسری طرف اپنا حاصل کردہ سامان واپس ہونے کا صدمہ۔ ابھی میں چند قدم ہی چلا ہوں گا جو سورة انفال نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا جاؤ اور وہ تلوار جو تم ڈال آئے ہو لے جاؤ۔ مسند میں حضرت سعد بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکوں سے بچا لیا اب آپ یہ تلوار مجھے دے دیجئے آپ نے فرمایا سنو نہ یہ تمہاری ہے نہ میری ہے۔ اسے بیت المال میں داخل کردو میں نے رکھ دی اور میرے دل میں خیال آیا کہ آج جس نے مجھ جیسی محنت نہیں کی اسے یہ انعام مل جائے گا یہ کہتا ہوا جا ہی رہا تھا جو آواز آئی کہ کوئی میرا نام لے کر میرے پیچھے سے مجھے پکار رہا ہے لوٹا اور پوچھا کہ حضور کہیں میرے بارے میں کوئی وحی نہیں اتری ؟ آپ نے فرمایا ہاں تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی اس وقت وہ میری نہ تھی اب وہ مجھے دے دی گئی اور میں تمہیں دے رہا ہوں، پس آیت (يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۠ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ) 8۔ الانفال :1) اس بارے میں اتری ہے جو ابو داؤد طیالسی میں انہی سے مروی ہے کہ میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ مجھے بدر والے دن ایک تلوار ملی میں اسے لے کر سرکار رسالت مآب میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ تلوار آپ مجھے عنایت فرمائیے آپ نے فرمایا جاؤ جہاں سے لی ہے وہیں رکھ دو۔ میں نے پھر طلب کی آپ نے پھر یہی جواب دیا۔ میں نے پھر مانگی آپ نے پھر یہی فرمایا۔ اسی وقت یہ آیت اتری۔ یہ پوری حدیث ہم نے آیت (وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا ۭ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۭ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ) 29۔ العنکبوت :8) کی تفسیر میں وارد کی ہے۔ پس ایک تو یہ آیت دوسری آیت (وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14؀) 31۔ لقمان :14) تیسری آیت (يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 90؀) 5۔ المآئدہ :90) ، چوتھی آیت وصیت (صحیح مسلم شریف) سیرت ابن اسحاق میں ہے حضرت ابو سعید مالک بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں مجھے سیف بن عاند کی تلوار ملی جسے مرزبان کہا جاتا تھا۔ جب نبی ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ جو کچھ جس کسی کے پاس ہو وہ جمع کرا دے، میں بھی گیا اور وہ تلوار رکھ آیا۔ آنحضرت ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ اگر کوئی آپ سے کچھ مانگتا تو آپ انکار نہ کرتے۔ حضرت ارقم بن ارقم خزاعی ؓ نے اس تلوار کو دیکھ کر آپ سے اسی کا سوال کیا آپ نے انہیں عطا فرما دی۔ اس آیت کے نزول کا سبب مسند امام احمد میں ہے کہ حضرت ابو امامہ نے حضرت عبادہ سے انفال کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا ہم بدریوں کے بارے میں ہے جبکہ ہم مال کفار کے بارے میں باہم اختلاف کرنے لگے اور جھگڑے بڑھ گئے تو یہ آیت اتری اور یہ رسول اللہ ﷺ کے سپرد ہوگئی اور حضور نے اس مال کو برابری سے تقسیم فرمایا۔ مسند احمد میں ہے کہ ہم غزوہ بدر میں حضور ﷺ کے ساتھ نکلے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی ہماری ایک جماعت نے تو ان کا تعاقب کیا کہ پوری ہزیمت دے دے دوسری جماعت نے مال غنیمت میدان جنگ سے سمیٹنا شروع کیا اور ایک جماعت اللہ کے نبی ﷺ کے اردگرد کھڑی ہوگئی کہ کہیں کوئی دشمن آپ کو کوئی ایذاء نہ پہنچائے۔ رات کو سب لوگ جمع ہوئے اور ہر جماعت اپنا حق اس مال پر جتانے لگی۔ پہلی جماعت نے کہا دشمنوں کو ہم نے ہی ہر ایا ہے۔ دوسری جماعت نے کہا مال غنیمت ہمارا ہی سمیٹا ہوا ہے۔ تیسری جماعت نے کہا ہم نے حضور کی چوکیداری کی ہے پس یہ آیت اتری اور حضور نے خود اس مال کو ہم میں تقسیم فرمایا۔ آپ کی عادت مبارک تھی کہ حملے کی موجودگی میں چوتھائی بانٹتے اور لوٹتے وقت تہائی آپ انفال کو مکروہ سمجھتے۔ ابن مردویہ میں ہے کہ بدر والے دن رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ جو ایسا کرے اسے یہ انعام اور جو ایسا کرے اسے یہ انعام۔ اب نوجوان تو دوڑ پڑے اور کار نمایاں انجام دیئے۔ بوڑھوں نے مورچے تھامے اور جھنڈوں تلے رہے۔ اب جوانوں کا مطالبہ تھا کہ کل مال ہمیں ملنا چاہئے بوڑھے کہتے تھے کہ لشکر گاہ کو ہم نے محفوظ رکھا تم اگر شکست اٹھاتے تو یہیں آتے۔ اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری۔ مروی ہے کہ حضور کا اعلان ہوگیا تھا کہ جو کسی کافر کو قتل کرے اسے اتنا ملے گا اور جو کسی کافر کو قید کرے اسے اتنا ملے گا۔ حضرت ابو الیسر ؓ دو قیدی پکڑ لائے اور حضرت کو وعدہ یاد دلایا اس پر حضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ پھر تو ہم سب یونہی رہ جائیں گے۔ بزدلی یا بےطاقتی کی وجہ سے ہم آگے نہ بڑھے ہوں یہ بات نہیں بلکہ اس لئے کہ پچھلی جانب سے کفار نہ آپڑیں، حضور کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اس لئے ہم آپ کے ارد گرد رہے، اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری اور آیت (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 41؀) 8۔ الانفال :41) بھی اتری، امام ابو عبید اللہ قاسم بن سلام نے اپنی کتاب احوال الشرعیہ میں لکھا ہے کہ انفال غنیمت ہے اور حربی کافروں کے جو مال مسلمانوں کے قبضے میں آئیں وہ سب ہیں پس انفال آنحضرت ﷺ کی ملکیت میں تھے بدر والے دن بغیر پانچواں حصہ نکالے جس طرح اللہ نے آپ کو سمجھایا آپ نے مجادین میں تقسیم کیا اس کے بعد پانچواں حصہ نکالنے کے حکم کی آیت اتری اور یہ پہلا حکم منسوخ ہوگیا لیکن ابن زید وغیرہ اسے منسوخ نہیں بتلاتے بلکہ محکم کہتے ہیں۔ انفال غنیمت کی جمع ہے مگر اس میں سے پانجواں حصہ مخصوص ہے۔ اس کی اہل کیلئے جیسے کہ کتاب اللہ میں حکم ہے اور جیسے کہ سنت رسول اللہ جاری ہوئی ہے۔ انفال کے معنی کلام عرب میں ہر اس احسان کے ہیں جسے کوئی بغیر کسی پابندی یا وجہ کے دوسرے کے ساتھ کرے۔ پہلے کی تمام امتوں پر یہ مال حرام تھے اس امت پر اللہ نے رحم فرمایا اور مال غنیمت ان کے لئے حلال کیا۔ چناچہ بخاری و مسلم میں ہے حضور فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں پھر ان کے ذکر میں ایک یہ ہے کہ آپ نے فرمایا میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں مجھ سے پہلے کسی کو حلال نہ تھیں۔ امام ابو عبید فرماتے ہیں کہ امام جن لشکریوں کو کوئی انعام دے جو اس کے مقررہ حصہ کے علاوہ ہو اسے نفل کہتے ہیں غنیمت کے انداز اور اس کے کار نامے کے صلے کے برابر یہ ملتا ہے۔ اس نفل کی چار صورتیں ہیں ایک تو مقتول کا مال اسباب وغیرہ جس میں سے پانچواں حصہ نہیں نکالا جاتا۔ دوسرے وہ نفل جو پانچواں حصہ علیحدہ کرنے کے بعد دیا جاتا ہے۔ مثلاً امام نے کوئی چھوٹا سا لشکر کسی دشمن پر بھیج دیا وہ غنیمت یا مال لے کر پلٹا تو امام اس میں سے اسے چوتھائی یا تہائی بانٹ دے تیسرے صورت یہ کہ جو پانچواں حصہ نکال کر باقی کا تقسیم ہوچکا ہے، اب امام بقدر خزانہ اور بقدر شخصی جرات کے اس میں سے جسے جتنا چاہے دے۔ چوتھی صورت یہ کہ امام پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے ہی کسی کو کچھ دے مثلاً چرواہوں کو، سائیسوں کو، بہشتیوں کو وغیرہ۔ پھر ہر صورت میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے جو سامان اسباب مقتولین کا مجاہدین کو دیا جائے وہ انفال میں داخل ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا اپنا حصہ پانچویں حصے میں سے پانچواں جو تھا اس میں سے آپ جسے چاہیں جتنا چاہیں عطا فرمائیں یہ نفل ہے۔ پس امام کو چاہئے کہ دشمنوں کی کثرت مسلمانوں کی قلت اور ایسے ہی ضروری وقتوں میں اس سنت کی تابعیداری کرے۔ ہاں جب ایسا موقع نہ ہو تو نفل ضروری نہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ امام ایک چھوٹی سی جماعت کہیں بھیجتا ہے اور ان سے کہہ دیتا ہے کہ جو شخص جو کچھ حاصل کرے پانچواں حصہ نکال کر باقی سب اسی کا ہے تو وہ سب انہی کا ہے کیونکہ انہوں نے اسی شرط پر غزوہ کیا ہے اور یہ رضامندی سے طے ہوچکی ہے۔ لیکن ان کے اس بیان میں جو کہا گیا ہے کہ بدر کی غنیمت کا پانچواں حصہ نہیں نکالا گیا۔ اس میں ذرا کلام ہے۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ دو اونٹنیاں وہ ہیں جو انہیں بدر کے دن پانچویں حصے میں ملی تھیں میں نے اس کا پورا بیان کتاب السیرہ میں کردیا ہے۔ فالحمد للہ۔ تم اپنے کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو، آپس میں صلح و صفائی رکھو، ظلم، جھگڑے اور مخالفت سے باز آجاؤ۔ جو ہدایت و علم اللہ کی طرف سے تمہیں ملا ہے اس کی قدر کرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو، عدل و انصاف سے ان مالوں کو تقسیم کرو۔ پرہیزگاری اور صلاحیت اپنے اندر پیدا کرو۔ مسند ابو یعلی میں ہے کہ حضور بیٹھے بیٹھے ایک مرتبہ مسکرائے اور پھر ہنس دیئے۔ حضرت عمر نے دریافت کیا کہ آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، کیسے ہنس دیئے ؟ آپ نے فرمایا میری امت کے دو شخص اللہ رب العزت کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوگئے ایک نے کہا اللہ میرے بھائی سے میرے ظلم کا بدلہ لے اللہ نے اس سے فرمایا ٹھیک ہے اسے بدلہ دے اس نے کہا اللہ میرے پاس تو نیکیاں اب باقی نہیں رہیں اس نے کہا پھر اللہ میری برائیاں اس پر لا دھ دے۔ اس وقت حضور کے آنسو نکل آئے اور فرمانے لگے وہ دن بڑا ہی سخت ہے لوگ چاہتے ہوں گے تلاش میں ہوں گے کہ کسی پر ان کا بوجھ لادھ دیا جائے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے طالب اپنی نگاہ اٹھا اور ان جنتیوں کو دیکھ وہ دیکھے گا اور کہے گا چاندی کے قلعے اور سونے کے محل میں دیکھ رہا ہوں جو لؤ لؤ اور موتیوں سے جڑاؤ کئے ہوئے ہیں پروردگار مجھے بتایا جائے کہ یہ مکانات اور یہ درجے کسی نبی کے ہیں یا کسی صدیق کے یا کسی شہید کے ؟ اللہ فرمائے گا یہ اس کے ہیں جو ان کی قیمت ادا کر دے۔ وہ کہے گا اللہ کس سے ان کی قیمت ادا ہو سکے گی ؟ فرمائے گا تیرے پاس تو اس کی قیمت ہے وہ خوش ہو کر پوچھے گا کہ پروردگار کیا ؟ اللہ فرمائے گا یہی کہ تیرا جو حق اس مسلمان پر ہے تو اسے معاف کر دے، بہت جلد کہے گا کہ اللہ میں نے معاف کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ اب اس کا ہاتھ تھام لے اور تم دونوں جنت میں چلے جاؤ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کا آخری حصہ تلاوت فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور آپس کی اصلاح کرو دیکھو اللہ تعالیٰ خود قیامت کے دن مومنوں میں صلح کرائے گا۔

اردو ترجمہ

سچّے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama almuminoona allatheena itha thukira Allahu wajilat quloobuhum waitha tuliyat AAalayhim ayatuhu zadathum eemanan waAAala rabbihim yatawakkaloona

ایمان سے خالی لوگ اور حقیقت ایمان ابن عباس فرماتے ہیں منافقوں کے دل میں نہ فریضے کی ادائیگی کے وقت ذکر اللہ ہوتا ہے نہ کسی اور وقت پر۔ نہ ان کے دلوں میں ایمان کا نور ہوتا ہے نہ اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے۔ نہ تنہائی میں نمازی رہتے ہیں نہ اپنے مال کی زکوٰۃ دیتے ہیں، ایسے لوگ ایمان سے خالی ہوتے ہیں، لیکن ایماندار ان کے برعکس ہوتے ہیں۔ ان کے دل یاد خالق سے کپکپاتے رہتے ہیں فرائض ادا کرتے ہیں آیات الٰہی سن کر ایمان چمک اٹھتے ہیں تصدیق میں بڑھ جاتے ہیں رب کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اللہ کی یاد سے تھر تھراتے رہتے ہیں اللہ کا ڈر ان میں سمایا ہوا ہوتا ہے اسی وجہ سے نہ تو حکم کا خلاف کرتے ہیں نہ منع کئے ہوئے کام کو کرتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے کہ ان سے اگر کوئی برائی سرزد ہو بھی جاتی ہے تو یاد اللہ کرتے ہیں پھر اپنے گناہ سے استغفار کرتے ہیں حقیقت میں سوائے اللہ کے کوئی گناہوں کا بخشنے والا بھی نہیں۔ یہ لوگ باوجود علم کے کسی گناہ پر اصرار نہیں کرتے۔ اور آیتوں میں ہے آیت (واما من خاف مقام ربہ الخ) ، جو شخص اپنے رب کے پاس کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہشوں سے روکا اس کا ٹھکانا جنت ہے۔ سدی فرماتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے جی میں ظلم کرنے کی یا گناہ کرنے کی آتی ہے لیکن اگر ان سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر جا وہیں ان کا دل کانپنے لگتا ہے، ام درداء فرماتی ہیں کہ دل اللہ کے خوف سے حرکت کرنے لگتے ہیں ایسے وقت انسان کو اللہ عزوجل سے دعا مانگنی چاہئے۔ ایمانی حالت بھی ان کی روز بروز زیادتی میں رہتی ہے ادھر قرآنی آیات سنیں اور ایمان بڑھا۔ جیسے اور جگہ ہے کہ جب کوئی سورت اترتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا ؟ بات یہ ہے کہ ایمان والوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور وہ خوش ہوجاتے ہیں، اس آیت سے اور اس جیسی اور آیتوں سے حضرت امام الائمہ امام بخاری ؒ وغیرہ ائمہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ ایمان کی زیادتی سے مراد ہے کہ دلوں میں ایمان کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے یہی مذہب جمہور امت کا ہے بلکہ کئی ایک نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جیسے شافعی، احمد بن حنبل، ابو عبیدہ وغیرہ جیسے کہ ہم نے شرح بخاری کے شروع میں پوری طرح بیان کردیا ہے۔ والحمد اللہ۔ ان کا بھروسہ صرف اپنے رب پر ہوتا ہے نہ اس کے سوا کسی سے وہ امید رکھیں نہ اس کے سوا کوئی ان کا مقصود، نہ اس کے سوا کسی سے وہ پناہ چاہیں نہ اس کے سوا کسی سے مرادیں مانگیں نہ کسی اور کی طرف جھکیں وہ جانتے ہیں کہ قدرتوں والا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا ہرگز نہیں ہوتا تمام ملک میں اسی کا حکم چلتا ہے ملک صرف وہی ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ اس کے کسی حکم کو کوئی ٹال سکے وہ جلد ہی حساب لینے والا ہے، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اللہ پر توکل کرنا ہی پورا ایمان ہے۔ ان مومنوں کے ایمان اور اعتقاد کی حالت بیان فرما کر اب ان کے اعمال کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ نمازوں کے پابند ہوتے ہیں۔ وقت کی، وضو کی، رکوع کی، سجدے کی، کامل پاکیزگی کی، قرآن کی تلاوت، تشہد، درود، سب چیزوں کی حفاظت و نگرانی کرتے ہیں۔ اللہ کے اس حق کی ادائیگی کے ساتھ ہی بندوں کے حق بھی نہیں بھولتے۔ واجب خرچ یعنی زکوٰۃ مستحب خرچ یعنی للہ فی اللہ خیرات برابر دیتے ہیں چونکہ تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے اس لئے اللہ کو سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو اس کی مخلوق کی سب سے زیادہ خدمت کرے اللہ کے دیئے ہوئے کو اللہ کی راہ میں دیتے رہو یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے بہت جلد تم اسے چھوڑ کر رخصت ہونے والے ہو، پھر فرماتا ہے کہ جن میں یہ اوصاف ہوں وہ سچے مومن ہیں طبرانی میں ہے کہ حارث بن مالک انصاری ؓ نبی ﷺ کے پاس سے گذرے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تمہاری صبح کس حال میں ہوئی ؟ انہوں نے جواب دیا کہ سچے مومن ہونے کی حالت میں۔ آپ نے فرمایا کہ سمجھ لو کہ کیا کہہ رہے ہو ؟ ہر چیز کی حقیقت ہوا کرتی ہے۔ جانتے ہو حقیقت ایمان کیا ہے ؟ جواب دیا کہ یارسول اللہ ﷺ میں نے اپنی خواہشیں دنیا سے الگ کرلیں راتیں یاد اللہ میں جاگ کر دن اللہ کی راہ میں بھوکے پیاسے رہ کر گذراتا ہوں۔ گویا میں اللہ کے عرش کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھتا رہتا ہوں اور گویا کہ میں اہل جنت کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ آپس میں ہنسی خوشی ایک دوسرے سے مل جل رہے ہیں اور گویا کہ میں اہل دوزخ کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ دوزخ میں جل بھن رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا حارثہ تو نے حقیقت جان لی پس اس حال پر ہمیشہ قائم رہنا۔ تین مرتبہ یہی فرمایا پس آیت میں بالکل محاورہ عرب کے مطابق ہے جیسے وہ کہا کرتے ہیں کہ گو فلاں قوم میں سردار بہت سے ہیں لیکن صحیح معنی میں سردار فلاں ہے یا فلاں قبیلے میں تاجر بہت ہیں لیکن صحیح طور پر تاجر فلاں ہے۔ فلاں لوگوں میں شاعر ہیں لیکن سچا شاعر فلاں ہے۔ ان کے مرتبے اللہ کے ہاں بڑے بڑے ہیں اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے وہ ان کی لغزشوں سے درگذر فرمائے گا ان کی نیکیوں کی قدردانی کرے گا۔ گویہ درجے اونچے نیچے ہوں گے لیکن کسی بلند مرتبہ شخص کے دل میں یہ خیال نہ ہوگا کہ میں فلاں سے اعلیٰ ہوں اور نہ کسی ادنیٰ درجے والوں کو یہ خیال ہوگا کہ میں فلاں سے کم ہوں۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ علیین والوں کو نیچے کے درجے کے لوگ اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے کناروں کے ستاروں کو دیکھتے ہو۔ صحابہ نے پوچھا یہ مرتبے تو انبیاء کے ہونگے ؟ کوئی اور تو اس مرتبے پر نہ پہنچ سکے گا ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں ؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ لوگ بھی جو اللہ پر ایمان لائیں اور رسولوں کو سچ جانیں۔ اہل سنن کی حدیث میں ہے کہ اہل جنت بلند درجہ جنتیوں کو ایسے دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے کناروں کے چمکیلے ستاروں کو دیکھا کرتے ہو یقیناً ابوبکر اور عمر انہی میں ہیں اور بہت اچھے ہیں۔

اردو ترجمہ

جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yuqeemoona alssalata wamimma razaqnahum yunfiqoona

اردو ترجمہ

ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Olaika humu almuminoona haqqan lahum darajatun AAinda rabbihim wamaghfiratun warizqun kareemun

اردو ترجمہ

(اِس مال غنیمت کے معاملہ میں بھی ویسی ہی صورت پیش آ رہی ہے جیسی اُس وقت پیش آئی تھی جبکہ) تیرا رب تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکال لایا تھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ سخت ناگوار تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kama akhrajaka rabbuka min baytika bialhaqqi wainna fareeqan mina almumineena lakarihoona

شمع رسالت کے جاں نثاروں کی دعائیں ایک مطلب تو اس کا یہ ہے کہ جیسے تم نے مال غنیمت میں اختلاف کیا آخر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے نبی کو اس کی تقسیم کا اختیار دے دیا اور اپنے عدل و انصاف کے ساتھ اسے تم میں بانٹ دیا درحقیقت تمہارے لئے اسی میں بھلائی تھی اسی طرح اس نے باوجود تمہاری اس چاہت کے کہ قریش کا تجارتی قافلہ تمہیں مل جائے اور جنگی جماعت سے مقابلہ نہ ہو اس نے تمہارا مقابلہ بغیر کسی وعدے کے ایک پر شکوہ جماعت سے کرا دیا اور تمہیں اس پر غالب کردیا کہ اللہ کی بات بلند ہوجائے اور تمہیں فتح، نصرت، غلبہ اور شان شوکت عطا ہو۔ جیسے فرمان ہے آیت (کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم الخ) ، تم پر جہاد فرض کیا گیا حالانکہ تم اسے برا جانتے ہو بہت ممکن ہے کہ ایک چیز کو اپنے حق میں اچھی نہ جانو اور درحقیقت وہی تمہارے حق میں بہتر ہو اور حق میں وہ بدتر ہو۔ دراصل حقائق کا علم اللہ ہی کو ہے تم محض بےعلم ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جیسے مومنوں کے ایک گروہ کی چاہت کے خلاف تجھے تیرے رب نے شہر سے باہر لڑائی کیلئے نکالا اور نتیجہ اسی کا اچھا ہوا ایسے ہی جو لوگ جہاد کیلئے نکلنا بوجھ سمجھ رہے ہیں دراصل یہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مال غنیمت میں ان کا اختلاف بالکل بدر والے دن کے اختلاف کے مشابہ تھا۔ کہنے لگے تھے آپ نے ہمیں قافلے کا فرمایا تھا لشکر کا نہیں ہم جنگی تیاری کر کے نکلے ہی نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ مدینے سے اسی ارادے سے نکلے تھے کہ ابو سفیان کے اس قافلے کو روکیں جو شام سے مدینہ کو قریشیوں کے بہت سے مال اسباب لے کر آ رہا تھا۔ حضور نے لوگوں کو تیار کیا اور تین سو دس سے کچھ اوپر لوگوں کو لے کر آپ مدینے سے چلے اور سمندر کے کنارے کے راستے کی طرف سے بدر کے مقام سے چلے۔ ابو سفیان کو چونکہ آپ کے نکلنے کی خبر پہنچ چکی تھی اس نے اپنا راستہ بدل دیا اور ایک تیز رو قاصد کو مکہ دوڑایا۔ وہاں سے قریش قریب ایک ہزار کے لشکر جرار لے کرلو ہے میں ڈوبے ہوئے بدر کے میدان میں پہنچ گئے پس یہ دونوں جماعتیں ٹکرا گئیں ایک گھمسان کی لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حق کو فتح دلوائی اپنا دین بلند کیا اور اپنے نبی کی مدد کی اور اسلام کو کفر پر غالب کیا جیسے کہ اب بیان ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ۔ یہاں مقصد بیان صرف اتنا ہی ہے کہ جب حضور کو یہ پتہ چلا کہ مشرکین کی جنگی مہم مکہ سے آرہی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ سے بذریعہ وحی کے وعدہ کیا کہ یا تو قافلہ آپ کو ملے گا یا لشکر کفار۔ اکثر مسلمان جی سے چاہتے تھے کہ قافلہ مل جائے کیونکہ یہ نسبتاً ہلکی چیز تھی لیکن اللہ کا ارادہ تھا کہ اسی وقت بغیر زیادہ تیاری اور اہتمام کے اور آپس کے قول قرار کے مڈ بھیڑ ہوجائے اور حق وباطل کی تمیز ہوجائے کفار کی ہمت ٹوٹ جائے اور دین حق نکھر آئے۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ مدینے میں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ ابو سفیان کا قافلہ لوٹ رہا ہے تو کیا تم اس کے لئے تیار ہو کہ ہم اس قافلے کی طرف بڑھیں ؟ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال غنیمت دلوا دے۔ ہم سب نے تیاری ظاہر کی آپ ہمیں لے کر چلے ایک دن یا دو دن کا سفر کر کے آپ نے ہم سے فرمایا کہ قریشیوں سے جہاد کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ انہیں تمہارے چلنے کا علم ہوگیا ہے اور وہ تم سے لڑنے کیلئے چل پڑے ہیں۔ ہم نے جواب دیا کہ واللہ ہم میں ان سے مقابلے کی طاقت نہیں ہم تو صرف قافلے کے ارادے سے نکلے ہیں۔ آپ نے پھر یہی سوال کیا اور ہم نے پھر یہی جواب دیا۔ اب حضرت مقداد بن عمر ؓ نے کہا کہ یارسول اللہ ہم اس وقت آپ کو وہ نہ کہیں گے جو موسیٰ کی قوم نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا کہ تو اور تیرا رب جا کر کافروں سے لڑے، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب تو ہمیں بڑا ہی رنج ہونے لگا کہ کاش یہی جواب ہم بھی دیتے تو ہمیں مال کے ملنے سے اچھا تھا، پس یہ آیت اتری۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ بدر کی جانب چلتے ہوئے رسول اکرم ﷺ روحا میں پہنچے تو آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے ؟ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا کہ ہاں ہمیں بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ فلاں فلاں جگہ ہیں۔ آپ نے پھر خطبہ دیا اور یہی فرمایا اب کی مرتبہ حضرت عمر فاروق نے یہی جواب دیا آپ نے پھر تیسرے خطبے میں یہی فرمایا اس پر حضرت سعد بن معاذ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ ہم سے دریافت فرما رہے ہیں ؟ اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو عزت و بزرگی عنایت فرمائی ہے اور آپ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے نہ میں ان راستوں میں کبھی چلا ہوں اور نہ مجھے اس لشکر کا علم ہے ہاں اتنا میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ برک الغماد تک بھی چڑھائی کریں تو واللہ ہم آپ کی رکاب تھامے آپ کے پیچھے ہوں گے ہم ان کی طرح نہیں جنہوں نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہہ دیا تھا کہ تو اپنے ساتھ اپنے پروردگار کو لے کر چلا جا اور تم دونوں ان سے لڑ لو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ نہیں نہیں بلکہ اے رسول اللہ ﷺ آپ چلئے اللہ آپ کا ساتھ دے ہم تو آپ کے زیر حکم کفار سے جہاد کے لئے صدق دل سے تیار ہیں۔ یا رسول اللہ ﷺ گو آپ کسی کام کو زیر نظر رکھ رکھ نکلے ہوں لیکن اس وقت کوئی اور نیا کام پیش نگاہ ہو تو بسم اللہ کیجئے، ہم تابعداری سے منہ پھیرنے والے نہیں۔ آپ جس سے چاہیں ناطہ توڑ لیجئے اور جس سے چاہیں جوڑ لیجئے جس سے چاہیں عداوت کیجئے اور جس سے چاہیں محبت کیجئے ہم اسی میں آپ کے ساتھ ہیں۔ یا رسول اللہ ہماری جانوں کے ساتھ ہمارے مال بھی حاضر ہیں، آپ کو جس قدر ضرورت ہو لیجئے اور کام میں لگائیے۔ پس حضرت سعد کے اس فرمان پر قرآن کی یہ آیتیں اتری ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ نے دشمن سے بدر میں جنگ کرنے کی بابت صحابہ سے مشورہ کیا اور حضرت سعد بن عباد ؓ نے جواب دیا اور حضور نے مجاہدین کو کمر بندی کا حکم دے دیا اس وقت بعض مسلمانوں کو یہ ذرا گراں گذرا اس پر یہ آیتیں اتریں۔ پس حق میں جھگڑنے سے مراد جہاد میں اختلاف کرنا ہے اور مشرکوں کے لشکر سے مڈ بھیڑ ہونے اور ان کی طرف چلنے کو ناپسند کرنا ہے۔ اس کے بعد ان کے لئے واضح ہوگیا یعنی یہ امر کہ حضور بغیر حکم رب العزت کے کوئی حکم نہیں دیتے۔ دوسری تفسیر میں ہے کہ اس سے مراد مشرک لوگ ہیں جو حق میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ اسلام کا ماننا ان کے نزدیک ایسا ہے جیسے دیکھتے ہوئے موت کے منہ میں کودنا۔ یہ وصف مشرکوں کے سوا اور کسی کا نہیں اہل کفر کی پہلی علامت یہی ہے ابن زید کا یہ قول وارد کر کے امام ابن جرید ؒ فرماتے ہیں کہ یہ قول بالکل بےمعنی ہے اس لئے کہ اس سے پہلے کا قول آیت (يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ ۭ) 8۔ الانفال :6) اہل ایمان کی خبر ہے تو اس سے متصل خبر بھی انہی کی ہے۔ ابن عباس اور ابن اسحاق ہی کا قول اس بارے میں ٹھیک ہے کہ یہ خبر مومنوں کی ہے نہ کہ کافروں کی۔ حق بات یہی ہے جو امام صاحب نے کہی۔ سیاق کلام کی دلالت بھی اسی پر ہے ـ (واللہ اعلم)۔ مسند احمد میں ہے کہ بدر کی لڑائی کی فتح کے بعد بعض صحابہ نے حضور سے عرض کیا کہ اب چلئے قافلے کو بھی دبالین اب کوئی روک نہیں ہے۔ اس وقت عباس بن عبدالمطلب کفار سے قید ہو کر آئے ہوئے زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے اونچی آواز سے کہنے لگے کہ حضور ایسا نہ کیجئے۔ آپ نے دریافت فرمایا کیوں ؟ انہوں نے جواب دیا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا وہ اللہ نے پورا کیا ایک جماعت آپ کو مل گئی۔ مسلمانوں کی چاہت تھی کہ لڑائی والے گروہ سے تو مڈ بھیڑ نہ ہو البتہ قافلے والے مل جائیں اور اللہ کی چاہت تھی کہ شوکت و شان والی قوت و گھمنڈوالی لڑائی بھڑائی والی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر تمہیں غالب کر کے تمہاری مدد کرے، اپنے دین کو ظاہر کر دے اور اپنے کلمے کو بلند کر دے اور اپنے دین کو دوسرے تمام دینوں پر اونچا کر دے پس انجام کی بھلائی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ اپنی عمدہ تدبیر سے تمہیں سنبھال رہا ہے تمہاری مرضی کے خلاف کرتا ہے اور اسی میں تمہاری مصلحت اور بھلائی ہوتی ہے جیسے فرمایا کہ جہاد تم پر لکھا گیا اور وہ تمہیں ناپسند ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ تمہاری ناپسندیدگی کی چیز میں ہی انجام کے لحاظ سے تمہارے لیے بہتری ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ درحقیقت تمہارے حق میں بری ہو۔ اب جنگ بدر کا مختصر سا واقعہ بزبان حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سنئے۔ جب رسول کریم ﷺ نے سنا کہ ابو سفیان شام سے مع قافلے کے اور مع اسباب کے آ رہا ہے تو آپ نے مسلمانوں کو فرمایا کہ چلو ان کا راستہ روکو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے یہ اسباب تمہیں دلوا دے چونکہ کسی لڑانے والی جماعت سے لڑائی کرنے کا خیال بھی نہ تھا۔ اس لئے لوگ بغیر کسی خاص تیاری کے جیسے تھے ویسے ہی ہلکے پھلکے نکل کھڑے ہوئے۔ ابو سفیان بھی غافل نہ تھا اس نے جاسوس چھوڑ رکھے تھے اور آتے جاتوں سے بھی دریافت حال کر رہا تھا ایک قافلے سے اسے معلوم ہوگیا کہ حضور اپنے ساتھیوں کو لے کر تیرے اور تیرے قافلے کی طرف چل پڑے ہیں۔ اس نے ضیغم بن عمرو غفاری کو انعام دے دلا کر اسی وقت قریش مکہ کے پاس یہ پیغام دے کر روانہ کیا کہ تمہارے مال خطرے میں ہیں۔ حضور مع اپنے اصحاب کے اس طرف آ رہے ہیں تمہیں چاہئے کہ پوری تیاری سے فوراً ہماری مدد کو آؤ اس نے بہت جلد وہاں پہنچ کر خبر دی تو قریشیوں نے زبردست حملے کی تیار کرلی اور نکل کھڑے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ جب ذفران وادی میں پہنچے تو آپ کو قریش کے لشکروں کا سازو سامان سے نکلنا معلوم ہوگیا۔ آپ نے صحابہ سے مشورہ لیا اور یہ خبر بھی کردی۔ حضرت ابوبکر نے کھڑے ہو کر جواب دیا اور بہت اچھا کہا۔ پھر حضرت عمر کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی معقول جواب دیا۔ پھر حضرت مقداد کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہو اسے انجام دیجئے ہم جان و مال سے آپ کے ساتھ ہیں اور ہر طرح فرمانبردار ہیں ہم بنو اسرائیل کی طرح نہیں کہ اپنے نبی سے کہہ دیں کہ آپ اور آپ کا رب جا کر لڑ لو ہم تماشا دیکھتے ہیں نہیں بلکہ ہمارا یہ قول ہے کہ اللہ کی مدد کے ساتھ چلئے جنگ کیجئے ہم آپکے ساتھ ہیں اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے کہ اگر آپ برک غماد تک یعنی حبشہ کے ملک تک بھی چلیں تو ہم ساتھ سے منہ نہ موڑیں گے اور وہاں پہنچائے اور پہنچے بغیر کسی طرح نہ رہیں گے آپ نے انہیں بہت اچھا کہا اور ان کو بڑی دعائیں دیں لیکن پھر بھی یہی فرماتے رہے کہ لوگو مجھے مشورہ دو میری بات کا جواب دو اس سے مراد آپ کی انصاریوں کے گروہ سے تھی ایک تو اس لئے کہ گنتی میں یہی زیادہ تھے۔ دوسرے اس لئے بھی کہ عقبہ میں جب انصار نے بیعت کی تھی تو اس بات پر کی تھی کہ جب آپ مکہ سے نکل کر مدینے میں پہنچ جائیں پھر ہم آپ کے ساتھ ہیں جو بھی دشمن آپ پر چڑھائی کر کے آئے ہم اس کے مقابلے میں سینہ سپر ہوجائیں گے اس میں چونکہ یہ وعدہ نہ تھا کہ خود آپ اگر کسی پر چڑھ کر جائیں تو بھی ہم آپ کا ساتھ دیں گے اس لئے آپ چاہتے تھے کہ اب ان کا ارادہ معلوم کرلیں۔ یہ سمجھ کر حضرت سعد بن معاذ ؓ کھڑے ہوگئے اور عرض کیا کہ شاید آپ ہم سے جواب طلب فرما رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں یہی بات ہے تو حضرت سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارا آپ پر ایمان ہے ہم آپ کو سچا جانتے ہیں اور جو کچھ آپ لائے ہیں اسے بھی حق مانتے ہیں ہم آپ کا فرمان سننے اور اس پر عمل کرنے کی بیعت کرچکے ہیں۔ اے اللہ کے رسول جو حکم اللہ تعالیٰ کا آپ کو ہوا ہے اسے پورا کیجئے، ہم آپ کی ہمرکابی سے نہ ہٹیں گے۔ اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو اپنا سچا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ اگر سمندر کے کنارے پر کھڑے ہو کر آپ اس میں گھوڑا ڈال دیں تو ہم بھی بلا تامل اس میں کود پڑیں گے ہم میں سے ایک کو بھی آپ ایسا نہ پائیں گے جسے ذرا سا بھی تامل ہو ہم اس پر بخوشی رضامند ہیں کہ آپ ہمیں دشمنوں کے مقابلے پر چھوڑ دیں۔ ہم لڑائیوں میں بہادری کرنے والے مصیبت کے جھیلنے والے اور دشمن کے دل پر سکہ جما دینے والے ہیں آپ ہمارے کام دیکھ کر انشاء اللہ خوش ہوں گے چلئے اللہ کا نام لے کر چڑھائی کیجئے اللہ برکت دے۔ ان کے اس جواب سے آپ بہت ہی مسرور ہوئے اسی وقت کوچ کا حکم دیا کہ چلو اللہ کی برکت پر خوش ہوجاؤ۔ رب مجھ سے وعدہ کرچکا ہے کہ دو جماعتوں میں سے ایک جماعت ہمارے ہاتھ لگے گی واللہ میں تو ان لوگوں کے گرنے کی جگہ ابھی یہیں سے گویا اپنی آنکھوں دیکھ رہا ہوں۔

اردو ترجمہ

وہ اس حق کے معاملہ میں تجھ سے جھگڑ رہے تھے دراں حالے کہ وہ صاف صاف نمایاں ہو چکا تھا ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yujadiloonaka fee alhaqqi baAAdama tabayyana kaannama yusaqoona ila almawti wahum yanthuroona

اردو ترجمہ

یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مِل جائے گا تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith yaAAidukumu Allahu ihda alttaifatayni annaha lakum watawaddoona anna ghayra thati alshshawkati takoonu lakum wayureedu Allahu an yuhiqqa alhaqqa bikalimatihi wayaqtaAAa dabira alkafireena

اردو ترجمہ

تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطل باطل ہو جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Liyuhiqqa alhaqqa wayubtila albatila walaw kariha almujrimoona
177