سورۃ القمر (54): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Qamar کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ القمر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ القمر کے بارے میں معلومات

Surah Al-Qamar
سُورَةُ القَمَرِ
صفحہ 528 (آیات 1 سے 6 تک)

سورۃ القمر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ القمر کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Iqtarabati alssaAAatu wainshaqqa alqamaru

یہ ایک خوبصورت اور آنکھیں چندھیا دینے والا منظر ہے جس میں ایک عظیم کائناتی حادثہ دکھایا گیا ہے اور یہ اس سے بھی عظیم تر حادثہ کی تمہید ہے۔

اقتربت…………القمر (54: 1) ” قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند ٹکڑے ہوگیا “ امام بخاری نے روایت کی عبداللہ ابن عبدالوہاب سے انہوں نے بشر ابن مفضل سعید ابن ابوعروہ سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے انس ابن مالک سے وہ کہتے ہیں ” اہل مکہ نے رسول ﷺ سے مطالبہ کیا کہ آپ کوئی معجزہ دکھائیں۔ تو آپ نے ان کو دکھایا کہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا اور دونوں کے درمیان حرا تھا۔ “ اس روایت کو بخاری اور مسلم نے دوسری اسناد سے بھی قتادہ اور حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے حضرت جبیر بن مطعم کی روایت امام احمد نے محمد ابن کثیر سے کی ہے۔ انہوں نے سلیمان ابن کثیر سے انہوں نے حصین ابن عبدالرحمن سے ، انہوں نے محمد ابن جیرابن مطعم سے ، انہوں نے اپنے والد حضرت جبیر بن مطعم سے۔ وہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر نظر آتا تھا اور دوسرا اس پہاڑ پر تو کفار نے کہا محمد ﷺ نے ہم پر جادو کردیا ہے۔ اگر اس نے ہم پر جادو کیا ہے تو یہ دنیا کے سب انسانوں پر تو جادو نہیں کرسکتا۔ یہ روایت اس طریقے سے صرف امام احمد ہی نے کی ہے۔ امام بیہقی نے اپنی کتاب الدلائل میں بواسطہ محمد ابن کثیر ، اس کے بھائی سلیمان ابن کثیر سے ، اور انہوں نے حصین ابن عبدالرحمان سے روایت کی ہے اور ابن جریر اور بیہقی نے دوسرے طریقوں اور سندوں کے ساتھ حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے نقل کی ہے۔

حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کی روایت امام بخاری نے روایت کی۔ یحییٰ ابن کثیر سے انہوں نے بکر سے ، انہوں نے جعفر سے ، انہوں نے عراک ابن مالک سے ، انہوں نے عبید اللہ ابن عبداللہ ابن عتبہ سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے وہ کہتے ہیں حضور اکرم کے زمانے میں چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ “ امام بخاری نے اور امام مسلم نے ایک سابقہ سند کے ذریعہ بواسطہ عراک ابن عباس سے روایت کی اور امام ابن جریر نے ایک دوسری سند سے بواسطہ علی ابن ابو طلحہ ، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی۔ یہ اس طرح ہوا کہ ہجرت سے قبل چاند پھٹ گیا یہاں تک کہ لوگوں نے دیکھا کہ وہ دو ٹکڑے ہے۔ عوفی نے بھی حضرت ابن عباس ؓ سے اسی طرح نقل کیا۔ طبرانی نے ایک دوسری سند سے بواسطہ مکرمہ ، حضرت ابن عباس ؓ روایت کی۔ انہوں نے فرمایا رسول اللہ کے زمانے میں چاند تاریک ہوگیا تھا۔ “ تو اہل مکہ نے کہا…. محمد ﷺ نے چاند پر بھی جادو کردیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

اقتربت…………مستمر (54: 2) حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت۔ حافظ ابوبکر بیہقی کہتے ہیں ابوعبداللہ الحافظ اور احمد ابن الحسن قاضی نے جروی سے روایت کی دونوں نے ، ابو العباس اصم سے ، انہوں نے عباس ابن محمد دوری سے ، انہوں نے وھب ابن جریرے انہوں نے شعبہ سے ، انہوں نے اعمش سے ، انہوں نے مجاہد سے ، اور انہوں نے عبداللہ ابن عمر ؓ سے ، اس آیت کی تفسیر میں۔

اقتربت…………القمر (54: 1) کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ کے زمانے میں ہوا تھا۔ یہ دو ٹکڑے ہوا تھا ایک پہاڑ سے پیچھے تھا اور ایک آگے تھا۔ “ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا۔

اللھم اشھد (اے اللہ…. گواہ رہنا) اس طرح اس روایت کو مسلم اور ترمذی نے شعبہ سے انہوں نے اعمش سے اور انہوں نے مجاہد سے نقل کیا ہے ۔

عبداللہ ابن مسعود ؓ کی روایت امام احمد فرماتے ہیں۔ روایت کی سفیان ابن ابونحبیح نے ، مجاہد سے ، انہوں نے ابو معمر سے ، انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے وہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ کفار نے اچھی طرح اسے دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اشہدوا (گواہ رہو) امام بخاری اور امام مسلم نے سفیان ابن عینیہ سے یہی روایت کی ہے اور انہوں نے اعمش سے انہوں نے ابراہیم سے ، انہوں نے ابو معمر عبداللہ ابن سخیرہ سے ، انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے ، امام بخاری کہتے ہیں کہ امام ابو داؤد طیالسی نے یہ روایت کی ، ابوعوانہ سے انہوں نے مغیرہ سے انہوں نے ابو الضحی سے ، انہوں نے مسروق سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ قریش نے کہا یہ ابن ابو کبثہ کا جادو ہے۔ کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا دیکھو جو لوگ سفر پر ہیں وہ آجائیں کیونکہ محمد ﷺ پوری دنیا کے لوگوں پر تو جادو نہیں کرسکتا چناچہ اس کے بعد جو سفر پر تھے وہ آئے اور انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ امام بیہقی نے دوسرے طریقوں سے بھی اسے روایت کیا ہے مسروق سے ، انہوں نے عبداللہ ابن مسعود سے ، مفہوم اسی سے ملتا جلتا ہے۔

یہ ہیں متواتر روایات مختلف اسناد اور طریق سے کہ یہ واقعہ ہوا اور مکہ میں اس کی جگہ بھی بتادی گئی۔ ماسوائے ایک روایت کے جس میں منبی کا ذکر ہے باقی روایات مکہ کے بارے میں ہیں۔ حضور کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا اور ہجرت سے قبل پیش آیا۔ اکثر روایات میں آتا ہے کہ یہ دو ٹکڑے ہوگیا اور یہ ایک روایت میں آتا ہے کہ یہ چاند گرہن ہوگیا تھا۔ بہرحال واقعہ جو بھی ہو روایات سے ثابت ہے اور روایات زمان ومکان کی تحدید بھی کرتی ہیں اور شق قمر کی ہیئت کا تعین بھی کرتی ہیں۔

یہ ایسا واقعہ تھا کہ قرآن کریم نے اسے بطور دلیل قیامت مشرکین کے سامنے پیش کیا۔ کوئی ایسی روایت مشرکین سے منقول نہیں ہے کہ انہوں نے نفس واقعہ کا انکار کیا ہو۔ لہٰذا یہ واعقہ اسی طرح ہوا ہوگا اور اس قدر لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ ان کے لئے نفس واقعہ کو جھٹلانا ممکن نہ رہا ہوگا۔ اگرچہ بطور کبر اور غرور ہو۔ اگر ان کے لئے اس کی تکذیب کی کوئی بھی صورت ہوتی تو وہ ضرور کرتے۔ کفار سے جو روایات اور تبصرے منقول ہیں وہ یہ ہیں کہ محمد ﷺ نے جادو کردیا ہے لیکن خود ان میں سے دانشمند لوگوں نے کہا۔ ذرا تحقیق کرو اور مسافروں سے تحقیق کرنے کے بعد ان کو معلوم ہوگیا کہ یہ جھوٹ نہیں ہے کیونکہ اگر اہل مکہ کو محمد ﷺ مسحور کرسکتے تو وہ پوری دنیا کو تو مسحور نہیں کرسکتے اور جب انہوں نے مسافروں سے پوچھا جو مکہ کے باہر سے آئے تھے تو انہوں نے بھی تصدیق کی۔

اب بات یہ رہ گئی کہ آیا مشرکین نے رسول اللہ ﷺ سے کسی نشانی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے جواب میں شق قمر کا معجزہ رونما ہوگیا۔ یہ روایت دراصل قرآن کی نص صریح سے متصادم ہے۔ مدلول یہ ہے کہ نبی ﷺ کو ویسے معجزات نہیں دیئے گئے جس طرح انبیائے سابق کو دیئے گئے تھے اور اس کا ایک متعین اور خاص سبب تھا۔

وما …………الاولون ” اور ہم کو نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ ان سے پہلے کے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں “ مطلب یہ ہے کہ اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ حضور کو وہ معجزات نہیں دیئے گئے جن کا مطالبہ ہوا تھا۔

کفار نے جب بھی حضور ﷺ سے معجزات کا مطالبہ کیا ہے تو جواب یہی دیا گیا کہ معجزات پیش کرنا آپ کے فرائض میں شامل نہیں ہے اور یہ کہ محمد ﷺ تو ایک بشر اور رسول ہیں اور ہر جگہ صرف قرآن کریم ہی کو آپ کے لئے معجزہ قرار دیا گیا اور اسی جیسی کوئی سورت یا کتاب لانے کا چیلنج دیا گیا۔

قل لئن……………. رسولا (39) (71 : 88 تا 39) ” کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر لوگ انکار ہی پر جمے رہے اور انہوں نے کہا ” ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک تو ہمارے لئے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ نہ جاری کردے یا تیرے لئے کھجوروں اور انگوروں کا قاغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کردے یا تو آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرادے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے یا خدا اور فرشتوں کو رودررو ہمارے سامنے لے آئے یا تیرے لئے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے جڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں۔ “ اے نبی ان سے کہو ” پاک ہے میرا پروردگار کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں “ لہٰذا یہ کہنا کہ شق قمر کا معجزہ کفار کے مطالبہ کے جواب میں آیا تھا ، قرآن مجید کی متعدد نصوص کے بھی خلاف ہے اور اس رجحان کے بھی خلاف ہے کہ اس دنیا میں آخری رسالت انسانیت کے سامنے صرف قرآن پیش کرے اور یہ کہ قرآن کا اعجاز ہی اس کا معجزہ ہو اور قرآن کے ذریعہ انسان کے دل و دماغ کو ان آیات ومعجزات کی طرف متوجہ کیا جائے جو انفس میں موجود ہیں جو آفاق میں بکثرت موجود ہیں اور جو انسانی تاریخ میں بکثرت ہیں اور سخت عبرت آموز بھی ہیں۔ باقی نبی ﷺ کے ہاتھ پر جو معجزات صادر ہوئے اور جن کی تصدیق صحیح روایات نے کی ہے تو وہ بطور اعزاز نبی ﷺ کو دیئے گئے بطور دلائل نبوت نہیں دیئے گئے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ معجزہ شق قمر صادر ہوا۔ نص قرآنی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ روایات متواترہ میں اس کی تصدیق ہوئی اور جس جگہ اور جس زمانے میں صادر ہوا اس کا بھی تعین ہوگیا اور جس انداز میں ہوا اس کی تفصیلات بھی موجود ہیں لیکن جن روایات میں اس کی علت بیان کی گئی ہے اس کے بارے میں ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ بس یہی کہتے ہیں کہ شق قمر دلالت کرتا ہے قرب قیامت پر اور اسی میں ہمارے لئے عبرت ہے کہ ہم چوکنے ہوجائیں۔ جاگیں اور اس کی تیاری کریں اس عظیم گھڑی کی۔ لہٰذا شق قمر ایک کائناتی معجزہ تھا اور قرآن نے انسانوں کو اس کی طرف متوجہ کیا ہے جس طرح قرآن مجید دوسرے تکوینی معجزات کی طرف متوجہ کرتا ہے اور جس طرح دوسرے معجزات کے مقابلے میں ان کا رویہ قابل تعجب ہے۔ اسی طرح اس معجزے سے بھی انہوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔

خارق عادت معجزات ، انسانیت کے ابتدائی دور ہیں۔ بیشک انسانوں کو متاثر کرتے تھے جس دور میں انسانیت نے اس قدر علمی ترقی نہ کی تھی کہ وہ اس کائنات میں قائم اور بکھرے ہوئے معجزات کو سمجھ سکیں اور ان سے متاثر ہوں۔ گزرے ہوئے نبیوں کے ہاتھوں جن معجزات کا صدور ہوا اور انسانیت ان سے متاثر ہوئی تو یہ اس دور کی بات ہے جب انسانیت عقلی بلوغ کے درجے کہ نہ پہنچی تھی لیکن آج اس کائنات میں ایسے ایسے معجزات انسانیت کو معلوم ہوچکے ہیں جو ان معجزات سے بڑے معجزات ہیں۔ اگر چہان لوگوں کو وہ متاثر نہیں کرتے جو وہی ابلدائی احساسات رکھتے ہیں اور جو عقلی بلوغ کے درجے تک نہیں پہنچے۔

فرض کیجئے کہ چاند کا دو ٹکڑے ہونا معجزہ تھا تو چاند بذات خود بھی تو ایک معجزہ ہے۔ یہ سیارہ اپنے اس حجم ، موجودہ وضع ، شکل ، طبیعت ، گردش کی منازل ، دورے ، اس کے آثار ، زمین کی زندگی پر اس کے اثرات اور فضا میں اس کا اس طرح تیرنا بغیر کسی سہارے کے کیا یہ ایک عظیم معجزہ نہیں ہے جو ہر وقت قائم اور دائم اور ہمارے مشاہدے میں ہے اور ہم اس کے بارے میں ہر وقت سوچ سکتے ہیں۔ اس سے اثر لیتے ہیں۔ کیا قدرت الٰہیہ پر اس سے بڑی اور کوئی دلیل چاہئے۔ کون ہے جو نفس چاند کے معجزے سے انکار کرسکتا ہے۔ ماسوائے اس شخص کے جو ہٹ دھرم اور ضدی ہو۔

قرآن نے تو انسان کو اس کائنات کے سامنے کھڑا کردیا اور یہ مشاہدہ کرایا کہ اس کائنات کے اندر عظیم معجزات ہر وقت قائم اور دائم ہیں۔ قرآن انسان کو ان معجزات کے ساتھ دائما جوڑنا چاہتا ہے۔ یہ نہیں کہ شق قمر کی طرح کوئی چیز ہزارہا سال میں ایک بار دکھا دی جائے اور اس کو بھی ایک ہی زمانے کے لوگ دیکھ لیں۔ قرآن کہتا ہے کہ دیکھو اس کائنات کو اگر دیدہ عبرت نگاہ رکھتے ہو۔

یہ پوری کائنات معجزات کا ایک منظر نامہ ہے۔ جو آنکھوں کے سامنے رہتا ہے غائب نہیں ہوتا اور یہ سب معجزے دیکھو اور دیکھتے چلے جاؤ۔ اس میں چھوٹے معجزات بھی ہیں اور بڑے بھی اور یہ معجزات شہادت دے رہے ہیں۔ ان کی شہادت سنو۔ یہ عجیب شہادت ہے اسے ریکارڈ کرو۔ یہ نہایت ہی خوبصورت شہادت ہے اس میں جمال بھی ہے اور کمال بھی ہے اور یہ تو انسان کو نہ صرف یہ کہ فیصلے پر پہنچاتی ہے بلکہ دہشت زدہ اور ششدر کردیتی ہے اور اس کے نتیجے میں بہت ہی پختہ ایمان پیدا ہوتا ہے۔ نہایت گہرا اور سنجیدہ۔

اس سورت کے آغاز میں یہ اشارہ آتا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا ہے جس سے انسان پر گہرا اثر پڑتا ہے کیونکہ قیام قیامت اور چاند کا ٹکڑے ہونا بہت ہی بڑے واقعات ہیں۔ قرآن بتاتا ہے کہ تم نے یہ ایک عظیم حادثہ تو دیکھ ہی لیا ہے اسی طرح قیام قیامت بھی ہوگا۔

شق قمر کے بعد صرف قیامت کے بارے میں امام احمد نے روایت کی ہے حسین سے ، انہوں نے محمد ابن مطوف سے ، انہوں نے ابو حازم سے ، اور انہوں نے حضرت سہیل ابن سعد سے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ” میں اور قیامت اس طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں۔ “ آپ نے درمیان انگلی اور سبابہ کو جوڑ کر اشاہ کیا (متفق علیہ)

باوجود اس حقیقت کہ قیامت کی گھڑی قریب آلگی ہے اور نہایت ہی اثر انگیز واقعہ بھی انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اور مختلف شکلوں میں انہوں نے اللہ کی نشانیاں بھی دیکھ لی ہیں لیکن ان لوگوں کے دلوں میں عناد کوٹ کوٹ بھرا ہوا تھا۔ وہ گمراہی کی راہ پر اصرار کررہے تھے۔ وہ ڈراوے سے متاثر ہوتے تھے اور نہ اس کائنات میں بکھری ہوئی نشانیوں سے متاثر ہوتے تھے جو نصیحت کے لئے کافی ہیں اور انسان کو جھٹلانے سے روک سکتی ہیں لیکن ان لوگوں نے ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔

اردو ترجمہ

مگر اِن لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو چلتا ہوا جادو ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain yaraw ayatan yuAAridoo wayaqooloo sihrun mustamirrun

وان یروا ............ تغن النذر (54:2) ” مگر ان کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ، منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔ انہوں نے جھٹلادیا اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی۔ ہر معاملے کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے۔ ان لوگوں کے سامنے وہ حالات آچکے ہیں جن میں سرکشی سے باز رکھنے کے لئے کافی سامان عبرت ہے اور ایسی حکمت جو نصیحت کے مقصد کو بدرجہ اتم پورا کرتی ہے مگر تنبیہات ان پر کارگر نہیں ہوتیں “

شق قمر کو بھی دیکھ کر انہوں نے اعراض کرلیا اور انہوں نے شق قمر کے بارے میں بھی وہی بات کہی جو قرآن کی آیات کے سارے میں کہتے تھے کہ یہ نہایت ہی موثر جادو ہے۔ ایک نشانی تو وہ کہتے ہیں جادو ہے اور مسلسل نشانیوں کو کہتے ہیں کہ یہ مسلسل جادو ہے جس کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہوتا۔ یہ لوگ نشانات الٰہیہ پر غور کرنے سے منہ موڑ رہے ہیں۔ وہ نشانیوں کی دلالت اور شہادت سے بھی منہ موڑتے ہیں۔ یہ انکار وہ محض خواہش نفس سے مجبور ہوکر کرتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ ان کے پاس کوئی حجت ہے یا اسلام کے حق میں حجت نہیں کہ انہوں نے اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات پر غور کرلیا ہے۔

اردو ترجمہ

اِنہوں نے (اس کو بھی) جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات نفس ہی کی پیروی کی ہر معاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakaththaboo waittabaAAoo ahwaahum wakullu amrin mustaqirrun

وکل امر مستقر (54: 3) ” ہر معاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے “ اس عظیم کائنات میں ہر چیز اپنے مقام پر رکھی ہوتی ہے اور وہ اپنی جگہ پر پختہ ہے۔ نہ ہلتی ہے اور نہ اس کے اندر اضطراب ہے۔ اس کائنات کا ہر معاملہ ثبات وقرار پر مبنی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بدلتی ہوئی خواہشات کے مطابق اصول بھی بدلتے ہیں اور بادشاہوں کی ھنازک مزاجیوں کی طرح اصول اور قوانین بھی بدل جاتے ہیں۔ یوں بھی نہیں ہے کہ یہاں معاملات بخت واتفاق کے مطابق طے ہوتے ہیں۔ ہر چیز اپنی جگہ اور اپنے زمان اور وقت پر رونما ہوتی ہے۔ انسان کو دیکھنا چاہئے کہ اس کے ماحول میں زمان ومکان میں ، واقعات وحادثات میں ایک ترتیب ہے اور یہ ترتیب اور اصول ہر چیز میں نظر آتا ہے۔ آسمانوں کی گردش میں ، زندگی کے طریقوں میں ، حیوانات اور نباتات کے بڑھنے میں ، تمام اشیاء اور مواد میں بلکہ خود ان کے جسم کے وظائف وفرائض میں ان کے اعضا کی کارکردگی میں ایک ترتیب ہے اور ان کو ان چیزوں پر کوئی کنٹرول حاصل نہیں ہے۔ یہ قیامت وقرار ان کو گھیرے ہوئے ہے اور ان کے گرد تمام اشیاء کو بھی اپنے لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اور ان کے آگے اور پیچھے ہر طرف نظر آتا ہے ، صرف یہ انسان ہیں کہ یہ مضطرب ہیں اور اپنی خواہشات کے مطابق کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی ادھر۔

اردو ترجمہ

اِن لوگوں کے سامنے (پچھلی قوموں کے) وہ حالات آ چکے ہیں جن میں سرکشی سے باز رکھنے کے لیے کافی سامان عبرت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad jaahum mina alanbai ma feehi muzdajarun

ولقد ............ مزدجر (54:4) ” ان لوگوں کے سامنے وہ حالات آچکے ہیں جن میں سرکشی سے باز رکھنے کے لئے کافی سامان عبرت ہے۔ “ ان کے پاس اس کائنات کی آیات کے بارے میں قرآن نے کافی خبریں پھیر پھیر کر بیان کی ہیں۔ ان کے پاس اہم سابقہ کے مکذبین کی خبریں بھی آچکی ہیں۔ ان کے پاس مناظر قیامت کی شکل میں آخرت کی خبریں بھی آچکی ہیں۔ ان سب امور میں عبرت آموزی ، رکاوٹ ، خطرے کی علامات موجود ہیں اور ان کے اندر ایسی حکیمانہ باتیں بھی ہیں جو سیدھی دل میں اترنے والی ہیں اور اچھی ہدایات ہیں لیکن جو دل اندھے ہوچکے ہیں وہ آیات کو نہیں دیکھ پاتے اور ان خبروں سے فائدہ نہیں اٹھائے نہ خبروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ ڈراوے سے وہ ڈرتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور ایسی حکمت جو نصیحت کے مقصد کو بدرجہ اتم پورا کرتی ہے مگر تنبیہات اِن پر کارگر نہیں ہوتیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hikmatun balighatun fama tughnee alnnuthuru

حکمة ........ النذر (54:5) ” اور ایسی حکمت جو نصیحت کے مقصد کو بدرجہ اتم پورا کرتی ہے مگر تنبیہات ان پر کارگر نہیں ہوتیں۔ “ ایمان ہی وہ نعمت ہے جس کی وجہ سے قلب انسانی ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

ان کی روگردانی اور کفر پر اصرار کی اس قدر تصویر کشی کرنے کے بعد اور یہ بتا دینے کے بعد کہ یہ خبروں سے بھی مستفید نہیں ہوتے ان کے لئے ڈراوے میں بھی فائدہ نہیں۔ رسول ﷺ کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ آپ بھی ان سے روگردانی کرلیں اور ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ وہ دن جلدی ہی آنے والا ہے شق قمر اس دن کی علامت تھی ، یہ دن بہت قریب ہے۔

اردو ترجمہ

پس اے نبیؐ، اِن سے رخ پھیر لو جس روز پکارنے والا ایک سخت ناگوار چیز کی طرف پکارے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fatawalla AAanhum yawma yadAAu alddaAAi ila shayin nukurin

فتول ............ عسر (54: 8) ” پس اے نبی ان سے رخ پھیر لو ، جس روز پکارنے والا ایک سخت ناگوار چیز کی طرف پکارے گا ، لوگ سہمی ہوئی نگاہوں کے ساتھ انہی قبروں سے اس طرف نکلیں گے گویا وہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں۔ پکارنے والے کی طرف دوڑے جارہے ہوں گے اور وہی منکر بھی اس وقت کہیں گے یہ دن تو بڑا کٹھن ہے۔ “

یہ اس دن کے مناظر میں سے ایک منظر ہے۔ اس کی ہولناک اور اس کی یہ شدت اس سورت کے موضوع ومضامین اور فضا کے مناسب ہے اور قیامت کے قریب آنے کی تمہید کے لئے بھی مناسب ہے پھر اس خبر کے بھی مناسب کہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا اور سورت کے اندر پائے جانے والے ترنم سے بھی ہم آہنگ ہے۔

یہ منظر بہت تیز چلتا ہے اور فضا کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ صاف نظر آنے والا اور حرکت سے بھر پو رجس کی حرکات اور انداز بھی متوازن ہیں۔ لوگ گروہ در گروہ قبروں سے نکل رہے ہیں یوں جس طرح ٹڈی دل بکھر جاتا ہے۔ یہ منظر ٹڈی دل کی نسبت سے اور بھی واضح ہوجاتا ہے۔ یہ گروہ ڈر کے مارے سہمے ہوئے ہے۔ ذلت اور خوف کے مارے نظریں نیچی نیچی ہیں۔ پکارنے والے کی طرف دوڑ رہے ہیں کہ کیا آفت آگئی ہے۔ معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ سخت بےاطمینانی ہے ، انتہائی برے انجام سے دوچار ہونے کے لئے جانے والے بس یہی کہہ سکے۔

ھذا ........ عسر (54: 8) ” یہ تو بڑا کٹھن دن ہے “ اور یہ اس شخص کا قول ہے نہایت کربناک اور تھکے ہوئے شخص کی بات ہے جو گویا سولی پر چڑھنے کے لئے بوجھل قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ ہے وہ دن جو آیا ہی چاہتا ہے لیکن یہ لوگ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ڈراوے سے منہ موڑ رہے ہیں۔ حق کی تکذیب کرتے ہیں۔ اے پیغمبر آپ بھی ان سے منہ موڑ لیں اور چھوڑیں انہیں ان کے انجام کے لئے جو نہایت ہی خوفناک ہے۔

سورت کا آغاز اس قدر خوفناک انداز اور زور دار لہجے میں کرنے کے بعد اور قیامت کا ایک خوفناک منظر پیش کرنے کے بعد اب انسانی تاریخ کے کچھ مناظر دیئے جاتے ہیں۔ جن لوگوں پر اس طرح کی قیامت ٹوٹی جو اوپر کے منظر میں دکھائی گئی۔ یہ اقوام بھی ایسا ہی رویہ اختیار کئے ہوئے تھیں جس طرح اہل مکہ نے اختیار کررکھا ہے۔ آغاز قوم نوح (علیہ السلام) سے

528