سورہ صف (61): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ As-Saff کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الصف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ صف کے بارے میں معلومات

سورہ صف کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اور وہ غالب اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sabbaha lillahi ma fee alssamawati wama fee alardi wahuwa alAAazeezu alhakeemu

اللہ عزیز و حکیم کی تسبیح پوری کائنات کررہی ہے۔ سورت کے آغاز میں یہ بات لاکر اہل ایمان کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ تمہارا دین اس پوری کائنات کا دین ہے۔ اور یہ دین توحید ہے۔ اور تم اس کے امین ہو۔ اور کافرین اور مشرکین کا موقف غلط ہے اور وہ اس دین کی روشنی کو بجھانا چاہتے ہیں۔ اللہ تمہیں دعوت دے رہا ہے کہ اس دین اور اس رسول کی نصرت کرو اور اللہ نے اس دین کا غلبہ مقرر کر رکھا ہے۔ اگرچہ کافر اور مشرک تو اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں ، لیکن اللہ نے فیصلہ کردیا ہے کہ ان کے علی الرغم اسے غالب کرنا چاہتا ہے۔ اس آغاز کا مفہوم یہ ہے کہ یہ پوری کائنات کا دین ہے اور پوری کائنات کی امانت ہے۔ اور جس نظریہ کے لئے تم نے جہاد کرنا ہے وہ پوری کائنات کا نظریہ ہے اور اس دین کا ظہور اور غلبہ دراصل ایک قدرتی امر ہے ، اور اللہ عزیز و حکیم کی منشا اور تقدیر ہے۔

اس کے بعد بعض مومنین کی جانب سے کمزوری کے اظہار پر عتاب کیا جاتا ہے ، کہ دین کے معاملے میں جہاد سے جو شخص منہ موڑے گا ، اسے اللہ بہت ہی ناپسند کرتا ہے اور اسے قابل شرم قرار دیتا ہے ، خصوصاً ان لوگوں کی جانب سے جو ایمان لائے ہیں جب کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کو اللہ بہت پسند کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo lima taqooloona ma la tafAAaloona

یایھا الذین ................ مرصوص (4) (16 : 2 تا 4) ”” اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے ، اور وہ غالب اور حکیم ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔

علی ابن طلحہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگ ایسے تھے کہ فرضیت جہاد سے پہلے کہتے تھے کہ اللہ ہمیں کوئی ایسا عمل بتادے ، جو اسے بہت ہی محبوب ہو ، ہم اس پر عمل کریں۔ اللہ نے نبی ﷺ کو یہ اطلاع دی کہ اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل تو بیشک ایمان لانا ہے لیکن اس کے بعدان لوگوں کے خلاف جہاد کرنا اللہ کو محبوب ہے جو ایمان نہیں لاتے اور اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور ایمان کا اقرار نہیں کرتے۔ جب جہاد کا یہ حکم نازل ہوا تو بعض مسلمانوں نے اسے پسند نہ کیا اور اسے انہوں نے ایک بھاری حکم سمجھا .

تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

یایھا الذین .................... تفعلون (3) (16 : 2۔ 3) ”” اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے ، اور وہ غالب اور حکیم ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو “۔ امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس قول کو اختیار کیا ہے۔

لیکن امام ابن کثیر نے کہا : جمہور نے کہا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں نے یہ تمنا کی کہ جہاد فرض ہوجائے ، جب جہاد فرض ہوگیا تو بعض لوگوں نے اسے پسند نہ کیا اور دوسری جگہ بھی اس کے بارے میں آیا ہے۔

الم ترالی ................................ مشیدة (87) (4 : 77۔ 87) ” تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو ، اور زکوٰة دو ، اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسے ڈر رہے ہیں جیسا کہ خدا سے ڈرنا چاہئے ، یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر ، کہتے ہیں خدایا ، یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی ؟ ان سے کہو ، دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا۔ رہی موت تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی ، خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو “۔

قتادہ اور ضحاک نے کہا کہ یہ ان لوگوں کی سرزنش کے لئے نازل ہوئی ہے جو کہتے تھے کہ ہم نے قتل کیا ، تیرمارا ، تلوار چلائی ، اور یہ یہ کیا اور دراصل انہوں نے ایسا نہ کیا تھا۔

آیت کے سیاق کلام اور اس میں قتال کے ذکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمہور مفسرین کی بات درست ہے۔ یہی رائے ابن جریر نے بھی اختیار کی ہے۔ لیکن قرآنی آیات کا مفہوم بالعموم شان نزول کے واقعات سے وسیع ہوتا ہے ۔ بلکہ بہت وسیع ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے ہم عمومی مفہوم لیتے ہیں۔ خصوصی واقعہ نزول کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ہاں جس واقعہ میں آیت نازل ہوئی اس کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے .... آغاز یوں ہوتا ہے کہ کسی واقعہ یا واقعات پر عتاب ہے۔

یا یھا الذین ................ تفعلون (16 : 2) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں “۔ اور اس کی انتہا اس پر ہوتی ہے کہ اللہ کے نزدیک یہ فعل بہت ہی برا ہے۔

اردو ترجمہ

اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kabura maqtan AAinda Allahi an taqooloo ma la tafAAaloona

کبر مقتا .................... تفعلون (16 : 2) ” اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں “۔

القت وہ ناپسندیدہ بات جو اللہ کے نزدیک بہت ہی ناپسندیدہ ہے۔ وہ اس کو بہت برا سمجھتا ہے اور یہ اللہ کہتا ہے جو تمہارا رب ہے۔

اور تیسری آیت میں وہ بات واضح طور پر بتادی جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہم کریں گے مگر پھر بھی انہوں نے اس سلسلے میں کوتاہی کی۔ اور وہ ہے جہاد و قتال۔ اور قرار دیا جاتا ہے کہ جو لوگ صف بستہ قتال کرتے ہیں وہ بہت ہی محبوب لوگ ہیں۔

اردو ترجمہ

اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna Allaha yuhibbu allatheena yuqatiloona fee sabeelihi saffan kaannahum bunyanun marsoosun

ان اللہ .................... مرصوص (16 : 4) ” اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔ صرف قتال ہی نہیں ، بلکہ قتال اللہ کی راہ میں ہو ، اور یہ قتال منظم ہو ، سوسائٹی کی صفوں کے اندر تنظیم کے بعدہو اور یہ قتال ہو بھی نہایت ہی جم کر لڑنے کی صورت میں۔

جیسا کہ ہم نے اس پارے کی متعدد سورتوں میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ قرآن کریم کے پیش نظر یہ بات تھی کہ ایک ایسی امت کی تعمیر کی جائے جو اس زمین پر قرآن کی امانت کی حامل ہو۔ قرانی منہاج زندگی قائم کرنا اس کی منشا ہو ، اور قرآنی شریعت کو ایک مکمل نظام کی شکل میں پیش کرے۔ اس مقصد کے لئے ایک جماعت اور ایک سوسائٹی بنانا ضروری تھا۔ اور اسی جماعت کو ایک عملی جماعت بنانا ضروری تھا ، اور یہ سب کام ایک ساتھ کرنے ضروری تھے۔ یاد رہے کہ اسلامی نظام کا مزاج یہ ہے کہ اس میں فرد کی قیمت جماعت میں ہے ، تنہا کچھ نہیں۔ اسلام اپنے وجود کو ایک باہم مربوط اور منظم جماعت کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے ، جس کا ایک نظام ہو ، جس کا ایک ہدف ہو ، اور اس ہدف کے ارد گرد اس کے تمام افراد گھومتے ہوں۔ یوں کہ یہ نظام ہر ایک کے ضمیر میں ، ہر ایک کے عمل میں ، پھر اس کرہارض پر کسی امت کی عملی شکل میں نافذ ہو اور زمین کے ابوپر اس عملی سوسائٹی کی شکل میں ، ایک ایسی سوسائٹی ایک ، ایسی امت جو عملاً متحرک ہو اور اپنے تمام کام اس نظام کے حدود اور فریم ورک میں کرتی ہو۔

اسلام ، اگرچہ فرد کی اصلاح اور ایک فرد کی نیت کی اصلاح اور ضمیر کی اصلاح پر بہت زور دیتا ہے اور انفرادی ذمہ داری کا اصول بھی اسلام ہی نے عطا کیا ہے ، لیکن اسلام افراد کا دین نہیں ہے ، کہ ایک ایک عبادت خانے میں جاکر اپنی اپنی عبادت کرے۔ اس طرح اسلام کسی ایک فرد کی ذات میں حقیقت نہیں بن سکتا ، نہ کسی ایک منفرد شخص کی ذات میں بھی حقیقت نہیں بن سکتا۔ نہ اسلام اس صورت میں آیا ہے کہ وہ ایک شخص کی زندگی میں گوشہ نشین ہوکر رہے ، بلکہ اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کی زندگی پر حکمران ہو ، زندگی کے اندر تصرف کرے ، اس پر کنٹرول کرے ، اور لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اور سرگرمیوں پر حاوی ہو۔ اس لئے کہ انسان انفرادی طور پر زندہ نہیں رہتے بلکہ اجتماعی طور پر زندہ رہتے ہیں اور اسلام چونکہ انسانوں پر حکمرانی کے لئے آیا ہے اس لئے وہ ایک اجتماعی نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے آداب ، اس کے قواعد ، اس کے ارادے ، یہاں تک کہ اس کی عبادات بھی اجتماعی ہیں۔ اگر اسلام کا کوئی حکم کسی فرد کے لئے ہے تو بھی وہ ایک ایسے انسان کے لئے ہے جو سوشل ہے اور ایک جماعت کے اندررہتا ہے ، اس میں اٹھتا بیٹھتا ہے اور اس جماعت میں اپنے دین کا امین ہے ، ایک نظام کا حامل ہے ، اور اس کا فرض ہے کہ اس نظام کو لوگوں کے اندر نافذ کرے۔

جب سے نبی ﷺ نے دعوت کا آغاز کیا ، اسلامی معاشرہ قائم ہونا شروع ہوگیا۔ اسلامی جماعت کی تشکیل شروع ہوگئی اور رسول اللہ ﷺ اس جماعت کے قائد قرار پائے۔ یہ جماعت ایسی تھی جس کی جماعتی ذمہ داریاں تھیں ، جو اپنے ماحول سے بالکل ممتاز تھی۔ اس کو ایسے آداب سکھائے جاتے تھے کہ ان کا ایک سرا اگر ایک فرد انسان کے ضمیر میں ہوتا تھا تو دوسرا سرایک جماعت سے متعلق ہوتا تھا اور یہ اسلامی اجتماعی سوسائٹی اس وقت بھی تھی جب ابھی مدینہ میں اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی بلکہ مدینہ کی اسلامی حکومت قائم بھی مکہ کی اسلامی جماعت کے ذریعہ سے ہوئی تھی۔

ہم جب ان آیات پر غور کرتے ہیں تو دینی عقائد کے اوپر جو اخلاقی نظام ان میں استوار کیا جاتا ہے وہ ایک اجتماعی ضرورت بھی ہے اور یہ اخلاق ایک اجتماعی نظام ہی کی شکل میں ظاہر ہوسکے ہیں اور یہ نظام ایسا ہے کہ اسے نافذ کرنے کے لئے ایک انتظامیہ کی ضرورت ہے۔

پہلی دو آیات میں اس بات پر گرفت کی گئی ہے کہ یہ بات ایک مسلمان اور مومن کی شایان شان نہیں ہے کہ وہ ایک بات کہے اور پھر اس پر عمل نہ کرے۔ یہ ایک مسلمان اور مومن کی شخصیت کی بنیادی صفت ہے۔ سچائی اور استقامت اور راست بازی۔ اس کا باطن اور ظاہر ایک ہو۔ اس کا قول اور فعل یکساں ہوں اور یہ بات صرف مسئلہ جہاد تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک مومن کو ہر معاملے میں ایسا ہونا چاہئے۔

یہ کہ مسلم کا ظاہر و باطن ایک ہونا چاہئے اور قول وفعل یکساں ہونا چاہئے۔ ایک ایسی بات ہے جس پر قرآن نے بہت ہی تاکید کی ہے اور اس مضمون کو بار بار بیان کیا ہے۔ یہودیوں کے بارے میں کہا گیا۔

اتامرون ........................ تعقلون (2 : 44) ” تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔ کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے “۔ اور منافقین پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے :

ومن الناس ............................ الفساد (502) (2 : 402) ” انسانوں میں سے کوئی تو ایسا ہے جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بھلی معلوم ہوتی ہیں اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خدا کو گواہ ٹھہراتا ہے ، مگر حقیقت میں وہ بدترین دشمن حق ہوتا ہے۔ جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے ، تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دوپ اس لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے ، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے۔ حالانکہ اللہ فساد کو ہر گز پسند نہیں کرتا “۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” منافق کی علامتیں تین ہیں ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ، اور جب اس پر امانت کا اعتماد کیا جائے تو خیانت کرے “۔ (متفق علیہ)

اس مضمون کی احادیث بہت ہیں ، آگے جو حدیث ہم ذکر کررہے ہیں ، وہ اس سلسلے میں شدید ترین اور سخت ترین ہدایت ہے۔ امام احمد نے عبداللہ ابن عامر ابن ربیعہ سے روایت کی۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر آئے۔ اس وقت میں بچہ تھا۔ میں گھر سے باہر جانے لگا کہ کھیلوں۔ میری ماں نے مجھے کہا عبداللہ ! ادھر آؤ میں تمہیں کچھ دیتی ہوں۔ میری ماں سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے ؟ تو اس نے کہا کھجور کا دانہ۔ تو حضور نے فرمایا : اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہارے خلاف ایک جھوٹ لکھ دیا جائے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ امام احمد ابن عقیل سفر کرکے ایک شخص کے پاس ایک حدیث نقل کرنے لگے اور یہ سفر کافی طویل تھا تو آپ نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ تھیلی پکڑے ہوئے ہے اور اپنے خچر کو یہ باور کر ارہا ہے کہ اس میں خوراک ہے ، حالانکہ وہ خالی تھی تو امام احمد نے اس شخص سے روایت کرنا مناسب نہ سمجھا ، کیونکہ اس نے اپنے خچر کے ساتھ جھوٹ بولا۔

یہ تھی اسلام کی اخلاقی تعمیر ۔ اور یہ تھا ایک مسلمان کے لئے اخلاقی معیار۔ اور یہ تھے وہ لوگ جن کو اسلامی نظام حیات کا امین بنایا گیا تھا۔ یہی معیار ہے جسے قائم کرنا اس سورت کا مقصد و محور ہے اور یہ اسلامی جماعت کی تربیت کا ایک اہم نکتہ ہے جسے اللہ اسلامی منہاج کو درست کرنے کے لئے اٹھاتا ہے۔

جب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں جو اس سورت کا محور اور موضوع ہے یعنی جہاد فی سبیل اللہ۔ تو اس سے پہلے ہم کئی موضوعات اپنے سامنے پاتے ہیں تاکہ ہم ان پر غور کریں اور اس سے عبرت لیں۔

سب سے پہلے تو ہمارے سامنے حضرت انسان کا نفس آتا ہے اور اس نفس پر ضعف کے لمحات آتے ہیں۔ صرف اللہ ہی اسے اس ضعف سے بچا سکتا ہے اور دائمی یاد دہانی اور دائمی تربیت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ نہایت ہی ابتدائی مہاجرین میں سے کچھ لوگ تھے جن کی خواہش تھی کہ ان کو قتال کی اجازت دی جائے۔ یہ لوگ اہل مکہ میں تھے اور ان کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ مکہ ہی میں لڑنا چاہتے تھے لیکن اس وقت ان کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہاتھوں کو روکے رکھیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں۔ لیکن جب ان پر جہاد فرض کیا گیا اور وہ بھی مدینہ میں اور مناب وقت پر ، تو ان میں سے بعض لوگ ایسے تھے کہ وہ لوگوں سے ایسے ڈرنے لگے جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہئے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ڈرنے لگے۔ اور انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ۔

وقالوا ................ اجل قریب (4 : 77) ” اے اللہ تونے ہم پر قتال کیوں فرض کردیا۔ ذرا اور ہمیں مہلت دی ہوتی “۔ یا یہ مدینہ ہی کی ایک جماعت تھی اور محبوب ترین اعمال کے بارے میں پوچھتی تھی اور جب بتایا گیا کہ محبوب ترین عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے تو انہوں نے اس کو ناپسند کیا۔

یہی ایک واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کہ نفس انسانی بہت کمزور ہے اور اسے رات دن مسلسل تربیت وتذیکر اور یاد دہانی کی ضرورت ہے۔ خصوصاً جکبہ اس کو مشکل ترین ٹارگٹ دیا جارہا ہو۔ یہ تربیت اس لئے ضروری ہے کہ یہ اپنی راہ پر درست چلتی رہے ، اپنی کمزوریوں پر قابو پائے اور دور افق بلند پر اس کی نظریں ہوں۔ نیز اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کبھی بھی کوئی مشکل ٹارگٹ لینے کے لئے ایک مسلم کو بےتاب نہیں ہونا چاہئے۔ جبکہ چاہت دین ہو تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اگر ہم اللہ کے سامنے تجاویز پیش کریں اور اللہ وہ حالات پیش کردے تو شاید ہم ثابت قدم نہ رہ سکیں۔ دیکھئے یہ مسلمانوں کی پہلی جماعت ہے اور اس میں بھی ایسے لوگ ہیں جن پر گرفت ہورہی ہے کہ کیوں تم ایسی باتیں کرتے ہو جن پر عمل نہیں کرتے۔ یہ سخت عتاب ہے اور خوفناک گرفت ہے۔

دوسری بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے ، جو اس کی راہ میں لڑتے ہیں ، اس طرح جس طرح وہ بنیان مرصوص ہیں۔ اللہ اپنے راستے میں لڑنے کے لئے کس قدر زور دار انداز سے مسلمانوں کو آمادہ کرتا ہے لیکن ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ یہ تاکید بعض لوگوں کی اس نفسیاتی حالت کو دور کرنے کے لئے کہی گئی جو جنگ کو پسند نہ کرتے تھے اور اسے اور موخر کرنا چاہتے تھے۔ اور جنگ سے پسپائی اختیار کررہے تھے۔ اس لئے یہاں ان کو سختی سے آمادہ کیا گیا۔ لیکن اس مخصوص سبب نزول کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ آیت مخصوص حالات کے لئے ہے بلکہ اسلام کی یہ عام پالیسی ہے کہ لوگوں کو بروقت جنگی حالات کے لئے آمادہ رکھا جائے۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ اسلام خواہ مخواہ جنگی جنون پیدا کرنا نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ جنگ کو ایک محبوب چیز سمجھتا ہے۔ اسلام جنگ کو اس لئے فرض قرار دیتا ہے کہ حالات اسے مجبور کردیتے ہیں۔ پھر اسلام جن مقاصد کے لئے جنگ کرتا ہے وہ بلند مقاصد ہیں۔ اسلامی جنگ اس لئے ہوتی ہے کہ اسلامی ممالک کے اندر اللہ کے آخری منہاج زندگی کو نافذ اور قائم کیا جائے۔ یہ اسلامی منہاج زندگی اگرچہ ایک فطری منہاج ہے لیکن اسلام انسانی نفوس پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس منہاج کے معیار تک بلند کریں تاکہ اس اعلیٰ معیار پر یہ نظام قائم رہ سکے۔ لیکن یہ بھی ایک عملی حقیقت ہے کہ ہمیشہ اس کرہ ارض پر ایسی قوتیں رہی ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی اس دنیا میں قدم نہ جماسکے۔ اس لئے کہ دنیا کے جس قدر غیر اسلامی نظام ہیں ان کے کچھ مفادات وامتیازات ہوتے ہیں ، یہ نظام بعض کھوٹی اور جھوٹی قدروں پر قائم ہوتے ہیں ، جب بھی دنیا میں اسلامی نظام قائم ہوا ہے ایسی قوتوں کے مفادات ختم ہوگئے ہیں۔ یہ باطل نظامہائے زندگی انسانی نفوس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور انسانوں کو انسانی سطح سے نیچے گر اکر اور ان کے اندر اخلاقی بگاڑ پیدا کرکے ، اور ان کو حقیقت سے جاہل رکھ کر اسلامی نظام کی مخالفت میں لاکرکھڑا کردیتے ہیں۔ اور یوں عوام الناس اپنی جہالت کی وجہ سے اسلام کی راہ روکنے لگتے ہیں۔ شرکا زور ہوتا ہے اور باطل پھولا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اور شیطان کی چالیں بہت گہری ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حاملین ایمان اور اسلامی منہاج حیات کے محافظین اور پاسداروں کے لئے اعلیٰ اخلاقی معیار تجویز کرتا ہے تاکہ وہ شر اور شیطان کے ایجنٹوں کا اچھی طرح مقابلہ کرسکیں۔ ان کی اخلاقی حالت مضبوط ہو ، وہ دشمنوں کے خلاف لڑسکیں۔ اور وہ ہر وقت ایسی جنگ کے لئے تیار ہوں جو ان پر اسلام کے دشمن مسلط کردیں۔ یہی ایک ضمانت ہے جس کی وجہ سے دعوت اسلامی کی راہ نہیں رکتی۔ جس کے ذریعہ سے اسلامی نظام قائم رہتا ہے۔ لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی ملتی ہے۔ اور وہ اپنی مرضی کا نظام قائم کرسکتے ہیں۔

پھر یہ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد و قتال کرتے ہیں نہ اپنی ذات کے لئے لڑتے ہیں اور نہ ہی کسی رنگ کی عصبیت کے لئے لڑتے ہیں۔ نہ نسلی ، نہ لسانی ، نہ علاقائی اور نہ خاندانی عصبیت کے لئے۔ صرف اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ اس لئے لڑتے ہیں کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” وہ جو صرف اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو وہ اللہ کے راستے میں لڑتا ہے “۔

کلمة اللہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے احکام ومقاصد کے لئے اور اللہ کا ارادہ بھی یہی ہے کہ جس طرح یہ پوری کائنات اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور اللہ کے قانون قدرت کے مطابق چلتی ہے اسی طرح انسان بھی اللہ کے بھیجے ہوئے آخری اور مکمل نظام زندگی اور شریعت الٰہیہ کے مطابق چلے۔ اور یوں یہ پوری کائنات اور اس کے اندر پائے جانے والے سب انسان اللہ کے قانون کے مطابق چلیں۔ اور اللہ کے سوا کسی کا قانون اور شریعت نہ چلے۔

یہ ضروری تھا کہ بعض افراد نظام شریعت کی راہ روکیں ، بعض طبقات اسلامی نظام کو قائم ہونے نہ دیں۔ بعض حکومتیں اسے اپنے لئے خطرہ سمجھیں اور اس کے سوا بھی چارہ نہ تھا کہ اسلام ان رکاوٹوں کو عبور کرے اور ان کا مقابلہ کرے۔ اور یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں پر جہاد و قتال فرض کیا گیا تاکہ اسلامی نظام کو قائم کیا جاسکے اور اسے قائم رکھا جاسکے۔ اور زمین کے اوپر اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ ان لوگوں کو محبوب سمجھتا ہے ، جو اس کے راستے میں صف بندی سے لڑتے ہیں ، گویا وہ بنیان مرصوص ہیں۔

یہ ہے وہ حالت جس پر ہمیں بہت زیادہ غور کرنا چاہئے۔

الذین ........................ مرصوص (16 : 4) ” جو اللہ کی راہ میں صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔ اگر مجاہدین اس حالت میں نہ ہوں تو شاید محبوب نہ ہوں۔ یہ ہر قرد کو بھی حکم ہے اور اجتماعی لحاظ سے بھی حکم ہے۔ یعنی ان کو اس طرح ہونا چاہئے کہ ان کی ایک مضبوط نظام والی جماعت ہو۔ اس لئے کہ جو قوتیں اسلام کی راہ میں روکتی ہیں وہ جماعتی اور اجتماعی قوت کی شکل میں ہوتی ہیں۔ اور اس کے خلاف پوری قوتوں کو جمع کرتی ہیں۔ لہٰذا اسلامی قوتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں جمع کر نکلیں اور ملت واحد کی شکل میں آئیں۔ ایک پختہ دیوار کی شکل میں اور نہایت ہی منظم شکل میں نکلیں۔ ہم آہنگی سے نکلیں۔ لہٰذا یہ صورت کہ ایک انسان اکیلا اللہ کی بندگی کرے ، اکیلا جہاد کرے ، اکیلا زندگی بسر کرے ، یہ ایسی صورت ہے ، جو اس دین کے مزاج ہی کے خلاف ہے ، حالت جہاد کے جو تقاضے ہوتے ہیں ان کے خلاف ہے اور اس کے بعد پوری زندگی کو کنٹرول کرنے کی جو صورت ہوتی ہے ، اس کے خلاف ہے۔

یہ تصویر جو مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ یہاں پیش فرماتا ہے یہ دراصل مسلمانوں کے دین کی تصویر ہے۔ یہ تصویر دکھاتی ہے کہ مسلمانوں کے نشانات راہ کیا ہیں اور قرآن کریم ان کے لئے اجتماعی نظام کفالت وحمایت کس طرح تجویز کرتا ہے۔

صفا ................ مرصوص (16 : 4) ” ایک صف کی شکل میں ، گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔ ایک ایسی دیوار جس کی اینٹیں ملی ہوئی ہیں ، باہم پیوست ہیں اور ہر اینٹ اپنا فریضہ ادا کررہی ہے اور ہر اینٹ اپنے مقام پر کھڑی ہے اور اپنا فریضہ ادا کررہی ہے۔ اگر ایک اینٹ بھی نکال لی جائے تو پوری عمارت گر سکتی ہے۔ اسی طرح اگر اینٹ آگے ہوجائے ، پیچھے ہوجائے یا اوپر والی اینٹ نیچے والی اینٹ سے جدا ہوجائے تو دیوار میں سوراخ ہوسکتا ہے۔ یہ سب باتیں جماعت کے افراد کے باہمی ربط کو متعین کری ہیں۔ جو ایک ہی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یعنی وہ شعوری طور پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں ، فکر ونظر میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہمقدم ہوں ، نظام میں بھی منظم ہوں جس طرح تسبیح کے دانے اور ہدف بھی ایک ہو۔

اردو ترجمہ

اور یاد کرو موسیٰؑ کی وہ بات جو اس نے اپنی قوم سے کہی تھی "اے میری قوم کے لوگو، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں؟" پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیے، اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala moosa liqawmihi ya qawmi lima tuthoonanee waqad taAAlamoona annee rasoolu Allahi ilaykum falamma zaghoo azagha Allahu quloobahum waAllahu la yahdee alqawma alfasiqeena

اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ اسلامی انقلاب کا منہاج تمام دعوتوں میں ایک ہی رہا ہے۔ آدم (علیہ السلام) سے ادھر :

بنی اسرائیل کا حضرت موسیٰ کو ایذا دینا ، جبکہ آپ ان کو اور اس ملت کو فرعون کے مظالم سے چھڑانے والے تھے ، آپ ان کے رسول اور قائد تھے اور معلم تھے ، ایک ایسی داستان کی طرف اشارہ ہے جو مسلسل ان کو دی جانے والی ایذا پر مشتمل ہے۔ آپ نے اس قوم کو درست کرنے کے لئے جو مشقتیں اٹھائیں اور دشوار گزار مراحل سے گزرے ، وہ انتھک جدوجہد ہے۔ اور قرآن کریم نے اس کی خوب تفصیلات دی ہیں ، جن کو پڑھ کر ایک شخص تسلیم کرلیتا ہے کہ یہ ان تھک جدوجہد تھی اور آپ اولوالعزم رسولوں میں سے تھے۔

ان کی حالت یہ تھی یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کو ذلت سے نجات دینے کی جدوجہد کررہے تھے اور فرعون کی گرفت اور جباری وقہاری کا مقابلہ کررہے تھے لیکن یہ لوگ اس ذات میں بھی امن وچین سے رہنا پسند نہیں کرتے تھے ، اس حالت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تنقید کرتے تھے۔ وہ اس ان تھک جدوجہد پر یہ تبصرہ کرتے تھے۔

اوذینا ........................ ماجئتنا (7 : 921) ” ہمیں اذیت دی گئی قبل اس کے کہ آپ ہمارے پاس آئیں اور اس کے بعد بھی جب کہ آپ آگئے “۔ گویا وہ آپ کی رسالت میں اپنے لئے کوئی خیر نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ وہ اپنی اذیت کی وجہ اس رسالت کو سمجھتے تھے۔

لیکن جونہی اللہ نے فرعون کو غرق کیا اور بنی اسرائیل کو نجات دی اور یہ سب منظر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ، نجات پاتے ہی انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت توحید کو ترک کرنے کا ارادہ کرلیا اور قوم فرعون کی طرح ، شرک کرنے کا ارادہ کیا۔

فاتوا .................... الھة ” پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے ” اے موسیٰ ہمارے لئے بھی کوئی ایسا معبود بنادے جیسے ان کے لئے معبود ہیں “۔

اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کی ملاقات کے لئے پہاڑ پر گئے جہاں سے انہیں تورات کی تختیاں دی گئیں ، ان کے جاتے ہی سامری نے انہیں گمراہ کردیا۔

فاخرج .................... فنسی (06 : 88) ” اور ان کے لئے سامری نے ایک بچھڑے کی مورت بناکر نکال لایا جس سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی ۔ لوگ پکاراٹھے یہی ہے تمہارا خدا اور موسیٰ کا خدا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اسے بھول گیا “۔

پھر انہوں نے اس طعام پر اعتراضات شروع کردیئے جو انہیں صحرا میں من اور سلویٰ کی شکل میں ملتا تھا اور کہا۔

یموسیٰ.................... وبصلھا (2 : 16) ” اے موسیٰ﴿﴿﴿ہم ایک ہی کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ اپنے رب سے دعا کر کہ ہمارے لئے زمین کی پیداوار ساگ ، ترکاری ، گیہوں ، لہسن پیاز اور دال وغیرہ پیدا کرے “۔

اس کے بعد جب ان کو گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو وبہانہ سازی اور گستاخی کرنے لگے۔ یہ گستاخی نبی کے حق میں بھی تھی اور رب تعالیٰ کے حق میں بھی۔ کہنے لگے : اپنے رب کو پکارو کہ وہ کیسی ہو ، اس کا رنگ کیسا ہو۔

فذبحوھا .................... یفعلون (2 : 17) ” پھر انہوں نے اسے ذبح کیا ورنہ وہ ایسا کرتے نہ معلوم ہوتے تھے “۔

اس کے بعد انہوں نے سبت کو بطور یومتعطیل خود مطالبہ کیا اور پھر اس کی خلاف ورزی کی۔ پھر ان کو حکم دیا گیا کہ اس مقدس سر زمین میں داخل ہوجاﺅ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے۔ تو انہوں نے ذلیل و خوار ہوکر ارض مقدس میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔

قالوا یموسیٰ.................... دخلون (5 : 22) ” انہوں نے کہا اے موسیٰ وہاں تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں۔ ہم وہاں ہرگز نہ جائیں گے ، جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ، ہاں اگر وہ نکل گئے تو ہم داخل ہونے کے لئے تیار ہیں اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اصرار کیا تو ان کا جواب یہ تھا :

قالو ................ قعدون (5 : 22) ” اے موسیٰ ! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے ، جب تک وہ وہاں موجود ہیں۔ بس تم اور تمہارا رب دونوں جاﺅ اور لڑو۔ ہم یہیں بیٹھے ہیں “۔

اس کے علاوہ بار بار کی نافرمانیوں ، سوالات سے ، سرکشی اور ذاتی تہمتوں کے ذریعہ ان لوگوں نے بار بار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اذیت دی۔ جن کی تفصیلات احادیث میں آتی ہیں۔

یہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قول نقل کرتا ہے جو محبت بھرے لہجے میں ان سے ایک گلہ ہے۔

یقوم لم ................ الیکم (16 : 5) ” اے میری قوم کے لوگو ، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں “۔ اور ان کو اس بارے میں شک نہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں۔ لیکن ان کی یہ بات گلہ ہے جس میں عتاب بھی ہے اور نصیحت بھی ہے۔

لیکن جب انہوں نے اصلاح و استقامت کی تمام کوششوں کو نظر انداز کردیا تو اللہ نے ان کے دلوں کو مزید ٹیڑھا کردیا۔ اور ان کے یہ دل ہدایت کے لئے قابل ہی نہ رہے۔ یہ گمراہ ہوگئے اور اللہ نے بھی ان کے لئے ضلالت لکھ دی۔

واللہ ............ الفسقین (16 : 5) ” اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا “۔ یوں دین پر ان کی استقامت ختم ہوگئی اور ان سے محافظین دین کا منصب چلا گیا اور وہ اسی طرح ٹیڑھی راہ اور گمراہی پر رہے۔

551