اس صفحہ میں سورہ Al-Alaq کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ العلق کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 4{ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ } ”جس نے تعلیم دی ہے قلم کے ساتھ۔“ گویا عام انسانی تعلیم کا ذریعہ قلم ہے ‘ جبکہ حضور ﷺ کی تعلیم کے لیے فرشتہ مقرر ہوا۔
آیت 5{ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ۔ } ”اور انسان کو وہ کچھ سکھایا ہے جو وہ نہیں جانتا تھا۔“ پہلی وحی ان پانچ آیات پر مشتمل تھی۔ اس وحی میں حضور ﷺ کو تبلیغ و انذار سے متعلق کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ البتہ اس وحی کی خاص اہمیت یہ ہے کہ اس سے آپ ﷺ کی نبوت کا ظہور ہوا ہر نبی اگرچہ پیدائشی طور پر ہی نبی ہوتا ہے لیکن اس کی نبوت کا باقاعدہ ظہور پہلی وحی کے وقت ہوتا ہے۔ تبلیغ کا باقاعدہ حکم آپ ﷺ کو سورة المدثر کی ان آیات میں دیا گیا : { یٰٓــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ - قُمْ فَاَنْذِرْ - وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ } کہ اے لحاف میں لپٹ کرلیٹنے والے ﷺ کھڑے ہو جائو اور اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کرو۔ یعنی اے نبی ﷺ اب آپ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے جدوجہد شروع کردیجیے۔ سورة العلق اور سورة المدثر کے مابین اس لحاظ سے گہری مشابہت پائی جاتی ہے کہ سورة المدثر کی طرح یہ سورت بھی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پھر جس طرح سورة المدثر کی پہلی سات آیات میں حضور ﷺ سے خطاب کے بعد تین آیات میں قیامت کا ذکر آیا ہے ‘ بالکل اسی طرح اس سورت میں بھی پہلی پانچ آیات میں حضور ﷺ سے خطاب ہے اور اس کے بعد درج ذیل تین آیات میں آخرت کا فلسفہ بیان ہوا ہے۔
آیت 6{ کَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓی۔ } ”کوئی نہیں ! انسان سرکشی پر آمادہ ہو ہی جاتا ہے۔“ انسان سرکشی اور ظلم و زیادتی پر کیوں اتر آتا ہے ؟ اس کی وجہ اگلی آیت میں بتائی گئی :
آیت 7{ اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی۔ } ”اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو مستغنی دیکھتا ہے۔“ وہ دیکھتا ہے کہ اس پر کوئی پکڑ نہیں۔ دنیا میں نہ تو ظالم کو اس کے ظلم کی قرار واقعی سزا ملتی ہے اور نہ ہی مظلوم کی کماحقہ داد رسی ہوتی ہے۔ چناچہ وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس دنیاکا نظام محض طبعی قوانین و ضوابط physical laws کے مطابق چل رہا ہے اور یہ کہ یہاں اخلاقی قوانین moral laws کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انسان کی روز مرہ زندگی کا تجربہ بھی اسے یہی بتاتا ہے کہ زہر کھانے سے تو آدمی ہلاک ہوجاتا ہے لیکن حرام کھانے سے اسے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ چناچہ جب معاشرے کے عام آدمی کو نیکی ‘ انصاف ‘ دیانت داری جیسے الفاظ عملی طور پر بےمعنی اور بےوقعت نظرآتے ہیں تو وہ سرکشی اور َمن مرضی کے راستے پر چل نکلتا ہے۔ اب اگلی آیت میں انسان کی اس سرکشی اور بغاوت کا علاج بتایا جا رہا ہے۔ اس کا علاج اس یاد دہانی میں ہے کہ :
آیت 8{ اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی۔ } ”یقینا تجھے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“ گویا انسان کو راہ راست پر رکھنے کا جو موثر ترین علاج ہے وہ ہے عقیدئہ آخرت پر پختہ یقین۔ یعنی یہ یقین کہ ایک دن اسے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے اور وہ عدالت بھی ایسی ہے جہاں ذرّہ برابر بھی کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکے گی : { فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ - وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ۔ } الزلزال ”جس کسی نے ذرّے کے ہم وزن نیکی کمائی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس کسی نے ذرّے کے ہم وزن برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا“۔ گویا یہ عقیدئہ آخرت پر پختہ یقین اور قیامت کے دن کی پیشی کا خوف ہی ہے جو انسان کے اندر خود احتسابی کا احساس اجاگر کرتا ہے۔ یہی یقین اور خوف اسے خلوت و جلوت میں ‘ اندھیرے اجالے میں اور ہر جگہ ‘ ہر حال میں غلط روی اور ظلم وتعدی کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔ ورنہ انسان کی سرشت ایسی ہے کہ جس مفاد تک اس کا ہاتھ پہنچتا ہو اسے سمیٹنے کے لیے وہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی حدود کی پروا نہیں کرتا۔ اب اگلی آیت سے اس سورت کا تیسرا حصہ شروع ہو رہا ہے۔ سورة المدثر کے ساتھ اس سورت کے مضامین کی مشابہت کا انداز ملاحظہ ہو کہ سورة المدثر کے تیسرے حصے میں ولید بن مغیرہ کے کردار کی جھلک دکھائی گئی ہے ‘ جبکہ یہاں اس کے مقابل ابوجہل کے طرزعمل کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔
آیت 10{ عَبْدًا اِذَا صَلّٰی۔ } ”ہمارے ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔“ یہ اشارہ ہے ابوجہل کی ان جسارت آمیز حرکات کی طرف جو وہ حضور ﷺ کو نماز سے روکنے کے لیے کیا کرتا تھا۔ مثلاً ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل نے آپ ﷺ کو دیکھا تو اونٹ کی اوجھڑی منگوا کر عین سجدے کی حالت میں آپ ﷺ کی پشت مبارک پر رکھوا دی۔ حضرت فاطمہ رض ابھی بچی تھیں ‘ ان کو پتا چلا تو آپ رض گھر سے بھاگم بھاگ حرم میں پہنچیں اور اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اس غلاظت کو آپ ﷺ کے اوپر سے ہٹایا۔ اسی طرح ایک اور موقع پر ابوجہل نے آپ ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھ کر آپ ﷺ کی گردن مبارک میں چادر ڈال کر اس قدر زور سے مروڑا کہ آپ ﷺ کی آنکھیں ابل پڑیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ حضور ﷺ کے سفر طائف سے واپسی کے زمانے میں بھی پیش آیا۔ اس واقعہ کی تفصیل روایات میں یوں آتی ہے کہ ابوجہل نے لات اور عزیٰ کی قسم کھا کر کہا تھا کہ اگر اس نے پھر محمد ﷺ کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا تو ان کی گردن روند ڈالوں گا اور ان کا منہ خاک آلود کر دوں گا۔ ایک دن اس نے آپ ﷺ کو حرم میں نماز پڑھتے دیکھا تو غصے میں آپ ﷺ کو ڈانٹتے ہوئے آپ ﷺ کی طرف بڑھا تاکہ اپنی قسم پوری کرے مگر پھر یکدم دہشت زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ لوگوں نے پوچھا کیا ہوا ؟ کیوں پیچھے ہٹ آئے ؟ کہنے لگا کہ آگے بڑھنے پر مجھے اپنے اور محمد ﷺ کے درمیان حائل آگ سے بھری ہوئی ایک خندق اور ایک پروں والی کوئی مخلوق دکھائی دی جو میری تکہ بوٹی کرنے کو تیار تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب پھٹکتا تو فرشتے اس کے چیتھڑے اڑادیتے۔ یہاں یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ پہلے دونوں واقعات کے حوالے سے ابوجہل کو ایسے کسی غیر معمولی یا غیر مرئی ردعمل کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔ میرے نزدیک اس کی توجیہہ یہ ہے کہ پہلے دونوں واقعات کے زمانے میں حضور ﷺ کی پشت پناہی کے لیے دنیوی اسباب کے طور پر جناب ابوطالب موجود تھے ‘ جبکہ تیسرا واقعہ اس زمانے میں پیش آیا جب یہ دنیوی سہارا بھی موجود نہ رہا اور اب حضور ﷺ کی حفاظت براہ راست اللہ تعالیٰ خود فرما رہا تھا۔ اس لیے اس وقت غیبی مدد کے ذریعے حضور ﷺ کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا۔ آیات زیر مطالعہ میں خاص طور پر اسی واقعہ کا تذکرہ ہے۔
آیت 12{ اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰی۔ } ”یا وہ تقویٰ کی تعلیم دیتا !“ جیسا کہ سورة اللیل کی آیت 10 کے ضمن میں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ ابوجہل کے کردار میں بہت سی مثبت خصوصیات بھی پائی جاتی تھیں۔ مثلاً وہ مال خرچ کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ صاف گو بھی تھا۔ اپنے ایمان نہ لانے کی وجہ بتاتے ہوئے اس نے بالکل کھری اور سچی بات کہی تھی کہ میں محمد ﷺ کو جھوٹا نہیں سمجھتا لیکن ہمارے خاندان نے چونکہ غرباء کو کھانے کھلانے اور حاجیوں کی خدمت کرنے میں ہمیشہ بنوہاشم کا مقابلہ کیا ہے ‘ اس لیے اب میں محمد ﷺ کی نبوت کی شہادت دے کر اپنے حریف خاندان کی بڑائی تسلیم نہیں کرسکتا۔ وہ جری اور بہادر ایسا تھا کہ نزع کے وقت بھی اس نے ہار نہیں مانی اور میدانِ بدر میں اپنا سرقلم کرنے والے شخص کو مخاطب کر کے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ اس کی گردن کو ذرا نیچے سے کاٹا جائے تاکہ سر نیزے پر چڑھے تو اونچا نظر آئے۔ بہرحال شخصی اعتبار سے وہ حضرت عمر فاروق رض کی طرح بہادر ‘ نڈر ‘ بےباک اور صاف گو انسان تھا۔ اگر وہ ایمان لے آتا تو یقینا حضرت عمر رض ہی کی طرح اعلیٰ پائے کا مسلمان ہوتا۔ لیکن جب وہ { صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی۔ } الیل یعنی تصدیق حق ِکی گھاٹی عبور کرنے میں ناکام رہا تو اس کے کردار کی بہت سی مثبت خصوصیات بھی اس کے کسی کام نہ آسکیں۔
آیت 19{ کَلَّاط لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ۔ } ”کوئی بات نہیں ! اے نبی ﷺ آپ اس کی بات نہ مانیے ‘ آپ سجدہ کیجیے اور اللہ سے اور قریب ہوجایئے !“ آپ ﷺ اس جھوٹے ‘ غلط کار شخص کی ایک نہ سنیے۔ یہ اگر آپ کو نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے تو اس کی پروا نہ کیجیے۔ آپ اپنے پروردگار کی جناب میں سجدے کرتے رہیے اور کثرت سجود سے اس کا قرب حاصل کرتے رہیے۔