سورہ انشقاق (84): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Inshiqaaq کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الإنشقاق کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ انشقاق کے بارے میں معلومات

Surah Al-Inshiqaaq
سُورَةُ الانشِقَاقِ
صفحہ 589 (آیات 1 سے 25 تک)

إِذَا ٱلسَّمَآءُ ٱنشَقَّتْ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ وَإِذَا ٱلْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْإِنسَٰنُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَٰقِيهِ فَأَمَّا مَنْ أُوتِىَ كِتَٰبَهُۥ بِيَمِينِهِۦ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا وَيَنقَلِبُ إِلَىٰٓ أَهْلِهِۦ مَسْرُورًا وَأَمَّا مَنْ أُوتِىَ كِتَٰبَهُۥ وَرَآءَ ظَهْرِهِۦ فَسَوْفَ يَدْعُوا۟ ثُبُورًا وَيَصْلَىٰ سَعِيرًا إِنَّهُۥ كَانَ فِىٓ أَهْلِهِۦ مَسْرُورًا إِنَّهُۥ ظَنَّ أَن لَّن يَحُورَ بَلَىٰٓ إِنَّ رَبَّهُۥ كَانَ بِهِۦ بَصِيرًا فَلَآ أُقْسِمُ بِٱلشَّفَقِ وَٱلَّيْلِ وَمَا وَسَقَ وَٱلْقَمَرِ إِذَا ٱتَّسَقَ لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ ٱلْقُرْءَانُ لَا يَسْجُدُونَ ۩ بَلِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ يُكَذِّبُونَ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُوعُونَ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍۭ
589

سورہ انشقاق کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ انشقاق کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

جب آسمان پھٹ جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha alssamao inshaqqat

آیت 1{ اِذَا السَّمَآئُ انْشَقَّتْ۔ } ”جب آسمان پھٹ جائے گا۔“ نوٹ کیجیے ! ان تمام سورتوں کا بنیادی موضوع ”تذکیر آخرت“ ہے۔

اردو ترجمہ

اور اپنے رب کے فرمان کی تعمیل کرے گا اور اُس کے لیے حق یہی ہے (کہ اپنے رب کا حکم مانے)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waathinat lirabbiha wahuqqat

آیت 2{ وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ۔ } ”اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گا اور اسے یہی زیب دیتا ہے۔“ اَذِنَتْ لِرَبِّہَاکا لفظی ترجمہ یوں ہوگا کہ وہ اپنے رب کے حکم پر کان لگائے ہوئے ہے اور جو بات کان لگا کر سنی جائے اس کے مطابق عمل بھی کیا جاتا ہے۔ اَذِنَتْ کا معنی اِسْتَمَعَتْ وَاِنْقَادَتْ کیا گیا ہے۔ یعنی اس نے غور سے سنا اور تعمیل کی۔ حُقَّتْ یہاں مجہول ہے حَقَّ یَحِقُّ سے۔ یعنی وہ اسی لائق ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ بےچون و چرا اپنے خالق کے حکم پر سرتسلیم خم کرے۔

اردو ترجمہ

اور جب زمین پھیلا دی جائے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha alardu muddat

اردو ترجمہ

اور جو کچھ اس کے اندر ہے اُسے باہر پھینک کر خالی ہو جائے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalqat ma feeha watakhallat

آیت 4{ وَاَلْقَتْ مَا فِیْہَا وَتَخَلَّتْ۔ } ”اور وہ نکال باہر کرے گی جو کچھ اس کے اندر تھا اور خالی ہوجائے گی۔“ سورة الزلزال میں یہی بات یوں بیان ہوئی ہے : { وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا۔ } ”اور جب زمین اپنے سارے بوجھ نکال کر باہر پھینک دے گی“۔ قیامت کے دن زمین اپنے اندر مدفون تمام انسانوں کے اجسام اور ان کے تمام اجزاء کو نکال کر باہرکرے گی۔ اس کے علاوہ بھی زمین میں جو کچھ معدنیات اور خزانے مخفی ہیں وہ قیامت کے دن نکال کر باہر پھینک دے گی۔

اردو ترجمہ

اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اُس کے لیے حق یہی ہے (کہ اس کی تعمیل کرے)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waathinat lirabbiha wahuqqat

آیت 5{ وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ۔ } ”اور وہ بھی اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اسے یہی زیب دیتا ہے۔“ جس طرح اطاعت وانقیاد کا مظاہرہ آسمان کرے گا ‘ اسی طرح زمین بھی حکم الٰہی بجا لائے گی۔

اردو ترجمہ

اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، اور اُس سے ملنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alinsanu innaka kadihun ila rabbika kadhan famulaqeehi

آیت 6{ یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ۔ } ”اے انسان ! تو مشقت پر مشقت برداشت کرتے جا رہا ہے اپنے رب کی طرف ‘ پھر تو اس سے ملنے والا ہے۔“ یہ دنیا انسان کے لیے دارالمِحن یعنی مشقتوں کا گھر ہے۔ انسانی زندگی کی اس تلخ حقیقت کو سورة البلد میں یوں بیان فرمایا گیا : { لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ۔ } کہ انسان تو پیدا ہی مشقت میں کیا گیا ہے۔ گویا مشقتیں برداشت کرنا ‘ دکھ اٹھانا اور سختیاں جھیلنا انسان کا مقدر ہے۔ اس سے کسی انسان کو رستگاری نہیں۔ مزدور ہے تو وہ صبح سے شام تک جسمانی سختیاں سہہ رہا ہے۔ کارخانہ دار ہے تو انتظامی گتھیوں کو سلجھانے میں جگر خون کر رہا ہے۔ اگر کوئی کسی دفتر کی کرسی پر بیٹھا ہے تو ذہنی مشقت کی چکی ّمیں ِپس رہا ہے۔ پھر اپنی اور اہل و عیال کی بیماریاں ‘ معاشی مشکلات ‘ معاشرتی الجھنیں ‘ مال و جان کی حفاظت کی فکر وغیرہ کی صورت میں ذہنی و نفسیاتی پریشانیاں الگ ہیں جو ہر انسان کے گلے کا ہار بنی ہوئی ہیں۔ دوسروں سے مسابقت اور مقابلے کا غم اس کے علاوہ ہے جو ہر انسان نے اپنے دل و دماغ میں کسی نہ کسی سطح پر ضرور پال رکھا ہے۔ پیدل چلنے والا سائیکل سوار کو رشک بھری نظروں سے دیکھتا ہے ‘ سائیکل سوار کار والے کے حسد میں مبتلا ہے۔ چھوٹی کار والا بڑی کار والے سے جلن کا شکار ہے۔ غرض مشقت ‘ تکلیف یا غم کی نوعیت تو مختلف ہوسکتی ہے مگر کوئی انسان ایسا نہیں جو کسی نہ کسی دکھ ‘ پریشانی یا مشقت میں مبتلا نہ ہو۔ ان مشقتوں ‘ تکلیفوں اور پریشانیوں کا سامنا انسان کو روز اوّل سے ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔ جیتے جی کوئی انسان اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا۔ مرزا غالب ؔنے اس حوالے سے بڑے پتے کی بات کہی ہے : ؎قید ِحیات و بند ِغم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں ! ان مشقتوں اور مصیبتوں میں گھری انسانی زندگی کی یہ سختیاں اور پریشانیاں اپنی جگہ ‘ لیکن انسان کا اصل مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گھمبیر اور پریشان کن ہے۔ اور وہ مسئلہ ہے کہ : ؎اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ؟ابراہیم ذوق انسان کے اخروی احتساب کا تصور ذہن میں لائیں اور پھر موازنہ کریں کہ باقی جانداروں کے مقابلے میں ”انسان“ کس قدر مشکل میں ہے۔ ایک بار بردار جانور کی زندگی کا معمول چاہے جتنا بھی مشکل ہو لیکن اس کی مشقت اور تکلیف اس کی زندگی کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے ایک بیل جب ہل یا رہٹ چلاتے چلاتے مرجاتا ہے تو اس مشقت سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ جاتا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں ایک انسان ہے جو کو فت پر کو فت برداشت کرتا اور تکلیف پر تکلیف جھیلتا جب اس دنیا سے جائے گا تو اسے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی دنیوی زندگی کے ایک ایک پل کا حساب دینا ہوگا۔ اس ضمن میں حضور ﷺ کا فرمان ہے : لَا تَزُوْلُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہٖ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ : عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَا اَفْنَاہُ ، وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَا اَبْلَاہُ ، وَمَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اکْتَسَبَہٗ وَفِیْمَ اَنَفَقَہٗ ، وَمَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ 1”ابن آدم کے پائوں قیامت کے روز اپنے رب کے حضور اپنی جگہ سے ہل نہیں سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کا حساب نہ لے لیا جائے : اس کی عمر کے بارے میں کہ کہاں فنا کی ؟ اس کی جوانی کی قوتوں ‘ صلاحیتوں اور امنگوں کے دور کے بارے میں کہ کیسے گزارا ؟ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ؟ حلال ذرائع سے کمایا یا حرام طریقے سے اور اللوں ّتللوں میں خرچ کیا یا ادائے حقوق کے لیے ؟ اور جو علم حاصل ہوا تھا اس پر کتنا عمل کیا ؟“یعنی دنیا میں باربرداری بھی کرو ‘ جسمانی ‘ ذہنی اور نفسیاتی اذیتیں بھی برداشت کرو۔ مال وجان اور اولاد سے متعلق رنگا رنگ صدمے جھیلتے جھیلتے زندگی بھر کانٹوں پر بھی لوٹتے رہو اور پھر مرنے کے بعد ایک ایسی ہستی کے سامنے کھڑے ہو کر پل پل کا حساب بھی دو جس سے تمہارے قلوب و اذہان کی گہرائیوں میں پیدا ہونے والے جذبات و خیالات بھی پوشیدہ نہیں۔ یہ ہے ”انسان“ کی اصل ٹریجڈی ! یہ مرحلہ ایک انسان کے لیے ایسا مشکل ہے کہ اسے یاد کر کے حضرت ابوبکر صدیق رض اکثر رویا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کاش میں ایک چڑیا ہوتا ! دیکھا جائے تو حضور ﷺ کے درج بالا فرمان میں مذکور سوالات میں سے آخری سوال سب سے مشکل ہے۔ جس کسی نے دین اور قرآن کا علم جس قدر زیادہ سیکھا اس کے لیے اس کا حساب دینا اسی قدر مشکل ہوگا۔ اگر کسی انسان تک قرآن کی یہ دعوت پہنچ ہی نہیں پائی تو ممکن ہے کہ اس کی طرف سے کوئی عذر بھی قبول ہوجائے۔ ایسی صورت میں اس کوتاہی کا کچھ نہ کچھ بوجھ ان لوگوں پر بھی ضرور پڑے گا جنہوں نے اسے دعوت پہنچانے میں تساہل برتا لیکن جن لوگوں تک قرآن کی دعوت پہنچ گئی اور انہوں نے اپنی استعداد کے مطابق قرآن کے پیغام کو سمجھ بھی لیا تو ظاہر ہے ان کے لیے اس آخری سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہوگا۔

اردو ترجمہ

پھر جس کا نامہ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faama man ootiya kitabahu biyameenihi

اردو ترجمہ

اُس سے ہلکا حساب لیا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasawfa yuhasabu hisaban yaseeran

آیت 8{ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا۔ } ”تو اس سے لیا جائے گا بہت ہی آسان حساب۔“ اس حساب کی کیفیت کیا ہوگی ؟ اس کی وضاحت حضرت عائشہ رض کی روایت کردہ بخاری و مسلم کی اس حدیث میں آئی ہے۔ حضرت عائشہ رض بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مَنْ حُوْسِبَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عُذِّبَ ”قیامت کے روز جس کا حساب لیا جائے گا اسے تو ضرور عذاب دیا جائے گا“۔ اس پر میں نے عرض کیا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے : { فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا 4 } تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لَـیْسَ ذَاکِ الْحِسَابُ ، اِنَّمَا ذَاکِ الْعَرْضُ ، مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ عُذِّبَ 1 ”یہ حساب نہیں ہوگا ‘ یہ تو محض اعمال نامہ پیش کیا جانا ہوگا ‘ روزِ قیامت جس کے حساب کی جانچ پڑتال کی گئی اسے تو ضرور عذاب دیا جائے گا۔“ یعنی جس خوش قسمت انسان کا اعمالنامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا ‘ اس سے نہ تو کوئی سوال ہوگا اور نہ ہی اس کے مواخذے اور مناقشے کی نوبت آئے گی۔ بس اس کے اعمال نامے کو ایک نظر دیکھ کر اس کی خطائوں کو معاف کردیا جائے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص سے نرمی کا معاملہ فرمائے گا۔

اردو ترجمہ

اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش خوش پلٹے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayanqalibu ila ahlihi masrooran

آیت 9{ وَّیَنْقَلِبُ اِلٰٓی اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا۔ } ”اور وہ لوٹے گا اپنے گھر والوں کی طرف شاداں وفرحاں۔“ عدالت کے کٹہرے سے وہ شخص جب اپنے ان اہل و عیال ‘ رشتہ دار اور ساتھیوں کی طرف واپس لوٹے گا جو اسی کی طرح معاف کیے گئے ہوں گے تو بہت خوش ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے میری بھی خلاصی ہوگئی۔

اردو ترجمہ

رہا وہ شخص جس کا نامہ اعمال اُس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma man ootiya kitabahu waraa thahrihi

آیت 10{ وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰـبَہٗ وَرَآئَ ظَہْرِہٖ۔ } ”اور جس کو دیا جائے گا اس کا اعمالنامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے سے۔“ قرآن کریم کی اکثر آیات میں ایسے لوگوں کو بائیں ہاتھ میں اعمالنامے دیے جانے کا ذکر ہے۔ اس سیاق وسباق میں یہاں وَرَآئَ ظَہْرِہٖ کے الفاظ سے یوں لگتا ہے کہ فرشتہ ایک مجرم شخص کو جب اس کا اعمالنامہ پکڑانے لگے گا تو وہ اس سے بچنے کے لیے اپنا بایاں ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے چھپالے گا۔ چناچہ اسی حالت میں اعمالنامہ پیچھے سے اس کے بائیں ہاتھ میں تھما دیا جائے گا۔

اردو ترجمہ

تو وہ موت کو پکارے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasawfa yadAAoo thubooran

آیت 1 1{ فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُــبُوْرًا۔ } ”تو اب وہ موت کی طلب کرے گا۔“ اس وقت اس کی ایک ہی خواہش ہوگی کہ مجھے موت آجائے اور میں مر کر ختم ہو جائوں۔

اردو ترجمہ

اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جا پڑے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayasla saAAeeran

اردو ترجمہ

وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahu kana fee ahlihi masrooran

آیت 13{ اِنَّہٗ کَانَ فِیْٓ اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا۔ } ”یقینا دنیا میں وہ اپنے اہل و عیال میں بہت خوش و خرم تھا۔“ دنیا میں وہ حرام کی کمائی سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ عیش کرتا رہا اور آخرت کے محاسبے کا کبھی تصور بھی ذہن میں نہ لایا۔ یہاں پر ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی شخص اپنی روزی تو سو فیصد حلال ذرائع سے کما رہا ہے لیکن وہ اللہ کے دین کا حق ادا نہیں کر رہا تو ایسے شخص کی حلال ذرائع سے کمائی ہوئی وہ روزی بھی حلال نہیں۔ اس لیے کہ اس نے اپنی روزی کمانے کی اس تگ و دو میں جو وقت ‘ صلاحیتیں اور وسائل صرف کیے ہیں ان میں دین کے حقوق کا حصہ بھی شامل تھا۔ گویا اپنے وقت ‘ وسائل اور اپنی صلاحیتوں کا وہ حصہ جو اسے اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا چاہیے تھا اس حصے کو غصب کر کے وہ اپنے ذاتی استعمال میں لے آیا ہے۔ تو دین کے حقوق کو غصب کرکے کمائی ہوئی ایسی روزی حلال کیسے ہوسکتی ہے ؟ دراصل حلال و حرام کے معاملے کو بہت دقت نظری سے جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس معاملے کو عام طور پر بہت سطحی انداز میں دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ مثلاً ایک عام مسلمان سور کا گوشت کھانے کا تو تصور بھی نہیں کرسکتا لیکن وہ اس بکری کا گوشت بہت مزے اور رغبت سے کھا لیتا ہے جو اس نے کسی کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر خریدی ہوتی ہے۔ اب ایسی بکری کے بارے میں کون کہے گا کہ وہ حلال ہے اور حرام نہیں ہے ! اس موضوع کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی مسلمان باطل کے غلبے کے تحت اطمینان و سکون سے زندگی بسر کر رہا ہے اور اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی جدوجہد نہیں کر رہا تو وہ بزعم خویش بیشک ناپ تول کر حلال ہی کیوں نہ کھا رہا ہو ‘ اس کا کھانا پینا حتیٰ کہ اس ماحول میں سانس لینا سب حرام ہے۔ ایسے شخص کو خود سوچنا چاہیے کہ وہ کس نظام کی چاکری کر رہا ہے ؟ کس کے اقتدار کو کندھا دے رہا ہے ؟ تنخواہ کہاں سے لے رہا ہے ؟ اور اپنا کاروبار کس کی مدد سے آگے بڑھا رہا ہے ؟ ظاہر ہے وہ یہ سب کچھ باطل نظام کے لیے کر رہا ہے اور طاغوت کی فراہم کردہ چھتری کے سائے میں کررہا ہے۔ چناچہ کسی مسلمان کا کسی باطل نظام کے تحت ہنسی خوشی زندگی گزارنا کسی طور پر جائز نہیں۔ اِلا ّیہ کہ ایسی صورت حال میں وہ کراہت اور بےچینی میں زندگی بسرکرے ‘ اپنی ضروریات کو کم سے کم سطح پر رکھے اور باطل نظام کو بدلنے کے لیے اپنا تن من دھن کھپا دینے پر ہمہ وقت کمربستہ رہے۔ اس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ اس کی یہ سوچ اور جدوجہد باطل نظام کے تحت زندگی بسر کرنے کے گناہ کا کفارہ بن جائے گی۔ آیات زیر مطالعہ میں دو انسانی کرداروں کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ ان میں ایک کردار تو اللہ کے اس بندے کا ہے جو دنیوی زندگی کے دوران آخرت کی جواب طلبی کے احساس سے ہر وقت لرزاں و ترساں رہتا تھا۔ ایسے لوگوں کے اعصاب پر آخرت کے احتساب کا خوف اس حد تک مسلط ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس کیفیت کو جنت میں پہنچ کر بھی یاد کریں گے : { قَالُوْا اِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِیْٓ اَہْلِنَا مُشْفِقِیْنَ۔ } الطور ”وہ کہیں گے کہ ہم پہلے دنیا میں اپنے اہل و عیال میں ڈرتے ہوئے رہتے تھے“۔ ایسے ہی ایک شخص کے بارے میں یہاں بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عدالت سے اپنی کامیابی کی نوید سننے کے بعد اپنے گھر والوں کی طرف شاداں وفرحاں لوٹے گا۔ اس کے مقابلے میں ایک کردار وہ ہے جو آخرت اور آخرت کے محاسبے سے بیخبر اپنے اہل و عیال کے ساتھ عیش و عشرت میں مست رہا۔ ایسے شخص نے دنیا میں بلاشبہ ایک خوشحال اور خوشیوں بھری زندگی گزاری ‘ لیکن آخرت میں اس کے لیے جہنم کی آگ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

اردو ترجمہ

اُس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahu thanna an lan yahoora

اردو ترجمہ

پلٹنا کیسے نہ تھا، اُس کا رب اُس کے کرتوت دیکھ رہا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bala inna rabbahu kana bihi baseeran

آیت 15{ بَلٰٓیج اِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیْرًا۔ } ”کیوں نہیں ! یقینا اس کا رب تو اسے خوب دیکھ رہا تھا۔“ اگلی تین آیات میں تین قسمیں کھائی گئی ہیں۔ اپنے مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے یہ آیات سورة المدثر کی ان آیات کے ساتھ خاص مناسبت اور بہت گہری مشابہت رکھتی ہیں : { کَلَّا وَالْقَمَرِ - وَالَّیْلِ اِذْ اَدْبَرَ - وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ۔ } ”کیوں نہیں ‘ قسم ہے چاند کی۔ اور قسم ہے رات کی جب کہ وہ پیٹھ موڑے۔ اور قسم ہے صبح کی جبکہ وہ روشن ہوجائے“۔ ان دونوں مقامات کے مابین ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ ان دونوں سورتوں میں قسموں پر مشتمل مذکورہ آیات سے بالکل نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔ سورة المدثر میں بھی { کَلَّا وَالْقَمَرِ۔ } سے ایک نئے مضمون کا آغاز ہو رہا ہے اور بالکل ایسی ہی صورت حال زیرمطالعہ سورت کے اس مقام پر بھی نظر آتی ہے۔

اردو ترجمہ

پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fala oqsimu bialshshafaqi

اردو ترجمہ

اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallayli wama wasaqa

اردو ترجمہ

اور چاند کی جب کہ وہ ماہ کامل ہو جاتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalqamari itha ittasaqa

آیت 18{ وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ۔ } ”اور چاند کی جب وہ پورا ہوجاتا ہے۔“ میری خالص ذاتی رائے کے مطابق واللہ اعلم ! سورة المدثر کی مذکورہ آیات 32 ‘ 33 ‘ 34 میں بعثت ِمحمدی ﷺ کی خبر دی گئی ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیات میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سورة المدثر کے مطالعے کے دوران اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوچکی ہے۔ اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ رات { وَالَّـیْلِ اِذْ اَدْبَرَ۔ } سے مراد چھ سو سال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سے حضور ﷺ کی نبوت کے ظہور تک کا وہ طویل عرصہ ہے جس کے دوران وحی و نبوت کا سلسلہ منقطع رہا اور دنیا پر مجموعی طور پر کفر و شرک اور ضلالت و جہالت کے اندھیرے چھائے رہے۔ چاند کی قسم { کَلَّا وَالْقَمَرِ۔ } میں علم و ہدایت کی اس مدھم روشنی کا استعارہ ہے جو ِجن و اِنس کے نیک افراد کی صورت میں اس دوران کہیں کہیں موجود رہی ‘ جبکہ صبح کی قسم { وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ۔ } کے پردے میں نبوت محمدی ﷺ کے خورشید کے طلوع ہونے کی خبر دی گئی ہے ‘ اور اس کے بارے میں یہ بھی واضح کردیا گیا ہے : { اِنَّھَا لَاِحْدَی الْکُبَرِ۔ } کہ یہ بلاشبہ ایک بہت عظیم واقعہ ہے۔ ظاہر ہے نوع انسانی کی تاریخ میں نبوت محمدی ﷺ کے ظہور سے بڑا کوئی اور واقعہ کیا ہوگا۔ بہرحال نبوت و رسالت ِمحمدی ﷺ کے خورشید جہاں تاب کی تابانیوں سے چھ سو سال کی تاریکیاں چھٹ گئیں۔ حضور ﷺ کی وساطت سے ابنائے آدم کو ”اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْنَـکُمْ“ کی خصوصی سند بھی عطا ہوئی ‘ جزیرہ نمائے عرب میں انسانی تاریخ کا عظیم ترین انقلاب بھی رونما ہوگیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس انقلاب کی فتوحات و برکات تین براعظموں تک پھیل گئیں۔ لیکن چند ہی دہائیوں کے بعد مشیت خداوندی سے نہ صرف مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے ‘ بلکہ رفتہ رفتہ وہ پسپائی پر مجبور ہوگئے۔ پسپائی کا یہ عمل جب شروع ہوا تو صرف جنگی محاذوں سے پیچھے ہٹنے تک ہی محدود نہ رہا بلکہ مسلمان بحیثیت قوم زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان سے دست بردار ہو کر نکبت و ادبار کی پستیوں میں لڑھکتے چلے گئے۔ یہ سفر آج بھی جاری ہے اور ابھی اس کے رکنے کے بظاہر کوئی آثار بھی نظر نہیں آتے۔ یہ گھمبیر صورت حال اپنی جگہ پر ایک زمینی حقیقت ہے ‘ لیکن دوسری طرف ہمارا ایمان ہے کہ قیامت سے پہلے اسلام پوری دنیا پر غالب آئے گا۔ اس بارے میں حضور ﷺ کے فرمودات بہت واضح ہیں اس مضمون کی احادیث ”نوید ِخلافت“ کے عنوان سے ایک کتابچے میں جمع کردی گئی ہیں۔ تفصیل جاننے کے لیے اس کتابچے سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ زیر مطالعہ آیات میں اسلام کے اسی غلبے کی بشارت دی گئی ہے جس کی تفصیل حضور ﷺ کے فرمودات میں ملتی ہے۔ میرے نزدیک یہاں پہلی قسم { فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ۔ } میں اسلام کے رفتہ رفتہ زوال پذیر ہونے کی صورت حال کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ یعنی سورج غروب ہوچکا ہے اور اب افق پر صرف شفق کی سرخی نظر آرہی ہے۔ دوسری قسم { وَالَّـیْلِ وَمَا وَسَقَ۔ } میں حالات کے مزید گھمبیر ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ دین پر عمل کے اعتبار سے دنیا میں ایک دفعہ پھر تاریکی چھا جائے گی ‘ صرف مدھم سی روشنی باقی رہے گی جو وقت آنے پر آہستہ آہستہ بڑھتی جائے گی۔ درجہ بدرجہ بڑھتے ہوئے چاند کی قسم : { وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ۔ } اسی مدھم اور تدریجاً بڑھتی ہوئی روشنی کا استعارہ ہے۔ ظاہر ہے جب چاند پورا ہوجاتا ہے تو اس کی چاندنی ایک حد تک رات کو روشن کردیتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا :

اردو ترجمہ

تم کو ضرور درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Latarkabunna tabaqan AAan tabaqin

آیت 19{ لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ۔ } ”اسی طرح تم لازماً چڑھو گے درجہ بدرجہ۔“ یعنی جس طرح چاند درجہ بدرجہ بڑا ہو کر مرحلہ وار رات کو روشن کرتا ہے بالکل اسی طرح تم مرحلہ وار کوششوں سے غلبہ دین کی منزل تک پہنچو گے۔ واضح رہے کہ لَتَرْکَبُنَّ کے صیغے میں زور اور تاکید بھی ہے کہ تم لوگ اس منزل تک ضرور پہنچو گے۔ ظاہر ہے ہمیں یہ خبر محمد رسول اللہ ﷺ نے دی ہے وَھُوَ الصَّادِقُ وَالْمَصْدُوْق ! آپ ﷺ کی دی ہوئی خبر غلط نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا دنیا پر اسلام کا مکمل غلبہ ہو کر رہے گا۔ البتہ اسلام کے پہلے غلبے کی شان اور تھی اور دوسرے غلبے کا انداز اور ہوگا۔ یہ فرق سورة المدثر کی آیت 34 اور زیر مطالعہ سورت کی آیت 18 پر غور کرنے سے خود بخود واضح ہوجاتا ہے۔ یعنی اسلام کے پہلے غلبے کا ظہور صبح کے اجالے کی طرح ہوا تھا : { وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ۔ } المدثر۔ اس اجالے کی شان یہ تھی کہ ادھر آفتابِ نبوت ﷺ طلوع ہوا اور ادھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا ماحول منورہو گیا۔ یعنی حضور ﷺ کی دعوت کے آغاز کے بعد صرف تیئیس 23 برس کے مختصر عرصے میں تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب برپا ہوگیا اور جزیرہ نمائے عرب میں اسلام پوری طرح غالب آگیا۔ ظاہر ہے سورج کے طلوع ہونے کے بعد روشنی ہونے میں زیادہ دیر تو نہیں لگتی۔ البتہ اسلام کے دوسرے غلبہ کی روشنی چاند کی چاندنی کی طرح مرحلہ وار اور تدریجاً پھیلے گی۔ یعنی اب اقامت دین اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام کسی ایک داعی یا کسی ایک تحریک کی کوششوں اور کسی ایک نسل کے زمانے میں نہیں بلکہ نسل در نسل جدوجہد سے قائم ہوگا۔ جیسے برعظیم پاک و ہند میں علامہ اقبال نے ایک فکر کو واضح کیا کہ اسلام مذہب نہیں بلکہ دین ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ کہ ”جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“ یعنی مسلمان اس ضابطہ حیات کو ایک ”وحدت“ کے طور پر زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔ پھر مولانا ابوالکلام آزاد نے ”حزب اللہ“ اور مولانا مودودی نے ”جماعت اسلامی“ کے پلیٹ فارم سے اقامت دین کے لیے جدوجہد کی۔ اسی طرح آئندہ ادوار میں بھی اللہ کی توفیق سے اس کے بندے اس جدوجہد کا علم سنبھالے رہیں گے۔ مختلف تحریکیں اس مشن کی ترویج و ترقی کے لیے مختلف انداز میں کردار ادا کرتی رہیں گی اور بالآخران اجتماعی اور مرحلہ وار کوششوں کے نتیجے میں جب اللہ کو منظور ہوگا اسلام بطور دین پوری دنیا میں غالب ہوجائے گا۔

اردو ترجمہ

پھر اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fama lahum la yuminoona

اردو ترجمہ

اور جب قرآن اِن کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha quria AAalayhimu alquranu la yasjudoona

اردو ترجمہ

بلکہ یہ منکرین تو الٹا جھٹلاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bali allatheena kafaroo yukaththiboona

آیت 22{ بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُـکَذِّبُوْنَ۔ } ”بلکہ یہ کافر تو جھٹلا رہے ہیں۔“ اس آیت کے الفاظ سے یہ اہم نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کفر اور تکذیب باہم مترادفات نہیں بلکہ الگ الگ معنی کے حامل دو الفاظ ہیں۔ کفر کے لغوی معنی چھپانے کے ہیں۔ اس مفہوم میں کسی انسان کا ”کفر“ یہ ہے کہ اس کی فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی معرفت سے متعلق جو گواہیاں رکھی ہیں ‘ وہ جانتے بوجھتے ان گواہیوں کو چھپا دے اور لوگوں کے سامنے ان کا اقرار و اظہار نہ کرے۔ جبکہ تکذیب سے مراد اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو جھٹلانا ہے جو انسانی فطرت میں موجود گواہیوں کو اجاگر activate کرنے کے لیے اس کی طرف سے نازل ہوئیں۔ اس لحاظ سے کفر اور تکذیب دو الگ الگ جرائم ہیں۔ بلکہ اس وضاحت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو کفر کے مقابلے میں تکذیب بڑا جرم ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجتے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ علیہ السلام کو جو چارٹر عطا کیا گیا تھا اس میں بھی ان دونوں جرائم کا ذکر الگ الگ ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو اس چارٹر کی عبارت : { قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًاج فَاِمَّا یَاْتِیَنَّـکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ - وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَـآ اُولٰٓـئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ۔ } ”ہم نے کہا : تم سب کے سب یہاں سے اتر جائو۔ تو جب بھی آئے تمہارے پاس میری جانب سے کوئی ہدایت ‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ حزن سے دوچار ہوں گے۔ اور جو کفر کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ والے جہنمی ہوں گے ‘ اس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔“ ان دونوں جرائم میں سے پہلے جرم یعنی کفر کے بارے میں تو شاید کوئی عذر بھی قبول ہوجائے۔ مثلاً یہ عذر کہ ماحول کے منفی اثرات کی وجہ سے کسی انسان کی روح یا فطرت پر غفلت یا جہالت کے پردے پڑگئے تھے ‘ اور اس وجہ سے اس کی فطرت کے آئینے میں اللہ تعالیٰ کی معرفت پوری طرح سے منعکس نہ ہوسکی۔ مگر جب اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کی صورت میں انسان کے سامنے باقاعدہ روشنی آگئی اور اس روشنی سے بھی اس کو وہی پیغام ملا جو عین اس کی اپنی فطرت کی پکار تھی تو اس کا جانتے بوجھتے ان آیات کو جھٹلا دینا یقینا بہت بڑی ڈھٹائی اور بہت بڑا جرم ہے جس کے خلاف کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوسکتا۔

اردو ترجمہ

حالانکہ جو کچھ یہ (اپنے نامہ اعمال میں) جمع کر رہے ہیں اللہ اُسے خوب جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAllahu aAAlamu bima yooAAoona

آیت 23{ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یُوْعُوْنَ۔ } ”اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ اپنے اندر کیا بھرے ہوئے ہیں۔“ عام طور پر اس آیت کے بارے میں یہی سمجھا گیا ہے کہ اس میں انسان کے مال و دولت جمع کرنے کی طرف اشارہ ہے ‘ لیکن دراصل اس سے دلوں اور سینوں کی گندگی مراد ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ان لوگوں کے سینے کفر ‘ عداوت ‘ بغض ‘ حسد ‘ تکبر وغیرہ کی غلاظتوں سے بھرے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے یہ اللہ کی آیات کو پہچان لینے کے بعد بھی ان کی تکذیب کر رہے ہیں۔

اردو ترجمہ

لہٰذا اِن کو دردناک عذاب کی بشارت دے دو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fabashshirhum biAAathabin aleemin

اردو ترجمہ

البتہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati lahum ajrun ghayru mamnoonin

آیت 25{ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ لَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ۔ } ”البتہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ‘ ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔“ مَنَّ یَمُنُّ مَنًّاکے لغوی معنی کسی چیز کو کاٹ دینے کے ہیں۔ ظاہر ہے جب کسی چیز کو کاٹ دیا جاتا ہے تو اس کی انتہا ہوجاتی ہے۔ چناچہ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْن سے مراد ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا۔

589