سورہ انشقاق (84): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Inshiqaaq کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الإنشقاق کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ انشقاق کے بارے میں معلومات

Surah Al-Inshiqaaq
سُورَةُ الانشِقَاقِ
صفحہ 589 (آیات 1 سے 25 تک)

إِذَا ٱلسَّمَآءُ ٱنشَقَّتْ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ وَإِذَا ٱلْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْإِنسَٰنُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَٰقِيهِ فَأَمَّا مَنْ أُوتِىَ كِتَٰبَهُۥ بِيَمِينِهِۦ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا وَيَنقَلِبُ إِلَىٰٓ أَهْلِهِۦ مَسْرُورًا وَأَمَّا مَنْ أُوتِىَ كِتَٰبَهُۥ وَرَآءَ ظَهْرِهِۦ فَسَوْفَ يَدْعُوا۟ ثُبُورًا وَيَصْلَىٰ سَعِيرًا إِنَّهُۥ كَانَ فِىٓ أَهْلِهِۦ مَسْرُورًا إِنَّهُۥ ظَنَّ أَن لَّن يَحُورَ بَلَىٰٓ إِنَّ رَبَّهُۥ كَانَ بِهِۦ بَصِيرًا فَلَآ أُقْسِمُ بِٱلشَّفَقِ وَٱلَّيْلِ وَمَا وَسَقَ وَٱلْقَمَرِ إِذَا ٱتَّسَقَ لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ ٱلْقُرْءَانُ لَا يَسْجُدُونَ ۩ بَلِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ يُكَذِّبُونَ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُوعُونَ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍۭ
589

سورہ انشقاق کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ انشقاق کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

جب آسمان پھٹ جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha alssamao inshaqqat

گزشتہ سورت میں ہم نے آسمان کے پھٹنے کی تشریح کی ہے۔ یہاں جو بات اضافی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کام اللہ کی اطاعت میں ہوگا۔ اور یہ کہ وہ اس بات کا ذمہ دار اور مستحق ہے کہ ایسا کرے اور اللہ کے اس حق کو ادا کرے کیونکہ اللہ کا حق ہے کہ اس کے احکام کی اطاعت کی جائے۔

اردو ترجمہ

اور اپنے رب کے فرمان کی تعمیل کرے گا اور اُس کے لیے حق یہی ہے (کہ اپنے رب کا حکم مانے)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waathinat lirabbiha wahuqqat

واذنت ................ وحقت (2:84) ” اور اپنے رب کے فرمان کی تعمیل کرے گا اور اس کے لئے حق یہی ہے “۔ کہ اپنے رب کے احکام کی تعمیل کرے۔ آسمان کی طرف سے ” اذن “ یعنی اعلان یا اجازت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ پھٹنے میں اللہ کے حکم کی تعمیل کرے گا اور حقت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے اوپر اللہ کا یہ حق واقع ہوگیا۔ اور اس نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ اس پر اللہ کا یہ حق ہے اور یہ بھی ایک طرح کا اظہار ہے۔ تسلیم اور اطاعت کا کہ یہ اللہ کا مسلمہ حق ہے آسمان پر۔

اردو ترجمہ

اور جب زمین پھیلا دی جائے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha alardu muddat

واذا الارض مدت (3:84) ” اور جب زمین پھیلا دی جائے گی “۔ یہ بھی ایک جدید منظر اور مفہوم ہے۔ زمین کے پھیلنے اور اس کی لمبائی کا مفہوم کیا ہے ؟ یعنی وہ قوانین قدرت معطل ہوجائیں گے جو اس زمین کو کنٹرول کرتے ہیں اور جو اسے اس کی موجودہ شکل میں قائم رکھتے ہیں۔ یعنی موجودہ گول یا بیضوی شکل میں قائم رکھتے ہیں۔ انداز کلام سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے اندر یہ تبدیلی باہر کے عوامل سے پیدا ہوگی کیونکہ اس کے لئے صیغہ مجہول استعمال ہوا ہے یعنی لفظ مدت۔

اردو ترجمہ

اور جو کچھ اس کے اندر ہے اُسے باہر پھینک کر خالی ہو جائے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalqat ma feeha watakhallat

والقت ............................ وتخلت (4:84) ” جو کچھ اس کے اندر ہے اسے باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی “۔ یہ ایک ایسی تصویر کشی ہے کہ یہ زمنی گویا ایک زندہ اور صاحب ارادہ چیز ہے ، اور یہ وہ اپنے اندر کی چیزوں کو باہر پھینک کر خالی ہورہی ہے۔ کیونکہ اس کے اندر بہت کچھ ہے۔ مثلاً یہ مخلوقات جن کا گننا مشکل ہے ، جو صدیوں سے اس کے اندر دفن ہورہی ہیں اور نہ اس کے زمانے کا علم ہے اور نہ لوگوں کی تعداد کا۔ زمین کے پیٹ کے اندر جو معدنیات ، پانی اور دوسری چیزیں ہیں جن کا علم صرف اللہ کو ہوے ، سب باہر آجائیں گی۔ صدیوں سے یہ زمین ان چیزوں کو اٹھائے ہوئے ہے۔ جب قیامت برپا ہوگی تو یہ سب چیزوں اور سب رازوں کو اگل دے گی۔

اردو ترجمہ

اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اُس کے لیے حق یہی ہے (کہ اس کی تعمیل کرے)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waathinat lirabbiha wahuqqat

واذنت ................ وحقت (5:84) ” اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اس کے لئے حق یہی ہے “۔ اذن کے معنی یہاں اطاعت رب کے ہیں اور اللہ کے احکام کی تعمیل کرنے کے ہیں۔ جس طرح یہ تعبیر آسمان کے لئے بھی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ زمین اعتراف کررہی ہوگی ، اللہ کا اس پر حق ہے کہ وہ اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرے۔ انداز بیان میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ گویا زمین ، آسمان ، ذی روح مخلوق ہیں۔ یہ اللہ کا حکم سنتے ہیں اور بالا رادہ تعمیل کرتے ہیں ، فوراً لبیک کہتے ہیں اور اس طرح اطاعت کرتے ہیں جس طرح ایک شخص اطاعت کا اقرار واعتراف کرتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ اس پر ایسا کرنا حق ہے اس لئے وہ سر تسلیم خم کرتا ہو اور بغیر جبر کے یہ کام کرتا ہو اور اس میں کوئی حیل وحجت نہ کرتا ہو۔

اگرچہ قیام قیامت کے دن اس کائنات میں ایک عظیم انقلاب ہوگا اور یہ اسی کا ایک منظر ہے ، لیکن یہاں جو تصویر کھینچی گئی ہے وہ پروقار اور دھیمی ہے۔ اور اس پر توازن اور خشوع کے گہرے سائے ہیں۔ جو تاثرات پردہ احساس پر قائم رہتے ہیں وہ اطاعت ، تسلیم ورضا ، خضوع وخشوع اور بغیر حیل وحجت اور بغیر قیل وقال اطاعت کیشی کے ہیں۔

چناچہ ایسی ہی فضا میں باری تعالیٰ کی جانب سے ایک پکار آتی ہے۔ اس میں انسان کو انسانیت کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ دکھا کر کہ دیکھو یہ پوری کائنات اور یہ ارض وسما کس طرح سراطاعت خم کیے ہوئے ہیں ، اور اللہ کی اطاعت کو اپنے اوپر حق سمجھتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، اور اُس سے ملنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alinsanu innaka kadihun ila rabbika kadhan famulaqeehi

یایھا الانسان (6:84) ” جس کو رب نے مہربان کرکے اس طرح بنایا ، جس کو اللہ نے پوری مخلوقات کے مقابلے میں انسانیت کی منفرت صفت دی۔ اس کو تو یہ چاہئے کہ یہ اپنے رب کی معرفت میں سب سے آگے ہو ، اور اس پوری کائنات اور ارض وسما کے مقابلے میں اللہ کے سامنے زیادہ سرتسلیم خم کرنے والاہو ، اللہ نے اس کے جسم میں اپنی روح پھونکی ، اسے یہ قوت دی اور یہ فہم دیا کہ وہ رب تک رسائی حاصل کرسکے اور اپنے نور کا دیا اس کی ذات میں جلایا ، اور اس کے اندر یہ تڑپ رکھی کہ وہ اللہ کے فیوض حاصل کرے ، اور ان کے ذریعہ روحانی پاکیزگی اختیار کرے اور لامحدود بلندیوں تک عروج حاصل کرے۔ اور اس کمال کی انتہاﺅں تک جاپہنچے جن تک انسان پہنچ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ انسانی ترقی اور کمال کے آفاق بہت وسیع ہیں۔

یایھا الانسان ................................ فملقیہ (6:84) ” اے انسان ! تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے “۔ اے انسان تو اپنا سفر حیات اس جہاں میں نہایت مشقت کے ساتھ طے کررہا ہے۔ اپنا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے ، جدوجہد کررہا ہے ، سانس پھولی ہوئی ہے۔ راستہ دشوار ہے اور اس پر مشقت راستے کو طے کرکے تو پہنچنے والا کہاں ہے ؟ رب کی طرف مرجع ہے اور جائے پناہ درگاہ الٰہی ہی ہے اور تو اس تک اس جدوجہد اور مشقت کے بعد پہنچ رہا ہے۔

اے انسان ! تو اس جہاں میں اپنی ضروریات زندگی بھی بڑی جدوجہد سے مہیا کررہا ہے۔ اگر کسی کو جسمانی مشقت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تو فکر معاش اور ذہنی پریشانی ہر کسی کو ہوتی ہے۔ خوشحالی اور غریب دونوں فکر مند ضرور ہوتے ہیں۔ دونوں ہی مشقت کرتے ہیں۔ اگرچہ مشقت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ورنہ مشقت اور جدوجہد انسان کی زندگی کا جزو لاینفک ہے۔ لیکن سرمایہ دار اور نادار دونوں آخر کار اللہ کے ہاں جاپہنچتے ہیں۔

اے انسان ! اس زمین پر تو ہرگز حقیقی راحت نہ پاسکے گا۔ راحت اور آرام تو آخرت میں ہوں گے لیکن ان کے لئے جو سرتسلیم خم کرتے ہوئے احکام خداوندی کی اطاعت کرتے ہیں اور آخرت کے لئے کچھ کماتے ہیں۔ اس زمین کی مشقت ایک جیسی ہے۔ اگرچہ رنگ مختلف ہوں اور ذائقے الگ ہوں لیکن جب انسان رب تعالیٰ کے ہاں پہنچے گا تو وہاں انجام کا اختلاف حقیقی ہوگا۔ ایک فریق تو اس قدر مشقت میں ہوگا جس سے زمین کی مشقت بہت مختلف اور کم ہے اور دوسرا فریق اس قدر انعام پائے گا کہ ان کے مقابلے میں زمین کی تمام تھکاوٹیں دور ہوجائیں گی۔ یوں محسوس ہوا کہ اس نے کبھی کوئی تکلیف دیکھی ہی نہیں۔ اے انسان ! تجھے تو انسانیت کی صفت دے کر ممتاز کردیا گیا ہے۔ اپنے لئے وہ انجام اور وہ مقام چن لے جو تیری انسانیت کے شایان شان ہو ، جو اس صفت کے مناسب ہو جو اللہ نے تجھے دی ہے۔ وہ آرام اور وہ خوشی اور نعمت طلب کر جو آخرت میں ہے۔

اس پکار کے اندر ہی چونکہ انسانیت کے انجام کے لئے اشارہ تھا ، اس لئے متصلا یہ بات بھی بتا دی گئی کہ انسانیت اس پر مشقفت جدوجہد کے بعد دونوں انجاموں میں کس انجام تک پہنچے گا۔

اردو ترجمہ

پھر جس کا نامہ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faama man ootiya kitabahu biyameenihi

وہ لوگ جن کو ان کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ، ان سے اللہ راضی ہوگا ، یہ ایک بخت ہوں گے ، ایمان دار اور نیکوکار ہوں گے ، اللہ ان سے راضی ہوجائے گا اور ان کی نجات کا فیصلہ ہوجائے گا۔ ان لوگوں کے ساتھ نرمی کے ساتھ حساب ہوگا۔ اللہ کے کارندے زیادہ بازپرس نہیں کریں گے اور نہ حساب میں گہرائیوں تک جائیں گے۔ اس کی تصویر کشی احادیث رسول میں کی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان احادیث کو پڑھ لیاجائے تو مزید کسی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے ساتھ حساب میں مناقشہ کیا گیا اسے ضرور سزا ہوگی۔ فرماتی ہیں میں نے کہا : اللہ نے نہیں کہا ” اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا “ ۔ تو آپ نے فرمایا : ” یہ کامیابی حساب سے نہیں ہوگی بلکہ صرف پیشی سے ہوگی ، قیامت میں صورت یہ ہوگی کہ جس سے حساب لیا گیا ، اس کو سزا ہوگئی “۔ (بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی)

حضرت عائشہ ؓ سے ایک دوسری روایت ہے ، فرماتی ہیں کہ میں ایک نماز میں حضور اکرم سے سنا ” اے اللہ میرے ساتھ ہلکا حساب فرمانا “۔ جب حضور نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا کہ حضور ہلکا حساب کیا ہوتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ حساب کی کتاب کو دیکھ کر چشم پوشی کردی جائے اور جانے دیا جائے ۔ عائشہ ؓ اس دن جس سے پوچھ گچھ شروع ہوگئی وہ تو مارا گیا “۔ (احمد بشرط مسلم از عبداللہ ابن زبیر ؓ

غرض اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دے دیا گیا ، اس کے ساتھ حساب یسیر ہوگا اور وہ نجات پاجائے گا۔

اردو ترجمہ

اُس سے ہلکا حساب لیا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasawfa yuhasabu hisaban yaseeran

اردو ترجمہ

اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش خوش پلٹے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayanqalibu ila ahlihi masrooran

وینقلب .................... مسرورا (9:84) ” اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش خوش پلٹے گا “۔ یعنی ان لوگوں کی طرف جو اس سے پہلے جنت میں جاچکے ہوں گے۔ اس انداز تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں بھی ہم خیال لوگ آئے ہوں گے۔ اور ہر شخص اپنے صالح اہل و عیال اور دوستوں میں ہوگا۔ نجات پانے والے شخص کی تصویر کشی اسی طرح ہے کہ یہ یاروں ، دوستوں اور اپنے خاندان والوں کی طرف فرحاں و شاداں جارہا ہوگا اور اسے نجات اور ملاقات کی دوہری خوشی ہوگی اور پھر جنتوں میں۔

یہ تو تھی دائیں بازو والوں کی صورت حالات ، اس کے مقابلے میں بالکل ایک مختلف صورت حالات بھی ہے ان لوگوں کی جو پکڑے جائیں گے ، اپنے برے اعمال کی پاداش میں۔ یہ لوگ تو اپنا اعمال نامہ لینا بھی نہ چاہیں گے۔

اردو ترجمہ

رہا وہ شخص جس کا نامہ اعمال اُس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma man ootiya kitabahu waraa thahrihi

واما من .................................... سعیرا (10:84 تا 12) رہے وہ لوگجن کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا تو وہ موت کو پکارے گا اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جاپڑے گا “۔ ایسے مناظر کی تصویر کشی اس سے قبل قرآن کریم میں اس طرح کی گئی ہے کہ کامیاب ہونے والوں کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا اور اہل جہنم کا بائیں ہاتھ میں۔ لیکن یہاں کی تصویر ذرا مختلف ہے۔ یہاں تصویر میں نظر یوں آتا ہے کہ اہل جہنم کو ان کا اعمال نامہ پیٹھ کے پیچھے سے دیا جارہا ہے۔ لہٰذا تصویر میں کوئی تضاد نہیں ہے بائیں ہاتھ میں پیچھے سے دیا جارہا ہے۔ یہ ایسے شخص کی تصویر ہے جو نامہ اعمال نہیں لینا چاہتا ہے ، وہ سامنا نہیں کرسکتا ، سخت پریشان وگریزاں ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ اعمال نامے ، دائیں ہاتھ میں دیئے جانے اور بائیں ہاتھ میں دیئے جانے کی کیفیات سے واقف نہیں ہیں ۔ ہم صرف یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے لوگ نجات پانے والے ہیں اور جنت میں جائیں گے اور دوسرے لوگ ناکام ونامراد ہونے والے ہیں اور جہنم میں جائیں گے اور ہلاک ہوں گے۔ اصل مقصود یہی بات ہے نہ یہ کہ کیفیت کیسی ہوگی۔ اور قرآن کریم نے جو شکل و صورت بیان کی ہے اس سے بہرحال انسان پر گہرے اثرات پڑے ہیں۔ اور انسان خوف کے مارے کانپ اٹھتا ہے۔ حقیقت احوال اللہ ہی کے علم میں ہے کہ یہ مراحل کس طرح طے ہوں گے۔

یہ بدبخت جس نے زمین پر بھی اپنی زندگی ان تھک جدوجہد میں گزاری اور تھک تھکا کر اللہ کے سامنے پہنچا لیکن معصیت اور نافرمانی میں اوبا ہوا ، گناہوں کے بوجھ سے لدا پھندا۔ اب یہاں آکر اپنے انجام کو جان لیتا ہے۔ انجام بد سے دوچار ہوتا ہے۔ اب جانتا ہے کہ اب تو اس کی نہ ختم ہونے والی مشقت شروع ہوگئی ، تو یہ بدبخت اب موت کو پکارتا ہے ، موت دائمی موت اور فنا کی استدعا کرتا ہے تاکہ وہ اس بدبختی سے بچ جائے جو سا پر آنے ہی والی ہے۔ یاد رہے کہ انسان موت کی آغوش میں پناہ اس وقت لیتا ہے جب وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی اور راہ نجات نہیں ہے۔ نہ کوئی جائے فرار ہے تو اس وقت موت اس کی آخری تمنا ہوتی ہے ، یہ مفہوم متنبی نے اس شعر میں سمودیا ہے۔

کفی بک داء ان تری الموت شافیا

وحسب المنایا ان یکن امانیا

” اس سے بڑی اور کیا ہوگی کہ تم موت کو شفا سمجھنے لگو اور یہ مشقت کافی ہے کہ موت آرزو بن جائے ( اور آئے نہیں) “۔

لہٰذا اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوگی ، اور اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہوگی کہ وہ ویصلی سعیرا (12:84) ” اور بڑھکتی ہوئی آگ میں جاپڑے گا “۔ اور یہ شخص اب موت کی تمنا کرے گا جو کبھی پوری نہ ہوگی .... اب ذرا ایک جھلک اس شخص کے ماضی کی یہاں دکھادی جاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ اس انجام تک پہنچا۔

اردو ترجمہ

تو وہ موت کو پکارے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasawfa yadAAoo thubooran

اردو ترجمہ

اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جا پڑے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayasla saAAeeran

اردو ترجمہ

وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahu kana fee ahlihi masrooran

انہ کان .................... مسرور (13:84) ” وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا “۔ یہ حاضر وموجود کا فدائی تھا ، غلام تھا ، اور مستقبل سے غافل تھا۔ یہ اس بات سے لاپرواہ تھا کہ قیامت کے میدان میں اسے کیا پیش آنے والا ہے۔ یہ قیامت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا اور نہ اس کے لئے کوئی تیاری کرتا تھا۔

اردو ترجمہ

اُس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahu thanna an lan yahoora

انہ کان ........................ یحور (14:84) ” وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا۔ اس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں ہے “۔ یہ حالت تو اس کی دنیا میں تھی اور وہ تو چلی گئی۔ آج تو قرآن ہمیں قیامت کے میدان میں لے گیا ہے اور دنیا تو بیت گئی ہے اور یہاں حساب و کتاب ہورہا ہے اور قرآن انداز نے زمان ومکان کو لپیٹ کر رکھ دیا ہے۔

انہ طن .................... یحور (14:84) ” اس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں ہے “۔ رب کی طرف پلٹ کر نہیں جانا ہے۔ اگر اس نے یہ سمجھا ہوتا کہ اللہ کے سامنے جانا ہے تو یہ اس حاضری کے لئے تو تیاری کرتا اور آخرت کو کچھ تو اہمیت دیتا لیکن اس کو یقین نہ تھا بلکہ ظن یہ تھا کہ قیامت ہی نہیں ہے۔

اردو ترجمہ

پلٹنا کیسے نہ تھا، اُس کا رب اُس کے کرتوت دیکھ رہا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bala inna rabbahu kana bihi baseeran

بلی ان ................................ بہ بصیرا (15:84) ” پلٹنا کیسے نہ تھا ، اس کا رب اس کے کرتوت دیکھ رہا تھا “۔ اس کا ظن یہ تھا کہ اللہ کی طرف لوٹ کر ہی نہیں جانا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا رب تو اس کے حالات سے باخبر تھا ، اس کی حقیقت کو گھیرے میں لیے ہوئے تھا ، اس کے تمام اقدامات ، اور تمام حرکات سے واقف تھا ، اللہ کو معلوم تھا کہ اس نے کس انجام تک پہنچنا ہے اور یہ کہ اللہ نے اس کو اس کے کیے کی سزا دینی تھی ، چناچہ ایسا ہی ہوا ، جب اللہ کے علم کے مطابق اس نے اپنی زندگی جہنم کے مطابق گزار دی ، اور اس نے ایسا ہی کرنا تھا۔

اس بدبخت کی تصویر کے بالمقابل ایک دوسرے شخص کی تصویر ہے جو نیک بخت ہے ، اگرچہ یہ اپنی دنیا کی محدود زندگی میں اپنے گھر والوں کے دائرے کے اندر ہی خوش وخرم تھا لیکن اس کی زندگی مجموعی طور پر کسی نہ کسی طرح پر مشقت تھی۔ اس کے مقابلے میں یہ نیک بخت اب آخرت میں اپنے اہل و عیال کی طرف خوش وخرم لوٹ رہا ہے۔ یہ دنیا کی زندگی تو مختصر اور محدود تھی لیکن اخروی زندگی طویل اور لامحدود ہے۔ یہ زندگی اب بےقید ہے ، خوشگوار ہے ، طویل ہے اور ہر قسم کی مشقت اور پریشانی اور تھکاوٹ سے خالی ہے۔

اب قارئین اس طویل اور گہرے سفر سے فارغ ہوتے ہیں۔ اس میں انہوں نے بےشکار مناظر دیکھے اور تاثرات لئے ، اب سیاق کلام انہیں اس کائنات کے ایسے لمحات میں لے جاتا ہے جن میں ان کی زندگی بسر ہورہی ہے۔ یہاں انسانوں کو اس کائنات کے وہ مناظر دکھائے جاتے ہیں جن میں خود حضرت انسان کا منظر بھی ہے یہ چیزیں اس بات پر گواہ ہیں کہ انسان اور اس کے گرد پھیلی ہوئی یہ کائنات ایک گہری تدبیر اور نہایت ہی باریک اندازے اور تقدیر کے مطابق چل رہی ہے اور اس دنیا کے اور انسان کے بدلتے ہوئے لمحات و حالات اس گہری تدبیر اور تقدیر کے نتیجے میں ہیں۔

اردو ترجمہ

پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fala oqsimu bialshshafaqi

یہ چند مناظر ہیں ، قرآن کریم ان کی قسم کھا کر قلب انسانی کو ان کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ان پر غور کرو ، اس طرح انسانی دل و دماغ کو اشارات اور تاثرات سے بھر دیا جاتا ہے۔ انسانی زندگی کے یہ لمحات ایک خاص نوعیت رکھتے ہیں ، ان میں ایک طرف خشوع اور دھیما پن ہے اور دوسری طرف پر جلال ہیبت ہے۔ جس طرح سورت کا آغاز پر جلال دھیمے مناظر سے تھا ، یہ لمحات اور مناظر بھی ایسے ہی ہیں۔

شفق کا وقت وہ ہوتا ہے جس میں ہر چیز سہم جاتی ہے ، غروب کے بعد نفس انسانی پر بھی ایک گہری خاموشی اور خوف کے سائے پڑجاتے ہیں۔ انسانی سوچ ان کو الوداع کہتی ہے اور الوداع میں ہمیشہ خاموشی اور دکھ کے سائے ہوتے ہیں اور پھر رات کے خوفناک لمحات آتے ہیں ، جن میں اندھیروں کی وحشت ہوتی ہے۔ اور آخر کار رات کی تاریکیوں میں ہر چیز لپٹ کر خاموش ہوجاتی ہے ، اور ایک مہیب سکون کی فضا ہوتی ہے۔

اردو ترجمہ

اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallayli wama wasaqa

والیل وما وسق (17:84) ” اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے “۔ رات اور اس میں جو کچھ جمع ہوتا ہے ، اور جن چیزوں کو وہ اٹھالیتی ہے۔ نام لیے بغیر ہر معلوم ونامعلوم چیز جو رات کے پردے میں آجاتی ہے جو کچھ رات میں جمع ہوتا ہے ، جن چیزوں کو وہ سینے سے لگالیتی ہے۔ ان میں تمام چیزیں ، تمام زندہ مخلوق ، تمام جذبات اور تمام خفیہ جہان آجاتے ہیں۔ وہ تمام چیزیں جو زمین پر چلتی ہیں یا جو انسانی ضمیر میں خفیہ طور پر جاری وساری ہیں۔ غرض را ہوار خیال دور تک جاکر واپس ہوتا ہے اور انسانی فکر اور سوچ ان تمام مناظر کا احاطہ نہیں کرسکتی جو قرآن کے اس مختصر سے فقرے کا مدلول ہیں۔

والیل وما وسق (17:84) ” قسم ہے رات کی اور ان چیزوں کی جو وہ کچھ سمیٹ لیتی ہے “۔ جس سے انسانی شعور پر خضوع وخشوع اور خوفناک اور مہیب سکون کی حالت طاری ہوجاتی ہے اور یہ حالت شغق اور رات کے چھانے کی حالت سے ہم آہنگ ہے۔

اردو ترجمہ

اور چاند کی جب کہ وہ ماہ کامل ہو جاتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalqamari itha ittasaqa

والقمر اذا تسق (18:84) ” اور قسم ہے چاند کی جبکہ وہ ماہ کامل بن جائے “۔ یہ بھی ایک دھیما اور سحر انگیز خوبصورت منظر ہے۔ چاند جن راتوں میں مکمل ہوتا ہے۔ اور زمین پر اپنا ٹھنڈا ، دھیما اور فکر انگیز نور بکھیرتا ہے۔ خاموشی ، ٹھنڈے ماحول میں کیا ہی خوبصورت نظارہ ہوتا ہے۔ مادی اور ظاہری بھی اور معنوی اور فکری بھی۔ یہ ایک ایسا نظارہ اور سفر ہے جو شام ، شفق اور ات کے چھاجانے سے ہم آہنگ ہے ، اسی نظارے کے بنیادی عناصر جمال و جلال اور خضوع وخشوع اور خاموشی اور سکون ہیں۔

یہ عظیم کائناتی مناظر ، نہایت ہی خوبصورت ، نہایت ہی فکر انگیز ، اور نہایت مرعوب کن ، تیز رفتار جھلکیوں کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں اور انسانی قلب ونظر سے مخاطب ہوتے ہیں ، ان دلوں کو جو اس کائنات کی پکار کو نہیں سنتے۔ ان مناظر کی قسم اٹھائی جاتی ہے تاکہ انسانی قلب وضمیر پر اثر ہو اور وہ ان کی تروتازگی ، ان کی خوبصورتی اور ان کے اشارات اور ان کے اثرات کو قبول کرسکے اور اس ہاتھ کو دیکھ سکے جس نے اس کے خطوط کو متعین کیا ہے اور جو ان مناظر اور جھلکیوں کو پے درپے سامنے لاتا ہے ، ان جھلکیوں میں یہ مناظر بھی ہوتے ہیں اور لوگ بھی بدلتے ہیں اور ان کے حالات بھی بدلتے ہیں ، لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ان مناظر کو دیکھتے ہوئے بھی لوگ غافل ہیں۔

اردو ترجمہ

تم کو ضرور درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Latarkabunna tabaqan AAan tabaqin

لترکبن ........................ طبق (19:84) ” تم کو ضرور درجہ بدرجہ ایک مشکل حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے “۔ یعنی ایک صورت حال کے بعد دوسری صورت حال سے تمہیں دوچارہونا پڑے گا۔ جس طرح اللہ نے تمہارے مقدر میں لکھا ہوا ہے۔ یہاں ایک حال سے دوسرے حال کی تبدیلی کے لئے ” سواری “ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ عربی میں مشکلات سے دوچارہونے کے لئے معاملات ، خطرات ، حالات اور مشکلات پر سوار ہونے کا محاورہ عام ہے۔ کیا جاتا ہے۔

ان المضطر یر کب الصعب من الامور وھو عالم برکوبہ ” مشکلات میں گھرا ہوا شخص مشکلات پر سوار ہوجاتا ہے اور وہ اس بات کو جانتا ہے کہ وہ ان پر کس طرح سوار ہو یعنی قابو پائے “ تحریک اسلامی کو پیش آنے والے حالات ومشکلات ایک کے بعد ایک سخت ترین مراحل کی شکل میں آئیں گے۔ اور یہ حالات اللہ کی تقدیر اور مشیت کے مطابق آئیں گے جو اس راہ میں لوگوں کو چلاتی ہے ، اور دست قدرت ان کو ایک انتہا تک پہنچاتا ہے۔ جہاں سے دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ جس طرح شفق نمودار ہوتا ہے ، رات آتی ہے اور چھا جاتی ہے ، چاند نمودار ہوتا ہے اور ماہ کامل بن جاتا ہے یہاں تک انسان اس سفر کو طے کرکے اللہ تک پہنچ جائیں جیسا کہ سابقہ پیراگراف میں تصریح کی گئی۔ پے درپے ہم آہنگ پیراگراف اور فقرات کا آنا ، ایک مفہوم اور فکر سے دوسری سوچ اور معنی اخذ کرنے چلے جانا ، اور ایک نظارے سے دوسرے نظارے تک پہنچنا ، یہ قرآن کریم کا پر اعجاز اور انوکھا انداز ہے جس کی نقل اتارنا ممکن نہیں ہے۔

ان مناظر اور اشارات اور ان مشاہدات اور خوشگوار لمحات کی فضا ، جو اس پوری سورت میں یکے بعد دیگرے آئے۔ ان کے ذکر کے بعد اب ایک عقلمند انسان پر تعجب کیا جاتا ہے کہ ان دلائل ایمان کے باوجود وہ ایمان نہیں لاتا حالانکہ اس کائنات میں اور خودان کے نفوس میں وافر مقدار میں واضح دلائل موجود ہیں۔

اردو ترجمہ

پھر اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fama lahum la yuminoona

ہاں اس بات کے لئے ان کے پاس کوئی وجہ جواز نہیں ہے ، اس کائنات کے مناظر میں ، اور خود انسانوں کے نفوس میں اس قدر شواہد اور آثار ہیں کہ قلب انسانی جدھر بھی متوجہ ہو ، وہ اسے دعوت نظارہ دیتے ہیں جہاں بھی زندہ فکرہو ، یہ شواہد بڑھ چڑھ کر سامنے آتے ہیں۔ یہ آثار و شواہد اس قدر کثرت سے ہیں ، اس قدر قوی ہیں اور اس قدر گہرے ہیں کہ اگر کسی بشر کا دل ان کی طرف ذرا بھی ملتفت ہو ، متوجہ ہو تو وہ اسے گھیر لیتے ہیں۔ اگر وہ ان کی طرف کان دھرے ، متوجہ ہو اور ان کی بات سنے تو یہ شواہد ہر جگہ اس کے ساتھ سرگوشیاں کرتے ہیں اور بآواز بلند بھی بات کرتے ہیں۔

فمالھم .................... یسجدون (21:84) السجدة ” پھر ان کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جائے تو سجدہ نہیں کرتے “۔ قرآن ان کے ساتھ فطری زبان میں بات کرتا ہے ، اور انفس وآفاق میں جو دلائل فطرت اور اشارات ایمان پائے جاتے ہیں ان کے لئے ان کے دلوں کو کھولتا اور دلوں میں تقویٰ ، اطاعت اور خضوع وخشوع کے جذبات ابھارتا ہے اور یہی انسانی قلوب کے لئے سجدہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ کائنات بہت ہی خوبصورت ہے ، اس کے اندر ہر طرف اشارات قدرت ہیں ، اس کے اندر ایسی تجلیات اور ایسے انوار اور ایسے مناظر موجود ہیں جو قلب انسانی کو خضوع وخشوع کے جذبات سے بھردیتے ہیں۔

پھر یہ قرآن بھی خوبصورت اور اشاراتی ہے اور اس کے اندر بھی ایسے اشارات ، ایسے مناظر اور شواہد ہیں جو قلب ، بشری کا تعارف اس کائنات اور رب کائنات سے کراتے ہیں۔ اور انسان کے دل و دماغ میں اس عظیم کائنات کے عظیم حقائق ڈال کر اسے اس کائنات کے بزرگ و برتر خالق کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ کیا ہی شان ہے۔

فمالھم .................... یسجدون (21:84) السجدة ” پھر ان کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جائے تو سجدہ نہیں کرتے “۔

یہ حقیقت ہے کہ یہ ایک عجیب طرز عمل ہے۔ اور اس طرز عمل کے ذریعہ اب بات کا رخ اس عجیب مخلوق کی طرف مڑجاتا ہے ، یعنی کفار کی طرف اور بتایا جاتا رہے کہ کیا ہی برا انجام ان کے انتظار میں ہے۔

اردو ترجمہ

اور جب قرآن اِن کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha quria AAalayhimu alquranu la yasjudoona

اردو ترجمہ

بلکہ یہ منکرین تو الٹا جھٹلاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bali allatheena kafaroo yukaththiboona

اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ تکذیب کرنے پر تل گئے ہیں ، جھٹلانا ان کا مزاج ثانی بن گیا ہے۔ تکذیب ان کی علامت ہے لیکن ان کے دلوں کے اندر جو بیماریاں ہیں اور جن کی وجہ سے انہوں نے تکذیب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے۔ اللہ انہیں خوب جانتا ہے۔ یہ محض شرارت ہے اور برے مقاصد ہیں جو تکذیب کا سبب بن رہے ہیں۔

اب ان کی بات یہاں ختم ہوتی ہے اور روئے سخن براہ راست حضور اکرم ﷺ کی طرف پھرجاتا ہے۔

اردو ترجمہ

حالانکہ جو کچھ یہ (اپنے نامہ اعمال میں) جمع کر رہے ہیں اللہ اُسے خوب جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAllahu aAAlamu bima yooAAoona

اردو ترجمہ

لہٰذا اِن کو دردناک عذاب کی بشارت دے دو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fabashshirhum biAAathabin aleemin

فبشرھم ............ الیم (24:84) ” لہٰذا ان کو درد ناک عذاب کی بشارت دے دو “۔ کیا ہی بری خوشخبری ہے جس میں کوئی مسرت نہیں ، جس کو پانے والا پسند ہی نہیں کرتا۔ نہ ایسی خوشخبری کا کوئی انتظار کرتا ہے۔ اور اہل ایمان جو تکذیب نہیں کرتے۔ ان کے لئے کیا کیا تیاریاں ہیں ؟ جو عمل صالح کے ذریعہ قیامت کی تیاریاں کرتے ہیں تو اسے تکذیب کرنے والوں کے انجام سے مستثنیٰ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

البتہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati lahum ajrun ghayru mamnoonin

عربی زبان میں اسے استثنائے منقطع کیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ کفار کو جو ناگوار اور سیاہ خوشخبری دی گئی ہے یا سیاہ وارنٹ دیا گیا ہے اس میں اہل ایمان کو شامل ہی نہ تھے ، لیکن اس استثنائی انداز سے مقصود یہ ہے کہ جن لوگوں کو مستثنیٰ کیا گیا وہ بہت ہی خوش قسمت ہیں۔

اور اجر غیر ممنون کیا ہے ، وہ جو ختم نہ ہو ہمیشہ باقی رہنے والا دائمی اجر۔ اس فیصلہ کن ضرت پر یہ سورت ختم ہوتی ہے۔ یہ ایک مختصر سورت ہے ، چند سطری لیکن وسیع اور فکر انگیز موضوعات بحث پیش کرتی ہے۔

589