سورہ نصر (110): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Nasr کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النصر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نصر کے بارے میں معلومات

Surah An-Nasr
سُورَةُ النَّصۡرِ
صفحہ 603 (آیات 1 سے 3 تک)

سورہ نصر کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

جب اللہ کی مدد آ جائے اور فتح نصیب ہو جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha jaa nasru Allahi waalfathu

“۔ اس سورت کی پہلی آیت ہی میں ایک متعین اشارہ ہے ، اور یہ اشارہ کائناتی واقعات کے بارے میں ایک خاص تصویر پیدا کرتا ہے اور اس تصور میں یہ بتلایا جاتا ہے کہ ان واقعات میں اہل ایمان کا کردار کیا ہے اور نبی کریم ﷺ کا کردار کیا ہے۔ اور انسانی زندگی اور ان کائناتی واقعات وحادثات میں اہل ایمان اور نبی کے دائرہ کار کی حد کیا ہے۔ یہ اشارہ اس فقرے میں ہے۔

اذا جآء ........................ والفتح (1:110) ” جب اللہ کی مدد پہنچ جائے “ میں ہے۔ تمام دارومدار اللہ کی نصرت پر ہے اور اللہ کا وقت مقرر ہے ، جس شکل میں نصرت آئے گی وہ بھی متعین ہے ، جس مقصد کے لئے یہ نصرت ہوگی وہ بھی مقرر ہے۔ نبی اور اس کے ساتھیوں کا اس کی آمد کے سلسلے میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ اور نہ ان کا نصرت الٰہیہ میں کچھ کردار ہے۔ نہ اس نصرت کے سلسلے میں ان کی ذاتی کمائی کا کوئی دخل ہے۔ نہ ان کی ذاتوں کا کوئی حصہ ہے۔ یہ نصرت ایک ایسا واقعہ ہے جو اللہ کے فیصلے کے مطابق ان کی شخصیات سے نہیں ، باہر سے آتی ہے۔ ان کے لئے یہی اعزاز کافی ہے کہ اللہ یہ نصرت بظاہر ان کے ذریعہ لاتا ہے اور ان کو اس نصرت کا چوکیدار مقرر کرتا ہے اور اس نصرت اور فتح کے امین ہوتے ہیں۔ پس فتح ونصرت میں ان کا حصہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ جوق درجوق دین اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ بھی اور دوسرے لوگ بھی۔

اس اشارے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فکر کی روشنی میں ۔ اس اعزاز اور تکریم کے حوالے سے جو ان کے ہاتھوں نصرت اور فتح کے ظہور کے سلسلے میں ہوا۔ رسول اللہ اور آپ کے ساتھیوں کی حیثیت کا تعین ہوجاتا ہے۔ ان کی شان اور حیثیت اب یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوکر سراسر سپاس بن جائیں۔ اللہ کی حمدوثنا کریں اور اپنی کوتاہیوں پر مغفرت کی دعا کریں۔ یہ حمدوثنا اور شکر اس بات پر کہ اللہ نے ان کو اسلامی انقلاب کا امین اور نگراں بنایا اور اپنے دین کی نصرت فرما کر اور اسے غالب فرما کر پوری انسانیت پر احسان فرمایا۔ رسول اللہ فاتح ہوئے ، لوگ فوج درفوج اس خبرکثیر میں داخل ہوئے حالانکہ اس سے قبل وہ اندھے تھے ، گمراہ تھے اور سخت خسارے میں تھے۔

استغفار کس لئے ، یہ ان نفسیاتی عوامل کے لئے ہے جو نہایت لطیف انداز میں دلوں میں داخل ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب کوئی قوت ایک طویل اور انتھک جدوجہد کے بعد برسراقتدار آتی ہے تو فتح و کامرانی کے نشے میں اس کی نفسیات میں ایک قسم کا غرور چپکے سے داخل ہوجاتا ہے ، پھر مشکلات اور قربانیوں کے بعد انسان سے خوشیوں میں کچھ کو تاہیاں بھی ہوجاتی ہیں ، ان خفیہ نفسیاتی وائرس سے صرف توبہ و استغفار کے ذریعہ بچا جاسکتا ہے ، اس لئے یہاں استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔

یہ استغفار اس لئے بھی ہے کہ طویل جدوجہد کے زمانے میں انتھک حالات کے نتیجے میں شدید مشکلات اور نہایت گہرے کربناک حالات کی وجہ سے انسانی قلب میں گھٹن آجاتی ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اللہ کی نصرت کے پہنچے میں دیر ہوگئی ہے ، اور داعی کو ہلامارا جاتا ہے۔ جیسا کہ بقرہ (114) میں کہا گیا ہے۔

ام حسبتم .................................... اللہ قریب (214:2) ” کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاﺅ گے حالانکہ ابھی تمہیں ان حالات سے سابقہ پیش نہیں آیا جن سے تم سے پہلے اہل ایمان کو سابقہ پیش آیا تھا۔ وہ فقر وفاقہ اور شدائد وآلام سے دوچار ہوئے اور ہلا مارے گئے یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ کے اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ، سنو اللہ کی مدد قریب ہے “۔ اس لئے حکم دیا گیا کہ استغفار کرو۔

استغفار کا حکم اس لئے بھی دیا گیا کہ اللہ کی حمدوثنا میں انسان سے تقصیر ہوجاتی ہے۔ پس انسان کی جدوجہد جس قدر بھی زیادہ ہو ، وہ محدود ہوتی ہے اور انسان ضعیف ہے۔ اور اللہ کی نعمتیں ہمیشہ بیشمار ہیں اور اس کا فیض عام ہے۔

وان تعدو ........................ تحصوھا (34:14) ” اگر تم اللہ کے احسانات کو شمار کرو تو تم ان کا استعصا اور احاطہ نہیں کرسکتے “۔ لہٰذا اس تقصیر پر استغفار کا حکم دیا گیا۔

فتح و کامرانی کے موقعہ پر تسبیح و استغفار میں ایک لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ فخر ومباہات کے مقام پر نفس کے اندر یہ شعور پیدا کیا جائے کہ انسان تو ہمیشہ عجز اور تقصیر کے مقام پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے چاہئے کہ وہ بڑوں کی سطح سے ذرا نیچے اتر آئے۔ اور اپنے رب سے اپنی تقصیرات کی معافی طلب کرے۔ اس طرح انسانی شعور اور انسانی نفسیات سے فخرومباہات کے میلانات کا صفایا ہوجاتا ہے۔

اگر ایک فاتح کے دل میں یہ شعور بیٹھ جائے کہ وہ عجز اور تقصیر کا پتلا ہے اور اسے اپنی تقصیرات پر اللہ سے دعائے مغفرت کرنا چاہئے تو ایسا فاتح کبھی بھی مفتوح لوگوں پر ظلم اور تعدی کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔ ایسا شخص تو یوں سوچتا ہے کہ یہ تو اللہ کی ذات ہے جس کی نصرت کی وجہ سے وہ ان لوگوں پر مقتدر اعلیٰ بن گیا ہے۔ اگر اللہ کی نصرت نہ ہوتی تو وہ توبندہ ناچیز دیر تقصیر ہے اور اللہ نے جو اس کو اقتدار دیا ہے تو یہ اس لئے دیا ہے کہ اللہ مفتوح لوگوں کے بارے میں کوئی خیر اور بھلائی چاہتا ہے۔ درحقیقت فتح تو اللہ کی نصرت سے میسر ہوتی ہے۔ نصرت بھی اس کی ہے اور فتح بھی اس کی ہے اور یہ فاتح کی فتح نہیں بلکہ اللہ کے دین کی فتح ہے۔ اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور تمام فیصلے اللہ کی طرف لوٹتے ہیں۔

یہ ہے وہ روش اور بلند مرتبہ افق ، جس کے اوپر نظریں مرکوز کرنے کے لئے قرآن پوری انسانیت کو دعوت دیتا ہے کہ وہ درجہ بدرجہ اس بلند افق تک بلند ہوتی چلی جائے۔ جو شرافت اور نیکی کا اعلیٰ مرتبہ ہے۔ اس تک پہنچ کر انسان بڑا بن جاتا ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنی بڑائی سے دستکش ہوجاتا ہے۔ یہاں اس کی روح آزاد ہوکر مسرت حاصل کرتی ہے۔ اس لئے کہ وہ اللہ کی غلامی اختیار کرلیتی ہے۔

غرض یہ ایک آزادی ہے جس میں انسان اپنی ذاتی اور مادی بندھنوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور انسان اللہ کی روحانی مخلوق میں سے ایک مخلوق بن جاتا ہے اور یہ ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ اللہ کی رضا اس کی رضا بن جاتی ہے اور یہ مقام حاصل کرنے کے بعد پھر وہ مجاہد بن جاتا ہے اور اس کی جدوجہد کا رخ یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلامی نظام کی صورت میں بھلائی کی نصرت کرے اور حق کو حقیقت بنادے اور پھر اسلامی نظام کے قیام کے بعد وہ اس زمین کو ایسی ترقی دے اور دنیا کو ایسی قیادت فراہم کرے کہ دنیا شروفساد سے پاک ہوجائے۔ یہ قیادت صالح ، پاک اور تعمیری ہو۔ اور اس کا مقصد ہر بھلائی کو پھیلانا اور ترقی دینا ہو۔ اور اس طرح تمام امور کا رخ اللہ کی طرف پھیر دے۔

انسان اگر اپنی ذات کے محدود کنویں کا مینڈک ہو اور اس میں قید ہو تو پھر اس کی آزادی کی مساعی عبث بن جاتی ہیں۔ وہ آزادی کے بعد اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے ۔ شہوات اور خواہشات میں گرفتار ہوتا ہے ۔ انسان اگر خواہشات نفسانیہ کے دائرہ نشیب سے آزاد نہ ہو تو دوسری آزادیاں عبث ہیں ۔ اسلام چاہتا ہے کہ دوسری آزادیوں کے ساتھ انسان نفسانی خواہشات سے بھی آزاد ہوجائے تاکہ وہ اللہ کو یاد کرے اور اس کا غلام ہو ۔

یہ ہیں آداب نبوت ، جو نبوت کے ساتھ لازم رہے ہیں اور اللہ کی مرضی یہ ہے کہ انسانیت ان آداب نبوت کے آفاق تک بلند ہوجائے ۔ اور اگر وہاں تک نہ بھی پہنچ سکے تو اس کی نظریں اس افق پر ہوں ۔ دیکھئے یوسف (علیہ السلام) اس مقام تک پہنچے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ مصر کے تمام خزائن اقتدار ان کے ہاتھ میں آچکے ہیں ۔ ان کا خواب سچا ہوچکا ہے ۔ انہوں نے جب والدین کو اپنے تخت پر اٹھایا تو بھائیوں نے ان کے سامنے سجدہ کیا ، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے والدین سے کہا کہ باپ ! یہ ہے میری خواب کی تعبیر ، اللہ نے اسے حقیقت بنادیا ۔ اللہ کا احسان دیکھئے کہ اس نے مجھے قید سے نکالا ، آپ لوگوں کو دیہات سے مصر لایا حالانکہ شیطان نے میرے بھائیوں کے درمیان نزاع ڈال دیا تھا۔ بیشک میرا رب لطیف تدابیر اختیار کرتا ہے اور وہ حکم وخبیر ہے۔

غرض ایسے موقعہ پر حضرت یوسف (علیہ السلام) بلندی ، سرفرازی اور خوشی اور انبساط کے ماحول سے نکل آتے ہیں اور ذکر وفکر مشغول ہوکر اپنے رب کی حمدوثنا کرتے ہیں۔ وہ اقتدار کے عروج پر ہیں ان کے تمام خواب حقیقت بن گئے ہیں لیکن ان کی دعوت یہ ہے :

رب قداتیتنی .................................... بالصلحین (101:12) ” اے میرے رب ! تو نے مجھے اقتدار بھی دیا ، اور مجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنے کا علم بھی دیا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا وآخرت میں میرا کار ساز ہے۔ مجھے اسلام پر موت دے اور نیکوکاروں کے زمرے میں مجھے شامل کر “۔ یہاں جاہ واقتدار پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ اہل و عیال اور بہن بھائیوں کا یہ اجتماع اور ایک عرصہ بعد رشتہ داروں اور والدین کی ملاقات کی خوشی کافور ہوجاتی ہے۔ اب اس آخری منظر میں ہمیں ایک ایسا فرد نظر آتا ہے جو رب تعالیٰ کے سامنے گڑگڑا رہا ہے اور سوال یہ ہے کہ میرا اسلام محفوظ ہو اور میری سوسائٹی صالحین کے ساتھ ہو۔ اور یہ مرتبہ اللہ کے فضل وکرم سے ہی مل سکتا ہے۔

اب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے آداب زندگی ملاحظہ ہوں۔ وہ بھی ایسے حالات میں ہیں کہ طرفتہ العین میں ملکہ سبا کا تخت ان کے سامنے ہے۔ دیکھئے قرآن ایسے حالات میں قوت وجاہ کے حالات میں ان کی کیفیات کس طرح ریکارڈ کرتا ہے۔

فلما راہ ............................................ غنی کریم (40:27) ” جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا پایا۔ تو وہ پکار اٹھے یہ میرے رب کے فضل وکرم سے ہے۔ یہ اس لئے کہ وہ مجھے آزمائے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا کفران نعمت کا مرتکب ہوتا ہوں۔ اور جو کوئی شکر کرے گا اپنے ہی لئے کرے گا اور جو ناشکری کرے گا میرا رب غنی اور بزرگ ہے “۔

اور یہی تھی حضرت محمد ﷺ کی روش۔ آپ کو اپنی پوری زندگی میں یہی ادب اختیار کیا اور نصرت وفتح کے موقعہ پر جسے اللہ نے آپ کے لئے خاص علامت قرار دیا تھا۔ تو حضور اپنی سواری کے اوپر جھکے ہوئے جارہے تھے۔ آپ مکہ میں اسی طرح سرجھکائے ہوئے داخل ہوئے۔ آج آپ اس مکہ میں جس نے آپ کو اذیتیں دی تھیں ، جس نے آپ کو گھر سے نکالا تھا۔ جس نے آپ کے ساتھ پے درپے جنگیں لڑیں ، جو آپ کی دعوت کی راہ میں معاندانہ طور پر ڈٹ گیا تھا۔ جب آپ کو نصرت اور فتح نصیب ہوئی تو آپ نے فتح و کامرانی کے شادیانے نہ بجائے۔ آپ رب کا شکر ادا کرتے ہوئے جھکے جارہے تھے۔ حمدوثنا میں مشغول تھے اور جس طرح رب تعالیٰ نے آپ کو تلقین کی تھی۔ آپ تسبیح وتہلیل اور استغفار کررہے تھے۔ جیسا کہ آثار میں آتا ہے کہ آپ کے بعد آپ کے صحابہ ؓ کا رویہ بھی ایسا ہی رہا۔ اللہ ان سے راضی ہو۔

یوں بشریت ایمان کے ذریعہ سر بلند ہوئی۔ انسانیت کا چہرہ روشن ہوگیا۔ وہ صاف و شفاف ہوگئی۔ اب انسانیت عظمت ، قوت اور آزادی کے مقام بلندتک پہنچ گئی۔

٭٭٭٭٭

اردو ترجمہ

اور (اے نبیؐ) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waraayta alnnasa yadkhuloona fee deeni Allahi afwajan

اردو ترجمہ

تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، اور اُس سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasabbih bihamdi rabbika waistaghfirhu innahu kana tawwaban
603