سورہ کہف (50): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Qaaf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ ق کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ کہف کے بارے میں معلومات

Surah Qaaf
سُورَةُ قٓ
صفحہ 518 (آیات 1 سے 15 تک)

قٓ ۚ وَٱلْقُرْءَانِ ٱلْمَجِيدِ بَلْ عَجِبُوٓا۟ أَن جَآءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ ٱلْكَٰفِرُونَ هَٰذَا شَىْءٌ عَجِيبٌ أَءِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۖ ذَٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِيدٌ قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ ٱلْأَرْضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِندَنَا كِتَٰبٌ حَفِيظٌۢ بَلْ كَذَّبُوا۟ بِٱلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ فَهُمْ فِىٓ أَمْرٍ مَّرِيجٍ أَفَلَمْ يَنظُرُوٓا۟ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَٰهَا وَزَيَّنَّٰهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ وَٱلْأَرْضَ مَدَدْنَٰهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَٰسِىَ وَأَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِيجٍ تَبْصِرَةً وَذِكْرَىٰ لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ وَنَزَّلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً مُّبَٰرَكًا فَأَنۢبَتْنَا بِهِۦ جَنَّٰتٍ وَحَبَّ ٱلْحَصِيدِ وَٱلنَّخْلَ بَاسِقَٰتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ ۖ وَأَحْيَيْنَا بِهِۦ بَلْدَةً مَّيْتًا ۚ كَذَٰلِكَ ٱلْخُرُوجُ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَٰبُ ٱلرَّسِّ وَثَمُودُ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَٰنُ لُوطٍ وَأَصْحَٰبُ ٱلْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ كُلٌّ كَذَّبَ ٱلرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ أَفَعَيِينَا بِٱلْخَلْقِ ٱلْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِى لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ
518

سورہ کہف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ کہف کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

ق، قسم ہے قرآن مجید کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaf waalqurani almajeedi

آیت 1{ قٓ قف وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ۔ } ”ق ‘ قسم ہے عظیم الشان قرآن کی۔“ قرآن کی تین سورتیں ایسی ہیں جن کے آغاز میں صرف ایک ایک حرفِ مقطعہ ہے۔ ان میں سورة قٓ کے علاوہ تیئسویں پارے کی سورة صٓ اور انتیسویں پارے کی سورة القلم یا سورة نٓ شامل ہیں۔ بہت سی دوسری سورتوں کے آغاز کی طرح اس سورت کے آغاز میں بھی قرآن مجید کی قسم کا مقسم علیہ محذوف ہے۔ بہرحال چونکہ سورة یٰسٓ کے آغاز میں قرآن حکیم کی قسم کا مقسم علیہ موجود ہے اس لیے اس قسم کا مقسم علیہ بھی وہی ہوگا ‘ یعنی { اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔ } یٰسٓ۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ اے محمد ﷺ قسم ہے اس عظیم الشان قرآن کی ‘ بیشک آپ مرسلین میں سے ہیں۔ اس قسم کے فوراً بعد دوسری آیت میں حضور ﷺ کا تعارف انذارِ آخرت کے حوالے سے کرایا گیا ہے جو اس سورت کا مرکزی مضمون ہے۔

اردو ترجمہ

بلکہ اِن لوگوں کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک خبردار کرنے والا خود اِنہی میں سے اِن کے پاس آگیا پھر منکرین کہنے لگے "یہ تو عجیب بات ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal AAajiboo an jaahum munthirun minhum faqala alkafiroona hatha shayon AAajeebun

آیت 2 { بَلْ عَجِبُوْٓا اَنْ جَآئَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ } ”بلکہ انہیں بہت عجیب محسوس ہوا ہے کہ ان کے پاس آیا ہے ایک خبردار کرنے والا ان ہی میں سے“ مُنْذِر کے معنی ہیں انذار کرنے والا ‘ خبردار warn کرنے والا۔ { فَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ہٰذَا شَیْئٌ عَجِیْبٌ۔ } ”تو کافروں نے کہا یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے۔“

اردو ترجمہ

کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک ہو جائیں گے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے)؟ یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aitha mitna wakunna turaban thalika rajAAun baAAeedun

آیت 3 { ئَ اِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا } ”کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی ہوجائیں گے تو ہم پھر سے زندہ کیے جائیں گے ؟ “ { ذٰلِکَ رَجْعٌم بَعِیْدٌ۔ } ”یہ لوٹایا جانا تو بہت دور کی بات ہے۔“ مر کر مٹی ہوجانے کے بعد ہمارا دوبارہ زندہ ہونا بالکل انہونی سی بات ہے ‘ یہ بعید از قیاس دعویٰ کر کے یہ صاحب بہت دور کی کوڑی لائے ہیں۔

اردو ترجمہ

زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad AAalimna ma tanqusu alardu minhum waAAindana kitabun hafeethun

آیت 4 { قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْہُمْ ج } ”ہم خوب جانتے ہیں کہ زمین ان میں سے کیا چیز کم کرتی ہے۔“ ”ہم“ کے صیغے کے ساتھ یہ شاہانہ اندازِ بیان ہے۔ انسانوں کے دفن ہونے کے بعد زمین ان کے جسموں کے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہے ‘ ہر انسان کا کون سا عضو کیسے ضائع ہوتا ہے اور پھر ان کے اجزاء کس کس صورت میں کہاں کہاں جاتے ہیں ‘ ہمیں ایک ایک چیز کا علم ہے۔ { وَعِنْدَنَا کِتٰبٌ حَفِیْظٌ۔ } ”اور ہمارے پاس تو ایک محفوظ رکھنے والی کتاب بھی موجود ہے۔“ ہمارے پاس ایک ایک چیز کا ریکارڈ موجود ہے۔ ان کے جسموں کو ہم نے مٹی سے پیدا کیا تھا اور ان کی موت کے بعد ان کے تمام اجزاء کو ہم مٹی میں ہی محفوظ رکھتے ہیں۔ قیامت کے دن اسی مٹی سے ہم انہیں نکال لیں گے : { مِنْھَا خَلَقْنٰـکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی۔ } طٰہٰ ۔ اس کے علاوہ ان کے ایک ایک عمل کی پوری تفصیل بھی ہم نے لکھ رکھی ہے اور ان کی ارواح بھی ہمارے پاس عِلِّیّین یا سِجِّین میں موجود ہیں۔ غرض ان کی کوئی چیز بھی ہمارے علم یا قبضے سے باہر نہیں ہے۔

اردو ترجمہ

بلکہ اِن لوگوں نے تو جس وقت حق اِن کے پاس آیا اُسی وقت اُسے صاف جھٹلا دیا اِسی وجہ سے اب یہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal kaththaboo bialhaqqi lamma jaahum fahum fee amrin mareejin

آیت 5 { بَلْ کَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہُمْ } ”بلکہ انہوں نے جھٹلا دیا حق کو جب کہ وہ ان کے پاس آیا“ { فَہُمْ فِیْٓ اَمْرٍ مَّرِیْجٍ۔ } ”سو اب وہ ایک بڑی الجھن میں مبتلاہو گئے ہیں۔“ ایک طرف تو جواب دہی اور احتساب کی باتیں ماننے کے لیے ان کی طبیعتیں آمادہ نہیں اور دوسری طرف اس بارے میں قرآن کی زبان میں حضور ﷺ کے دلائل ایسے قوی ہیں کہ انہیں جھٹلانا ان کے لیے ممکن نہیں۔ بس یہی الجھن ہے جس میں یہ لوگ پھنس چکے ہیں۔ اس کائنات کی ایک ایک چیز اس حقیقت پر گواہ ہے اور اس کا مربوط و مستحکم نظام بھی زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس کا خالق ایک علیم و حکیم ہستی ہے۔ پھر انسان کے اندر پائی جانے والی ”اخلاقی حس“ بھی اس کے اچھے برے اعمال کے ٹھوس اور حتمی نتائج کا تقاضا کرتی ہے جس کے لیے ایک دوسری زندگی کی ضرورت ہے۔ ان تمام حقائق و شواہد کی موجودگی میں ایک صاحب ِعقل اور ذی شعور انسان کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ کائنات بس ”رام کی لیلا“ ہے اور انسان کی اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔ چناچہ منکرین آخرت کے لیے ان حقائق کو تسلیم کیے بغیر چارہ بھی نہیں ‘ لیکن ان کی طبیعتیں ہیں کہ احتساب کے لیے تیار بھی نہیں۔ یہ انسان کی وہی نفسیاتی الجھن ہے جس کا ذکر غالب ؔنے اس شعر میں کیا ہے جو میں نے ابھی آپ کو سنایا ہے : ؎جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی !ان لوگوں کے قلوب و اذہان میں منفی خیالات و نظریات اس قدر راسخ ہوچکے ہیں کہ اب ان سے پیچھا چھڑانا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ دراصل انسان اپنے لڑکپن کی عمر میں جن عقائد و نظریات کا اثر قبول کرتا ہے وہ ساری عمر کے لیے اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انسان کی اس کمزوری کا نقشہ ایک انگریزی نظم The Cage میں بڑے حقیقت پسندانہ انداز میں دکھایا گیا ہے۔ یہ نظم میں نے اپنے انٹرمیڈیٹ کے زمانے میں پڑھی تھی۔ اس نظم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ان عادات کے ”پنجرے“ کا قیدی ہے جنہیں وہ لڑکپن کی عمر میں ایک ایک کرکے اپناتا ہے۔ گویا اس پنجرے کی سلاخیں اپنے لیے وہ خود تیار کرتا ہے۔ بقول شاعر :" I built these bars when I was young"”اس پنجرے کی سلاخیں میں نے اس وقت تیار کی تھیں جب میں جوان تھا“۔ جوانی میں انسان کے قویٰ مضبوط ہوتے ہیں۔ اس وقت وہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ اس کے ذہن پر نقش کا لحجر بن جاتا ہے اور پھر اپنی باقی عمر وہ ان عادات و نظریات کا قیدی بن کر پنجرے میں قید پرندے کی مانند گزار دیتا ہے۔ چناچہ یہ منکرین آخرت بھی اپنے غلط عقائد و نظریات کے خود ساختہ پنجروں کے قیدی ہیں۔ ان پنجروں کی سلاخیں وہ اس قدر مضبوط کرچکے ہیں کہ اب انہیں توڑ کر باہر نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔

اردو ترجمہ

اچھا، تو کیا اِنہوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا، اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afalam yanthuroo ila alssamai fawqahum kayfa banaynaha wazayyannaha wama laha min furoojin

آیت 6 { اَفَلَمْ یَنْظُرُوْٓا اِلَی السَّمَآئِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنٰـہَا وَزَیَّنّٰہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوْجٍ۔ } ”تو کیا انہوں نے دیکھا نہیں آسمان کی طرف جو ان کے اوپر ہے کہ ہم نے اسے کیسے بنایا ہے اور کیسے اسے مزین کیا ہے اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے۔“ اس آیت کی کماحقہ ّتشریح تو کوئی ماہر فلکیات ہی کرسکتا ہے۔ بہرحال آج کا انسان خوب جانتا ہے کہ ستاروں ‘ سیاروں اور کہکشائوں کا نظام بہت محکم و مربوط ہے اور یہ کہ اس نظام میں کسی رخنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔

اردو ترجمہ

اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں پہاڑ جمائے اور اُس کے اندر ہر طرح کی خوش منظر نباتات اگا دیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalarda madadnaha waalqayna feeha rawasiya waanbatna feeha min kulli zawjin baheejin

آیت 7 { وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰـہَا وَاَلْقَیْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ } ”اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا ہے اور ہم نے اس میں لنگر ڈال دیے ہیں“ ماہرین طبقات الارض Geologists بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زمین کی گردش کے دوران اس کا توازن isostacy برقرار رکھنے میں پہاڑوں کا انتہائی اہم کردار ہے۔ { وَاَنْبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍم بَہِیْجٍ۔ } ”اور ہم نے اس میں ہر طرح کی بڑی ہی رونق والی چیزیں جوڑوں کی شکل میں پیدا کردیں۔“

اردو ترجمہ

یہ ساری چیزیں آنکھیں کھولنے والی اور سبق دینے والی ہیں ہر اُس بندے کے لیے جو (حق کی طرف) رجوع کرنے والا ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tabsiratan wathikra likulli AAabdin muneebin

آیت 8 { تَـبْصِرَۃً وَّذِکْرٰی لِکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ۔ } ”یہ اللہ کی نشانیاں ہیں سجھانے اور یاد دہانی کرانے کو ہر اس بندے کے لیے جو رجوع رکھے ہوئے ہو۔“ عَبْدِ مُنِیْب سے ایسا بندہ مراد ہے جس کی روح اور فطرت کا رخ اللہ کی طرف ہو۔ مطلب یہ کہ اگر کسی انسان کی فطرت سلیم اور روح زندہ ہو تب ہی یہ ”بصائر“ اس کے لیے مفید ہوں گے۔ ایسی صورت میں اسے کائنات میں بکھری اللہ کی نشانیاں نظر بھی آئیں گی اور ان نشانیوں سے اس کے دل میں خالق حقیقی کی ”یاد“ بھی تازہ ہوتی رہے گی۔ لیکن اگر کسی انسان کی فطرت مسخ اور روح مردہ ہوچکی ہو تو اس کا ”دیکھنا“ اور ”سننا“ اس کے لیے ہرگز مفید نہیں ہوگا۔ سورة الغاشیہ کی ان آیات کا انداز بھی اس حوالے سے بہت بصیرت افروز ہے :{ اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ۔ وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ۔ وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ۔ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ۔ }”کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹوں کو کہ کیسے پیدا کیے گئے ہیں ؟ اور آسمان کو کہ کیسے بلند کیا گیا ہے ؟ اور پہاڑوں کو کہ کیسے گاڑدیے گئے ہیں ؟ اور زمین کو کہ کیسے بچھا دی گئی ہے ؟“یعنی پوری کائنات میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں موجود ہیں ‘ جو انسان کو قدم قدم پر یاد دلاتی ہیں کہ ہرچیز کا خالق اور صورت گر وہی ہے : { ہُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰیط } الحشر : 24 ”وہی ہے اللہ ‘ پیدا کرنے والا ‘ وجود بخشنے والا ‘ صورتیں بنانے والا ‘ تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔“ اقبال نے ”آیاتِ خداوندی“ کے مشاہدے کی دعوت ان الفاظ میں دی ہے : ؎کھول آنکھ ‘ زمین دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ !

اردو ترجمہ

اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا، پھر اس سے باغ اور فصل کے غلے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wanazzalna mina alssamai maan mubarakan faanbatna bihi jannatin wahabba alhaseedi

آیت 9 { وَنَزَّلْـنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً مُّبٰـرَکًا } ”اور ہم نے آسمان سے اتارا برکت والا پانی“ لفظ ”برکت“ میں کسی چیز کی خفتہ صلاحیت کو ترقی دینے کا مفہوم پایاجاتا ہے۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی متعدد بار وضاحت ہوچکی ہے کہ بارش کا پانی زمین کی قوت نمو کو جلا بخشتا ہے اور اس کی روئیدگی کو اجاگر کرنے کا باعث بنتا ہے اور اسی پہلو سے یہ مبارک ہے۔ { فَـاَنْبَتْنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیْدِ۔ } ”تو ہم نے اگایا اس کے ذریعے سے باغات کو اور ان فصلوں کو جو کٹ جاتی ہیں۔“ الفاظ کی یہ ترتیب منطقی اور بہت خوبصورت ہے۔ جَنّٰت سے درختوں کے باغات مراد ہیں اور درختوں کو کاٹا نہیں جاتا ‘ صرف ان کے پھل اتارے جاتے ہیں۔ دوسری طرف اناج کی فصل جیسے گندم کی فصل پودوں سمیت کاٹ لی جاتی ہے ‘ اس لیے اس کے لیے حَبَّ الْحَصِیْدِ کی ترکیب آئی ہے۔

اردو ترجمہ

اور بلند و بالا کھجور کے درخت پیدا کر دیے جن پر پھلوں سے لدے ہوئے خوشے تہ بر تہ لگتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalnnakhla basiqatin laha talAAun nadeedun

آیت 10 { وَالنَّخْلَ بٰسِقٰتٍ لَّــہَا طَلْعٌ نَّضِیْدٌ۔ } ”اور کھجوروں کے بلند وبالا درخت جن کے خوشے ہیں تہ بر تہ۔“

اردو ترجمہ

یہ انتظام ہے بندوں کو رزق دینے کا اِس پانی سے ہم ایک مُردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں (مرے ہوئے انسانوں کا زمین سے) نکلنا بھی اِسی طرح ہو گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rizqan lilAAibadi waahyayna bihi baldatan maytan kathalika alkhurooju

آیت 11 { رِّزْقًا لِّلْعِبَادِلا وَاَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًاط } ”یہ سب رزق ہے بندوں کے لیے ‘ اور اسی پانی سے ہم زندہ کردیتے ہیں مردہ زمین کو۔“ { کَذٰلِکَ الْخُرُوْجُ۔ } ”اسی طریقے سے نکلنا ہوگا تمہارا بھی۔“ جس طرح بارش کے پانی کے باعث خشک اور بنجر زمین سے طرح طرح کی نباتات اُگ آتی ہیں اسی طرح تم بھی ہمارے حکم سے زندہ ہو کر زمین سے نکل آئو گے۔

اردو ترجمہ

اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم، اور اصحاب الرس، اور ثمود

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kaththabat qablahum qawmu noohin waashabu alrrassi wathamoodu

آیت 12{ کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوْدُ۔ } ”جھٹلایا تھا ان سے پہلے بھی نوح علیہ السلام کی قوم نے ‘ کنویں والوں نے اور قوم ثمود نے۔“ یہ انباء الرسل کا تذکرہ ہے لیکن انتہائی مختصر انداز میں۔

اردو ترجمہ

اور عاد، اور فرعون، اور لوطؑ کے بھائی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAAadun wafirAAawnu waikhwanu lootin

آیت 13 { وَعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ وَاِخْوَانُ لُوْطٍ۔ } ”اور قوم عاد ‘ فرعون اور لوط علیہ السلام کے بھائیوں نے۔“

اردو ترجمہ

اور ایکہ والے، اور تبع کی قوم کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا، اور آخر کار میری وعید اُن پر چسپاں ہو گئی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waashabu alaykati waqawmu tubbaAAin kullun kaththaba alrrusula fahaqqa waAAeedi

آیت 14{ وَّاَصْحٰبُ الْاَیْکَۃِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ط } ”اور بن والوں اور قومِ ُ تبع ّنے۔“ بن والوں سے یہاں اہل مدین مراد ہیں جن کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ ”تبع“ شاہانِ یمن کا لقب تھا۔ قبل ازیں سورة الدخان کی آیت 37 میں بھی ہم قوم تبع کا ذکر پڑھ آئے ہیں۔ { کُلٌّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِیْدِ۔ } ”ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا تو وہ مستحق ہوگئے میری وعید کے۔“ پیغمبروں کو جھٹلا کر وہ لوگ عذاب کی وعیدوں کے مصداق بن گئے۔

اردو ترجمہ

کیا پہلی بار کی تخلیق سے ہم عاجز تھے؟ مگر ایک نئی تخلیق کی طرف سے یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AfaAAayeena bialkhalqi alawwali bal hum fee labsin min khalqin jadeedin

آیت 15{ اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ط } ”تو کیا ہم پہلی مرتبہ پیدا کر کے عاجز آگئے ہیں !“ کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری تخلیقی صلاحیتیں creative potential اب ختم ہو کر رہ گئی ہیں اور اب ہم انہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکیں گے۔ یہی مضمون سورة الاحقاف میں اس طرح آیا ہے : { اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِییَ الْمَوْتٰیط بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ }”کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی اور ان کی تخلیق سے تھکا نہیں ‘ وہ اس پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے ! کیوں نہیں ‘ یقینا وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“ { بَلْ ہُمْ فِیْ لَـبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ۔ } ”بلکہ یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں نئی تخلیق سے متعلق۔“ ہماری خلاقی کی قدرت میں تو کوئی کمی نہیں آئی ‘ البتہ یہ لوگ اپنے ذہنوں کی تنگی کی وجہ سے پریشان ہیں اور مبتلائے شک ہیں کہ انہیں مرنے کے بعددوبارہ کیسے زندہ کرلیا جائے گا !

518