اس صفحہ میں سورہ Al-Infitaar کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الإنفطار کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔


اذا السمائ ........................ واخرت
گزشتہ سورت میں ہم نے ان آثار کی بات کی تھی جو ان مظاہر کو دیکھ کر انسانی احساس پر نمودار ہوتے تھے ، یہ مناظر اس عظیم انقلاب سے متعلق تھے جو دست قدرت اس کائنات میں برپاکردے گا ، اس کائنات کو اس طرح ہلا مارا جائے گا کہ کوئی چیز اپنی جگہ پر قائم نہ رہے گی اور اس عظیم کائنات کو تہ وبالا کردیا جائے گا۔ ہم نے وہاں یہ بھی بتایا تھا کہ ان آثار میں سے بڑا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل اس پوری کائنات سے اٹھ جاتا ہے اور انسان اپنا تعلق اس خالق حقیقی کے ساتھ جوڑ لیتا ہے جو باقی اور لازوال ہے ۔ جو اس وقت بھی باقی رہے گا جب یہ پوری کائنات ہلا ماری جائے گی۔ ان تمام انقلابات ، زلزلوں اور توڑپھوڑ کے عظیم عمل میں انسان کے لئے واحدجائے پناہ اس ذات کبریا کی درگاہ ہے جو ثابت ، برقرار اور اس قدر منظم ہے جسے خلود اور دوام حاصل ہے۔ اور یہ خلود اور دوام صرف اسی ذات کا خاصہ ہے۔
یہ اس عظیم کائناتی انقلاب کے جو پہلو لائے گئے ہیں ، ان میں سے ایک پہلو آسمان کا پھٹنا ہے۔ آسمان کے پھٹنے اور شق ہونے کا ذکر اور منظر قرآن مجید کے کئی مقامات پر پیش کیا گیا ہے۔ سورة رحمن میں ہے۔
فاذا انشقت ................ کالدھان (37:55) ” جب آسمان پھٹ جائے گا تو وہ اس طرح سرخ ہوگا جس طرح چمڑا سرخ ہوتا ہے “۔ اور سورة الحاقہ میں ہے :
وانشقت .................... واھیة (16:69) ” اور آسمان پھٹ جائے گا اور اس کی بندش کھل جائے گی “۔ اور سورة انشقاق میں ہے :
اذا ........................ انشقت (1:84) ” جب آسمان پھٹ جائے گا “۔ اس مصیبت کے دن کی مشکلات اور حقائق میں سے ایک بڑی حقیقت یہ ہوگی کہ اس دن آسمان پھٹ جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ آسمان کے پھٹنے کی تفصیلی کیفیت کیا ہوگی ؟ تو حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ نہ اس کی اصل حقیقت سے ہم خبردار ہیں۔ جو کچھ ہم کہہ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ اس کائنات کی شکل و صورت میں ایک عظیم تغیر رونما ہوگا جو ہمیں نظر آتی ہے اور اس کا یہ موجودہ نظام درہم برہم ہوجائے گا اور اس کی موجودہ بندش کھل جائے گی جس نے اس کے تمام کر ات کو اس وقت اپنی جگہ باندھ کر رکھا ہے۔
یہاں اس عظیم فضا میں ستاروں کے بکھر جانے کا منظر بھی فضا کی ہولناکی میں شریک ہوجاتا ہے۔ اس وقت یہ ستارے اپنے اپنے مدار میں ایک خوفناک سرعت اور تیزی کے ساتھ گردش کررہے ہیں۔ لیکن اپنے اپنے مدار میں جکڑے ہوئے ہیں ، اور ایسا نہیں ہے کہ اس محیرالعقول وسیع فضا میں جدھر منہ ہو ، ادھر دوڑتے رہیں ، اور اگر یہ اس طرح بکھر جائیں جس طرح اس وقت ہوگا جب قیامت برپا ہوگی تو وہ اس نہایت مضبوط غیر مرئی نظام کی بندش سے چھوٹ جائیں ، جس نے ان کو جوڑ رکھا ہے ، تو یہ فضا میں اسی طرح پھرتے رہیں جس طرح ایک ذرہ فضا میں اڑتارہتا ہے۔
سمندروں کی ” تفجیر “ کا ایک مفہوم تو یہ ہوسکتا ہے کہ یہ بھر جائیں اور خشکی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں اور ایک عظیم طغیانی آجائے ، نیز اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ پانی پھٹ جائے اور جن عناصر سے وہ مرکب ہے ، ان عناصر کی صورت اختیار کرلے۔ یعنی آکسیجن اور ہائیڈروجن۔ جس طرح پانی کی تشکیل سے قبل یہ ہائیڈروجن اور آکسیجن گیس کی شکل میں تھا۔ اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں عناصر بھی ایٹم اور ہائیڈروجن بم کی طرح پھٹ جائیں۔ اس کا تصور اب اچھی طرح کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایٹم اور ہائیڈروجن پھٹ جائیں تو اس کائنات کے اندر کیا کچھ ہوجائے گا جبکہ موجود ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم اس دھماکے کے مقابلے میں محض کھلونے ہیں یا ” تفجیر “ کے کوئی اور معنی ہیں جو ابھی تک ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ عرض ایک عظیم ہولناک اور خوفناک صورت حالات ہوگی۔
قبروں کا کھلنا بھی ان حالات کی وجہ سے ہوگا یا مفہوم یہ ہوگا کہ اس طویل تبدیلی کے دوران حقیقتاً قبریں پھٹ پڑیں گی اور ان میں سے لوگوں کے جسم اٹھ کھڑے ہوں گے تاکہ یہ میدان حشر میں حساب و کتاب کے لئے چل پڑیں۔ اس آخری مفہوم کی تائید فقرہ مابعد سے بھی ہوتی ہے۔
علمت .................... واخرت (5:82) ” اس وقت ہر شخص کو اس کا اگلا پچھلا سب کیا دھرا معلوم ہوجائے گا “۔ یعنی جو پہلے کیا اور جو بعد میں کیا ، یا یہ کہ جو اس نے دنیا میں کیا اور جو اچھے اور برے آثار دنیا میں چھوڑے یا جو دنیا میں عیش کیا اور جو آخرت کے لئے ذخیرہ کیا۔ مطلب یہ ہے کہ ان عظیم حادثات اور انقلابات کے بعد ہر شخص اگلا پچھلا جان لے گا۔ یہ حادثات میں ہر حادثہ ہی خوفناک ہوگا۔
قرآن کریم کا مخصوص انداز کلام ملاحظہ کیجئے۔ کہا جاتا ہے۔
علمت نفس ” نفس یہ جان لے گا “۔ نفس سے یہاں مراد ہر نفس ہے لیکن ” ہر “ کو حذف کرنا بات کو نہایت نفیس اور خوبصورت بنا دیتا ہے۔ بات یہاں آکر ختم نہیں ہوجاتی کہ ہر ایک شخص اپنے تمام اعمال کا پورا پورا علم حاصل کرلے گا۔ بلکہ اس علم کے انسان پر شدید اثرات ہوں گے۔ جس طرح کہا جاتا ہے اچھا تمہیں معلوم ہوجائے گا۔ اگرچہ آیت میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ کیا اثرات ہوں گے نفس پر۔ لیکن یہ ان عظیم کائناتی حادثات سے بھی سخت ہوں گے۔ انداز کلام سے اس مفہوم کا انعکاس ہوتا ہے۔
یہ تھا ایک ایسا مطلع جس نے انسانی احساس و شعور اور عقل وخرد کو یوں بیدار کردیا۔ اب اگلے پیرے میں انسان کی موجودہ حالت پر ایک تبصرہ آتا ہے کہ یہ انسان کس قدر غافل اور لاپرواہ ہے ، یہاں انداز عتاب نہایت ہمدردانہ ہے اور اس عتاب میں سرزنش اور جھڑکی کا پہلو درپردہ ہے۔ اور بظاہر بات اللہ کی عنایات پر تدبر کی گئی ہے۔ خصوصاً انسان کی موجودہ ، متوازن اور خوبصورت اور معتدل شکل و صورت میں پیدائش کو مدنظررکھتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں یہ بات تھی کہ انسان کو موجودہ معتدل اور متوازن شکل و صورت اور جسم کے اعضاء سے فرو تر شکل دے دیتا لیکن اللہ نے اسے ایسی صورت دی کہ جو تکنیکی اور خوبصورتی دونوں اعتار سے بےمثال ہے۔ کیا انسان پر لازم نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں پر غور کرے اور شکر ادا کرے۔
یہاں انسان کو خطاب اس کی انسانیت کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ انسان میں صف انسانیت ہی وہ صفت ہے جو اسے ممتاز اور مکرم بناتی ہے۔ اور اپنی اس صفت کی وجہ سے انسان کو تمام دوسرے حیوانات اور زندہ مخلوقات پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔ اور جس کی وجہ سے انسان مقام بلند تک پہنچا ہے۔ اور اس پر اللہ کا فضل وکرم ہوا ہے۔
اس کے بعد نہایت ہی ہمدردانہ اور خوبصورت تنبیہہ اور عتاب آتا ہے۔ ذرا الفاظ دیکھئے :۔
ماغرک .................... الکریم (6:82) ” کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا ہے “۔ اے انسان ، ذرا غور کر ، تمہارا مربی ، تمہارا نگہباں تمہاری کس قدر عزت افزائی کرتا ہے۔ جس نے تمہیں انسانیت بخشی جس کی وجہ سے تم غور وفکر کرتے ہو ، بات کو سمجھتے ہو ، حیوانیت سے بلند ہوتے ہو ، آخر کیا چیز ہے جس نے تمہیں اپنے رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا ہے اور تم رب کے احکام میں تقصیرات اور کو تاہیاں کرتے ہو اور سستی کرتے ہو ، اللہ کے بارے میں گستاخیاں کرتے ہو ، جبکہ وہ نہایت ہی مہربان مربی ہے ، جس نے قدم قدم پر تم پر فضل وکرم کررکھا ہے ، جس کے کرموں اور انعامات میں سے بڑی نعمت اور کرم تمہاری یہ انسانیت ہے ، اور انسانیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تم نیک وبد کی تمیز رکھتے ہو۔
اس کے بعد اس ربانی تکریم اور عزت افزائی کی تفصیلات دی جاتی ہیں۔ پہلے نہایت ہی موثر اشاراتی اور گہرے معانی پر مشتمل ایک مجمل پکار تھی اور عزت و تکریم کے خفیہ اشارے تھے اور پوشیدہ معانی تھے جو ایک آسمانی پکار اور محبت آمیز ندا میں مضمر تھے۔ اب تفصیلات ۔ تفصیلات میں انسان کی تخلیق ، اس کی موزونیت اور اس کے غایت درجہاعتدال کے حقائق لائے جاتے ہیں۔ اگر اللہ چاہتا تو انسان کو کسی اور صورت میں بناسکتا تھا ، لیکن یہ محض اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے انسان کے لئے اس قدر خوبصورت شکل تجویز کی۔ اگر انسان صرف اپنی شکل و صورت اور جسمانی ساخت کی تکنیکی کمالات پر ہی غور کرے تو وہ اللہ کا شکر کرے ، مگر انسان نہ صرف یہ کہ شکر نہیں کرتا بلکہ وہ نہایت غرے کے ساتھ راہ غفلت پر سرپٹ دوڑ رہا ہے۔
ماغرک .................... فعدلک (7:82) ” اے انسان ! کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا ، تجھے تک سک سے درست کیا ، تجھے متناسب بنایا “۔ یہ ایک ایسا اشارہ ہے کہ اگر انسان کی انسانیت بیدار ہو ، اور اس کا قلب ونظر پاک ہو ، تو اس سے اس کی انسانیت کا ذرہ ذرہ جاگ اٹھے اور اس کا پورا وجود کانپ اٹھے اس لئے کہ انسان کا خالق اس کی سرزنش کررہا ہے۔ اپنے احسانات بتلا کر سرزنش کرتا ہے جبکہ انسان خواب غفلت میں مدہوش ہے ، پراز تقصیرات زندگی بسر کررہا ہے ، بلکہ وہ اپنے آقا اور مولا کے بارے میں سخت گستاخ ہے حالانکہ اس آقا نے اسے اس قدر پیاری ، متناسب اور معتدل شکل و صورت اور شخصیت دی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کو موجودہ خوبصورت ، معتدل اور متناسب شکل پر پیدا کرنا اور اس اتمام اعضا کا اچھی طرح اپنے وظائف کو پورا کرتے چلے جانا ایک ایسی حقیقت ہے جس پر طویل تدبر اور جدوجہد کی ضرورت ہے ، اور اس غور وفکر کے بعد پھر شکر بجا لانا فرض ہے۔ اور اس بات کی ضرورت ہے کہ انسان ایسے خالق کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے محبت رکھے اور اس کا احترام کرے۔ جس نے اس تخلیق کے ذریعے انسان کو مکرم بنایا ، اور یہ تکریم اور تفصیل اللہ کا محض فضل وکرم تھا ، اس لئے کہ اللہ اس بات پر قادر تھا کہ وہ انسان کو کسی بھی نئی شکل و صورت میں پیدا کرتا ، جس طرح چاہتا ، لیکن اللہ نے موجودہ خوبصورت پیاری اور معتدل اور متناسب شکل انسان کو عطا کی۔
حقیقت یہ کہ اپنی ساخت کے اعتبار سے انسان بےمثال ہے۔ اس کی شکل و صورت نہایت ہی موزوں ومعتدل ہے اور اس کی ساخت کے نقشے میں بیشمار عجائبات ہیں۔ خودانسان کو اللہ نے فہم وادراک کی جو قوت دی ہے اس کے جسم کے اندر موجود تکنیکی کمالات اور عجائبات اس کی قوت ادراک سے وراء ہیں۔ یہ تخلیق اس کائنات میں موجود دوسری تخلیقات سے بھی زیادہ عجیب ہے۔
خوبصورتی ، تناسب اور اعتدال انسان کے جسم سے بالکل عیاں ہیں ، خود انسان کو قوائے مدر کہ بھی اپنی جگہ عجائبات ہیں۔ انسانی نفسیات اور اس کی روحانی دنیا بھی عجیب تر ہے۔ اور نفسیاتی اور روحانی دنیا بھی اس کے جسمانی اعتدال اور تناسب کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
دور جدید میں لوگوں نے صرف انسان کی جسمانی ساخت پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان میں تفصیلات کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ انسانی ساخت کے اندر کیا کیا تکنیکی عجائبات ہیں۔ پورا مطالعہ پیش کرنا تو ممکن نہیں ہے بعض اشارات پر ہم یہاں اکتفا کریں گے۔
انسانی جسم کے اندر جو بڑے بڑے نظام ہیں ، مثلاً ہڈیوں کا نظام ، عضلات کا نظام ، جلد کا نظام ، ہاضمے کا نظام ، دوران خون کا نظام ، سانس کا نظام ، تناسل کا نظام ، شریانوں کا نظام ، اعصاب کا نظام ، پیشاب کا نظام ، اس کی قوت ذائقہ ، قوت شامہ اور سمع وبصر کی قوتیں یہ تمام نظام اگر وقت نظر سے دیکھے جائیں تو اپنی اپنی جگہ پر سب عجائبات ہیں۔ انسان نے آج تک جس قدر پیچیدہ سے پیچیدہ تکنیکی آلات ایجاد کیے ہیں وہ ان نظاموں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ انسان جب ان نظاموں پر غور کرتا ہے تو اس پر دہشت طاری ہوجاتی ہے اور وہ سکتے میں آجاتا ہے لیکن انسان ہے کہ اپنی ذات کے ان عظیم عجائبات سے صرف نظر کرلیتا ہے۔
سائنس کا ایک انگریزی جریدہ لکھتا ہے :” ہاتھ قدرت کے عجائبات میں سے ایک منفرد عجوبہ ہے۔ اسنانکے لئے ایسا آلہ ایجاد کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ کسی کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ہاتھ کی طرح سادہ آلہ ایجاد کرے جس کے اندر وہ کمالات ہوں جو ہاتھ میں ہیں۔ انسان پڑھنے کے وقت کتاب کو ہاتھ سے پکڑتا ہے اور ہاتھ اسے آنکھ سے موزوں کرکے فاصل پر لے جاتے ہیں۔ یہ پوزیشن خود کار طریقے سے ہاتھ فورات طے کردیتے ہیں۔ اگر آپ کتاب کا ورق الٹنا چاہیں تو ہاتھ کی انگلی نہایت تکنیکی طریقے سے ورق پر رکھی جاتی ہے۔ اور تھوڑے سے دباﺅ سے ورق الٹ جاتا ہے۔ پھر قلم پکڑتے ہیں اور ہاتھ کے اعصاب خود بخود قلم کو چلاتے ہیں ، پھر یہ ہاتھ عجیب انداز سے انسانی ضرورت کے تمام ہتھیاروں اور اوزاروں کو استعمال کرتا ہے۔ چمچ ، چھری ، قلم اور دوسرے آلات خود بخود جس طرح ہم چاہیں ، ہاتھ کی گرفت میں آتے ہیں۔ یہ قدرتی آلہ 27 ہڈیوں اور 15 عضلات پر مشتمل ہے اور محیرالعقول ہے “۔ (اللہ اور جدید علم ، استاد عبدرازاق)
انسان کا کان اور اس کا جوف دراصل چار ہزار کے لگ بھگ نصف قوس کی کمانوں پر مشتمل ہے ، یہ کمانیں نہایت عمدگی سے بنائی گئی ہیں اور باہم دگر نہایت تکنیکی اعتبار سے مربوط ہیں۔ یہ موسیقی کے آلات کے مشابہ ہیں۔ اور یہ کمانیں ہر قسم کی آواز کو ایک عجیب انداز سے عقل اور دماغ کی طرف منتقل کرتی ہیں۔ بجلی کی کڑک کی سخت آواز ہو یا درختوں کی نہایت خوشگوار سرسراہٹ ہو ، کرخت آواز ہو یا آلات موسیقی کی خوشگوار آواز ہو ، یہ نصف قوس کے بیشمار نشیب و فراز جو کان کے اندر بنے ہوئے ہیں ، اس آواز کو من وعن دماغ تک پہنچاتے ہیں “۔
” آنکھ بھی ایک عجیب آلہ ہے ، روشنی کو اخذ کرنے والے تین کروڑ سے اوپر اعصاب کے سرے اس کے اندر موجود ہیں۔ پھر آنکھ کی حفاظت کے لئے پپوٹے اور اس کے اوپر پلکوں کا جنگلہ ہے۔ یہ نہایت خوبصورتی سے کسی بھی بیرونی چیز کو اندر آنے نہیں دیتے۔ اور خود کار طریقے سے حرکت میں رہتے ہیں۔ اور اجنبی چیزوں کو روکتے اور موڑتے ہیں۔ پلکوں کا سایہ دھوپ کی شدت کو بھی کم کرتا ہے اور پپوٹے خود کا طریقے سے آنکھ کو تر رکھتے ہیں۔ آنکھ کی صفائی کا نظام کس خوبصورتی سے کیا گیا ہے ، یہ سیال مادہ جسے آنسو کا نام دیا جاتا ہے یہ آنکھ کو ہر وقت صاف رکھتا ہے اور بہترین صفائی کرنے والا سیال ہے “۔ (علم ایمان کی دعوت دیتا ہے)
” چکھنے کا نظام انسان کی زبان میں رکھا گیا ہے۔ زبان کے لعاب دار پردے میں بیشمار چکھنے والے خلیے ہیں۔ یہ خلیے گھنڈیوں کی شکل میں ہیں۔ ان گھنڈیوں کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ ریشہ دار ہوتی ہیں ، بعض محدب ہوتی ہیں اور بعض پھٹی ہوئی ہوتی ہیں۔ اور یہ خلیے زبان کے نگلنے اور چکھنے والے پٹھوں سے غذا حاصل کرتے ہیں۔ جب انسان کوئی چیز کھاتا ہے تو اس عمل سے چکھنے والے اعصاب متاثر ہوتے ہیں اور یہ اثرات دماغ تک جاتے ہیں اور یہ پورا نظام انسانی منہ کے ابتدائی حصہ میں تخلیق کیا گیا ہے تاکہ اگر انسان کسی چیز کو ناپسند کرتا ہے تو اسے تھوک سکے۔ یوں منہ کے اندرہی انسان معلوم کرلیتا ہے کہ جو چیز کھائی جارہی ہے وہ تلخ ہے ، شیریں ہے ، گرم ہے ، سرد ہے ، نمکین ہے یا جلانے والی ہے۔ زبان کے اندر چکھنے کی تو ہزار گھنڈیاں ہیں اور پٹھوں کے ذریعہ دماغ کے ساتھ مربوط ہوتی ہیں ۔ ان کا حجم کیا ہے اور یہ کس طرح عمل کرتی ہیں ؟ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے “۔ (اللہ اور جدید سائنس)
” اور پھر اعصاب کا نظام جو پورے جسم میں پھیلا ہوا ہے ، یہ ایسے باریک ریشوں کا مرکب ہے جو جسم کے ہر طرف پہنچے ہوئے ہیں۔ جسم کے کونے کونے سے آگے یہ بڑے اعصاف سے جڑتے جاتے ہیں۔ اور اعصاب کے مرکزی نظام سے مربوط ہوتے ہیں۔ اگر جسم کا کوئی حصہ بھی کسی طرح متاثر ہو تو یہ نظام مرکزی نظام کو اطلاع دیتا ہے ، چاہے موسم کی معمولی سی تبدیلی کیوں نہ ہو۔ یہ نظام پورے جسم سے احساسات داغ تک پہنچاتا ہے اور دماغ اس تاثر کے بعد حکم صادر کرتا ہے اور یہ نظام نہایت ہی تیزی سے پیغام رسانی کا کام کرتا ہے۔ اس پیغام رسانی کی رفتار سو میٹر فی سیکنڈ ہے “۔
” نظام ہضم ایسا ہے جس طرح کوئی کیمیاوی لیبارٹری ہوتی ہے۔ کوئی چیز کھاتے ہی اس لیبارٹری میں ایک عجیب عمل شروع ہوتا ہے اور یہ فیکٹری ماسوائے معدے کے اس تھیلے کا سب کچھ چاٹ لیتی ہے۔ اور یہ عمل نہایت ہی حیرت انگیز طریقہ سے ہوتا ہے “۔
” اس لیبارٹری میں ہم انواع و اقسام کے کھانے داخل کرتے ہیں ، ہمارے سامنے یہ بات نہیں ہوتی کہ ان کے ساتھ یہ لیبارٹری کیا کرے گی اور نہ ہم سوچتے ہیں کہ یہ کھانے کس طرح ہضم ہوں گے۔ گوشت ، تلی ہوئی مچھلی اور دوسری خوراکیں کچھ پانی کے ساتھ اس لیبارٹری میں داخل کردیتے ہیں “۔ (اللہ اور جدید سائنس)
” کھانوں کے اس مجموعے سے یہ لیبارٹری نفع بخش چیزیں لے لیتی ہے کہ تنور میں یہ مختلف کھانے اس طرح ٹوٹتے پھوٹتے ہیں کہ ان کے تمام اجزاء تحلیل ہوجاتے ہیں۔ وہ فضلات کو نکال کر باقی چیزوں کی پروٹین کی شکل دیتی ہے تاکہ ہو جسم کے مختلف خلیات کے لئے غذا کا کام دیں۔ یہ نظام ہضم اس ملغوبے سے ضروری اجزاء کیلشیم ، گندھک ، آیوڈین ، لوہا اور بیشمار دوسرے اجزاء اخذ کرلیتا ہے اور اس بات کا پورا خیال رکھتا ہے کہ کوئی کارآمد جزضائع نہ ہو ، تاکہ ان سے ہر مون پیدا ہوں اور انسانی زندگی کے لئے تمام ضروری مواد بقدر ضرورت مہیا ہوتا رہے اور نہایت منظم طریقے سے ہوتا رہے۔ معدہ چربی اور دوسرے بعض اجزاء کا ذخیرہ بھی کرتا ہے تاکہ ہنگامی ضروریات کے وقت یہ مواد کام آسکے۔ اور یہ لیبارٹری یہ سب کام خود کار طریقے سے کرتی ہے اور انسان کو نہ اس کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے اور نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے۔ نہ انسان کو اس کے اسباب وعلل معلوم ہوتے ہیں۔ ہم بس اس کے اندر بیشمار چیزیں ڈال دیتے ہیں اور پھر یقین ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کو جاری رکھنے کے لئے معدہ خود بخود ضروری اشیاء اخذ کرے گا۔ اور سارے کام خود کرے گا۔
جب خوراک ، نظام ہضم کے ذریعے نئی شکل اختیار کرتی ہے تو معدہ ان کو جسم کے کھربوں خلیات تک ان کی خوراک کے طور پر پہنچاتا ہے۔ اس کرہ ارض پر پوری آبادی سے زیادہ خلیات خود ایک انسان کے جسم میں ہیں۔ اور ہر خلیہ الگ خوراک مانگتا ہے جسے فراہم کیا جاتا ہے۔ ہر خلیہ تک صرف اس کی ضرورت کی غذا پہنچتی ہے۔ اور یہ خلیات پھر اعضاء کی شکل اختیار کرتے ہیں مثلاً ہڈیاں ، ناخن ، کان ، آنکھیں ، دانت اور دوسرے اعضائ “۔
” پس معدہ ایک ایسی لیبارٹری ہے جو کسی بھی انسان تخلیق کردہ لیبارٹری سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اور اس کے ساتھ ترسیل کا ایک عجیب نظام ہے جو کسی بھی انسانی نظام ترسیل اور اخذ سے زیادہ ٹیکنیکل ہے۔ اور آج تک انسان نے ایسا پیچیدہ نظام نہ دیکھا ہے نہ ایجاد کیا ہے اور اس لیبارٹری کا نظام نہایت ضبط اور منصوبہ بندی سے کام کرتا ہے۔ (یہ تمام اقتباسات کتاب ” سائنس ایمان کی دعوت دیتی ہے “ سے لیے گئے ہیں) ۔
انسانی جسم کے اندر کام کرنے والے نظاموں کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ لیکن ان تمام نظاموں میں انسان کے ساتھ حیوانات بھی کسی نہ کسی طرح شریک ہیں۔ اگرچہ ان میں سے ہر نظام خواہ انسانوں میں ہو یا حیوانات میں ، اپنی جگہ معجز ہے۔ لیکن انسان کی عقلی ، فکری اور روحانی خصوصیات وہ ہیں جس میں یہ منفرد ہے اور یہ وہی خصوصیات ہیں جن کے بارے میں اللہ انسان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ یہ اس پر اس کا احسان عظیم ہے۔
الذی ........................ فعدلک (7:82) ” جس نے تمہیں پیدا کیا ، تمہیں نک سک سے درشت کیا اور متناسب بنایا “۔ اور یہ خطاب یایھا الانسان سے شروع کیا۔
مثلاً انسان کی قوت مدرکہ جو عقل میں ہے ، ہم اس کی حقیقت کو نہیں جانتے ، اس قدر جانتے کہ یہ ادراک قوت عقلیہ کے ذریعے ہوتا ہے اور قوت عقلیہ ہی آلہ ادراک ہے۔ جہاں تک عقل کا تعلق ہے ، ہم نے اسے جانتے ہیں اور نہ یہ جانتے ہیں کہ اس قوت کا عمل ادراک کس طرح کام کرتا ہے۔
ہماری معلومات اور مدرکات کس طرح دماغ میں رہتی ہیں ، ہم بس اس قدر فرض کرلیتے ہیں کہ نہایت ہی لطیف دماغی اور اعصابی ریشوں کے ذریعہ یہ معلومات اور مدرکات ذہن اور عقل میں منتقل ہوتی ہیں۔ لیکن عقل اسے کہاں سٹور کرتی ہے ؟ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ دماغ کے اندر ریکارڈ کرنے کا کوئی فیتو ہے تو پھر ساٹھ (60) سال کے لئے کئی ملین میٹر طویل فیتہ ونا چاہئے کہ وہ ساٹھ سالہ زندگی میں انسانی مشاہدات کو ریکارڈ کرے۔ ساٹھ سال کا ذکر ہم اس لئے کرتے ہیں کہ بالعموم اوسط عمر ساٹھ سال ہوتی ہے۔ ان ساٹھ سالوں میں انسان الفاظ ومعانی ، تاثرات اور شعور اور مناظر ومشاہد کے لاتعداد چیزیں اپنے دماغ میں ریکارڈ کرتا ہے۔
انفرادی الفاظ ومعانی پھر کس طرح مرکب ہوکر نتائج پیدا کرتے ہیں۔ انفرادی حادثات اور انفرادی تصاویر کس طرح کمپوز ہوکر علم اور کلچر پیدا کرتی ہیں۔ یہ ایک الگ دنیا ہے اور معلومات علوم اور اصول میں بدل جاتی ہیں۔ مدرکات اور ادراک کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور تجربات سے علم وسائنس وجود میں آتے ہیں۔ یہ اپنی جگہ دنیا کے عجائبات ہیں۔
یہ تو ہوئی انسان کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ، جو اس کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور اس کی وجہ سے انسان ممتاز ہے۔ لیکن انسان کی خصوصیات میں سے یہ کوئی بڑی خصوصیت نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر اللہ کی روح سے جلا ہوا ایک چراغ بھی ہے جسے انسان روح کہا جاتا ہے ۔ انسان کی یہ روح انسان کو جمال کائنات کے ساتھ جوڑتی ہے اور یہی روح ہر انسان کو خالق کی روح سے مربوط کرتی ہے۔ اور انسان کو وہ لمحات نصیب کرتی ہے جن میں انسان حقیقت کبریٰ کے ساتھ جڑ جاتا ہے ، جو اپنی جگہ لامحدود ہے اور اس اتصال میں پھر انسان جمال حقیقت کبریٰ کی کچھ جھلکیاں پالیتا ہے۔
انسان اس روح کی حقیقت سے بھی بیخبر ہے۔ روح تو ایک بڑی چیز ہے ، انسان جن محسوسات کا ادراک کرتا ہے ، وہ تو ان کی حقیقت سے بھی بےبہرہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ روح ہی ہے جو اسے خوشی اور سعادت مندی کے وہ لمحات اور وہ جھلکیاں عطا کرتی ہے جن کی وجہ سے وہ اس زمین پر ہوتے ہوئے بھی عالم بالا سے مربوط ہوجاتا ہے۔ اور یوں وہ جنت کی ابدی زندگی کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ حقیقت کبریٰ کے جمال کو دیکھ سکے۔
یہ روح ، انسان کے لئے اللہ کا مخصوص تحفہ ہے۔ اور اس روح ہی کی وجہ سے انسان ، انسان قرار پایا ہے۔ اور اسی وجہ سے اللہ نے اسے یوں مخاطب کیا۔
یایھا الانسان اور پھر اسے اس قدر محبت آمیز سرزنش کی۔
ماغرک ................ الکریم (6:82) ” تجھے رب کریم کے بارے میں کس چیز نے غرے میں ڈال دیا ہے “۔ یہ اللہ کی طرف سے انسان کے لئے براہ راست سرزنش ہے۔ اللہ بذات خود انسان کو پکارتا ہے اور انسان جب نظریں اٹھاتا ہے تو وہ اللہ کے سامنے ایک گنہگار ، غافل ، اللہ کے فضل وکرم کی قدر نہ کرنے والا ، بلکہ اللہ کے ہاں ایک گستاخ شخصیت کی صورت میں کھڑا نظر آتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ اسے اپنی عظیم نعمت اور اپنے فضل وکرم سے آگاہ فرماتا ہے۔ اور اس کو اس کی ناقدری ، اور اس کی تقصیرات اور گستاخیوں سے مطلع فرماتا ہے۔
یہ ایک انسانی سرزنش ہے کہ اگر انسان میں احساس ہو تو وہ پانی پانی ہوجائے۔ اگر انسان اپنی انسانیت کے سر چشمے کو تلاش کرے ، اور اللہ کی اس اطلاع اور اللہ کی ذات پر غور کرے اور یہ دیکھے کہ وہ کس بادشاہ کے سامنے کھڑا ہے۔ اسے کس قدر عظیم ذات پکاررہی ہے ، اور اس کی سرزنش کررہی ہے اور اس پر یہ عتاب ہورہا ہے ، تو حقیقت یہ ہے کہ انسان پگھل کر رہ جائے۔ ذرا غور کرو۔
یایھا الانسان ................................ رکبک (6:82 تا 8) ” اے انسان ، کس چیز نے تجھے اپنے رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا ، جس نے تجھے پیدا کیا ، تجھے نک سک سے درست کیا ، تجھے متناسب بنایا ، اور جس صورت میں چاہا ، تجھ کو جوڑ کر تیار کیا “۔
اب اگلے پیرے میں یہ بتایا ہے کہ انسان کیوں غافل ہوجاتا ہے اور اس سے تقصیرات کیوں سرزد ہوتی ہیں۔ ان کا اصل سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ قیامت کے دن کا یقین نہیں رکھتا۔ بتایا جاتا ہے کہ حساب و کتاب ایک حقیقت ہے اور اس کی کیفیات اور مناظر یوں ہوں گے۔ اور یہ کہ لوگوں کا انجام یکساں نہ ہوگا اور اس حقیقت کو نہایت تاکید کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
لفظ کلا بھی زجرو توبیخ کا لفظ ہے ، اس کے ذریعہ سرزنش کی جاتی ہے کہ تم جس حال میں ہو ، یہ درست نہیں ہے۔ تمہاری سوچ غلط ہے۔ اس کے ذریعے سابقہ موضوع سے بات کو دوسرے سے بات کو دوسرے موضوع اور نکتے کی طرف منتقل کیا جاتا ہے۔ ایک نئی بات سامنے لائی جاتی ہے اور یہ تاکید اور زور دار بات کرنے کا ایک انداز ہے۔ یہ انداز عتاب اور یاددہانی اور تصویر کشی سے الگ ہے۔
کلا بل ................ بالدین (9:82) ” ہرگز نہیں ! بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) تم لوگ جزا وسزا کو جھٹلاتے ہو “۔ تمہیں یہ یقین نہیں ہے کہ اس زندگی کا جواب بھی دینا ہے اور یہی ہے تمہاری غفلت کا حقیقی سبب۔ جس کی وجہ سے تم سے تقصیرات ہوتی ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص زندگی کی جوابدہی اور حساب و کتاب پر یقین نہ رکھتا ہو اور پھر وہ سیدھے راستے پر بھی چلتا ہو ، بھلائی بھی کرتا ہو ، اور اللہ کی اطاعت بھی کرتا ہو۔ بعض اوقات ، بعض لوگوں کے دل اس قدر صاف و شفاف ہوجاتے ہیں کہ وہ رب کی اطاعت صرف رب کی محبت کی وجہ سے کرتے ہیں۔ اس وجہ سے نہیں کرتے کہ اللہ ان کو سزا دے گا یاجزاء دے گا ، اور ان کو کسی انعام کا کوئی لالچ ہی نہیں رہتا۔ لیکن ایسے لوگ بھی قیامت پر یقین رکھتے ہیں ، اللہ سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے ساتھ ملاقات کے شائق ہوتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جس رب کے ساتھ انہیں محبت ہے اس کو دیکھیں۔ لیکن جب کوئی قیامت کی تکذیب کرتا ہے تو وہ آداب زندگی ، اطاعت رب اور نورانیت اور روحانیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس کے جسم کے اندر زندہ دل نہیں ہوتا ، اور اس کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے۔
تم لوگ روز جزاء کی تکذیب کرتے ہو لیکن تم دراصل قیامت کے دن کی طرف کشاں کشاں جارہے ہو ، تمہاری زندگی کا ریکارڈ تیار ہورہا ہے۔ کوئی عمل ضائع نہیں ہوتا اور نہ ضبط کیے جانے سے چھوٹ سکتا ہے۔ نہ فرشتے بھولتے ہیں۔
وان علیکم ............................ تفعلون (10:82 تا 12) ” حالانکہ تم پر نگران مقرر ہیں ، ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں “۔ یہ محافظ وہ روحانی مخلوقات ہیں جو فرشتوں سے ہیں۔ یہ ہر وقت انسان کے ساتھ رہتے ہیں ، اس کی نگرانی کرتے ہیں ، اور جو اعمال وہ کرتا ہے اسے لکھتے ہیں ، ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کس طرح ریکارڈ تیار کرتے ہیں ، اللہ کی طرف سے ہم پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی کہ ہم اس کی تفصیلی کیفیات بھی جانیں۔ اللہ کو معلوم ہے کہ ہمارے اندر ان غیبی امور کے ادراک کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اور نہ اس میں ہمارا کوئی فائدہ ہے کہ ہم ریکارڈ کیے جانے کی کیفیت بھی جانیں۔ کیونکہ یہ علم ہمارے فرائض میں سے نہیں ہے اور نہ اس سے انسان کے مقصد تخلیق کا تعلق ہے۔ لہٰذا اس میں مشغول ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق ان غیبی امور سے ہے جن کا انکشاف اللہ نے ہمارے سامنے نہیں کیا۔ ہمارے لئے صرف یہی شعور اور یقین دہانی ہے کہ انسان شتر بےمہار نہیں ہے۔ اور اللہ نے ایسے کارندے اس کے اوپر نگراں مقرر کردیئے ہیں ۔ جو اس کی ہر بات کو ریکارڈ کرتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ وہ جاگ اٹھے اور خوف کے مارے کانپ جائے اور اپنے مقصد زندگی کو پورا کرتے ہوئے آداب زندگی کو ملحوظ رکھے۔
اس سورت کی فضا اللہ کے انعامات اور اللہ کے فضل وکرم کی تھی ، اس لئے ان فرشتوں کی یہ صفت یہاں لائی گئی کہ وہ ” کرام “ ہیں قابل قدر اور صاحب منزلت ہیں۔ یہ اس لئے کہ انسان کو یہ خوف لاحق ہو کہ اس پر معززلوگ نگران ہیں۔ لہٰذا اسے ارتکاب جرائم وقبائح کے وقت شرم آنی چاہئے کیونکہ یہ بات انسان کی فطرت کا حصہ ہے کہ جب وہ شرفاء اور معزز لوگوں کے اندر بیٹھا ہو تو وہ قبیح حرکات نہیں کرتا ، متبذل الفاظ کا استعمال نہیں کرتا اور اپنی روش درست رکھتا ہے لیکن اگر انسان کو یہ شعور مل جائے کہ اللہ کے معزز فرستادہ اس کی باتوں کو نوٹ کررہے ہیں تو انسان بیشمار قباحتوں سے بچ سکتا ہے جو شرفاء کے ساتھ لاحق نہیں۔ قرآن کا یہ کمال ہے کہ وہ انسانی شعور کو زندہ وبیدارکھتا ہے اور تصور قیامت اور عقیدہ کاتبان الٰہی کے ذریعہ انسان کو اعلیٰ خیالات اور اعمال کے لئے پرجوش بناتا ہے۔
اس کے بعد نیک لوگوں کے انجام اور برے لوگوں کے انجام کا ذکر کیا جاتا ہے کہ فرشتے اور اللہ کے معززنمائندے جو ریکارڈ تیار کرتے ہیں ، وہ بہت اہم ہے اور اس کی بناء پر دائمی سعادت یا دائمی شقاوت نصیب ہوگی۔
ان الابرار ............................ بغئبین (13:82 تا 16) ” یقینا نیک لوگ مزے میں ہوں گے اور بیشک بدکار لوگ جہنم میں جائیں گے۔ جزا کے دن وہ اس میں داخل ہوں گے اور اس سے ہرگز غائب نہ ہوسکیں گے “۔
لہٰذا یقین کرو کہ یہ انجام لازمی ہونے والا ہے۔ یہ طے شدہ انجام ہے کہ نیک لوگ جنت میں اور برے لوگ جہنم میں داخل ہوں گے۔ بر ، ابرار کا واحد ہے۔ وہ شخص کہ نیکی اس کی عادت ثانیہ بن جائے۔ نیک کاموں میں وہ تمام کام شامل ہیں جو اچھے کام ہیں۔ اور نیکی کی یہ صفت انسانی شرافت کے ساتھ متناسب ہے۔ اس کے مقابلے کا لفظ بھی ایسا ہی ہے۔ فجار ، وہ گستاخ ، بےادب جو اثم ومعصیت کے کاموں میں بےدھڑک کود پڑتے ہیں۔ جہنم ان کے فسق وفجور کے لئے موزوں جگہ ہے ۔ مناسب جائے مقام ہے۔ ان کا حال کیا ہوگا ؟
یصلونھا یوم الدین (15:82) ” جزا کے دن وہ اس میں داخل ہوں گے “۔ تو بطور تاکید مزیدیہ کہا جاتا ہے کہ وہاں مجرم مفرور نہ ہوسکیں گے۔
وماھم عنھا بغئبین (16:82) ” اور وہ اس سے ہرگز غائب نہ ہوسکیں گے “۔ نہ آغاز فیصلہ میں یہ غائب ہوں گے اور نہ معافی کے ذریعہ جہنم سے نکل سکیں گے۔ یوں ابرار اور فجار کی حالت ایک دوسرے کے عین بالمقابل اور متضاد ہوگی۔ جنت اور جہنم کے حالات بھی باہم متضاد اور بالمقابل ہوں گے۔ جبکہ اہل جہنم کے حالات اور دردو جہنم کو ذرا تفصیل سے بتایا گیا ہے۔
اصل موضوع یہ تھا کہ یہ لوگ قیامت کے حساب و کتاب کے منکر تھے اور تکذیب کرتے تھے۔ لہٰذا اس دن کے واقعات بیان کرنے کے بعداس دن کی ہولناکیوں اور خوفناکیوں کو دوبارہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس دن کو وہ مکمل طور پر بےبس ہوں گے۔ کسی کے لئے کوئی چارہ نہ ہوگا اور کسی جانب سے کوئی امداد ومعاونت نہ ملے گی اور یہ دن اس قدر خوفناک ہوگا کہ تمہیں اس کا کوئی علم ہی نہیں ہے۔ یہ بتاکر کہ تم اس دن کے ہول سے مکمل طور پر بیخبر ہو ، اس خوف کو زیادہ کردیا جاتا ہے جس طرح کہا جاتا ہے کہ عظیم مصیبت آنے والی ہے۔
قرآن کے انداز تعبیر میں کسی مصیبت کو مجہول اور نامعلوم کرکے بیان کرنا ، ایک عمومی انداز ہے۔ اس انداز سے اس کی خوفناکیوں میں خوب اضافہ ہوجاتا ہے۔ یعنی یہ کہ انسانی تصور سے قیامت کی مصیبت ماوراء ہے۔ مصیبت اور خوف کا ہم جو بھی بھیانک تصور کرسکتے ہیں ، اس سے بھی وہ بڑھ کر ہے۔ پھر سوال کو دہرا کر اس خوفناکی میں مزید اضافہ کیا جاتا ہے۔
سوال دہرانے کے بعد اس کے ایسے خدوخال بیان کردیئے جاتے ہیں جو اس کی خوفناکیوں کے ساتھ متناسب ہیں۔
یوم لا ................ شیئا (19:82) ” یہ وہ دن ہے جس میں کسی نفس کے لئے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا “۔ یعنی انسان مکمل طور پر عاجز ، لاچار اور بےبس ہوں گے۔ ہر شخص کو اپنی پڑی ہوئی ہوگی، وہ سب سے کٹ چکا ہوگا ، کوئی دوست و یار یاد نہ ہوگا۔
والامر ................ للہ (19:82) ” فیصلہ اس دن صرف اللہ کے اختیار میں ہوگا “۔ یہ صرف اللہ کی منفرد ذات ہوگی اور دنیا وآخرت کے فیصلے اسی کے اختیار میں ہوتے ہیں ، لیکن اس دن یہ حقیقت عیاں ہوجائے گی۔ اگرچہ دنیا میں بعض لوگ اس حقیقت کے تصور سے غافل ہوتے ہیں اور غرے میں ہوتے ہی۔ لیکن قیامت میں یہ امر پوشیدہ نہ رہے گا۔ ہر کسی پر عیاں ہوگا۔ غافل ، متکبر اور برخود غلط سب ہی اسے دیکھ لیں گے۔
یہ سورت کا خوفناک اختتام ہے اور یہ اختتام سورت کے آغاز کے خوفناک انقلابات کائنات کے ساتھ مل کر ، انسانی سوچ ، انسانی احساسات کو گھیر لیتا ہے۔ یہ دونوں خوف اور ہلامارنے والے حالات انسان کو دہشت زدہ کردیتے ہیں۔ ان دونوں ہولناک حالات یعنی آغاز و انجام کے درمیان ایک پر محبت ، ہمدردانہ ملامت ہے جس سے ایک خاص انسان پانی پانی ہوجاتا ہے۔ یہ ہے سورت کا خاتمہ۔