سورۃ الفتح (48): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Fath کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفتح کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الفتح کے بارے میں معلومات

Surah Al-Fath
سُورَةُ الفَتۡحِ
صفحہ 511 (آیات 1 سے 9 تک)

إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِّيَغْفِرَ لَكَ ٱللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنۢبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَٰطًا مُّسْتَقِيمًا وَيَنصُرَكَ ٱللَّهُ نَصْرًا عَزِيزًا هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ فِى قُلُوبِ ٱلْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوٓا۟ إِيمَٰنًا مَّعَ إِيمَٰنِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا لِّيُدْخِلَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَٰتِ جَنَّٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّـَٔاتِهِمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عِندَ ٱللَّهِ فَوْزًا عَظِيمًا وَيُعَذِّبَ ٱلْمُنَٰفِقِينَ وَٱلْمُنَٰفِقَٰتِ وَٱلْمُشْرِكِينَ وَٱلْمُشْرِكَٰتِ ٱلظَّآنِّينَ بِٱللَّهِ ظَنَّ ٱلسَّوْءِ ۚ عَلَيْهِمْ دَآئِرَةُ ٱلسَّوْءِ ۖ وَغَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًا وَلِلَّهِ جُنُودُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ شَٰهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا لِّتُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
511

سورۃ الفتح کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الفتح کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna fatahna laka fathan mubeenan

اس سورت کا آغاز نبی ﷺ کے اوپر ایک فضل و کرم کے ذکر سے ہوتا ہے۔ کہ آپ ﷺ کو فتح مبین بھی عطا کردیا گیا ہے اور آپ کے اگلے اور پچھلے سب ذنوب معاف کر دئیے گئے۔ آپ ﷺ پر اپنی نعمتیں تمام ہوگئیں ، آپ ﷺ کو مستقل ہدایت نامہ دے دیا گیا اور ایک زبردست نصرت اور فتح بھی دے دی گئی۔ اور یہ ہے صلہ اس گہرے اطمینان اور صبر کا جن کے ساتھ آپ نے ہدایات الٰہیہ پر عمل کیا۔ اور اس بات کا کہ آپ نے اللہ کی جانب سے وحی اور الہامات و ہدایات پر پورا پورا عمل کیا۔ اپنی تمام خواہشات اور ارادوں کو ترک کردیا اور اللہ کی نگرانی پر پورا پورا بھروسہ کیا۔ آپ نے ایک خواب دیکھا ، اس کے مطابق آپ حرکت میں آگئے ۔ آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی اور لوگ چیخے کہ “ قصواء ” نے چلنے سے انکار کردیا۔ اڑ گئی۔ لیکن آپ ﷺ نے اس سے کوئی اور اشارہ لیا۔ “ قصواء اڑ نہیں گئی اور نہ اس کی یہ عادت ہے لیکن اسے اس ذات نے روک لیا ہے جس نے مکہ سے ہاتھی کو روکا تھا ۔ اگر قریش آج کوئی بھی ایسا منصوبہ مجھے دیں جس میں صلہ رحمی کی درخواست ہو تو میں منظور کر دوں گا ”۔ حضرت عمر ابن الخطاب آپ سے نہایت ہی جوش میں پوچھتے ہیں “ کیا ہمیں اپنے دین میں ذلت نہیں دی جارہی ہے ؟” آپ ﷺ جواب دیتے ہیں “ میں اللہ کا بندہ ہوں ، رسول ہوں ، میں اس کے حکم کی مخالفت نہیں کرسکتا اور انشاء اللہ وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا ”۔ یہ تو رہی صلح کی بات لیکن جب اطلاع آتی ہے کہ حضرت عثمان ؓ قتل ہوگئے تو آپ ﷺ فرماتے ہیں “ ہم اس وقت تک ڈٹے رہیں گے جب تک قوم سے انتقام نہ لے لیں ”۔ لوگوں کو بیعت کے لئے بلایا جاتا ہے۔ یہ بیعت ، بیعت الرضوان قرار پاتی ہے اور اس سے ان لوگوں کو بھلائی نصیب ہوتی ہے اور یہ ان کے لئے رتبہ بلند تھا جنہوں نے اس میں حصہ لیا ۔

یہ سورت دراصل فتح عظیم تھی۔ اور صلح حدیبیہ بھی دراصل فتح عظیم تھی ، کیونکہ اس کے نتیجے میں بیشمار فتوحات کا دروازہ کھل گیا۔ یہ دعوت اسلامی کے زاویہ بھی فتح تھی۔ امام زہری کہتے ہیں اس سے قبل اسلام کو جو فتوحات ملی تھیں یہ ان سے بڑی فتح تھی۔ اس سے قبل یہ تھا کہ لوگ جہاں بھی ملتے جنگ ہوتی۔ جب صلح ہوگئی اور حالت جنگ ختم ہوگئی اور لوگوں کو ایک دوسرے کی جانب سے امن نصیب ہوگیا ، ملنا جلنا آزاد ہوگیا تو انہوں نے اسلام کے موضوع پر بحث و مکالمہ شروع کردیا۔ اسلام کے بارے میں جس شخص نے معقول گفتگو کی وہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ صلح حدیبیہ اور فتح کے درمیان دو سالوں میں اس قدر لوگ مسلمان ہوگئے کہ ان کی تعداد سابقہ تمام عرصے کے مسلمانوں کے برابر تھی یا زیادہ تھی۔

ابن ہشام کہتے ہیں کہ زہری کی بات پر دلیل یہ ہے کہ جابر بن عبد اللہ کے قول کے مطابق حضور اکرم ﷺ حدیبیہ کی مہم پر چودہ سو افراد لے کر نکلے تھے لیکن ٹھیک دو سال بعد جب مکہ پر حملہ ہوا تو آپ کے ہم رکاب دس ہزار زائد افراد تھے۔ اور اس عرصہ میں خالد ابن ولید اور عمر ابن العاص ؓ مسلمان ہوئے۔

زمین پر یہ فتح یوں تھی کہ مسلمان قریش کے شر سے محفوظ ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کو موقعہ مل گیا کہ جزیرۃ العرب کو یہودیوں کے باقی خطرات سے پاک فرما دیں۔ بنی قینقاع ، بنی النضیر اور بنو قریظہ کو اس سے قبل ختم کردیا گیا تھا۔ یہ خطرہ اب خیبر کے محفوظ قلعوں میں موجود تھا۔ کیونکہ خیبر کے یہ قلعے شام کے راستے میں واقع تھے۔ چناچہ حدیبیہ کے بعد اللہ نے خیبر کا علاقہ بھی مسلمانوں کو دے دیا ۔ اور نبی ﷺ نے خیبر کے علاقے اور غنائم کو صرف ان لوگوں میں تقسیم کیا جو حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے ان کے علاوہ کسی کو کچھ نہ دیا۔

یہ مدینہ کے مسلمانوں اور مکہ کے قریش کی طویل جنگ میں مسلمانوں کی فتح تھی۔ استاذ محمد دروزہ اپنی کتاب سیرۃ الرسول میں فرماتے ہیں :

“ اس میں شک نہیں کہ یہ صلح جسے قرآن کریم نے فتح قرار دیا اسے ہر مفہوم میں مسلمانوں کی فتح سمجھنا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسے سیرۃ النبی کے فیصلہ کن واقعات میں شمار کرنا چاہئے۔ یہ واقعہ اسلام کی تاریخ میں اسلام کی قوت اور استحکام کا سبب بنا۔ ایک بڑا مفید واقعہ تو وہ بہرحال تھا ہی۔ اس صلح کے ذریعہ قریش نے پہلی مرتبہ اسلامی حکومت اور نبی ﷺ کی حیثیت کو تسلیم کیا اور مسلمانوں کو انہوں نے اپنے برابر کی قوت تسلیم کیا بلکہ قریش نے اسلامی حکومت کا دفاع کیا۔ اس سے پہلے دو سالوں میں قریش نے دو مرتبہ مدینہ پر حملہ کیا اور جنگ احزاب تو حدیبیہ سے ایک سال قبل ہوتی تھی جس میں قریش بیشمار احزاب کو لے کر مدینہ پر چڑھ آئے تھے تا کہ مومنین اور اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ اور غزوۂ احزاب کے درمیان اہل ایمان کی صفوں میں بےحد اضطراب پیدا ہوگیا تھا اور ایک عام بےچینی سی پیدا ہوگئی تھی کیونکہ مدینہ پر حملہ کرنے والوں کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی اور جنگ احزاب کا پورے عالم عرب پر اثر تھا کیونکہ تمام عرب اہل قریش کی پیروی کرتے تھے اور وہ قریش کے سخت موقف سے متاثر ہوتے تھے۔ اگر یہ دیکھا جائے کہ مدینہ کے اردگرد کے دیہاتی اور منافق یہ پیشن گوئیاں کرتے تھے کہ اس جنگ سے مسلمان کسی صورت میں صحیح سالم اپس نہ آسکیں گے اور وہ ہر قسم کا سوئے ظن رکھتے تھے۔ تو اس صورت میں اس فتح کی اہمیت اور ظاہر ہوجاتی ہے اور اس کے اثرت دوررس ثابت ہوتے ہیں ”۔

“ بعد کے واقعات نے یہ ثابت کردیا کہ نبی ﷺ کا جو الہام تھا ، وہ درست تھا اور یہ کہ قرآن کریم نے بھی اس کی تائید کردی۔ اور اس صلح کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت ہی عظیم مادی معنوی اور دعوتی فوائد حاصل ہوئے۔ نیز جنگی اور سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کی پوزیشن بہت ہی مضبوط ہوگئی۔ قبائل کی نظروں میں مسلمان ایک مضبوط قوت بن گئے اور واپس ہوتے ہی مدینہ کے گرد کے جو قبائل پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر عذرات پیش کرنے لگے۔ مدینہ کے اندر منافقین کی آواز دبنے لگی اور وہ کمزور ہوگئے۔ اور ہر طرف سے عرب وفود نبی ﷺ کی خدمت میں آنا شروع ہوگئے اور یہودیوں کی قوت کو خیبر اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے ہٹا دیا گیا۔ یہ لوگ شام کے راستے پر پھیلے ہوئے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کے لئے ممکن ہوگیا کہ آپ نجد ، یمن اور بلقا جیسے دور دراز علاقوں میں فوجی مہمات ارسال کریں۔ اور ٹھیک دو سال بعد حضور ﷺ نے مکہ کو دس ہزار کے لشکر کے ساتھ فتح کیا۔ یہ فیصلہ کن فتح تھی کہ جب اللہ کی مدد آئی اور فتح مکمل ہوئی اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگے ”۔

میں یہ کہتا ہوں کہ ان تمام پہلوؤں کے سوا ایک دوسرا پہلو ہے جس کے زاویہ سے یہ فتح عظیم تھی۔ اس سے اسلام کے لئے لوگوں کے دل و دماغ فتح ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں بیعت الرضوان کا واقعہ پیش آیا جس میں مسلمانوں نے موت اور عدم فرار پر بیعت کی اور اللہ نے اعلان کردیا کہ درخت کے نیچے جن لوگوں نے بیعت کی ان سے اللہ راضی ہوگیا ہے۔ اور قرآن میں اس اعلان کا اندارج ہوگیا اور پھر محمد ﷺ کی انقلابی لیڈر شپ اور انقلابی جماعت کے خدو خال اور اوصاف کو اس سورت میں اس فتح کے نتیجے میں قلم بند کردیا گیا۔

محمد رسول اللہ ۔۔۔۔۔ واجرا عظیماً (48 : 29) “ محمد ، اللہ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلب میں پاؤ گے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں۔ جن سے الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے ان کی صفت تورات میں اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی۔ پھر اس کو تقویت دی پھر وہ گدرائی پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تا کہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں۔ اس گروہ کے لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ، اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے ”۔

میں کہتا ہوں اسلامی دعوت کی تاریخ میں یہ بہت ہی بڑی فتح ہے جو کسی جماعت کو حاصل ہوئی۔ اس کے آثار کافی دیر تک اسلامی تاریخ میں نکلتے رہے۔

پھر اس کے نتیجے میں سورت فتح نازل ہوئی۔ جس پر حضور اکرم ﷺ بہت ہی خوش تھے۔ حضور ﷺ پر اللہ کی رحمتوں کی بارش یوں ہوئی کہ اگلے پچھلے قصور معاف ہوئے اور آپ ﷺ کے ساتھی مومنین پر یہ فیض ہوا کہ اللہ ان سے راضی ہوا۔ حضور ﷺ کو مکمل ہدایت دی گئی اور عظیم نصرت دی گئی اور پھر جماعت اہل ایمان کو تورات ، انجیل اور قرآن کا سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا “ گزشتہ رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی جو اس تمام دولت سے زیادہ قیمتی ہے جس پر کبھی سورج طلوع ہوا ہے ”۔ اور آپ نے رب تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ ان نعمتوں پر آپ ﷺ اور طویل ترین نمازیں پڑھتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ نماز پڑھنے کے لئے اٹھتے تو آپ کے پاؤں سوج جاتے۔ حضرت عائشہ ؓ نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے ہیں تو آپ ﷺ کیوں اس قدر تکلیف کرتے ہیں اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : “ اے عائشہ ! کیا میں گزار بندہ نہ بنوں ”۔

یہ افتتاح تو حضور ﷺ کا حصہ تھا۔ اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اس فتح کے ذریعے مسلمانوں پر کس قدر انعامات کئے گئے اور اللہ نے اپنے دست قدرت سے کس طرح ان کے دلوں پر سکینہ اتارا۔ اور آخرت میں ان کے لئے یہ بخشش اور فوز عظیم کے انعامات ہوں گے۔

اردو ترجمہ

تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Liyaghfira laka Allahu ma taqaddama min thanbika wama taakhkhara wayutimma niAAmatahu AAalayka wayahdiyaka siratan mustaqeeman

اردو ترجمہ

اور تم کو زبردست نصرت بخشے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayansuraka Allahu nasran AAazeezan

اردو ترجمہ

وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee anzala alssakeenata fee quloobi almumineena liyazdadoo eemanan maAAa eemanihim walillahi junoodu alssamawati waalardi wakana Allahu AAaleeman hakeeman

سکینہ کا لفظ ایک معنوی تعبیر اور تصویر اور پرتو پر دلالت کرتا ہے۔ جب کسی قلب پر سکینہ نازل ہو تو وہ مطمین ، خوش ، اور پروقار ہوتا ہے۔ اسے یقین ، بھروسہ اور ثبات حاصل ہوتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں وہ سر تسلیم خم کردیتا ہے۔ اور اللہ کے ہر حکم پر راضی ہوتا ہے۔ اور ایسا شخص پھر نہایت باوقار ہوتا ہے۔

اس واقعہ پر مسلمانوں کے دل کئی وجوہات سے جوش میں آجاتے تھے اور ان پر مختلف قسم کے تاثرات کا دباؤ تھا۔ ایک تو لوگوں نے نبی ﷺ کے خواب کی تعبیر یہ کر رکھی تھی کہ آپ مسجد حرام میں اسی سال داخل ہوں گے۔ پھر یہ کہ قریش نے یہ شرط رکھ دی کہ آپ ﷺ اس سال واپس ہوجائیں اور اگلے سال عمرہ کریں اور حضور ﷺ نے اس شرط کو قبول کرلیا۔ حالانکہ انہوں نے احرام باندھ لیا تھا اور ہدی کے جانوروں کے گلے میں شعار باندھ لیا تھا۔ اور یہ امور ایسے تھے جو بعض جذباتی لوگوں کے لئے ناقابل برداشت تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر ؓ ، حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور وہ اس وقت سخت جوش میں تھے کہ آیا ہمیں یہ نہ بتایا گیا تھا کہ ہم بیت اللہ کو جائیں گے اور طواف کریں گے۔ ابوبکر ؓ جن کا دل حضور اکرم ﷺ کے ساتھ دھڑکتا تھا ، نے فرمایا کیا آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ اسی سال تم عمرہ کرو گے ؟ تو انہوں نے کہا اس سال کا تو نہیں کہا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا : ” پس تم آؤ گے اور طواف کرو گے “۔ چناچہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کو چھوڑا اور حضور اکرم ﷺ کے پاس پہنچے اور حضور ﷺ سے کہا : ” کیا آپ نے نہ بتایا تھا کہ ہم بیت اللہ کو جائیں گے اور طواف کریں گے ؟ “ حضور ﷺ نے فرمایا ” درست ، لیکن کیا میں نے یہ کہا تھا کہ تم اسی سال عمرہ کرو گے ؟ “ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا ” نہیں “۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” بیشک تم آؤ گے اور طواف کرو گے “۔ یہ باتیں تھیں جو دلوں میں لاوے کی طرح ابل رہی تھیں۔

پھر مومنین قریش کی شرائط پر بھی سخت برہم تھے۔ یہ کہ اگر کوئی مسلمان اپنے ولی کی اجازت سے محمد ﷺ کے پاس آجاتا ہے تو اسے واپس کردیا جائے گا لیکن اگر کوئی مسلمان ، مسلمانوں کی اجازت کے بغیر مکہ چلا جاتا ہے تو اسے واپس نہ کیا جائے گا۔ پھر انہوں نے اپنی جاہلیت کی وجہ سے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا نام کٹوا کر بسمک اللھم کردیا۔ پھر انہوں نے ، آپ کے نام سے رسول اللہ کا لفظ کٹوا دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت علی ؓ نے سہیل کے کہنے کے مطابق (رسول اللہ) کا لفظ کاٹنے سے انکار کردیا۔ رسول اللہ نے نے اسے خود محو کردیا اور کہا ” اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں رسول ہوں “۔

مسلمانوں کی بہادری ، دینی حمیت اور جذبہ جہاد اور مشرکین کے ساتھ لڑنے کا جذبہ تو اس اجتماعی بیعت سے ظاہر ہے جو انہوں نے کی۔ لیکن معاملہ چونکہ اچانک صلح ، امن اور واپسی پر منتج ہوگیا اس لیے مسلمان اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرسکتے تھے۔ اس لیے ان کی طرف سے جذبات کا اظہار ہوا۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے باوجود انہوں نے قربانیاں نہ کیں ، سر نہ منڈوائے ، باوجود اس کے کہ حضور ﷺ نے تین مرتبہ احکام صادر فرمائے۔ حالانکہ وہ حضور ﷺ کے احکام پر مر مٹنے والے تھے۔ عروہ ابن مسعود ثقفی نے قریش کو جو رپورٹ دی اس سے مسلمانوں کی حالت ظاہر تھی اور اب حالت یہ ہے کہ جب حضور ﷺ نے قربانی ذبح کردی اور سر منڈوا لیا تب جا کر انہوں نے جانور ذبح کئے اور سر منڈوائے۔ غرض ان کو اس واقعہ نے سخت ہلا مارا تھا۔ اب جب کہ وہ اطاعت کی طرف آگئے تو پھر بھی دہشت زدہ تھے۔

یہ لوگ مدینہ سے عمرہ کی نیت سے نکلے تھے۔ جنگ لڑنے کا تو ارادہ ہی نہ تھے۔ نہ نفسیاتی لحاظ سے اور نہ مادی لحاظ سے وہ جنگ کے لئے تیار تھے۔ لیکن جب قریش نے سخت موقف اختیار کیا ، پھر یہ خبر آئی کہ حضرت عثمان ؓ قتل کر دئیے گئے ہیں ۔ پھر قریش نے کچھ لوگ بھیجے جنہوں نے مسلمانوں کے لشکر پر تیر اور پتھر پھینکے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے جنگ پر بیعت چاہی تو وہ تہہ دل سے تیار ہوگئے۔ لیکن اس بیعت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسلمانوں کے اندر جنگی حالت اچانک نہ آئی تھی۔ یہ جنگی حالت بالکل اچانک تھی یہ لوگ جنگ کے لئے نکلے نہ تھے۔ اس وجہ سے بھی مسلمانوں کے دلوں کے اندر جوش و خروش پیدا ہوگیا تھا۔ یہ چودہ سو تھے۔ اور قریش اپنے گھروں میں تھے اور ان کے ساتھ اطراف مکہ کے مشرکین بھی معاون و مدد گار تھے۔

جب انسان ان تمام حالات کو پیش نظر رکھ کر اس آیت پر غور کرتا ہے۔

ھو الذی انزل السکینۃ فی قلوب المومنین (48 : 4) ” وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر سکینت نازل کی “ تو انسان لفظ اور مفہوم دونوں کی خوبصورتی اور مٹھاس کو محسوس کرتا ہے اور اس وقت جو صورت حالات تھی وہ بھی پوری طرح ذہن میں بیٹھ جاتی ہے اور اچھی طرح محسوس ہوتی ہے کہ اس کی سکینت کی ٹھنڈک نے کس طرح جلنے والے دلوں کو فوراً سکون بخشا ہوگا اور کس طرح ان کو بحال کردیا ہوگا۔

چونکہ اللہ کو معلوم تھا کہ مسلمانوں کے دلوں کی حالت کیا ہے ؟ اور کیوں ہے ؟ جو جوش ہے وہ جوش ایمان ہے ، جو محبت اور غیرت ہے وہ حمیت اسلامی اور غیرت ایمانی ہے۔ کسی مفاد یا جاہلیت کے لئے نہیں ہے۔ اس لیے اللہ نے یہ سکینت نازل کی۔

لیزدادوا ایمانا مع ایمانھم (48 : 4) ” تا کہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں “۔ طمانیت وہ درجہ ہے جو ایمان کے جوش و خروش کے بعد آتا ہے۔ اس میں بھر پور اعتماد ہوتا ہے۔ کوئی بےچینی نہیں ہوتی ، ایسی رضا مندی ہوتی ہے جو اعتماد و یقین پر مبنی ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس بات کو نمایاں کیا جاتا ہے کہ نصرت اور غلبہ نہ تو ناممکن ہے۔ اور نہ ہی مشکل ہے۔ اگر اللہ کی حکمت کا تقاضا ہوتا تو یہ اللہ کے لئے بہت ہی آسان ہے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے ، یہی اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے۔ اللہ کی افواج لاتعداد ہیں ، ان پر کوئی قوت غالب نہیں آسکتی۔ لیکن اللہ نے غلبے کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔

وللہ جنود السموت والارض وکان اللہ علیما حکیما (48 : 4) ” زمین اور آسمانوں کے لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے “۔ یہ اللہ کی حکمت ہے اور اس کا علم ہے جو معاملات کو اپنی مرضی سے چلاتے ہیں۔

اور اس علم اور حکمت ہی کا تقاضا تھا کہ۔

انزل السکینۃ فی قلوب المومنین (48 : 4) لیزدادو ایمانا مع ایمانھم (48 : 4) ” جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل کی تا کہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں “۔ تا کہ ان کے لئے اللہ نے جو بڑی کامیابی مقدر رکھی ہے ، وہ پوری ہوجائے۔

لیدخل المومنین ۔۔۔۔۔ فوزا عظیما (48 : 5) ” تا کہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لئے ایسی جنتوں میں داخل فرنائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور ان کی برائیاں ان سے دور کر دے۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے “۔

اگر اس بات کو اللہ فوز عظیم قرار دیتا ہے تو یہ فی الواقع فوز عظیم ہے۔ اپنی حقیقت میں فوز عظیم ہے۔ یہ ایک عظیم کامیابی ہے ، ان لوگوں کے خیال میں جن کو وہ ملی ہے ، اللہ کی تقدیر کے مطابق اور اللہ کے پیمانوں کے مطابق۔ اس وقت مسلمان بہت خوش تھے ان فتوحات پر جو اللہ نے ان کے لئے لکھ دی تھیں۔ جب انہوں نے اس سورت کا یہ آغاز سنا تو وہ ان فتوحات کی امید کرتے تھے۔ ان کے انتظار میں تھے اور ان کو علم ہوگیا تھا کہ اللہ رسول اللہ ﷺ پر کیا کیا مہربانیاں کرنے والا ہے۔ اور اس میں ان کو جو حصہ ہے اس کے لئے وہ انتظار میں تھے۔ اور آپ سے پوچھتے رہتے تھے اور جب انہوں نے سنا اور جانا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔

اردو ترجمہ

(اُس نے یہ کام اِس لیے کیا ہے) تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اُن کی برائیاں اُن سے دور کر دے اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Liyudkhila almumineena waalmuminati jannatin tajree min tahtiha alanharu khalideena feeha wayukaffira AAanhum sayyiatihim wakana thalika AAinda Allahi fawzan AAatheeman

اردو ترجمہ

اور اُن منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آ گئے، اللہ کا غضب ان پر ہوا اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم مہیا کر دی جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WayuAAaththiba almunafiqeena waalmunafiqati waalmushrikeena waalmushrikati alththanneena biAllahi thanna alssawi AAalayhim dairatu alssawi waghadiba Allahu AAalayhim walaAAanahum waaAAadda lahum jahannama wasaat maseeran

اس کے بعد اللہ کی حکمت کا ایک دوسرا پہلو سامنے آتا ہے ، جو اللہ نے اس واقعہ میں رکھا ہوا تھا یہ کہ منافقین اور منافقات کو سزا دے اور مشرکین اور مشرکات سے ایسے کاموں کا صدور ہو اور وہ سزاؤں کے مستحق ہوجائیں۔

ویعذب المنفقین والمنقت ۔۔۔۔۔۔۔ وساءت مصیرا (6) واللہ جنود ۔۔۔۔۔ عزیز حکیما (48 : 7) ” اور ان منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں۔ برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آگئے ، اللہ کا غضب ان پر ہو اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لئے جہنم مہیا کردی جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ زمین اور آسمان کے لشکر اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ زبردست اور حکیم ہے “۔

اس آیت میں اللہ نے مشرکین اور مشرکات ، منافقات اور منافقین کو صفت سوء ظن میں شریک کیا ہے اور اس صفت میں کہ ان کو یقین نہ تھا کہ اللہ مومنین کی امداد کرے گا۔ اس لیے اللہ نے ان کو اس سزا میں بھی شریک رکھا کہ ان پر برائی کا پھیر آگیا اور یہ خود ہی گھیرے گئے۔ اور یہ برائی ان پر پڑنے والی ہے ۔ اور ان سب پر اللہ کا غضب ہے اور سب پر اللہ کی لعنت ہے اور ان سب کا انجام بھی برا ہے اور یہ اس میں شریک ہیں۔ یہ اس لیے کہ نفاق ایک بہت ہی ذلیل حرکت ہے۔ یہ شرک کے برابر ہے بلکہ شرک سے بھی بری ہے اور گری ہوئی حرکت ہے۔ اور مسلمانوں کو اذیت دینے میں ان منافقین اور منافقات کا کردار مشرکین اور مشرکات سے کم نہیں ہے۔ اگرچہ دونوں کی اذیتوں کا دائرہ اور نوعیت مختلف ہے۔

اللہ تعالیٰ نے منافقین و منافقات اور مشرکین و مشرکات کی اہم صفت یہ قرا ردی ہے کہ یہ اللہ کے بارے میں بدگمانیاں کرتے ہیں۔ ایک مومن اپنے رب کے ساتھ حن ظن رکھتا ہے اور ہمیشہ اللہ سے خیر چاہتا ہے۔ اور خیر کی توقع کرتا ہے خواہ اس کے حالات اچھے ہوں یا وہ مشکلات میں ہو۔ وہ اپنے ایمان کو مضبوط کرتا ہے کہ دونوں حالات میں اللہ سے بھلائی چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا دل اللہ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ اور اللہ بھلائی کے چشمہ کو کبھی بند نہیں فرماتا۔ جب انسان کا قلب واصل باللہ ہو تو وہ اس حقیقت کو محسوس کرتا ہے اور براہ راست اس کا ذائقہ محسوس کرتا ہے۔ رہے منافق اور مشرک تو ان کو تعلق باللہ کی نعمت حاصل نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ اس حقیقت کو محسوس نہیں کرتے اور نہ اسے اپنے اندر پاتے ہیں۔ پس وہ اللہ کے ساتھ سوء ظن کرتے ہیں اور صرف ظاہری امور کو دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں اور اپنے احکام کو ظاہری امور پر مبنی کرتے ہیں۔ جب کوئی ظاہری علامات ان کو نظر آتی ہیں تو وہ توقع کرتے ہیں کہ ان پر بھی مصیبت آگئی اور مسلمانوں پر بھی۔ ان کو اللہ کی تقدیر اور تدبیر پر کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ اللہ کی تقدیر اور تدبیر بعض اوقات نظروں سے اوجھل ہو کر کام کرتی ہیں۔

اس آیت میں اللہ نے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی مختلف انواع و اقسام کو جمع کیا ، ان کا حال بیان کیا اور بتایا کہ ان کے لئے کس قدر برا انجام ہے اور آخر میں بتایا کہ ان کا سوء ظن غلط ہے۔ اللہ کی قدرت وسیع اور حکمت دور رس ہے۔

وللہ جنود السموت والارض وکان اللہ عزیز حکیما (48 : 7) ” زمین و آسمان کے لشکر اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ زبردست و حکیم ہے “۔ لہٰذا ان دشمنان اسلام کی کوئی بات اللہ کو عاجز نہیں کرسکتی ، ان کی کوئی سرگرمی اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ تو زمین و آسمان کی قوتوں کا مالک ہے اور عزیز و حکیم ہے۔

اس کے بعدنبی ﷺ کی طرف رخ کیا جاتا ہے کہ آپ کا فرض منصبی کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں اہل ایمان کے فرائض کیا ہیں۔ آپ نے ان تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔ وہ ایمان لا چکے ، بیعت الرضوان میں براہ راست اللہ سے بیعت بھی کرچکے ۔ یہ عہد انہوں نے براہ راست اللہ سے کیا ہے۔ اس لیے یہ نہایت ہی عظیم مقام ہے جس تک وہ پہنچ گئے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اس بیعت اور عقد کی ذمہ داریاں بھی عظیم ہیں۔

اردو ترجمہ

زمین اور آسمانوں کے لشکر اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ زبردست اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walillahi junoodu alssamawati waalardi wakana Allahu AAazeezan hakeeman

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، ہم نے تم کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کر دینے والا بنا کر بھیجا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna arsalnaka shahidan wamubashshiran wanatheeran

اے نبی ﷺ ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔ اب جو اس عہد کو توڑے گا اس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا ، اور جو اس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے ، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا “۔

رسول اللہ ﷺ ان تمام لوگوں پر گواہ ہیں جن کی طرف آپ کو بھیجا گیا ہے۔ آپ شہادت دیں گے کہ جو پیغام آپ کو دے کر بھیجا گیا تھا آپ نے وہ لوگوں تک پہنچا دیا ہے اور یہ کہ لوگوں کا رد عمل یہ رہا ہے۔ اور ان میں سے بعض مومن ہوئے۔ بعض نے کفر اختیار کیا اور بعض نے منافقت کا رویہ اختیار کیا۔ بعض لوگوں نے اصلاح قبول کی اور بعض بدستور مفسد رہے تو حضور ﷺ نے جس طرح رسالت کا حق ادا کیا اور پیغام پہنچایا اسی طرح حضور ﷺ شہادت بھی دیں گے کیونکہ حضور ﷺ مبشر ہیں ، خوش خبری دینے والے ہیں ، اچھے انجام اور اللہ کی مغفرت کی اور اچھے انجام کی ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے اطاعت کی اور ڈرانے والے ہیں کافروں ، منافقوں اور مفسد نافرمانوں کو کہ ان کا انجام برا ہوگا۔ ان پر اللہ کا غضب ہوگا ، لعنت ہوگی اور سخت سزا ہوگی۔

یہ تو ہے رسول اللہ ﷺ کا فرض منصبی۔ اس کے بعد مومنین سے خطاب ہے کہ رسالت کے حوالے سے تمہارے فرائض کیا ہیں ؟ یہ کہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لاؤ، اس کے بعد ایمان کے تقاضے پورے کرو ، اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں اللہ اور رسول ﷺ کی مدد کرو ، رسول اللہ ﷺ کا غایت درجہ احترام کرو ، اور صبح و شام اللہ کی تسبیح و تمجید کرو ، یعنی پورے دن اللہ کی بندگی کرو کیونکہ دن کے دونوں اطراف کا ذکر کر کے اس سے مراد پورا دن لیا گیا ہے۔ یعنی ہر وقت اللہ سے جڑے رہو۔ یہ ہے ایمان کا ثمرہ اور پھل جس کی ہر مومن سے توقع کی جاتی ہے اور رسول کو شاہد ، مبشر اور نذیر اسی لیے بنا کر بھیجا گیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے آنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ آپ لوگوں کے لو اور اللہ کے درمیان رابطہ قائم کر کے ایسی بیعت اور ایسا معاہدہ کرا دیں کہ آپ ﷺ کے چلے جانے کے بعد بھی یہ رابطہ قائم رہے۔ جب لوگ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کریں تو گویا انہوں نے اللہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی۔

اردو ترجمہ

تاکہ اے لوگو، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اُس کا ساتھ دو، اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lituminoo biAllahi warasoolihi watuAAazziroohu watuwaqqiroohu watusabbihoohu bukratan waaseelan
511