اس صفحہ میں سورہ At-Talaaq کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الطلاق کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
یہ پہلا مرحلہ ہے اور یہ پہلا حکم ہے کہ خطاب تو صرف حضور اکرم ﷺ کو ہے لیکن حکم تمام مومنین کے لئے ہے۔ کیونکہ خطاب۔
یایھا النبی (56 : 1) سے ہے اور حکم یوں شروع ہوتا ہے :
اذا ............ النسائ (56 : 1) ” جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو “۔ معلوم ہوا کہ اس حکم کی خدا کے نزدیک بہت بڑی اہمیت ہے اور اس لئے یہ تاثر دیا گیا کہ اسے نہایت سنجیدگی سے لیا جائے۔ یہ اہم حکم ہے۔ اللہ اپنے نبی کو خصوصی طور پر خطاب فرماتا ہے کہ یہ حکم لیجئے اور اسے لوگوں تک پہنچائے۔ یہ ایک نفسیاتی انداز ہے اور نہایت ہی اونچے درجے کا اہتمام کا۔
اذا طلقتم ................ لعدتھن (56 : 1) ” جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دو “۔ اس آیت کا مفہوم کے تعین میں بخاری شریف کی ایک صحیح حدیث وارد ہے۔ یحییٰ ابن بکیر سے ، لیث سے ، انہوں نے عقیل سے ، انہوں نے ابن شہاب سے ، انہوں نے سالم سے ، انہوں نے عبداللہ ابن عمر ؓ سے وہ کہتے ہیں کہ میری ایک بیوی تھی جسے میں نے طلاق دے دی۔ اس وقت وہ حائضہ تھی۔ حضرت عمر ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ سے فرمایا۔ رسول اللہ کو بہت غصہ آیا ۔ پھر آپ نے فرمایا : ” اسے چاہئے کہ اس سے رجوع کرے۔ پھر اسے بیوی بنا کر رکھے جب تک کہ وہ حیض سے پاک نہ ہوجائے اور اس کے بعد وہ دوبارہ حائضہ ہوجائے اور پھر حیض کی مدت ختم ہونے پر پاک ہوجائے۔ اب اگر وہ اسے طلاق دینا چاہتا ہے تو دے دے۔ ایسی حالت میں کہ وہ پاک ہو اور قبل اس کے کہ اس نے ہاتھ لگایا ہو۔ یہ ہے وہ عدت جس کا حکم اللہ نے دیا ہے “۔ مسلم نے بھی اس کی روایت کیا ہے۔ البتہ ان کے الفاظ یہ ہیں : ” یہ ہے وہ عدت جس کے لئے اللہ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے “۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق واقع ہونے کا ایک متعین وقت ہے۔ لہٰذا مرد کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ جس وقت چاہے عورت کو طلاق دے دے الایہ کہ اس کی بیوی پہلے سے حالت طہر میں ہو اور اس طہر میں اس نے اپنی بیوی کو ہاتھ نہ لگایا ہو۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ایک دوسری صورت بھی ہے جس میں طلاق دی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ عورت واضح طور پر حاملہ ہو۔ اس میں حکمت الٰہیہ یہ ہے کہ طلاق اس طرح ایک متعین وقت کے لئے موخر ہوجائے گی۔ اور جس وقت مرد طلاق دینے کے لئے آمادہ ہوتا ہے ، فوراً نہ دی جاسکے گی۔ عملاً طلاق موخر ہوجائے گی اور فائدہ یہ ہوگا کہ اگر کوئی فوری غیض وغضب کا معاملہ ہو تو وہ ٹھنڈا ہوجائے۔ اور اس دوران فریقین کے درمیان تعلقات درست ہوجائیں۔ نیز اگر حاملہ ہے تو حمل کی تفتیش میں بھی وقت گزرسکتا ہے۔ بعض اوقات ہوسکتا ہے کہ ایک شخص حمل ہی کی وجہ سے طلاق سے رک جائے۔ جب حمل معلوم ہوجائے ، اس صورت میں اگر وہ طلاق دے گا تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ سوچ سمجھ کر طلاق دینے کا فیصلہ کرچکا ہے۔” یہ کہ طہر میں طلاق دی جائے جس میں عورت کے پاس نہ گیا ہو “۔ یہ اس لئے کہ اس صورت میں حمل کا امکان کم ہوتا ہے۔ اور یہ شرط کہ ” وہ پہلے یہ تفتیش کرائے کہ حمل نہیں ہے “۔ یہ اس لئے کہ اسے معلوم ہو کہ بیوی حاملہ ہے۔
یہ پہلی کوشش ہے کہ خاندان کے خلے پر دار کرنے سے خاوند کو روکا جاتا ہے اور اس عمارت کو گرانے کے لئے مارے جانے والے کدال کو روک دیا جاتا ہے یا روکنے کی سعی کی جاتی ہے۔
لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اگر کوئی شخص ان شرعی ہدایات کی پرواہ کیے بغیر طلاق دیتا ہے تو واقع نہیں ہوتی۔ جس وقت بھی کوئی طلاق دے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لیکن اس طرح دینا مکروہ ہے۔ اللہ اور رسول سے ایسے شخص پر غضب کا نزول ہوگا۔ (اور اسے طلاق بدعی) کہتے ہیں اور ایک سچے مومن کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اس سے بچے اور اللہ کے حکم کے مطابق عمل کرے۔
واجصوا العدة (56 : 1) ” عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو “۔ تاکہ اس کے عدم شمار میں عدت گزارنے والی عورت پر مدت زیادہ نہ ہوجائے اور عدت گزارنے کے بعد اگر وہ دوسرا خاوند کرنا چاہتی ہے تو اسے بلاضرورت دیر نہ کرنا پڑے۔ یا اگر مدت کم شمار ہو تو اس سے مدت کے جو مقاصد ہیں وہ پورے نہ ہوں۔ یعنی نسب کی حفاظت کے لئے رحم مادر کی پاکی کا یقین ہونا۔ اس کے بعد عدت گزارنے کے بارے میں مفصل احکام۔ اور معاملے کو اللہ کی نگرانی اور خدا خوفی کے حوالے کیا جاتا ہے۔
واتقواللہ .................... مبینة (56 : 1) ” اور للہ سے ڈرو ، جو تمہارے رب ہے۔ نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو ، اور نہ وہ خود نکلیں ، الایہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں “۔ یہ پہلی پکار کے بعد پہلی تنبیہ ہے۔ اور عورتوں کو گھروں سے نکالنے یا ان کے خود نکلنے کو خدا خوفی کے حوالے کیا گیا ہے کہ اس معاملے میں خدا سے ڈرو۔ یہ کہا گیا ہے کہ ” ان کو ان کے گھروں “ سے نہ نکالو حالانکہ گھر تو خاوند کے ہیں ، لیکن چونکہ ان کو وہاں رہنے کا استحقاق ہے اور ان کا وہاں رہنا اللہ نے فرض قرار دیا ہے ، اس لئے ان خاوندوں کے گھروں کو ان کے گھر کہا گیا ہے۔ ہاں صرف ایک صورت میں وہ گھروں سے نکل سکتی ہیں ، یا نکالی جاسکتی ہے کہ ان سے کسی کھلی فحاظی کا ارتکاب ہو ، اگر وہ زنا کا ارتکاب کریں تو حد کے لئے نکالا جائے گا۔ یا یہ کہ خاوند کے رشتہ داروں کے لئے وہ ایذا کا سبب ہوں۔ یا بعض اوقات خاوند کے ساتھ نافرمانی اور بدکلامی بھی ہوسکتی ہے ، کیونکہ عورت کو خاوند کے ھگر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے لئے ایسے مواقع فراہم ہوں کہ وہ رجوع کے لئے آمادہ ہوسکیں۔ اور محبت جذبات کو کام کرنے کے مواقع فراہم ہوں۔ مشترکہ زندگی کی یادیں اپنا کام کرسکیں ، یوں کہ عورت جسمانی لحاظ سے خاوند سے دور ہوگی اور اس کی نظروں کے سامنے ہوگی۔ اس حالت میں دونوں کے درمیان معاملات کی درستگی کے امکانات موجود ہوں گے۔ اگر وہ خاوند کے گھر رہتے ہوئے ، زنا کا ارتکاب کرتی ہے ، یا فحاشی اور بدکلامی کرتی ہے ، یا اس کو اور اس کے اہل خانہ کو ایذا دیتی ہے ، تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ٹھہرانے سے جو مقاصد پیش نظر تھے ان کے حصول کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا اب اس کا یہاں رہنا مزید بدمزگی کا باعث ہوگا۔ فریقین میں مزیدکشیدگی ہوگی۔
وتلک .................... نفسہ (56 : 1) ” یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا “۔ یہ دوسرا ڈراوا ہے جو اسلام کے قانون طلاق پر عمل نہ کرنے والوں کو دیا گیا ہے۔ کیونکہ اپنے احکام کی تعمیل کروانے اور ان پر عمل کی نگرانی کرنے والا اللہ بذات خود ہے۔ اگر کوئی مومن ہے تو وہ حدوں کو ہرگز عبور نہیں کرسکتا جن کا نگران اللہ ہے۔ یہ تو کھلی ہلاکت اور تباہی ہے۔” جو اللہ کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر ظلم کرے گا “۔ اس لئے کہ اللہ کی حدود پر اللہ کی فوجیں کھڑی ہیں ، پھر یہ شخص اپنی بیوی پر ظلم کرکے خود اپنے ساتھ ظلم کررہا ہے کہ دوتوں ایک ہی نفس سے پیدا کردہ ہیں۔
لا تدری .................... امرا (56 : 1) ” تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت) کی کوئی صورت پیدا کردے “۔ یہ نہایت موثر احساس دلانا ہے۔ کوئی ہے جو مستقبل کے پردے کے پیچھے پوشیدہ امور کو جانتا ہو۔ یا کون ہے جو اللہ کی تقدیر کو جانتا ہے اور اس حکمت کو جانتا ہے کہ عدت کیوں مقرر کی گئی ہے اور یہ کیوں مقرر کیا ہے کہ وہ گھروں میں رہیں۔ یہ ان کی امید اور اچھی امید کی یقین دہانی ہے۔ بعض اوقات اس سے بہت بڑی خیر نکل آتی ہے۔ بعض اوقات اچانک حالات تبدیل ہوجاتے ہیں ، غلط فہمی دور ہوکر رضامندی پیدا ہوجاتی ہے۔ اللہ کی تقدیر تو ہر وقت حرکت میں رہتی ہے۔ اس کے اندر ہر وقت تغیر ہوتا رہتا ہے۔ نئے نئے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں لہٰذا اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم کرنا ہی بہتر طریقہ ہے اور اللہ سے ڈرنے ہی میں خیر ہے۔
نفس انسانی پر بعض اوقات وقتی حالات چھا جاتے ہیں۔ اور موجود حالات کے ہاتھوں وہ مجبور ہوجاتا ہے۔ اور مستقبل کی رہا ہیں اس پر مسدود وہ جاتی ہیں۔ چناچہ وہ موجود حالات کی گندگی میں مجبوراً پڑا رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مجھے اب یونہی رہنا ہے۔ یہی صورت باقی رہے گی۔ اور موجودہ حالات ہمیشہ اس کے رفیق رہیں گے اور موجودہ سائے اس کا پیچھا کرتے ہی رہیں گے۔ یہ ایک نفسیاتی جیل خانہ ہوتا ہے جس میں کوئی شخص خود اپنے ہاتھوں قید ہوجاتا ہے اور بعض اوقات اعضاء شکن ہوتا ہے۔
لیکن حقیقت یوں نہیں ہوتی۔ اللہ کی تقدیر تو حالات پر خندہ زن ہوتی ہے۔ حالات تو بدلتے رہتے ہیں۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ بعض اوقات مشکلات کے بعد ایسے حالات پیش آجاتے ہیں کہ لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مشکل کے بعد ہمیشہ آسانیاں ہوتی ہیں۔ تنگی کے بعد کشادگی ہوتی ہے اور اللہ کی ہر روز نئی شان ہوتی ہے۔ تمام تخلیق اس کے ہاتھ میں ہے۔
اللہ یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے شعور میں یہ فکر مستقلاً ہو ، تاکہ وہ پر امید رہیں اور اللہ کی طرف نظریں لگائے ہوئے ہوں ، کہ وہ کسی بھی وقت ، مشکلات کو دور کردے گا۔ اور حالات کے بدلنے میں کوئی دیر نہیں لگتی ، لہٰذا انسانی ذہن کو بھی اپنے دروازے اس کے لئے کھلے رکھنے چاہئیں اور مایوس ہوکر وہ ذہن کو بند نہ کردے۔ آنے والی گھڑی میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔
لاتدری ........................ امرا (56 : 1) ” تم نہیں جانتے کہ اللہ اس کے بعد کوئی صورت مصالحت پیدا کردے “۔
فاذا بلغن ............................ قدرا (56 : 3) (56 : 2۔ 3) ”” اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دیا کرو اور ، پھر جب وہ اپنی (عدت کی) مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو ، یا بھلے طریقے پر ان سے جدا ہوجاﺅ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنالو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں اور (اے گواہ بننے والو) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لئے ادا کرو۔ یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے ، ہر اس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لئے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک تقدیر مقرر کررکھی ہے “۔
یہ دوسرا مرحلہ اور اس کا حکم ہے۔ عدت پوری ہوجاتی ہے ، اور جب تک عورت عدت سے خارج نہیں ہوجاتی ، خاوند کو رجوع کا حق رہتا ہے اور محض رجوع کرنے سے وہ اس کی بیوی بن جاتی ہے۔ یاد رہے کہ عدت کی مختلف میعادیں ہم نے پہلے بتادی ہیں۔ یہ ہے امساک یعنی روک لینا۔ یا اگر وہ (دوسری یا تیسری) طلاق نہیں دیتا اور عورت بائن ہوجاتی ہی یعنی عورت ایک یا دوطلاقوں ہی سے جدا ہوجاتی ہے تو پھر وہ آزادہ ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد اگر خاوند چاہے تو اس کی مرضی سے جدید نکاح کرسکتا ہے لیکن اگر وہ رجوع کرتا ہے یا عورت کو جدا کرتا ہے ، حکم یہ ہے کہ اس کے ساتھ معروف طریقے کے مطابق برتاﺅ کرے۔ یہ بھی منع ہے کہ اسے محض تنگ کرنے کے لئے رجوع کرے۔ مثلاً یہ کہ عورت کو ایک طلاق دے۔ پھر وہ پوری عدت گزارنے سے قبل رجوع کرے ، پھر اس کو طلاق دے اور پھر وہ تین مہینے کی عدت شروع کرے اور ختم ہونے سے قبل پھر رجوع کرے اور پھر طلاق دے دے۔ یوں اس کی عدت نو ماہ تک چلی جائے۔ یہ ہے عورت کو محض اذیت دینا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر رکھنا ہے تو رجوع کرے۔ اور اس طرح بھی نہ ہو کہ رجوع کرکے اسے معلق رکھ دے کہ وہ بےچاری مالی تاوان دینے پر مجبور ہوجائے۔ جب یہ سورت نازل ہوئی تو اس وقت عرب معاشرہ میں ایسی صورتیں ہورہی تھیں اور ہمیشہ ایسا ہوتا ہے جب انسان دلوں سے اللہ کا خوف نکل جاتا ہے۔ معاشرت اور جدائی دونوں حالتوں میں خوف خدا ہی بہترین ضامن ہوتا ہے۔ نیز عورت کو جدا کرتے وقت سب وشتم ، سختی ، سخت کلامی یا مارپیٹ معروف طریقہ نہیں ہے۔ معروف طریقہ یہ ہے کہ شرافت سے رخصت کیا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں کو پھر ایک جگہ رہنا پڑے۔ اور اس صورت میں بری یادیں بیچ میں حائل نہ ہوں۔ اس طرح بری اور ناخوش گوار یادیں ، یہ برے الفاظ یا طنز وتشنیع دوبارہ تعلقات قائم ہونے کی راہ میں حائل نہ ہوں۔ یہ اسلام کا عظیم تادہی سبق ہے کہ ایسے مشکل اور تلخ حالات میں بھی انسان کو شریفانہ طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
ہاں اب جدائی ہو یا رجوع دونوں حالات میں شہادت کا قیام ضروری ہے۔ دو عادل گواہ اس پر قائم ہوں تاکہ شک کسی معاملے میں نہ ہو کہ لوگوں کو طلاق کے بارے میں تو معلوم ہو اور رجوع کرنے کے بارے میں معلوم نہ ہو۔ لوگوں میں شکوک پھیل جائیں اور لوگ باتیں بنائیں کہ فلاں کی بیوی تو مطلقہ ہے۔ جبکہ اسلام کی پالیسی یہ ہے کہ میاں بوی کے متعلق لوگوں کے دل بھی صاف ہوں اور ان کی زبانیں بھی صاف ہوں۔ فقہاء کی اکثریت کا خیال ہے کہ رجوع یا فراق کے لئے شہادت کا قیام ضروری نہیں۔ بعض فقہاء اسے ضروری خیال کرتے ہیں لیکن دونوں کا خیال یہی ہے کہ شہادت ضرور قائم کی جائے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔ اور لوگوں کو باتیں بنانے کا موقعہ نہ ملے۔ چناچہ اس بیان کے بعد متعدد ہدایات دی جاتی ہیں اور یاد دہانیاں کرائی جاتی ہیں :
واقیموا ................ للہ (56 : 2) ” اور شہادت قائم کرو اللہ کے لئے “۔ کیونکہ یہ ایک اہم معاملہ ہے۔ اور اس میں اللہ کے لئے شہادت دینا گواہ پر لازم ہے۔ اللہ اس کے قیام کا حکم دیتا ہے۔ وہی اس کی ادائیگی کا بھی حکم دیتا ہے۔ اور اس پر اجر بھی وہ دے گا۔ اس میں معاملہ خدا کے ساتھ ہے ، نہ خاوند کے ساتھ ، نہ بیوی کے ساتھ ، اور نہ لوگوں کے ساتھ ہے۔
ذلکم ........................ الاخر (56 : 2) ” یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے ، ہر اس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو “۔ ان آیات کے مخاطب مومنین تھے اور وہ سب کے سب اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ اللہ ان کو کہتا ہے کہ یہ بہت ہی اہم معاملات ہیں۔ اگر انہوں نے سچے دل سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہے تو پھر انہیں ان احکام الٰہی کا احترام کرنا چاہئے۔ یہ ان کے ایمان کے لئے معیار تصور ہوگا اور دعوائے ایمان کا یہ نہ پیمانہ ہوگا۔
ومن .................... یحتسب (56 : 3) ” جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو “۔ وہ دنیا اور آخرت کی تنگیوں سے انہیں نکال دے گا۔ اور رزق ایسے ذرائع سے اسے دے گا جدھر کا اسے گمان بھی نہ ہوگا۔ یہ ایک عام فیصلہ اور دائمی حقیقت ہے۔ لیکن یہاں ان اصولوں کو احکام طلاق پر منطبق کیا جاتا ہے۔ اشارہ یہ ہے کہ ان احکام پر پورا پورا عمل کرو۔ خدا خوفی ایک ایسا ضابطہ ہے جو ایسے معاملات میں سب سے زیادہ کارگر ہے۔ خوف خدا ہی انسان کے لئے ایک اچھا نگراں ہے ورنہ قانونی ضوابط میں سے لوگ اپنے لئے راہیں نکال لیتے ہیں صرف تقویٰ ہی انسان کو صحیح عمل پر گامزن کرسکتا ہے۔
ومن یتوکل ............................ لاغ امرہ (56 : 3) ” جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لئے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے “۔ اس معاملے میں سازشوں کی بڑی گنجائش ہوتی ہے ، اور بعض اوقات سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے سازش کرنی پڑتی ہے ، یہاں کہا جاتا ہے کہ ایسی سازشیں نہ کرو ، اللہ پر بھروسہ کرو ، اور جو لوگ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں وہ ان کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اللہ اپنے کام کرکے رہتا ہے ، وہ جو فیصلے کرچکا ہے وہ واقع ہوکر رہتا ہیں۔ لہٰذا اللہ اور اس کے فیصلوں پر بھروسہ کرنا ، جبکہ وہ بڑی قوت ہے اور جو چاہتا ہے ، کرتا ہے ۔ کامیابی کا بڑا ذریعہ ہے۔
یہ آیت عام ہے۔ مقصد یہ ہے کہ دلوں کے اندر ایمان اور بھروسے کی صحیح کیفیت پیدا کی جائے۔ اللہ کے ارادے اور اللہ کی تقدیر کے حوالے سے۔ لیکن یہاں چونکہ یہ عام بات طلاق کے حوالے سے آئی ہے تو اس کا یہاں خاص طلاق کی طرف بھی اشارہ ہے ، کیونکہ یہ بھی اللہ کے فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ہے۔
قد جعل ................ قدرا (56 : 3) ” اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک تقدیر مقرر کررکھی ہے۔ “۔ ہر چیز اس کی مقدر ہے ، اس کے زیر نگین ہے ، ہر واقعہ کی ایک جگہ ، ایک مقام ہے۔ اس کے حالات ، اس کے اسباب اور نتائج اس کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ کوئی چیز از خود وجود میں نہیں آتی۔ نہ یہ معاملات یونہی چلتے ہیں جس طرح کوئی چلائے۔ یہ پوری کائنات ، نفس انسانی اور اس کی زندگی کے تمام واقعات ، اسی عظیم حقیقت کے نتیجے میں نمودار ہوتے ہیں یعنی مطابق تقدیر الٰہی۔ (اس پر ہم نے آیت۔ )
وخلق ................ تقدیرا کے ضمن میں تفصیل سے بات کی ہے دیکھئے سورة الفرقان : 2) یہاں مقصد یہ ہے کہ یہ طلاق اور یہ رجوع ، عدت ، شہادت ، ادائیگی شہادت وغیرہ سب احکام اللہ کے ہاں مقدر ہیں۔ اور یہ اس طرح ہوتے چلے جاتے ہیں جس طرح کائنات میں سنت الٰہیہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس طرح انسان ان معاملات کو یوں سمجھتا ہے جس طرح اللہ کے ہاں فیصلے ہوتے ہیں۔
والئی ............................ لہ اجرا (5) (56 : 4 تا 5) ” اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمہیں معلوم ہو کہ ) ان کی عدت تین مہینے ہے۔ اور یہی حکم ان کا ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے۔ جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملہ میں وہ سہولت پیدا کردیتا ہے یہ اللہ کا حکم ہے۔ جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے۔ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دو رکردے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا “۔
ان آیات میں ان عورتوں کی مدت عدت کی تحدید کی گئی ہے جن کو حیض نہیں آتا اور وہ حاملہ بھی نہیں ہیں۔ یعنی وہ عورتیں جن کو حیض آنا بند ہوگیا ہو ، یا ان کو ایام بیماری کی وجہ سے یا صفر سنی کی وجہ سے آتے ہی نہ ہوں۔ کیونکہ اس سے قبل سورة بقرہ میں عدت کی جو مدت بتائی گئی تھی وہ ان عورتوں کے لئے تھی جن کو حیض آتا ہو۔ چاہے لفظ قروء سے مراد تین ایام ماہواری لئے جائیں یا تین ایام فراغت لی جائے۔ یہ فقہی اختلاف ہے۔ رہی وہ عورتیں جن کے ایام آنا بند گئے ہوں یا آتے ہی نہ ہوں یا شروع ہی نہ ہوئے ہوں تو ان کا معاملہ مجمل تھا کہ وہ کس طرح عدت گزاریں۔ چناچہ یہ ایام ماہواری کے ساتھ ایک جیسی ہوجائے۔ رہی وہ عورتیں جو حاملہ ہیں تو ان کی مدت وضع حمل ہے۔ طلاق کے بعد یہ مدط طویل ہو یا مختصر ، اگرچہ نفاس سے طہارت کے لئے چالیس ایام کی مدت ہے۔ لیکن عدت کو اس لئے مقرر کیا گیا تھا کہ یہ دیکھا جائے کہ عورت کے ہاں بچہ تو نہیں ہے۔ اب حاملہ مطلقہ تو وضع حمل کے ساتھ ہی خاوند سے جدا ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اس کے بعد انتظار کی ضرورت نہیں ہے اور وضع حمل کے بعد اس کے ساتھ رجوع نہیں ہوسکتا ، صرف نیا نکاح ہی ہوسکتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک میزان مقرر کردیا ہے لہٰذا ہر حکم کے پیچھے حکمت ہے۔
یہ تو تھا حکم ، اب نصیحت ، عبرت اور حکمتیں۔
ومن یتق ................ یسرا (56 : 4) ” جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملہ میں وہ سہولت پیدا کردیتا ہے “۔ انسان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ معاملات میں اس کے ساتھ نرمی ہو۔ اور یہ بہت بڑا نعام ہے کہ اللہ اپنے امور میں سے کچھ میں لوگوں کے لئے سہولت پیدا کردے۔ یوں ان کو کوئی مشکل ، کوئی عذاب ، اذیت اور تنگی اور مشقت نہ ہو۔ اور وہ اپنے اندازے اور اپنے شعور کے مطابق سہولت محسوس کرے۔ حرکت وعمل میں معاملات کو آسان پاتا ہو۔ کام کرنے اور اس کے نتائج حاصل کرنے میں وہ اس کو آسان پائے اور وہ ایسی ہی حالت میں رہے اور اللہ کے ساتھ اس کی ملاقات ہوجائے۔ اور یہ طلاق بھی ان معاملات میں سے ہے جن میں اللہ نے سہولت پیدا کی ہے۔ (عیسائیت اور ہندو مذہب میں طلاق تھی ہی نہیں)
ذلک .................... الیکم (56 : 5) ” یہ اللہ کا حکم ہے۔ جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے “۔ یہ ایک دوسرا احساس ہے۔ متنبہ کیا جاتا ہے کہ ذرا سنجیدہ ہوجاﺅ۔ یہ حکم اللہ کا ہے ۔ یہ اللہ نے اتارا ہے ان لوگوں پر جو مومن ہیں۔ لہٰذا اس کی تعمیل تقاضائے ایمان ہے۔ اور اس حکم کی تعمیل کا تعلق اللہ سے ہے۔
دوبارہ لوگوں کو خدا خوفی کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے جس پر اس سورت میں بہت زور دیا گیا ہے حالانکہ یہ احکام کی سورت ہے۔
ومن یتقق ................ اجرا (56 : 5) ” اور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دو رکردے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا “۔ پہلی بات یہ تھی کہ اللہ سہولیات پیدا کردے گا اور اب یہ کہ اس کے گناہ معاف ہوں گے اور اجر زیادہ ہوگا۔ چناچہ یہ دوطرفہ فیض ہے اور انسان پراثر انداز ہونے والا فائدہ ہے۔ یہ عام حکم ہے اور طلاق اور تمام دوسری امور پر منطبق ہونے والا امر ہے لیکن یہاں اس کا سابہ طلاق کے معاملات پر ڈالنا مقصود ہے تاکہ لوگ اللہ کی نگرانی کے شعور سے سرشار ہوں اور اللہ کے فضل کا احساس کریں کہ اگر کوئی کام انہیں مشکل بھی نظر آئے تو اللہ اس کو آسان بنادے گا اور اس میں اگر کوئی کوتاہی ہوگئی تو مغفرت کردے گا۔