سورہ یٰسین (36): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Yaseen کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يس کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ یٰسین کے بارے میں معلومات

Surah Yaseen
سُورَةُ يسٓ
صفحہ 440 (آیات 1 سے 12 تک)

يسٓ وَٱلْقُرْءَانِ ٱلْحَكِيمِ إِنَّكَ لَمِنَ ٱلْمُرْسَلِينَ عَلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ تَنزِيلَ ٱلْعَزِيزِ ٱلرَّحِيمِ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّآ أُنذِرَ ءَابَآؤُهُمْ فَهُمْ غَٰفِلُونَ لَقَدْ حَقَّ ٱلْقَوْلُ عَلَىٰٓ أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ إِنَّا جَعَلْنَا فِىٓ أَعْنَٰقِهِمْ أَغْلَٰلًا فَهِىَ إِلَى ٱلْأَذْقَانِ فَهُم مُّقْمَحُونَ وَجَعَلْنَا مِنۢ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَٰهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ وَسَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ ٱتَّبَعَ ٱلذِّكْرَ وَخَشِىَ ٱلرَّحْمَٰنَ بِٱلْغَيْبِ ۖ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ إِنَّا نَحْنُ نُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا۟ وَءَاثَٰرَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَىْءٍ أَحْصَيْنَٰهُ فِىٓ إِمَامٍ مُّبِينٍ
440

سورہ یٰسین کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ یٰسین کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

یٰس

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yaseen

ٓیت 1 { یٰسٓ۔ ”یٰـسٓ !“ زیادہ تر مفسرین کی رائے میں ”یٰـسٓ“ حضور ﷺ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اسی طرح ”طٰہٰ“ کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ یہ حضور ﷺ کا نام ہے۔ واللہ اعلم !

اردو ترجمہ

قسم ہے قرآن حکیم کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalqurani alhakeemi

ٓیت 1 { وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ } ”قسم ہے قرآن حکیم کی !“ عربی زبان میں ”قسم“ سے گواہی مراد لی جاتی ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ یہ حکمت بھرا قرآن گواہ ہے۔ اس قسم کا مقسم علیہ کیا ہے ؟ یعنی یہ قسم کس چیز پر کھائی جا رہی ہے ؟ اور یہ قرآن کس عظیم حقیقت پر گواہ ہے ؟ اس کا ذکر اگلی آیت میں ہے :

اردو ترجمہ

کہ تم یقیناً رسولوں میں سے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innaka lamina almursaleena

آیت 3 { اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ } ”کہ اے محمد ﷺ ! یقینا آپ رسولوں میں سے ہیں۔“ گویا حضور ﷺ کی رسالت کا سب سے بڑا ”مُصدِّق“ تصدیق کرنے والا اور سب سے بڑا ثبوت قرآن حکیم ہے۔ اور قرآن حکیم ہی آپ ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی نوٹ کرلیجیے کہ قرآن کی قسم اور بھی کئی سورتوں کے آغاز میں کھائی گئی ہے مگر وہاں قسم کے بعد مقسم علیہ کا ذکر نہیں ہے۔ مثلاً سورة صٓ کی پہلی آیت میں یوں فرمایا گیا : { صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ۔ ‘ سورة الزخرف کے شروع میں یوں فرمایا گیا : { حٰمٓ۔ وَالْـکِتٰبِ الْمُبِیْنِ۔ ‘ سورة ق کا آغاز یوں ہوتا ہے : { قٓقف وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ۔۔ اب چونکہ سورة یٰـسٓ کی ان آیات میں قرآن کی قسم کے مقسم علیہ کا ذکر بھی ہے اس لیے قرآن کی جن قسموں کا مقسم علیہ مذکور نہیں ان کا مقسم علیہ بھی وہی قرار پائے گا جس کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ چناچہ قرآن کے ان تمام مقامات پر جہاں قرآن کی قسم تو کھائی گئی ہے لیکن قسم کے بعد مقسم علیہ کا ذکر نہیں ہے ‘ وہاں ان تمام قسموں کے بعد اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ کا جملہ بطور مقسم علیہ محذوف understood مانا جائے گا۔ اس اعتبار سے سورة یٰـسٓ ایسی تمام سورتوں کے لیے ذروہ سنام climax کا درجہ رکھتی ہے جن کے آغاز میں قرآن کی قسم کا ذکر ہے۔

اردو ترجمہ

سیدھے راستے پر ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAala siratin mustaqeemin

آیت 4 { عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ } ”سیدھے راستے پر ہیں۔“

اردو ترجمہ

(اور یہ قرآن) غالب اور رحیم ہستی کا نازل کردہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tanzeela alAAazeezi alrraheemi

آیت 5 { تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ } ”اور اس قرآن کا نازل کیا جانا ہے اس ہستی کی جانب سے جو بہت زبردست ‘ نہایت رحم فرمانے والا ہے۔“

اردو ترجمہ

تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Litunthira qawman ma onthira abaohum fahum ghafiloona

آیت 6 { لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ } ”تاکہ آپ ﷺ خبردار کردیں اس قوم کو جن کے آباء و اَجداد کو خبردار نہیں کیا گیا ‘ پس وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔“ یہ مضمون اس سے پہلے سورة السجدۃ کی آیت 3 میں بھی آچکا ہے۔ یعنی آپ ﷺ سے پہلے چونکہ اس قوم میں کوئی نبی یا رسول نہیں آیا ‘ اس لیے نہ تو انہیں نبوت و رسالت کے بارے میں کچھ معلوم ہے اور نہ وہ کتاب و شریعت سے واقف ہیں۔ یہاں پر فَہُمْ غٰفِلُوْنَ کے الفاظ میں رعایت کا انداز بھی پایا جاتا ہے ‘ یعنی چونکہ اس قوم میں اس سے پہلے نہ تو کوئی پیغمبر آیا ہے اور نہ ہی کوئی الہامی کتاب ان لوگوں تک پہنچی ہے اس لیے ان کا ”غافل“ ہونا بالکل قرین قیاس تھا۔ لیکن اب جبکہ ان میں پیغمبر بھی مبعوث ہوچکا ہے اور ایک حکمت بھری کتاب کی آیات بھی ان تک پہنچ چکی ہیں تو اس کے بعد ان کی گمراہی کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن یہ لوگ ہیں کہ اب بھی گمراہی سے چمٹے ہوئے ہیں اور چونکہ انہوں نے ہمارے رسول ﷺ کی دعوت کو ٹھکرا دیا ہے اس لیے :

اردو ترجمہ

اِن میں سے اکثر لوگ فیصلہ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں، اسی لیے وہ ایمان نہیں لاتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad haqqa alqawlu AAala aktharihim fahum la yuminoona

آیت 7 { لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓی اَکْثَرِہِمْ فَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ } ”ان کی اکثریت پر ہمارا قول قانونِ عذاب سچ ثابت ہوچکا ہے تو اب وہ ایمان نہیں لائیں گے۔“ گویا حضور ﷺ کی دعوت کا مسلسل انکار کر کے یہ لوگ قانونِ الٰہی کی عذاب سے متعلق ”شق“ کی زد میں آچکے ہیں۔

اردو ترجمہ

ہم نے اُن کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں جن سے وہ ٹھوڑیوں تک جکڑے گئے ہیں، اس لیے وہ سر اٹھائے کھڑے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna jaAAalna fee aAAnaqihim aghlalan fahiya ila alathqani fahum muqmahoona

آیت 8 { اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلاً فَہِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَ } ”ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں اور وہ ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں ‘ پس ان کے سر اونچے اٹھے رہ گئے ہیں۔“ یعنی ان کی کیفیت اس شخص کی سی ہے جس کی گردن میں طوق پڑا ہو اور وہ طوق اس کی ٹھوڑی کے نیچے جاپھنسا ہو۔ ایسے شخص کے چہرے کا رخ مستقل طور پر اوپر کی طرف ہوجاتا ہے اور وہ اپنے سامنے کی چیزوں کو نہیں دیکھ سکتا۔ مطلب یہ کہ تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ لوگ واضح حقائق کو بھی دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔

اردو ترجمہ

ہم نے ایک دیوار اُن کے آگے کھڑی کر دی ہے اور ایک دیوار اُن کے پیچھے ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے، انہیں اب کچھ نہیں سوجھتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WajaAAalna min bayni aydeehim saddan wamin khalfihim saddan faaghshaynahum fahum la yubsiroona

آیت 9 { وَجَعَلْنَا مِنْم بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰہُمْ فَہُمْ لاَ یُبْصِرُوْنَ } ”اور ہم نے ایک دیوار کھڑی کردی ہے ان کے آگے اور ایک ان کے پیچھے ‘ اس طرح ہم نے انہیں ڈھانپ دیا ہے ‘ پس اب وہ دیکھ نہیں سکتے۔“ یہ مضمون آگے چل کر آیت 45 میں پھر آئے گا۔ -۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور حق کی پہچان کے لیے اگر انسان کو راہنمائی چاہیے تو اس مقصد کے لیے بیشمار آفاقی آیات آلاء اللہ ہر وقت ہر جگہ اس کے سامنے ہیں۔ قرآن حکیم بار بار انسان کو ان آیات کے مشاہدے کی دعوت دیتا ہے۔ جیسے سورة البقرۃ کی آیت 164 میں بہت سی آفاقی نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہر انسان اپنی ذہنی سطح کے مطابق ان ”آیات“ کے مشاہدے سے ان کے خالق کو پہچان سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی آیات ایام اللہ سے بھی انسان کو راہنمائی مل سکتی ہے۔ یعنی اگر کوئی انسان چاہے تو اقوامِ سابقہ کے حالات سے بھی اسے سبق اور عبرت کا وافر سامان حاصل ہوسکتا ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یہ ہے کہ یہ ایسے بد بخت لوگ ہیں جو نہ تو التذکیر بآلاء للہ سے استفادہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ التذکیر بایام اللہ سے کچھ سبق حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ گویا یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے دیوار حائل ہوچکی ہے کہ وہ اللہ کی کسی بڑی سے بڑی نشانی کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح ان کے پیچھے بھی دیوار کھڑی کردی گئی ہے اور یوں وہ تاریخ اوراقوام ماضی کے حالات سے بھی کسی قسم کا سبق حاصل کرنے سے قاصر و معذور ہیں۔

اردو ترجمہ

ان کے لیے یکساں ہے، تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، یہ نہ مانیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wasawaon AAalayhim aanthartahum am lam tunthirhum la yuminoona

آیت 10 { وَسَوَآئٌ عَلَیْہِمْ ئَ اَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ } ”اور اے نبی ﷺ ! ان کے حق میں برابر ہے ‘ خواہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کریں ‘ یہ ایمان نہیں لائیں گے۔“ سورة البقرۃ کی آیت 6 میں بھی ہو بہو یہی الفاظ آئے ہیں۔

اردو ترجمہ

تم تو اُسی شخص کو خبردار کر سکتے ہی جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرے اُسے مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama tunthiru mani ittabaAAa alththikra wakhashiya alrrahmana bialghaybi fabashshirhu bimaghfiratin waajrin kareemin

آیت 11{ اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ } ”آپ ﷺ تو بس اسی شخص کو خبردار کرسکتے ہیں جو الذکر ّ قرآن کی پیروی کرے اور غیب میں ہوتے ہوئے رحمٰن سے ڈرے۔“ آپ ﷺ کے انذار سے تو صرف وہی لوگ متاثر ہوسکتے ہیں جو اس قرآن کے پیغام کو سمجھیں ‘ اس کی پیروی کریں اور غیب میں ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت اپنے دلوں میں رکھیں۔ { فَبَشِّرْہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَّاَجْرٍکَرِیْمٍ } ”تو ایسے لوگوں کو آپ ﷺ خوشخبری دے دیجیے مغفرت اور باعزت اجر کی۔“

اردو ترجمہ

ہم یقیناً ایک روز مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں جو کچھ افعال انہوں نے کیے ہیں وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں، اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم ثبت کر رہے ہیں ہر چیز کو ہم نے ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna nahnu nuhyee almawta wanaktubu ma qaddamoo waatharahum wakulla shayin ahsaynahu fee imamin mubeenin

آیت 12 { اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَہُمْ } ”یقینا ہم ہی زندہ کریں گے ُ مردوں کو ‘ اور ہم لکھ رہے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا اور جو اثرات وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔“ انسان مرنے سے پہلے اپنی زندگی میں جو اچھے برے اعمال آگے بھیجتا ہے وہ ساتھ ہی ساتھ اس کے اعمال نامے میں درج ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن انسان کے کچھ اعمال و افعال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات اس کی موت کے بعد بھی اس دنیا میں رہتے ہیں۔ چناچہ یہاں پر ”آثار“ سے مراد انسان کے ایسے ہی کام ہیں۔ بہر حال انسان کو آخرت میں ان ”آثار“ کا بدلہ بھی دیا جائے گا۔ مثلاً اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں کسی ایسے نیک عمل کی بنیاد ڈالی جس کے اثرات دیر پا ہوں تو جب تک اس نیک کام کا تسلسل اس دنیا میں رہے گا ‘ اس کا اجر وثواب اس شخص کے حساب میں لکھا جاتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے گناہ اور بےحیائی کے کسی کام کی بنیاد رکھی تو جب تک اس کام یا منصوبے کے منفی اثرات اس دنیا میں رہیں گے ‘ اس میں سے متعلقہ شخص کے حصے کے گناہوں کا اندراج اس کے اعمال نامے میں مسلسل ہوتا رہے گا۔ { وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ } ”اور ہرچیز کا احاطہ ہم نے ایک واضح کتاب میں کررکھا ہے۔“ ”اِمَامٍ مُّبِیْنٍ“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم قدیم ہے جسے سورة الرعد کی آیت 39 اور سورة الزخرف کی آیت 4 میں ”اُمّ الْکِتٰب“ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔

440