سورہ فصیلات (41): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Fussilat کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ فصلت کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ فصیلات کے بارے میں معلومات

Surah Fussilat
سُورَةُ فُصِّلَتۡ
صفحہ 477 (آیات 1 سے 11 تک)

حمٓ تَنزِيلٌ مِّنَ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ كِتَٰبٌ فُصِّلَتْ ءَايَٰتُهُۥ قُرْءَانًا عَرَبِيًّا لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ وَقَالُوا۟ قُلُوبُنَا فِىٓ أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَآ إِلَيْهِ وَفِىٓ ءَاذَانِنَا وَقْرٌ وَمِنۢ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَٱعْمَلْ إِنَّنَا عَٰمِلُونَ قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۠ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰٓ إِلَىَّ أَنَّمَآ إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَٰحِدٌ فَٱسْتَقِيمُوٓا۟ إِلَيْهِ وَٱسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُم بِٱلْءَاخِرَةِ هُمْ كَٰفِرُونَ إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ ۞ قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْأَرْضَ فِى يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُۥٓ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَٰسِىَ مِن فَوْقِهَا وَبَٰرَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَآ أَقْوَٰتَهَا فِىٓ أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِينَ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ٱئْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَآ أَتَيْنَا طَآئِعِينَ
477

سورہ فصیلات کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ فصیلات کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ح م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hameem

درس نمبر 227 تشریح آیات

آیت نمبراتا 8

حروف مقطعات کے بارے میں بات کئی سورتوں میں ہوچکی ہے اور اس افتتاح مکرر ” تم “ میں بھی وہی اشارہ ہے جس طرح قرآن کریم کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ بار بار ان حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے جو انسانی دل و دماغ پر اثر ڈالتے ہیں اور تکرار اس لیے کہ انسان کو باربار یاد دہانی کی ضرورت ہے۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی نظر سے نصب العین اوجھل ہوجاتا ہے اور اس کے ذہین میں کوئی بھی شعوری حقیقت بٹھانے کے لیے ۔ اسے باربار تنبیہہ کی ضرورت ہوتی ہے اور قرآن کا نازل کرنے والا اپنے تخلیق کردہ فطرت انسانی سے خوب واقف ہے۔ اور اس کے خصائص اور صلاحیتیں اسی نے عطا کی ہیں اس لیے وہ باربار یاد دلاتا ہے ، وہ خالق قلب اور مصرف القلوب ہے۔

حٰم ۔۔۔۔ الرحیم (41: 1 تا 2) ” یہ حدائے رحمٰن ورحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے “۔ حم گویا سورت کا نام یا جنس قرآن جو انہی حروف سے بنایا گیا ہے۔ حم مبتداء ہے اور تنزیل خبر ہے یعنی یہ ہیں حم (جن سے قرآن بنا ہے جو ) رحمٰن ورحیم کی طرف سے نازل ہورہا ہے۔

نزول کتاب کے وقت رحمن ورحیم کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ اس تنزیل کی صفات عالیہ رحمت الہیہ ہے۔ اور یہ کتاب اور حاصل کتاب بطور رحمت اللعالمین آئے۔ یہ صرف ان لوگوں پر رحمت نہیں ہے جو ایمان لائیں اور اس کی اطاعت کریں۔ بلکہ غیروں کے لیے بھی رحمت ہے صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام زندہ لوگوں کے لیے رحمت ہے کیونکہ اس کتاب نے ایک ایسا منہاج حیات دنیا کو دیا جس کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہوئی۔ انسانیت کو نئی زندگی ملی۔ اس کو تصورات دیئے ، اس کو علم دیا اور عرض اس قرآن نے انسانیت کے آگے بڑھنے کی سمت ہی بدل کر رکھ دی۔ قرآن کے رحیمانہ اثرات صرف اہل ایمان تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے اثرات عالمی تھے اور اس وقت سے آج تک یہ اثرات جاری ہیں۔ جو لوگ انسانی تاریخ کا مطالعہ انصاف سے کرتے ہیں اور اس کا عام انسانی زاویہ سے مطالعہ کرتے ہیں اور اس مطالعہ میں انسانی سرگرمیوں کا پوری طرح احاطہ کرتے ہیں وہ اس حقیقت کو پاتے ہیں اور نکتے پر مطمئن بھی ہوتے ہیں کہ قرآن رحمت اللعالمین ہے ، بعض منصف مزاج لوگوں نے اس بات کا اعتراف کرکے اس نکتے پر مطمئن بھی ہوتے ہیں کہ قرآن رحمت اللعالمین ہے ، بعض منصف مزاج لوگوں نے اس بات کا

اعتراف کرکے اس کو ریکارڈ کرادیا ہے۔

کتٰب۔۔۔ یعلمون (41: 3) ” ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں ، عربی زبان کا قرآن ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں “۔ یعنی اغراض ومقاصد کے لحاظ سے ، لوگون کی طبیعت کے مطابق ، معاشروں اور زمانوں کے مطابق ، لوگوں کی نفسیات اور انکی ضروریات کے مطابق اس کی آیات کو نہایت پختہ انداز میں مفصل بنایا گیا ہے۔ اور یہ اس کتاب کی امتیازی خصوصیت ہے اس زاویہ سے یہ کتاب مفصل اور محکم ہے۔ ان تمام پہلوؤں سے یہ کتاب مفصل ہے۔ پھر عربی زبان میں ہے۔

لقوم یعلمون (41: 3) ” ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں “۔ یعنی جن کے پاس علمی استعداد ہے وہ سمجھ سکتے ہیں اور کھرے کھوٹے میں تمیز کرسکتے ہیں۔ اس قرآن کے نزول کا بڑا مقصد بشارت اور ڈراوا ہے۔

بشیراونذیرا (41: 4) ” بشارت دینے والا اور ڈرانے والا “۔ یہ قرآن مومنین کو بشارت دیتا ہے اور مکذبین اور بدکاروں کو ڈراتا ہے اور پھر خوشخبری اور ڈراوے کے اسباب بھی بتاتا ہے۔ یہ اسباب وہ عربی مبین میں بتاتا ہے اور ان لوگوں کے سامنے پیش ہورہا ہے جو عرب ہیں لیکن ان کی اکثریت اسے قبول نہیں کررہی ہے۔

فاعرض اکثرھم فھم لایسمعون (41: 4) ” مگر ان لوگوں میں سے اکثر نے اس سے روگردانی کی اور وہ سن کر نہیں دیتے “۔

اور یہ لوگ روگردانی اس لیے کرتے تھے اور نہ سنتے تھے اور اپنے دلوں کو روگردانی کرکے قرآن سننے سے بچاتے تھے۔ کیونکہ قرآن غضب کی تاثیر رکھتا ہے اس لیے جو جمہور عوام کو بھی اس بات پر ابھارتے تھے کہ نہ سنو جس طرح عنقریب اس کی تفصیلات آئیں گی۔

وقالوالا۔۔۔۔۔ تغلبون (41: 26) ” منکرین حق کہتے ہیں اس قرآن کو نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو ، شاید کہ اس طرح تم غالب آجاؤ “۔ بعض اوقات وہ سنتے تھے لیکن اس طرح جیسے کہ نہ سنتے ہوں ، اس لیے قرآن کے ان پر جو اثرات پڑتے تھے ، ہٹ دگرمی کی وجہ سے ان کا مقابلہ کرتے تھے۔ گویا وہ بہرے ہیں ، سنتے ہی نہیں۔

وقالوا قلوبنا۔۔۔۔ عملون (41: 5) ” کہتے ہیں : جس چیز کی طرف تو ہمیں بلارہا ہے اس کے لیے ہمارے دلوں میں غلاف چڑھے ہوئے ہیں ، ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہوگیا ہے ، تو اپنا کام کر ، ہم اپنا کام کیے جارہے ہیں “ یہ بات وہ گہری ہٹ دھرمی اور عناد کی وجہ سے کہتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کو مایوس کرنے کے لیے کہتے تھے تاکہ آپ دعوت دینا بند کردیں کیونکہ وہ آپ کی دعوت کا اثر خود اپنے دلوں میں پاتے تھے اور وہ بالا راوہ اس موقف پر جمے ہوئے تھے کہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔

چناچہ انہوں نے کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں ڈھنپے ہوئے ہیں ، تمہاری بات تو ہمارے دلوں تک پہنچتی ہی نہیں ۔ ہمارے کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں ، لہٰذا تمہاری بات ہم تک پہنچتی ہی نہیں۔ تمہارے اور ہمارے درمیان پردے حائل ہیں ، اس لیے رابطے کی کوئی صورت ہی باقی نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیں ، ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ تم کیا کرتے ہو ، کیا کہتے ہو ، کس سے ڈارتے ہو ، کس کا وعدہ کرتے ہو ، ہم اپنی راہ پر چلنے والے ہیں۔ تم چاہو تو اپنی راہ پر چلو ، تمہاری جو مرضی ہے ، کرو۔ ہم نے سن کر نہیں دینا۔ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ لے ہی آؤ۔ ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔

یہ تھے وہ حالات و مشکلات جن سے داعی اول ﷺ دوچار تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ دعوت دیتے جاتے تھے۔ کبھی رکے نہیں تھے۔ ان مایوس کن حالات سے کبھی آپ متاثر نہیں ہوئے ، کبھی آپ نے یہ نہیں سوچا کہ اتنا عرصہ ہوگیا ، اللہ کا وعدہ سچا نہیں ہوا اور نہ دشمنوں پر عذاب آیا۔ آپ یہی کہتے کہ اللہ کے وعدے کا پورا ہونا میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں تو ایک بشر ہوں۔ اللہ کا پیغام میرے پاس آتا ہے اور میں تبلیغ کرتا ہوں ، لوگوں کو اللہ واحد کی طرف بلاتا ہوں اور جو مان لیں ، ان سے کہتا ہوں کہ اسی راستے پر جم جاؤ، اور مشرکین کو انجام بد سے ڈراتا ہوں اس کے بعد کے مراحل میرے اختیار میں نہیں۔ میں تو ایک بشر اور مامور ہوں۔

قل انمآ۔۔۔۔۔ وویل المشرکین (41: 6) ” اے نبی ؐ، ان سے کہو ، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا۔ مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہار خدا تو بس ایک ہی خدا ہے ، لہذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو۔ تباہی ہے ان مشرکوں کے لیے “۔ کس قدر عظیم صفر ہے ! کس قدر برداشت ہے ! کیا عظیم ایمان ہے اور تسلیم ورضا ہے ! لیکن ایسی صورت حال کو صرف وہی داعی سمجھ سکتا ہے ، ایسے حالات پر وہی صبر کرسکتا ہے ، اس قسم کے حالات میں سرف وہی ماحول سے لاپرواہ ہوکر دعوت دیتے آگے بڑھ سکتا ہے اور اعراض ، تکذیب ، تکبر اور توہین آمیز سلوک کو برداشت کرسکتا ہے جو ایسے حالات سے دوچار ہوگیا ہو ، جس نے تجربہ کرلیا ہو کہ جلد بازی نہیں کرنی ، جس نے روگردانی کرنے والوں ، متکبرین اور سرکشوں کی مدافعت کی ہو ، جس نے دعوت کی راہ میں مشقت برداشت کی ہو ، اور جس نے دعوت کی راہ میں مشقت برداشت کرنے کا حوصلہ پایا ہو اور پھر ان مشکلات کے باوجود وہ ڈٹ گیا ہو۔

ایسے ہی مقامات کی وجہ سے انبیاء ورسل کو باربار ہدایت کی گئی ہے کہ صبر کریں ، کیونکہ دعوت کی راہ صبر کی راہ ہے۔ طویل صبر ، اور صبر کی آزمائش سب سے پہلے اس خواہش میں ہوتی ہے ، جو بہت شدید ہوتی ہے کہ دعوت جلدی کامیاب ہوجائے۔ نصرت جلدی آجائے ، نصرت کے نشانات بھی نہ ہوں لیکن داعی صبر ، استقامت اور تسلیم ورضا سے کام کیے جارہا ہو۔ اور ان مشکلات ، روگردانیوں اور کبر و لاپرواہی کے جواب میں رسول اللہ صرف یہ کہتے ہیں۔

وویل للمشرکین۔۔۔۔۔ ھم کٰفرون (41: 6 تا 7) ” تباہی ہے ان مشرکون کے لیے جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے منکر ہیں “۔ اس مقام پر زکوٰۃ کے ذکر کی کوئی مناسبت ہوگی ، کسی روایت میں اس کا ذکر نہیں آیا ، کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ سن دوہجری میں مدینہ میں فرض ہوئی۔ اگرچہ اصولا مکہ مکرمہ میں بھی معروف تھی۔ مدینہ میں فرضیت کے ساتھ نصاب بھی مقرر ہوگیا ۔ اور اسے معین فرض وصول کیا جانے لگا۔ مکہ میں یہ ایک عام کام تھا۔ لوگ رضا کارانہ طور پر زکوٰۃ دیتے تھے۔ اس کی کوئی حد نہ تھی اور ادائیگی دینے والے کے ضمیر پر چھوڑدی گئی تھی۔ کفر بالاخرۃ تو وہی کفر ہے جس کے نتیجے میں انسان دائمی تباہی کا مستحق ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس آیت کی تفسیر میں زکوٰۃ سے مراد ایمان لانا اور شرک سے پاک ہونا لیا ہے۔ یہ مفہوم بھی رد نہیں کیا جاسکتا ، ایسے حالات میں اس کا احتمال ضرور ہے۔

اب داعی حق ان کو یہ بتانے کے لیے کہ کفر وشرک کا ارتکاب کرکے وہ کس قدر عظیم جرم کا ارتکاب کررہے ہیں ۔ ان لوگوں کو اس کائنات کی سیر کراتے ہیں کہ ذرا تم زمین و آسمانوں پر مشتمل اس عظیم کائنات پر غور تو کرو ، کہ تم اس کے مقابلے میں کس قدر چھوٹے ہو ، کس قدر کمزور ہو ، یہ سیر اس لیے کرائی جاتی ہے کہ ذرا وہ اللہ کی بادشاہت کو بھی دیکھ لیں جس کا وہ انکار کرتے ہیں کیونکہ انسان بھی فطرت کائنات کا ایک نہایت ہی حقیر جزء ہے اور تاکہ وہ ان کو بتائیں کہ اس دعوت کی طرف تم نہایت ہی تنگ زاویہ نظر سے دیکھ رہے ہو ، تم صرف یہ دیکھ سکتے ہو کہ ہمچو مادیگرے نیست۔ تم تو صرف اپنے آپ کو اور حضرت محمد ﷺ کی ذات کو دیکھتے ہو اور تم یہ سوچتے ہو کہ محمد ابن عبداللہ کو اگر مان لیا تو وہ بلند مقام پر فائز ہوجائے گا۔ تمہیں تو یہ تنگ نظری اس عظیم حقیقت کے دیکھنے سے روکے ہوئے ہے جو حضرت محمد ﷺ لے کر آئے ہیں ، جس کی تفصیلات قرآن کریم میں درج ہیں۔ یہ حقیقت جس کا تعلق آسمانوں ، زمین ، انسان ، پوری انسانی تاریخ اور اس عظیم سچائی کے ساتھ ہے جو زمان ومکان سے وراء ہے۔ اور جسے اس کائنات کے نقشے میں رکھا گیا ہے :

اردو ترجمہ

یہ خدائے رحمان و رحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tanzeelun mina alrrahmani alrraheemi

اردو ترجمہ

ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں، عربی زبان کا قرآن، اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kitabun fussilat ayatuhu quranan AAarabiyyan liqawmin yaAAlamoona

اردو ترجمہ

بشارت دینے والا اور ڈرا دینے والا مگر اِن لوگوں میں سے اکثر نے اس سے رو گردانی کی اور وہ سن کر نہیں دیتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Basheeran wanatheeran faaAArada aktharuhum fahum la yasmaAAoona

اردو ترجمہ

کہتے ہیں "جس چیز کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے اس کے لیے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں، ہمارے کان بہرے ہو گئے ہیں، اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہو گیا ہے تو اپنا کام کر، ہم اپنا کام کیے جائیں گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo quloobuna fee akinnatin mimma tadAAoona ilayhi wafee athanina waqrun wamin baynina wabaynika hijabun faiAAmal innana AAamiloona

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، اِن سے کہو، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے، لہٰذا تم سیدھے اُسی کا رخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو تباہی ہے اُن مشرکوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul innama ana basharun mithlukum yooha ilayya annama ilahukum ilahun wahidun faistaqeemoo ilayhi waistaghfiroohu wawaylun lilmushrikeena

اردو ترجمہ

جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے منکر ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena la yutoona alzzakata wahum bialakhirati hum kafiroona

اردو ترجمہ

رہے وہ لوگ جنہوں نے مان لیا اور نیک اعمال کیے، اُن کے لیے یقیناً ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati lahum ajrun ghayru mamnoonin

اردو ترجمہ

اے نبیؐ! اِن سے کہو، کیا تم اُس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اُس کا ہمسر ٹھیراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں بنا دیا؟ وہی تو سارے جہان والوں کا رب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul ainnakum latakfuroona biallathee khalaqa alarda fee yawmayni watajAAaloona lahu andadan thalika rabbu alAAalameena

آیت نمبر 9 تا 12

اے پیغمبر ان سے کہو کہ تم جب کفر کرتے ہو اور لاپرواہی میں یہ عظیم بات کہہ جاتے ہو ، یہ تو تم ایک بہت ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرتے ہو ، یہ نہایت ہی قبیح اور ناپسندیدہ فعل ہے ، تم ایک ایسی ذات کا انکار کرتے ہو ، جس نے زمین کو پیدا کیا ، اس کے اندر پہاڑ پیدا کیے ، ان کے اندر برکات پیدا کیں ، اس زمین کے اندر رزق کی تمام ضروریات پوری پوری رکھ دیں ، جس نے آسمانوں کو پیدا کیا اور یہ سب کام اس نے چار دنوں میں سرانجام دیئے اور تمام مانگنے والوں کے لیے ان کی ضروریات مہیا کردیں جس نے آسمانوں کو پیدا کیا ، منظم کیا ، خصوصاً دنیا سے قریب والے آسمان کو خوب مزین کیا ، زمین اور آسمان نے اس کے قوانین قدرت اور احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ، لیکن اے اہل زمین تم ہو کہ تم انکار کرتے ہو اور تکبر کرتے ہو۔

لیکن قرآن کی عبارت نے ، قرآن کے انداز بیان کے مطابق ان مضامین کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ بات فوراً دل میں اتر جاتی ہے اور دل کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ ذرا اس قرآن کے الفاظ دوبارہ پڑھئے اور غور کیجئے ۔

قل ائنکم۔۔۔۔ سوآء للسبآئلین (41: 9 تا 10) ” اے نبی ﷺ ، ان سے کہو ، کیا تم اس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیراتے ہو ، جس نے زمین کو دودنوں میں بنادیا۔ وہی تو سارے جہان والوں کا رب ہے ، اس نے اوپر سے اس میں پہاڑ جما دیئے اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک انداز سے خوارک کا سامان مہیا کردیا۔ یہ سب کام چار دن میں ہوگئے “۔

یہاں زمین کی تخلیق کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسے دو دنوں میں پیدا کیا گیا۔ زمین کی پیدائش کی مزید بات سے پہلے اس پر تبصرہ کرکے شرک کی نفی کی گئی اور بتایا گیا کہ

ذٰلک رب العٰلمین (41: 9) ” یہی جہاں والوں کا رب ہے “۔ تم اس رب کا انکار کررہے ہو ، اور اس کے ساتھ لوگوں کو شریک کررہے ہو ، جس زمین پر تم چل پھر رہے ہو ، وہ تو اس نے بنائی ہے لہٰذا تکبر اور لاپرواہی تمہیں زیب نہیں دیتی ۔ یہ تو بہت ہی قبیح فعل ہے۔ اس کے بعد باقی بات۔

سوال یہ ہے کہ یہ دودن کون سے دن ہیں ، جس کے اندر زمین پیدا کی گئی اور جن دودنوں میں پہاڑ پیدا کیے اور زمین کے اندر زندگی پیدا کی گئیں اور یوں یہ چار دن ہوگئے ؟

یہ ایام دراصل ایام اللہ ہیں اور ان کی طوالت کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے۔ یہ ایام اس زمین کے ایام بہرحال نہیں ہیں۔ کیونکہ زمین کے ایام تو وہ زمانی معیار ہے جو زمین کے پیدا ہونے اور اس کی گردش متعین ہونے کے بعدوجود میں آیا ہے۔ جس طرح اس زمین کے ایام ہیں۔ اور یہ گردش محوری اور سورج کے گرد سالانہ گردش کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اسی طرح کواکب میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے ایام ہیں۔ ستاروں کے اپنے ایام ہیں یہ زمین کے ایام سے مختلف ہیں۔ بعض زمین کے ایام سے چھوٹے اور بعض طویل ہیں۔ وہ ایام جن میں ابتداء زمین پیدا ہوئی ، پھر اس میں پہاڑ پیدا ہوئے ، پھر اس کے اندر حسب ضرورت رزق اور ضروریات رکھی گئیں ، یہ کوئی اور ہی ایام تھے اور ان کا معیار بھی اور تھا۔ ہمیں اس کا علم نہیں ہے ، لیکن اس قدر ضرور معلوم ہے کہ یہ ایام ان دونوں کے مقابلے میں بہت ہی طویل تھے۔

آج تک انسانی علم جہاں تک پہنچ سکا ہے ، اس کے مطابق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مراد وہ زمانے ہیں جن سے یہ زمین گزرتی رہی ، یہاں تک کہ وہ اپنے موجودہ مدار میں ٹھہری ، اس کا چھلکا سخت ہوگیا اور یہ زندگی کے قیام کے لیے قابل ہوگیا ، جس زندگی کو ہم جانتے ہیں اور آج تک جو نظریات پیش ہوئے ہیں ان کے مطابق اس پر ہمارے زمین کے معیار ایام کے مطابق نو ہزار ملین سالوں کا وقت لگا۔

یہ بھی علمی نظریات ہیں اور ان کو تبصروں اور چٹانوں کے مطالعہ کے بعد مرتب کیا گیا ہے۔ قرآن کے مطالعہ میں ہم ان عملی نظریات کو آخری بات نہیں کہتے کیونکہ یہ فائنل تو ہیں نہیں۔ یہ نظریات ہیں اور ان میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ہم قرآن کو انکا تابع تو نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر ان نظریات اور نص قرآنی کے درمیان قرب اور موافقت ہو تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نظریہ درست ہوسکتا ہے۔ اور ایسا نظریہ تشریح قرآن کا معاون بھی ہوسکتا ہے اور اسکے ذریعہ ہم قرآن کے مفہوم کے قریب جاسکتے ہیں

آج کل کے نظریات کے مطابق راجح قول یہی سمجھا جا ات ہے کہ زمین بھی کسی وقت ایک آگ کا گولا تھی جس طرح اس وقت سورج ہے اور گیس کی شکل میں تھی۔ اور یہ زمین بھی سورج ہی کا حصہ تھی ، اس سے جدا ہوگئی ، اس کے بارے میں سائنس دانوں کا اتفاق نہیں ہے کہ کیوں ہوئی اور کس طرح ہوئی البتہ اسے ٹھنڈا ہونے کے لیے طویل وقت لگا جبکہ اس کا پیٹ ابھی تک اسی حالت میں ہے۔ جہاں بڑے بڑے پہاڑ پگھل جاتے ہیں۔ اور کھولنے لگتے ہیں۔

” جب زمین کا چھلکا ٹھنڈا ہوا تو یہ سخت ہوگیا “۔ پہلے پہل یہ سخت پتھر تھا اور پتھر کے پھر طبقے تھے۔ اوپر اور نیچے پتھر۔ اور نہایت ہی ابتدائی دور میں بخارات پیدا ہوئے جن کا 3/2 حصہ ہائیڈروجن اور 3/1 حصہ آکسیجن تھا۔ ان کے اتحاد کی وجہ سے زمین پر پانی پیدا ہوگیا۔

” ہوا اور پانی نے باہم تعاون کرکے چٹانوں کو توڑا اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو ایک جگہ سے اٹھایا اور دوسری جگہ ڈھیر لگا دیا اور اس کی وجہ سے مٹی پیدا ہوئی جس میں فصل اگنا ممکن ہوا ، اس طرح ہوا اور پانی نے پہاڑوں کو توڑا اور اونچی جگہوں کو پست کیا اور گڑہوں اور نیچی جگہوں کی پھرائی کا کام کیا۔ لہٰذا زمین کے اندر جو بھی چیز ہے یا ہونے والی ہے۔ اس میں ہمیں تعمیر وتخریب ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہیں “۔

” زمین کا اوپر کا حصہ جسے چھلکا کہہ سکتے ہیں ، دائمی طور پر حرکت اور تغیر میں رہتا ہے۔ سمندر میں جب موجیں اٹھتی ہیں تو یہ چھلکا متاثر ہوتا ہے۔ سورج کی گرمی سے سمندر کا پانی بخارات بن جاتا ہے ، آسمانوں کی طرف اٹھتا ہے ، بادلوں کی شکل اختیار کرتا ہے ، زمین پر میٹھا پانی برستا ہے۔ موسلادھار بارشیں ہوتی ہیں ، سیلاب آتے ہیں ، دریا بہتے ہیں ، اور یہ اس زمین کے چھلکے کے اوپر چلتے ہیں اور اس میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ ایک پتھر اور چٹان پر یوں اثر انداز ہوتے ہیں کہ اسے ایک چٹان سے دوسری قسم کی چٹان میں بدل دیتے ہیں۔ اور پھر یہ سیلاب اور دریا اسے اٹھا کر دوسری جگہ بھی لیجاتے ہیں اور صدیوں کے بعد پھر زمین کا چہرہ بدل جاتا ہے۔ اور ہزاروں اور لاکھوں سولوں کے بعد وسیع تغیرات پیدا ہوتے ہیں ، پھر پہاڑوں پر برف جمتی ہے۔ یہ وہی کام کرتی ہے جو ہوا اور پانی کرتے ہیں اور سورج بھی زمین کی چھلکے پر ویسے ہی اثرات ڈالتا ہے جس طرح ہوا اور پانی ڈالتے ہیں۔ یہ اسے گرم کرتا ہے پھر زمین کے اوپر زندہ جانور بھی زمین کے اس چہرے کو بدلتے رہتے ہیں اور آتش فشانی کا عمل بھی زمین پر تغیرات پیدا کرتا ہے۔

” اس زمین کے چٹانوں کے بارے میں آپ کسی بھی جیالوجسٹ سے پوچھ سکتے ہیں ، وہ چٹانوں کے بارے میں آپ کو بہت سی معلومات دے گا اور وہ اس کی تین بڑی اقسام بتائے گا۔۔۔۔ مثلاً ” ناری چٹانیں (Igneous Rocks) جو زمین کے پیٹ کے پگھلے ہوئے مادے کی شکل میں باہر آئیں۔ یہ مادہ پھر ٹھنڈا ہوگیا۔ وہ آپ کو لاوا کی چٹان (Granites) بطور مثال پیش کرے گا اور پتھر دکھا کر آپ کو بتائے گا کہ اس کے اندر سفید ، سرخ اور سیاہ چمکدار مادے ہیں۔ یہ کیمیاوی مرکبات ہیں اور ان کا اپنا وجود ہے کیونکہ یہ مخلوط دھاتوں کے پتھر ہیں۔ وہ یہ بتائے گا کہ تمام روئے زمین کا چھلکا انہی پتھروں سے بنا ہوا ہے۔ جب یہ زمین تیار ہوئی ، بہت زمانہ پہلے ، بارشیں شروع ہوئیں ، زمین پر دریاب ہے ، یا برف پگھلی ، طوفان چلے ، سورج نے اثر دکھایا۔ ان موثرات نے ان ناری چٹانوں کے اندر توڑ پوڑ کا عمل کیا۔ ان کے ملبے اور ان کے اندر کی کیمیاوی مواد سے یہ جدید چٹانیں تیار ہوگئیں اور لاوے کی ان چٹانوں سے کئی اور رنگ اور قسم کی چٹانیں تیار ہوگئیں۔

” اب چٹانوں کی ایک دوسری اہم قسم ہے جس کو جیالوجی کی زبان میں گارے (Sedimentary Rocks) کی چٹانیں کہتے ہیں یہ وہ چٹانیں ہیں جو پانی ، ہوا ، سورج یا زندہ چیزوں کے عمل سے زمین کی اصلی سخت چٹانوں سے ٹوٹ پھوٹ کر بنیں اور ان کو Sedimentary اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اپنی اصلی جگہ میں نہیں ہوتی ہیں۔ یہ اپنی اصلی چٹانوں سے ٹوٹ پھوٹ کر اور پانی ، ہوا اور طوفان کی وجہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہیں اور وہاں گارے کی شکل میں جمع ہوکر جم جاتی ہیں “۔

” ان گارے کی چٹانوں کی مثال جبری پتھر ہیں جن سے پورا ” مقطم “ پہاڑ بنا ہوا ہے اس پہاڑ سے اہل قاہرہ پتھر توڑ کر اپنے مکانات بناتے ہیں۔ ماہرین بتائیں گے کہ یہ کیلشیم کاربونیٹ (Calcium Carbonate) ہے اور یہ زمین سے زندہ چیزوں یا کیمیاوی عمل سے جدا ہوا ، پھر ریت بھی اسی قسم کے پتھروں سے نبی ہوئی ہے نیز کیلشیم ایسڈ بھی اس قسم سے بنا ہے۔ یہ بھی دوسری چٹانوں سے نکلا ہے۔ مثلاً خشک گارے کے پتھر اور خشک بچنے والی مٹی کے پتھر۔ یہ تمام سابقہ اصول کے مطابق بنتے ہیں “۔ یہ سابقہ اصلی چٹانیں ہیں جن سے گارے کی (Sedimentary) چٹانیں بنیں جن کی اقسام مختلف ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ اصلی چٹانیں لاوے کی چٹانیں ہیں ، جب زمین کی سطح جم گئی اور اس کی مائع حالت جاتی رہی اور یہ عمل بہت ہی پہلے ہوا ، اس وقت سطح زمین پر لاوے کی چٹان کے سوا کچھ نہ تھا۔ پھر بخارات اور پانی پیدا ہوا اور اس نے لاوے کی چٹان پر توڑ پھوڑ کا عمل شروع کیا۔ اس میں ہوا اور مختلف قسم کی گیسوں نے بھی کام کیا۔ سخت طوفانوں اور سورج کی گرمی نے بھی امداد دی ۔ یہ سب مراحل جمع ہوئے اور اپنے اپنے طبیعی اور مزاج کے مطابق کام کیا اور یہ لاوے کے پتھروں کی شکل میں بدلے۔ اب ان پتھروں سے عمارات بنتی ہیں۔ معدنیات نکالی جاتی ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سخت لاوے کے پتھر ہی سے مٹی نکالی گئی ، جو سطح زمین پر مختلف مقامات پر جمع ہوئی اور یہی مٹی نباتات وحیوانات کے لیے تمید بنی۔

” لاوے کی چٹانیں کھتی ، فصل اور آبپاشی کے لیے مفید نہیں ہے۔ لیکن اس سے ، نرم وملائم مٹی نکلتی ہے یا اس جیسی دوسری چٹانوں سے یہ مٹی جمع ہوتی ہے اور اس مٹی سے پھر نباتات وحیوانات پیدا ہوئے۔ اور یوں اس زمین کے رئیس المخلوقات انسان کی پیدائش کے لیے راہ ہموار ہوئی۔

یہ طویل سفر جس کا انکشاف علم جدید نے کیا ہے ، اس کی مدد سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں جو ایام لگے ، زمین کی تخلیق ، اس کے اوپر پہاڑوں کی تنصیب ، اس کے اندر برکات و ضروریات کی تشکیل پر جو چار دن لگے ، یہ ایام اللہ کے چار دن تھے جن کی طوالت کا ہمیں علم نہیں کہ ان کی طوالت کا کیا معیار ومقیاس ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ وہ یقیناً ہماری اس زمین کے ایام نہ تھے۔ اب ہم نص قرآنی کے ایک ایک فقرے پر غور کریں گے ، قبل اس کے کہ ہم زمین کے موضوع کو چھوڑ کر آسمان کی طرف چلیں :

وجعل فیھا رواسی من فوقھا (41: 10) ” اور اوپر سے اس پر پہاڑ جما دیئے “۔ بعض اوقات ان پہاڑوں کے لیے رواسی کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ رواسی کے معنی لنگرانداز ہونے والی کشتی اور پہاڑ ہیں اور بعض جگہ پہاڑوں کو رواسی کہہ کر

ان تمیدبکم ” کہ تم ڈھلک نہ جاؤ “۔ یعنی زمین لنگر انداز ہے۔ یہ پہاڑ اسے ایک جگہ ٹکاتے ہیں ، تاکہ انسان ڈھلک نہ جائیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ زمین ایک جگہ جمی ہوئی ہے اور مستحکم بنیادوں پر ٹھہری ہوئی ہے۔ اب ایسا وقت آگیا ہے کہ یہ زمین تو ایک کرہ ہے ، چھوٹی سی گیند جو فضا میں تیر رہی ہے اور کسی چیز کا سہارا نہیں لے رہی ہے۔ جب انسانوں کو سب سے پہلے یہ بتائی گئی ہوگی تو وہ پریشان ہوکر دائیں بائیں دیکھ رہے ہوں گے کہ واقعی کہیں ہم گرنہ جائیں۔ ڈھلک نہ جائیں ۔ یا ہم فضا کی گہرائیوں میں نہ اڑجائیں۔ اطمینان رکھو ، اللہ نے اس کو فضا ہی میں تھامے رکھا ہے اور زمین و آسمان دونوں اپنی جگہ سے ہٹ یا پھسل نہیں سکتے ۔ اگر ان کا توازن کبھی بگڑ گیا تو پھر اللہ کے سوا کوئی اسے قائم بھی نہیں کرسکتا ۔ اطمینان کیجئے ! اللہ نے جو قوانین فطرت کائنات میں جاری کیے ہیں وہ بہت ہی پختہ ہیں اور اللہ قوی و عزیز ہے۔

ذرا پہاڑوں کا مزید مطالعہ درکار ہے انکو اللہ نے ” رواسی “ کہا ہے۔ یہ زمین کو باندھتے ہیں کہ وہ ڈھلک نہ جائے جیسا کہ ظلال القرآن میں ہم نے دوسری جگہ یہ نکتہ بیان کیا کہ سمندروں کے اندر جو گہرائیاں ہیں اور زمین کے اوپر جو بلندیاں ہیں یہ دونوں حصوں کا توازن برابر کرتی ہیں۔ یوں زمین کے دونوں حصے سمندری اور خشکی متوازن ہوجاتے ہیں۔۔۔ ایک سائنس دان کی سنئے !

” زمین کے اندر جو حادثہ ہوتا ہے اس کی سطح پر ای اندر ، اس کی وجہ سے زمین کا مادہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کو منتقل ہوتا ہے ، یہ اس کی گردش کو متاثر کرتا ہے۔ اس میں صرف مدوجزر ہی واحد عامل نہیں ہے۔ یعنی زمین کی رفتار میں کمی کے بارے میں ، یہاں تک کہ دریا ایک جگہ سے جو پانی دوسری جگہ کو منتقل کرتے ہیں اس کا بھی زمین کی رفتار پر اثر ہوتا ہے۔ ہوائیں جو ادھر جاتی ہیں ، یہ بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ سمندروں کے اندر کی سطح کا جگہ جگہ کرنا اور خشکی کی سطح کا جگہ جگہ سے اٹھنا بھی گردش زمین کی رفتار کو متاثر کرتا ہے اور یہ چیز بھی زمین کی گردش کی رفتار کو متاثر کرتی ہے کہ کسی جگہ سے زمین پھیلے یا سکڑے۔ اگرچہ یہ سکڑنا اور پھیلنا چند اقدام تک محدود کیوں نہ ہو “۔

غرض یہ حساس زمین ، جس کی حساسیت کے بارے میں ہم نے یہ مطالعہ کیا ، کیا بعید کہ اس کی رفتار کی تیزی میں یہ اونچے اونچے پہاڑ توازن قائم کرتے ہوں اور وہ اس کی غیر متوازن ہونے سے روکتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے آج سے چودہ سو سال قبل یہ بات کہہ دی ” ان تمیدبکم “” کہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے “۔

وبٰرک فیھا وقدر فیھآ اقواتھا (41: 10) ” اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس میں ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کردیا “۔ یہ فقرہ ہمارے اسلاف کے ذہنوں میں یہ مفہوم منتقل کرتا ہوگا کہ فصلیں اگا دیں اور زمین کے اندر بعض مفید جمادات اور دھاتیں رکھ دیں مثلاً سونا چاندی اور لوہا وغیرہ۔ لیکن آج اللہ تعالیٰ نے انسان پر زمین کی جو برکات کھول دی ہیں اور جو صدیوں پہلے اس زمین میں رکھ دی گئی تھیں اور ہم ان سے استفادہ کرتے ہیں تو اس فقرے کا مفہوم بہت ہی وسیع ہوگیا ہے۔

اب ہم نے دیکھ لیا کہ کس طرح ہوا کے عناصر نے تعاون کیا اور پانی تشکیل ہوا اور کس طرح پانی اور ہوانے تعاون کیا اور سورج اور طوفان نے تعاون کیا اور مٹی کی تشکیل ہوئی جو قابل زراعت بن گئی۔ اور پانی ، سورج ، ہواؤں کے باہم تعاون سے بارشیں برسیں ، یہ بارش ہی ہے جس کے ذریعہ سے تمام پانی فراہم ہوتے ہیں۔ میٹھی نہروں کے ذریعے ، دریاؤں اور ندیوں کے ذریعے اور زمین کے اندر کے ذخیروں اور چشموں کے ذریعہ ، یہ سب برکات وارزاق ہی تو ہیں۔ اور پھر ہوا اور ہمارا اور تمام حیوانات کا نظام تنفس اور ہمارے جسم۔

” زمین ایک کرہ اور گیند ہے۔ اس کے اوپر چٹان کی ایک تہہ ملفوف ہے اور اس چٹان کی تہہ کے اکثر حصے کے اوپر پانی کی تہہ ہے جس سے یہ چٹان ملفوف ہے۔ پھر اس پانی اور چٹان کی تہہ کے اوپر ایک ہوائی کرہ ہے جو دبیزگیس کی شکل میں دنیا کو ملفوف کیے ہوئے ہے۔ یہ ہوائی کرہ سمندر کی طرح ہے۔ اس کی سمندر کی طرح گہرائی ہے۔ ہم انسان اور حیوان اور نباتات ہوا کے اس سمندر کی تہہ میں زندہ رہ رہے ہیں اور بڑے مزے سے رہ رہے ہیں “۔

” ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں ، آکسیجن لیتے ہیں ، ہوا ہی سے بناتات اپنا جسم بناتے ہیں ، ہوا ہی سے کاربن لیتے ہیں بلکہ آکسائیڈ سے کاربن لیتے ہیں جسے اہل کیمیا کا ربن ڈائی آکسائیڈ کہتے ہیں۔ نباتات اپنا جسم کوئلے کے آکسائیڈ سے بناتے ہیں۔ ہم نباتات کھاتے ہیں اور ہم حیوانات کو بھی کھاتے ہیں۔ اور حیوانات نباتات کو کھاتے ہیں۔ دونوں سے ہمارا جسم تیار ہوتا ہے۔ ہوا میں نائٹروجن ہے ، یہ آکسیجن کو خفیف بناتی ہیں۔ ورنہ ہم سانس لیتے ہی جل جائیں ۔ پانی کے بخارات ہوا کے اندر رطوبت پیدا کرتے ہیں۔ کچھ دوسری گیس ہیں جو قلیل مقدار میں پائی جاتی ہیں اور غیر مرتب ہیں۔ ان میں ہیلیم ، نیون وغیرہ اور ہائیڈروجن گیس ، یہ ہوا میں ابتدائی تخلیق کے وقت سے موجود ہیں۔

وہ مواد جو ہم کھاتے ہیں اور اپنی زندگی میں اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، جبکہ رزق اس مواد سے وسیع مفہوم رکھتا ہے جو صرف پیٹ میں جاتا ہے ، یہ سب چیزیں اس اصلی مواد اور عناصر پر مشتمل ہیں جو یہ زمین اپنے پیٹ میں رکھتی ہے یا فضا میں رکھتی ہے۔ مثلاً چینی کیا چیز ہے۔ یہ کاربن ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے اور پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مرکب ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہمارے کھانے اور پینے کی چیزوں کے بڑے مرکبات ہیں۔ نیز لباس اور آلات بھی انہیں عناصر سے بنتے ہیں ، جو اس زمین کے اندر اللہ نے ودیعت کیے ہیں۔

یہ ہیں وہ امور جو اس زمین کی برکات اور اس کے اندر ذرائع رزق کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کو چار دنوں یا چار طویل ادوار ، یعنی ایام اللہ میں بنایا گیا جن کی مقدار ہمیں معلوم نہیں ہے۔

ثم استوٰی۔۔۔۔۔ العزیز العلیم (41: 11 تا 12) ” پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا ، جو اس وقت محض دھواں تھا۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا ” وجود میں آجاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو “۔ دونوں نے کہا ” ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح “۔ تب اس نے دودن کے اندر آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کا قانون وحی کردیا۔ اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کردیا ۔ یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے “۔

استواء کا مفہوم یہاں ارادہ کرنا ہے۔ اور اللہ کی طرف سے قصد کرنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف اپنے ارادے کو متوجہ کردے۔ ثم بعض اوقات ترتیب زمانی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ معنوی ارتقاء کے لیے بھی آتا ہے۔ آسمان چونکہ انسانوں کو ارفع اور بلند نظر آتے ہیں اس لیے اس کے لیے ثم کا لفظ آیا۔

ثم استوٰی الیٰ السمآء وھی دخان (41: 11) ” پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ اس وقت محض دھواں تھا “۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ستاروں کی تخلیق سے قبل ایک حالت تھی جیسے ” سدم “ کی حالت ہوتی ہے اور یہ ایک قسم کا گیس تھا ، جیسے دھواں ہوتا ہے۔

” سدم (Black Whole) میں جو گیس اور غبار ہوتا ہے وہ وہی ہوتا ہے ، جو ستاروں کی تخلیق سے بچ گیا ہوتا ہے۔ نظریہ تخلیق کائنات یہ ہے کہ کہکشاں گیس اور غبار سے مرکب ہوتی ہے۔ جب یہ گیس اور غبار زیادہ کثیف ہوگئے تو اس کے نتیجے میں ستارے پیدا ہوئے۔ کچھ ملبہ رہ گیا۔ یہ بقیہ ملبہ سدم کی شکل اختیار کرگیا۔ اس وسیع کہکشاں میں اس کا جو حصہ باقی ہے وہ منتشر ہے۔ گیس اور غبار کی شکل میں ۔ اس کی مقدار اتنی ہے جتنے ستارے بن گئے ۔ یہ ستارے اس بقیہ گیس اور غبار کو اپنی جاذبیت کے ذریعے کھینچتے رہتے ہیں۔ چناچہ اس عمل سے آسمانوں کی صفائی ہورہی ہے مگر اس غبار کو جذب کرنے والے ستارے اس ہولناک فضا میں بہت تھوڑے ہیں۔ اور جن علاقوں کو اس سے صاف کرنا ہے وہ بہت ہی وسیع ہیں “۔ یہ بات صحیح ہوسکتی ہے کیونکہ یہ اس مفہوم سے زیادہ قریب ہے۔ جو اس آیت میں ہے۔

ثم استوٰی الی السمآء وھی دخان (41: 11) ” پھر وہ آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا ، اور وہ اس وقت دھواں تھا “۔ یہاں تک کہ اس سے آسمان بنائے اور ان میں دوایام اللہ صرف ہوئے یعنی طویل عرصہ۔ اس کے بعد اب ہم اس حقیقت پر غور کریں گے۔

فقال لھا۔۔۔۔ طآئعین (41: 11) ” اس نے آسمان اور زمین سے کہا : وجود میں آجاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو “۔ دونوں نے کہا ” ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح “۔ اس آیت میں عجب اشارہ ہے اس قانون قدرت اور ناموس فطرت کی طرف جو اس کائنات میں چلایا گیا ہے اور اس کائنات کا تعلق اپنے خالق کے ساتھ اطاعت اور سرتسلیم خم کردینے کا تعلق ہے۔ پوری کائنات اللہ کی مشیت اور حکم کے مطابق چل رہی ہے۔ یہاں صرف انسان ہی ایسی مخلوق ہے جو اللہ کے ناموس کے سامنے مجبور ہو کر سرطاعت خم کرتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے۔ یہ انسان بھی یقینی طور پر اس ناموس فطرت کا مطیع فرمان ہے ، اس سے نکل نہیں سکتا ۔ یہ اس عظیم کائنات نہایت ہی معمولی پرزہ ہے۔ اور اس کائنات کے کلی قوانین اس پر بھی نافذ ہیں خواہ وہ راضی ہو یا نہ ہو ، لیکن اس کائنات میں یہ انسان واحد ذات شریف ہے جو اللہ کی اطاعت اس طرح نہیں کرتا جس طرح ارض وسما کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اطاعت سے آزاد کرنا چاہتا ہے یا راہ حق سے انخراف چاہتا ہے جو مستقیم اور آسان ہے ، لہٰذا وہ قوانین فطرت سے ٹکراتا ہے اور یہ بات لازمی ہے کہ یہ بات لازمی ہے کہ یہ قوانین اس پر غالب آکر اسے پاش پاش کردیتے ہیں۔ اس وقت یہ پھر کر مطیع فرمان ہوتا ہے۔ ہاں اللہ کے وہ بندے جن کے دل ، جن کا وجود ، جن کی حرکات ، جن کے تصورات ، جن کا ارادہ ، جن کی خواہشات اور جن کا رخ نوامیس فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے تو ایسے بندے پھر خوشی خوشی سے سر تسلیم خم کردیتے ہیں اور اس کائنات کے ساتھ ہمقدم ہوکر نہایت تعاون سے چلتے ہیں اور جس طرح یہ پوری کائنات اللہ کی سمت چلتی ہے۔ وہ بھی اسی سمت رواں دواں ہوتے ہیں۔ وہ کائناتی قوتوں کے ساتھ لڑتے ہیں ، جب مومن اس مقام تک پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کے ہاتھوں معجزات کا صدور ہوتا ہے کیونکہ اس نے ناموس قدرت کے ساتھ اتحاد کرلیا ہے۔ اس کائنات کی عظیم قوتیں اس کی پشت پت آجاتی ہیں۔ اور یہ عظیم قوت جب اللہ کی راہ میں چلتی ہے تو مطیع فرمان ہوکر چلتی ہے۔

ہم اگر اللہ کی اطاعت کرتے ہیں تو مجبور ہوکر کرتے ہیں۔ کاش کہ ہم خوشی سے مطیع فرمان ہوتے ۔ کاش ہم بھی زمین و آسمان کی طرح خوشی سے اطاعت کرتے ، رضا اور خوشی سے۔ اس حال میں کہ ہم روح کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوچکے ہوں اور نہایت خوشی اور خضوع وخشوع کے ساتھ لبیک کہتے ہوئے اور سر تسلیم خم کرتے ہوئے اللہ رب العالمین کی طرف چلیں۔

بعض اوقات ہم سے بڑی مضحکہ خیز حرکات سرزد ہوتی ہیں ، تقدیر کی گاڑی اپنی شاہراہ پرچلتی ہے ، تیزی سے چلتی ہے۔ اپنی سمت پر چلتی ہے ، یہ پوری کائنات اس کے ساتھ چلتی ہے۔ مستقل قوانین فطرت کے مطابق چلتی ہے۔ ہم آتے ہیں اور ہمارا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ ہم تقدیر سے بھی آگے ہوجائیں یا تقدیر سے ست روی اختیار کرلیں حالانکہ ہم اس عظیم کائنات کا حصہ ہیں۔ ہم اپنی نفساتی کمزوریوں کی وجہ سے جب قافلہ کائنات سے الگ ہوجاتے ہیں تو ہمارے سفر کی سمت ہی بدل جاتی ہے اور یہ سمت اس لیے بدلتی ہے کہ ہم بےچین ، جلد باز ، لالچی ، مطلب پرست اور ڈرپوک ہوجاتے ہیں۔ اور قافلہ ایمان اور قافلہ کائنات سے ادھر ادھر ہوجاتے ہیں ، ہم کبھی اس طرف ٹکراتے ہیں ، کبھی ادھر لڑھکتے ہیں اور درد پاتے ہیں ، ادھر گرتے ہیں ، ادھر حادثہ کرتے ہیں ، اور پاش پاش ہوجاتے ہیں۔ جبکہ کائنات کی گاڑی اپنے راستے پر ، اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ اپنی منزل مقصود کی طرف جارہی ہے۔ اور اس طرح ہماری تمام قوتیں ، تمام جدوجہد بےکار ہوجاتی ہیں لیکن جب ہمارے دل ایمان سے لبریز ہوں ، ہم اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کردیں ، روح کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائیں ، اس وقت ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارا کردار کس قدر حقیقی ہے۔ پھر ہم اپنے قدموں اور تقدیر کی رفتار کے درمیان توازن پیدا کردیں گے۔ اور ہم مناسب وقت میں مناسب رفتار سے مناسب سمت کی طرف حرکت کریں گے۔ ہمارے ساتھ اس پوری کائنات کی قوت شامل ہوگی۔ اور ہم عملاً عظیم کام کرسکیں گے ، سوائے اس کے کہ ہم پر کبر و غرور کا اثر ہو ، کیونکہ ہمیں تو اصل حقیقت معلوم ہوگی کہ جس قوت کے ذریعے ہم یہ کارہائے نمایاں کررہے ہیں ، اس کا درچشمہ تو دراصل کوئی اور ہے ۔ یہ ہماری ذاتی قوت نہیں ہے۔ ہماری قوت میں یہ برکت اس لیے پیدا ہوگئی کہ یہ اس کائنات کے اندر ودیعت کردہ اللہ کی قوت کے ساتھ یکجا ہوگئی ہے۔

کیا ہی سعادت مندی ہوگی ، کیا رضا مندی ہوگی ، کس قدر راحت ہوگی اور کس قدر اطمینان ہوگا ، کہ ہم اس کرۂ ارض پر جو اللہ کو لبیک کہنے والا ہے ، اپنا یہ مختصر سفر اس خوشی میں ، اس کرۂ ارض کی معیت میں طے کریں اور آخر کار رب تعالیٰ کے ہاں ایک بڑے سفر کے آغاز کے لیے پہنچ جائیں۔

وہ کیا عظیم امن وسلامتی ہوگی جب ہم ایک کائنات میں زندہ رہ رہے ہوں جو ہماری دوست ہو ، سب کی سب اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والی ہو اور ہم بھی اللہ کے مطیع فرمان ہوں۔ ہم دونوں ہمقدم ہوں ، دشمنی پر نہ ہوں ، دوست ہوں ، کیونکہ ہم اس کائنات کا حصہ ہیں اور اسی کے ہمہ رخ ہیں۔

قالتآ اتینا طآئعین (41: 11) ” ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح “۔

فقضھن سبع سمٰوات فی یومین (41: 12) ” تب اس نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دیئے “۔

واوحی فی کل سمآء امرھا (41: 12) ” اور ہر آسمان میں اس کا قانون وحی کردیا “۔ یہ دو دن وہی ہوسکتے ہیں جن میں سدم سے ستارے تیار ہوئے یا جن میں ان کی تشکیل مکمل ہوئی۔ حقیقت اللہ ہی جانتا ہے۔ ہر آسمان کی طرف اس کے امور کی وحی کے معنی یہ ہیں کہ اس پر قوانین قدرت نافذ کردیئے۔ اور ہدایت کردی کہ یوں چلو ، پھر آسمان کے حدود کیا ہیں تو اس کا تعین فی الحال ہم نہیں کرسکتے ۔ دوری کا ایک درجہ ایک آسمان ہوسکتا ہے۔ ایک کہکشاں ایک آسمان ہوسکتی ہے ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک دوری تک جس قدر کہکشاں ہیں وہ ایک آسمان ہوں یا اس کا اور بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ یہ بلندیاں سات ہیں۔

وزینا السمآء الدنیا بمصابیح وحفطا (41: 12) ” اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے محفوظ کردیا “۔ سماء دنیا کا بھی کوئی متعین مفہوم نہیں ہے ، اس سے مراد قریب تر کہکشاں بھی ہو سکتی ہے جو ہمارے ہاں شمسی کہکشاں کے نام سے مشہور ہے اور جس کا قطر ایک لاکھ ملین نوری سال ہے۔ یا کوئی اور معیار ہو اللہ کے نزدیک جس پر لفظ سما کا اطلاق ہوا ہو۔ اس میں ستارے اور ستارے ہیں جو ہمارے لیے چراغ ہیں اور بہت خوبصورت ہیں۔

حفاظت کس چیز سے ؟ شیطانوں سے۔ قرآن میں دوسری جگہ اس کی تصریح ہے۔ پھر سیاطین کی حقیقت کیا ہے ؟ قرآن کریم میں جو افعال ان کی طرف منسوب ہیں اور جو اشارے ہیں ، ان کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کی حقیقت اور ماہیت کا علم اللہ کو ہے۔

ذٰلک تقدیر العزیزالعلیم (41: 12) ” یہ سب کچھ ایک زبردست اور علیم ہستی کا منصوبہ ہے۔ کون ہے اللہ کے سوا جو اس عظیم اور ہولناک کائنات کو چلا سکتا ہے ؟ صرف اللہ زبردست اور علیم و حکیم ، اس کام کو کرسکتا ہے ، جو ہر چیز سے باخبر ہے۔

ایک عظیم کائناتی سفر کے بعد اللہ انکار کرنے والوں کے موقف کی کیا وقعت رہ جاتی ہے اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرتے ہیں ان کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے ، جبکہ آسمان و زمین بیک زبان کہتے ہیں کہ ہم ہیں مطیع فرمان ۔ لیکن انسان ہے اور کیا انسان ؟ اس کائنات کے اعتبار سے ایک نہایت چھوٹی سی چیونٹی بلکہ جرثومہ ، بےوقعت ، جو زمین پر رینگتا ہے۔ یہ نہایت ہی لاپرواہی ، غرور کے ساتھ کہتا ہے کہ میں نہ مانوں !۔۔۔۔ کیا سزا ہونی چاہئے ایسے لوگوں کی ، ایسے لاپرواہ متکبرین کی !

اردو ترجمہ

اُس نے (زمین کو وجود میں لانے کے بعد) اوپر سے اس پر پہاڑ جما دیے اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کر دیا یہ سب کام چار دن میں ہو گئے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WajaAAala feeha rawasiya min fawqiha wabaraka feeha waqaddara feeha aqwataha fee arbaAAati ayyamin sawaan lilssaileena

اردو ترجمہ

پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اُس وقت محض دھواں تھا اُس نے آسمان اور زمین سے کہا "وجود میں آ جاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو" دونوں نے کہا "ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرح"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma istawa ila alssamai wahiya dukhanun faqala laha walilardi itiya tawAAan aw karhan qalata atayna taiAAeena
477