سورۃ الفاتحہ (1): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Faatiha کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفاتحة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الفاتحہ کے بارے میں معلومات

سورۃ الفاتحہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bismi Allahi alrrahmani alrraheemi

سورة الفاتحہ اگرچہ قرآن حکیم کی مختصر سورتوں میں سے ہے ‘ اس کی کل سات آیات ہیں ‘ لیکن یہ قرآن حکیم کی عظیم ترین سورت ہے۔ اس سورة مبارکہ کو اُمّ القرآن بھی کہا گیا ہے اور اساس القرآن بھی۔ یعنی یہ پورے قرآن کے لیے جڑ ‘ بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ الفاتحہ کس اعتبار سے ہے ؟ فَتَحَ یَفْتَحُ کے معنی ہیں کھولنا۔ چونکہ قرآن حکیم شروع اس سورت سے ہوتا ہے لہٰذا یہ ”سورة الفاتحہ“ The Opening Surah of the Quran ہے۔ اس کا ایک نام ”الکافیہ“ یعنی کفایت کرنے والی ہے ‘ جبکہ ایک نام ”الشافیہ“ یعنی شفا دینے والی ہے۔ دوسری بات یہ نوٹ کیجیے کہ یہ سورة مبارکہ پہلی مکمل سورت ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہے۔ اس سے پہلے متفرق آیات نازل ہوئیں۔ سب سے پہلے سورة العلق کی پانچ آیتیں ‘ پھر سورة نٓ یا سورة القلم کی سات آیتیں ‘ پھر سورة المزمل کی نو آیتیں ‘ پھر سورة المدثر کی سات آیتیں اور پھر سورة الفاتحہ کی سات آیتیں نازل ہوئیں۔ لیکن یہ پہلی مکمل سورت ہے جو نازل ہوئی ہے رسول اللہ ﷺ پر۔ سورة الحجر میں ایک آیت بایں الفاظ آئی ہے : وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ ”ہم نے اے نبی ﷺ آپ ﷺ ‘ کو سات ایسی آیات عطا کی ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور عظمت والا قرآن۔“سورۃ الفاتحہ کی سات آیتیں دوہرا دوہرا کر پڑھی جاتی ہیں ‘ نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہیں ‘ اور یہ سورة مبارکہ خود اپنی جگہ پر ایک قرآن عظیم ہے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ھِیَ السَّبْعُ الْمَثَانِیُّ وَالْقُرْآنُ الْعَظِیْمُ الَّذِیْ اُوْتِیْتُہٗ 1”سورة اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہی ”سبع مثانی“ اور ”قرآن عظیم“ ہے جو مجھے عطا ہوئی ہے۔“تعداد کے اعتبار سے اس کی سات آیات متفق علیہ ہیں۔ البتہ اہل علم میں ایک اختلاف ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک ‘ جن میں امام شافعی رض بھی شامل ہیں ‘ آیت بسم اللہ بھی سورة الفاتحہ کا جزء ہے۔ ان کے نزدیک بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سورة الفاتحہ کی پہلی آیت اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ 5 غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ساتویں آیت ہے۔ لیکن دوسری طرف امام ابوحنیفہ رح کی رائے یہ ہے کہ آیت بسم اللہ سورة الفاتحہ کا جزء نہیں ہے ‘ بلکہ آیت بسم اللہ قرآن مجید کی کسی بھی سورة کا جزء نہیں ہے ‘ سوائے ایک مقام کے جہاں وہ متن میں آئی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا کو جو خط لکھا تھا اس کا تذکرہ سورة النمل میں بایں الفاظ آیا ہے : اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ سورتوں کے آغاز میں یہ علامت کے طور پر لکھی گئی ہے کہ یہاں سے نئی سورة شروع ہو رہی ہے۔ ان حضرات کے نزدیک اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سورة الفاتحہ کی پہلی آیت اور اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ پانچویں آیت ہے ‘ جبکہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ 5 چھٹی اور غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ساتویں آیت ہے۔ جن حضرات کے نزدیک آیت بسم اللہ سورة الفاتحہ کا جزء ہے وہ نماز میں جہری قراءت کرتے ہوئے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ بھی بالجہر پڑھتے ہیں ‘ اور جن حضرات کے نزدیک یہ سورة الفاتحہ کا جزء نہیں ہے وہ جہری قراءت کرتے ہوئے بھی بسم اللہ خاموشی سے پڑھتے ہیں اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سے قراءت شروع کرتے ہیں۔ نماز کا جزو لازم اس سورة مبارکہ کا اسلوب کیا ہے ؟ یہ بہت اہم اور سمجھنے کی بات ہے۔ ویسے تو یہ کلام اللہ ہے ‘ لیکن اس کا اسلوب دعائیہ ہے۔ یہ دعا اللہ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے کہ مجھ سے اس طرح مخاطب ہوا کرو ‘ جب میرے حضور میں حاضر ہو تو یہ کہا کرو۔ واقعہ یہ ہے کہ اسی بنا پر قرآن مجید کی اس سورت کو نماز کا جزو لازم قرار دیا گیا ہے ‘ بلکہ سورة الفاتحہ ہی کو حدیث میں ”الصَّلاۃ“ کہا گیا ہے ‘ یعنی اصل نماز سورة الفاتحہ ہے۔ باقی اضافی چیزیں ہیں ‘ تسبیحات ہیں ‘ رکوع و سجود ہیں ‘ قرآن مجید کا کچھ حصہ آپ اور بھی پڑھ لیتے ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت رض سے مروی متفق علیہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لاَ صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ 2 یعنی جو شخص نماز میں سورة الفاتحہ نہیں پڑھتا اس کی کوئی نماز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث میں یہ مضمون آیا ہے۔اس اعتبار سے بھی ہمارے ہاں ایک فقہی اختلاف موجود ہے۔ بعض حضرات نے اس حدیث کو اتنا اہم سمجھا ہے کہ آپ باجماعت نماز پڑھ رہے ہیں تب بھی ان کے نزدیک آپ امام کے ساتھ ساتھ ضرور سورة الفاتحہ پڑھیں گے۔ چناچہ امام ہر آیت کے بعد وقفہ دے۔ امام جب کہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ تو اس کے بعد مقتدی بھی کہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ خواہ اپنے دل میں کہے۔ پھر امام کہے : الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ تو مقتدی بھی دل میں کہہ لے : اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ یہ موقف ہے امام شافعی رح کا کہ نماز چاہے جہری ہو چاہے سری ہو ‘ اگر آپ امام کے پیچھے پڑھ رہے ہیں تو امام اپنی سورة الفاتحہ پڑھے گا اور آپ اپنی پڑھیں گے اور لازماً پڑھیں گے۔امام ابوحنیفہ رض کا موقف اس کے بالکل برعکس ہے کہ امام جب سورة الفاتحہ پڑھے گا تو ہم پیچھے بالکل نہیں پڑھیں گے ‘ بلکہ امام کی قراءت ہی مقتدیوں کی قراءت ہے۔ ان کا استدلال آیت قرآنی وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ الاعراف اور حدیث نبوی ﷺ مَنْ کَانَ لَہٗ اِمَامٌ فَقِرَاءَ ۃُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَاءَ ۃٌ 3 سے ہے۔ نیز ان کا کہنا ہے کہ نماز باجماعت میں امام کی حیثیت سب کے نمائندے کی ہوتی ہے۔ اگر کوئی وفد کہیں جاتا ہے اور اس وفد کا کوئی سربراہ ہوتا ہے تو وہاں جا کر گفتگو وفد کا سربراہ کرتا ہے ‘ باقی سب لوگ خاموش رہتے ہیں۔اب اس ضمن میں ایک انتہائی معاملہ تو وہ ہوگیا جو امام شافعی رح کا موقف ہے کہ چاہے جہری نماز ہو چاہے سریّ ہو ‘ اس میں امام کے پیچھے مقتدی بھی سورة الفاتحہ پڑھیں گے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ظہر اور عصر سریّ نمازیں ہیں ‘ ان میں امام خاموشی سے قراءت کرتا ہے ‘ بلند آواز سے نہیں پڑھتا ‘ جبکہ فجر ‘ مغرب اور عشاء جہری نمازیں ہیں ‘ جن میں سورة الفاتحہ اور قرآن کا مزید کچھ حصہ پہلی دو رکعتوں میں آواز کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ رح کا موقف ہے کہ نماز خواہ جہری ہو خواہ سریّ ہو ‘ نماز باجماعت کی صورت میں مقتدی خاموش رہے گا اور سورة الفاتحہ نہیں پڑھے گا۔ان کے علاوہ ایک درمیانی مسلک بھی ہے اور وہ امام مالک رح اور امام ابن تیمیہ رح وغیرہما کا ہے۔ اس ضمن میں ان کا موقف یہ ہے کہ جہری رکعت میں مقتدی سورة الفاتحہ مت پڑھے ‘ بلکہ امام کی قراءت خاموشی سے سنے ‘ ازروئے نص قرآنی : وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ الاعراف ”اور جب قرآن پڑھا جائے تو تم پوری توجہ سے اسے سنا کرو اور خود خاموش رہا کرو ‘ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ اسی طرح حدیث نبوی ﷺ ہے : اِذَا قَرَأَ [ الْاِمَامُ ] فَاَنْصِتُوْا 4 ”جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو“۔ چناچہ جب امام بالجہر قراءت کر رہا ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ تو آپ سنیے اور خود خاموش رہیے ‘ لیکن جو سرّی نماز ہے اس میں امام اپنے طور پر سورة الفاتحہ پڑھے اور آپ اپنے طور پر خاموشی سے پڑھیں۔ یہ درمیانی موقف ہے ‘ اور میں نے بہرحال اسی کو اختیار کیا ہوا ہے۔فطرت سلیمہ کی پکار سورۃ الفاتحہ کے ضمن میں ‘ مَیں نے عرض کیا کہ یہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین کی ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کر ذرا قرآن مجید کی حکمت اور فلسفہ پر اگر غور کریں گے تو اس سورت کی ایک اور شان سامنے آئے گی۔ بنیادی طور پر قرآن کا فلسفہ کیا ہے ؟ انسان اس دنیا میں جب آتا ہے تو فطرت لے کر آتا ہے ‘ جسے قرآن حکیم ”فِطْرَت اللّٰہِ“ قرار دیتا ہے ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط الرّوم : 30 یہی حقیقت حدیث نبوی ﷺ میں بایں الفاظ بیان کی گئی ہے : مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ الاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ ‘ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ 5 ”نسل انسانی کا ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ‘ لیکن یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی ‘ نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں“۔ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے فطرت اسلام لے کر آتا ہے۔ تو انسان کی فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور اپنی محبت ودیعت کردی ہے۔ اس لیے کہ جو روح انسانی ہے وہ کہاں سے آئی ہے ؟ یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ”اے نبی ﷺ ! یہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے“۔ ہماری روح رب تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے ‘ لہٰذا اس کے اندر اللہ کی معرفت بھی ہے ‘ اللہ کی محبت بھی ہے۔ تو جب تک ایک انسان کی فطرت میں کوئی کجی نہ آئے ‘ وہ بےراہ روی perversion سے محفوظ رہے تو اسے ہم کہتے ہیں فطرت سلیمہ ‘ یعنی سالم اور محفوظ فطرت۔ اس فطرت والا انسان جب بلوغ کو پہنچتا ہے اور اسے عقل سلیم بھی مل جاتی ہے ‘ یعنی صحیح صحیح انداز میں غور کرنے کی صلاحیت مل جاتی ہے تو ان دونوں چیزوں کے امتزاج کے نتیجہ میں ایمانیات کے کچھ بنیادی حقائق انسان پر خود منکشف ہوجاتے ہیں ‘ خواہ اسے کوئی وحی ملے یا نہ ملے۔ یہ ہے فطرت کا معاملہ اور یہ ہے قرآن کی حکمت اور فلسفہ کا اصول۔ اس کی ایک بڑی شاندار مثال قرآن مجید میں حضرت لقمان کی دی گئی ہے ‘ جو نہ نبی تھے نہ کسی نبی کے پیروکار اور امتی تھے ‘ لیکن انہیں اللہ نے حکمت عطا فرمائی تھی۔”حکمت“ فطرت سلیمہ ‘ قلب سلیم اور عقل سلیم کے امتزاج سے وجود میں آتی ہے۔ اگر فطرت بھی محفوظ ہے ‘ عقل بھی ٹیڑھ پر نہیں چل رہی ‘ بلکہ صحیح اور سیدھے راستے پر چل رہی ہے تو ان دونوں کے امتزاج سے جو حکمت پیدا ہوتی ہے ‘ انسان کو جو دانائی wisdom میسرّ آتی ہے اس کے نتیجہ میں وہ پہچان لیتا ہے کہ اس کائنات کا ایک پیدا کرنے والا ہے ‘ یہ خود بخود نہیں بنی ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اکیلا ہے ‘ تنہا ہے ‘ کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے لَا مِثْلَ لَہٗ وَلَا مِثَالَ لَہٗ وَلَا مَثِیْلَ لَہٗ وَلَا کُفُوَ لَہٗ وَلَا ضِدَّ لَہٗ وَلَا نِدَّ لَہٗ ۔ کوئی اس کا مدّمقابل نہیں ہے اور اس میں تمام صفات کمال بتمام و کمال موجود ہیں۔ وہ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْر ہے ‘ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْم ہے ‘ ہر جگہ موجود ہے ‘ اور اس کی ذات میں کوئی نقص ‘ کوئی عیب ‘ کوئی کوتاہی ‘ کوئی تقصیر ‘ کوئی کمزوری ‘ کوئی ضعف ‘ کوئی احتیاج قطعاً نہیں ہے۔یہ پانچ باتیں فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کے نتیجہ میں انسان کے علم میں آتی ہیں ‘ چاہے اسے ابھی کسی وحی سے فیض حاصل نہ ہوا ہو۔ چناچہ آپ دیکھتے ہیں کہ چین کا بڑا فلسفی اور حکیم کنفیوشس ان تمام باتوں کو ماننے والا تھا ‘ حالانکہ وہ نبی تو نہیں تھا ! مزیدبرآں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انسانی زندگی صرف یہ دنیا کی زندگی نہیں ہے ‘ اصل زندگی ایک اور ہے جو موت کے بعد شروع ہوگی اور اس میں انسان کو اس زندگی کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملے گا ‘ نیکیاں کمائی ہیں تو ان کی جزا ملے گی اور بدیاں کمائی ہیں تو ان کی سزا ملے گی۔ یہ وہ حقائق ہیں کہ جہاں تک انسان اپنی عقل سلیم اور فطرت سلیمہ کی رہنمائی سے پہنچ جاتا ہے۔ پھر اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک ہستی جو یکتا ہے ‘ وہی پیدا کرنے والا ہے ‘ پروردگار ہے ‘ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْر ہے ‘ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْم ہے ‘ وہی رازق ہے ‘ وہی خالق ہے ‘ وہی مالک ہے ‘ وہی مشکل کشا ہے ‘ تو اب اسی کی بندگی ہونی چاہیے ‘ اسی کا حکم ماننا چاہیے ‘ اسی سے محبت کرنی چاہیے ‘ اسی کو مطلوب بنانا چاہیے ‘ اسی کو مقصود بنانا چاہیے۔ یہ اس کا منطقی نتیجہ ہے اور یہاں تک انسان عقل سلیم اور فطرت سلیمہ کی رہنمائی سے پہنچ جاتا ہے۔درخواست ہدایت البتہ اب آگے مسئلہ آتا ہے کہ میں کیا کروں کیا نہ کروں ؟ اس میں بھی جہاں تک انفرادی معاملات ہیں ‘ ان کے ضمن میں ایک روشنی اللہ نے انسان کے باطن میں رکھی ہوئی ہے ‘ اس کے ضمیر کے اندر ‘ قلب اور روح کے اندر یہ روشنی موجود ہے کہ انسان نیکی اور بدی کو خوب جانتا ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰٹھَا۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰٹھَا۔ الشمس ”قسم ہے نفس انسانی کی اور جو اسے سنوارا درست کیا ‘ اس کی نوک پلک سنواری ‘ پھر اس میں نیکی اور بدی کا علم الہامی طور پر رکھ دیا“۔ ہر انسان جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا برا ہے ‘ سچ بولنا اچھا ہے ‘ وعدہ پورا کرنا اچھا ہے ‘ وعدہ خلافی بری بات ہے ‘ پڑوسی کو ستانا بہت بری بات ہے جبکہ پڑوسی کے ساتھ خوش خلقی کے ساتھ پیش آنا انسانیت کا تقاضا ہے۔ تو انفرادی سطح پر بھی انسان صحیح اور غلط ‘ حق اور باطل میں کچھ نہ کچھ فرق کرلیتا ہے۔ لیکن جب اجتماعی زندگی کا معاملہ آتا ہے تو اس کے لیے مجبوری ہے کہ وہ نہیں سمجھ سکتا کہ اعتدال کا راستہ کون سا ہے۔ عائلی زندگی میں عورت کا مقام کیا ہونا چاہیے ‘ عورت کے حقوق کیا ہونے چاہئیں۔ چناچہ ایک انتہا تو یہ ہے کہ دنیا میں عورت کو مرد کی ملکیت بنا لیا گیا۔ جیسے بھیڑ بکری کسی کی ملکیت ہے ‘ ایسے ہی گویا بیوی بھی خاوند کی ملکیت ہے ‘ اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ‘ اس کے کوئی حقوق ہی نہیں ‘ اس کا کوئی legal status ہی نہیں ‘ اس کے کوئی دستوری حقوق ہی نہیں۔ وہ نہ کسی شے کی مالک ہوسکتی ہے ‘ نہ کوئی کاروبار کرسکتی ہے۔ اور ایک انتہا یہ ہوتی ہے کہ کوئی قلوپطرہ ہے جو کسی قوم کی سربراہ بن کر بیٹھ جائے اور پھر اس کا بیڑا غرق کر دے ‘ جیسے مصر کا بیڑا قلوپطرہ نے غرق کیا۔ تو یہ دو متضاد انتہائیں ہیں۔آج ہمیں مغرب میں نظر آ رہا ہے کہ مرد و زن بالکل شانہ بشانہ اور برابر ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ فیملی لائف ختم ہو کر رہ گئی۔ اب وہاں صرف one parent family ہے۔ بل کلنٹن نے سال نو پر اپنی قوم کو جو پیغام دیا تھا اس میں کہا تھا کہ عنقریب ہماری امریکی قوم کی عظیم اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہوگی۔ اس نے الفاظ استعمال کیے تھے : Born without any wedlock۔ حلال زادہ اور حرام زادہ میں یہی تو فرق ہے کہ اگر ماں باپ کا نکاح ہوا ہے ‘ شادی ہوئی ہے تو ان کے ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ ان کی حلال اور جائز اولاد ہے۔ لیکن اگر ایک مرد اور ایک عورت نے بغیر نکاح کے تعلق قائم کرلیا ہے تو اس طرح بغیر کسی Legal marriage کے ‘ بغیر کسی شادی کے بندھن کے جو اولاد ہوگی وہ حرامی ہے۔ بل کلنٹن کو معلوم تھا کہ ان کے یہاں اب جو بچے پیدا ہو رہے ہیں وہ اکثر و بیشتربغیر کسی شادی کے بندھن کے پیدا ہو رہے ہیں ‘ لہٰذا اس نے کہا کہ عنقریب ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہوگی۔ ایک قوم کی کج روی اور perversion کی انتہا یہ ہے کہ انہوں نے بنیادی فارموں میں سے باپ کا نام ہی نکال دیا ہے۔ اس لیے کہ بہت سے بچوں کو پتا ہی نہیں ہے کہ ہمارا باپ کون ہے ‘ وہ تو اپنی ماں سے واقف ہیں ‘ باپ کے بارے میں انہیں کچھ علم نہیں ہے۔ اسی طرح سرمایہ اور محنت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن کیا ہو ‘ یہاں بھی انسان بےبس ہے۔ سرمایہ دار کی اپنی مصلحتیں ہیں اور مزدور کی اپنی مصلحتیں ہیں۔ سرمایہ دار کو اندازہ نہیں ہوسکتا کہ مزدور پر کیا بیت رہی ہے ‘ وہ کن مشقتوں میں ہے۔ بقول علامہ اقبال ؂تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات !لہٰذا سرمایہ کے کیا حقوق ہیں اور لیبر کے کیا حقوق ہیں ‘ ان میں توازن کیا ہو ‘ یہ کس طرح معینّ ہوگا ؟اسی طرح کا معاملہ فرد اور معاشرے کا ہے۔ ایک طرف انفرادی حقوق اور انفرادی آزادی ہے اور دوسری طرف معاشرہ ‘ قوم اور ریاست state ہے۔ کس کے حقوق زیادہ ہوں گے ؟ ایک فرد کہتا ہے میں آزاد ہوں ‘ میں مادر زاد برہنہ ہو کر سڑک پر چلوں گا ‘ تم کون ہو مجھے روکنے والے ؟ آیا اسے روکا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر اسے روک دیا جائے تو اس کی آزادی پر قدغن ہوجائے گی۔ اگر اسے کہا جائے کہ تم اس طرح نہیں نکل سکتے تو آزادی تو نہیں رہی ‘ اس کی مادر پدر آزادی تو ختم ہوجائے گی ! لیکن ظاہر بات ہے کہ ایک ریاست اور معاشرہ کے کچھ اصول ہیں ‘ اس کے کچھ اخلاقیات ہیں ‘ کچھ قواعد و قوانین ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ ان کی پابندی کی جائے ‘ اور پابندی کرانے کے لیے وہ چاہتی ہے کہ اس کے پاس اختیارات ہوں ‘ اتھارٹی ہو۔ دوسری طرف عوام یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے حقوق کا سارا معاملہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ اب اس میں اعتدال کا راستہ کون سا ہے ؟ یہ ہے وہ عقدۂ لاینحل dilemma کہ جس میں انسان کے لیے اس کے سوا کوئی اور شکل نہیں ہے کہ گھٹنے ٹیک کر اللہ سے دعا کرے کہ پروردگار ! میں اس مسئلہ کو حل نہیں کرسکتا ‘ میں تجھ سے رہنمائی چاہتا ہوں۔ تو مجھے ہدایت دے ‘ سیدھے راستہ پر چلا ! میں نے تجھے پہچان لیا ‘ میں نے یہ بھی جان لیا کہ مرنے کے بعد جی اٹھنا ہے اور حساب کتاب ہوگا اور مجھے جواب دہی کرنی پڑے گی ‘ اور میں اس نتیجہ پر بھی پہنچ چکا ہوں کہ تیری ہی بندگی کرنی چاہیے ‘ تیری ہی اطاعت کرنی چاہیے ‘ تیرے ہی حکم پر چلنا چاہیے۔۔ لیکن اس سے آگے میں کیا کروں کیا نہ کروں ؟ کیا صحیح ہے کیا غلط ہے ؟ کیا جائز ہے کیا ناجائز ہے ؟ میرا نفس تو مجھے اپنی مرغوب چیزوں پر اکساتا ہے۔ لیکن جس چیز کے لیے میرے نفس نے مجھے اکسایا ہے وہ جائز بھی ہے یا نہیں ؟ صحیح بھی ہے یا نہیں ؟ فوری طور پر تو مجھے اس سے مسرت حاصل ہو رہی ہے ‘ مجھے اس سے ّ لذت حاصل ہو رہی ہے ‘ منفعت پہنچ رہی ہے ‘ لیکن میں نہیں جانتا کہ آخر کار ‘ نتیجے کے اعتبار سے یہ چیز معاشرے کے لیے اور خود میرے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتی ہے ؟ اے اللہ ! میں نہیں جانتا ‘ تو مجھے ہدایت دے ‘ مجھے راستہ دکھا ‘ سیدھا راستہ ‘ درمیانی راستہ ‘ ایسا راستہ جو متوازن ہو ‘ جس میں انصاف ہو ‘ جس میں عدل اور قسط ہو ‘ جس میں کسی کے حقوق ساقط نہ ہوں اور کوئی جابر بن کر مسلطّ نہ ہوجائے ‘ جس میں نہ کوئی حزن و ملال اور مایوسی ودرماندگی depression ہو ‘ نہ کوئی معاشی استحاصل ہو ‘ نہ کوئی سماجی امتیاز ہو۔ اے ربّ ! ان تینوں چیزوں سے پاک ایک صراط مستقیم میں اپنے ذہن سے تلاش نہیں کرسکتا ‘ میرے فیصلے جو ہیں غلط ہوجائیں گے۔ تو میں ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا ہوں کہ مجھے اس سیدھے راستے کی ہدایت بخش دے۔یوں سمجھئے کہ پس منظر میں ایک شخص ہے جو اپنی سلامتئ طبع ‘ سلامتئ فطرت اور سلامتئ عقل کی رہنمائی میں یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نے اللہ کو پہچان لیا ‘ آخرت کو پہچان لیا ‘ یہ بھی طے کرلیا کہ راستہ ایک ہی ہے اور وہ ہے اللہ کی بندگی کا راستہ ‘ لیکن اس کے بعد اسے احتیاج محسوس ہو رہی ہے کہ مجھے بتایا جائے کہ اب میں دائیں طرف مڑوں یا بائیں طرف مڑوں ؟ یہ مجھے نہیں معلوم۔ قدم قدم پر چورا ہے آ رہے ہیں ‘ سہ را ہے آ رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے ان میں سے ایک ہی راستہ ہوگا جو سیدھا منزل مقصود تک لے کر جائے گا۔ کہیں میں غلط موڑ مڑ گیا تو میرا حال اس شعر کے مصداق ہوجائے گا ؂رستم کہ خار از پاکشم محمل نہاں شد از نظر یک لحظہ غافل گشتم وصد سالہ راہم دور شد !ایک چھوٹی سی غلطی انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ سیدھے راستہ سے آپ ذرا ساکج ہوگئے تو جتنا آپ آگے بڑھیں گے اسی قدر اس صراط مستقیم سے آپ کا فاصلہ بڑھتا چلا جائے گا۔ آغاز میں تو محض دس ڈگری کا اینگل تھا ‘ زیادہ فاصلہ نہیں تھا ‘ لیکن یہ دس ڈگری کا اینگل کھلتا چلا جائے گا اور آپ صراط مستقیم سے دور سے دور تر ہوتے چلے جائیں گے۔اللہ کرے کہ سورة الفاتحہ کو پڑھتے ہوئے ہم بھی اسی مقام پر کھڑے ہوں کہ ہمارا دل ٹھکا ہوا ہو ‘ ہمیں اللہ پر ایمان ‘ اللہ کی ربوبیتّ پر ایمان ‘ اللہ کی رحمانیتّ پر ایمان ‘ اللہ کے مالک یوم الدینّ ہونے پر ایمان حاصل ہو۔ یہ بھی ہمارا عزم ہو اور ہمارا طے شدہ فیصلہ ہو کہ اسی کی بندگی کرنی ہے ‘ اور پھر اس کے سامنے دست سوال دراز کریں کہ پروردگار ہمیں ہدایت عطا فرما !سورۃ الفاتحہ کے تین حصے اس سورة مبارکہ کے اسلوب کے حوالے سے اب میں اس کے مضامین کا تجزیہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اس سورة مبارکہ کو آپ تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلی تین آیات میں اللہ کی حمد و ثنا ہے ‘ آخری تین آیات میں اللہ سے دعا ہے ‘ جبکہ درمیان کی چوتھی آیت میں بندے کا اپنے رب سے ایک عہد و پیمان ہے۔ یہ گویا اللہ اور بندے کا ایک hand shake ہے۔جزوِ اوّل : پہلی تین آیات میں انسان کی طرف سے ان حقائق کا اظہار ہے جہاں تک وہ خود پہنچ گیا ہے۔ یہ تین آیتیں مل کر ایک جملہ بنتی ہیں۔ گرامر کے اعتبار سے بھی یہ بڑی خوبصورت تقسیم ہے۔ پہلی تین آیتوں میں جو مل کر ایک جملہ بنتی ہیں اللہ کی حمدوثنا ہے۔

اردو ترجمہ

تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alhamdu lillahi rabbi alAAalameena

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَلْحَمْدُ مبتدأ ‘ لِلّٰہِ خبر۔ ”کل تعریف کل حمد و ثنا اور کل شکر اللہ کے لیے ہے“۔ اب وہ اللہ کون ہے ؟ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ”جو تمام جہانوں کا مالک ہے پروردگار ہے ‘ پرورش کنندہ ہے“۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ”جو رحمن اور رحیم ہے“۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ میں لام حرف جر ہے لہٰذا ”اللّٰہ“ مجرور ہے۔ اس کے بعد آنے والے کلمات رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ‘ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ”اللّٰہ“ کا بدل ہونے کے باعث مجرور ہیں۔ یہ گویا ایک جملہ چلا آ رہا ہے : کل حمد ‘ کل ثنا ‘ کل شکر اس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا مالک ہے ‘ مختار ہے ‘ آقا ہے ‘ پروردگار ہے ‘ رحمن ہے اور رحیم ہے۔نوٹ کر لیجیے کہ آیت بسم اللہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ یہ دونوں صفاتی نام ‘ ”الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ آئے ہیں۔ بلکہ دونوں جگہ اللہ کے لیے تین نام ہیں۔ سب سے پہلا نام ”اللّٰہ“ ہے۔ اسے کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اسم ذات ہے۔ اگرچہ میں اس کا قائل نہیں ہوں۔ یہ بھی ایک صفاتی نام ہے۔ ”الٰہ“ پر ”ال“ داخل ہو کر ”اللّٰہ“ بن گیا۔ لیکن بہرحال ”اللّٰہ“ کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے اور عرب میں سب سے زیادہ معروف یہی نام تھا۔ جب قرآن نے رحمن کا تذکرہ کرنا شروع کیا تو وہ حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ رحمن کیا ہوتا ہے ؟ مَا الرَّحْمٰنُ تب یہ کہا گیا : قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَط اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی ج بنی اسراء یل : 110 ”اے نبی ﷺ ! ان سے کہہ دو کہ اسے اللہ کہہ کر پکارلو یا رحمن کہہ کر پکار لو ‘ جو کہہ کر بھی پکارو گے تو تمام اچھے نام اسی کے ہیں“۔ یہ تمام صفات کمال اسی کی ذات میں موجود ہیں۔ Call the rose by any name it will smell as sweetاسم ”اللہ“ کے تین معنی ہیں۔ تفصیل سے صرف نظر کرتے ہوئے عرض کر رہا ہوں کہ عوام کے نزدیک اللہ سے مراد حاجت روا ہے ‘ جس کی طرف انسان تکلیف اور مصیبت میں ‘ مشکلات میں ‘ رزق کے لیے اور اپنی دیگر حاجات کے لیے رجوع کرتا ہے۔ ”اللہ“ کا ایک اور مفہوم یہ ہے کہ وہ ہستی جو انسان کو سب سے زیادہ محبوب ہو وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ یہ صوفیاء کرام کا تصوّر ہے۔ اور ایک ہے فلاسفہ کا تصوّر کہ ”اللہ“ وہ ہستی ہے جس کی کنہ سے کوئی واقف نہیں ہوسکتا ‘ اس کے بارے میں غور وفکر سے سوائے تحیّر کے اور کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ تو اس مادّہ ”ا ل ھ“ یا ”و ل ھ“ کے اندر تین معانی ہیں 1 وہ ہستی کہ جس کی طرف اپنی تکلیف و مصیبت کے رفع کرنے کے لیے اور اپنی ضروریات پوری کرانے کے لیے رجوع کیا جائے۔ 2 وہ ہستی جس سے انتہائی محبت ہو۔ 3 جس کی ہستی کا ادراک ممکن نہیں ‘ جس کی کنہ ہمارے فہم اور ہمارے تصوّر سے ماوراء ‘ وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ہے۔

اردو ترجمہ

رحمان اور رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alrrahmani alrraheemi

الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ رحمت کے مادہ سے یہ اللہ کے دو اسماء ہیں۔ ان دونوں میں فرق کیا ہے ؟ رَحْمٰن ‘ فَعْلَان کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے ‘ چناچہ اس کے اندر مبالغہ کی کیفیت ہے ‘ یعنی انتہائی رحم کرنے والا۔ اس لیے کہ عرب جو اس وزن پر کوئی لفظ لاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نہایت شدت ہے۔ مثلاً غَضْبان ”غصہ میں لال بھبھوکا شخص“۔ سورة الاعراف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے الفاظ آئے ہیں : غَضْبَانَ اَسِفًا ”غصہ اور رنج میں بھرا ہوا“۔ عرب کہے گا : اَنَا عَطْشَانُ : میں پیاس سے مرا جا رہا ہوں۔ اَنَا جَوْعَانُ : میں بھوک سے مرا جا رہا ہوں۔ تو رحمن وہ ہستی ہے جس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند ہے۔اور ”رَحِیْم“ فعیل کے وزن پر صفت مشبہّ ہے۔ جب کوئی صفت کسی کی ذات میں مستقل اور دائم ہوجائے تو وہ فعیل کے وزن پر آتی ہے۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ دونوں صفات اکٹھی ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے مانند بھی ہے اور اس کی رحمت میں دوام بھی ہے ‘ وہ ایک دریا کی طرح مستقل رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی یہ دونوں شانیں بیک وقت موجود ہیں۔ ہم اس کا کچھ اندازہ ایک مثال سے کرسکتے ہیں۔ فرض کیجیے کہیں کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہو اور وہاں آپ دیکھیں کہ کوئی خاتون بےچاری مرگئی ہے اور اس کا دودھ پیتا بچہ اس کی چھاتی کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ یہ بھی پتا نہیں ہے کہ وہ کون ہے ‘ کہاں سے آئی ہے ‘ کوئی اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر ہر شخص کا دل پسیج جائے گا اور ہر وہ شخص جس کی طبیعت کے اندر نیکی کا کچھ مادہ ہے ‘ چاہے گا کہ اس لاوارث بچے کی کفالت اور اس کی پرورش کی ذمہ داریّ میں اٹھا لوں۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ جذبات کے جوش میں آپ یہ کام تو کر جائیں لیکن کچھ دنوں کے بعد آپ کو پچھتاوا لاحق ہوجائے کہ میں خواہ مخواہ یہ ذمہ داری لے بیٹھا اور میں نے ایک بوجھ اپنے اوپر ناحق طاری کرلیا۔ چناچہ ہمارے اندر رحم کا جو جذبہ ابھرتا ہے وہ جلد ہی ختم ہوجاتا ہے ‘ وہ مستقل اور دائم نہیں ہے ‘ جبکہ اللہ کی رحمت میں جوش بھی ہے اور دوام بھی ہے ‘ دونوں چیزیں بیک وقت موجود ہیں۔

اردو ترجمہ

روز جزا کا مالک ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Maliki yawmi alddeeni

مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ”وہ جزا اور سزا کے دن کا مالک ہے“۔ وہ مختار مطلق ہے۔ قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے۔ کسی کی وہاں کوئی سفارش نہیں چلے گی ‘ کسی کا وہاں زور نہیں چلے گا ‘ کوئی دے دلا کر چھوٹ نہیں سکے گا ‘ کسی کو کہیں سے مطلقاً کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اس روز کہا جائے گا : لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ”آج کس کے ہاتھ میں اختیار اور بادشاہی ہے ؟“ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ ”اس اللہ کے ہاتھ میں ہے جو اکیلا ہے اور پوری کائنات پر چھایا ہوا ہے۔“اب دیکھئے گر امر کی رو سے یہ ایک جملہ مکمل ہوا : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ ”کل حمد و ثنا اور شکر اس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار اور مالک ہے ‘ جو رحمن ہے ‘ رحیم ہے ‘ اور جو جزا و سزا کے دن کا مالک اور مختار مطلق ہے۔“جزو ثانی : سورة الفاتحہ کا دوسرا حصہ صرف ایک آیت پر مشتمل ہے ‘ جو ہر اعتبار سے اس سورة کی مرکزی آیت ہے :

اردو ترجمہ

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Iyyaka naAAbudu waiyyaka nastaAAeenu

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ضمیر مخاطب ”کَ“ کو مقدمّ کرنے سے حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ پھر عربی میں فعل مضارع ‘ زمانۂ حال اور مستقبل دونوں کے لیے آتا ہے ‘ لہٰذا میں نے ترجمہ میں ان باتوں کا لحاظ رکھا ہے۔ یہ بندے کا اپنے پروردگار سے عہد و پیمان ہے جسے میں نے hand shake سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا صحیح تصور ایک حدیث قدسی کی روشنی میں سامنے آتا ہے جسے میں بعد میں پیش کروں گا۔ یہاں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرلینا تو آسان ہے کہ اے اللہ ! میں تیری ہی بندگی کروں گا ‘ لیکن اس فیصلہ کو نبھانا بہت مشکل ہے ؂یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا !اللہ کی بندگی کے جو تقاضے ہیں ان کو پورا کرنا آسان نہیں ہے ‘ لہٰذا بندگی کا عہد کرنے کے فوراً بعد اللہ کی پناہ میں آنا ہے کہ اے اللہ ! میں اس ضمن میں تیری ہی مدد چاہتا ہوں۔ فیصلہ تو میں نے کرلیا ہے کہ تیری ہی بندگی کروں گا اور اس کا وعدہ کر رہا ہوں ‘ لیکن اس پر کاربند رہنے کے لیے مجھے تیری مدد درکار ہے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ کے اذکارِ مأثورہ میں ہر نماز کے بعد آپ ﷺ کا ایک ذکر یہ بھی ہے : رَبِّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ 6 ”پروردگار ! میری مدد فرما کہ میں تجھے یاد رکھ سکوں ‘ تیرا شکر ادا کرسکوں اور تیری بندگی احسن طریقے سے بجا لاؤں“۔ تیری مدد کے بغیر میں یہ نہیں کرسکوں گا۔اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ جب بھی آپ اس آیت کو پڑھیں تو آپ کے اوپر ایک خاص کیفیت طاری ہونی چاہیے کہ پہلے کپکپی طاری ہوجائے کہ اے اللہ ! میں تیری بندگی کا وعدہ تو کر رہا ہوں ‘ میں نے ارادہ تو کرلیا ہے کہ تیرا بندہ بن کر زندگی گزاروں گا ‘ میں تیری جناب میں اس کا اقرار کر رہا ہوں ‘ لیکن اے اللہ ! میں تیری مدد کا محتاج ہوں ‘ تیری طرف سے توفیق ہوگی ‘ تیسیر ہوگی ‘ تعاون ہوگا ‘ نصرت ہوگی تب ہی میں یہ عہد و پیمان پورا کرسکوں گا ‘ ورنہ نہیں۔اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ آیت ایک ہے لیکن جملے دو ہیں۔ ”اِیَّاکَ نَعْبُدُ“ مکمل جملہ ہے ‘ جملہ فعلیہ انشائیہ ‘ اور ”اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ“ دوسرا جملہ ہے۔ بیچ میں حرف عطف واؤ ہے۔ اس سے پہلے اس سورة مبارکہ میں کوئی حرف عطف نہیں آیا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ساری صفات اس کی ذات میں بیک وقت موجود ہیں۔ یہاں حرف عطف آگیا : ”اے اللہ ! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے“ اور ”تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگتے رہیں گے“۔ ہمارا سارا دار و مدار اور توکل تجھ ہی پر ہے۔ ہم تیری مدد ہی کے سہارے پر اتنی بڑی بات کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ ! ہم تیری ہی بندگی کرتے رہیں گے۔ہم نماز وتر میں جو دعائے قنوت پڑھتے ہیں کبھی آپ نے اس کے مفہوم پر بھی غور کیا ہے ؟ اس میں ہم اللہ تعالیٰ کے حضور بہت بڑا اقرار کرتے ہیں : اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ ‘ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ ‘ اَللّٰہُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ ‘ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ”اے اللہ ! ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ‘ اور تجھ ہی سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں ‘ اور ہم تجھ پر ایمان رکھتے ہیں ‘ اور تجھ پر توکل کرتے ہیں ‘ اور تیری تعریف کرتے ہیں ‘ اور تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے۔ اور ہم علیحدہ کردیتے ہیں اور چھوڑ دیتے ہیں ہر اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے۔ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے ہی لیے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں ‘ اور ہم تیری طرف کوشش کرتے ہیں اور ہم حاضری دیتے ہیں۔ اور ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں ‘ بیشک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے۔“واقعہ یہ ہے کہ اس دعا کو پڑھتے ہوئے لرزہ طاری ہوتا ہے کہ کتنی بڑی بڑی باتیں ہم اپنی زبان سے نکال رہے ہیں۔ ہم زبان سے تو کہتے ہیں کہ ”اے اللہ ! ہم صرف تیری ہی مدد چاہتے ہیں“ لیکن نہ معلوم کس کس کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور کس کس کے سامنے جبیں سائی کرتے ہیں ‘ کس کس کے سامنے اپنی عزت نفس کا دھیلا کرتے ہیں۔ پھر یہ الفاظ دیکھئے : نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ کہ جو بھی تیری نافرمانی کرے اسے ہم علیحدہ کردیتے ہیں ‘ اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں ‘ اس سے ترک تعلق کرلیتے ہیں۔ لیکن کیا واقعۃً ہم کسی سے ترک تعلق کرتے ہیں ؟ ہم کہتے ہیں دوستی ہے ‘ رشتہ داری ہے کیا کریں ‘ وہ اپنا عمل جانیں میں اپنا عمل جانوں۔ ہمارا طرز عمل تو یہ ہے۔ تو کتنا بڑا دعویٰ ہے اس دعا کے اندر ؟ اور وہ پورا دعویٰ اس ایک جملے میں مضمر ہے : اِیَّاکَ نَعْبُدُ ”پروردگار ! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے“۔ چناچہ اس وقت فوری طور پر بندے کے سامنے یہ کیفیت آ جانی چاہیے کہ اے اللہ میں یہ اسی صورت میں کرسکوں گا اگر تیری مدد شامل حال رہے۔جزو ثالث : سورة الفاتحہ کا تیسرا حصہ تین آیات پر مشتمل ہے ‘ تاہم یہ ایک ہی جملہ بنتا ہے۔

اردو ترجمہ

ہمیں سیدھا راستہ دکھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ihdina alssirata almustaqeema

اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ 5 غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ آمین ! اب دیکھئے ‘ یہ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہی کی تشریح ہے جو آخری تین آیتوں میں ہے۔ ہمیں اللہ سے کیا مدد چاہیے ؟ پیسہ چاہیے ؟ دولت چاہیے ؟ نہیں نہیں ! اے اللہ ہمیں یہ نہیں چاہیے۔ پھر کیا چاہیے ؟ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ”ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما“۔ یہ جو زندگی کے مختلف معاملات میں دورا ہے ‘ سہ را ہے اور چورا ہے آجاتے ہیں ‘ وہاں ہم فیصلہ نہیں کرسکتے کہ صحیح کیا ہے ‘ غلط کیا ہے۔ لہٰذا اے اللہ ! ہمیں سیدھے راستہ کی طرف ہدایت بخش۔ ”اِھْدِ“ ہدایت سے فعل امر ہے کہ ہمیں ہدایت دے۔ ہدایت کا ایک درجہ یہ بھی ہے کہ سیدھا راستہ بتادیا جائے۔ ہدایت کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ سیدھا راستہ دکھا دیا جائے ‘ اور ہدایت کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ انگلی پکڑ کر سیدھے راستے پر چلایا جائے ‘ جیسے بچوں کو لے کر آتے ہیں۔ لہٰذا سیدھے راستے کی ہدایت کی دعا میں یہ سارے مفہوم شامل ہوں گے۔ اے اللہ ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے۔ اے اللہ ! اس سیدھے راستے کے لیے ہمارے سینوں کو کھول دے۔ اَللّٰھُمَّ نَوِّرْ قُلُوْبَنَا بالْاِیْمَانِ وَاشْرَحْ صُدُوْرَنَا لِلْاِسْلَامِ ”اے اللہ ! ہمارے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کر دے اور ہمارے سینوں کو اسلام کے لیے کھول دے“۔ ہمیں اس پر انشراح صدر ہوجائے۔ اور پھر یہ کہ ہمیں اس سیدھے راستے کے اوپر چلا۔اب آگے اس صراط مستقیم کی بھی وضاحت ہے ‘ اور یہ وضاحت دو طرح سے ہے۔ صراط مستقیم کی وضاحت ایک مثبت انداز میں اور ایک منفی انداز میں کی گئی ہے۔ مثبت انداز یہ ہے کہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ”اے اللہ ! ان لوگوں کے راستہ پر ہمیں چلا جن پر تو نے اپنا انعام نازل فرمایا“۔ یہ مضمون جا کر سورة النساء میں کھلے گا کہ منعم علیہم چار گروہ ہیں : مِنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا ”کہ وہ نبی ‘ صدّ یقین ‘ شہداء اور صالحین ہیں۔ اور بہت ہی خوب ہے ان کی رفاقت“۔ اے اللہ ! ان کے راستہ پر ہمیں چلا۔ یہ تو مثبت بات ہوگئی۔ منفی انداز یہ اختیار فرمایا : غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ”نہ ان پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ہی وہ گمراہ ہوئے“۔ جو لوگ صراط مستقیم سے بھٹک گئے وہ دو قسم کے ہیں۔ ان میں فرق یہ ہے کہ جو شرارت نفس کی وجہ سے غلط راستہ پر چلتا ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے ‘ اور جس کی نیت تو غلط نہیں ہوتی ‘ لیکن وہ غلو کر کے جذبات میں آکر کوئی غلط راستہ اختیار کرلیتا ہے تو وہ ضالّّ گمراہ ہے۔ چناچہ ”مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ“ کی سب سے بڑی مثال یہود ہیں کہ اللہ کی کتاب ان کے پاس تھی ‘ شریعت موجود تھی ‘ لیکن شرارت نفس اور تکبر کی وجہ سے وہ غلط راستہ پر چل پڑے۔ جبکہ نصاریٰ ”ضَآلِّیْن“ ہیں ‘ انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں صرف غلو کیا ہے۔ جیسے ہمارے یہاں بھی بعض نعت گو اور نعت خواں نبی کریم کی شان بیان کرتے ہیں تو مبالغہ آرائی کرتے ہوئے کبھی انہیں اللہ سے بھی اوپر لے جاتے ہیں۔ یہ غلو ہوتا ہے ‘ لیکن ہوتا ہے نیک نیتی سے ‘ محبت سے۔ چناچہ نصاریٰ نے حب رسول میں غلو سے کام لیتے ہوئے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنا دیا۔ ہمارے شیعہ بھائیوں میں سے بھی بعض لوگ ہیں جو حضرت علی کو خدا ہی بنا بیٹھے ہیں۔ مثلاً ”لیکن نہیں ہے ذات خدا سے جدا علی !“بہرحال یہ غلو ہوتا ہے جو انسان کو گمراہ کردیتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے : قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ المائدۃ : 77 ”اے کتاب والو ! اپنے دین میں ناحق غلو سے کام نہ لو“۔ لیکن نصاریٰ نے اپنے دین میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی محبت میں غلو سے کام لیا تو وہ گمراہ ہوگئے۔ تو اے اللہ ! ان سب کے راستے سے ہمیں بچا کر سیدھے راستے پر چلا ‘ جو صدّ یقین کا ‘ انبیاء کا ‘ شہداء کا اور صالحین کا راستہ ہے۔حدیث قدسی آخر میں وہ حدیث قدسی پیش کر رہا ہوں جس میں سورة الفاتحہ ہی کو الصَّلَاۃ نماز قرار دیا گیا ہے۔ یہ مسلم شریف کی روایت ہے اور حضرت ابوہریرہ اس کے راوی ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ ‘ فَاِذَا قَالَ الْعَبْدُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ قَال اللّٰہُ تَعَالٰی : حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ ‘ وَاِذَا قَالَ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَال اللّٰہُ تَعَالٰی : اَثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِیْ ‘ وَاِذَا قَالَ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ قَالَ مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ وَقَالَ مَرَّۃً : فَوَّضَ اِلَیَّ عَبْدِیْ فَاِذَا قَالَ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ قَالَ ہٰذَا بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ ‘ فَاِذَا قَالَ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ قَالَ ہٰذَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ 7”میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو برابر حصوں میں تقسیم کردیا ہے اس کا نصف حصہ میرے لیے اور نصف حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ عطا کیا گیا جو اس نے طلب کیا۔ جب بندہ کہتا ہے : ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی میرا شکر ادا کیا۔ جب بندہ کہتا ہے : ”الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثنا کی۔ جب بندہ کہتا ہے : ”مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ تو اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی اور بڑائی بیان کی اور ایک مرتبہ آپ نے یہ بھی فرمایا : ”میرے بندے نے اپنے آپ کو میرے سپرد کردیا گویا یہ پہلا حصہ کل کا کل اللہ کے لیے ہے۔ پھر جب بندہ کہتا ہے : ”اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حصہ میرے اور میرے بندے کے مابین مشترک ہے اور میں نے اپنے بندے کو بخشا جو اس نے مانگا۔ گویا یہ حصہ ایک قول وقرار اور عہد و میثاق ہے۔ اسے میں نے کہا تھا کہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان hand shake ہے۔ پھر جب بندہ کہتا ہے : ”اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ“ تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ حصہ کل کا کل میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مجھ سے طلب کیا وہ میں نے اسے بخشا“۔اس حدیث کی رو سے سورة الفاتحہ کے تین حصے بن جائیں گے۔ پہلا حصہ کلیتاً اللہ کے لیے ہے اور آخری حصہ کلیتاً بندے کے لیے ‘ جبکہ درمیانی و مرکزی آیت : ”اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ“ بندے اور اللہ کے مابین قول وقرار ہے۔ گویا اس کا بھی نصفِ اوّل اللہ کے لیے اور نصف ثانی بندے کے لیے ہے۔ اس طرح نصف نصف کی تقسیم بتمام و کمال پوری ہوگئی !ایک بات یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اس حدیث قدسی میں ”قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ“ کے بعد آیت ”بسم اللہ“ کا ذکر نہیں ہے ‘ بلکہ ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ“ سے بات براہ راست آگے بڑھتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس ضمن میں امام ابوحنیفہ رح کا موقف درست ہے کہ آیت بسم اللہ سورة الفاتحہ کا جزو نہیں ہے۔اس سورة مبارکہ کے اختتام پر ”آمین“ کہنامسنون ہے۔ ”آمین“ کے معنی ہیں ”اے اللہ ایسا ہی ہو !“ اس سورة مبارکہ کا اسلوب چونکہ دعائیہ ہے ‘ لہٰذا دعا کے اختتام پر ”آمین“ کہہ کر بندہ گویا پھر بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتا ہے کہ اے پروردگار ! میں نے یہ عرضداشت تیرے حضور پیش کی ہے ‘ تو اسے شرف قبول عطا فرما !بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم

اردو ترجمہ

اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sirata allatheena anAAamta AAalayhim ghayri almaghdoobi AAalayhim wala alddalleena
1