اس صفحہ میں سورہ Al-Ahqaf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأحقاف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 2 { تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ } ”اس کتاب کا اتارا جانا ہے اس اللہ کی طرف سے جو زبردست ‘ کمال حکمت والا ہے۔“ قبل ازیں سورة الجاثیہ کی آیت 2 کے ضمن میں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ سورة الجاثیہ اور سورة الاحقاف کے آغاز کی آیات مشترک ہیں۔
آیت 3 { مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ } ”اور ہم نے نہیں پید ا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے مگر حق کے ساتھ“ یہ ایک مستحکم نظام اور ایک با مقصد تخلیق ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ سورة الدخان میں اس بارے میں یوں فرمایا گیا ہے : { وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ۔ } ”اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے مابین ہے محض کھیل کے طور پر تو تخلیق نہیں فرمایا۔“ { وَاَجَلٍ مُّسَمًّی } ”اور ایک اجل معین کے لیے“ { وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَمَّآ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ } ”اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اعراض کر رہے ہیں اس سے جس سے انہیں خبردار کیا جا رہا ہے۔“ اس جملے میں الفاظ کی ترتیب دراصل یوں ہے : وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا مُعْرِضُوْنَ عَمَّآ اُنْذِرُوْا۔ لیکن ایک مخصوص صوتی آہنگ rhythm برقرار رکھنے کے لیے یہاں الفاظ میں تقدیم و تاخیر کی گئی ہے۔ میں ”تعارفِ قرآن“ پر اپنے لیکچر زمین قرآن کے صوتی آہنگ پر گفتگو کرتے ہوئے یہ وضاحت کرچکا ہوں کہ ہم معروف معنوں میں جسے شاعری کہتے ہیں قرآن ویسی شاعری تو نہیں ہے لیکن ایک خاص آہنگ اور روانی کی وجہ سے قرآن کی آیات میں blank verse کا سا انداز پایا جاتا ہے اور جملوں میں الفاظ کی تقدیم و تاخیر ہوجاتی ہے۔ اور غالباً یہ قرآنی اسلوب ہی دنیا میں blank verse کے رواج کا باعث بنا ہے۔
آیت 4 { قُلْ اَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ } ”اے نبی ﷺ ! ان سیکہیے کہ کبھی تم نے غور بھی کیا کہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ‘ مجھے دکھائو تو سہی کہ انہوں نے کیا پیدا کیا ہے زمین میں ؟“ { اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ } ”یا ان کی کوئی شراکت ہے آسمانوں میں ؟“ { اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَآ اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ } ”لائو میرے پاس کوئی کتاب اس سے پہلے کی یا کوئی ایسی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو اگر تم سچے ہو !“ اپنے ان معبودوں کے بارے میں مجھ سے کسی الہامی ثبوت یا علمی اور منطقی دلیل سے بات کرو۔
آیت 5 { وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ } ”اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کے سوا اسے پکارتا ہے جو اس کو جواب ہی نہیں دے سکتا قیامت کے دن تک“ وہ نہ تو ان کی دعائوں کو سن سکتے ہیں اور نہ قبول کرسکتے ہیں۔ { وَہُمْ عَنْ دُعَآئِہِمْ غٰفِلُوْنَ } ”اور وہ ان کی دعا سے غافل ہیں۔“ وہ ان کے پکارنے سے بیخبر ہیں۔ انہیں تو پتا ہی نہیں کہ کوئی ان سے دعا مانگ رہا ہے۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کے سوا جن معبودوں کو پکارتے ہیں ان میں کچھ تو بےجان اور بےعقل مخلوقات ہیں۔ ان کا تو اپنے پکارنے والوں کی دعائوں سے بیخبر ہونا ظاہر ہی ہے۔ ان کے علاوہ کچھ بزرگ انسانوں کو بھی پکارا جاتا ہے۔ وہ اللہ کے ہاں اس عالم َمیں ہیں کہ جہاں انسانی آوازیں ان تک نہیں پہنچتیں۔ فرض کیجیے ایک شخص کسی بڑے ولی اللہ کو اپنی مدد کے لیے پکار رہا ہے تو عِلیِّیْن میں موجود اس کی روح کو کیا معلوم کہ دنیا میں اس کا کوئی معتقد اسے پکار رہا ہے۔