سورہ احقاف (46): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Ahqaf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأحقاف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ احقاف کے بارے میں معلومات

Surah Al-Ahqaf
سُورَةُ الأَحۡقَافِ
صفحہ 502 (آیات 1 سے 5 تک)

سورہ احقاف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ احقاف کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

ح م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hameem

آیت 1 { حٰمٓ ”ح ‘ م۔“

اردو ترجمہ

اِس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tanzeelu alkitabi mina Allahi alAAazeezi alhakeemi

آیت 2 { تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ } ”اس کتاب کا اتارا جانا ہے اس اللہ کی طرف سے جو زبردست ‘ کمال حکمت والا ہے۔“ قبل ازیں سورة الجاثیہ کی آیت 2 کے ضمن میں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ سورة الجاثیہ اور سورة الاحقاف کے آغاز کی آیات مشترک ہیں۔

اردو ترجمہ

ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور اُن ساری چیزوں کو جو اُن کے درمیان ہیں برحق، اور ایک مدت خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے مگر یہ کافر لوگ اُس حقیقت سے منہ موڑے ہوئے ہیں جس سے ان کو خبردار کیا گیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma khalaqna alssamawati waalarda wama baynahuma illa bialhaqqi waajalin musamman waallatheena kafaroo AAamma onthiroo muAAridoona

آیت 3 { مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ } ”اور ہم نے نہیں پید ا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے مگر حق کے ساتھ“ یہ ایک مستحکم نظام اور ایک با مقصد تخلیق ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ سورة الدخان میں اس بارے میں یوں فرمایا گیا ہے : { وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ۔ } ”اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے مابین ہے محض کھیل کے طور پر تو تخلیق نہیں فرمایا۔“ { وَاَجَلٍ مُّسَمًّی } ”اور ایک اجل معین کے لیے“ { وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَمَّآ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ } ”اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اعراض کر رہے ہیں اس سے جس سے انہیں خبردار کیا جا رہا ہے۔“ اس جملے میں الفاظ کی ترتیب دراصل یوں ہے : وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا مُعْرِضُوْنَ عَمَّآ اُنْذِرُوْا۔ لیکن ایک مخصوص صوتی آہنگ rhythm برقرار رکھنے کے لیے یہاں الفاظ میں تقدیم و تاخیر کی گئی ہے۔ میں ”تعارفِ قرآن“ پر اپنے لیکچر زمین قرآن کے صوتی آہنگ پر گفتگو کرتے ہوئے یہ وضاحت کرچکا ہوں کہ ہم معروف معنوں میں جسے شاعری کہتے ہیں قرآن ویسی شاعری تو نہیں ہے لیکن ایک خاص آہنگ اور روانی کی وجہ سے قرآن کی آیات میں blank verse کا سا انداز پایا جاتا ہے اور جملوں میں الفاظ کی تقدیم و تاخیر ہوجاتی ہے۔ اور غالباً یہ قرآنی اسلوب ہی دنیا میں blank verse کے رواج کا باعث بنا ہے۔

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، اِن سے کہو، "کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا بھی کہ وہ ہستیاں ہیں کیا جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو؟ ذرا مجھے دکھاؤ تو سہی کہ زمین میں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے، یا آسمانوں کی تخلیق و تدبیر میں ان کا کیا حصہ ہے اِس سے پہلے آئی ہوئی کتاب یا علم کا کوئی بقیہ (اِن عقائد کے ثبوت میں) تمہارے پاس ہو تو وہی لے آؤ اگر تم سچے ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul araaytum ma tadAAoona min dooni Allahi aroonee matha khalaqoo mina alardi am lahum shirkun fee alssamawati eetoonee bikitabin min qabli hatha aw atharatin min AAilmin in kuntum sadiqeena

آیت 4 { قُلْ اَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ } ”اے نبی ﷺ ! ان سیکہیے کہ کبھی تم نے غور بھی کیا کہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ‘ مجھے دکھائو تو سہی کہ انہوں نے کیا پیدا کیا ہے زمین میں ؟“ { اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ } ”یا ان کی کوئی شراکت ہے آسمانوں میں ؟“ { اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَآ اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ } ”لائو میرے پاس کوئی کتاب اس سے پہلے کی یا کوئی ایسی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو اگر تم سچے ہو !“ اپنے ان معبودوں کے بارے میں مجھ سے کسی الہامی ثبوت یا علمی اور منطقی دلیل سے بات کرو۔

اردو ترجمہ

آخر اُس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ اِس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے اُن کو پکار رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waman adallu mimman yadAAoo min dooni Allahi man la yastajeebu lahu ila yawmi alqiyamati wahum AAan duAAaihim ghafiloona

آیت 5 { وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ } ”اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کے سوا اسے پکارتا ہے جو اس کو جواب ہی نہیں دے سکتا قیامت کے دن تک“ وہ نہ تو ان کی دعائوں کو سن سکتے ہیں اور نہ قبول کرسکتے ہیں۔ { وَہُمْ عَنْ دُعَآئِہِمْ غٰفِلُوْنَ } ”اور وہ ان کی دعا سے غافل ہیں۔“ وہ ان کے پکارنے سے بیخبر ہیں۔ انہیں تو پتا ہی نہیں کہ کوئی ان سے دعا مانگ رہا ہے۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کے سوا جن معبودوں کو پکارتے ہیں ان میں کچھ تو بےجان اور بےعقل مخلوقات ہیں۔ ان کا تو اپنے پکارنے والوں کی دعائوں سے بیخبر ہونا ظاہر ہی ہے۔ ان کے علاوہ کچھ بزرگ انسانوں کو بھی پکارا جاتا ہے۔ وہ اللہ کے ہاں اس عالم َمیں ہیں کہ جہاں انسانی آوازیں ان تک نہیں پہنچتیں۔ فرض کیجیے ایک شخص کسی بڑے ولی اللہ کو اپنی مدد کے لیے پکار رہا ہے تو عِلیِّیْن میں موجود اس کی روح کو کیا معلوم کہ دنیا میں اس کا کوئی معتقد اسے پکار رہا ہے۔

502