سورہ سبا (34): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Saba کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ سبإ کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ سبا کے بارے میں معلومات

Surah Saba
سُورَةُ سَبَإٍ
صفحہ 428 (آیات 1 سے 7 تک)

ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ وَلَهُ ٱلْحَمْدُ فِى ٱلْءَاخِرَةِ ۚ وَهُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْخَبِيرُ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۚ وَهُوَ ٱلرَّحِيمُ ٱلْغَفُورُ وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَا تَأْتِينَا ٱلسَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّى لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَٰلِمِ ٱلْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَلَآ أَصْغَرُ مِن ذَٰلِكَ وَلَآ أَكْبَرُ إِلَّا فِى كِتَٰبٍ مُّبِينٍ لِّيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ وَٱلَّذِينَ سَعَوْ فِىٓ ءَايَٰتِنَا مُعَٰجِزِينَ أُو۟لَٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مِّن رِّجْزٍ أَلِيمٌ وَيَرَى ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْعِلْمَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ هُوَ ٱلْحَقَّ وَيَهْدِىٓ إِلَىٰ صِرَٰطِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَمِيدِ وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِى خَلْقٍ جَدِيدٍ
428

سورہ سبا کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ سبا کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

حمد اُس خدا کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہے وہ دانا اور باخبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alhamdu lillahi allathee lahu ma fee alssamawati wama fee alardi walahu alhamdu fee alakhirati wahuwa alhakeemu alkhabeeru

الحمدللہ الذی لہ ۔۔۔۔۔ وھو الرحیم الغفور (1 – 2) ” ۔ “۔

یہ اس سورة کا آغاز ہے جس میں مشرکین کے شرک ، ان کی جانب سے رسول اللہ کی تکذیب ، آخرت میں تشکیک ، اور ان کی طرف سے بعث بعد الموت کو مستبد سمجھنے کے موضوعات پر کلام کیا گیا ہے۔ آغاز ان کلمات کے ساتھ ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہے۔ جو بذات خود محمود ہے اگرچہ مخلوقات میں سے کوئی بھی اس کی تعریف نہ کرے۔ وہ اس پوری کائنات میں محمود ہے اور اس کائنات کی پوری قوتیں اور مخلوقات اللہ کی حمد کرتی ہیں اگرچہ یہ انسان اس کی حمد نہ کرے۔

حمد کے ساتھ اللہ کی اس صفت کا ذکر ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ اللہ کے ساتھ کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔ نہ زمین اور آسمانوں میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے اور یہ اسلامی نطریہ حیات کا پہلا اور اساسی نکتہ ہے۔ اس طویل و عریض کائنات کا مالک اللہ ہے اور اس کے سوا کوئی شریک نہیں ہے۔

ولہ الحمد فی الاخرۃ (34: 1) ” اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہے “۔ یعنی اللہ اپنی ذات میں محمود ہے اور بندوں کی طرف سے کی جانے والی حمد بھی اسی کے لئے ہے۔ غرض وہ لوگ جو اللہ کا انکار کرتے ہیں یا اس کے ساتھ کسی کو شریک کرتے ہیں ان کی طرف سے بھی حمد اللہ ہی کے لیے ہے اور وہی اس کا مستحق ہے اور ان پر یہ بات آخرت میں منکشف ہوگی۔

وھو الحکیم الخبیر (34: 1) ” وہ دانا اور باخبر ہے “۔ وہ ایسا حکیم ہے کہ اسکا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔ وہ

زمین اور آسمان کو بھی حکمت سے چلاتا ہے ۔ اس کائنات کی تدبیر نہایت حکمت سے کرتا ہے۔ وہ ہر چیز سے خبردار ہے ، ہر معاملے کا اسے علم ہے اور اس کا علم بہت گہرا ، شامل اور محیط ہے۔ اللہ کے علم کو اگر دیکھنا ہے تو اس کی مثال کیلئے اس کی کتاب علم کا ایک صفحہ ملاحظہ ہو۔

یعلم ما یلج ۔۔۔۔۔ یعرج فیھا (34: 2) ” جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے ، ہر چیز کو وہ جانتا ہے “۔ یہ چند الفاظ ہیں ذرا ان پر غور کرو ، کس قدر تعداد زمین کے اندر جاتی ہے ، کس قدر اس سے نکلتی ہے ، کس قدر تعداد کا آسمانوں سے نزول ہوتا ہے اور کسی قدر اشیاء کا عروج ہوتا ہے مختلف حرکات ، مختلف شکلوں ، مختلف صورتوں ، مختلف تصورات اور مختلف بینات میں۔ اس قدر کثیر کہ خیال ان کو اپنے دائرے میں نہیں لے سکتا۔ اگر تمام اہل زمین ایک سیکنڈ میں ہونے والے مذکورہ اعمال کا احاطہ کرنا چاہیں تو شمار نہ کرسکیں۔ اگرچہ پوری زندگی اس کام میں لگا دیں۔ یقیناً وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ کیونکہ لاتعداد اشیا اس ایک لحظہ میں زمین میں داخل ہوتی اور نکلتی ہیں اور آسمان سے لاتعداد اشیاء کا نزول و عروج ہوتا ہے ۔ کس قدر بیج زمین میں گرتے ہیں اور کس قدر کونپلیں نکلتی ہیں ، کتنے ہی حشرات داخل ہوتے اور نکلتے ہیں۔ کس قدر اجرام اور حیوانات ، کس قدر پانی کے قطرے اور کس قدر گیس کے ذرات اور کس قدر کہرابائی ذرات زمین کے اطراف میں داخل ہوتے ہیں اور کس قدر دوسری اشیاء داخل و خارج ہوتی ہیں۔ اللہ کی آنکھ ان کو دیکھ رہی ہے اور شمار کر رہی ہے۔

ذرا نباتات ہی کو دیکھئے ! ذرا چشموں کو دیکھئے ، ذرا آتش فشاں پہاڑوں کو دیکھئے ، ذرا دوسری گیسوں کو دیکھئے اور یہ دیکھئے کہ کس قدر مستور خزانے ہیں اور ذرا حشرات الارض کو دیکھئے جو نظر آتے ہیں اور جو خوردبینوں سے بھی نظر نہیں آتے۔ بعض کے بارے میں انسان نے علم حاصل کرلیا ہے اور لاتعداد ابھی تک نامعلوم ہیں۔

آسمانوں سے نازل ہونے والے بارش کے قطروں کا شمار کرسکتے ہو ! شہاب ثاقب تو قطرے نہیں ان کی تعداد معلوم ہے۔ سورج سے کسی بھی لمحے شعارعیں نکلتی ہیں۔ کس قدر جلانے والی ، کس قدر روشنی کرنے والی ، کس قدر فیصلے نافذ ہو رہے ہیں اور کس قدر ابھی تک چھپے ہوئے ہیں۔ کس قدر رحمتیں ہیں جو عوام الناس پر ہیں اور کس قدر ہیں جو بعض بندوں پر نافذ ہونے والی ہیں۔ کس قدر رزق ہے جو تقسیم ہوتا ہے اور کس قدر رزق ہے جو روک لیا جاتا ہے اور کیا کچھ ہے جو صرف اللہ کے علم میں ہے۔

کتنے نفوس اور کتنے سانس ہیں جو آسمانوں کی طرف بلند ہوتے ہیں ، نباتات کے ، حیوانات کے جراثیم کے اور دوسری مخلوقات کے اور کتنی ہی دعوتیں ہیں جو اللہ کی طرف سے دی جا رہی ہیں ، اعلانیہ ہیں یا چھپی ہوئی ہیں اور کوئی ان کو نہیں سنتا مگر اللہ ! کس قدر روحین ہیں جن کو ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ یہ اللہ کی طرف اٹھتی ہیں اور کتنے ہی فرشتے ہیں جو ہر روز اللہ کے ہاں واپس ہوتے ہیں اور کتنی روحیں اس کائنات میں ہیں جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔

سمندر سے بخارات کے کس قدر ذرے اور گیس کے دوسرے ذرات اٹھتے ہیں ، جن کا علم صرف اللہ کو ہے۔ یہ تمام اشیاء صرف ایک ہی لمحہ میں یہ عمل کرتی ہیں۔ یہ ایک لمحے کی بات ہے جس کا شمار سب انسان پوری زندگی لگا کر بھی نہیں کرسکتے۔ اگرچہ وہ عمریں صرف کردیں جبکہ اللہ کا علم شامل اور محیط ہے۔ ہر لمحے اور ہر زمانے اور ہر جگہ کے ان واقعات کا اس کے ہاں حساب و کتاب ہے بلکہ وہ انسان کی حرکات و سکنات اور خیالات و وساوس کا بھی حساب کرتا ہے لیکن وہ ستار ہے اور انسان کی کمزرویوں کا چھپاتا ہے۔

وھو الرحیم الغفور (34: 2) وہ رحیم و غفور ہے “۔

قرآن کریم کی آیات میں سے ایسی ایک ایک آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ قرآن انسانی کلام نہیں ہے۔ انسانی عقل کا مزاج یہ ہے کہ وہ اس قدر گہرا تصور پیش ہی نہیں کرسکتی جس کی انتہاؤں تک وہ کود نہ جاسکے۔ انسانی تخیل میں ایسے عمومی اور جامع خیالات آہی نہیں سکتے۔ اور اس قسم کے جوامع العلم جس کے اندر اس قدر مفہومات و مداولات آجائیں جن کا احاط ممکن نہ ہو۔ انسانی کلام میں نہیں ہوتے کیونکہ انسانی کلام انسانی عقل کا نتیجہ ہوتا ہے اور انسانی عقل کے مزاج کے یہ بات خلاف ہے۔ اس قسم کی آیات بندوں کے کلام سے مختلف ہیں۔

اللہ کے علم کی اس جامعیت اور اللہ کے شامریات کے محیط ہونے کے ثبوت اور معجزانہ بیان کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اہل کفر قیامت کا انکار کرتے ہیں جبکہ خود ان کا علم اس قدر محدود ہے کہ وہ کل کے بارے میں نہیں جانتے کہ کیا ہوگا۔ جبکہ اللہ علیم وبصیر ہے۔ زمین اور آسمانوں میں کوئی شے بھی اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور قیامت اس لیے ضروری ہے کہ نیک اور بد دونوں کو اپنے کیے کا انجام ملے۔

اردو ترجمہ

جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اُس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے، ہر چیز کو وہ جانتا ہے، وہ رحیم اور غفور ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

YaAAlamu ma yaliju fee alardi wama yakhruju minha wama yanzilu mina alssamai wama yaAAruju feeha wahuwa alrraheemu alghafooru

اردو ترجمہ

منکرین کہتے ہیں کہ کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے! کہو، قسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی، وہ تم پر آ کر رہے گی اُس سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں نہ ذرے سے بڑی اور نہ اُس سے چھوٹی، سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala allatheena kafaroo la tateena alssaAAatu qul bala warabbee latatiyannakum AAalimi alghaybi la yaAAzubu AAanhu mithqalu tharratin fee alssamawati wala fee alardi wala asgharu min thalika wala akbaru illa fee kitabin mubeenin

وقال الذین کفروا ۔۔۔۔۔۔ من رجز الیم (3 – 5)

کافروں کی جانب سے آخرت کا انکار اس وجہ سے تھا کہ وہ تخلیق انسانیت میں پنہاں حکمت الہیہ اور تقدیر الٰہی کا ادراک نہ کرسکے۔ اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ لوگوں کو شتر بےمہار کی طرح نہ چھوڑ دیا جائے کہ جو اچھائی کرے اس کی بھی مرضی ہے اور جو برائی کرے اس کی بھی مرضی ہے۔ نہ محسن کو جزاء ملے اور نہ بدکار کو سزا ملے۔ اللہ نے اپنے رسولوں کی زبانی لوگوں کو متنبہ کردیا تھا کہ جزاء کا ایک حصہ آخرت کے لیے باقی رہتا ہے اور سزا کا ایک حصہ بھی آخرت کے لیے چھوڑا جاتا ہے۔ لہٰذا جن لوگوں کو حکمت تخلیق کا ادراک ہوجائے وہ جان لیتے ہیں کہ اللہ کی اسکیم کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ آخرت برپا ہو ، تاکہ اللہ کا وعدہ پورا ہو اور اللہ کی اطلاع سچی ہو۔ کفار کی نظروں سے بس یہی حکمت اوجھل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے تھے۔

لا تاتینا الساعۃ (34: 3) ” قیامت ہم پر نہیں آئے گی “۔ اور اللہ ان کی اس بات کی پرزور تردید فرماتے ہیں۔

قل بلی وربی لتاتینکم (34: 3) ” کہہ دیجئے ، ہاں میرے رب کی قسم قیامت تم پر ضرور آئے گی “۔ اللہ بھی سچا ہے اور اس کے رسول بھی سچے ہیں۔ وہ غیب تو نہیں جانتے لیکن وہ اللہ پر اعتماد کرتے ہیں اور یقین کرتے ہیں۔ جس چیز کا خود انہیں علم نہیں ہوتا اس کے معاملے میں وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اللہ جو تاکیداً کہتا ہے کہ قیامت آئے گی وہ عالم الغیب ہے اس لیے اس کی بات سچ ہے کیونکہ وہ علم پر مبنی ہے۔

اب علم الٰہی کو ایک کائناتی حقیقت کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے جس طرح سورة کے آغاز ہی میں اس کی ایک جامع مثال دی گئی تھی۔ اس شہادت سے معلوم ہوا تھا کہ یہ قرآن انسانی کلام نہیں ہے کیونکہ اس قسم کی جامع تمثیلات انسانی فکر کا نتیجہ نہیں ہوسکتیں۔ اسی بات کو اب یہاں دوسرے الفاظ میں پڑھئے۔

لا یعزب عنہ مثقال۔۔۔۔ فی کتب مبین (34: 3) ” اس سے زرہ برابر کوئی چیز نہ آسمان میں چھپی ہے نہ زمین میں ۔ نہ ذرے سے بڑی نہ اس سے چھوٹی ! سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے “۔ میں اس بات کو یہاں دوبارہ دہراتا ہوں کہ یہ تصور ایک انسانی تصور نہیں ہے اور نہ انسان اس طرح کی جامع سوچ سوچتا ہے۔ آج تک انسانی کلام کے جو نمونے ہیں نظم کے ہیں یا نثر کے ، ان میں ایسی جامع بات نہیں ملتی۔ جب بھی انسان علم کی جامعیت اور اس کے احاطے کے بارے میں کوئی سوچ پیش کرتا ہے وہ اس قدر کائناتی رنگ میں نہیں ہوتی۔

لا یعزب عنہ ۔۔۔۔۔ من ذلک ولا اکبر (34: 3) ” اس سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمان میں چھپی ہے نہ زمین میں ، نہ ذرے سے بڑی نہ اس سے چھوٹی “۔ کم از کم انسانی نمونہ ہائے کلام میں علم کی شمولیت ، گہرائی اور جامعیت کے لیے ایسا انداز نہیں ملتا جو قرآن نے اختیار کیا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو اس طرح اپنے علم کی جامعیت کو بیان کرسکتا ہے اپنے علم کی گہرائی کو بیان کرسکتا ہے۔ یہ باتیں انسانی تخیل کے احاطے میں ہی نہیں آسکتیں۔ اسی طرح مسلمانوں کا تصور الٰہ اس طرح بلند ہوجاتا ہے جس کی مثال ان کے خیال میں نہیں آتی۔ وہ اپنے تصور اور خیال کو سمجھتے ہوئے اور اسے فوق التصور اور فوق الحیال سمجھتے ہوئے اس کی بندگی کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کتاب مبین کیا ہے ؟ کتاب مبین اللہ کا علم ہی ہے جس نے ہر چیز کو اپنے احاطے میں لیا ہوا ہے۔ جس سے کائنات کے اندر تیرنے والا ذرہ بھی چھوٹ کر رہ نہیں گیا ، نہ ڈرنے سے کم اور نہ اس سے بڑی کوئی چیز۔

ذرا اس تعبیر پر کھڑے ہوکر غور کیجئے ” نہ ذرے سے کم “ نزول قرآن کے زمانے تک معروف اور مشہور بات یہ تھی کہ ذرہ صغیر ترین جسم ہے۔ اس سے کم کا تصور موجود ہی نہ تھا۔ آج ذرے کے توڑنے سے انسان کو معلوم ہوا کہ ذرے سے زیادہ چھوٹی چیز بھی موجود ہے۔ اس وقت انسان کے تصور اور حساب میں اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ اللہ بہت ہی برکت والا ہے کہ اسکے بندے اسکی صفت کے وہ اسرار و رموز بھی جانتے ہیں۔ دوسرے لوگ صدیوں بعد مانتے ہیں اور یہ اللہ ہئ ہے جو کسی بھی وقت ان اسرار و رموز سے پردہ اٹھا دیتا ہے ، جب چاہتا ہے۔ یہ قیامت کیوں برپا ہوگی ؟ جس کا حتمی اور جزی علم اللہ کو ہے جو صغیر و کبیر کا جاننے والا ہے ؟

لیجزی الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ من رجز الیم (34: 4 – 5) ” اور یہ قیامت اس لیے آئے گی کہ اللہ جزاء دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ ان کیلئے مغفرت ہے اور رزق کریم ہے۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے زور لگایا ہے ان کے لئے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے “۔

یہ ہے اللہ کی حکمت ، اس کا ارادہ اور اس کی تدبیر۔ اللہ نے اس بات کو مقدر بنا دیا ہے کہ جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد نیک کام کیے ان کو پوری جزاء دے اور ان لوگوں کو بھی سزا دے جنہوں نے اللہ کی آیات کی نیچا دکھانے کیلئے مقدر بھر کوشش کی۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کا ایمان اعمال صالحہ کے روپ میں نمودار ہوا۔ ان کے لیے مغفرت ہے ، ان معاملات کے لئے جو ان سے غلط ہوگئے اور تقصیرات ہوگئیں اور پھر مغفرت کے بعد ان کے لئے رزق کریم ہے۔ اس سورة میں رزق کا ذکر بہت آتا ہے ، مراد جنتیں ہیں کیونکہ اللہ کی نعمتیں رزق کریم ہیں۔

رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی آیات کو نیچا دکھانے کی مساعی کیں اور تحریک اسلامی کے خلاف پوری قوت لگا دی ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ رجز نہایت ہی برے عذاب کو کہا جاتا ہے۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے تحریک اسلامی کی خلاف سرگرمیاں دکھائیں ، تحریک کو ناکام کرنے کی سعی کی اور بری راہ پر جدوجہد کرتے رہے۔ یوں اللہ کی حکمت اور اس کا منصوبہ مکمل ہوتا ہے اور ان لوگوں نے جو نظریہ اپنا رکھا ہے کہ آخرت برپا نہ ہوگی اسکی وجہ ان کی لاعلمی ہے۔ حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ یہ ضرور آئے گی

ان لوگوں نے یقین کرلیا تھا کہ قیامت نہ آئے گی جبکہ وہ اللہ کے مخصوص غیوب میں سے ایک غیب ہے اور اللہ نے فیصلہ دے دیا کہ وہ ضرور آئے گی۔ اللہ ہی عالم الغیب ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو حکم دے دیا کہ آپ ﷺ اس پیغام کو نشر کردیں اور یہ کہ ان کا یہ عقیدہ جہالت پر مبنی ہے۔ اہل علم بھی اس نتیجے تک پہنچے ہیں جس تک اہل ایمان پہنچے ہیں۔ یہی راستہ ہے اللہ عزیز وحمید کا۔

اردو ترجمہ

اور یہ قیامت اس لئے آئے گی کہ جزا دے اللہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کرتے رہے ہیں اُن کے لیے مغفرت ہے اور رزق کریم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Liyajziya allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati olaika lahum maghfiratun warizqun kareemun

اردو ترجمہ

اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے زور لگایا ہے، ان کے لیے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena saAAaw fee ayatina muAAajizeena olaika lahum AAathabun min rijzin aleemin

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ سراسر حق ہے اور خدائے عزیز و حمید کا راستہ دکھاتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayara allatheena ootoo alAAilma allathee onzila ilayka min rabbika huwa alhaqqa wayahdee ila sirati alAAazeezi alhameedi

ویری الذین اوتوا ۔۔۔۔۔ صراط العزیز الحمید (6) ” “۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ اہل العلم سے مراد اہل کتاب ہیں جن کو اپنی مذہبی کتابوں کی پیشن گوئیاں کی وجہ سے معلوم تھا کہ قرآن کتاب برحق ہے اور وہ صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرنے والا ہے ، لیکن آیت کا دائرہ اطلاق اہل کتاب تک محدود نہیں ہے۔ اس سے مطلق اہل علم مراد ہیں۔ یہ آیت کسی زمان و مکان تک بھی محدود نہیں ہے۔ ہر زمانے کے اہل علم اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ ہر زمانے ، ہر نسل اور ہر قسم کے اہل علم مراد ہیں۔ بشرطیکہ ان کا علم صحیح علم ہو۔ اس لیے کہ قرآن کریم تو تمام زمانوں کے لیے کھلی کتاب ہے۔ اس کے اندر جو سچائی ہے وہ ہر زمانے اور علاقے کے اہل علم کے لیے سچائی ہے۔ یہ کتاب اسی سچائی پر مشتمل ہے جو اس کائنات کی تہہ میں ہے۔ اس لیے قرآن کریم اس کائناتی سچائی کا بہترین اور سچا ترجمہ ہے۔

ویھدی الی صراط العزیز الحمید (34: 6) ” اور خدائے عزیز وحمید کا راستہ دکھاتا ہے “۔ اللہ عزیز وحمید کا راستہ وہی ہے جو اللہ نے اس کائنات کے لیے اختیار کیا ہے اور وہی راستہ اللہ نے انسان کے لیے بھی اختیار کیا ہے تاکہ انسانی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ ہو جو اس کائنات کے لیے ہے جس میں انسان رہتا ہے۔ یہ راستہ قانون قدرت ہے اور ناموس فطرت کا راستہ ہے جس کے مطابق یہ کائنات چلتی اور جس کے مطابق خود یہ زندگی چلتی ہے کیونکہ خود انسانی زندگی اپنے نظام اور اپنی رفتار کے مطابق اس کائنات سے علیحدہ نہیں ہے۔ نہ ان تمام چیزوں سے علیحدہ ہے جو اس کائنات میں ہیں۔

وہ اللہ عزیز وحمید کی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے ، یوں کہ وہ مومنین کی قوت مدرکہ کے اندر اس کائنات کا متناسب تصور پیدا کرتا ہے ، اور پھر اس کائنات کے ساتھ مومنین کے تعلقات ، روابط اور اقدار کا ایک تصور پیدا کرتا ہے کہ اس کائنات کے اندر انسان کا مقام کیا ہے۔ اس کے اندر انسان کا کردار کیا ہے ، انسان اور اس کے گرد پھیلی ہوئی کائنات مل کر کس طرح اللہ کی حکمت تخلیق کو بروئے کار لاسکتے ہیں اور انسان اور یہ کائنات باہم مل کر کس طرح اللہ طرح اللہ جل شانہ کی سمت کی طرف سفر کرسکتے ہیں

یہ سچائی انسان کو عزیز وحمید کے راستے کی طرف ہدایت کرتی ہے ۔ یوں کہ وہ انسان کو ایک منہاج فکر دیتی ہے۔ اس فکر کو نہایت ہی مضبوط بنیادوں پر اٹھاتی ہے اور یہ کائناتی اثرات فطرت انسانی پر اثر انداز ہوکر اسے اس کائنات کا بہترین ادراک عطا کرتے ہیں۔ انسان اس کائنات کے خواص اور قوانین کو سمجھتا ہے اور ان سے استفادہ کرتا ہے۔ پھر وہ کائناتی حقائق کے ساتھ ٹکرانے کے بجائے ان کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔

یہ سچائی انسان کو اللہ عزیز وحمید کی راہ یوں دکھاتی ہے کہ ایک فرد کی تربیت کرکے اسے ایک سوسائٹی کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ چلانا سکھائی ہے۔ پھر یہ ایک سوسائٹی کو دوسری سوسائٹیوں کے ساتھ ہم آہنگ کرکے اس پوری کائنات کی تعمیر اور ترقی کے لیے ہم آہنگ کرتی ہے۔ اور تمام سوسائٹیوں کو اس کائنات کے ساتھ ہم قدم کرتی ہے تاکہ یہ کائنات اور اس کے اندر انسانی سوسائٹیاں بڑی سہولت کے ساتھ چل سکیں۔

یہ سچائی اللہ عزیز وحمید کی راہ کی طرف یوں بھی ہدایت کرتی ہے کہ وہ انسان اور انسانی سوسائٹی کو ایسے قوانین عطا کرتی ہے جو فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہوں۔ انسانی زندگی کے حالات اور انسانی معیثت کے بارے میں ایسی ہدایات دیتی ہے کہ انسان تمام زندہ مخلوقات کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چلے ۔ یہ نہ ہو کہ انسانی نظام اس کائنات اور اس کے اندر موجود دوسرے حیوانات کے نظام کے ساتھ متضاد ہو۔ حالانکہ انسان بھی اس کرہ ارض کی دوسری مخلوقات اور امم میں سے ایک امت ہے۔

غرض یہ کتاب اور یہ سچائی راہنما ہے ، سیدھی راہ کی طرف اور یہ راہنما بھی اللہ کا راسال کردہ ہے اور یہ راستہ بھی اسی کا پیدا کردہ ہے ۔ اگر آپ نے کسی سڑک پر چلنا ہے اور آپ کو راہنمائی کیلئے وہی انجینئر مل جائے جس نے اس راستے کا نقشہ بنایا تھا تو آپ جیسا خوش قسمت اور کون ہے اور آپ کس خوش اسلوبی اور بےفکری سے یہ سفر طے کرسکیں گے۔ یقیناً بہت اطمینان کے ساتھ !

اس حساس تبصرے کے بعد اب دوبارہ بات شروع ہوتی ہے بعث بعد الموت کے موضوع پر ، تعجب کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ بعث بعد الموت پر کس قدر بےت کے اعتراضات کرتے ہیں ۔ وہ اپنی جانب سے حضور ﷺ پر تعجب کرتے ہیں کہ آپ ایسی انہونی باتیں کرتے ہیں ، یا اللہ پر افتراء باندھتے ہیں حالانکہ خود ان کی تعجب انگیزی احمقانہ ہے۔

اردو ترجمہ

منکرین لوگوں سے کہتے ہیں "ہم بتائیں تمہیں ایسا شخص جو خبر دیتا ہے کہ جب تمہارے جسم کا ذرہ ذرہ منتشر ہو چکا ہو گا اس وقت تم نئے سرے سے پیدا کر دیے جاؤ گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala allatheena kafaroo hal nadullukum AAala rajulin yunabbiokum itha muzziqtum kulla mumazzaqin innakum lafee khalqin jadeedin

وقال الذین کفروا۔۔۔۔۔۔ والضلل البعید (7 – 8)

یہ لوگ قیام قیامت کو اس قدر عجیب سمجھتے تھے۔ یہ لوگ قیامت کے قائل کو قابل تعجب یا مجنون یا چھوٹا سمجھتے تھے۔ ذرا انداز گفتگو کو دیکھو “ بتائیں تمہیں ایسا شخص جو کہتا ہے کہ جن تمہارے جسم کا ذرہ ذرہ منتشر ہوجائے گا اس وقت تم نئے سرے سے پیدا کر دئیے جاؤ گے “۔ یہ ایک عجیب و غریب شخص پیدا ہوگیا ہے جو اس قسم کی انہونی باتیں کرتا ہے کہ مرنے کے بعد ، مٹی کے ذرات بن جانے کے بعد کے بعد اور مٹی میں رل مل جانے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کردیا جائے گا۔

یہ لوگ مزید تعجب کرتے ہیں اور نہایت ہی انوکھا سمجھتے ہوئے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ یا تو یہ اللہ کے نام سے افتراء باندھتا ہے اور یا پھر یہ شخص مجنون ہے۔ کیونکہ ان کے زعم کے مطابق اس قسم کی باتیں یا تو جھوٹا شخص کرسکتا ہے یا مجنوں کرسکتا ہے۔ اگر مجنون ہے تو یہ کلام ہذیان ہے اور اگر جھوٹا ہے تو یہ تعجب خیز ہے۔ وہ یہ باتیں کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے کہ حضرت محمد ﷺ یہ کہتے ہیں کہ تمہیں دوبارہ پیدا کیا جائے گا لیکن خود ان کی بات تعجب خیز ہے۔ کیا یہ لوگ پہلی بار پیدا نہیں کیے گئے ؟ انسان کی تخلیق کیا کوئی کم واقعہ ہے۔ پہلی بار ایسی تخلیق ؟ اگر یہ اسے تدبر اور غور سے دیکھیں تو کبھی بھی تعجب نہ کریں۔ لیکن یہ گمراہ ہیں اور ہدایت کی راہ نہیں لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس تعجب پر ان کو سخت دھمکی دی جاتی ہے۔

بل الذین لا یومنون بالاخرۃ فی العذاب والضلل البعید (34: 8) ” بلکہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ خواب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور وہی بری طرح بہکے ہوئے ہیں “۔ اس عذاب سے مراد عذاب آخرت بھی ہوسکتا ہے گویا وہ عذاب ان پر واقعہ ہوگیا ہے۔ چونکہ وہ گمراہی میں بہت دور تک چلے گئے ہیں اس لیے اب ان کے ہدایت پر آنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ لوگ جس طرح عذاب الٰہی میں مبتلا ہیں اسی طرح گمراہ بھی ہیں۔ یہ بہت گہری حقیقت ہے اس لیے کہ جس شخص کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا وہ نفسیاتی لحاظ سے سخت عذاب اور کشمکش میں ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو دنیا کی بےانصافیوں میں نہ انصاف کی امید ہوتی ہے ، نہ عدل کی ، نہ جزائے آخرت کی اور نہ اخروی اجر کی۔ انسانی زندگی میں ایسے واقعات اور حوادث آتے ہیں کہ انسان انہیں صرف اجر اخروی کی خاطر ہی برداشت کرسکتا ہے اور یہ تسلی رکھتا ہے کہ نیکوکار کے لیے اجر حسن ہے اور بدکار کے لئے سزا ہے۔ کئی ایسی مشکلات ہوتی ہیں کہ انسان رضائے الٰہی اور جزائے اخروی کے لیے انہیں برداشت کرتا ہے کیونکہ آخرت میں چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی ضائع نہیں ہوتا۔ اگر وہ ذرا برابر ہو اور کسی چٹان کے اندر ہو ، وہاں سے بھی اللہ اس مطلوب ذرے کو جو رائی کے دانے کے برابر ہو ، لے کر آتا ہے اور جو شخص اس تروتازہ اور فرحت بخش اور روشن چراغ سے محروم ہے وہ گویا دائمی عذاب میں ہے۔ اس دنیا میں بھی منکر آخرت ایک مسلسل عذاب میں گرفتار ہوتا ہے اور آخرت میں تو وہ اپنے اعمال کی جزا بہرحال پائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرت کا عقیدہ انسان کے لیے ایک رحمت ہے ، ایک عظیم نعمت ہے جس کے مستحق اللہ کے مخلص بندے ہوتے ہیں ، جو حق کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور جن کی خواہش ہر وقت یہ ہوتی ہے کہ وہ راہ راست پر گامزن ہوں ۔ راجح بات یہی ہے کہ اس آیت میں اسی نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ گمراہی کے ساتھ ساتھ اس دنیا میں بھی ایک مصیبت میں گرفتار ہیں۔

ان مکذبین کو اب ایک سخت دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر اللہ چاہے تو ان کی اس گمراہی کی وجہ سے مزید عذاب دنیا ان پر نازل کر دے اور آسمان کا ایک ٹکڑا ان پر گرا دے یا ان کو اس ضلالت کی وجہ سے زمین کے اندر دھنسا دے۔ یہ اس نظام کائنات پر غور نہیں کرتے کہ یہ نظام تو کسی بھی وقت بگڑ سکتا ہے۔

428