سورة الضحى (93): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Ad-Dhuhaa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الضحى کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورة الضحى کے بارے میں معلومات

سورة الضحى کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

قسم ہے روز روشن کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waaldduha

اردو ترجمہ

اور رات کی جبکہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہو جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallayli itha saja

آیت 2{ وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی۔ } ”قسم ہے رات کی جبکہ وہ سکون کے ساتھ چھا جائے۔“ رات میں اندھیرا اور سکون ہے ‘ جبکہ دن اجالے اور حرکت کا مظہر ہے۔ ان دو آیات میں رات اور دن کی متضاد خصوصیات کو اس فرمان پر بطور شہادت پیش کیا گیا کہ :

اردو ترجمہ

(اے نبیؐ) تمہارے رب نے تم کو ہرگز نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma waddaAAaka rabbuka wama qala

آیت 3{ مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی۔ } ”آپ ﷺ کے رب نے آپ کو رخصت نہیں کیا اور نہ ہی وہ آپ ﷺ سے ناراض ہوا ہے۔“ یعنی وحی کے تسلسل میں یہ وقفہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ سے ناراض ہوگیا ہے ‘ بلکہ یہ وقفہ ہماری حکمت و مشیت کا حصہ اور آپ ﷺ کی تربیت کا جزو تھا۔ ظاہر ہے نظام کائنات میں دن کے اجالے کے ساتھ رات کی تاریکی کا وجود بھی ناگزیر ہے۔ چناچہ جس طرح دن کے بعد رات کا آنا ضروری ہے اسی طرح نفس انسانی کے لیے بسط و کشاد کی لذت کے ساتھ ساتھ ”انقباض“ کی کیفیت سے آشنا ہونا بھی ضروری ہے۔

اردو ترجمہ

اور یقیناً تمہارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walalakhiratu khayrun laka mina aloola

آیت 4{ وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی۔ } ”اور یقینا بعد کا وقت آپ کے لیے بہتر ہوگا پہلے سے۔“ یعنی اس وقفے اور ’ انقباض ‘ کی کیفیت کے بعد آنے والی اب ہر گھڑی اور ہر ساعت آپ ﷺ کے لیے ’ انبساط ‘ اور انشراح کا نیا پیغام لے کر آئے گی۔ ان آیات میں انقباض و انبساط کے حوالے سے جو اصول بیان ہوا ہے اس کی حیران کن حد تک درست ترجمانی غالب ؔنے اپنے اس مصرع میں کی ہے : ع ”رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور !“ یعنی اشعار کی آمد کے حوالے سے کبھی کبھی مجھ پر انقباض کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے لیکن جب اس وقفے کے بعد دوبارہ آمد شروع ہوتی ہے تو پھر میری طبیعت کی روانی پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ گویا انقباض کے بعد جب انبساط کا مرحلہ آتا ہے تو انسان اپنی پہلی کیفیت کے مقابلے میں ایک درجہ آگے جا چکا ہوتا ہے۔ ] اس آیت مبارکہ سے یہ مفہوم بھی متبادر ہوتا ہے کہ ”یقینا ہر آنے والی گھڑی آپ ﷺ کے لیے پہلی سے بدرجہا بہتر ہے“۔ آپ ﷺ پر آپ ﷺ کے رب کے لطف و کرم اور انعام و احسان کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ ہر آنے والا وقت گزشتہ حالات سے بہتر سے بہتر ہوگا۔ اس ایک جملہ میں کفار کے طعن وتشنیع اور الزام تراشیوں کا بھی سدباب کردیا گیا اور اسلام کے درخشاں مستقبل کے بارے میں بھی نوید جانفزا سنا دی گئی۔ [

اردو ترجمہ

اور عنقریب تمہارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walasawfa yuAAteeka rabbuka fatarda

آیت 5{ وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی۔ } ”اور عنقریب آپ ﷺ کا رب آپ ﷺ کو اتنا کچھ عطا فرمائے گا کہ آپ ﷺ راضی ہوجائیں گے۔“ یعنی اب بہت جلد آپ ﷺ کی محنتوں کے ایسے ایسے نتائج آپ ﷺ کے سامنے آئیں گے کہ انہیں دیکھ کر آپ ﷺ خوش ہوجائیں گے۔ 1 یہاں پر پچھلی سورت کی آخری آیت کے یہ الفاظ بھی ذہن میں تازہ کرلیں : { وَلَسَوْفَ یَرْضٰی۔ } گویا جو خوشخبری یہاں حضور ﷺ کو سنائی جارہی ہے وہی بشارت سورة اللیل میں حضرت ابوبکر رض کو دی گئی ہے۔ دونوں آیات کا اسلوب اصلاً ایک سا ہے ‘ صرف ضمیر اور صیغے کا فرق ہے۔ حضور ﷺ پر چونکہ وحی آتی تھی اس لیے آپ ﷺ کو صیغہ حاضر تَرْضٰی میں براہ راست مخاطب کیا گیا ‘ جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رض کے لیے غائب کا صیغہ یَرْضٰی آیا ہے۔ ”انقباض“ کی مذکورہ کیفیت کے سیاق وسباق میں اب اللہ تعالیٰ حضور ﷺ پر اپنے احسانات جتا رہا ہے۔ یہ بھی دراصل حضور ﷺ کے لیے تسلی ہی کا ایک انداز ہے۔ جبکہ اس میں ہمارے لیے بھی راہنمائی ہے کہ جب کسی وقت آدمی پر ڈپریشن اور افسردگی کی کیفیت طاری ہو تو اسے چاہیے کہ اس کیفیت میں وہ خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کو گن گن کر یاد کرے کہ اللہ تعالیٰ کس کس انداز میں اس کی مدد کرتا رہا ہے اور کیسی کیسی مشکلات سے اسے نجات دلاتا رہا ہے۔ ظاہر ہے ماضی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد کرنے سے ایک پریشان حال آدمی کا حوصلہ بڑھتا ہے اور اس کی مثبت سوچ کو تحریک ملتی ہے۔

اردو ترجمہ

کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam yajidka yateeman faawa

آیت 6{ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی۔ } ”کیا اس نے نہیں پایا آپ کو یتیم ‘ پھر پناہ دی !“ یہ آیات سیرت النبی ﷺ کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے کے حوالے سے بھی بہت اہم ہیں۔ حضور ﷺ کے والد آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ چناچہ آپ ﷺ پیدا ہی یتیمی کی حالت میں ہوئے۔ چھ سال کی عمر میں والدہ کا سہارا بھی چھن گیا۔ دادا نے اپنی کفالت میں لیا تو دو سال بعد وہ بھی چھوڑ کر چلے گئے۔ تایا زبیر بن عبدالمطلب سرپرست بنے تو کچھ عرصہ بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا حضور ﷺ کی کفالت کے حوالے سے آپ ﷺ کے تایا زبیر بن عبدالمطلب کا ذکر اکثر تاریخی حوالوں میں موجود ہی نہیں۔ ایسا دراصل جناب ابوطالب کے کردار کو زیادہ نمایاں کرنے کے لیے جان بوجھ کر باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جناب ابوطالب نے آپ ﷺ کے سرپردست شفقت رکھا اور انہی کی سرپرستی میں آپ ﷺ جوانی کی عمر کو پہنچے۔ آیت کے لفظ ”فَاٰوٰی“ میں ان تمام دنیوی سہاروں کی طرف اشارہ ہے جو ظاہر ہے آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے فراہم کیے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ہی ان تمام رشتہ داروں کے دلوں میں آپ ﷺ کے لیے محبت اور چاہت پیدا کی تھی۔ اسی نے آپ ﷺ کی شخصیت ایسی بنائی تھی کہ جو کوئی آپ ﷺ کو دیکھتا آپ ﷺ کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی بچپن میں سہارا دیا تھا۔ سورة طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور حکمت کا ذکر اس طرح آیا ہے : { وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْج } آیت 39 کہ اے موسیٰ علیہ السلام میں نے آپ پر اپنی محبت کا َپرتو ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے لوگ آپ کو دیکھ کر متاثر ہوجاتے تھے اور یوں وہ آپ علیہ السلام کو قتل کرنے سے باز رہے۔

اردو ترجمہ

اور تمہیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wawajadaka dallan fahada

آیت 7{ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی۔ } ”اور آپ ﷺ کو تلاش حقیقت میں سرگرداں پایا تو ہدایت دی !“ جب آپ ﷺ شعور کی پختگی کی عمر کو پہنچے اور آپ ﷺ نے کائنات کے حقائق کے بارے میں غوروفکر کرنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ ﷺ کو راہنمائی فراہم کردی۔ 1

اردو ترجمہ

اور تمہیں نادار پایا اور پھر مالدار کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wawajadaka AAailan faaghna

آیت 8{ وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی۔ } ”اور اس نے آپ ﷺ کو تنگ دست پایا تو غنی کردیا !“ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت خدیجہ رض کی ساری دولت آپ ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردی۔ حضرت خدیجہ رض بہت مال دار اور صاحب حیثیت خاتون تھیں۔ مکہ کے بڑے بڑے سرداران رض سے نکاح کے خواہش مند تھے ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے ان رض کا دل آپ ﷺ کی طرف پھیر دیا اور انہوں رض نے خود آپ ﷺ کو نکاح کا پیغام بھجوایا۔ گزشتہ آیات میں حضور ﷺ کی زندگی کے تین مراحل کے حوالے سے تین احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اب اسی ترتیب سے آپ ﷺ کو تین ہدایات دی جا رہی ہیں :

اردو ترجمہ

لہٰذا یتیم پر سختی نہ کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faamma alyateema fala taqhar

آیت 9{ فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ۔ } ”تو آپ ﷺ کسی یتیم پر سختی نہ کریں۔“ جیسے آپ ﷺ کی یتیمی میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی کفالت وغیرہ کا بندوبست کیا ‘ اسی طرح اب آپ ﷺ بھی یتیموں کی سرپرستی کریں اور انہیں لوگوں کی زیادتیوں سے بچائیں

اردو ترجمہ

اور سائل کو نہ جھڑکو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma alssaila fala tanhar

آیت 10{ وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْہَرْ۔ } ”اور آپ ﷺ کسی سائل کو نہ جھڑکیں۔“ ایک وقت تھا جب آپ ﷺ حقیقت کی تلاش میں سرگرداں تھے اور ہم نے آپ ﷺ کو ہدایت عطا فرمائی تھی۔ اب اگر آپ ﷺ کے پاس کوئی سائل اپنی حاجت لے کر آئے تو اس کی حاجت روائی کریں اور اسے جھڑکیں نہیں۔ ظاہر ہے سائل بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کوئی مالی معاونت کے لیے سوال کرتا ہے تو کوئی علم کی تلاش میں لوگوں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma biniAAmati rabbika fahaddith

آیت 1 1{ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ۔ } ”اور اپنے رب کی نعمت کا بیان کریں۔“ یہ ہدایت جو آپ ﷺ کو عطا ہوئی ہے ‘ یہ آپ ﷺ کے رب کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر شکر کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ اس کی اس نعمت کا چرچا کریں اور اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیلائیں۔ اس حکم میں ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ ہدایت کی نعمت کو اگر انسان اپنی ذات تک محدود کر کے بیٹھ رہے تو اس کا یہ طرزعمل بخل کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا جس کسی کو اللہ تعالیٰ ہدایت کی دولت سے نوازے اسے چاہیے کہ اس خیر کو عام کرے اور اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرے۔

596