سورۃ البیینہ (98): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Bayyina کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البينة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البیینہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Bayyina
سُورَةُ البَيِّنَةِ
صفحہ 598 (آیات 1 سے 7 تک)

سورۃ البیینہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البیینہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے (وہ اپنے کفر سے) باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس دلیل روشن نہ آ جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lam yakuni allatheena kafaroo min ahli alkitabi waalmushrikeena munfakkeena hatta tatiyahumu albayyinatu

حقیقت یہ ہے کہ زمین کو ایک جدید رسالت کی ضرورت تھی۔ اس زمین میں ہر طرف شروفساد وعام ہوگیا تھا اور مذاہب عالم کا حال تھا کہ ان کی اصلاح ممکن ہی نہ رہی تھی۔ ایک جدید دین اور جدید رسالت کی ضرورت تھی۔ ایک نئی تحریک اور نئے نظام کی ضرورت تھی۔ اہل زمین کے عقائد ونظریات میں کفر سرایت کرچکا تھا ، چاہے وہ اہل کتاب ہوں جن کو صحیح سماوی دین دیئے گئے تھے مگر انہوں نے جاننے کے بعد انہیں بھلادیا تھا اور دین میں مکمل تحریف کردی تھی ، چاہے وہ جزیرة العرب کے مشرک ہوں اور اس سے باہر کے مشرک ہوں۔ دونوں کفر کی حالت میں داخل ہوگئے تھے۔

یہ کفر اور تحریف کے جس مقام پر پہنچ چکے تھے ، وہاں سے ان کی واپس ممکن نہ تھی ، ان کی اصلاح صرف ایک جدید دین ہی کے ذریعہ ہوسکتی تھی ، صرف ایک ایسے رسول کے ذریعہ جو بذات خود ایک بین دلیل ہو ، اور اس کے پاس اپنی کتاب ہو جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی ہو۔

اردو ترجمہ

(یعنی) اللہ کی طرف سے ایک رسول جو پاک صحیفے پڑھ کر سنائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rasoolun mina Allahi yatloo suhufan mutahharatan

رسول ................................ مطھرة (2:98) ”(یعنی) اللہ کی طرف سے ایک رسول جو پاک صحیفے پڑھ کر سنائے “۔ یہ صحیفے شرک اور کفر سے پاک ہوں۔

اردو ترجمہ

جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Feeha kutubun qayyimatun

فیھا کتب قیمة (3:98) ” جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہوں “۔ ” کتاب “ کا لفظ موضوع اور مضمون پر بھی بولا جاتا ہے۔ مثلاً کتاب الطہارہ ، کتاب الصلوٰة اور کتاب القدر ۔ کتاب القیامہ ، صحف مطہرہ سے مراد یہ قرآن ہے۔ جس میں راست اور درست کتابیں ہیں یعنی موضوعات ومسائل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ رسالت اور یہ رسول نہایت وقت پر آئے۔ اور یہ صحیفے یہ سورتیں اور یہ موضوعات سخن اور مسائل آئے تاکہ زمین کے اندر ایسی انقلابی اصلاح کریں جس کے سوا اصلاح کی کوئی اور ٹورت ممکن ہی نہ تھی۔ اس دور میں دنیا کو اس رسول اور اس پیغام اور اس کتاب کی ضرورت کیونکر تھی ؟ اس کا جواب میں ایک عظیم اسلامی مفکر سید ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ” انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر “ کے ایک اقتباس سے دوں گا۔ یہ اقتباس نہایت مختصر اور موضوع پر واضح ہے۔ وہ باب اول کے فصل اول میں لکھتے ہیں :

چھٹی صدی عیسوی بلااختلاف تاریخ انسانی کا تاریک ترین اور پست ترین دور تھا ، صدیوں سے انسانیت جس پستی اور نشیب کی طرف جارہی تھی ۔ وہ اپنے آخری نقطے تک پہنچ چکی تھی اور رﺅئے زمین پر اس وقت کوئی طاقت نہ تھی جو گرتی ہوئی انسانیت کا ہاتھ پکڑ سکے اور ہلاکت کے غار میں گرنے سے اسے روک سکے۔ انسانیت کی حالت یہ تھی کہ نشیب کی طرف جاتے ہوئے روز بروز اس کی رفتار تیز ہورہی تھی۔ انسان اس صدی میں خدا فراموش ہوکر ، کامل طور پر خود فراموش بن چکا تھا۔ وہ اپنے انجام سے بالکل بےفکر اور بیخبر اور برے بھلے کی تمیز سے قطعاً محروم ہوچکا تھا۔ پیغمبروں کی دعوت کی آواز ، عرصہ ہوا ، دب چکی تھی۔ جن چراغوں کو یہ حضرات روشن کرگئے تھے وہ ہواﺅں کے طوفان میں یا تو بجھ چکے تھے۔ یا گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس طرح ٹمٹما رہے تھے جن سے چند خدا شناس دل ہی روشن تھے۔ جہ شہروں کو تو کیا روشن کرتے ، چند گھروں کو بھی پوری طرح روشن نہ کرسکتے تھے۔ دیندار اشخاص دین کی امانت کو اپنے سینے سے لگا کر زندگی کے میدان سے کنارہ کش ہوکر دیر وکلیسا اور صحراﺅں اور غاروں میں تنہائیاں اختیار کرچکے تھے اور زندگی کی کشمکش اس کے مطالبات ، اور اس کی خشک اور تلخ حقیقتوں سے دامن بچا کر دین وسیاست اور روحانیت اور مادیت کے معرکہ میں شکت کھا کر ، اپنے فرائض قیادت سے دسکش ہوگئے تھے اور جو زندگی کے اس طوفان میں رہ گئے تھے ، انہوں نے بادشاہوں اور اہل دنیا سے باز باز کرلی تھی ، اور ان کی ناجائز خواہشات اور ظالمانہ نظام سلطنت اور ظالمانہ نظام معیشت ان کے معاون ہوگئے تھے اور لوگوں کے مال کھانے اور ان کی قوت اور دولت سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں ان دنیا داروں کے شریک وسہیم ہوگئے تھے۔ “

” اس دور میں بڑے بڑے مذاہب بازیچہ اطفال بن گئے تھے اور منافقین کے لئے یہ مذاہب تختہ مشق بنے ہوئے تھے۔ ان مذاہب کی ظاہری صورت اور معنوی حقیقتوں کو اس حد تک مسخ کردیا گیا تھا کہ اگر ان کے بانیاں اور داعیان کے لئے اس صدی میں آممکن ہوتا اور دیکھ سکتے کہ ان کے مذاہب کا کیا حشر ہوا ہے تو وہ ہرگز ان مذاہب کو پہچان ہی نہ سکتے۔ تہذیب و تمدن کے گہواروں میں خوسری ، بےراہ روی اور اخلاقی گراوٹ پیدا ہوگئی تھی ، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ تمام اقوام اپنے اندرونی اختلافات ومسائل میں الجھ کر رہ گئی تھیں۔ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے نہ ان کے پاس کوئی پیغام تھا اور نہ انسانیت کے لئے کوئی دعوت تھی۔ درحقیقت یہ اقوام اور مذاہب اندر سے پوری طرح کھوکھلے اور بودے ہوچکے تھے۔ ان کی زندگی کے سوتے خشک ہوچکتے تھے۔ ان کے پاس نہ دینی ہدایات اور تعلیمات تھیں اور نہ نظام حکومت کے لئے کوئی معقول اصول تھے “۔ (کتاب مذکور ، ص 38'37 وص 40'39)

یہ تیزرفتار جھلک ، بعثت محمدی سے قبل دنیا کے ادیان کی حالت کی نہایت ہی اچھی اور مختصر تصویر دکھاتی ہے۔ اہل کتاب اور مشرکین جن نکات کی وجہ سے کفر کی سرحدوں میں داخل ہوگئے تھے۔ قرآن کریم نے ان کی طرف بار بار اشارہ کیا ہے ، مثلاً یہودیوں اور نصاریٰ کے بارے میں قرآن نے یہ تصریح کی ہے۔

وقالت ............................ ابن اللہ (30:9) ” یہود نے کہا عزیز اللہ کا بیٹا ہے عیسائیوں نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے “۔ اور دوسرے مقام پر ہے۔

وقالت الیھود ............................ شی ئ (112:2) ” یہود نے کہا نصاریٰ کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے اور نصاریٰ نے کہا یہودیوں کی کوئی دینی بنیاد نہیں ہے “۔

اور یہودیوں کے بارے میں سورة مائدہ آیت 64 میں یہ ہے۔

وقالت ............................ یشائ (64:5) ” یہود کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، ان کے ہاتھ بندھ جائیں اور ان کی اس بات کے سبب ان پر لعنت ہو ، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ وہ خرچ کرتا ہے جس طرح چاہتا ہے “۔ اور مائدہ 72 میں ہے :

لقد کفر ........................ ابن مریم (72:5) ” یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہے “ اور

لقد کفر ................................ ثلثة (مائدہ :73) ” یقینا کافر ہوئے وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ تین کا تیسرا ہے “۔

اور مشرکین کے بارے سورة الکافرون میں ہے :

قل یایھا ................................ ولی دین (1:109 تا 6) ” کہہ دو اے کافرو ، میں ان کی عبادت نہیں کرتا ، جن کی عبادت تم کرتے ہو ، اور نہ تم عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ، اور نہ میں عبادت کرنے والا ہوں جس کی تم عبادت کرتے ہو ، اور نہ تم عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے “۔ یہ اور دوسری آیات جن میں مشرکین اور دوسرے کفار کی طرف اشارہ ہے۔

اور اس کفر کے نتیجے میں دنیا کے اطراف واکناف میں شروفساد اور تخریب وزوال عام تھا۔ مولانا ندوی کے الفاظ میں : ” خلاصہ یہ کہ ساتویں صدی عیسوی میں روئے زمین پر کوئی قوم ایسی نظر نہ آئی تھی جو مزاج کے اعتبار سے صالح کہی جاسکے اور نہ ایس کوئی سوسائٹی تھی جو شرافت اور اخلاق کی اعلیٰ قدروں کی حامل ہو ، نہ ایسی کوئی حکومت تھی جس کی بنیاد عدل اور انصاف اور رحم پر ہو ، اور نہ کوئی ایسی قیادت تھی جس کے پاس کوئی علم و حکمت ہو ، نہ دنیا میں کوئی ایسا دین تھا جسے صحیح دین انبیاء کہا جاسکتا ہو ، اور ان کی تعلیمات اور خصوصیات کا حامل ہو “۔

یہ وہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے اللہ کی رحمت کا تقاضا ہوا کہ وہ انسانوں کی ہدایت کے لئے ایک ایسا رسول بھیجے ، جو پاکیزہ صحیفے پڑھے ، جن کے اندر نہایت ہی راست اور درست تعلیمات ہوں۔ حقیقت یہ کہ مشرکین اور اہل کتاب کے کفار ، ایک ایسی نئی رسالت اور ایسے دن کے سوا کسی صورت میں بھی اس شروفساد اور اس زوال وگراوٹ سے نکل نہ سکتے تھے۔

یہاں قرآن مجید اس بات کی وضاحت کردیتا ہے کہ اہل کتاب نے جو انحراف کی راہ لی یا باہم اختلافات کیے تو یہ جہالت کی وجہ سے نہ تھے۔ یا اس وجہ سے نہ تھے کہ دین سماوی کی تعلیمات میں کچھ پیچیدگی یا اجمالی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ صحیح علم ان کے پاس آچکا تھا ، حق کے دلائل ان کے پاس موجود تھے اور اس کے باوجود انہوں نے باہم اختلاف کیا :

اردو ترجمہ

پہلے جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی اُن میں تفرقہ برپا نہیں ہوا مگر اِس کے بعد کہ اُن کے پاس (راہ راست) کا بیان واضح آ چکا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama tafarraqa allatheena ootoo alkitaba illa min baAAdi ma jaathumu albayyinatu

پہلا اختلاف تو یہودیوں کے درمیان ہوا ، یہ اختلاف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے قبل ہوا۔ یہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور کئی فرقے اور پارٹیاں بن گئے۔ حالانکہ ان کا رسول (علیہ السلام) ایک تھا یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی کتاب بھی ایک تھی ۔ یعنی تورات۔ یہ پانچ فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ مثلاً صدوتی ، فریسی ، آسین ، غالی اور سامری۔ ان فرقوں میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے عقائد ، خصائص اور اپنا اپنا رخ تھا اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعث ہوئی تو یہودی اور عیسائی تنازعہ شروع ہوگیا۔ حالانکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انبیائے بنی اسرائیل میں سے آخری نبی تھے اور آپ نے تورات کی تصدیق فرمائی۔ یہودی اور مسیحی اختلافات اس قدر بڑھے کہ یہ دشمنی اور عداوت کی شکل اختیار کر گئے۔ اور دونوں فریقوں کے درمیان شدید نفرت پیدا ہوگئی اور اس کے نتیجے میں جو قل عام ہوتارہا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ ایسا قتل عام تھا کو جب انسان ان واقعات کو آج بھی پڑھتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

” چھٹی صدی کے آخر میں یہودیوں اور عیسائیوں کی باہمی رقابت اور منافرت اس حد کو پہنچ گئی تھی کہ ان میں سے کوئی دوسرے فریق کو ذلیل کرنے اور اس سے اپنی قوم کا انتقام لینے اور مفتوح کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتا تھا۔ 610 ء میں یہودیوں نے انطلاکیہ میں عیسائیوں کے خلاف بلوہ کیا ، شہنشاہ موت اس نے اس کی سرکوبی کے لئے مشہور فوجی افسر بنو سوس کو بھیجا۔ اس نے پوری پوری آبادی کا اس طرح خاتمہ کیا کہ ہزاروں کو تلوار سے ، سینکڑوں کو دریا میں غرق کرکے آگ میں جلا کر اور درندوں کے سامنے ڈال کر ہلا کردیا “۔ (دنیا اور مسلمانوں کے عروج وزوال کا ائر ، ص 47)

” مقریزی کی کتاب الخطط میں ہے ، فوق اس روم کے شہنشاہ کے زمانے میں ایران کے شہنشاں کسریٰ نے شام اور مصر پر فوج کشی کی۔ اس فوج نے بیت المقدس ، فلسطین اور شاک کے گرجاﺅں کو مسمار کیا اور شام کے تمام عیسائیوں کو قتل کردیا ۔ پھر وہ عیسائیوں کی تلاش میں مصر آیا ، جہاں اس کی فوج نے عیسائیوں کو بہت بڑی تعداد میں قتل کیا اور بےحد و حساب افراد کو قید کرلیا۔ عیسائیوں کے خلاف اس جنگ میں اور گرجاﺅں کو مسمار کرنے میں یہودیوں نے ایرانیوں کی مدد کی اور وہ طربیہ ، جبل ، الجلیل ، قریہ ، ناصرہ ، صور اور بلادقدس سے ایرانیوں کے پاس آئے اور انہوں نے عیسائیوں سے خوب انتقام لیا اور انہیں اذیت رسانی ، اور قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا۔ قدس میں ان کے دوگرجاﺅں کو مسمار کردیا اور تمام مکانات کو جلاکر خاکستر کردیا۔ مقدس عود صلیب کا ٹکڑا ساتھ لے گئے اور قدس کے پوپ اور ان کے بہت سے ساتھیوں کو قید کرلیا “۔

یہی مصنف قدس مفتوح ہونے کا ذکر یوں کرتا ہے : ” اس اثنا میں یہودیوں نے صور کے شہر میں بغاوت کردی۔ انہوں نے اپنے نمائندوں کو دوسرے شہروں میں بھیجا۔ چناچہ یہودیوں نے عیسائیوں پر شدید حملہ کرنے اور انہیں قتل کر ڈالنے کے عہد وپیماں کیے۔ اس کے بعد دونوں فریقوں میں جنگ چھڑ گئی۔ یہودی بیس ہزار کی تعداد میں مجتمع ہوکر حملہ آور ہوئے اور انہوں نے صور کے باہر کے گرجاﺅں کو مسمار کردیا۔ اس پر عیسائیوں نے کثیر تعداد میں جمع ہوکر یہودیوں پر حملہ کیا۔ یہودیوں کو شکست فاش ہوئی اور ان کی بہت بڑی تعداد مقتول ہوئی۔ اس زمانے میں ہرقل قسطنطنیہ میں روم فرماں روا ہوا۔ اس نے ایک تدبیر سے جو اس نے شاہ ایران کے خلاف کی ایرانیوں کو شکست دے دی اور وہ اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ اس فتح کے بعد ہرقل قسطنطنیہ سے روانہ ہوا تاکہ شام اور مصر کا نظم حکومت درست کرے۔ اور ایرانیوں نے جن مقامات کو تباہ وبرباد کیا ہے ، ان کی تعمیرنو کرے۔ یہودی طربیہ سے آکر ہر قل کے پاس حاضر ہوئے ، اس گراں قدر تحفے دیئے اور اس سے حلفیہ امان طلب کی ۔ ہر قل نے انہیں حلفیہ امان دے دی۔ اس کے بعد ہرقل بیت المقدس پہنچا۔ عیسائیوں نے انجیلوں ، صلیبوں ، بخور اور جلتی ہوئی مشعلوں سے اس کا استقبال کیا۔ ہرقل نے شہر اور اس کے گرجاﺅں کو برباد پایا ، جس سے اسے شدید صدمہ ہوا۔

عیسائیوں نے ہر قل کو بتایا کہ کس طرح یہودی ایرانیوں کے ساتھ مل کر عیسائیوں کے خلاف حملہ آور ہوئے۔ انہیں قتل کیا اور ان کے گرجاﺅں کو مسمار کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قتل و غارت گری میں وہ ایرانیوں سے بھی بدتر تھے اور انہوں نے عیسائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی کمی نہ کی۔ عیسائیوں نے ہرقل کو ابھرا کہ وہ یہودیوں کو بیخ کنی کرے اور اس کے اچھے پہلو اس کے سامنے واضح کیے۔ ہرقل نے معذوری ظاہر کی اور کہا کہ وہ انہیں امان دے چکا ہے اور اس نے ان سے حلفیہ وعدہ کیا ہے۔ عیسائیوں کے پادریوں ، پوپوں اور مشائخ نے فتویٰ دیا کہ یہودیوں کو قتل کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے ہر قل سے یہ امان دھوکہ دے کر حاصل کی ہے ، اس لئے کہ ہرقل کو یہ نہیں بتایا گیا کہ عیسائیوں پر کیا کیا مظالم ہوئے۔ انہوں نے کہا وہ ہر قل کے کفارے کے طور پر یہ سال ایک جمعہ کو روزہ رکھا کریں گے۔ یہ روزہ لازمی ہوگا۔ اور تمام عیسائیوں کو اس کا پابند بنائیں گے۔ تب ہر قل نے ان کی بات مان لی اور یہودیوں پر شدید حملہ کیا اور انہیں نیست ونابود کردیا۔ چناچہ مصر وشام کی رومی سلطنت میں کوئی یہودی زندہ نہ بچا۔ سوائے ان کے جو بھاگ کر کہیں چھپ گئے۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں قومیں یہودونصاریٰ سنگدل ، انسانی خون بہانے کی ہوس اور دشمن کو تباہ کرنے کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اسی معاملے میں یہ کس حد پر جاکر نہیں رکتے “۔ ماذا حسر العالم استاد ندوی ص 9 تا 11، طبع اول)

اس کے بعد عیسائیوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونے شروع ہوگئے ، حالانکہ ان کی کتاب بھی ایک تھی ، نبی بھی ایک تھا ، سب سے پہلے ان کے اختلافات بنیادی عقائد میں پیدا ہوئے۔ اس کے بعد وہ فرقے فرقے بن گئے۔ یہ فرقے ایک دوسرے سے سخت نفرت کرتے ، ایک دوسرے کو سخت دشمن بن گئے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ذات اور ماہیت کے بارے میں اختلافات پیدا ہوئے کہ ان کی ماہیت لا ہوتی ہے یا ناسوتی۔ پھر ان کی ماں کی ماہیت کے بارے میں اختلافات رونما ہوئے۔ پھر ٹریینٹی یعنی تثلیث کے مسئلہ پر اختلافات ہوئے۔ ان کے خیال میں خدا تینوں کا ایک تھا۔ قرآن کریم نے ان کے ان عقائد کو نقل کرکے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ لوگ کافر ہوگئے ہیں۔

لقد کفر ............................ ابن مریم (72:5) ” یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ تو یہی مسیح ابن مریم ہیں “۔

لقد کفر ............................ ثلثة (مائدہ :73) ’ دیقینا وہ لوگ کافر ہوئے جنہوں کہا کہ اللہ تین کا تیسرا ہے “۔

واذقال .................................... دون اللہ (مائدہ :116) ” اور اس بات کو یاد کرو جب اللہ قیامت کے دن عیسیٰ ابن مریم سے کہے گا ، کیا تم نے لوگوں سے کیا تھا کہ مجھے اور میری ماں اللہ کے سوا خدا بنالو “۔

ان اختلافات کے نتیجے میں وہ شدید ترین تنازعہ پیدا ہوا جو شام کے عیسائیوں اور روم اور مصر کے عیسائیوں کے درمیان پیدا ہوا۔ اس کا ایک فریق روم اور شام کے ملکانی عیسائی تھے اور دوسرا فریق مصر کا منوفنشی فرقہ تھا۔ ملکانی عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ حضرت مسیح کی فطرت کے جو اجزاء ہیں ایک ملکوتی اور دسرا ناسوتی جبکہ مصر کے منوفینشی عیسائی کہتے تھے کہ ان کی ایک ہی فطرت ہے جو اس طرح فنا ہوگئی جس طرح سر کے کا ایک قطرہ سمندر میں گر کر فنا ہوجاتا ہے۔ چھٹی اور ساتویں صدی میں یہ اختلاف ان دو فرقوں کے درمیان بہت شدت اختیار کر گیا “۔ اور یوں نظر آنے لگا کہ یہ دو فرقے نہیں بلکہ دو الگ الگ دین و مذہب ہیں۔ جس طرح یہودی اور عیسائی دو الگ الگ اہل مذہب ہیں اور ہر ایک دوسرے کے بارے میں یہ تصور کرتا ہے کہ اس کے مذہب کی کوئی بنیاد نہیں ہے “۔ (مسلمانوں کا عروج وزوال ، ابو الحسن علی ندوی)

” 628 ء میں ہرقل نے ایرانیوں پر فتح پائی ، اس کے بعد اس نے عیسائیوں کے باہم برسرپیکار اور متحارک مسلکوں کو جمع کرنے اور ان کے اندر موافقت اور مصالحت پیدا کرنے کی سعی کی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ لوگ حضرت مسیح کی فطرت کے موضوع پر بحث کرنے سے پرہیز کریں ، کہ ان کی فطرت ایک تھی یا دو تھیں۔ وہ اس بات کا اقرار کریں کہ اللہ کا ارادہ اور فیصلہ ایک ہی ہے۔ 631 ء کے اوائل میں یہ بات طے ہوگئی کہ مینوتھیلین مذہب ہی حکومت اور کلیسا دونوں کا سرکاری مذہب ہوگا۔ ہر قل نے مختلف فرقوں کو ختم کرکے ایک مسلک پر ہونے کی سعی کی اور اس کے لئے ہر حربہ استعمال کیا ، مگر مصر کے قبطیوں نے اس بدعت اور تحریف سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا اور شدید مخالفت کی ، اور اپنے پرانے عقیدے کو جاری رکھنے کے لئے جان کی بازی لگادی۔ یہ لوگ اس کے دشمن ہوگئے۔ ہر قل نے دوبارہ مختلف فرقوں کو ایک کرنے کی کوشش کی۔ اس نے اس بات پر زور دیا کہ لوگ صرف اس پر متحد ہوجائیں کہ اللہ کا ارادہ ایک ہے۔ رہا یہ کہ اللہ کا ارادہ نافذ کس طرح ہوتا ہے۔ اس پر بحث نہ کی جائے۔ اس نے حکم دیا کہ اس موضوع پر کوئی مناظرہ نہ کیا جائے۔ ایک سرکاری پیغام مرتب کرکے مشرق کے اطراف واکناف میں پھیلایا۔ اس سے بھی مصر کا مذہبی طوفان نہ روک سکا۔ اس پر اسے غصہ آیا اور دس سال تک وہ مصر کے لوگوں پر شدید ترین ظلم اور ستم کرتارہا۔ اس نے جو مظالم کیے ان کی روئید اوپڑھ کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کو اذیت ناک سزا دی جاتی ، پھر انہیں دریا میں غرق کردیا جتا۔ مشعل جلا کر ان کے جسموں پربچھائی جاتی۔ یہاں تک کہ بندن کی چربی پگھل کر زمین پر گرتی۔ ریت کے بوروں میں قیدیوں کو بند کرکے دریا برد کردیا جاتا اور اس طرح کی دوسری لرزہ خیز سزائیں دی جاتیں “۔ (ماذا اخسرالعالم ابوالحسن ندوی ، ص 3 تا 5)

اہل کتاب کے درمیان یہ اختلافات اور یہ عداوتیں اس کے بعد تھیں کہ ان کے پاس دلائل آچکے تھے۔

من بعد .................... البینة (4:98) لیکن یہ علم اور یہ دلائل ان کے لئے مفید نہ تھے ، خواہش نفس اور گمراہی ان کو حق سے دور کرتی چلی جارہی تھی۔ حالانکہ دین اپنی اصلی اور ابتدائی شکل میں بالکل واضح تھا اور دینی عقائد بالکل واضح اور صاف تھے۔

اردو ترجمہ

اور اُن کو اِس کے سوا کوئی علم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اُس کے لیے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں یہی نہایت صحیح و درست دین ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama omiroo illa liyaAAbudoo Allaha mukhliseena lahu alddeena hunafaa wayuqeemoo alssalata wayutoo alzzakata wathalika deenu alqayyimati

یہ اصول تمام ادیان کا اصل الاصول ہے کہ اللہ وحدہ کی عبادت کرو ، دین صرف اللہ کا ہو ، شرک اور اہل شرک سے دور ہو ، نماز قائم کرو ، زکوٰة ادا کرو۔

وذلک دین القیمة (5:98) ” یہی نہایت صحیح اور درست دین ہے “ یعنی انسانی ضمیر و شعور میں عقیدہ خالص ہو۔ صرف اللہ کی بندگی اور غلامی ہو ، جو اس عقیدے پر مبنی ہو ، اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا جائے ، یعنی زکوٰة دی جائے۔ جس شخص نے بھی ان اصولوں کو حقیقت کا روپ دے دیا تو اس کا ایمان قائم ہوگیا ، جس طرح اہل کتاب کو اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اور جس طرح اللہ کے تمام رسولوں کو یہی حکم دیا گیا تھا اور تمام رسولوں اور امتوں کا دین دراصل ایک ہے ، عقیدہ ایک ہے ، جس پر تمام رسولوں کا اجماع رہا ہے اور اس عقیدے اور عمل میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس میں افتراق واختلاف کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ بےحدصاف ستھرا ، سادہ اور آسان ہے۔ لہٰذا اہل کتاب کے ہاں زیر بحث اور زیر جدال عقائد کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ اللہ کے دین میں وہ چیزیں ہیں۔

ان لوگوں کے پاس اس سے قبل ان کے رسولوں کے ذریعہ بھی دلائل آگئے تھے۔ اس کے بعد پھر حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ بھی یہ دلائل آگئے تھے جو پاکیزہ صحیفے پڑھتے ہیں اور انکے سامنے ایسے عقائد پیش کرتے ہیں جو واضح ، سادہ اور آسان ہے لہٰذا صحیح راستہ واضح ہوگیا اور جو لوگ کڑر کرتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔ ان کا انجام بھی واضح ہوگیا۔

اردو ترجمہ

اہل کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ یقیناً جہنم کی آگ میں جائیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے، یہ لوگ بد ترین خلائق ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena kafaroo min ahli alkitabi waalmushrikeena fee nari jahannama khalideena feeha olaika hum sharru albariyyati

حضرت محمد ﷺ آخری رسول ہیں اور جو دین لے کر آئے ہیں وہ آخری دین ہے اس سے قبل یوں تھا کہ جب بھی انسانیت گمراہ ہوتی اور راستے سے ہٹ جاتی اللہ رسول بھیج دیتا ، یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا اور لوگوں کو وقفے وقفے سے مہلت ملتی رہی کہ لوگ اپنی اصلاح کرلیں لیکن اللہ کی مشیت کا تقضا یہ ہوا کہ ایک جامع ، مانع اور مکمل دین بھیج کر رسولوں کے اس سلسلے کو ختم کردے۔ یہ آخری مہلت ہے ۔ لوگ اس آخری دین کو قبول کرکے نجات پالیں گے یا انکار کرکے ہلاک وبرباد ہوجائیں گے۔ اس لئے کہ کفر اور شرک شر کے قائم مقام اور شر کی علامت بن جاتی ہے اور شر کی کوئی حد نہیں ہوتی اور ایمان خیر کا قائم مقام ہوجاتا ہے۔ اور ایمان کے نتیجے میں خیر اپنی انتہاﺅں تک پہنچ جاتا ہے۔

ان الذین ........................................ البریة (6:98) ” اہل کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ یقینا جہنم کی آگ میں جائیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے ، یہ لوگ بدترین خلائق ہیں “۔ یہ ایک قطعی حکم ہے اور اس میں کوئی جدل وجدال نہیں ہے۔ اگرچہ اہل کتاب اور مشرکین کے بعض اعمال اچھے ہوں ، بعض آداب خوب ہوں اور بعض تنظیمات مفید ہوں ۔ جب تک ان لوگوں کو حقیقت ایمان حاصل نہیں ہوتی۔ اور وہ اس آخری دین اور آخری نبی پر ایمان نہیں لاتے۔ اس اٹل حکم میں ہم محض لوگوں کے بعض ظاہری اچھے اعمال کی وجہ سے شک نہیں کرسکتے اس لئے کہ کفار کے اعمال دراصل نیکی اور بھلائی کے اصل سرچشمے سے دور ہوتے ہیں۔ اور وہ ایک مضبوط اور درست نظام زندگی کا حصہ نہیں ہوتے۔

ان الذین ................................ خیر البریة (7:98) ” جو لوگ ایمان لے آئے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ، وہ یقینا بہترین خلائق ہیں “۔ یہ بھی ایک قطعی حکم ہے جس میں کسی قیل وقال کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کی شرط بھی واضح ، صاف اور اٹل ہے۔ یعنی یہ کہ جو ” ایمان “ لے آئیں۔ یہ نہ ہو کہ وہ کسی ایسی سرزمین میں پیدا ہوئے ہوں جو مسلمان سر زمین ہونے کی مدعی ہو ، یا کسی ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے ہوں جس کا دعویٰ یہ ہو کہ وہ مسلمان گھرانا ہے یا محض یہ کہ کوئی چند کلمات ادا کرتا ہو ، نہیں بلکہ ایسا ایمان جو زندگی کے اندر عملاً نمودار ہوتا ہو۔

وعملوا الصلحت ” اور انہوں نے نیک کام کیے “۔ اور ان کا ایمان اور اقرار ایمان محض الفاظ اور کلمات ہی نہ ہوں ، جو صرف ہونٹوں پر ہوتے ہیں ، صالحات وہ افعال ہیں جن کے کرنے کا اللہ نے حکم دیاہو ، جن میں اخلاق بھی ہوں ، اعمال بھی ہوں اور طرز عمل اور معاملات بھی ہوں اور اعمال میں سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ اللہ کی شریعت کو زمین پر قائم کیا جائے اور لوگوں کے درمیان فیصلے اللہ کی شریعت کے مطابق ہوں۔ جو لوگ یہ کام کریں وہ ہیں بہترین خلائق۔

اردو ترجمہ

جو لوگ ایمان لے آئے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، وہ یقیناً بہترین خلائق ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati olaika hum khayru albariyyati
598