سورۃ الغاشیہ (88): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Ghaashiya کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الغاشية کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الغاشیہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Ghaashiya
سُورَةُ الغَاشِيَةِ
صفحہ 592 (آیات 1 سے 26 تک)

هَلْ أَتَىٰكَ حَدِيثُ ٱلْغَٰشِيَةِ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَٰشِعَةٌ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ تَصْلَىٰ نَارًا حَامِيَةً تُسْقَىٰ مِنْ عَيْنٍ ءَانِيَةٍ لَّيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِن ضَرِيعٍ لَّا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِى مِن جُوعٍ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌ لِّسَعْيِهَا رَاضِيَةٌ فِى جَنَّةٍ عَالِيَةٍ لَّا تَسْمَعُ فِيهَا لَٰغِيَةً فِيهَا عَيْنٌ جَارِيَةٌ فِيهَا سُرُرٌ مَّرْفُوعَةٌ وَأَكْوَابٌ مَّوْضُوعَةٌ وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَةٌ وَزَرَابِىُّ مَبْثُوثَةٌ أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى ٱلْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ وَإِلَى ٱلسَّمَآءِ كَيْفَ رُفِعَتْ وَإِلَى ٱلْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ وَإِلَى ٱلْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ فَذَكِّرْ إِنَّمَآ أَنتَ مُذَكِّرٌ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ إِلَّا مَن تَوَلَّىٰ وَكَفَرَ فَيُعَذِّبُهُ ٱللَّهُ ٱلْعَذَابَ ٱلْأَكْبَرَ إِنَّ إِلَيْنَآ إِيَابَهُمْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُم
592

سورۃ الغاشیہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الغاشیہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

کیا تمہیں اُس چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hal ataka hadeethu alghashiyati

ھل اتک .................... الغاشیة

” اس آغاز کے ذریعہ یہ سورت دلوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کائنات میں جو نشانات الٰہیہ موجود ہیں ان کی طرف متوجہ کرتی ہے اور یہ بتاتای ہے کہ انسان نے قیامت میں حساب دینا ہے اور جزاء وسزا سے دوچار ہونا ہے۔ اور یہ یقینی امر ہے۔ استفہامی تاکیدی یا تقریری کے ذریعہ اس بات کو نہایت تاکید سے بیان کیا جاتا ہے۔ اس استفہامی انداز میں یہ اشارہ بھی ہے کہ اس سورت سے قبل اس امر کی بار بار تاکید اور تذکیر کی گئی ہے۔ اس لئے یہاں قیامت کو ایک نیا نام دیا گیا ہے۔ الغاشیہ (چھاجانے والی) یعنی ایک ایسی مصیبت جس کی ہولناکیاں لوگوں پر چھاجائیں گی۔ یہ ایک نیا نام ہے لیکن اس نام کے ذریعہ قیامت کی خوفناکی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس بارے میں قیامت کے لئے کئی نام آئے ہیں۔ الطامہ ، الصاخہ ، الغاشیہ اور القارعہ اور یہ سب نام اسی پارے کے مضامین کے ساتھ مناسب ہیں۔

یہ سوال کہ کیا غاشیہ کی کچھ خبریں آپ کو ملی ہیں ، تو حضور اکرم ﷺ یہ سمجھتے تھے کہ سب سے پہلے یہ سوال ان سے کیا گیا ہے۔ جب بھی حضور اکرم ﷺ اس سورت کو پڑھتے یا سنتے تو یوں محسوس ہوتا کہ شاید حضور اکرم ﷺ نے اسے پہلی مرتبہ سنا ہے اور ابھی یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہورہی ہے۔ آپ اللہ کے اس خطاب کو سن کر چوکنے ہوجاتے اور یہ خیال کرتے کہ یہ اللہ کا خطاب ہے ، اور آپ کے احساسات یہ ہوتے کہ ابھی یہ خطاب انہوں نے پایا اور سنا۔ ابن ابوحاتم روایت کرتے ہیں ابن محمد طنافسی سے ، وہ ابوبکر ابن عباس سے ، وہ ابواسحاق سے ، وہ عمر ابن میمون سے کہ حضور اکرم ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو پڑھ رہی تھی۔

ھل اتک .................... الغاشیة (1:88) ” کیا آپ تک الغاشیہ کی بات پہنچی ہے ؟ “ تو آپ کھڑے ہوگئے اور آپ نے فرمایا ” ہاں میرے پاس بات آئی ہے “۔

اس کے باوجود خطاب ہر اس شخص کو ہے جو قرآن مجید سنتا ہے یا پڑھتا ہے کیونکہ الغاشیہ کی بات قرآن کی بات ہے جو بار بار قیامت کا ذکر کرتا ہے۔ قرآن کریم قیامت کی یاد دہانی کرا کے لوگوں کو ڈراتا ہے اور خوشخبری دیتا ہے اور ڈرنے والے حساس اور متقی دلوں کے اندر عمل اور احتیاط کے کذبات ابھارتا ہے۔ ڈر اور احتیاط کے ساتھ ساتھ قرآن مجید امید اور فلاح کا انتظار بھی سکھاتا ہے تاکہ انسانی ضمیر غافل ہو کر مرہی نہ جائے۔

اور یہ کہنے کے بعد ، کہ ” کیا تمہیں اس چھاجانے والی آفت کی خبر پہنچی ؟ “ اس خبر کی ہیڈ لائن دی جاتی ہیں۔

اردو ترجمہ

کچھ چہرے اُس روز خوف زدہ ہونگے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wujoohun yawmaithin khashiAAatun

وجوہ یومئذ .................................... من جوع

یہاں نعمتوں کے منظر سے قبل عذاب کا منظر دکھایا گیا کیونکہ سوال قیامت کی ہولناکیوں سے متعلق تھا ، بتایا جاتا ہے کہ لوگ سخت خوف کی حالت میں ہوں گے ، تھکے ہارے اور ڈر سے سہمے ہوں گے ۔ انہوں نے پوری زندگی جدوجہد میں گزاری ، تھک اور ہار گئے لیکن ان کے اعمال کھوٹے نکلے اور کسی نے بھی ان کو قبول نہ کیا ، عاقبت بھی خراب ہوئی اور مصیبت اور خسارے کے سوا کچھ نہ ملا۔ چناچہ ان کی تھکاوٹ اور پریشانی اور درماندگی میں اضافہ ہی ہوا۔

اردو ترجمہ

سخت مشقت کر رہے ہونگے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAamilatun nasibatun

عاملة ناصبة (3:88) ” سخت مشقت کر رے ہوں گے ، تھکے جاتے ہوں گے “۔ دنیا میں وہ صرف اپنے نفس اور اپنی اولاد کے لئے جدوجہد کررہے ہوں گے ، دنیا اور دنیا کی طمع اور آز کے لئے تھکے ہوں گے۔ پھر آج انجام ان کے سامنے ہے کہ دنیا میں ان کو مل گیا جو ملنا تھا ، مگر آخرت میں تاریکی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب یہ آخرت کا سامنا ذلیل ہوکر کررہے ہیں ، تنگ ہیں ، خائب و خاسر ہیں اور مایوس ہیں۔ اور اس ذلت اور خواری کے ساتھ پھر درد ناک عذاب۔

تصلی ................ حامیة (4:88) ” شدید آگ میں جھلس رہے ہوں گے “۔ یہ اس کا مزہ چکھیں گے اور مشقتیں برداشت کریں گے۔

اردو ترجمہ

تھکے جاتے ہونگے، شدید آگ میں جھلس رہے ہونگے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tasla naran hamiyatan

اردو ترجمہ

کھولتے ہوئے چشمے کا پانی انہیں پینے کو دیا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tusqa min AAaynin aniyatin

تسقی .................... انیة (5:88) ” کھولتے ہوئے چشمے کا پانی انہیں پینے کو دیا جائے گا “۔ ان یہ کے معنی انتہائی گرم ، کھولتا ہوا۔

اردو ترجمہ

خار دار سوکھی گھاس کے سوا کوئی کھانا اُن کے لیے نہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laysa lahum taAAamun illa min dareeAAin

لیس لھم ............................ من جوع (7:88) ” خاردار سوکھی گھاس کے سوا کوئی کھانا ان کے لئے نہ ہوگا جو نہ موٹا کرے نہ بھوک مٹائے۔ “” ضریع “ کے معنی کے بارے میں دوقول ہیں ، ایک یہ کہ یہ ایک درخت ہوگا جو جہنم کے اندر ہی پیدا ہوگا جیسا کہ خود قرآن مجید میں زقوم آیا ہے کہ وہ ایک درخت ہے ، جو جہنم کی تہہ میں پیدا ہوگا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ایک کانٹے دار جھاڑی ہے جو زمین کے ساتھ چپکی ہوئی ہوتی ہے ، اور جب یہ سبز ہوتی ہے تو اسے شبرق کہتے ہیں اور جب اسے کاٹ لیا جائے اور خشک ہو تو ضریع کہتے ہیں ، اسے اونٹ چرتے ہیں۔ جب یہ خشک ہو تو اونٹ بھی اسے کھا نہیں سکتے کیونکہ اس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ غرض جو معنی بھی ہوں ، یہ اس طرح کی خوراک ہے جس طرح پانی کے بارے میں آیا ہے کہ وہ غسلین یا غساق پئیں گے اور جو خوراک بھی وہاں ہوگی وہ نہ ان کو موٹا کرے گی اور نہ بھوک مٹائے گی۔

آخرت کا یہ عذاب کیسا ہوگا ؟ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہم اس کا تصور نہیں کرسکتے۔ یہاں اس کی ایسی صفات دی جاتی ہیں تاکہ ہم بدترین سزا کا تصور کرسکیں۔ جس می ذلت ، کمزوری ، نامرادی ، گرم ترین آگ کی جلن ، زمہریر یعنی بہت سرد ، پینے کے لئے سخت گرم پانی ، اور اس قسم کا کھانا کہ اسے اونٹ بھی نہ کھا سکیں اور اگر کھائیں بھی تو ان کو کوئی نفع نہ دے ۔ ان اوصاف سے ہمارے احساسات میں جو چیز بیٹھتی ہے وہ حد درجہ کا رنج والم ہے۔ لیکن آخرت کا عذاب ہمارے تصورات سے شدید تر ہے۔ اور وہ کیا ہوگا ، یہ وہی بتا سکتا ہے جو اس میں مبتلا ہوگا۔ العیاذ باللہ ! اور دوسری طرف اہل ایمان :

اردو ترجمہ

جو نہ موٹا کرے نہ بھوک مٹائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yusminu wala yughnee min jooAAin

اردو ترجمہ

کچھ چہرے اُس روز با رونق ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wujoohun yawmaithin naAAimatun

وجوہ یومئذ ........................................ مبثوثة

اہل جنت کے چہروں سے معلوم ہوگا کہ یہ کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ وہ رضائے الٰہی کی وجہ سے بےحد مطمئن ہوں گے۔ نعمتوں میں بس رہے ہوں گے۔ ان کے اعمال کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جائے گا ، تعریف کی جائے گی اور انعامات پائیں گے۔ اس کے علاوہ ان کو بلند روحانی شعور حاصل ہوگا کہ اللہ ان کے اعمال سے راضی ہے۔ اور ان کو نظرآئے گا کہ اللہ راضی ہے۔ اس سے زیادہ روحانی سکون کسی کو نہیں مل سکتا کہ کوئی بھلائی کے کاموں پر مطمئن ہوجائے ، اور اس کا انجام اچھا ہو ، اور پھر وہ دیکھے گا کہ اس کا مالک اس سے راضی ہے اور جنتوں میں داخل ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم رضائے الٰہی اور روحانی خوشی کا ذکر جنتوں کی مادی نعمتوں سے پہلے کرتا ہے اور اس کے بعد جنتوں میں ان کے مقامات کا ذکر کیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

اپنی کار گزاری پر خوش ہونگے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

LisaAAyiha radiyatun

اردو ترجمہ

عالی مقام جنت میں ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fee jannatin AAaliyatin

فی جنة عالیة (10:88) ” عالی مقام جنت میں ہوں گے “۔ ذاتی اعتبار سے بھی یہ بلندہوں گے ، عزت کے اعتبار سے بھی بلند ہوں گے ، درجات رہائش بھی بلند ہوں گے ، مقامات بھی بلندیوں پر ہوں گے۔ غرض ان کے احساسات پر علو چھایا ہوا ہوگا۔

اردو ترجمہ

کوئی بیہودہ بات وہاں نہ سنیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La tasmaAAu feeha laghiyatan

لا تسمع .................... لاغیة (11:88) ” کوئی بیہودہ بات وہ وہاں نہ سنیں گے “۔ اس کی تعبیر میں ایک فضا اور اک جہان معانی سمو دیا گیا ہے۔ آرام ہوگا ، سکون ہوگا ، اطمینان اور سلامتی ہوگی ، محبت اور رضامندی ہوگی ، دوستوں کی محفلیں ہوں گی ، آل اولاد جمع ہوں گے ، طہارت و پاکیزگی ہوگی ، ہر لغو بات سے وہ دورہوں گے۔ کوئی ایسی بات نہ ہوگی جس میں ان کے لئے خیروعافیت نہ ہو۔ اور ایسی فضا اپنی جگہ ایک نعمت ہوتی ہے ، یہ صورت حال خود نیک بختی ہے اور سعادت مندی ہے۔ جب انسان اس دنیا کی زندگی کی مشکلات اور تلخیوں کا تصور کرے کہ یہاں کس قدر لغو ، لڑائیاں جھگڑے ، تو تو میں میں ، شورو شغب ، مذمت وملامت ، جھوٹ اور فریب ، اور فتنہ و فساد ہے اور اسکے بعد جنت کی فضا کا تصور کرے جو پرسکون ، پرامن ، پر محبت ، تروتازہ ہے اور پھر قرآن کی یہ تعبیر جامع تعبیر۔

لا تسمع ................ لاغیة (11:88) ” وہاں کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے “۔ یہ الفاظ ہی ایسے ہیں جن کے اندر نرمی ، آسانی اور تروتازگی ہے۔ ان کا تلفظ بھی پر ترنم ہے۔ نرم اور آسان ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان کی زندگی اس جہاں میں ، خصوصاً تحریک اسلامی کے کارکنوں کی زندگی بھی۔ دراصل جنت کا ایک نمونہ ہوگی جو لغو ، فحش باتوں سے ، جدل وجدال سے دور ہوتے ہیں۔ یہ گویا جنت کی زندگی کی تیاری ہوتی ہے۔

یوں جنت کے حال احوال سے یہ روشن اور بلند مفہوم پیش کیا جاتا ہے اور اس کے بعد پھر جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے جو انسانی حواس کے لئے باعث تسکین ہوتی ہیں ، اور یہ اس صورت میں مذکور ہیں جس کا انسان تصور کرسکتا ہے ، لیکن جنت میں یہ چیزیں اس شکل میں ہوگی جس تک اہل جنت کے نفوس ترقی کرچکے ہوں گے ، اور وہ کیا صورت ہوگی ؟ جس کی معرفت انہی لوگوں کو ہوگی جنہوں نے ان کو برتا۔

اردو ترجمہ

اُس میں چشمے رواں ہونگے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Feeha AAaynun jariyatun

فیھا ................ جاریة (12:88) ” اس میں چشمے رواں ہوں گے “۔ چشمہ جاری وہ چشمہ ہوتا ہے جس سے پانی ال رہا ہوتا ہے ، جاری چشموں میں خوبصورتی ، پانی کی روانی اور پیاس بجھانے کا سامان ہی خوبصورت ہیں۔ آپ رواں ، ایک قسم کی حیات کا مظہر ہوتا ہے اور وہ انسانی روح کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔ جو رواں اور متحرک ہوتی ہے۔ اس منظر اور اس کا یہ معنوی حسن دونوں انسانی احساس کی گہرائیوں تک اترتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اُس کے اندر اونچی مسندیں ہوں گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Feeha sururun marfooAAatun

فیھا ........................ مرفوعة (13:88) ” اس کے اندر اونچی مسندیں ہوں گی “۔ بلندی نظافت اور طہارت دونوں کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

اردو ترجمہ

ساغر رکھے ہوئے ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waakwabun mawdooAAatun

واکواب موضوعة (14:88) ” ساغررکھے ہوئے ہوں گے “۔ یہ لائن پر رکھے ہوں گے تاکہ ان میں شراب صافی نوش کی جائے اور اہل جنت کو طلب کی ضرورت نہ ہوگی ، ہر چیز ان کے لئے تیار ہوگی۔

اردو ترجمہ

گاؤ تکیوں کی قطاریں لگی ہوں گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wanamariqu masfoofatun

ونمارق مصفوقة (15:88) ” گاﺅ تکیوں کی قطاریں لگی ہوں گی “۔ یعنی وہ تکیے جو نرم مواد سے بھرے ہوں گے اور جنہیں انسان آرام اور خوشی کے وقت استعمال کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور نفیس فرش بچھے ہوئے ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wazarabiyyu mabthoothatun

وزرابی مبثوثة (16:88) ” اور نفیس فرش بچھے ہوئے ہوں گے “۔ وہ فرش جو پشم دار ہو ، یہ جگہ جگہ زینت اور آرام کے لئے بچھے ہوں گے۔

یہ وہ سہولیات ہیں جن کی نظیر دنیا میں ہم دیکھتے ہیں اور یہاں ان اصطلاحات میں جنت کی سہولیات کا ذکر ہمارے سمجھانے کے لئے ہے لیکن وہاں سہولیات کیسی ہوں گی ، اس کا تعلق وہاں استعمال کرنے سے ہے۔ یہ وہی لوگ بتاسکیں گے جن کی قسمت میں جنت لکھی ہے۔

یہ بحث فضول ہے کہ ہم یہاں جنت کی سہولیات کی نوعیت اور کیفیت کا ذکر کریں یا قیامت کے عذاب کی کیفیات کا ذکر کریں اس لئے کہ اشیاء اور مدکارت کی نوعیت کا اظہار اس طرح ہوسکتا ہے کہ ان کے بارے میں انسانی ادراک مکمل ہو ، اہل زمین کی قوت مدرکہ اس زمینی حواس کے محدود دائرے میں کام کرتی ہے۔ جب یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے تو ان کی قوت مدرکہ پر سے تمام حدود وقیود اٹھ جائیں گے اور وہاں ان کی روح اور احساس اور ادراک سب بہت ترقی کریں گے۔ جس طرح وہاں قوت مدرکہ ترقی کرلے گی ، اس طرح وہاں الفاظ کے معانی بھی وسیع تر ہوجائیں گے اور وہاں ہمارے ذوق وشوق اور فہم وادراک کا عالم ہی اور ہوگا لہٰذا اس کی کیفیت یہاں ہم قلم بند نہیں کرسکتے۔

ہم یہاں صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہذہن میں لذت ، عیش کوشی اور مٹھاس اور ذوق کا اعلیٰ ترین تصوریوں ہوگا اور یہ ہم اپنے تجربے کے مطابق ہی کہہ سکتے ہیں۔ اصل حقیقت ہمارے علم میں تب آئے گی جب اللہ جل شانہ ہمیں وہاں یہ اعزاز بخش دے گا۔

یہاں آکر عالم آخرت کا مطالعاتی سفر ختم ہوتا ہے اور ہم اس ظاہری کائنات کی طرف لوٹتے ہیں جو ہمارے سامنے کھڑی ہے اور جس کے اندر قادر مطلق کی تدبیر ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ جس میں اللہ کی صنعت ممتاز ہے ، جس میں اللہ کی بنائی ہوئی چیزیں ممتاز نظر آتی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زندگی کے بعد اس سے ایک برتر زندگی ہے ، اس زمین سے ایک برتر ترجہان ہے اور اس موت پر ہی خاتمہ نہیں ہے بلکہ لوگوں کا انجام کچھ اور ہے۔

اردو ترجمہ

(یہ لوگ نہیں مانتے) تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afala yanthuroona ila alibili kayfa khuliqat

افلا ینظرون ................................ سطحت

یہ مختصر چار آیات ہیں لیکن ان کے اندر قرآن کریم کے پہلے مخاطب عرب سوسائٹی کے ماحول کی پوری طرح تصویر کھینچ دی گئی ہے ، اور اس کے ساتھ ساتھ پوری کائنات کا نقشہ بھی۔ آسمان ، زمین ، پہاڑ اور زمین کے اوپر حیوانی خوبصورتی اونٹ کی صورت میں ، کیونکہ اونٹ کی تخلیق نہایت پیچیدہ ہے اور عربوں کے لئے اس کی اہمیت مسلم ہے۔ انسان جہاں بھی ہو ، یہ مناظر اس کے سامنے ہوتے ہیں۔ آسمان ، پہاڑ ، ہموار زمین اور اس کے اوپر قسم قسم کے حیوانات۔ انسان علم ومعرفت کے جس مقام پر بھی ہو ، یہ مناظر اس کے علم ادراک اور دلچسپی کا مرکز ہوتے ہیں۔ اگر انسان ان چیزوں کی ساخت پر غور کرے تو اس میں اسے وہ دلائل و شواہد مل سکتے ہیں جو اس کی رہنمائی اس کائنات کی پشت پر کار فرما قوت کی طرف کرسکتے ہیں۔

ان سب مناظر کی ایک معجزانہ شان ہے۔ ان کے اندر خالق کی صنعت کاری کے ایسے پہلو نمایاں ہیں جن کی کوئی مثال انسان کی دریافت میں نہیں ہے۔ یہ چیزیں اس بات کے لئے بالکل کافی ہیں کہ انسان اپنے ذہن میں ایک ابتدائی صحیح عقیدہ اور صحیح تصور جمالے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن بار بار اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔

افلا ینظرون ........................ خلقت (17:88) ” کیا یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے “۔ قرآن کو پہلے مخاطب ایک عرب کے ہاں اونٹ کی اہمیت یہ تھی کہ وہ اس کے اوپر سفر کرتا تھا ، اس کا دودھ پیتا تھا ، اور اس کا گوشت کھاتا تھا ، اور اس کے بالوں اور چمڑے سے لباس اور بچھونا بناتا تھا گویا اس کی زندگی کے لئے سپلائی کا یہ بڑا ذریعہ تھا اور زندگی کا ایک بڑا اثاثہ تھا۔ پھر اونٹ دوسرے حیوانات کے مقابلے میں کچھ منفرد خصوصیات بھی رکھتا تھا۔ ایک خصوصیت یہ تھی کہ اپنی ضخامت ، قوت اور عظیم جثہ کے باوجود اس قدر شریف جانور ہے کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی اسے چلائے تو بڑی فرماں برداری سے اطاعت کرتا ہے۔ پھر اس سے انسانوں کو جس قدر منافع زیادہ ہیں ، اسی نسبت اس کا سنبھالنا آسان تر ہے۔ اس کے کھانے اور چرنے کی چیزیں آسان ہیں اور اس کی خوراک کے لئے انسان کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ جس قدر خانگی جانور ہیں ان میں سے یہ سب سے زیادہ بھوک ، پیاس ، مشقت اور برے حالات برداشت کرتا ہے۔ پھر اللہ نے جس سیاق میں اسے یہاں پیش فرمایا ہے اس میں اس کی ساخت نہایت موزوں تھی۔ اس کی تفصیلات آرہی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اپنے مخاطبین سے کہا ذرا اونٹ کی تخلیق پر غور کرو ، یہ تو ہر وقت تمہارے سامنے رہتا ہے۔ کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ، اس پر غور کرنے کے لئے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں ہے۔

افلا ینظرون .................... خلقت (17:88) کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے “۔ ان کی ساخت اور ان کی تخلیق پر غور نہیں کرتے۔ اور پھر غور نہیں کرتے کہ اس کی ساخت اس کے مقاصد تخلیق کے ساتھ کس قدر ہم آہنگ ہے۔ اور وہ کس طرح اچھے طریقے سے مقصد تخلیق کو پورا کرتے ہیں۔ یہ عرب معاشرے اور عرب ماحول میں اپنے فرائض کس اچھے انداز میں پورے کرتے ہیں۔ کیا اونٹوں کو کسی انسان نے بنایا ہے ، کیا اونٹ خود بخود بن گئے ، اگر یہ دونوں صورتیں نہیں تو لازماً ایک خالق ہے ، جب خالق ہے تو پھر وہ نہایت ہی حکیم ہے کہ اس نے ایسی عجیب اور مفید مخلوق بنائی۔

اردو ترجمہ

آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waila alssamai kayfa rufiAAat

والی السماء کیف رفعت (18:88) ” اور آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا “۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ آسمانوں کی طرف غور کی نگاہ سے دیکھیں اور صحرا کے باشندوں کو تو بہت زیادہ آسمان کی طرف دیکھنا چاہئے اور غور کرنا چاہئے ، جہاں کے باشندے ہر وقت آسمان کے ساتھ ایک پر لطف ذوق اور اشارات رکھتے ہیں گویا آسمان تو ہے ہی ان کے لئے۔ اور آسمان ہوتا ہی صحراﺅں پر ہے۔ آسمان اپنی تما رعنائیوں کے ساتھ صحرا کے اوپر موجود ہے۔ اس کے روشن اور کھلے دن ، آسمان کا ساحرانہ خوبصورت وقت زوال آفات غروب آفات کا منفرد ، جس میں جہان معانی پوشیدہ ہوتا ہے ، آسمان اپنی وسیع راتوں کے ساتھ ، اور اپنے چمکدار ستاروں اور خوبصورت کہانیوں کے ساتھ اور پھر اس کے خوبصورت اور روشن طلوع کے مناظر کے ساتھ تمہارے سامنے موجود ہے۔

یہ آسمان اور صحراﺅں کی وسعتوں کے اوپر ، کیا یہ لوگ اس کی طرف نہیں دیکھتے ، کہ اسے کس طرح بلند کھڑا کیا گیا ہے۔ بغیر ستونوں کے یہ رفعتیں کس طرح قائم ہیں ؟ اس کے اندر اربوں کھربوں ستارے بکھیر دیئے گئے ہیں اور اس کے اندر اس قدر خوبصورتی ، اس قدر حسن اور اس قدر اشارات رکھ دیئے گئے ہیں۔ نہ انسانوں نے اسے بلند کیا اور نہ یہ خود بخود بلند ہوگیا۔ لہٰذا اسے یوں بلند کھڑا کرنے والا ضرور ہے ، جس نے اسے وجود بخشا۔ یہ مشاہدہ ایسا ہے اور یہ غور وفکر ایسا ہے جس کے لئے کسی وسیع اور گہرے علم کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف ایک بصیرت والی نظر کی ضرورت ہے۔

اردو ترجمہ

پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waila aljibali kayfa nusibat

والی الجبال ................ نصیبت (19:88) ” اور پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے “۔ ایک عرب کے نزدیک پہاڑ بہت اہم تھے ، پہاڑوں ہی میں عرب مشکل اوقات میں پناہ لیتے تھے۔ شکل مراحل میں پہاڑ ہی ان کے انیس اور دوست ہوا کرتے تھے۔ پہاڑوں کے مناظر جب انسان دیکھتا ہے تو ان سے اس کو گہرے نفسیاتی اشارات ملتے ہیں۔ یہ پہاڑوں کے نظام میں ایک عظمت نظر آتی ہے۔ ایک جمال نظر آتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو کم تر سمجھ کر ان کے اندر پناہ لیتا ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں سکون حاصل کرتا ہے اور اس فطری ماحول میں خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ان اونچے پہاڑوں میں انسان یہ سوچتا ہے کہ وہ اللہ کے زیادہ قریب ہے۔ یوں بلند پہاڑوں کے دامن میں وہ زمین کے شور وشغب اور حقیر سرگرمیوں سے قدرے بلند ہوجاتا ہے۔ یہ بات نہ کوئی عبث بات تھی اور نہ کوئی اتفاقی فعل تھا کہ نبوت سے قبل حضور اکرم ﷺ جبل ثور کے غار حرا میں علیحدگی اختیار فرماتے تھے ، لہٰذا جو لوگ لافانی بالیدگی چاہتے ہیں ان کو چاہئے کہ ان کی روح ایک عرصہ کے لئے دنیاوی آلودگیوں سے دور ہوجائے۔ پہاڑوں کے بارے میں یہاں جو الفاظ غور کے لئے آئے ہیں وہ ہیں۔

کیف نصبت (19:88) ” یعنی وہ زمین کے اوپر کس طرح جمائے گئے ہیں ، یہ الفاظ منظر کے ماحول کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہیں۔

اردو ترجمہ

اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waila alardi kayfa sutihat

والی الارض ................ سطحت (20:88) ” اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی “۔ یہ بچھی ہوئی زمین تو ہمارے سامنے ہے۔ یہ زندگی گزارنے کے لئے ، اس پر چلنے کے لئے ، اور اس پر کام کرنے کے لئے آسان بنادی گئی ہے۔ کیا اسے لوگوں نے بچھایا ہے ، ظاہر کہ انہوں نہیں بچھایا ، انسانوں کی پیدائش سے تو زمین پہلے تھی۔ کیا یہ اس پر غور نہیں کرتے۔ ان کے ذہنوں میں یہ سوال کیوں نہیں اٹھتا کہ کون ہے اس کو بچھانے والا ؟ اور کون ہے اسے اس طرح درست کرنے والا کہ زندگی گزارنے کے قابل ہوجائے۔

یہ مناظر قلب انسانی کی طرف اہم اشارات کرتے ہیں ، محض تامل اور غوروفکر سے انسان یہ اشارات پاتا ہے اور یہ اشارات وجدان کے ابھارنے اور انسانی ضمیر کو بیدار کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ان اشارات سے انسان اپنے موجد ، خالق اور اس پوری کائنات کے خالق کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔

اس کائناتی منظر کی منظر کشی میں جس توازن اور ہم آہنگی کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ اس پر قدرے غور کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم ہو کہ قرآن انسانوں سے کس خوبصورت زبان میں مخاطب ہوتا ہے۔ اور اس میں فنی خوبیوں کو کس قدر ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اور ایک باشعور مومن کے احساسات میں یہ دونوں چیزیں کس طرح پیوست ہوتی ہیں۔

اس منظر میں بلند آسمان اور بچھائی ہوئی زمین کو دکھایا گیا ہے۔ لیکن پہاڑوں کی بلندی افقی نہیں ہے اور نہ ہی وہ زمین پر گرے ہوئے ہیں ، بلکہ وہ نصب کردہ ہیں۔ اس طرح نصب ہیں جس طرح اونٹ کے اوپر کوہان ہوتی ہے۔ اس منظر میں دو افقی خط ہیں اور دوراسی خط ہیں۔ لیکن باہم متناسب ہیں اور یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز ہے جس کے مطابق وہ مناظر کو پیش کرتا ہے۔ انداز تعبیر مجمل ہوتا ہے لیکن مصور ہوتا ہے۔

پہلا سفر تو تھا عالم آخرت میں ، دوسرا مشاہدتی سفر تھا ۔ اس کائنات کے مناظر میں ، جو ہمارے سامنے تھے ، اب روئے سخن حضور اکرم ﷺ کی طرف پھرجاتا ہے۔ آپ کو اپنے واجبات وفرائض کے حدود کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے فرائض کی نوعیت کیا ہے۔ اسی طرح لوگوں کے احساسات کو آخری چٹکی دی جاتی ہے تاکہ دعوت اسلامی کے حوالے سے سوئے ہوئے دلوں کو جگایا جائے۔

اردو ترجمہ

اچھا تو (اے نبیؐ) نصیحت کیے جاؤ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fathakkir innama anta muthakkirun

فذکر ........................ حسابھم

ان کو آخرت کے واقعات کی یاددہانی کرائیں اور اس کائنات کے شواہد بھی بتایں۔ آپ کو بڑا فریضہ یہ ہے کہ یاد دہانی کرائیں۔ اور یہ ایک متعین اور مقدر فریضہ ہے۔ دعوت اسلامی کے معاملے میں آپ کا کردار بس اسی قدر ہے کہ آپ دعوت پہنچادیں۔ اس کے بعد نہ آپ کا حق ہے کہ کچھ مزید کریں اور نہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ کا فریضہ یہ ہے کہ آپ دعوت پہنچائیں اس سے آگے آپ کسی اسلام پر مجبور کرنے کے مکلف نہیں ہیں۔

اردو ترجمہ

کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lasta AAalayhim bimusaytirin

لست ................ بمصیطر (22:88) آپ ان جبر کرنے والے نہیں ہیں “۔ کیونکہ دلوں کا مالک تو اللہ ہے۔ آپ جبر کرکے ان کے دلوں کو نہیں پھیر سکتے۔ دل تو اللہ کی انگلیوں کے درمیان ہیں۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ جس دل کو چاہے ایمان کی طرف پھیر دے۔

بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اگر پیغمبر ﷺ کا فریضہ صرف تبلیغ تھا تو پھر جہاد کیوں فرض کیا گیا ؟ جہاڈ اس لئے نہیں فرض ہوا کہ لوگوں کو مومن بنایا جائے بلکہ اس لئے کہ تبلیغ کے راستے میں رکاوٹیں دور کی جائیں۔ یہ نہ ہو کہ لوگوں تک دین کی بات ہی نہ پہنچے اور یہ بھی نہ ہو کہ اگر کوئی دین اسلام کو قبول کرلے تو اس پر تشدد ہو۔ جہاد کا مقصد یہ تھا کہ تبلیغ دین کے راستے میں سیاسی رکاوٹیں دور کی جائیں۔ رسول کا اصل فریضہ بہرحال دعوت دین ہے۔

یہ اشارات وہدایات کہ رسول اللہ کی ڈیوٹی صرف تبلیغ ہے۔ اس کو قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ تبلیغ کرنے کے بعد اگر لوگ نہیں مانتے تو رسول خدا پریشان نہ ہوں ، ان کو تسلی ہوجائے کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ وہ مطمئن ہوجائیں اور لوگوں کو تقدیر الٰہی کے حوالے کردیں کہ وہ جو چاہے کرے۔ کیونکہ انسانوں بالخصوص دعوت اسلامی کا کام کرنے والوں کے دلوں میں اس بات کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ ان کا مشن کامیاب ہو اور غالب ہو۔ تمام لوگ اس کو قبول کرلیں اس لئے اللہ نے بار بار اس کی تاکید کی کہ داعی کا کام دعوت دینا ہے اور اسے اس قدر اخلاص سے کام کرنا چاہیے کہ ذاتی خواہش اور ذاتی پسند کو دعوت کے کھاتے سے نکال دے۔ اور دعوت کا کام جاری رکھے۔ آگے انجام کیا ہوتا ہے۔ یہ اللہ پر چھوڑ دے۔ اسے کیا ہے کہ کوئی مومن بنتا ہے یا کافر بنتا ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب کسی معاشرے میں دعوت اسلامی کے لئے حالات سازگار نہ ہوں ۔ لوگ دین سے دور ہوں اور دین کی راہ میں مادی وسیاسی رکاوٹیں ہوں تو داعی کو پریشان نہیں ہونا چاہئے۔

یہ بات کہ دعوت اسلامی ایک خیر محض ہے اور ہر انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ لوگ اس میں داخل ہوجائیں۔ اس خواہش کی شدت کا اظہار اس امر سے ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرکے بار بار یہ تلقین کی جاتی ہے کہ آپ کا کام صرف تبلیغ ہے۔ آپ کسی پر جبر نہیں کرسکتے۔ حالانکہ رسول اللہ خدا کے پیغمبر تھے۔ آپ اپنی ڈیوٹی کے حدود وقیود سے اچھی طرح واقف تھے۔ اللہ کے نظام فضاوقدرے سے بھی واقف اور تربیت یافتہ تھے۔ اس لئے بھی اس نکتے کو قرآن نے بار بار مکرر کرکے بیان کیا ہے ۔ لیکن اگر رسول اللہ ﷺ کا فریضہ تبلیغ پر ختم ہوجاتا ہے ، تو انکار کرنے والوں کا معاملہ بہرحال ختم نہیں ہوتا۔ اور نہ تکذیب کرنے والے چھوٹ جاتے ہیں اور صحیح سالم گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اللہ موجود ہے اور تمام امور اللہ کے سامنے پیش ہونے والے ہیں۔

اردو ترجمہ

البتہ جو شخص منہ موڑے گا اور انکار کرے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa man tawalla wakafara

الا من ............................................ الاکبر (23:88 تا 24) ” البتہ جو شخص منہ موڑے گا ، اور انکار کرے گا تو اللہ اس کو بھاری سزا دے گا “۔ اس لئے کہ وہ صرف اللہ ہی کے سامنے لوٹنے والے ہیں اور وہ یقینا ان کو جزادینے والا ہے ، یہ اس سورت کا آخری اعلان ہے اور حتمی اور دوٹوک اعلان ہے۔

اردو ترجمہ

تو اللہ اس کو بھاری سزا دے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FayuAAaththibuhu Allahu alAAathaba alakbara

اردو ترجمہ

اِن لوگوں کو پلٹنا ہماری طرف ہی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna ilayna iyabahum

ان الینا ........................... حسابھم (26:88) ” ان لوگوں کو پلٹنا ہماری طرف ہی ہے ، پھر ان کا حساب لینا ہمارے ہی ذمہ ہے “۔ یوں دعوت اسلامی میں رسول ﷺ کے کردار پر بھی حدود وقیود عائد کردیئے جاتے ہیں۔ اور آپ کے بعد بھی ہر داعی پر صرف دعوت دینا فرض ہے۔ یہ کہ ہر داعی کا کام یہ ہے کہ وہ یاد دہانی کراتا رہے اور حسب لینا اللہ ذمہ داری ہے۔ اللہ سے وہ کہیں بھاگ نہیں سکتے ، نہ وہ اللہ کے محاسبے سے بچ سکتے ہیں۔ ہاں داعیان حق کی یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ انہوں نے دعوت اسلامی کے راستے میں پیدا کی جانے والی رکاوٹوں کو بھی دور کرنا ہے تاکہ لوگوں تک دعوت آزادانہ پہنچ سکے۔ اور رکاوٹیں دور کرنے کا کام فریضہ جہاد سے پورا ہوتا ہے جس طرح قرآن اور سیرت الرسول کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا اسلام کے نظریہ جہاد کو کسی کمی اور بیشی کے سوا سمجھنا چاہیے۔ یہ بھی نہ ہو کہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ موجود ہو ، اور جہاد نہ کیا جائے۔ اور یہ بھی نہ ہو کہ تبلیغ کے راستے کھلے ہوں اور لوگوں کو تلوار کے زور سے مسلمان کیا جائے۔

اردو ترجمہ

پھر اِن کا حساب لینا ہمارے ہی ذمہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma inna AAalayna hisabahum
592