سورہ روم (30): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Ar-Room کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الروم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ روم کے بارے میں معلومات

Surah Ar-Room
سُورَةُ الرُّومِ
صفحہ 404 (آیات 1 سے 5 تک)

سورہ روم کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ روم کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ا ل م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aliflammeem

الم ، غلبت الروم ۔۔۔۔۔۔۔۔ عن الاخرۃ ھم غفلون (1 – 7)

سورة کا آغاز حروف مقطعات سے ہے۔ اشارہ اس طرف ہے کہ یہ قرآن اور یہ سورة انہی حروف سے بنائے گئے ہیں ، جو عربوں کی دسترس میں ہیں لیکن اس کے باوجود یہ قرآن اور یہ سورة معجز ہیں۔ آج تک وہ اس قسم کا کلام نہیں بنا سکے۔ یہ حروف تہجی خود ان کی زبان کے ہیں اور وہ ان سے کلمات و کلام بنا سکتے ہیں۔

اس کے بعد وہ سچی تاریخی پیشن گوئی آتی ہے جس میں یہ کہا گیا کہ رومی چند سالوں میں پھر غالب آجائیں گے۔ ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ ایرانی رومیوں پر غالب تھے اور مشرکین عرب چاہتے تھے کہ ایرانی رومیوں پر غالب رہیں اور مسلمانوں کی خواہش نہ تھی کہ ایرانی رومیوں پر غالب آجائیں۔ اس لیے کہ رومی اہل کتاب تھے اور وہ مسلمانوں کے ذہن کے قریب تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی :

الم ۔۔۔۔۔ فی بجع سنین (30: 1 – 4) ” ا۔ ل۔ م۔ رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے ہیں ، اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہوجائیں گے “۔ تو مشرکین مکہ نہ کہا ابوبکر ! تمہارے دوست کہتے ہیں کہ رومی چند سالوں کی میعاد پر چار اونٹنیوں کی شرط لگائی۔ یہ سات سال گزر گئے اور کچھ نہ ہوا۔ مشرکین اس پر بہت ہی خوش ہوئے۔ یہ بات مسلمانوں پر ناگوار گزری۔ انہوں نے حضور ﷺ کے ساتھ اس کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری زبان میں بضع سنین کا مفہوم کیا ہے تو انہوں نے فرمایا دس سے کم۔ تو آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو حکم دیا کہ جائیں اور میعاد میں دو سال کا اضافہ کردیں۔ کہتے ہیں دو سال ابھی نہ گزرے تھے کہ سواروں نے آکر اطلاع دی کی رومی فارس پر غالب آگئے ہیں۔ اس پر مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی۔

اس بارے میں بہت سی روایات وارد ہیں۔ ان میں سے ہم نے امام ابن جریر کی روایت اختیار کی ہے۔ قبل اس کے کہ ہم اس واقعہ سے آگے بڑھیں ، اس واقعہ میں جو ہدایات ہیں ان پر غور ضروری ہے۔

اس واقعہ میں ہمارے لیے پہلی نصیحت یہ ہے کہ شرک اور کفر ہر زمان و مکان میں ایک ملت ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ ایمان اور عقیدہ توحید کے خلاف رہے ہیں۔ اگرچہ اس دور میں دنیا کی حکومتوں کے باہم روابط ہمارے دور کی طرف گہرے نہ تھے اس کے باوجود مشرکین مکہ یہ سمجھتے تھے کہ پوری دنیا میں مشرکین کا غلبہ ان کا غلبہ ہے ، اور اہل کتاب پر مشرکین کی فتح ان کی فتح ہے۔ مکہ کے مسلمان بھی یہ سمجھتے تھے کہ ان کے اور اہل کتاب کے درمیان رابطے کی اساس موجود ہے اور وہ بھی اس بات کو پسند نہ کرتے تھے کہ اہل کتاب پر مشرکین کو کسی بھی جگہ غلبہ حاصل ہو۔ مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ ان کی دعوت اور تحریک اس جہان میں الگ تھلگ نہیں رہ سکتی۔ اور کفر و ایمان کی اس کشمکش پر بیرونی واقعات اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

یہ وہ کھلی حقیقت ہے جس سے ہمارے دور کے اکثر لوگ غافل ہیں اور وہ اس حقیقت کو اس طرح نہیں سمجھ سکتے ، جس طرح اس کو رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے مسلمانوں نے سمجھا تھا۔ حالانکہ چودہ سو سال گزر چکے ہیں۔ آج کے مسلمان صرف جغرافیائی حدود یا قومیت کی اصلاح میں سوچتے ہیں حالانکہ مسئلہ دراصل کفر و ایمان کا ہے اور اصل معرکہ حزب اللہ اور حزب الشیطان کے درمیان ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان اس کشمکش کی اصل حقیقت کو سمجھیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے ؟ اگر مسلمانوں نے اصل مسئلے کو سمجھ لیا تو پھر کفر و شرک کی علم بردار جماعتوں نے جو مختلف رنگوں کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں ، وہ مسلمانوں کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف جنگ ، محض اسلامی نطریہ حیات کی وجہ سے کرتے ہیں۔ ذہبی طور پر معرکے کے اسباب و عامل جو بھی ہوں ، اصل جنگ نظریات کی ہے۔

دوسرا سبق اس واقعہ میں یہ ہے کہ اللہ کے وعدے پر بھروسہ کرو ، جیسا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے فوراً کہا کہ حضور اکرم ﷺ نے سچ کہا ، جبکہ مشرکین کے نزدیک حضور ﷺ کا یہ کلام تعجب انگیز تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے صاف صاف کہہ دیا ” انہوں نے سچ کہا “۔ انہوں نے شرط باندھی اور ابوبکر ؓ نے قبول کرلی اور اللہ نے جو کہا تھا کہ چند سالوں میں یہ واقعہ ہوجائے گا تو ہوگیا۔ یہ پختہ اعتماد ، یقین اور بھروسہ ہی تھا جس نے مسلمانوں کے دلوں کو یقین اور ثابت قدمی سے بھر دیا تھا اور وہ تمام مصائب اور مشکلات کو خوشی خوشی جھیل رہے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ کا کلمہ مکمل ہوگیا اور اللہ کا وعدہ سچا ہوگیا اور یہی بات جہاد کے طویل راستے میں ایک نظریاتی کارکن کا بہترین ہتھیار ہوا کرتا ہے۔

تیسرا سبق اس واقعہ کے بیان کے درمیان ایک نہایت ہی مختصر جملہ معترضہ کے ذریعہ دیا گیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں للہ الامر من قبل ومن بعد (30: 4) ” اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی “۔ نہایت ہی شتابی سے بنا دیا گیا کہ معاملات سب کے سب اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ اس واقعہ میں بھی اور اس کے سوا دوسرے واقعات میں بھی۔ یہ ایک اہل کلیہ ہے ، اسلامی موقف کا یہ میزان ہے۔ فتح و ہزیمت ، دنیا میں حکومتوں کا اٹھنا اور بیٹھنا ، قوت پکڑنا اور ضعیف ہونا ، اسی طرح ہے جس طرح اس کائنات میں دوسرے طبیعی واقعات رونما ہوتے ہیں۔ سب کے لیے ایک سنت مقرر ہے۔ یہ سنت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جس طرح اللہ چاہتا ہے واقعات کا رخ پھیر دیتا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کے ارادے اور اس کی حکمت پذیری سے واقع ہوتا ہے۔ تمام واقعات اور حادثات دراصل اللہ کے ارادہ مطلقہ کے آثار ہیں اور ان کا رخ متعین کرنے میں کسی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ نہ کسی کے پاس قوت ہے۔ ان واقعات کے پیچھے جو حکمت کا فرما ہے اس کا بھی اللہ کے سوا کسی کو علم نہیں ہے۔ نہ کسی کو ان واقعات کے مصدر اور ابتداء کا پتہ ہے اور نہ انجام کا۔ لہٰذا ایک انسان کے لیے یہی محفوظ راستہ ہے کہ وہ تمام واقعات پر اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور یہ کہہ دے کہ یہ اللہ کی مقرر کردہ تقدیر ہے۔

الم ۔۔۔۔۔ بنصر اللہ ۔۔۔ (30: 1 – 5) ” رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے ہیں ، اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہوجائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور وہ دن وہ ہوگا جب کہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے “۔ اور اللہ کا وعدہ سچا اور مومنین نے اللہ کی دی ہوئی نصرت پر خوشیاں منائیں۔

ینصر من ۔۔۔۔۔ الرحیم (30: 5) ” اللہ نصرت عطا کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ زبردست اور رحیم ہے “۔ غرض اختیارات سب اللہ کے ہیں ، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اللہ جسے چاہتا ہے نصرت عطا کرتا ہے۔ اس کی مشیت پر کوئی قید نہیں ہے۔ اس کی مشیت جو نتیجہ چاہتی ہے ویسے ہی اسباب بھی مہیا کردیتی ہے۔ وجود اسباب اور فتح و کامرانی کو اللہ کی مشیت کے ساتھ معلق کرنے کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے۔ اس عالم اسباب کو جو قوانین قدرت کنڑول کرتے ہیں وہ سب کے سب مشیت مطلقہ کے فراہم کردہ ہیں۔ مشیت الہیہ ہی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایسے اسباب اور ایسے سنن اہل جہاں میں جاری وساری ہوں جو اٹل ہوں اور اس کائنات کے اندر ایک نظم اور ایک قرار و ثبات ہو۔ لہٰذا فتح و ہزیمت بھی قدرتی اسباب اور موثرات کے نتیجے میں ظاہر ہوتے ہیں ، اللہ کے جاری کردہ قوانین قدرت کے مطابق۔

اس موضوع پر اسلامی نظریہ حیات نہایت ہی واضح ، معقول اور منطقی ہے۔ وہ تمام امور کو اللہ کے حوالے کرتا ہے لیکن اسلام عالم اسباب کی نفی بھی نہیں کرتا اور انسان کو حکم دیتا ہے کہ وہ عالم اسباب کے اندر اپنی جدوجہد جاری رکھے ، تاکہ اللہ کے مقرر کردہ نتائج عالم ظہور میں آتے رہیں۔ انسانی جدوجہد کے مطابق عملاً نتائج نمودار ہوں یا نہ ہوں اس کا انسان ذمہ دار نہیں ہے۔ اس پر جدوجہد فرض ہے۔ انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ایک اعرابی نے اپنی اونٹنی کو مسجد نبوی ﷺ کے دروازے پر کھلا چھوڑ دیا اور نماز پڑھنے کے لیے اندر آگیا اور کہا

توکلت علی اللہ ” میں نے اللہ پر توکل کیا “۔ اسے رسول ﷺ اللہ نے فرمایا اعقلھا و توکل ” اسے باندھ دو اور پھر توکل کرو “۔ اسلامی نظریہ حیات میں توکل عالم اسباب میں ، مطابق اسباب جدوجہد کرنے کے بعد ہے۔ جدوجہد کرو اور پھر معاملہ اللہ پر چھوڑ دو ۔

ینصر من ۔۔۔۔ الرحیم (30: 5) ” اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ زبردست اور رحیم ہے “۔ یہ نصرت قدرت الہیہ کے سایوں میں ملغوف ہے اور یہ قدرت الہیہ ہی ہے جو اس تصرف کو عالم واقعہ میں لاتی ہے۔ اس نصرت پر رحمت الہیہ کے سائے بھی چھائے ہوئے ہیں جس کے ذریعہ لوگوں کے مفادات حقیقت کا روپ اختیار کرتے ہیں۔ مغلوب اور پسے ہوئے طبقات کے لیے اس میں بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔

ولولا دفع اللہ ۔۔۔۔۔ الارض ” اگر اللہ کی طرف سے بعض لوگوں کو بعض دوسرے لوگوں کے ذریعہ دفع کرنے کا کام نہ ہوتا رہتا تو پوری زمین میں فساد واقعہ ہوجاتا “۔ زمین میں اصلاح اسی طرح ہوسکتی ہے کہ مظلوموں اور پسے ہوئے لوگوں کی حمایت کی جائے اور ان کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کیا جائے۔

وعد اللہ لا یخلف اللہ ۔۔۔۔۔ عن الاخرۃ ھم غفلون (30: 6 – 7) ” یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے ، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں “۔ یہ امداد اللہ کا وعدہ ہے لہٰذا وہ لازماً واقع ہو کر رہے گا۔

لایخلف اللہ وعدہ (30: 6) ” اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا “۔ کیونکہ اللہ کا وعدہ اس کے بےقید ارادے کے تحت ہوتا ہے اور پھر اس کے اندر گہری حکمت مضمر ہوتی ہے اور وہ اپنے وعدہ کو حقیقت کا روپ دینے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ اس کی مشیت کو رد کرنے والی کوئی قوت نہیں ہے اور اس کے حکم سے کوئی سرتابی نہیں کرسکتا۔ اس پوری کائنات میں وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ اس وعدے کا پورا کرنا دراصل اللہ کے وسیع قانون قدرت کا ایک حصہ ہے اور اللہ کے ناموس اکبر اور اس کے قانون قدرت اور عظیم منصوبہ کائنات کے اندر کوئی تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے۔

ولکن اکثر الناس لا یعلمون (30: 6) ” مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں “۔ اگرچہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے بڑے جبہ و دستار رکھتے ہیں اور ان کے پاس علم کی ایک بڑی مقدار ہے۔ لیکن ان کا علم سطحی ہے اور زندگی کے ظاہری امور سے متعلق ہے۔ اللہ کے اٹل قوانین قدرت ، اور اس کائنات کے حقیقی ضوابط اور اس کے عظیم ناموس ، اور اس کے نہایت ہی پختہ اور گہرے روابط کا انہیں علم نہیں ہے۔

یعلمون ظاھرا من الحیوۃ الدنیا (30: 7) ” لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو ہی جانتے ہیں “۔ اس ظاہر کے پیچھے وہ جھانکنے کی سعی نہیں کرتے اور اپنی بصیرت سے اس کے پس منظر کو دیکھنے کی سعی نہیں کرتے۔ یہ ظاہری دنیا تو صغیر و حقیر ہے۔ اگرچہ لوگوں کو یہ بہت ہی وسیع نظر آتی ہے لیکن دراصل یہ بہت ہی حقیر ہے۔ انسان اس دنیا میں بہت جدوجہد کرتا ہے لیکن انسان کی محدود زندگی میں یہاں بہت ہی کم کچھ کیا جاسکتا ہے اور انسان کی یہ محدود زندگی اس عظیم کائنات کی وسعتوں کے مقابلے میں ان کا ایک مختصر حصہ ہے۔ اور اس زندگی پر بھی انہی قوانین کا کنڑول ہے جن کا کنڑول اس پوری کائنات پر ہے۔

وہ شخص جس کا ضمیر و قلب کائنات کے ساتھ مربوط نہیں ہے اور اسے یہ احساس نہیں ہے کہ اس کائنات کو کچھ اٹل قوانین قدرت کنڑول کر رہے ہیں ، ایسا شخص اس کائنات کو بظاہر دیکھ تو رہا ہوتا ہے لیکن وہ اسی طرح ہوتا ہے جس طرح اندھا ہوتا ہے۔ وہ ظاہری اشکال کو دیکھ رہا ہوتا ہے ، وہ دیکھ رہا ہوتا ہے یہاں ہر چیز دائرے کی شکل میں سرگردان ہے لیکن وہ اس حرکت کی حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اس لیے وہ اس جہاں میں نہیں ہوتا اور نہ وہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے کیونکہ حقیقی مومن تو وہ ہوتا ہے جو اس کائنات اور اس کے اندر پائے جانے والے زندگی کے اسرار و رموز سے واقف ہو۔ ایسا مومن ہی دراصل علم اور سائنس کو ایسی روح عطا کرتا ہے جو حقائق کا ادراک کرتی ہے۔ اس قسم کا ایمان رکھنے والے لوگ اس جہاں میں قلیل ہی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثریت حقیقی معرفت سے محجوب ہوتی ہے۔

وھم عن الاخرۃ ھم غفلون (30: 7) ” اور آخرت سے وہ غافل ہوتے ہیں ، اس لیے کہ آخرت اس کائنات کے سلسلہ میں وجود ہی کی ایک کڑی ہے۔ آخرت کتاب کائنات کا ایک صفحہ ہے ، جو لوگ تخلیق کی حقیقت کو نہیں سمجھتے جو لوگ اس کائنات میں پائے جانے والے نوامیس فطرت کو نہیں سمجھتے ، وہ آخرت کو بھی نہیں سمجھتے۔ اس لیے وہ آخرت کو اہمیت نہیں دیتے ، اس کے لیے تیاری نہیں کرتے ، اور وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ حرکت کائنات کی لائن پر آخرت بھی ایک نکتہ ہے۔ دنیا اور اس کائنات نے اس نکتے پر پہنچنا ہے اور اس کے بعد پھر نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔

لیکن آخرت سے غفلت کے نتیجے میں ایسے غافل لوگوں کی اقدار مضطرب ہوتی ہیں ، ان کی اقدار حیات میں کوئی ثبات اور پختگی نہیں ہوتی۔ ان کا تصور حیات ، تعبیر واقعات اور ان کی قدروقیمت کے پیمانے ناپختہ ہوتے ہیں۔ ان کا علم سطحی ، ناقص اور ظاہری ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جب ایک انسان اس پوری زندگی کے اختتام پر آخرت کے قیام کو تسلیم کرتا ہے تو اس جہان کے تمام واقعات کے بارے میں اس کا نقطہ نظر بدل جاتا ہے۔ اسے نظر آتا ہے کہ اس جہان میں اس کی زندگی ایک مختصر سا مرحلہ ہے اور اس جہاں میں اس کا جو حصہ ہے اور ہونا چاہئے وہ آخرت کے مقابلے میں بہت ہی معمولی اور حقیر ہے اور اس جہاں کی پوری زندگی دراصل طویل ترین ڈرامے کا ایک نہایت ہی مختصر شو یا جھلکی ہے۔ لہٰذا کسی شخص کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اس طویل ترین ڈرامے کی صرف مختصر ترین جھلکی کو دیکھ کر کوئی فیصلہ کر دے۔ اگر کوئی نہایت ہی حقیر جھلکی کو دیکھ کر پوری زندگی ، پوری کائنات اور آخرت اور اس کی طویل زندگی کے بارے میں فیصلہ کرے گا تو یہ سطحی فیصلہ ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ ایک ایسا انسان جو قیامت کا قائل ہے ، اور جو قیامت کے لیے تیاری کر رہا ہے ، اس انسان کے ساتھ اکٹھا ہوکر نہیں رہ سکتا جس کا سطح نظر صرف یہ دنیا ہے اور اس دنیا سے آگے اسکا کوئی ہدف نہیں ہے۔ اس قسم کے دو انسان نہ اس دنیا کے کسی پروگرام پر متفق ہوسکتے ہیں اور نہ ان کا یہاں کسی قدر پر اتفاق ہوسکتا ہے۔ دونوں کے پیمانے بالکل جدا ہوں گے۔ غرض ہر واقعہ ، ہر حالت ، اور زندگی کے حالات میں سے ہر حالت کے بارے میں دونوں کا فیصلہ جدا ہوگا کیونکہ دونوں کے میزان الگ ہوں گے۔ ہر ایک کا زاویہ نظر مختلف ہوگا۔ ہر ایک کی روشنی بھی مختلف ہوگی۔ لہٰذا ہر ایک کو ایک ہی چیز مختلف نظر آئے گی۔ واقعات ، اقدار اور حالات کے بارے میں دونوں کا تصور جدا ہوگا۔ ایک دنیا کی ظاہری نظر سے دیکھنے والا ہے اور دوسرا گہری نظر سے واقعات کے پس منظر کو بھی دیکھ رہا ہے۔ وہ ظاہری اسباب اور واقعات کو بھی دیکھتا ہے اور باطن پر بھی اس کی نظر ہے۔ وہ ظاہر اور غائب دونوں کا علم رکھتا ہے۔ دنیا و آخرت دونوں کو جانتا ہے ، حیات اور موت دونوں کی حقیقت کو جانتا ہے۔ ماضی ، حال اور مستقبل سب کا تصور رکھتا ہے۔ وہ انسانوں کے جہان سے بھی باخبر ہے اور اس کائنات کے دوسرے جہانوں اور زندوں اور مردوں سب سے واقف ہے۔ یہ ہے وہ وسیع افق جس پر اسلام انسان کی نظریں فوکس کر اتا ہے اور انسان کو ایک ایسا نقطہ نظر دیتا ہے جو انسان کے لائق ہے جو انسان کے لیے بحیثیت خلیفہ اللہ فی الارض ضروری ہے اور انسان کی شخصیت میں اللہ نے جو روحانیت ودیعت کی ہے ، اس کا بھی یہی تقاضا ہے۔

اس غرض کے لیے کہ اللہ کی نصرت کا وعدہ اسی طرح یہ حق ہے جس طرح یہ منظم کائنات ایک عظیم حق پر قائم ہے ، اور یہ کہ آخرت کا قیام اس عظیم سچائی کا لازمی نتیجہ ہے۔ اب سیاق کلام ہمیں دوبارہ اس کائنات کے ضمیر کی سیر کراتا ہے۔ آسمانوں میں ، زمین میں اور ان کے درمیان جو جہان موجود ہیں ان میں۔ اس کے بعد پھر انسان کو خود اس کے اپنے وجود کی سیر کرائی جاتی ہے تاکہ وہ تدبر کریں ، شاید کہ وہ اس حقیقت کبریٰ تک پہنچ جائیں جس سے وہ اس وقت غافل ہوجاتے ہیں وہ آخرت سے غافل ہوجاتے ہیں۔ کسی سطحی نقطہ نظر کی وجہ سے وہ دعوت اسلامی کی حقیقت کو بھی نہیں سمجھ سکتے کیونکہ یہ دعوت اس عظیم سچائی اور اس کے گہرے تدبر پر مبنی ہے۔

اردو ترجمہ

رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہو گئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ghulibati alrroomu

اردو ترجمہ

اور اپنی اِس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fee adna alardi wahum min baAAdi ghalabihim sayaghliboona

اردو ترجمہ

اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور وہ دن وہ ہو گا جبکہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fee bidAAi sineena lillahi alamru min qablu wamin baAAdu wayawmaithin yafrahu almuminoona

اردو ترجمہ

اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے، اور وہ زبردست اور رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Binasri Allahi yansuru man yashao wahuwa alAAazeezu alrraheemu
404