اس صفحہ میں سورہ An-Naba کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النبإ کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 1{ عَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَ۔ } ”کس چیز کے بارے میں یہ لوگ آپس میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں ؟“ یہ منظر کشی کا بہت خوبصورت انداز ہے۔ ان دو الفاظ میں گویا اس بےچینی اور ہلچل کی تصویر کھینچ دی گئی ہے جو اہل مکہ کے ہاں رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے سبب پیدا ہوگئی تھی۔ جیسے ہر شخص کے ذہن میں ایک ہی سوال ہو کہ محمد ﷺ نے یہ کیا نئی بات کردی ہے ؟ یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ ایک دن یہ دنیا ختم ہوجائے گی ! پھر قیامت برپا ہوگی ! تمام انسانوں کو پھر سے زندہ کرلیا جائے گا ! ہر انسان سے اس کے ایک ایک عمل کا حساب ہوگا ! وہاں کوئی کسی کا ُ پرسانِ حال اور مددگار نہیں ہوگا ! بھلا یہ سب کیسے ہوسکتا ہے ؟ مرنے کے بعد سب کا پھر سے زندہ ہوجانا ؟ اتنے انسانوں کا حساب کتاب ؟ ایک ایک عمل کا محاسبہ ؟ نہیں ‘ نہیں عقل نہیں مانتی ! گویا مکہ کے ہر گھر میں یہی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں ‘ ہر محفل اور ہر چوپال میں انہی سوالات پر تبصرے ہو رہے ہیں ‘ پورے شہر کی فضا میں ایک یہی موضوع گردش کر رہا ہے۔ غرض جہاں کہیں چار لوگ اکٹھے ہوتے ہیں ان کی گفتگو کی تان یہیں پر آکر ٹوٹتی ہے۔
آیت 2 { عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ۔ } ”اس بڑی خبر کے بارے میں۔“ یعنی قیامت کی خبر کے بارے میں۔ جیسے سورة المدثر میں فرمایا گیا ہے : { اِنَّہَا لَاِحْدَی الْکُبَرِ۔ } ”یقینا یہ بہت بڑی باتوں میں سے ایک بات ہے۔“
جس کے متعلق یہ مختلف چہ میگوئیاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں؟
انگریزی ٹرانسلیٹریشن
Allathee hum feehi mukhtalifoona
آیت 3{ الَّذِیْ ہُمْ فِیْہِ مُخْتَلِفُوْنَ۔ } ”جس کے بارے میں یہ اختلافِ رائے میں مبتلا ہوگئے ہیں۔“ قیامت کے بارے میں تفصیلات سن کر ان میں سے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔ کوئی کہتا ہے کہ مرنے کے بعد انسانوں کا دوبارہ زندہ ہونا بالکل بعید از قیاس ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارے معبودوں کے ہوتے ہوئے ہم سے کوئی محاسبہ نہیں ہوسکتا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ! ہر کوئی اپنی اپنی رائے دے رہا ہے۔
آیت 4{ کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ۔ } ”نہیں ! عنقریب یہ جان لیں گے۔“ عنقریب اصل حقیقت ان لوگوں پر منکشف ہوجائے گی۔ وقت آنے پر یہ لوگ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں گے۔ سورة قٓ میں اس کیفیت کا ذکر اس طرح ہوا ہے : { لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا فَـکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ۔ } ”اللہ فرمائے گا : اے انسان ! تو اس دن سے غفلت میں رہاتھانا ! تو آج ہم نے تجھ سے تیرا پردہ ہٹا دیا ہے ‘ تو آج تمہاری نگاہ کتنی تیز ہوگئی ہے۔“
آیت 5{ ثُمَّ کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ۔ } ”ہاں کوئی بات نہیں ! عنقریب یہ جان لیں گے۔“ عالم دنیا اور عالم برزخ کے درمیان صرف موت کا پردہ حائل ہے۔ جونہی کسی انسان کی آنکھ بند ہوتی ہے یہ پردہ اٹھ جاتا ہے۔ قبر عالم برزخ کی پہلی منزل ہے۔ اس منزل پر پہنچتے ہی ہر انسان اصل حقیقت کو جان جاتا ہے۔ چناچہ وہ وقت دور نہیں جب ان میں سے ہر شخص پر اصل حقائق عیاں ہوجائیں گے۔
آیت 14{ وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَآئً ثَجَّاجًا۔ } ”اور ہم نے اتار دیا نچڑنے والی بدلیوں سے چھاجوں پانی۔“ یعنی ہم پانی سے لبریز بادلوں سے موسلا دھار بارش برساتے ہیں۔
آیت 17{ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا۔ } ”یقینا فیصلے کا دن ایک معین وقت ہے۔“ یہ ہے وہ اصل بات جس کے لیے بطور تمہید گزشتہ آیات میں اللہ کی رنگا رنگ نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے اپنی نعمتوں کا اس قدر وسیع دستر خوان بچھایا ہے تو اس نے انسانوں پر لازماً کچھ ذمہ داریاں بھی ڈالی ہوں گی۔ جب خود انسانوں کے ہاں اصول ہے کہ ذمہ داریاں responsibilities اور مراعات privileges ایک ساتھ چلتی ہیں تو یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان پر اپنی عطائوں کی بارش تو کرتا رہے اور اس پر ذمہ داری کوئی بھی نہ ڈالے۔ اس لیے تم لوگ یہ مت سمجھو کہ تم من مانی زندگی گزارتے رہو گے اور تم سے کوئی جوابدہی نہیں ہوگی۔ نہیں ‘ تم سے ایک ایک ذمہ داری اور ایک ایک نعمت کا حساب ہوگا اور اس کے لیے ہم نے فیصلے کا ایک دن پہلے سے مقرر کر رکھا ہے۔
جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی، تم فوج در فوج نکل آؤ گے
انگریزی ٹرانسلیٹریشن
Yawma yunfakhu fee alssoori fatatoona afwajan
آیت 18{ یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا۔ } ”جس دن پھونکا جائے گا صور میں تو تم سب چلے آئو گے فوج در فوج۔“ اس کیفیت کا نقشہ سورة المعارج میں اس طرح دکھایا گیا ہے : { یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّہُمْ اِلٰی نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ۔ } ”جس دن وہ نکلیں گے اپنی قبروں سے دوڑتے ہوئے ‘ جیسے کہ نشان زدہ اہداف کی طرف بھاگے جا رہے ہوں۔“
اب چکھو مزہ، ہم تمہارے لیے عذاب کے سوا کسی چیز میں ہرگز اضافہ نہ کریں گے
انگریزی ٹرانسلیٹریشن
Fathooqoo falan nazeedakum illa AAathaban
آیت 30{ فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا۔ } ”تو اب چکھو ! ہم ہرگز اضافہ نہیں کریں گے تمہارے لیے مگر عذاب ہی میں۔“ تمہارے اس عذاب کی شدت ہر لحظہ بڑھتی چلی جائے گی۔۔۔۔ اب اگلی آیات میں اہل جنت کا ذکر ہے