سورہ نباء (78): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Naba کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النبإ کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نباء کے بارے میں معلومات

Surah An-Naba
سُورَةُ النَّبَإِ
صفحہ 582 (آیات 1 سے 30 تک)

عَمَّ يَتَسَآءَلُونَ عَنِ ٱلنَّبَإِ ٱلْعَظِيمِ ٱلَّذِى هُمْ فِيهِ مُخْتَلِفُونَ كَلَّا سَيَعْلَمُونَ ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُونَ أَلَمْ نَجْعَلِ ٱلْأَرْضَ مِهَٰدًا وَٱلْجِبَالَ أَوْتَادًا وَخَلَقْنَٰكُمْ أَزْوَٰجًا وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا وَجَعَلْنَا ٱلَّيْلَ لِبَاسًا وَجَعَلْنَا ٱلنَّهَارَ مَعَاشًا وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلْمُعْصِرَٰتِ مَآءً ثَجَّاجًا لِّنُخْرِجَ بِهِۦ حَبًّا وَنَبَاتًا وَجَنَّٰتٍ أَلْفَافًا إِنَّ يَوْمَ ٱلْفَصْلِ كَانَ مِيقَٰتًا يَوْمَ يُنفَخُ فِى ٱلصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا وَفُتِحَتِ ٱلسَّمَآءُ فَكَانَتْ أَبْوَٰبًا وَسُيِّرَتِ ٱلْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا لِّلطَّٰغِينَ مَـَٔابًا لَّٰبِثِينَ فِيهَآ أَحْقَابًا لَّا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا جَزَآءً وِفَاقًا إِنَّهُمْ كَانُوا۟ لَا يَرْجُونَ حِسَابًا وَكَذَّبُوا۟ بِـَٔايَٰتِنَا كِذَّابًا وَكُلَّ شَىْءٍ أَحْصَيْنَٰهُ كِتَٰبًا فَذُوقُوا۟ فَلَن نَّزِيدَكُمْ إِلَّا عَذَابًا
582

سورہ نباء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نباء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAamma yatasaaloona

آغاز کلام ہی ان نام نہاد سوال کرنے والوں کے سوالات پر سرزنش سے ہوتا ہے۔ تعجب اس پر کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس قدر ظاہروباہر بات کے بارے میں قیل وقال کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے سوالات دراصل قیام قیامت کے بارے میں تھے اور یہی موضوع تھا جس کے بارے میں وہ نہایت ہی شک اور خلجان میں مبتلا تھے اور سخت مجادلہ اور مباحثہ کرتے تھے۔ ان لوگوں کے تصور میں یہ بات نہ آتی تھی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے ، حالانکہ ایسا لازمی ہونا چاہئے اور قیام قیامت بالکل ایک منطقی امر ہے۔

عم یتساءلون (1:78) ” یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کررہے ہیں “۔ اور کس چیز کے بارے میں یہ مباحثے کررہے ہیں اور اس کے بعد خود اس کا جواب دے دیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ سوال برائے استفہام نہ تھا۔ نہ کچھ معلومات مطلوب تھیں۔ سوال محض ان کے حال پر تعجب کرنے کے لئے کیا گیا ہے اور متصلایہ تھا کہ ان لوگوں کی حالت قابل تعجب ہے کیونکہ ان کے سوالات ایک نہایت ہی عظیم معاملے کے بارے میں ہیں ، جس کے بارے میں یہ شک میں ہیں اور اس کی حقیقت یہ ہے۔

اردو ترجمہ

کیا اُس بڑی خبر کے بارے میں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAani alnnabai alAAatheemi

عن النبا ............................ مختلفون (3:78) ” کیا اس بڑی خبر کے سارے میں جس کے متعلق یہ مختلف چہ میگوئیاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں “۔ یہاں اس عظیم حقیقت کا نام نہیں لیا گیا ، صرف اسے نباء عظیم کہا گیا ، جو اس کی صفت ہے ۔ اس لئے کہ تعجب اور مبالغے کے انداز کو جاری رکھا جائے۔ اس دن کے بارے میں ، اختلافات اہل ایمان اور اہل کفر کے درمیان تھے۔ ان لوگوں کے درمیان جو اس پر ایمان لائے تھے اور ایسے لوگوں کے درمیان جو اس کا انکار کرتے تھے ، سوالات دراصل انکار کرنے والوں ہی کی طرف سے تھے۔

پھر اس سوال اور قیل وقال کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا ہے اور نہ اس بات کی تصریح کی جاتی ہے کہ یہ سوال و جواب کس امر کے بارے میں ہے۔ یہاں صرف اس امر عظیم کی صفت عظیم کا ذکر دیا جاتا ہے اور ایک ملفوف اور بالواسطہ دھمکی دینے پر ہی اکتفاء کردیا جاتا ہے اور یہ بالواسطہ دھمکی ڈائریکٹ جواب سے زیادہ موثر ہے۔ اور زیادہ خوفزدہ کردینے والی ہے۔

اردو ترجمہ

جس کے متعلق یہ مختلف چہ میگوئیاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allathee hum feehi mukhtalifoona

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، عنقریب اِنہیں معلوم ہو جائیگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla sayaAAlamoona

کلا سیعلمون .................... سیعلمون (5:78) ” ہرگز نہیں ! عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا ، ہاں ، ہرگز نہیں ، عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا “۔ لفظ کلازجر آمیز اور سخت توبیخ کے ساتھ انکار کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں جس قسم کی فضا پیدا کرنا مطلوب ہے ، اس کے لئے یہ لفظ نہایت موزوں ہے۔ لفظ کلا کے تکرار اور لفظ سیعلمون دونوں کے تکرار میں سخت تہدید اور ڈراوا ہے۔

اب بظاہر نظر آتا ہے کہ روئے سخن اس عظیم خبر سے پھر کر کسی دوسرے موضوع کی طرف منقل ہوگیا ہے تاکہ تھوڑے وقفے کے بعد اسے براہ راست لیا جائے ، روئے سخن دراصل ہمارے پیش پا افتادہ کائنات کے اندر موجود بعض حقائق ، مظاہر ، مناظر اور شواہد کی طرف پھرجاتا ہے۔ جن کو اگر چشم بینا سے دیکھا جائے اور ان پر غور کیا جائے تو وہ انسانی فکرونظر میں ایک بھونچال پیدا کردیتے ہیں اور فکر انگیز ہیں۔

اردو ترجمہ

ہاں، ہرگز نہیں، عنقریب اِنہیں معلوم ہو جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma kalla sayaAAlamoona

اردو ترجمہ

کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam najAAali alarda mihadan

یہ سفر اس عظیم اور طویل و عریض کائنات کے اطراف و جوانب میں ہے ، اس سفر میں ہم بیشمار مناظر دیکھتے ہیں ، اور مشاہدے کرتے ہیں۔ یہ طویل مناظر اور بیشمار تخیلاتی تصاویر ہمارے سامنے نہایت ہی محدود اور مختصر الفاظ کے ذریعہ پیش کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت ہی محدود وقت میں ، محدود الفاظ کے ذریعہ جب یہ مناظر پردہ تخیل پر گزرتے ہیں تو فکر ونظر پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ عقل وخرد کی تاروں پر مضراب اپنا کام نہایت تیزی اور تسلسل کے ساتھ کررہا ہے۔ یہ سب تصورات ایک اثباتی استفہام کے انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ایک طاقتور ہاتھ ، نہایت ہی غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگارہا ہے۔ جو ان کے قلب ونظر کو اللہ کی اس گوناگوں مخلوقات کے مشاہدے کی طرف متوجہ کررہا ہے۔ اور یہ دعوت دے رہا ہے کہ اس نظام کے پیچھے کام کرنے والی قوت مدبرہ پر ذرا غور کرو کہ کس طرح ہر چیز کو اس نے ایک مقدار کے مطابق رکھا ہوا ہے۔ کس طرح یہ کائنات پیدا کی گئی ہے ، پیدا ہورہی ہے۔ کیا کوئی عقل یہ سوچ سکتی ہے کہ یہ مخلوقات یونہی چھوڑ دی جائے گی اور کوئی حساب و کتاب نہ ہوگا بلکہ حساب و کتاب ہوگا اور یہ جب واقعہ ہوگا تو یہ وقت کی عظیم خبر ہوگی اور اس کی شہ سرخی لگے گی۔ مگر افسوس کہ اس عظیم حقیقت کے بارے میں بہ لوگ اختلاف رائے رکھتے ہیں ۔ اس سفر کے کئی مراحل ہیں ، پہلا مرحلہ اس زمین کے مطالعے کا ہے۔

الم نجعل .................... اوتادا (7:78) ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا ، اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا “۔ مہاد کے معنی ہیں سیروسیاحت کے لئے تیار کردہ۔ نیز گہوارے کی طرح نرم۔ دونوں مفہوم لفظ مہاد سے نکلتے ہیں اور باہم قریب ہیں۔ انسان علم ومعرفت کے جس مقام پر بھی ہو اور تہذیب و تمدن کے جس مرحلے میں بھی ہو ، وہ اس حقیقت کو سمجھتا ہے کہ زمین اس کے لئے گہوارہ ہے بطور حقیقت واقعہ اس چیز کو سمجھنے کے لئے کسی بڑی مقدار علم کی ضرورت نہیں۔ پہاڑوں کا میخ کی طرح مضبوطی سے جما ہوا ہونا بھی انسان کو ہمیشہ نظر آتا ہے۔ اگرچہ وہ پتھر کے دور میں ہو یا زمانہ حال کی علمی ترقی کے دور کا ہو ، یہ حقائق محسوسات ہیں۔ معمولی توجہ سے دریافت ہوسکتے ہیں۔

البتہ جس حقیقت کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے وہ پتھر کے دور کے انسان کے ابتدائی احساسات سے ذرا گہری ہے۔ انسان نے جوں جوں علم ومعرفت میں ترقی کی ، وہ اس کائنات کے حقائق کی گہرائیوں تک جاپہنچا۔ اور یہ حقائق انسان کی نفسیات پرچھاتے رہے۔ اور انسان نے اس بات کا ادراک کرلیا کہ اس کائنات کی پشت پر ایک گہری حکمت اور تدبیر کام کررہی ہے۔ اور اس کے اندر ایک پیچیدہ ٹیکنالوجی رکھ دی گئی ہے اور تمام مخلوقات اور موجودات باہم مربوط اور معاون ہیں۔ اور ایک دوسرے کی ضروریات پوری کررہے ہیں۔ اور یہ کہ اس زمین کو خصوصاً انسانی زندگی کے لئے ممدومعاون اور گہوارہ بنایا گیا ہے۔ اور یہ انسان اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور اس کے اور ان کائناتی قوتوں کے درمیان ایک قسم کی مفاہمت ہے۔

زمین کو خصوصیت کے ساتھ انسانی حیات کے لئے گہوارہ بنایا گیا ہے ، اور یہ ایک ایسا ثبوت ہے جس کی حقانیت میں شک نہیں کیا جاسکتا ہے ، بشرطیکہ دیکھنے والا عقل وخرد سے بےبہرہ نہ ہو اور وہ اس ظاہری کائنات کی پشت پر بھی جھانک کر دیکھ سکتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اس زمین میں جو قوتیں پیدا کی ہیں ، اگر ان کی نسبت ترکیب کے اندر معمولی ردوبدل بھی کردیا جائے ، اور زمین کے ظروف واحوال وہ نہ رہیں جو ہیں ، یا اگر زمین کی تخلیق کے اندر ملحوظ عناصر کے درمیان میں سے کسی ایک عنصر ہی کو غائب کرکے اس مرکب کی نسبتوں کے اندر ذرا سا بھی اختلال واقع ہوجائے تو زمین جس کو انسان کے لئے گہوارہ بنایا گیا ہے ، انسان کے لئے موت کا کنواں بن جائے اور اس کے اندر سے وہ صفت مفقود ہوجائے جس کی طرف قرآن یہاں اشارہ کررہا ہے۔ قرآن نے تو اس بات کی طرف یہاں مجمل اشارہ فرمایا ہے۔ تفصیلات انسان پر چھوڑ دی ہیں تاکہ انسان اپنی عقل وخرد اور علم و تجربہ کے مطابق تفصیلات کا مطالعہ کرے۔

اور اللہ نے پہاڑوں کو زمین کے اندر میخوں کی طرح گاڑدیا۔ ہر انسان ایک سرسری نظر سے اس بات کو ظاہراً پاتا ہے کہ پہاڑ زمین کے اندر میخوں کی طرح گاڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح جس طرح خیمے کی میخیں ہوتی ہیں ، اور پہاڑ خیموں کی طرح نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی حقیقت کیا ہے ، تو قرآن سے ہم یہ پاتے ہیں اور اس بات کا ادراک کرتے ہیں کہ یہ زمین کو مضبوط کرنے اور اس کا توازن قائم کرنے اور اسے قائم رکھنے کے لئے ازحد ضروری ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ پہاڑ اس لئے قائم کیے گئے ہوں تاکہ زمین پر سمندروں کی گہرائیوں اور پہاڑوں کی بلندیوں کی وجہ سے ایک توازن قائم ہوجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی وجہ سے زمین کے اندرونی سکیڑ اور سطحی سکیڑ کے درمیان توازن قائم کیا گیا ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان پہاڑوں کی وجہ سے زمین کے بعض حساس مقامات پر زلزلوں اور آتش فشانیوں کو روکا گیا ہو ، اور ان وجوہات کے علاوہ بعض دوسری نامعلوم وجوہات کے ناطے پہاڑوں کو میخیں کہا گیا ہو۔ جن کا ابھی تک انسان کو علم ہی نہ ہوا ہو ، کیونکہ قرآن نے کئی نامعلوم حقائق کی طرف اشارات اور واضح اشارات کیے تھے اور انسانوں نے ان کا ایک نہایت ہی محدود حصہ صدیوں بعد معلوم کیا ہے۔

دوسرا سفر دراصل انسانی نفسیات کی وادیوں میں ہے۔ نفس انسانی کے بعض پہلوﺅں کو لیا گیا ہے۔

اردو ترجمہ

اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waaljibala awtadan

اردو ترجمہ

اور تمہیں (مَردوں اور عورتوں کے) جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakhalaqnakum azwajan

وخلقنکم ازواجا (8:78) ” اور ہم نے تمہیں مرد اور عورت کے جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا “۔ یہ بھی اس دنیا کی ایک نہایت کھلی حقیقت ہے ، جسے انسان نہایت ہی سادگی کے ساتھ پاتا ہے کہ انسانوں کو مرد اور عورت کی شکل میں پیدا کیا گیا ہے ۔ پھر ان کو جوڑا بنایا گیا اور ان کے ملاپ سے سلسلہ حیات کو جاری رکھا گیا۔ ہر انسان اس حقیقت اور اس نظارے کو دیکھتا ہے اور پھر وہ دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ اس نظام کے اندر کس قدر لطف ، مزہ ، خوشی اور آرام رکھا گیا ہے اور ان امور کو سمجھنے کے لئے کسی وسیع علم کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے اللہ نے انسانوں کے سامنے یہ حقیقت رکھی ، ہر تہذیب و تمدن کا بیٹا بھی اسے سمجھتا ہے اور ہر بدوی اور پہاڑی بھی اس کو محسوس کرکے اس کو برتتا ہے اور اس کے مطابق زندگی کو منظم کرتا ہے۔

اس گہری حقیقت کے اس اجمالی شعور سے آگے کچھ مزید قابل غور باتیں بھی ہیں ، ان تک صرف ان لوگوں کو رسائی حاصل ہوتی ہے جو علم ومعرفت میں ذرا گہرائی تک چلے جاتے ہیں ، مثلاً انسانی جرثومے اور نطفے سے مذکر اور مونث بنا دینا حالانکہ اس جرثومے کے اندر مذکر ومونث کی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔ یہ اللہ ہی ہے کہ جو کسی نطفے کو تذکیر کی طرف لے جاتا ہے اور کسی نطفے کو تانیت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ صرف دست قدرت کے کارنامے ہیں۔ اللہ کی تخلیق اور اللہ کی ہدایت جس نطفے میں جو خصائص چاہے ڈال دے تاکہ انسان ایک جوڑے کی شکل میں پیدا ہوں اور زندگی کی گاڑی آگے بڑھے۔

اردو ترجمہ

اور تمہاری نیند کو باعث سکون بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WajaAAalna nawmakum subatan

وجعلنا ........................ معاشا (9:78 تا 11) ” اور تمہاری نیند کو باعث سکون بنایا ، اور رات کو پردہ پوش اور دن کو معاش کا وقت بنایا “۔ اللہ کی مہربانیوں پر ذرا غور کریں کہ اس نے انسانوں کو سکون اور تازگی عطا کرنے کے لئے نیند کی تخلیق کی۔ یہ نیند جب انسان پر طاری ہوتی ہے تو ایک وقت کے لئے اس کی قوت مدرکہ اور قوت عمل کو موقوف کردیتی ہے۔ اس وقفے میں انسان ایک ایسی حالت میں چلا جاتا ہے کہ جسے نہ حالت موت کہا جاسکتا ہے اور نہ حالت حیات۔ اس حالت میں جانے سے انسانی جسم اور اعصاب کی تمام تھکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں۔ اور وہ تازہ دم ہوکر اور از سرنو پیدا ہوکر زندگی کی جدوجہد اور مشغولیات اپنا لیتا ہے۔ حالت نوم کس طرح طاری ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک انسان کس طرح تازہ دم ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت کو صرف اللہ ہی جانتا ہے اور اس کام میں انسانی ارادے کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ نہ انسان اس بات کو جانتا ہے۔ اس حقیقت کو صرف اللہ ہی جانتا ہے اور اس کام میں انسانی ارادے کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ نہ انسان اس بات کو جانتا ہے کہ یہ تازگی اس کے جسم میں کس طرح سرایت کرجاتی ہے۔ کیونکہ جب وہ جاگ اٹھتا ہے تو وہ نیند کی حالت کا تصور نہیں کرسکتا۔ اور نیند کی حالت میں بھی اس کی قوت مدرکہ معطل ہوتی ہے۔ یہ ہے ہر زندہ چیز سے متعلق ایک کھلے راز کی بات جسے صرف وہ ذات جانتی ہے جس نے ان زندہ مخلوقات کو پیدا کیا اور انسانی زندگی اور اس کی سرگرمیوں کو سونے اور نیند پر موقوف کیا۔ کیونکہ ہر زندہ مخلوق ایک محدود وقت تک ہی نیند کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے ، اور اگر اسے مجبوراً دیر تک مصنوعی طریقے سے بیدار رکھا جائے تو اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

لیکن نیند میں جسمانی اور اعصابی ضروریات کے علاوہ بھی کچھ راز ہیں۔ یہ روح کے لئے بھی سکون کا ذریعہ ہے۔ روح کو بھی زندگی کی سخت کشمکش سے ہٹا کر اس کے لئے سکون کا ذریعہ ہے۔ یوں جس طرح ایک فوجی اسلحہ اتار کر قدرے سستاتا ہے اور امن و سکون کی حالت میں چلا جاتا ہے لیکن نیند کی حالت میں اسے جانا پڑتا ہے۔ وہ چاہے یا نہ چاہے کیونکہ نیند انسان کی ایک ایسی ضرورت ہے جس طرح کھانا پینا ، اس کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات نیند کے نتیجے میں ایسی تبدیلی آتی ہے جو معجزات سے کم نہیں ہوتی۔ انسان روحانی تھکاوٹ میں مبتلا ہوتا ہے ، اعصاب چور چور ہوتے ہیں ، روح متزلزل ہوتی ہے ، اور دل پریشانی سے بھرا ہوتا ہے۔ اچانک ایک اونگھ سی طاری ہوتی ہے ، اور بعض اوقات یہ اونگھ چند لمحات سے زیادہ نہیں ہوتی۔ لیکن ایک فرد کے جسم اور روح پر تازگی طاری ہوجاتی ہے اور اس کی حالت میں ایک انقلاب آجاتا ہے اور چند لمحات کے اندر انسان اپنے آپ کو تروتازہ بلکہ ایک نیا انسان محسوس کرتا ہے۔ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں تھکے ہارے مسلمانوں پر اللہ نے ایسی ہی اونگھ طاری کردی تھی جسے نعاس امنہ کہا گیا۔

اذ یغشیکم ............ امنة (11:8) ” اس وقت کو یاد کرو جب تمہیں ایک ایسی اونگھ نے ڈھانپ لیا ، سکون طاری کرنے کے لئے صرف اللہ کی طرف سے “۔ اور سورة آل عمران میں۔

ثم انزل ................................ منکم (154:3) ” اس غم کے بعد پھر اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں پر ایسی اطمینان کی حالت طاری کردی کہ وہ اونگھنے لگے “۔ اور بعض اوقات بعض دوسرے لوگوں پر بھی ایسے حالات طاری کردیئے جاتے ہیں۔

یہ ” سبات “ یعنی زندگی کی سرگرمیوں اور عقل وروح کی تمام سرگرمیوں سے رک جانا ، ہر زندہ مخلوق کی ضرورت ہے ، اور دست قدرت اور خالق کائنات کے رازوں میں سے ایک راز ہے ، اور ایک ایسی نعمت ہے جو خالص اللہ کی داد دہش اور عطا اور مہربانی کا نتیجہ ہے۔ قرآن کریم انسان کے عقل وادراک کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ اے انسان ذرا اپنی ذاتی خواص پر بھی غور کرو ، اور جس دست قدرت نے یہ خواص رکھے ہیں اس پر بھی قدرے تامل اور تدبر کرو اور اس کی معرفت حاصل کرو۔

اور ذات باری کی قدرتوں میں سے ایک اہم قدرت اور تدبیر یہ ہے کہ اس نے اس کائنات کی حرکت کو بھی مخلوق کی حرکت کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔ جس طرح انسان کے اندر نیند رکھ کر اسے سکون دیا گیا ہے کہ زندگی کی کشمکش کے بعد وہ قدرے سکون میں رے۔ تو کائنات کے اندر اللہ نے رات کا ماحول پیدا کرکے انسان کے لئے نیند اور سکون کا سازگار ماحول پیدا کردیا ہے۔ یوں اللہ کی مخلوق کے اندر باہم سازگار ماحول پیدا ہوا۔ اور یہ پوری دنیا زندہ مخلوقات کا ایک خاندان بن گئی۔ زندہ اشیاء کی یہ فیملی ان خصائص کے مطالبات پر لبیک کہتی ہے ، جو اس کائنات کے اندر رکھ دیئے گئے ہیں ، اور ان زندہ مخلوقات کی تمام اقسام کے اندر ایسی حرکت اور ایسی ضروریات رکھ دی گئی ہیں جو بعینہ اس پوری کائنات کے اندر رکھی گئی ہیں ، اور یہ تمام امور دست قدرت نے سرانجام دیئے ہیں اور یوں اس کائنات اور اس پوری زندہ مخلوق کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور موافقت پیدا کردی گئی ہے۔

اور ان آیات میں تیسرا رنگ یہ دکھایا گیا ہے ، دور کے آسمانوں اور بلندیوں کا قریب کی زمین کے ساتھ رابطہ ہے۔

اردو ترجمہ

اور رات کو پردہ پوش

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WajaAAalna allayla libasan

اردو ترجمہ

اور دن کو معاش کا وقت بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WajaAAalna alnnahara maAAashan

اردو ترجمہ

اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان قائم کیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wabanayna fawqakum sabAAan shidadan

وبنینا فوقکم ........................ الفافا (12:78 تا 16) ” اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان قائم کیے اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا ، اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی تاکہ اس کے ذریعے سے غلہ سبزی اور گھنے باغ اگائیں “۔

اور وہ وسیع شداد جو انسان کے اوپر کھڑے کیے گئے وہ سات آسمان ہیں اور دوسری جگہ ان کو سات راستے کہا گیا ہے۔ ان سے حقیقی طور پر مقصود کیا ہے۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ یہ سات کہکشانی ہے بھی ہوسکتے ہیں ، یہ کہکشانی مجموعے اس قدر بڑے ہیں کہ ان میں سے ایک ہی کہکشانی گروپ میں ستاروں کی تعداد ایک سو ملین کے لگ بھگ ہے۔ اور ان سات مجموعوں کا ہماری زمین اور ہمارے مجموعہ شمسی سے تعلق ہے اور ان ” وسیع شدا “ کا کوئی اور مفہوم بھی ہوسکتا ہے۔ اور اس بات کو للہ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا۔ اس کائنات کے بارے میں ہمارا موجودہ علم بہت زیادہ دکھائی دینے کے باوجود بہت ہی قلیل ہے۔

اس آیت میں جو کچھ بتایا گیا وہ یہ ہے کہ یہ سات آسمان نہایت مضبوط ہیں۔ ان کی عمارت نہایت پختہ ہے۔ اور اس قدر مضبوطی کے ساتھ باہم وگرپیوست کردیئے گئے ہیں کہ ان کے سنچے میں کسی جگہ ٹوٹ پھوٹ اور انفکاک ممکن نہیں ہے۔ اور یہ وہی ہیں جن کو ہم اس فضائے کائناتی میں مشاہدہ کرتے ہیں اور جن پر آسمانوں کا لفظ بولا جاتا ہے اور لوگ سمجھ لیتے ہیں اور دوسری چیز یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ سات مضبوط آسمان زمین سے بھی مربوط ہیں اور انسان اور تمام دوسری زندہ مخلوقات سے بھی مربوط ہیں۔ اس لئے ان سات مضبوط چیزوں کا ذکر انسان کی زندگی اور اس کے قیام وانصرام کی تدابیر کے ضمن میں کیا گیا۔

اردو ترجمہ

اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WajaAAalna sirajan wahhajan

وجعلنا .................... وھاجا (13:78) ” اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ بنالیا “۔ اور یہ روشن اور گرم چراغ سورج ہے جس کی روشنی تیز ہے اور اس کے اندر بےپناہ گرمی ہے۔ جس کی وجہ سے زمین اور اس کے اوپر زندگی ممکن ہوتی ہے جو سمندر کے پانیوں کو گرم کرکے ان سے اس وسیع زمین پر آبپاشی کا بندوبست کرتا ہے۔ وہ بادلوں کو اٹھاتا ہے۔ ان کی بلندی کی اعلیٰ سطح تک لے جاتا ہے اور پھر ان بادلوں کو نچوڑ کر بارش برسائی جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanzalna mina almuAAsirati maan thajjajan

وانزلنا .................... ثجاجا (14:78) ” اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی “۔ یعنی قوانین قدرت سے ان بادلوں کو نچوڑتے ہیں اور ان کا پانی زمین پر گرتا ہے۔ یہ پانی کس طرح نچوڑا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہواﺅں کے ذریعہ بادلوں سے پانی نچوڑا جاتا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بادلوں کے باہم ٹکرانے سے بجلی کی پیدائش کے عمل سے پانی نکل آتا ہو ، لیکن ان تمام اسباب کے پیچھے کوئی تو مسبب الاسباب ہے جو ان تمام اسباب اور اثرات ڈالنے والی چیزوں کا خالق ہے۔ اس سورج کو چراغ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس میں جلنے کا عمل اور روشنی ہوتی ہے اور یہی کام سورج کے اندر ہورہا ہے کہ اس میں جلنے کا عمل اور روشنی بکھیرنے کا عمل ہورہا ہے۔ لہٰذا سورج اور چراغ پوری طرح ایک ہی عمل کررہے ہیں۔

اللہ کے روشن چراغ سے ہم پر گرم شعاعوں اور روشنی کی بارش ہوتی ہے اور بادلوں سے لگاتار بارش نچوڑی جاتی ہے۔ اور یہ بجلی کی کڑک کے عمل سے بار بار برستی ہے اور اس بارش اور اس گرمی ہی سے اس کرہ ارض پر ہر قسم کے نباتات پیدا ہوتے ہیں اور ان نباتات سے وہ تمام نباتات پیدا ہوتے جن کو انسان استعمال کرتے ہیں اور وہ تمام گھنے باغات پیدا ہوتے ہیں۔ الفاف سے مراد وہ گھنے درخت جو ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوئے ہوں اور ایک درخت کی ٹہنی دوسرے میں گھسی ہوئی ہو۔

اس کائنات کی تخلیق میں یہ اہم آہنگی ، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے ایک حکیمانہ ہاتھ کام کررہا ہے۔ نہایت حکمت کے ساتھ اس کی ہر چیز اندازے کے ساتھ بنائی گئی ہے۔ اور یہی ارادہ اس کو چلارہا ہے اور اس حقیقت کو ہر انسان پاتا ہے ، اگر وہ اپنی عقل اور اپنے شعور کو اس طرف متوجہ کرے ، لیکن دور جدید میں جب انسان نے علم ومعرفت میں ترقی کرلی ، تو اس نے معلوم کیا کہ اس کائنات کی تخلیق میں کیا کیا تدابیر اختیار کی گئی ہیں اور اس کی ہر ہر چیز کس طرح ایک فارمولے کے مطابق بنایا گیا ہے۔ یہ فارمولے اس قدر عجیب اور حیران کن ہیں کہ ان کو دیکھ کر عقل چکرانے لگتی ہے۔ اور علم ومعرفت رکھنے والا جدید انسان اور سائنس دان اس بات کو احمقانہ تصور کرتا ہے کہ یہ کائنات یونہی بخت واتفاق سے پیدا ہوگئی ہے اور جو لوگ اس کائنات کے کسی مدبر اور خالق کو تسلیم کرنے سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ وہ لوگ دراصل محض ہٹ دھرمی اور ضد میں مبتلا ہیں۔ اور ان کے اس رویے کو اب احترام کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ اور اس کائنات کے پیچھے ایک قوت مدبرہ کام کررہی ہے جس نے ہر چیز کو نہایت ہی حساس سکیل کے ساتھ پیدا کیا ہے اور کائنات کی تمام قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ اور پیوست ہیں۔ اور قرآن کریم نے اس آیت میں اسی تنظیم ، ہم آہنگی اور تقدیر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زمین کو گہوارہ بنایا ہے اور پہاڑوں کو میخوں کی شکل دی ہے اور لوگوں کو جوڑے جوڑے بنایا ، نیند کو باعث سکون بنایا ، اور رات کو سب کے لئے چھپنے اور آرام کرنے کا ذریعہ بنایا ، اور سورج کے ذریعہ گرمی اور روشنی کا انتظام کیا۔ اور ہواﺅں اور بادلوں کے ذریعہ بارشوں کا انتظام کیا ، جن کے نتیجے میں سبزیاں ، حیوانات اور پھل نکالے گئے۔ یہ تمام حقائق جس انداز سے بیان کیے گئے ہیں۔ سائنسی زاویہ سے بھی یہ باہم متوافق اور ہم آہنگ ہیں اور ان کے اندر گہرا تعلق سبب اور مسبب کا ہے۔ اور یہ تعلق ہی بتاتا ہے کہ اس کائنات کا ایک ایسا خالق ہے جو اس کے نظام کو نہایت ہی خوبصورتی اور حکمت سے ملارہا ہے اور وہ حکیم وقدیر ہے۔ ان سائنسی اور مشاہداتی حقائق کو اگر کھلی آنکھوں سے پڑھاجائے تو اس سے انسان کو حکمت و دانش کا ایک بہت بڑا پیغام ملتا ہے اور اس کے بعد پھر وہ ایک عظیم پیغام پاتا ہے اور اس کی یہ شہ سرخی لگتی ہے کہ ایک فیصلے کا دن آنے والا ہے۔

یہ تمام مخلوقات یہاں تمہارے استفادے کے لئے ہیں ، کھاﺅ اور پیو اور عیش کرو ، مگر ایک دن بھی آنے والا ہے ، یہ دن یوم الفصل ہے ، یہ دن فیصلوں کا دن ہے۔

اردو ترجمہ

تاکہ اس کے ذریعہ سے غلہ اور سبزی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Linukhrija bihi habban wanabatan

اردو ترجمہ

اور گھنے باغ اگائیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajannatin alfafan

اردو ترجمہ

بے شک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna yawma alfasli kana meeqatan

لوگ عبث پیدا نہیں کیے گئے اور نہ ہی وہ شتر بےمہار ہیں۔ ان کی زندگی کے اندازے اور نظام ، جس کا ذکر آیات ماقبل میں کیا گیا ہے ، اور پھر اس کائنات کا نظام جس میں وہ رہ رہے ہیں ، دونوں نظام پوری طرح ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں ، ان پر اچھی طرح غور کرنے کے بعد ہر دانش مند آدمی اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ انسان مہمل اور غیر ذمہ دار نہیں ہیں کہ زمین پر اچھے کام کریں یا برے کام کریں اور پھر مرکر مٹی ہوجائیں۔ راہ ہدایت پر ہوں یا راہ ضلالت پر ہوں ، ان سے پوچھنے والا کوئی نہ ہو ، زمین پر عدل کرلیا ، یا ظلم ، کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔

بہرحال ایک دن فیصلے کا ضرور ہے ، جس دن تمام گزرے ہوئے معاملات کے فیصلے ہوں گے۔ یہ طے شدہ ، متعین دن ہے ، جس کے رسم اور قواعد طے شدہ ہیں اور اس کا وقت بھی اللہ کے ہاں طے شادہ ہے ۔ اور مقرر و متعین ہے۔

ان یوم .................... میقاتا (17:78) ” بیشک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے “۔ اس دن اس کائنات کا نظام بدل جائے گا اور اس نظام کی بندش کھل جائے گی۔

اردو ترجمہ

جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی، تم فوج در فوج نکل آؤ گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma yunfakhu fee alssoori fatatoona afwajan

یوم ینفخ ................................ سرابا (18:78 تا 20) ” جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی ، تم فوج در فوج نکل آﺅ گے۔ اور آسمان کھول دیا جائے گا ، حتیٰ کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہوجائیں گے “۔

صور سے مراد بگل ہے۔ ہم صرف اس کے نام سے واقف ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ اس میں پھونک ماری جائے گی۔ اس کی کیفیت کیا ہوگی تو اس میں ہمیں نہیں پڑنا چاہئے۔ اگر ہم اس کی تفصیلی کیفیت معلوم بھی کرلیں تو اس سے ہمارے ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اللہ نے ہماری قوت فہم وادراک کو ایسے لاحاصل موضوعات پر کھپانے سے بچایا ہے اور جس قدر علم کی ضرورت تھی وہ ہمیں بتادیا ہے۔ پس ہم یہی سوچتے ہیں کہ ایک آواز ہوگی اور اس کے نتیجے میں سب انسان قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ہمارے ذہنوں میں یہ منظر آتا ہے کہ انسانی نسلیں فوج در فوج چلی آرہی ہوں گی۔ حالانکہ دنیا میں اللہ نے ایسا نظام قائم کیا تھا کہ اگلی نسلیں جاتی رہتی تھیں اور نئی نسلیں ان کی جگہ لیتی تھیں تاکہ یہ نہ ہو کہ زمین پر لوگوں کے رہنے کی جگہ ہی نہ رہے ، بہرحال ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ لوگ فوج درفوج ہر نشیب و فراز سے چلے آرہے ہوں گے۔ ایک ہی میدان میں ہوں گے۔ یہ چیونٹیوں کی طرح قبروں سے نکل رہے ہوں گے اور یہ اس قدر لوگ ہوں گے کہ نہ ان کا پہلا سرا معلوم ہوگا اور نہ آخری۔ اور یہ عظیم اجتماع دلوں کے اندر ایک خوف پیدا کررہا ہوگا کیونکہ کسی نے کبھی اس قدر عظیم اجتماع نہ دیکھا ہوگا اور نہ سوچا ہوگا اس لئے کہ یہ اجتماع قیامت کے دن ہی ہوگا۔ یہ کہاں ہوگا اس کا ہمیں علم ہیں ہے۔ کیونکہ کائنات کا یہ نظام تو تباہ کردیا جائے گا۔ عظیم حادثات اور انقلابات ہوچکے ہوں گے۔

اردو ترجمہ

اور آسمان کھول دیا جائے گا حتیٰ کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wafutihati alssamao fakanat abwaban

وفتحت .................... سرابا (20:78) ” اور آسمان کھول دیا جائے گا ، حتیٰ کے دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہوجائیں گے “۔

یہ مضبوط آسمان کھول دیا جائے گا۔ یہ دروازے ہی دروازے ہوگا یعنی پھٹ کر اس میں دراڑیں پڑجائیں گی جیسا کہ دوسری سورتوں میں آیا ہے۔ یہ ایسی صورت حال ہوگی جس کا ہم پوری طرح تصور نہیں کرسکتے۔ بڑے بڑے پہاڑ چل پڑیں گے اور سراب بن جائیں گے۔ یعنی باہم فکر اگر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور ہوا میں بکھر جائیں گے۔ اور یوں نظر آئے گا جس طرح سراب۔ جیسا کہ دوسری سورتوں میں آیا ہے۔ جس طرح سراب کا وجود نہیں ہوگا۔ اسی طرح پہاڑ غبار بن کر معدوم ہوجائیں گے اور یہ ذرات اس طرح روشنی کو منعکس کریں گے جس طرح سراب میں روشنی منعکس ہوتی ہے اور پانی نظرآتا ہے۔ غرض اس کائنات میں ہولناک تبدیلیاں ہوں گی۔ اور یہ انقلاب نفخ صور کے بعد ہوگا۔ یہ ہے فیصلے کا دن ، یہ مقدر ہے اور اللہ کی حکمت وتدبیر سے اس میں سب واقعات ہوں گے۔

اب نفخ صور کے متصلا رونما ہونے والے واقعات سے قدرے بعد میں آنے والے کچھ واقعات نیکوکاروں اور بدکاروں کے فیصلے کی ایک جھلک۔ لیکن پہلے ان لوگوں کا فیصلہ سنایا جاتا ہے جو بدکار ہیں۔

اردو ترجمہ

اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہو جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wasuyyirati aljibalu fakanat saraban

اردو ترجمہ

درحقیقت جہنم ایک گھات ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna jahannama kanat mirsadan

جہنم کو پیدا کردیا گیا ہے ، یہ موجود اور تیار ہے اور ایک انسان کی طرح گھات میں بیٹھی انتظار کررہی ہے اور یہ لوگ آتے ہیں اور اس میں گرتے ہیں اور وہ برابر ان کا استقبال کررہی ہے ، گویا زمین پر ان کی زندگی ایک سفر ہے اور یہ لوگ لوٹ رہے ہیں ، اپنی اصلی جائے رہائش کی طرف ، اور اس مرجع اور ماویٰ میں انہوں نے اب ابدالاباد تک رہنا ہے۔ یہ ایک طویل زندگی ہوگی اور زمانوں پر زمانے گزرتے چلے جائیں گے اور ان کی حالت یہ ہوگی۔

اردو ترجمہ

سرکشوں کا ٹھکانا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lilttagheena maaban

اردو ترجمہ

جس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Labitheena feeha ahqaban

اردو ترجمہ

اُس کے اندر کسی ٹھنڈک اور پینے کے قابل کسی چیز کا مزہ وہ نہ چکھیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yathooqoona feeha bardan wala sharaban

لا یذوقون ................ شرابا (24:78) ” اس کے اندر کسی ٹھنڈک اور پینے کے قابل کسی چیز کا مزہ نہ چکھیں گے “۔ ہاں پینے کے لئے انہیں کچھ ملے گا ضرور۔ وہ کیا ہوگا ؟ بہت ہی تلخ اور مکروہ۔

اردو ترجمہ

کچھ ملے گا تو بس گرم پانی اور زخموں کا دھوون

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa hameeman waghassaqan

الا حمیما وغساقا (25:78) ” کچھ ملے گا تو بس گرم پانی اور زخموں کا دھوﺅن “۔ سخت گرم پانی جس سے ان کے حلق اور پیٹ جل بھن جائیں گے۔ یہ ان کے لئے ” ٹھنڈک “ ہے اور غساق وہ پانی جو جلے ہوئے لوگوں کے زخموں سے بہتا ہے یہ ہے ان کا مشروب۔

اردو ترجمہ

(اُن کے کرتوتوں) کا بھرپور بدلہ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Jazaan wifaqan

جزآء وفاقا (26:78) ” بھرپور بدلہ “۔ انہوں نے جو کچھ کمایا اور جو کچھ قیامت کے لئے ذخیرہ کرکے بھیجا اس کا پورا پورا بدلہ۔

اردو ترجمہ

وہ کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahum kanoo la yarjoona hisaban

انھم .................... حسابا (27:78) ” وہ کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے “۔ اور نہ نیک وبد کے انجام کے واقع ہونے میں یقین رکھتے تھے۔

اردو ترجمہ

اور ہماری آیات کو انہوں نے بالکل جھٹلا دیا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakaththaboo biayatina kiththaban

وکذبو .................... کذابا (28:78) ” اور ہماری آیات کو انہوں نے بالکل جھٹلادیا تھا “۔ ان الفاظ کے ترنم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تکذیب میں شدید تھے اور تکذیب پر مصر تھے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا ریکارڈ تیار کررہا تھا۔ اور یہ اس قدر کامل و شامل ریکارڈ تھا کہ اس سے کوئی بڑی چھوٹی چیز چوک نہ سکتی تھی۔

اردو ترجمہ

اور حال یہ تھا کہ ہم نے ہر چیز گن گن کر لکھ رکھی تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakulla shayin ahsaynahu kitaban

وکل .................... کتبا (29:78) ” اور حال یہ تھا کہ ہم ہر چیز گن گن کر لکھ رہے تھے “۔ اس لئے اب یہاں ان کو سخت ملامت کی جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

اب چکھو مزہ، ہم تمہارے لیے عذاب کے سوا کسی چیز میں ہرگز اضافہ نہ کریں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fathooqoo falan nazeedakum illa AAathaban

فذوقوا .................... عذابا (30:78) ” اب چکھو مزہ ، ہم تمہارے لئے عذاب کے سوا کسی چیز میں ہرگز اضافہ نہ کریں گے “۔

اب مقابل کا منظر پیش ہوتا ہے۔ یہ اہل تقویٰ اور ان نعمتوں کا منظر ہے جس میں وہ مزے سے رہ رہے ہیں۔ باغیوں اور نافرمانوں کے بعد یہ بھی ضروری تھا کہ ایک جھلک ان کی بھی دکھادی جائے۔

582