سورہ کہف (18): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Kahf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الكهف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ کہف کے بارے میں معلومات

Surah Al-Kahf
سُورَةُ الكَهۡفِ
صفحہ 293 (آیات 1 سے 4 تک)

سورہ کہف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ کہف کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alhamdu lillahi allathee anzala AAala AAabdihi alkitaba walam yajAAal lahu AAiwajan

آیت 1 اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ رسول اللہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق اور نسبت ہے اسے یہاں لفظ ”عبد“ سے نمایاں فرمایا گیا ہے۔

اردو ترجمہ

ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے، اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qayyiman liyunthira basan shadeedan min ladunhu wayubashshira almumineena allatheena yaAAmaloona alssalihati anna lahum ajran hasanan

آیت 2 قَـيِّمًا لِّيُنْذِرَ بَاْسًا شَدِيْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ یعنی نبی اکرم پر نزول قرآن کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ آپ لوگوں کو ایک بہت بڑی آفت کے بارے میں خبردار کردیں۔ یہاں لفظ بَاْسًا بہت اہم ہے۔ یہ لفظ و احد ہو تو اس کا مطلب جنگ ہوتا ہے اور جب بطور جمع آئے تو اس کے معنی سختی مصیبت بھوک تکلیف وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ جیسے سورة البقرۃ کی آیت 177 آیت البر میں یہ لفظ بطور واحد بھی آیا ہے اور بطور جمع بھی : وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ۔ چناچہ وہاں دونوں صورتوں میں اس لفظ کے معنی مختلف ہیں : ”الْْبَاْسَآءِ“ کے معنی فقر و تنگدستی اور مصائب و تکالیف کے ہیں جبکہ ”وَحِیْنَ الْبَاْسِ“ سے مراد جنگ کا وقت ہے۔ بہر حال آیت زیر نظر میں ”بَاْسًا شَدِیْدًا“ سے ایک بڑی آفت بھی مراد ہوسکتی ہے اور بہت شدید قسم کی جنگ بھی۔ آفت کے معنی میں اس لفظ کا اشارہ اس دجالی فتنہ کی طرف ہے جو قیامت سے پہلے ظاہر ہوگا۔ حدیث میں ہے کہ کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال کے فتنے سے خبردار نہ کیا ہو کیونکہ یہ فتنہ ایک مؤمن کے لیے سخت ترین امتحان ہوگا اور پوری انسانی تاریخ میں اس فتنے سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہے۔ دوسری طرف اس لفظ بَاْسًا شَدِیْدًا کو اگر خاص طور پر جنگ کے معنی میں لیا جائے تو اس سے ”المَلحَمۃُ الْعُظمٰی“ مراد ہے اور اس کا تعلق بھی فتنہ دجال ہی سے ہے۔ کتب احادیث کتاب الفتن کتاب آثار القیامۃ کتاب الملاحم وغیرہ میں اس خوفناک جنگ کا ذکر بہت تفصیل سے ملتا ہے۔ عیسائی روایات میں اس جنگ کو ”ہرمجدون“ Armageddon کا نام دیا گیا ہے۔ بہر حال حضرت مسیح کے تشریف لانے اور ان کے ہاتھوں دجال کے قتل کے بعد اس فتنہ یا جنگ کا خاتمہ ہوگا۔بہت سی احادیث میں ہمیں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ دجالی فتنہ کے ساتھ سورة الکہف کی ایک خاص مناسبت ہے اور اس فتنہ کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اس سورة کے ساتھ ذہنی اور قلبی تعلق قائم کرنا بہت مفید ہے۔ اس مقصد کے لیے احادیث میں جمعہ کے روز سورة الکہف کی تلاوت کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے اور اگر پوری سورت کی تلاوت نہ کی جاسکے تو کم از کم اس کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کرنا بھی مفید بتایا گیا ہے۔ یہاں پر دجالی فتنہ کی حقیقت کے بارے میں کچھ وضاحت بھی ضروری ہے۔ ”دجل“ کے لفظی معنی دھوکہ اور فریب کے ہیں۔ اس مفہوم کے مطابق ”دجال“ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بہت بڑا دھوکے باز ہو ‘ جس نے دوسروں کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ اور فریب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو۔ اس لیے نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کو بھی دجال کہا گیا ہے۔ چناچہ نبی اکرم نے جن تیس دجالوں کی پیدائش کی خبر دی ہے ان سے جھوٹے نبی ہی مراد ہیں۔ دجالیت کے اس عمومی مفہوم کو مدنظر رکھا جائے تو آج کے دور میں مادہ پرستی بھی ایک بہت بڑا دجالی فتنہ ہے۔ آج لوگوں کے اذہان و قلوب نظریات و افکار اور اخلاق و اقدار پر مادیت کا اس قدر غلبہ ہوگیا ہے کہ انسان اللہ کو بھول چکا ہے۔ آج وہ مسبب الاسباب کو بھول کر مادی اسباب پر توکل کرتا ہے۔ وہ قرآن کے اس فرمان کو یکسر فراموش کرچکا ہے کہ : وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ آل عمران یعنی دنیوی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے جبکہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ آخرت کی زندگی پر پڑے ہوئے دنیا اور اس کی مادیت کے پردے سے دھوکا کھا کر انسان نے دنیوی زندگی ہی کو اصل سمجھ لیا ہے ‘ لہٰذا اس کی تمام دوڑ دھوپ اسی زندگی کے لیے ہے۔ اسی زندگی کے مستقبل کو سنوارنے کی اس کو فکر ہے اور یوں وہ مادہ پرستی کے دجالی فتنے میں گرفتار ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ دجال اور دجالی فتنے کا ایک خصوصی مفہوم بھی ہے۔ اس مفہوم میں اس سے مراد ایک مخصوص فتنہ ہے جو قرب قیامت کے زمانے میں ایک خاص شخصیت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوگا۔ اس بارے میں کتب احادیث میں بڑی تفصیلات موجود ہیں لیکن بعض روایات میں کچھ پیچیدگیاں بھی ہیں اور تضادات بھی۔ ان کو سمجھنے کے لیے اعلیٰ علمی سطح پر غور و فکر کی ضرورت ہے کیونکہ ظاہری طور پر نظر آنے والے تضادات میں مطابقت کے پہلوؤں کو تلاش کرنا اہل علم کا کام ہے۔ بہر حال یہاں ان تفاصیل کا ذکر اور ان پر تبصرہ کرنا ممکن نہیں۔ اس موضوع کے بارے میں یہاں صرف اس قدر جان لینا ہی کافی ہے کہ رسول اللہ نے قرب قیامت کے زمانے میں دجال کے ظاہر ہونے اور ایک بہت بڑا فتنہ اٹھانے کے بارے میں خبریں دی ہیں۔ جو حضرات اس حوالے سے تفصیلی معلومات چاہتے ہوں وہ مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب ”تفسیر سورة الکہف“ کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اس موضوع پر ”دنیا کی حقیقت“ کے عنوان سے میری ایک تقریر کی ریکارڈنگ بھی دستیاب ہے ‘ جس میں میں نے سورة الکہف کے مضامین کا خلاصہ بیان کیا ہے۔

اردو ترجمہ

جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Makitheena feehi abadan

اردو ترجمہ

اور اُن لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayunthira allatheena qaloo ittakhatha Allahu waladan

آیت 4 وَّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًادور حاضر کی دجالیت کی اصل جڑ موجودہ مسیحیت ہے جس کی بنیاد تثلیث پر رکھی گئی ہے اور اب اسے مسیحیت کے بجائے Paulism کہنا زیادہ درست ہے۔ اس میں سب سے پہلے حضرت مسیح کو اللہ کا بیٹا قرار دیا گیا۔ پھر اس میں کفارے کا عقیدہ شامل کیا گیا کہ جو کوئی بھی حضرت مسیح پر ایمان لائے گا اسے تمام گناہوں سے پیشگی معافی مل جائے گی۔ اس کے بعد شریعت کو ساقط کر کے اس سلسلے میں تمام اختیارات پوپ کو دے دیے گئے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال قرار دے اور جس کو چاہے حرام۔ ان تحریفات کی وجہ سے یورپ میں عام لوگوں کو لفظ ”مذہب“ سے ہی شدید نفرت ہوگئی۔ پھر جب ہسپانیہ میں مسلمانوں کے زیر اثر جدید علوم کو فروغ ملاتو فرانس اٹلی جرمنی وغیرہ کے بیشمار نوجوانوں نے قرطبہ غرناطہ اور طلیطلہ کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیا۔ یہ نوجوان حصول تعلیم کے بعد جب اپنے اپنے ممالک میں واپس گئے تو یورپ میں ان کی نئی فکر کی وجہ سے اصلاح مذہب Reformation اور احیائے علوم Renaissance کی تحریکات شروع ہوئیں۔ ان کی وجہ سے یورپ کے عام لوگ جدید علوم کی طرف راغب تو ہوئے مگر معاشرے میں پہلے سے موجود مذہب مخالف جذبات کی وجہ سے مذہب دشمنی خود بخود اس تحریک میں شامل ہوگئی۔ نتیجتاً جدید علوم کے ساتھ مذہب سے بیزاری روحانیت سے لا تعلقی آخرت سے انکار اور خدا کے تصور سے بیگانگی جیسے خیالات بھی یورپی معاشرے میں مستقلاً جڑ پکڑ گئے ‘ اور یہ سب کچھ عیسائیت میں کی جانے والی مذکورہ تحریفات کا رد عمل تھا۔ آیت زیر نظر میں انہی لوگوں کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے یہ عقیدہ ایجاد کیا تھا کہ مسیح نعوذ باللہ اللہ کا بیٹا ہے۔

293