سورۃ الانعام (6): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-An'aam کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنعام کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانعام کے بارے میں معلومات

Surah Al-An'aam
سُورَةُ الأَنۡعَامِ
صفحہ 128 (آیات 1 سے 8 تک)

ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَجَعَلَ ٱلظُّلُمَٰتِ وَٱلنُّورَ ۖ ثُمَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَىٰٓ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُۥ ۖ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ وَهُوَ ٱللَّهُ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَفِى ٱلْأَرْضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ وَمَا تَأْتِيهِم مِّنْ ءَايَةٍ مِّنْ ءَايَٰتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا۟ عَنْهَا مُعْرِضِينَ فَقَدْ كَذَّبُوا۟ بِٱلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ ۖ فَسَوْفَ يَأْتِيهِمْ أَنۢبَٰٓؤُا۟ مَا كَانُوا۟ بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ أَلَمْ يَرَوْا۟ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّٰهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا ٱلسَّمَآءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا ٱلْأَنْهَٰرَ تَجْرِى مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَٰهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِنۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا ءَاخَرِينَ وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَٰبًا فِى قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ إِنْ هَٰذَآ إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ وَقَالُوا۟ لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ۖ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِىَ ٱلْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنظَرُونَ
128

سورۃ الانعام کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانعام کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھیرا رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alhamdu lillahi allathee khalaqa alssamawati waalarda wajaAAala alththulumati waalnnoora thumma allatheena kafaroo birabbihim yaAAdiloona

نیز ہمیں اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جب طرح یہ دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ رسول نازل کیا گیا اسی طرح اس کا طریق کار بھی اللہ تعالیٰ نے سنت رسول کے ذریعے مقرر فرما دیا ۔ یہ مسنون طریق کار ہی اس دین کے مزاج کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اس دین اور اس کے فطری طریق کار کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہمارے پیش نظر رہے کہ جس طرح اسلام نظریاتی اصلاح کے ذریعہ انسان کے کردار میں اصلاح اور تبدیلی چاہتا ہے بعینہ اسی طرح وہ اس طریق کار کو بھی بدل دینا چاہتا ہے جس کے مطابق فکری اور نظریاتی اصلاح درکار ہے ۔ مثلا یہ کہ وہ محض فکری تعمیر ‘ فلسفیانہ طور پر نہیں چاہتا بلکہ وہ فکری اصلاح اور راہنمائی کے ساتھ ساتھ ایک تحریک بھی برپا کرنا چاہتا ہے ‘ تاکہ ایک ایسی امت (GreAt NAtion) کی تعمیر ہو جس کے طرز فکر میں اعتقادی تصورات اور ایک زندہ وفعال معاشرے کا وجود ساتھ ساتھ موجود ہوں۔ غرض اسلامی نظریہ حیات کی رو سے اس کے طرز فکر ‘ اور اس فکر کے مطابق اساسی تصورات اور ان تصورات کے مطابق وجود میں آنے والے معاشرے کے درمیان ایسی کوئی حد فاصل نہیں ہے کہ جب ایک پر کام ہو رہا ہو تو دوسرے کو ہاتھ نہ لگایا جائے ‘ احیائے دین کے اسلامی طریق کار کے مطابق سب پر بیک وقت کام ہوگا ۔

اس طریق کار کی اہمیت :

احیائے دین کے اس طریق کار کو سمجھ لینے کے بعد ہمیں اس بات کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یہ طریق نہایت اہم اور نہایت بنیادی ہے ۔ یہ کسی خاص مرحلے کسی خاص خاندان اور کسی خاص معاشرے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور نہ ہی یہ طریق پہلی تحریک اسلامی کے ظروف واحوال کے ساتھ مخصوص تھا ۔ یہ ایسا طریق کار ہے جس کو اختیار کیے بغیراحیائے دین کا کام کسی جگہ اور کسی زمانے میں بھی نہیں ہو سکتا ۔

اسلام کے پیش نظر صرف یہ نہ تھا کہ لوگوں کے کچھ عقائد میں تبدیلی کرکے اور معاشرتی حالات میں کچھ اصلاحات کر کے بیٹھ جائے ۔ وہ لوگوں کے فکر ونظر میں ہمہ گیر تبدیلی چاہتا تھا اور یہی وہ مہم تھی جس کا بیڑا اس نے اٹھایا ۔ اس نے انہیں نظریہ بھی دیا اور واقعیت بھی دی اور اس کے لئے ایک خاص طریق کار بھی دیا اور چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ طریق کار ہے اس لئے وہ اپنے مزاج کے اعتبار ہی سے انسانوں کے وضع کردہ ناقص طریق ہائے کار سے سراسر مختلف ہے ۔

اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظام زندگی کا حصول اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ہم اپنے اندر اسلامی طرز فکر (IslAmic WAy of Thinking) پیدا نہ کرلیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اسی طرز فکر پر لوگوں کے افطار و تصورات کی تعمیر کی اور ان کے تمام عقائد درست ہوگئے اور ان کی عملی زندگی کی تشکیل اور تعمیر بھی صحیح خطوط پر ہوئی ۔ جدید افکار سے متاثر ہو کر جب ہم اسلامی نظریہ حیات کو محض تعلیمی اور تدریسی نظریہ بنا دیں گے تو وہ اپنا مخصوص مزاج کھو دے گا اور ہم اس ذہنی شکست کا شکار ہوں گے کہ گویا اسلامی طریق کار اور الہی نقطہ نظرانسانی نظریوں اور نظاموں سے فروتر ہے یا یہ کہ وہ ان سے ناقص ہے اور ہم یہ تبدیلی کرکے اس کے نقص کو دور کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ انسانی طریق کار اور معیار کے مطابق ہوجائے ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک عظیم شکست ہوگی اور تباہ کن بھی ۔

اسلامی نظام حیات کی خصوصیت یہ ہو کہ وہ تحریک اسلامی کے کارکنوں کو ایک خاص طرز فکر عطا کرے اور انہیں جاہلی طرز فکر کے بندھنوں سے آزاد کردے ‘ جو اس وقت ہر طرف چھائے ہوئے ہیں اور جن سے ہماری تنظیمیں اور ہماری پوری ثقافت متاثر ہے ۔ اگر ہم اسلامی نظام حیات کو اسی نقطہ نظر سے دیکھیں ‘ جو کسی دنیاوی جاہلی نظام کے بارے میں رکھا جاتا ہے تو یہ اسلامی نظام حیات کے مزاج کے سراسر خلاف ہوگا اس طرح اس دین کا وہ اصلی مقصد ہی فوت ہوجائے گا جو مقصد وہ فلاح انسانیت کے سلسلے میں پیش نظررکھتا ہے ۔ اس نقطہ نظر کو اختیار کرنے کے بعد ہمارے لئے یہ بےحد مشکل ہوگا کہ ہم جاہلی نظام حیات سے نجات پاسکیں ۔ جب کہ یہ نظام اس وقت ہر طرف سے غلبہ پارہا ہے ۔ اس طرح ہم ایک زریں موقع کھو دیں گے اور ہماری اجتماعی زندگی جاہلی نظریات اور غیر اسلامی افکار کے نیچے دب جائے گی اور اس کے نتائج دور رس اور تباہ کن ہوں گے ۔

نقطہ نظرکا توازن :

تحریک احیائے اسلام میں طرز فکر اور طریق کار تصور حیات اور نظام حیات کے در میان اہمیت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ۔ طرز فکر اور طریق کار ‘ کسی وقت بھی مفصل نظام حیات اور تصور حیات سے منفصل نہیں ہو سکتے اور اس تصور حیات اور نظام حیات کو اگر محض تعبیری شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتیجے میں قطعا کوئی تحریک وجود میں نہ آئے گی اور اسلامی نظریہ حیات محض ذہنی نظریہ بن کر رہ جائے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اگر ہم اسلام کے تصور حیات کو پیش کرنے کے لئے محض تعبیری طریق کو اختیار بھی کرلیں تو پھر بھی اس سے وہی لوگ مستفید ہو سکیں گے جو عملا اس تحریک کو اپنائے ہوئے ہوں اور یہ بھی اس صورت میں کہ جس منزل پر یہ کارکن ہوں اس میں وہ اسلامی نظام حیات کے احکامات پر پوری طرح عمل پیرا ہوں ۔ یعنی اس نظریہ حیات سے استفادہ مقدار عمل کے مطابق اٹھایا جاسکتا ہے ‘ مقدار علم کے مطابق نہیں ۔ غرض میری ان معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تصور حیات فی الفور ایک تحریک کی شکل میں ظاہر ہونا چاہئے اور یہ تحریک اس تصور حیات کی صحیح تمثیل اور ترجمہ ہو ۔ یہی اسلامی نظام حیات کے قیام کا فطری طریق کار ہے اور تمام دوسرے طریقوں سے اعلی ارفع اور ٹھوس بھی ہے ۔ انسانی فطرت کے ساتھ زیادہ مطابق بھی ہے اور اس میں زیادہ تحریکیت اور فعالیت پائی جاتی ہے ۔ محض جامد شکل میں ایک مستقل اور مکمل نظریہ حیات پیش کردینے سے یہ طریق کار زیادہ مفید ہے کیونکہ اس میں فعال اور متحرک لوگوں کے سامنے لائحہ عمل پیش ہوتا ہے اور غیر متحرک لوگوں سے واسطہ نہیں پڑتا بلکہ لوگ ذہنی تصورات اور نظریہ حیات کی جیتی جاگتی تصور ہوتے ہیں ۔

تحریک اسلامی اور علمی تحقیقات :

اگر یہ رائے اصل اسلامی نظریہ حیات کے بارے میں درست ہے تو اسے اسلامی نظریہ حیات کے اساسی تصورات کے بارے میں بھی درست ہونا چاہئے ۔ نیز اسلامی نظام حیات کے مفصل قوانین پیش کرنے کے مسئلے میں بھی یہی طریق کار ‘ یعنی تدوین ونفاذ کا اتحاد ہی درست ہونا چاہئے ۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے اردگرد جاہلیت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے ۔ وہ تحریک اسلامی کے کارکنوں پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔ جوں جوں وہ احیائے دین کے لئے اسلامی نظام حیات کے مقررہ طریق کار کے مطابق قدم آگے بڑھاتے ہیں وہ ان سے بڑے معصوم لہجے میں سوال کرتی ہے کہ جس نظام حیات کی طرف تم لوگوں کو بلا رہے ہو اس کی تفصیلات کیا ہیں ۔ اس کے نفاذ کے لئے تم نے کیا کیا علمی تحقیقات کی ہیں ‘ اس کی علمی اور نظری بنیادی کہاں تک تیار ہوچکی ہیں اور جدید خطوط پر اسلامی فقہ کی تدوین کہاں تک ہوگئی ہے ؟ ان معصومانہ سوالات کو سن کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا اسلامی نظام حیات کے نفاذ کی راہ میں ‘ اب صرف یہی رکاوٹیں حائل ہیں کہ صرف فقہی احکامات کی تدوین اور بعض فقہی موضوعات پر تحقیق کی ضرورت پوری ہوجائے ۔ رہی جاہلیت تو وہ تو اللہ کی حاکمیت کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے اور تمام لوگ اس کے لئے آمادہ ہوچکے ہیں کہ اسلامی قوانین کو نافذ کیا جائے ، مشکل صرف یہ درپیش ہے کہ کوئی ایسا فقیہ مجتہد اور مفنن نہیں مل رہاجو جدید قانونی خطوط پر اسلامی شریعت کو مدون کرسکے ۔ یہ دراصل ایک گہری سازش اور ایک کھلا مزاح ہے جو شریعت اسلامیہ کے ساتھ کیا جارہا ہے اور ہر حساس دل کو اس کی طرف خاطر خواہ توجہ دینا چاہئے ۔

جاہلیت کے پیروکار ایسے سوالات اٹھا کر ‘ دراصل شریعت اسلامی کے نفاذ سے پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں ۔ انکا ایک مقصد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو بدستور غیر اسلامی اور انسانی قوانین کے تابع رکھا جائے ، دوسرا مقصد یہ ہے کہ تحریک اسلامی کو اقامت دین کے اسلامی طریق کار سے ہٹا دیا جائے ‘ تعمیر افکار اور احیائے تحریک کے ضروری مرحلے کو نظر انداز کردیاجائے اور اس سے پہلے ہی قانون کی تدوین شروع کردی جائے ‘ حالانکہ اقامت دین کا صحیح طریق کار یہ ہے کہ سب سے پہلے اسلامی نظریہ حیات تحریک اسلامی کی فعال شکل میں ظہور پذیر ہو اور اقامت دین کا جو مرحلہ درپیش ہو اس کی حقیقی ضرورت کے مطابق ہی تفصیلی قوانین کو سامنے لایا جائے اور تدوین قانون اس وقت ہو جب اس کی ضرورت درپیش ہو ۔

تحریک اسلامی کے کارکنوں کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ اسی طریق کار کو پیش نظر رکھیں ۔ سازشوں اور فوجی انقلابات کے طریق کار سے باز رہیں اور اس اسلامی طریق کار کے مقابلے میں اپنی طرف سے کوئی طریق کار املاء نہ کرائیں جو لوگ سرے سے خدا اور رسول پر یقین ہی نہیں رکھتے ان کی باتوں پر توجہ نہ دیں ۔ یہ لوگ دراصل ہمارے تحریک اسلامی کے کارکنوں کو گمراہ کرکے جلد باز بنانا چاہتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں ہمیں بےحد سنجیدہ ہونا چاہئے ۔

اسلام پسند عناصر میں مختلف طریقوں سے جو تنگی دلی پھیلائی جارہی ہے اس کا مقابلہ بےحد ضروری ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس سازش کو بھی ناکام بنائیں اور اس پست ذہنیت کو نظر انداز کو دیں جو ” فقہ اسلامی کے ارتکائ “ کے نام سے ایک ایسے ملک میں پھیلائی جارہی ہے جو سرے سے شریعت کی اطاعت اور نفاذ کا قائل ہی نہیں ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس بےفائدہ مزاح کو نظر انداز کرتے ہوئے صحیح اسلامی طریق کار کے مطابق اپنے حقیقی نصب العین کی طرف متوجہ ہوجائیں ۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہوا میں تخم ریزی کا فائدہ کچھ نہ ہوگا ۔ اسلام تحققات اور فقہی ارتقاء کا یہ خوش آئند کھیل دراصل ایک گہری سازش ہے اور ہمارا فرض یہ ہے کہ اس کے مقابلے میں احیائے دین کے صحیح اور فطری طریق کار ہی پر ڈٹ جائیں ۔ اسی میں اس دین کی قوت کا راز مضمر ہے اور وہی ہمارے کارکنوں کی معنوی قوت کا مصدر ہے ۔

(اس وقت مصر میں پاکستان کے ادارہ ثقافت اسلامیہ اور مرکزی ادارہ تحقیقات اسلامی کی طرز پر کئی ادارے اسلام پر تحقیقا کر رہے ہیں ۔ یہ تحقیقات ایسی ہی ہیں جیسے کوئی مشاق فن ریگستانوں میں اثری اکتشافات میں مصروف ہوتا ہے ۔ سید قطب کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اسلام کے احیاء سے کوئی سروکار ہے نہ وہ لوگ جو ان اداروں میں کام کرتے ہیں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور انہ ان کی حکومتوں کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ ان تحقیقات کو نافذ کیا جائے بلکہ محض علمی اور فنی عیاشی کے طور پر کام کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسی کوئی تدبیر اسلام کو مطلوب نہیں ہے ۔

البتہ یہ بات اپنی جگہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام کے ہر موضوع پر اٹھائے ہوئے جدید سوالات اور جدید حالات کی روشنی میں تحقیقات کی اشد ضرورت ہے ‘ خصوصا دفاعی تحقیقات ۔ نیز یہ بھی پیش نظر رہے کہ عربوں کے سامنے اسلامی نظام پہلی مرتبہ پیش ہوا اور ساتھ ساتھ بتدریج اس پر عمل بھی ہوتا رہا ہے ۔ لہذا قدرتی طور پر تعمیر افکار ‘ اس کا طریق کار اور تحریک اسلامی اور تشکیل نظام حیات کے ساتھ ساتھ ہی ہوتے رہے ۔ لیکن اب ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کے دو پہلو ہیں ۔ ایک طرف عوام الناس ہیں جو اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے آمادہ ہیں یا کم از کم اس کے مخالف نہیں ہیں کہ ان پر یہ نظام نافذ کیا جائے اور دوسری طرف ایک محدود اقلیت ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کی امکانیت کی قائل نہیں اور یہ اقلیت محض طاقت اور اقتدار کے بل بوتے پر اسلامی نظام حیات کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ‘ لہذا اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے بعینہ وہ طریق کار جس میں تمام لوگوں کو غیر مسلم فرض کرکے اختیار کیا جاتا ہے ‘ نہیں اپنایا جاسکتا ۔ ایک دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ دور اول میں اسلامی قوانین کی تفصیلات پر وہ غیب میں مستور تھیں اور جاہلیت کے حامل صرف انہیں قوانین اور احکامات پر اعتراض کرسکتے تھے جو نازل ہوجاتے تھے ۔ لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسلامی نظام حیات مفصل طور پر قرآن وسنت میں موجود ہے ۔ اسلامی تاریخ مدون ہے اور جاہلیت کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ اسلامی ثقافت کے بارے میں قسم قسم کے اعتراضات اٹھائے ۔

لہذا اسلامی نظام حیات کے احیاء کے ابتدائی طریق کار کے ہر مرحلے میں یہ ضروری ہوگا کہ جاہلیت کے اعتراضات کا دفعیہ کیا جائے اور اسلامی قوانین کے مختلف گوشوں کی وضاحت کی جائے ، نیز اس وقت ساری دنیا کو زندگی کے اساسی مسائل کا سامنا ہے اور مختلف نظام ہائے حیات کی باہمی آویزش میں صرف وہی نظام حیات کامیاب ہوسکتا ہے جو عالمی مسائل کا بہترین حل پیش کرتا ہو۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ تحریک اسلامی اس میدان میں بھی اسلامی نظام حیات کی برتری کو ذہن نشین کرائے ۔ اس طرح صحیح خطوط پر اسلامی تحقیقات کا کام بھی اشد ضروری ہوجاتا ہے ۔ ان حقائق کے پیش نظر سید قطب کا یہ فرمان کہ اسلامی قانون کی تفصیلات کو بالکل نہ چھیڑا جائے خالی از مبالغہ نہیں ہے)

احیائے دین کا اسلامی طریق کار اور خود اسلامی نظام حیات آپس میں عین ہیں ۔ ان کے درمیان کوئی فرق اور جدائی نہیں ہے ۔ اس طریق کار کے سوا کوئی دوسرا طریق کار اسلامی نظام حیات کو جنم نہیں دے سکتا ۔ کسی دوسرے طریق کار کے نتیجے میں کوئی انسانی اور جاہلی نظام حیات ہی جنم لے سکتا ہے ۔ اسلامی نظام حیات کا احیاء اس کے مطابق ہر گز نہیں ہو سکتا ۔ غرض اس پوری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ احیائے دین کی ہر تحریک اور ہر کوشش میں ‘ احیائے دین کے اسلامی طریق کار کا التزام ضرری ہے ۔

یہ میری آخری بات ہے اور مجھے یہ یقین ہے کہ اس طویل نوٹ کے ذریعے میں نے مکی سورتوں اور ان کے اندر طے کردہ منہاج کی پوری پوری وضاحت کردی ہے ۔ اب ان تمام قائدین کو چاہیے کہ وہ اپنی تحریکوں کے لئے اسلامی منہاج کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیں اور جو اسلام کا کام کرنا چاہتے ہیں ۔ پھر اطمینان کرلیں اور امید رکھیں کہ وہ جس منہاج کو پا چکے ہیں وہ خیر اور بھلائی ہے اور یہ کہ وہی بلند ترین لوگ ہیں اور یہ کہ قرآن کریم جو راہ دکھاتا ہے وہ اقوام اور مضبوط ہے ۔ (آیت) ” ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم)

اب ہم کچھ بات اس سورة کے بارے میں کرتے ہیں ۔ ضلال القرآن میں یہ پہلی مکی سورة ہے جس پر ہمیں کلام کرنے کا موقعہ مل رہا ہے اور یہ سورة مکی قرآن اور مکی انداز کلام اور مضامین کی ایک مکمل تصویر ہے ‘ جس کے خصائص ‘ جس کے مزاج اور مضامین کے بارے میں ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں ۔ اس سورة میں قرآن کریم کے خصائص ‘ اس کے منہاج کلام ‘ اس کے موضوع اساسی ‘ اور طرز ادا کے زاوے سے ایک مثالی بحث موجود ہے ۔ اس عمومی اسلوب کو اپناتے ہوئے سورة کے اپنے مزاج کو بھی قائم رکھا گیا ہے ۔ جس طرح قرآن کریم کی تمام سورتوں کی یہ خصوصیت ہے کہ ان میں قرآن کریم کے عمومی اسلوب اور اخذ کے ساتھ ساتھ سورة کا ایک خاص مزاج اور اسلوب بھی قائم رکھا گیا ہے ۔ اور ہر سورة کا مخصوص ماحول دوسری سورتوں میں نہیں پایا جاتا ۔ چناچہ قرآن کریم کی ہر سورة کی اپنی ذاتی شخصیت بھی ہوتی ہے ‘ اس کا ایک علیحدہ محور ہوتا ہے ‘ ہر سورة کے مخصوص خدوخال ہوتے ہیں اور اس کا ایک بڑا موضوع ہوتا ہے جس کے گرد تمام مباحث گھومتے ہیں ۔ پھر اس موضوع کی مناسبت اور دوسرے اسباب جو ادائے مطلب کو نہایت ہی موثر بناتے ہیں ۔ مخصوص منظر کشی ‘ مخصوص سائے اور مخصوص فضا ہر سورة میں ممیز وممتاز نظر آتی ہے ۔

ہر سورة میں مخصوص اسلوب کے جملے بار بار تکرار کے ساتھ آتے ہیں ۔ موضوعات بعض اوقات ملتے جلتے بھی ہوتے ہیں ‘ سورة کی شخصیت کا تعین موضوع سے نہیں ہوتا بلکہ کچھ دوسرے خدوخال ہوتے ہیں جو اس سورة کی شخصیت کے لئے سیٹ کا کام دیتے ہیں جو اس سورة کے ساتھ خاص ہوتے ہیں اور دوسری سورتوں میں نہیں ہوتے ۔

رہی سورة زیر بحث تو اس کا ایک مرکزی موضوع ہے اور یہ موضوع ہر لمحہ ‘ ہر وقت ‘ ہر منظر میں نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ ایسی خوبصورتی کے ساتھ جس کو دیکھ کر آنکھیں چندھیا جائیں ۔ انسان انگشت بدنداں رہ جائے ار اس کی سانس رک جائے ، اس وقت جبکہ کوئی اس کے مناظر پر غور کرے ‘ اس کے زیروبم کو دیکھے اور اس کے اثرات کو محسوس کرے ۔

ہاں یہ ایک حقیقت بہت اہم ہے ‘ میں اپنے نفس کے اندر اس حقیقت کو پاتا ہوں ‘ جب بھی اس سورة کے سیاق کلام کے ساتھ چلتا ہوں ‘ اس کے مناظر کی سیر کرتا ہوں اور اس کے اثرات کو محسوس کرتا ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص بھی ایک حساس دل رکھتا ہے ‘ وہ ضرور ان احساسات میں سے کچھ نہ کچھ پائے گا جو میں محسوس کرتا ہوں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس سورة کی خوبصورتی انسان کو مبہوت کردیتی ہے اور دل و دماغ مسحور ہو کر اس کے ساتھ چلتے ہیں ۔

یہ سورة مجموعی لحاظ سے اللہ کی حاکمیت سے بحث کرتی ہے ۔ اس پوری کائنات کے دائرے میں بھی اور انسانی زندگی کے دائرے میں بھی ۔ انسانی نفس اور ضمیر کے دائرے میں بھی اور اس دکھائی دینے والی کائنات کے نامعلوں رازوں کے دائرے میں بھی ، نیز عالم الغیب کے نامعلوم رازوں کے دائرے میں بھی ۔ یہ سورة اس کائنات کی تخلیق اس کرہ ارض کے اوپر زندگی کی تخلیق ‘ پھر حیوانات کے اوپر انسان کی تخلیق کے باب میں تصور حاکمیت الہ کو پیش کرتی ہے ۔ پھر تاریخی زوایے سے یہ سورة گزرنے والوں کی باہمی کشمکش اور پھر ان کی جگہ لینے والوں کی جانشینی میں بھی حاکمیت الہیہ کے کچھ رنگ دکھاتی ہے غرض اس کائنات کے اوپر نظر ڈالتے ہوئے مظاہر فطرت پر اللہ کی حاکمیت ‘ دنیا میں رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات میں اللہ کی حاکمیت ‘ اور دنیا میں خوشحالی اور بدحالی میں اللہ کی حاکمیت اس سورة کا موضوع ہے ۔ قدرت الہیہ کے مختلف مظاہر ومشاہد میں اللہ حاکمیت ‘ انسانی زندگی کے اوپر اللہ کی ظاہری اور باطنی گرفت میں اللہ کی حاکمیت ‘ اس کرہ ارض پر رونما ہونے والے واقعات و حوادث میں اللہ کی حاکمیت اور سب سے آخر میں مشاہد قیامت اور لوگوں کے بارگاہ الہی میں کھڑے ہونے میں اللہ کی حاکمیت ۔

وہ موضوع جو اس سورة میں آغاز سے انتہا تک چلتا ہے وہ نظریے کا موضوع ہے ۔ اس موضوع کے تمام عناصر ترکیبی نظریاتی ہیں اور اس کے تمام پوشیدہ معانی بھی نظریاتی ہیں ۔ یہ سورة انسانی معاشروں کا ہاتھ پکڑتی ہے اور انہیں لے کر اس پوری کائنات کی سیر کراتی ہے ۔ یہ انہیں اس کائنات کے نظریاتی سرچشموں اور ان کے ظاہری اور خفیہ اشارات کی سیر کراتی ہے ۔ نفس انسانی کو لے کر یہ زمین وآسمانوں کی بادشاہت میں چلتی ہے ۔ جہاں یہ نفس عالم ظلمات اور عالم نور کی سیر کرتا ہے ‘ سورج چاند اور ستاروں کے جھرمٹ دیکھتا ہے ۔ یہ اس زمین کے باغات میں سیر کرتا ہے جس میں قسم قسم کے پھل ہیں ۔ ان پر بارشیں ہو رہی ہیں اور ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ۔ پھر یہ سورة نفس انسانی کو ایسے معرکہ کار زار میں لا کر کھڑا کردیتی ہے جس میں گذشتہ اقوام مرتی مٹتی نظر آتی ہیں اور ان کے آثار قدیمہ نظر آتے ہیں ۔ پھر بحر وبر کے اندھیروں کی سیر کرائی جاتی ہے ۔ کچھ غیبی راز بتائے جاتے ہیں ۔ انسانی نفسیات کے راز آشکارا ہوتے ہیں ۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ زندہ مردے سے نکلتا ہے اور مردہ زندے سے نکلتا ہے ۔ ایک بیج ہے جو زمین کے پیٹ کی تاریکیوں میں پوشیدہ ایک نطفہ ہے جو رحم کے اندھیروں میں پرورش پارہا ہے ۔ پھر اس سورة کی اسکرین پر جن وانس کے غور آتے ہیں پھر پرندوں اور دوسرے وحوش کے گلے آتے ہیں ۔ پھر اولین اور آخرین آتے ہیں ۔ زندہ لوگ اور مرے ہوئے لوگ بھی نظر آتے ہیں اور رات ودن کے وقت محافظین الہی بھی نظر آتے ہیں ۔

یہ بیشمار کائناتی مشاہد ومناظر انسانی حس اور انسانی نفس پر ہر جانب سے حملہ آور ہوتے ہیں انسان بالکل ایک نیا ٹچ محسوس کرتا ہے ۔ نہایت ہی زندہ احساس نفس کے اندر پیدا ہوتا ہے اور یہ مناظر اور یہ معانی پردہ خیال پر زندہ دوڑتے نظرآتے ہیں ۔ حالت یہ ہوجاتی ہے کہ مکرر اور دیکھے ہوئے مناظر اور احساسات بھی بالکل نئے اور انوکھے نظر آتے ہیں ‘ بالکل جدید اور بالکل متحرک اور زندہ ۔ انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ احساس اور یہ شعور بالکل پہلی مرتبہ حاصل ہوا ہے ۔ گویا اس سے قبل کوئی انسانی ضمیر اور شعور ان احساسات سے کبھی دوچار نہ ہوا تھا ۔

یہ سورة اپنے ان شاہدات ومواقف ‘ اپنے اشارات واثرات اور اپنی تصاویر وشیڈز کے ساتھ اس طرح جاری وساری ہے جس طرح کوئی دریا اپنی امواج کے ساتھ جاری وساری رہتا ہے ۔ ایک موج ساحل سے نہیں ٹکراتی کہ دوسری اٹھتی ہے ۔ امواج کے ان نشیب و فراز میں اس سورة کا دریا مسلسل آگے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔

یہ سورة اپنی امواج کے اس مسلسل طلاطم کے ساتھ اور اپنی امواج کے باہم ٹکراؤ کے ساتھ اس قدر خوبصورت نظر آتی ہے کہ انسان محسور ہوجاتا ہے ۔ اس خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مضامین اور مفاہیم کو بھی نہایت ہی ہم آہنگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے اور اس قدر اثر انگیز طریقے سے مضامین پیش کئے گئے ہیں کہ انسان کے احساسات دنگ رہ جاتے ہیں ۔ نہایت ہی زندہ ‘ متحرک ہم آہنگ اور موثر صوتی اثرات والے الفاظ ہیں جو نفس انسانی پر ہر جہت اور ہر سمت سے اثرات والے الفاظ ہیں جو نفس انسانی پر ہر جہت اور ہر سمت سے اثر انداز ہو کر اسے مسحور کردیتے ہیں ۔ زندگی سے بھرپور فقرے ‘ موثر صوتی اور تصویری انداز تعبیر نفس انسانی کے ہر پہلو پر اپنے اثرات چھوڑتا ہے ۔

ہمیں یقین ہے کہ ہم اس سورة میں وہ اثرات جو دل و دماغ پر مرتب ہوتے ہیں ‘ ان کا اظہار ہم اپنے الفاظ میں نہیں کرسکتے ۔ بہتر تو یہ ہے کہ پڑھنے والا اسے خود پڑھے اور خود براہ راست اس کے اثرات اور کرشمے محسوس کرے ۔

اس سورة کے ادبی اور اشاراتی اوصاف ہم اپنے انسانی الفاظ اور فقروں میں بیان ہی نہیں کرسکتے ۔ البتہ ہم ان لوگوں کو اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ذریعے ایک راہ دکھلاتے ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے ۔ ان کی زندگی اور قرآن کے درمیان خلیج واقعہ ہوگئی ہے اور وہ قرآن کی فضا سے متضاد فضاؤں میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔

قرآنی فضا میں زندگی گزارنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم قرآن مجید کی تعلیم حاصل کریں ‘ اس کو قرات کے ساتھ پڑھیں اور اس کے علوم وفنون سے آگاہ ہوں اور اس کی ادبی خوبیاں ہمیں معلوم ہوں ۔ یہ قرآنی فضا نہیں ہے ۔ قرآن کی فضا میں زندگی گزارنے کے معنی ہمارے نزدیک یہ ہیں کہ انسانی ایسے حالات میں ‘ ایسی فضا میں ایسی کشمکش میں ‘ ایسی مشکلات میں اور ایسی اقدار میں زندگی بسر کرے جس طرح دور اول میں نزول قرآن کے وقت تھی ۔ اس طرح کہ گویا قرآن ابھی نازل ہو رہا ہے ۔ انسان اس جاہلیت کے بالمقابل زندگی بسر کرے جو اس وقت پورے کرہ ارض پر چھائی ہوئی ہے ۔ انسان اپنے دل میں اپنے ارادوں میں ‘ اپنی حرکات میں ‘ جاہلیت کا مقابلہ کر رہا ہو ‘ اپنے نفس اور لوگوں کے نفس کے اندر اسلام کو پید اکر رہا ہو ‘ اپنی زندگی میں اور لوگوں کی زندگیوں میں ‘ جاہلیت کا مقابلہ کرتے ہوئے از سر نو اسلام کو پیدا کر رہا ہو۔ وہ جاہلیت کے تمام تصورات ‘ جاہلیت کی تمام ترجیحات ‘ جاہلیت کی تمام رسومات اور جاہلیت کی تمام عملی صورت حال کا از سرنو مقابلہ کرے ۔ جاہلیت کے تمام پریشرز ‘ جاہلیت کی ہر قسم کی معرکہ آرائی ‘ ہر قسم کے مقابلے اور اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی نظام حیات پر ہر قسم کے حملے کے سامنے صف آراء ہوجائے ۔ اسلامی نظام اور اسلامی نظریہ حیات کے تمام تقاضے پورے کرے ‘ اسلام کی راہ میں جہاد کرے اور اس پر مصر رہے ۔ یہ ہے قرآنی فضا کا مفہوم ۔

یہ ہے وہ قرآنی فضا جس میں رہنے کا تقاضا یہ قرآن کرتا ہے ‘ صرف اسی صورت میں کوئی صاحب ذوق فہم قرآن کو پاسکتا ہے ۔ اس لئے کہ ایسے ہی حالات میں یہ قرآن نازل ہوا ‘ ایسے ہی بحر مشکلات میں قرآن نے اپنا کام کیا جو مسلمان ایسی فضاؤں سے ناآشنا ہیں ۔ وہ قرآن سے محروم ہیں ۔ اگرچہ وہ اسلامی مدارس میں پڑھتے ہوں ‘ قاری ہوں اور قرآنی علوم وفنون کے ماہر ہوں ۔

قرآن کی دنیا میں داخل ہونے کے لئے مخلصین کے استعمال کے لئے ہم جو فہم قرآن کا پل تعمیر کر رہے ہیں ‘ اس کا فائدہ ان مخلصین کو تب ہی ہوگا کہ وہ اس پل کو عبور کر کے قرآن کی دنیا میں داخل ہوجائیں ‘ وہ اس جہاں اور منطقے کو چھوڑ کر ایک دوسرے علاقے میں داخل ہوجائیں ‘ اور اپنے عمل اور اپنی جدوجہد کے ذریعے وہ قرآن کی فضا میں داخل ہوجائیں ‘ اور یہ فضا وہ خود پیدا کریں ‘ صرف اس وقت ان کو قرآن کا ذائقہ محسوس ہوگا اور صرف اس وقت ہی وہ محسوس کریں گے کہ اللہ نے انہیں ایک نعمت سے نوازا ہے ۔

یہ سورة اسلامی نظریہ حیات سے بحث کرتی ہے ۔ اس کا موضوع اللہ کی الوہیت اور بندے کی بندگی ہے ۔ یہ سورة اللہ کے بندوں کے سامنے اللہ کا تعارف پیش کرتی ہے کہ اللہ کیا ہے ؟ اس کائنات کی اصلیت کیا ہے ؟ اس کی پشت پر کیا راز ہائے دروں ہیں ؟ یہ انسان کون ہیں ؟ انہیں کون وجود میں لایا ہے ؟ انہیں کس نے پیدا کیا ؟ انہیں رزق کون فراہم کرتا ہے ؟ ان کی کفالت کون کرتا ہے ؟ ان کے معاملات کی تدبیر کون کرتا ہے ؟ ان کے دلوں اور ان کے نقطہ نظر میں تبدیلی کون لاتا ہے ؟ ان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے ؟ ان کی زندگی کو یہاں محدود کیوں رکھا گیا ہے ؟ ان کا انجام کیا ہوگا ؟ یہ زندگی کیا ہے اور اس کی بوقلمونیاں کیا ہیں ؟ اس کرہ ارض پر اسے کس نے پھیلایا ؟ یہ پانی کیا ہے ؟ یہ چشمے ‘ یہ پھل اوپر نیچے ‘ یہ شہاب ثاقب ‘ یہ صبح کی نموداری ‘ یہ رات کی تاریکی ‘ یہ آسمانوں کی گردش ‘ ان کے پیچھے کون ہے ؟ اور ان کے پیچھے کیا راز ہیں ؟ کیا اطلاعات ہیں ؟ یہ اقوام ‘ یہ صدیاں ‘ یہ اقوام ہلاکت سے کیوں دوچار ہوتی ہیں ؟ اور پھر نئے لوگوں کو اوپر لا کر جس آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ان کا انجام ‘ آزمائش اور جزاء وسزا کس طرح وقوع پذیر ہوتی ہے عمل اور مکافات عمل کا یہ کیا چکر ہے ؟

اس طرح یہ سورة قلب انسانی کو لے کر ان تمام ابعادوآفاق تک لے جاتی ہے اور ان تمام نشیب و فراز کی سیر کراتی ہے ۔ لیکن پوری سورة میں قرآن کریم کا مکی انداز برقرار ہے جس کے اسلوب کے بارے میں ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں ۔ مکی اسلوب کے ساتھ ساتھ پورے قرآن کا انداز کلام بھی اس سورة میں اپنے اعلی میعار پر ہے ۔ انداز بحث صرف نظریاتی نہیں ہے اور نہ ہی لاہوتی جدلیات پر مشتمل ہے کہ قارئین کے افکار اور ان کے ذہنوں کو مشغول کیے رکھے ‘ بلکہ سیدھے سادے انداز میں ‘ یہ سورة رب العالمین کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے تاکہ اپنے سچے رب کی بندگی اور غلامی اختیار کریں ۔ ان کا ضمیر اور ان کی روح اللہ کی غلام ہوجائے ۔ ان کی جدوجہد اور انکی تمام مساعی اللہ کی تابعداری میں ہوں ‘ ان کے رسوم اور رواج اللہ کی اطاعت میں ہوں اور ان کی زندگی کی پوری عملی صورت حال اللہ وحدہ کی حاکمیت کے تحت ہو جس کے سوا زمین وآسماں کے اندر کسی کی حاکمیت نہیں ہے ۔

یوں نظر آتا ہے کہ یہ سورة اول سے آخر تک ایک متعین نصب العین کی طرف بڑھ رہی ہے ‘ یہ کہ اللہ ہی خالق ہے ‘ وہی مالک ہے ‘ وہی قدرتوں والا ہے اور وہی بادشاہ اور قہار ہے ۔ وہی پوشیدہ چیزوں اور غیب کا جاننے والا ہے ۔ وہ جس طرح رات اور دن کو گردش دے رہا ہے اسی طرح وہ دلوں اور دماگوں کا بھی پھیرنے والا ہے اس لئے اسی کو تمام لوگوں کی زندگیوں پر حاکم ہونا چاہئے اور لوگوں کی زندگیوں میں امر اور نہی کا اختیار صرف اسے ہونا چاہئے ۔ کوئی حکم کوئی قانون اس سے سوا نہ ہوگا ۔ حلال و حرام کے تعین کا اختیار بھی صرف اسی کو ہے ۔ اس لئے کہ یہ تمام امور اللہ کی الوہیت کے عناصر ترکیبی ہیں ۔ لہذا لوگوں کی زندگیوں میں ان کے بارے میں تصرف صرف اللہ کرسکتا ہے ۔ اس کے سوا نہ کوئی خالق ہے ‘ نہ کوئی رازق ہے ‘ نہ زندہ کرنے والا ہے ‘ نہ مارنے والا ہے ‘ نہ نفع دینے والا ہے ‘ نہ نقصان دینے والا ہے نہ کوئی داتا ہے اور نہ کوئی مانع ہے ۔ غرض نہ اللہ کے سوا کوئی بھی کسی کے لئے یا اپنے نفع ونقصان کا مالک ہو سکتا ہے ‘ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں ۔ اس سورة میں اول سے آخر تک اس مقصد کے لئے دلائل و شواہد پیش کئے گئے ہیں اور یہ دلائل ان مشاہدات ‘ مؤثرات اور قدرتی مواقف کے ذریعے پیش کئے گئے ہیں جو اس کائنات میں موجود ہیں اور فکر ونظر کو مسحور کرنے والے ہیں ۔ ان مناظر فطرت کے اس مطالعے سے دل پر ہر طرف سے اشارات ومؤثرات ہر دروازے اور ہر پہلو سے ہوتے ہیں ۔

وہ سب سے بڑا مسئلہ جس پر یہ سورة زور دے رہی ہے ‘ وہ زمین وآسمانوں کے اندر اللہ کی الوہیت اور حاکمیت کا مسئلہ ہے ۔ زمین و آسمان کے وسیع دائرے میں اور اس کائنات کے وسیع و عریض میدان میں تصور حاکمیت الہیہ کا مسئلہ ۔ یہ سورة اسی مسئلے کو پیش کرتی ہے لیکن اخلاقی انداز اور بات کی مناسبت یہ ہے کہ جاہلیت کے پیروکار بعض ذیبحوں اور بعض کھانوں کے معاملے میں حلال و حرام کے اختیارات اللہ کے سوا دوسروں کو دیتے تھے ۔ اسی طرح نذر بعض قربانیوں بعض پھلوں اور بعض بچوں کے سلسلے میں جاہلیت کے پرستار اللہ کے سوا دوسروں الہوں کو اختیارات دیتے تھے ۔ اس مناسبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کے اندر نظریہ حاکمیت الہیہ یہاں تفصیل کے ساتھ بیان کیا اور اس مناسبت کی طرف سورة کی آخری آیات کے اندر اشارے کئے گئے ہیں ۔

(پھر اگر تم اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو ‘ تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت کھاؤ ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالت اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بتا چکا ہے ۔ بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں ‘ ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے ۔ تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چھپے گناہوں سے بھی ۔ جو لوگ گناہ کا اکتساب کرتے ہیں وہ اپنی اس کمائی کا بدلہ پاکر رہیں گے ۔ اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت نہ کھاؤ ‘ ایسا کرنا فسق ہے ۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔ لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو گے ۔ (6 : 118۔ 121)

(اور ان لوگوں نے اللہ کے لئے خود اس کی پیدا کی ہوئی کھیتوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے ‘ اور کہتے ہیں یہ اللہ کیلئے ہے بزعم خود ‘ اور یہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے ہے ۔ پھر جو حصہ ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لئے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے کیسے برے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ ۔ اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لئے ان کے شریکوں نے اولاد کے قتل کو خوشنما بنایا ہے تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنا دیں ۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے ‘ لہذا انہیں چھوڑ دو کہ یہ اپنی افترا پردازیوں میں لگے رہیں ۔ کہتے ہیں یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں ۔ انہیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنہیں ہم کھلانا چاہیں حالانکہ یہ پابندی ان کی خود ساختہ ہے ۔ پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور بار برداری حرام کردی گئی ہے اور کچھ جانور ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں لیتے اور یہ سب کچھ انہوں نے اللہ پر افتراء کیا ہے ۔ عنقریب اللہ انہیں ان کی افتراء پر دازیوں کا بدلہ دے گا اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کیلئے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ‘ لیکن اگر وہ مردہ ہوں تو دونوں اس کھانے میں شریک ہو سکتے ہیں ۔ یہ باتیں جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ان کا بدلہ اللہ انہیں دے کر رہے گا ۔ یقینا وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے ۔ یقینا خسارے میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت اور نادانی کی وجہ سے قتل کیا اور اللہ کے دیئے ہوئے رزق کو اللہ پر افتراء پردازی کر کے حرام ٹھہرا لیا ۔ یقینا وہ بھٹک گئے اور ہر گز وہ راہ راست پانے والوں میں سے نہ تھے ۔ (6 : 136۔ تا 140)

امت مسلمہ کی زندگی میں یہ ایک عملی پہلو تھا ‘ جس کی مناسبت سے اس سورة میں اس عظیم مسئلہ کو لیا گیا ۔ اس دور میں امت مسلمہ کے ماحول پر بھی جاہلیت چھائی ہوئی تھی جس میں قانون سازی اور حلال و حرام کے تعین کے معاملے میں یہ شرکیہ عقائد موجود تھے ۔ ان کی اصلاح کے حوالے سے یہاں اللہ کی الوہیت ‘ اللہ کی حاکمیت اور تمام انسانوں کی بندگی اور عبودیت کے مسائل کو لیا گیا ۔ چناچہ جس طرح تمام مکی قرآن میں اس مسئلے کو لیا گیا ہے ‘ اسی طرح اس سورة میں بھی اس مسئلے کو بڑی تفصیل سے لیا گیا ہے ۔ مدنی آیات میں جہاں بھی حلال و حرام اور حق قانون سازی کا بیان آتا ہے وہاں بھی مسئلہ حاکمیت الہیہ کو لیا جاتا ہے ۔

اس سیاق کلام میں جن موثر ہدایات اور فیصلوں اور قرار دادوں کا سیلاب امنڈتا چلا آرہا ہے اور ان جانوروں ‘ نذروں اور ذبیحوں کے بارے میں اہل شرک کی جو تردید کی جارہی ہے ‘ اسی حوالے سے یہاں اللہ کے مسئلہ الوہیت اور اللہ کے حق قانون سازی کو بھی بیان کیا جا رہا ہے ۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ حلال و حرام کی اس قانون سازی کا تعلق اسلامی عقائد اور اسلامی نظریات کے ساتھ ہے ۔ وہ نظریہ اسلام کا نظریہ حاکمیت الہیہ اور انسانوں کی بندگی اور غلامی کا ہے اور یہ مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے ‘ اسلام اور کفر اور اسلام اور جاہلیت کا مسئلہ ہے ۔ ہدایات کے اس سیلاب میں سے ہم یہاں اس سورة کے تعارف میں صرف چند نمونے پیش کریں گے لیکن ان کی مکمل تفصیلات اس وقت آئیں گی جب ہم اس سورة کی آیات پر تفصیلی بحث کریں گے ۔ لیکن اپنے اثرات کے اعتبار سے یہ سیلاب نفس انسان کے اندر اس دین کے مزاج کی حقیقی ماہیت بٹھا دیتا ہے ۔ وہ یہ کہ انسانی زندگی کا چھوٹا مسئلہ ہو یا بڑا ‘ ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کے حق حاکمیت کے تحت حل ہونا چاہئے اور اللہ کی حاکمیت اسلامی شریعت کی صورت میں ریکارڈ شدہ ہے ۔ اگر اس طرح نہ ہوگا تو پھر یہ تصور ہوگا ۔ کہ ایسے لوگ یا معاشرہ دین سے خارج ہے ۔ ایک جزوی مسئلے یا معمولی مسئلے کی حد تک انسان دین سے نکل گیا ہے ۔

ہدایات کا یہ کثیر مجموعہ اس بات کا کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ دین انسانی زندگی کے تمام مظاہر سے اور زندگی کے تمام معاملات میں سے انسانوں کی حاکمیت کو ختم کرتا ہے ۔ یہ معاملات اہم ہوں یا غیر اہم ‘ بڑے ہوں یا چھوٹے ‘ ان معاملات کو اس عظیم اصول کے دائرے کے اندر لاتا ہے ۔ یعنی یہ کہ اللہ کی الوہیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پورے کرہ ارض پر حاکم مطلق ہے اور وہ بلاشرکت غیرے اس کائنات کے اوپر متصرف ہے ۔ یہ اصول دین اسلام کے اندر پوری طرح ظاہر اور مجسم ہے ۔

اس سورة میں مویشیوں ‘ پھلوں ‘ نذر ونیاز اور اولاد کے بارے میں دور جاہلیت کی رسومات اور شعائر کے ذکر کے بعد مختلف قسم کے تبصرے بھی کئے گئے ہیں ‘ جن سے اس بات کا اظہار مطلوب ہے کہ یہ رسومات اور شعائر نہایت ہی احمقانہ ‘ نہایت ہی متضاد ہیں ۔ بعض میں یہ کہا گیا ہے کہ انسان کا یہ حق نہیں ہے کہ حلال و حرام کا تعین خود کرے بلکہ یہ کام تو ایک عظیم نظریاتی کام ہے اور حلال و حرام کے تعین میں اللہ کے احکام کی اطاعت ہی درست راستہ اور صحیح طرز عمل ہے ۔ اگر کوئی شخص حلال و حرام کے تعین میں اللہ کے احکام کی اطاعت نہیں کرتا تو وہ دین سے خارج ہے ‘ سابقہ آیات کے بعد ملاحظہ ہو ذرا طرز ادا اور پھر تبصرے :

” وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان اور نخلستان پیدا کئے ۔ کھیتیاں اگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں ‘ زیتون اور انار کے درخت پیدا کئے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں ۔ کھاؤ اس کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں اور اللہ کا حق ادا کرو ‘ جب ان کی فصل کاٹو ‘ اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کئے جن سے سواری وبار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں ۔ کھاؤ ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ یہ آٹھ نرو مادہ ہیں ‘ دوبھیڑ کی قسم سے ‘ دو بکری کی قسم سے اے محمد ﷺ ان سے پوچھو کہ اللہ نے ان کے نر حرام کئے ہیں یا مادہ ‘ یا وہ بچے جو بھیڑوں اور بکریوں کے پیٹ میں ہوں ؟ ٹھیک ٹھیک علم کے ساتھ مجھے بتاؤ اگر تم سچے ہو اور اسی طرح دو اونٹ کی قسم سے ہیں اور دو گائے کی قسم سے ۔ پوچھو ‘ ان کے نر حرام کئے ہیں یا مادہ یا وہ بچے جو اونٹنی اور گائے کے پیٹ میں ہوں ۔ کیا تم اس وقت حاضر تھے جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کا حکم دیا تھا ؟ “ پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کرکے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی راہنمائی کرے یقینا اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا ۔ اے محمد ﷺ ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو ‘ الا یہ کہ وہ مردار ہو ‘ یابہایا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت ہو ‘ کہ وہ ناپاک ہے ‘ یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبور کی حالت میں بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرے ‘ یقینا تمہارا رب درگزر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجر اس کے کہ جو ان کی پیتھ یا آنتوں سے لگی ہوئی ہو ‘ یا ہڈی سے لگی رہ جائے ۔ یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی ‘ اور یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں اب اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو ان سے کہہ دو کہ تمہارے رب کا دامن رحمت وسیع ہے اور مجرموں سے اس کے عذاب کو پھیرا نہیں جاسکتا ۔ یہ مشرک لوگ ضرور کہیں گے کہ ” اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔ “ ایسی ہی باتیں بنا کر ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی حق کو جھٹلایا یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزہ انہوں نے چکھ لیا ۔ ان سے کہو ’ ” کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کرسکو ؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو ۔ “ پھر کہو ” حقیقت رس حجت تو اللہ کے پاس ہے ‘ بیشک اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ۔ “ ان سے کہو ” کہ لاؤ اپنے وہ گواہ جو اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ ہی نے ان چیزوں کو حرام کیا ہے ۔ “ پھر اگر وہ شہادت دے دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دینا اور ہر گز ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور جو آخرت کے منکر ہیں اور جو دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر بناتے ہیں ۔ اے محمد ﷺ ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم کیا کیا پابندیاں عائد کی ہیں ۔ ؟

(1) یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔

(2) اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔

(3) اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ‘ ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے اور بےشرمی کی باتوں کے قریب نہ جاؤ ۔ خواہ وہ کھلی ‘ یا چھپی ہوں۔

(4) اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ یہ باتیں ہیں جس کی ہدایت تمہیں اس نے کی ہے شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو ۔

(5) اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو ‘ یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے ۔

(6) اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو ‘ ہم ہر شخص پر ذمہ داریوں کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے ۔

(7) اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنی رشتہ داری کا کیوں نہ ہو۔

(8) اور اللہ کے عہد کو پورا کرو ۔۔۔۔۔ ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔

(9) نیز اللہ کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے ‘ لہذا اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کردیں گے ۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم کج روی سے بچو ۔ “

یہاں یہ بات نظر آتی ہے کہ مویشیوں ‘ جانوروں اور پھلوں اور بچوں کی نذر ونیاز کی جو رسوم جاہلیت میں مروج تھیں ان کے جواز اور عدم جواز کے ایک بالکل جزوی مسئلے کو بھی عظیم نظریاتی اور فکری مسائل کے ساتھ جوڑ دیا گیا ۔ اس جواز وعدم جواز کو ہدایت اور گمراہی ‘ اسلامی نظام کے اتباع اور شیطانی نظام کے اتباع اور اللہ کی رحمت اور اللہ کی پکڑ کے مسائل کے ساتھ جوڑ دیا گیا جو زندگی کے اہم ترین مسائل ہیں ۔ یہ قرار دیا گیا کہ ان مسائل سے عقیدہ توحید اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو برابر کرنے کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ قرار دیا گیا کہ جو لوگ غیر اللہ کی نذر ونیاز دیتے ہیں وہ اللہ کے صراط مستقیم سے ہٹ گئے ہیں ۔ اس لئے ان مسائل کی اہمیت کے پیش نظر وہی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں جو ان بلند نظریاتی مسائل کے اظہار کے لئے اختیار کی گئی تھیں ۔

یہ وجہ ہے کہ یہاں اشارات و دلائل کا وہی رنگ اختیار کیا گیا ہے جو قرآن کریم ان مسائل عالیہ کے لئے اختیار کرتا ہے ۔ مسئلہ تخلیق اور مختلف زندہ چیزوں کی اقسام ‘ باغات اور تاکستان ‘ نخلستان اور کھیت ‘ مختلف رنگ اور ذائقے ‘ زیتون ‘ انار ‘ ایک سے ذائقے اور مختلف ذائقے وغیرہ ۔ وہ حقائق بھی لائے گئے جو عقیدہ توحید کے لیے لائے جاتے ہیں اور یہاں مشرکین کے لئے اللہ کے عذاب اور پکڑ کو بھی لایا گیا ہے ۔

یہ تمام مشاہد ومناظر اس سے پہلے بھی اس سورة میں پیش کئے گئے ‘ جب موضوع عقیدہ توحید تھا ۔ اس وقت نذر ونیاز کا مسئلہ زیر بحث نہ تھا ۔ اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ جہاں بات عقیدہ توحید کی ہو اور اللہ کی حاکمیت کا مسئلہ زیر بحث ہو تو قرآن کا انداز ایسا ہی ہوتا ہے چاہے کوئی جزوی مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

اردو ترجمہ

وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر تمہارے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر کر دی، اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جواس کے ہاں طے شدہ ہے مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee khalaqakum min teenin thumma qada ajalan waajalun musamman AAindahu thumma antum tamtaroona

سورة کا آغاز اس مضمون سے ہوتا ہے کہ مشرکین جو اللہ کے ساتھ الہ ٹھہراتے ہیں ان کا موقف نہایت ہی بودا ہے حالانکہ توحید کے دلائل ان کے سامنے ہیں ‘ ہر طرف سے انہیں گھیرے ہوئے ہیں اور وہ اپنے نفوس میں آفاق میں انہیں دیکھ سکتے ہیں ۔ یہ سورة ہمارا استقبال ایک واضح حقیقت الوہیت کے ساتھ کرتی ہے اور چند جھلکیوں کے ذریعے اس پوری کائنات کے اوراق الٹ دیتی ہے ۔ صرف تین جھلکیوں میں ہم اس پوری کائنات کی تہ تک اتر جاتے ہیں اور اس کی وسعت کو اپنے دائرے میں لے لیتے ہیں ۔

یہ تین جھلکیاں ہیں ۔ ایک جھلکی میں اس پوری کائنات کی تخلیق دکھائی جاتی ہے ‘ دوسری میں پوری انسانیت کی تخلیق دکھائی جاتی ہے اور تیسری مین ان دونوں وجودوں کو ذات باری گھیرے ہوئے ہے ۔ کیا اعجاز ہے یہ ! کلام کی شوکت اور زور کو تو دیکھئے کس قدر جامع اور مانع بات ہے !

اس کائنات کے ہوتے ہوئے جو وحدت خالق پر دال ہے ‘ وجود انسانی کے ہوتے ہوئے جو ایک ذات مدبر پر شاہد عادل ہے اور اس کرہ ارض اور کر ات سماوی اور ان کے اندر اللہ کی جاری وساری حاکمیت کے ہوتے ہوئے مشرکین کے شرک اور کرنے والوں کی شک کی کوئی گنجائش از روئے عقل نہیں ہونا چاہئے ۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا یہ رویہ نظام کائنات ‘ انسان کے نفس اور اس کی فطرت اور ایک صحت مند انسان کے دل اور اس کی عقل کی روشنی میں تعجب انگیز ہے ۔

اس لمحے میں اس سورة کے دریا میں ایک دوسری لہر نمودار ہوتی ہے ۔ اس میں جھٹلاتے والوں کا موقف پیش کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ ایسی نشانیوں اور ایسے دلائل کو جھٹلاتے ہیں جو اس پوری کائنات اور خود انسان کے نفس کے اندر بکھرے پڑے ہیں اور موجود ہیں ۔ ان منکرین کے عجیب و غریب موقف کو پیش کر کے انہیں سخت تنبیہ بھی کی جاتی ہے ۔ ان کے سامنے ان منکرین کے نقشے پیش کئے جاتے ہیں جن کے لاشے انسانی تاریخ کی اسکرین پر بکھرے نظر آتے ہیں ۔ اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی قوت قاہرہ کے مقابلے میں ان کی کوئی پوزیشن نہیں ہے ۔ تعجب ہے کہ وہ اللہ کی ایسی ہی کسی پکڑ سے بالکل نہیں ڈرتے ۔ وہ حق مبین کو دیکھتے ہوئے بھی ‘ اپنی سرکشی پر قائم ہیں ۔ اس لہر سے ظاہر ہوتا ہے کہ منکرین دلائل کی کمی کی وجہ سے انکار نہیں کرتے بلکہ ان کی نیت درست نہیں ہے اور ان کے دل قبولیت حق کے لئے ابھی نہیں کھلے ‘ ان کے دلوں کے دروازے بند ہیں ۔ ذرا قرآن کے الفاظ دیکھیں ۔

” لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں ہے جو ان کے سامنے آئی ہو ‘ اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو۔ چناچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا ۔ اچھا ‘ جس چیز کا وہ اب تک مذاق اڑاتے رہے ہیں عنقریب اس کے متعلق کچھ چیزیں انہیں پہنچیں گی ۔ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کا اپنے زمانے میں دور دورہ رہا ہے ؟ ان کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا جو تمہیں نہیں بخشا ‘ ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں (مگر انہوں نے کفران نعمت کیا) تو آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کردیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا ۔ اے پیغمبر ﷺ اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔ کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ۔ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ‘ پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ اور اگر ہم فرشتہ اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل میں اتارتے اور اس طرح انہیں اسی شبہ میں مبتلا کردیتے جس میں اب یہ مبتلا ہیں ۔

اے محمد ﷺ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے ‘ مگر ان مذاق اڑانے والوں پر آخر کار وہی حقیقت مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ۔ ان سے کہو ‘ ذرا زمین پر چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے ۔

اس مقام پر اب ایک تیسری موج اٹھتی ہے اس لہر میں شان الوہیت کا حقیقی تعارف ہے اور اس کا اظہار یوں کیا گیا ہے کہ زمین وآسمانوں اور مافیہا کا مالک ذات باری ہے ۔ رات کے اندھیروں میں اور دن کے اجالوں میں جو کچھ ٹھہرا ہوا ہے وہ اسی کا ہے ۔ اور ایسا رازق ہے جو سب کا کھلا رہا ہے اور اسے کسی جانب سے جوابی کھلانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صرف وہی ولی ہی اور اس کے سوا کوئی اور ولی نہیں ہے بندوں کو چاہئے کہ اپنے آپ کو صرف اس کے حوالے کردیں ۔ یہ وہی تو ہے جو آخرت میں نافرمانوں کو سزا دے گا ۔ وہی ہے جو بندوں کی بھلائی اور مصیبت کا مالک ہے ‘ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اپنے بندوں پر اسے مکمل کنٹرول حاصل ہے ۔ وہ حکیم وخبیر ہے ۔

اس پوری تمہید کے بعد اب یہ لہر اپنی بلندیوں تک پہنچ جاتی ہے ۔ رسول اور اس کی قوم کے درمیان ثبوت واثباث کے بعد مکمل فیصلہ کردیا جاتا ہے ۔ قوم کو ڈرایا جاتا ہے کہ وہ شرک سے دور رہیں اور یہ کہ رسول ان کے شرک کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ یہ اعلان نہایت ہی بلند آہنگی اور نہایت ہی فیصلہ کن انداز میں ہوتا ہے ۔ ذرا قرآن کے الفاظ دیکھیں ‘

” ان سے پوچھو ‘ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے ؟ کہو سب کچھ اللہ کا ہے ‘ اس نے رحم وکرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے ۔ قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا ‘ یہ بالکل ایک غیر مشتبہ حقیقت ہے ۔ مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود تباہی کے خطرے میں مبتلا کرلیا ہے وہ اسے نہیں مانتے ۔ رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں جو کچھ ٹھہرا ہوا ہے ‘ سب اللہ کا ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ۔ کہو ‘ اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنا لوں ؟ اس خدا کو چھوڑ کر جو زمین وآسمانوں کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے اور روزی لیتا نہیں ؟ کہو ‘ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اس کے آگے سرتسلیم خم کروں اور ” تو بہر حال مشرکوں میں شامل نہ ہو “ کہو ‘ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی ۔ اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے ۔ اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے ‘ اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ اپنے بندوں پر کامل اختیار رکھتا ہے اور وہ دانا اور باخبر ہے ۔ ان سے پوچھو کس کی گواہی بڑھ کر ہے ؟ کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ۔ یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ‘ سب کو متنبہ کر دوں ۔ کیا تم لوگ واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی شریک ہیں ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہر گز نہیں دے سکتا ۔ کہو خدا تو وہی ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ “

اب ایک چوتھی لہر اٹھتی ہے ۔ اس میں اس نئی کتاب کے بارے میں اہل کتاب کے رویے کا ذکر ہے ‘ جسے مشرکین نے جھٹلایا ہے ۔ اس لہر میں یہ بتایا گیا ہے کہ شرک ایک عظیم ظلم ہے اور یہ تمام مظالم سے بدتر ہے ۔ اس لہر میں مشرکین کے سامنے قیامت میں ان کو پیش آنے والے واقعات کے منظر کو پیش کیا جاتا ہے ۔ اس منظر میں اہل شرک ان لوگوں سے دریافت کرتے ہیں جنہیں وہ شریک ٹھہراتے تھے ‘ یہ لوگ ان کے اس شرک کا صاف صاف انکار کرتے ہیں ۔ اس لئے ان کی اس افتراء پردازی کے تار وپود بکھر جاتے ہیں ۔ اس لہر میں اہل شرک کے حالات کی تصویر کشی کی جاتی ہے ۔ نظر آتا ہے کہ ان کی قبولیت حق کی فطری قوتیں معطل ہیں ۔ وہ ایمان کے اشارات سے استفادہ کرنے سے قاصر ہیں اس لئے وہ ایمان نہیں لاتے ۔ وہ دلائل نہیں پاتے ‘ اس لئے کہ ان کے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ‘ کیونکہ ان کا دعوی یہ ہے کہ قرآن محض پرانے قصوں پر مشتمل ہے ۔ اس لہر میں ان کو کہا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی ہدایت قبول کرنے سے روکتے ہیں اور خود بھی قرآن سے دور بھاگتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں ۔ ان کے حالات کی تصویر کشی یوں کی جاتی ہے ‘

اس وقت کے حالات کی جب وہ آگ پر کھڑے ہوں گے ‘ اس وقت ان کی سوچ کی کیفیت یہ ہوگی کہ کاش ہمیں دوبارہ دنیا میں لوٹا دیا جاتا اور ہم اپنے رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور اہل ایمان میں شامل ہوجائیں لیکن اگر وہ لوٹا بھی دیئے جائیں تو پھر معاد اور آخرت کا انکار کردیں ۔ تصور کا ایک دوسرا رخ جب وہ اپنے رب کے سامنے پیش ہوتے ہیں ‘ ان سے ان کے اس جحود و انکار کے بارے میں بازپرس ہوتی ہے ۔ حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے گناہوں کو شخص طور پر اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ اس لہر کے آخر میں ان کی حسرت اور پشیمانی کا ذکر ہے ۔ اس ملاقات میں ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حیات دنیا محض لہو ولعب تھی اور آخرت ہی زندگی جاوداں ہے ۔ قرآن کریم کے الفاظ دیکھیں ۔

” جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو اس طرح غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں جیسے ان کو اپنے بیٹوں کے پہچاننے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا ۔ مگر جنہوں نے اپنے آپ کو خود خسارے میں ڈال دیا ہے وہ اسے نہیں مانتے ۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ جھوٹا بہتان لگائے ‘ یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے ؟ یقینا ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے ۔ جس روز ہم ان کو اکٹھا کریں گے اور مشرکین سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم خدا سمجھتے تھے تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ اے ہمارے آقا ! تیری قسم ہم ہر گز مشرک نہ تھے ۔ دیکھو اس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ جھوٹ گھڑیں گے اور وہاں ان کے سارے بناوٹی معبود گم ہوجائیں گے ۔ ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ ہم نے ان کے دلوں پردے ڈال رکھے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کو کچھ نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے ۔ وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ‘ اس پر ایمان لا کر نہ دیں گے ۔ حد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس آکر تم سے جھگڑتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار کا فیصلہ کرلیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک داستان پارینہ کے سوا کچھ نہیں ۔ وہ اس امر حق کو قبول کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور بھاگتے ہیں حالانکہ دراصل وہ خود اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے ۔ کاش تم اس وقت ان کی حالت دیکھ سکتے کہ جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کئے جائیں گے ۔ اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں ۔ درحقیقت یہ بات وہ محض اس وجہ سے کہیں گے کہ جس حقیقت پر انہوں نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اس وقت بےنقاب ہو کر ان کے سامنے آچکی ہوگی ‘ ورنہ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے ۔

وہ تو ہیں ہی جھوٹے ۔ آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہر گز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ۔ کاش وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے ۔ اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا ” کیا یہ حقیقت نہیں ہے ؟ “ یہ کہیں گے ” ہاں ہمارے رب ! یہ حقیقت ہی ہے ۔ “ وہ فرمائے گا ” اچھا تو اپنے انکار کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو “۔۔۔۔ نقصان میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا ۔ جب اچانک وہ گھڑی آجائے گی تو یہی لوگ کہیں گے ” افسوس ! ہم سے اس معاملے میں کیسی تقصیر ہوئی “۔ اور ان کا حال یہ ہوگا کہ اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے ۔ دیکھو کیسا برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں ۔ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے ‘ حقیقت میں آخرت کا مقام ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں ۔ پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لوگے ؟ “

اب اس سورة کے دریا میں پانچویں موج اٹھتی ہے ۔ اس میں روئے سخن رسول اللہ کی طرف مڑ جاتا ہے ۔ آپ کو تسلی دی جاتی ہے اور آپ کے حزن وملال کو دور کیا جاتا ہے ۔ آپ کی پریشانی یہ تھی کہ لوگ آپ کو اور آپ پر نازل ہونے والے کلام کی تکذیب کرتے تھے ۔ آپ کو تلقین کی جاتی ہے کہ آپ انبیائے سابقین کے اسوہ حسنہ کو اپنائیں جن کی تکذیب کی گئی جن کو جھٹلایا گیا اور جن کو اذیت دی گئی ۔ یہا تک کہ اللہ کی نصرت آپہنچی ۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی سنت ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہوتی لیکن اللہ کی سنت اپنے وقت سے پہلے بھی نہیں آتی ۔ اگر آپ ان کے جحود و انکار پر صبر نہیں کرتے تو آپ خود اپنی طرف سے کوئی معجزہ لے آئیں اور یہ سوچیں کہ اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو اللہ ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا ۔ اللہ وحدہ صاحب حکم و تصرف ہے اور اس کی مشیت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ لوگ دعوت حق کو قبول کریں جن کی فطری قوتیں قبولیت حق کی نااہل نہیں ہو چکیں ۔ رہے وہ لوگ جو روحانی طور پر مر چکے ہیں اور ان کے اندر زندگی کی رمق باقی نہیں ہے تو وہ اشارات ہدایت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور سچائی کو قبول نہیں کرتے ۔ ایک دن آنے والا بہرحال ہے اور وہ سب اٹھ کر اس کے سامنے پیش ہوں گے ۔

” اے محمد ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں مگر اس تکذیب پر اور ان اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں انہوں نے صبر کیا ‘ یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی ۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ چکی ہیں ۔ تاہم اگر ان لوگوں کی بےرخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو۔ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کرسکتا تھا لہذا نادان مت بنو ۔ دعوت حق پر لبیک وہی کہتے ہیں جو سننے والے ہیں ‘ رہے مردے تو انہیں تو بس اللہ قبروں سے اٹھائے گا اور پھر وہ واپس لائے جائیں گے ۔ “

یوں اس سورة میں کلام کی روانی موج در موج کی صورت میں چلتی ہے اور اس انداز میں جس کے نمونے ہم نے قارئین کے سامنے رکھے ۔ ان نمونوں سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس سورة کا مزاج کیسا ہے نیز اس سے سورة کے موضوع کے بارے میں بھی اچھی طرح روشنی حاصل ہوجاتی ہے ۔ اس کی بعض لہریں ان سے بھی اونچی ہیں جن کو ہم نے بطور نمونے درج کیا ۔ بعض مقامات میں ان کا بہاؤ اور ٹکراؤ زیادہ پر جوش اور شدید ہے ۔ ہمارے لئے ممکن نہیں ہے کہ اس پوری سورت کا تنقیدی جائزہ اور تعارف ان مختصر الفاظ میں کرسکیں ۔ بہرحال اس کا ایک دوسرا پہلو اگلے پیراگراف میں دیکھیں ۔

اس سے پہلے ہم یہ بات کہہ آئے ہیں کہ یہ سورة اپنے مرکزی موضوع کو نہایت ہی منفرد انداز میں پیش کرتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ سورة ہر لمحہ میں ‘ ہر موقف میں اور ہر منظر میں آنکھوں میں چکا چوند کرنے والا حسن لیے ہوئے ہے ۔ جب انسان اس کے مناظر ‘ اس کے اثرات ‘ اور اس کے اشارات کو پے درپے دیکھتا ہے تو نفس انسانی انہیں اپنا حصہ بنا لیتا ہے اس کے تمام اثرات کو پلے باندھ لیتا ہے اور ہدایت کی روشنی حاصل کرلیتا ہے ۔

ب ہم قارئین کے سامنے بعض ایسی آیات رکھتے

ہیں جن سے یہ حقائق براہ راست قرآنی اسلوب میں نظر آئیں اس لیے کہ تبصرے کے ذریعے ہم جس قدر تعریف بھی کریں وہ براہ راست قرآنی آیات کے مطالعے کے مقابلے میں کم ہی مفید ہوتی ہے ۔ آیات کا براہ راست اثر کچھ اور ہی ہوتا ہے ۔

مقام الوہیت کا بیان ‘ لوگوں کو اپنے سچے رب سے متعارف کرانا اور لوگوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کے دائرے میں لانا اس سورة کا مرکزی موضوع اور محور ہے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے مختلف مواقع اور مواقف پر قرآن کریم اس موضوع کو کس طرح لیتا ہے ۔

شہادت اور فیصلہ کن موقف کے وقت ‘ جہاں قلب مومن میں مقام الوہیت اچھی طرح بیٹھ جاتا ہے ‘ جہاں مخالفین کے سامنے صاف صاف یہ موقف واضح کردیا جاتا ہے نہایت ہی قوت اور نہایت ہی یقین کے ساتھ تو قرآن کا اسلوب یہ ہوتا ہے :

(آیت) ” نمبر 2 :

” وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ‘ پھر تمہارے لئے زندگی کی ایک مدت مقرر کردی ‘ اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جو اس کے ہاں طے شدہ ہے ، مگر تم لوگ ہو جو شک میں پڑے ہوئے ہو ۔

کائنات کے بعد اب اس کائنات کے اندر وجود انسانی کی جھلکی دکھائی جاتی ہے ۔ پہلے اس کائنات اور اس میں پیدا ہونے والے بڑے مظاہر روز وشب کو غور و فکر کے لئے پیش کیا گیا تھا ۔ اس بےجان کائنات کے اندر ایک جاندار اور شاندار مخلوق انسانی کو غور فکر کے لئے پیش کیا جاتا ہے کہ ایک بےجان اور تاریک مٹی کے اندر انقلاب برپا کر کے اللہ نے اسے ایک زندہ اور تروتازہ مخلوق کو پیدا کیا ۔ دونوں جھلکیوں کے اندر دو اور جھلکیاں بھی ہیں ‘ ایک یہ کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ اس زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا اور دوسرے یہ کہ بیک وقت یہ تمام مردہ لوگ میدان حشر میں جمع ہوں گے ۔ تمام مردہ اور ساکن لوگ بیک وقت جنبش میں آجائیں گے اور میدان حشر برپا ہوگا جس میں ہر طرف حرکت ہی حرکت ہوگی جس طرح مٹی ساکن اور ہر جاندار متحرک ہوتا ہے ۔ ان مردوں اور زندوں کے درمیان اپنی حقیقت کے اعتبار سے بہت بڑا فرق اور فاصلہ ہے ۔ ان تمام مناظر ومظاہر کا تقاضا تو یہ تھا کہ ایک سلیم الفطرت انسان کا کاسہ دل ایمان سے لبریز ہوجاتا اور وہ اللہ کے سامنے ایک دن پیش ہونے کا یقین کرلیتا لیکن اس سورة کے مخاطب اہل کفر اس کے باوجود اس میں شک کرتے ہیں ۔ (آیت) ” ثم انتم تمترون (2 : 2) ” مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو ۔ “ تیسری جھلکی کی نوعیت یہ ہے کہ وہ ان تمام سابقہ مظاہر کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ یہ پوری کائنات ‘ یہ پوری زندگی اور پھر خصوصا پورا عالم انسانیت اللہ کے دائرہ حکومت میں داخل ہے ۔

اردو ترجمہ

وہی ایک خدا آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی، تمہارے کھلے اور چھپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو اس سے خوب واقف ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa Allahu fee alssamawati wafee alardi yaAAlamu sirrakum wajahrakum wayaAAlamu ma taksiboona

(آیت) ” نمبر 3 :

” وہی ایک خدا آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی ‘ تمہارے کھلے اور چھپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو اس سے خوب واقف ہے ۔ “

وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ‘ وہی آسمانوں اور زمین کی حاکم مطلق ہے ۔ اس حق حاکمیت میں وہ منفرد ہے ۔ زمین و آسمان دونوں پر اس کی حکومت کو تسلیم کیا جانا چاہئے ۔ اللہ کی شان حاکمیت ‘ زمین و آسمان میں پوری طرح جاری وساری ہے ۔ یوں کہ زمین و آسمان میں اللہ کا جاری کردہ ناموس کائنات ان پر پوری طرح حاوی ہے اور وہ اس سے سرتابی نہیں کرسکتے ۔ اسی طرح اللہ کی منشا یہ ہے کہ انسانوں کی زندگی کے اندر بھی اللہ کا حکم ‘ قانون اور شریعت جاری ہو ‘ اس لئے کہ جس طرح اللہ نے ذمین و آسمان کی تخلیق فرمائی ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی پیدا کیا ہے ۔ انسانی اپنی ابتدائی تخلیق کے وقت اس زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ۔ اس کے اندر وہ خصائص رکھے گئے جن کی وجہ سے وہ انسان بنا اور اس زمین ہی سے اس کے رزق کا بھی بندوبست کیا گیا ۔ یہ انسان اپنی جسمانی تخلیق کے زاویہ سے بھی اسی قانون قدرت کا تابع ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذات کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا ‘ نہ اس کی ماں اور باب کی مشیت اور ارادے کا اس میں کوئی دخل ہوتا ہے ۔ وہ دونوں باہم ملتے ضرور ہیں لیکن وہ بچے میں روح نہیں ڈال سکتے نہ جنین کو وجود بخش سکتے ہیں ۔ یہ بچہ ان تمام قوانین قدرت کے مطابق مدت حمل پوری کرکے اس ناموس فطرت کے مطابق بطن مادر سے باہر آتا ہے جو اس کے لئے رب ذوالجلال نے تجویز کیا ہے ۔ وہ اس ہوا میں سانس لیتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیمانوں کے مطابق بنایا ہے اور وہ اسی قدر اور اسی کیفیت کے مطابق سانس لیتا ہے جو اللہ کے قانون قدرت نے وضع فرمائے ۔ اس کا احساس رنج والم ‘ اس کا بھوک اور پیاس کا احساس ‘ اس کا کھانا اور پینا اور عام طور پر زندہ رہنا عین ناموس فطرت کے مطابق ہوتا ہے ۔ اس میں اس کے ارادے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ۔ اپنے فطری وجود کے اعتبار سے انسان اور زمین و آسمان کی فطرت اور ناموس کے اندر کوئی فرق نہیں ہے ۔

اللہ وہ ذات ہے کہ انسان کے بھیدوں سے بھی واقف ہے ۔ اور اس کی ظاہری باتوں سے بھی واقف ہے ۔ وہ جو اعمال بھی کرتا ہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا خفیہ ہوں ان سب سے اللہ اچھی طرح باخبر ہے اس لئے حق تو یہ ہے کہ وہ اللہ کے اس ناموس اور قانون کا بھی اتباع کرے جو اللہ نے اس کی اختیاری زندگی کے لئے تجویز کیا ہے ۔ وہ اپنے نظریات وزندگی جو ناموس تکوینی کے اندر جکڑی ہوئی ہے اور وہ زندگی جو اختیاری ہے دونوں میں وہ اللہ کی شریعت کے تابع ہو ‘ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائیں ۔ ان دونوں زندگیوں کے اندر کوئی تضاد اور کشمکش نہ ہو ‘ کوئی عملی تصادم نہ ہو اور یہ دونوں ناموس باہم تکڑا کر پاش پاش نہ ہوجائیں کہ اس کائنات اور زندگی میں الہی ناموس ہو اور اختیاری اور قانون اور شرعی زندگی طاغوتی اور غیر اسلامی بنیادوں پر استوار نہ ہو۔

درس نمبر 56 ایک نظر میں :

افتتاح سورة کے بعد یہ ایک دوسری لہر ہے ۔ پہلی لہر کے اثرات نہایت ہی دور رس تھے ۔ اس نے اس پوری کائنات کو حقیقت وجود باری سے بھر دیا تھا ۔ صرف زمین و آسمان کی تخلیق اور نور وظلمت کے ظہور سے اس میں اس حقیقت پر استدلال کیا گیا ۔ پھر یہ بتایا گیا کہ اس تاریک مادے سے اللہ نے انسان جیسی مخلوق کو پیدا کیا ۔ اس کی زندگی کے خاتمے کے لئے ایک مقررہ وقت دیا اور بتایا گیا کہ بعث بعد الموت کے لئے بھی ایک وقت مقرر ہے جس کا سوائے اللہ کے کسی کو علم نہیں ہے ۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ ذات باری لوگوں کے تمام افعال واقوال کو جانتی ہے ۔ وہ چھپے اور ظاہر سے بھی واقف ہے اور ان کے پورے اعمال سے باخبر ہے ۔

وجود باری جو انفس اور آفاق میں تاباں ہے ‘ وہ منفرد اور واحد وجود ہے ۔ اس جیسا کوئی دوسرا وجود نہیں ہے اللہ کے سوا کوئی اور خالق نہیں ہے ۔ وہ بھرپور ‘ روشن اور نہایت ہی چھایا ہوا وجود حق ہے ۔ ان آیات و دلائل کی روشنی میں اس کی تکذیب نہایت ہی مکروہ فعل ہے جس کی کوئی سند نہیں ہے اور یہ منکر معذور تصور ہوگا ۔

اس لئے اس لہر میں مشرکین کے موقف کو اس وجود برحق کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے کہ یہ لوگ دعوت اسلامی کا انکار ایسے حالات میں کر رہے ہیں کہ ذات باری پر روشن دلائل ان کے انفس وآفاق میں واضح طور پر موجود ہیں ‘ اس لئے ان کا یہ موقف نہایت ہی مکروہ اور ناپسندیدہ ہے ۔ ان منکرین کا یہ طرز عمل خود ان کے اپنے احساس و شعور کی رو سے بھی مکروہ ہے اس لئے کہ قرآن ان کے سامنے یہ دلائل پیش کر رہا تھا ۔ چناچہ پہلے ہی معرکے میں قرآن کریم انہیں شکست دے دیتا ہے اور لوگوں کی فطرت کی گہرائیوں کے اندر اس سچائی کو اتار دیتا ہے اگرچہ بظاہر وہ مکابرہ میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن دراصل عناد کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں ۔

قرآن کریم اس عہد میں ان کے عناد اور غرور اور مکابرہ کی ایک تصویر کبھی تو نہایت ہی تہدید آمیز لہجے میں اور تلخ نوائی کے ساتھ پیش کرتا ہے اور کبھی ان کو یوں دعوت دیتا ہے کہ ذرا اس سے پہلے کے جھٹلانے والوں کے انجام کی تاریخ پر غور کرو ۔ جس میں بیشمار سامان عبرت وبصیرت ہے ۔ بعض اوقات ان جھٹلانے والوں کا انجام بھی سامنے رکھ دیتا ہے اور بیشمار ہدایات واشارات فراہم کردیتا ہے ۔

اردو ترجمہ

لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں جو ان کے سامنے آئی ہو اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama tateehim min ayatin min ayati rabbihim illa kanoo AAanha muAArideena

(آیت) ” نمبر 4 تا 6۔

ان لوگوں نے عناد اور باطل پہ اصرار کرنے کے موقف کو اپنایا ‘ حالانکہ ایسے دلائل اور نشانیوں کی کمی نہ تھی جن کو دیکھ کر وہ ایمان لاتے اور نہ ایسے دلائل اور نشانات کی کمی تھی جن سے معلوم ہوتا کہ پیغمبروں کی دعوت نہایت ہی سچی دعوت ہے ‘ نہ یہ بات تھی کہ اس دعوت اور داعی کی سچائی پہ دلائل کی کوئی کمی تھی ۔ وجود باری پر دلائل وبراہین بھی موجود تھے ۔ غرض ان چیزوں کی ان کے ہاں کوئی کمی نہ تھی بلکہ جس چیز کی کمی تھی وہ یہ تھی کہ وہ مان کر نہ دیتے تھے ۔ وہ باطل پر مصر تھے ‘ تحریک سے عناد رکھتے تھے اور اس روگردانی کی وجہ ان کے لئے اس دین اور تحریک میں غور وفکر کرنے کے مواقع جاتے رہے ۔

(آیت) ” وَمَا تَأْتِیْہِم مِّنْ آیَۃٍ مِّنْ آیَاتِ رَبِّہِمْ إِلاَّ کَانُواْ عَنْہَا مُعْرِضِیْنَ (4)

” لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں ہے جو ان کے سامنے آئی ہو ‘ اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو۔ “ جب صورت حالات یہ ہوجائے کہ لوگ جان بوجھ کر حق سے روگردانی اختیار کریں ‘ جب کہ ان کے پاس آیات و دلائل موجود ہوں ‘ حقائق ان پر روز روشن کی طرح واضح ہوچکے ہوں تو پھر بعض اوقات ڈر اوا اور تہدید ان کی آنکھیں کھول دیتی ہے ۔ ایک جھٹکے سے آنکھ کھل جاتی ہے اور فطرت کے دریچے کھل جاتے ہیں ‘ بشرطیکہ غرور اور عناد کے پردے حائل نہ ہوں ۔

(آیت) ” فَقَدْ کَذَّبُواْ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاء ہُمْ فَسَوْفَ یَأْتِیْہِمْ أَنبَاء مَا کَانُواْ بِہِ یَسْتَہْزِئُونَ (5)

” چناچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا ۔ اچھا ‘ جس چیز کا وہ اب تک مذاق اڑاتے رہے ہیں عنقریب اس کے متعلق کچھ چیزیں انہیں پہنچیں گی ۔ “

زمین وآسمانوں کے خالق کی طرف سے جو ہدایت آئی وہ سچائی تھی ۔ روشنی اور تاریکی پیدا کرنے والے کی طرف سے سچائی تھی ‘ جس نے انسان کو کیچڑ سے پیدا کیا ۔ جو آسمانوں کا بھی حاکم ہے اور زمین کا بھی حاکم ہے جو ان کے کھلے اور پوشیدہ سب امور سے واقف ہے ۔ وہ جو کچھ بھی کماتے ہیں ان سے واقف ہے ۔ وہ سچائی ہے اور انہوں نے سچائی کو جھٹلایا ہے ۔ اب وہ اس تکذیب پر اصرار کر رہے ہیں ‘ آیات الہی سے روگردانی کرتے ہیں ‘ دعوت اسلامی کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔ لہذا انہیں چاہئے کہ وہ اب اس بات کے انجام اور آخری خبر کا انتظار کریں۔

اب یہ ایک نہایت ہی اجمالی تہدید اور ڈراوا ہے جس کی نہ تفصیلات دی گئی ہیں اور نہ اس انجام بد کا کوئی وقت مقرر کیا گیا ہے ۔ انہیں صرف یہ تاثر دیا گیا ہے کہ وہ ہر وقت اس انجام کا انتظار کریں ۔ ان پر عذاب الہی کس بھی وقت آسکتا ہے ۔ ان پر سچائی کھل جائے گی اور وہ اپنی آنکھوں سے عذاب کو دیکھ لیں گے ۔

اس تہدید اور ڈراوے کے مقام پر انہیں یاد دلایا جاتا ہے ‘ انہیں متوجہ کیا جاتا ہے کہ ذرا پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھیں اور ذرا نگاہ ڈالیں کہ انسانی تاریخ میں جھٹلانے والوں کا انجام کیا رہا ہے ؟ ان میں سے بعض لوگوں کے انجام سے وہ واقف بھی تھے ۔ احقاف میں قوم عاد کا جو انجام ہوا اور حجر میں قوم ثمود کا جو انجام ہوا ‘ اس کی داستانیں ان کے ہاں مشہور تھیں ۔ جب عرب گرمیوں میں شمال کی طرف جاتے اور سردیوں میں جنوب کی طرف سفر کرتے تو ان اقوام کے کھنڈرات کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ۔ قوم لوط پر جہاں تباہی آئی وہ مقامات بھی انہیں معلوم تھے اور ان کے اردگرد رہنے والے لوگ ان مقامات سے واقف تھے لہذا یہاں ان کی توجہ ان حقائق کی طرف مبذول کرائی جاتی ہے ۔

(آیت) ” أَلَمْ یَرَوْاْ کَمْ أَہْلَکْنَا مِن قَبْلِہِم مِّن قَرْنٍ مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الأَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّن لَّکُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاء عَلَیْْہِم مِّدْرَاراً وَجَعَلْنَا الأَنْہَارَ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہِمْ فَأَہْلَکْنَاہُم بِذُنُوبِہِمْ وَأَنْشَأْنَا مِن بَعْدِہِمْ قَرْناً آخَرِیْنَ (6)

” کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کا اپنے زمانے میں دور دورہ رہا ہے ؟ ان کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا جو تمہیں نہیں بخشا ‘ ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں (مگر انہوں نے کفران نعمت کیا) تو آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کردیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا ۔ “

کیا یہ لوگ گزری ہوئی اقوام کے انجام بد سے عبرت نہیں لیتے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کو اس کرہ ارض پر بہت ہی بڑا قتدار عطا کیا تھا ۔ انہیں قوت اور سلطنت کے اسباب فراہم کئے تھے ۔ اور وہ اس قدر ترقی یافتہ اور قوی تھی کہ قرآن کے مخاطبین اہل قریش اور ان کے درمیان کوئی مماثلت ہی نہ تھی ان پر پے در پے بارشیں ہوتی تھیں ‘ ان کی سرزمین تروتازہ تھی اور ہر قسم کی پیداوار کی فراوانی تھی ۔ پھر کیا ہوا ؟ انہوں نے اپنے رب کی نافرمانی شروع کردی ۔ اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑا ۔ ان کو تباہ کر کے ان کی جگہ دوسری اقوام کو منصہ شہود پر لایا گیا اور زمین کا اقتدار ان کے حوالے کردیا گیا ۔ اس زمین نے جانے والوں پر کوئی ماتم نہ کیا اس لئے کہ زمین کے وارث اب دوسرے لوگ تھے ۔ ذرادیکھئے کہ ان مکذبین اور روگردانی کرنے والوں کی حیثیت ہی کیا رہی ہے ۔ اللہ کے ہاں وہ کس قدر ہلکے ہیں اور اس زمین پر وہ کس قدر ہلکے ہیں ۔ وہ ہلاک کردیئے گئے ‘ نیست ونابود ہوگئے اور اس زمین کو کوئی احساس ہی نہ ہوا ۔ اور نہ یہ زمین خالی رہ گئی ‘ اس خلا کو دوسری اقوام نے پر کردیا اور یہ زمین اس طرح گردش کرتی رہی کہ گویا یہ مٹنے والی اقوام کبھی اس پر بسی ہی نہ تھیں اور زندگی اس طرح چلتی رہی کہ گویا سابقہ لوگ کبھی زندہ ہی نہ تھے ۔

جب اللہ کسی کو اس کرہ ارض پر تمکن عطا کرتا ہے تو صاحبان اقتدار سب سے پہلے اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ یہ اقتدار انہیں اللہ کی مرضی سے نصیب ہوا ہے اور یہ ان کے لئے ایک بڑی آزمائش ہے ۔ آزمائش یہ کہ آیا وہ اس اقتدار کو اللہ کے عہد اور شرط کے مطابق استعمال کرتے ہیں اور اس میں وہ صرف اللہ کی بندگی کرتے ہیں اور صرف اسی سے ہدایات لیتے ہیں اس لئے کہ وہی تو اس اقتدار کا اصل مالک ہے اور انسان تو اس کا خلیفہ ہے یا وہ اپنے آپ کو طاغوت کا منصب دیتے ہیں اور اپنے لئے اللہ کے اختیارات حاصل کرتے ہیں اور وہ ان اختیارات کو بطور خلیفہ استعمال نہیں کرتے بلکہ بطور مالک خود مختار استعمال کرتے ہیں ۔

یہ وہ حقیقت ہے جسے انسان بھول جاتے ہیں ‘ الا یہ کہ کوئی اللہ کی جانب سے محفوظ کردیا گیا ہو ۔ جب انسان اس حقیقت کو بھول جائیں تو وہ اللہ کے عہد اور اس کے خلیفہ فی الارض ہونے کی شرائط سے صرف نظر کرنے لگتے ہیں اور سنت الہیہ کے خلاف جاتے ہیں ۔ پہلے پہل انہیں احساس نہیں ہوتا کہ اس انحراف کے نتائج کیا ہوں گے ‘ چناچہ ان کے اندر آہستہ آہستہ فساد رونما ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ انہیں اس کا شعور بالکل نہیں ہوتا ‘ یہاں تک کہ وقت مقررہ تک وہ پہنچ جاتے ہیں اور اللہ کا وعدہ آجاتا ہے ۔ ان کے انجام پھر مختلف ہوتے ہیں ‘ بعض اوقات ان پر ایسا عذاب آتا ہے کہ انہیں بیخ وبن سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے ۔ یہ عذاب کبھی آسمان سے آتا ہے اور کبھی نیچے زمین سے آتا ہے ۔ دنیا کی کئی اقوام کو اس عذاب کے ذریعے تباہ کیا گیا اور بعض اوقات یہ عذاب قحط سالی اور خشک سالی کی صورت میں آتا ہے ۔ پھل اور پیداوار ختم ہوجاتے ہیں اور لوگ بھوکے مرنے لگتے ہیں ۔ کئی اقوام عالم اس عذاب سے دو چار ہوئیں ۔ بعض اوقات وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہیں اور ہر ایک دوسرے کے لئے عذاب بن جاتا ہے بعض دوسروں کو مبتلائے عذاب کرتے ہیں ‘ بعض اقوام دوسروں کو نیست ونابود کردیتی ہیں ۔ بعض دوسروں کو اذیت دیتی ہیں اور کئی دوسروں کو امن نہیں دیتے ۔ اس طرح انکی قوت اور شوکت ختم ہوجاتی ہے ‘ اور اللہ ان پر پھر اپنے دوسرے بندوں کو مسلط کردیتا ہے جو یا تو اللہ کے فرمانبردار ہوتے ہیں اور یا نافرمان ہوتے ہیں ۔ وہ ان کی قوت کو توڑ کر انہیں اس اقتدار اعلی سے محروم کردیتے ہیں جس پر ان کو متمکن کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد اللہ کچھ نئے لوگوں کو تمکین فی الارض عطا کرتا ہے تاکہ اب ان کی آزمائش کا دور شروع ہو ۔ یوں سنت الہیہ کا دور چلتا ہے اور دنیا میں نیک بخت اقوام وہ ہوتی ہیں جو سنت الہیہ کا ادراک رکھتی ہیں ۔ جو یہ سمجھتی ہیں کہ یہ ایک آزمائش ہے ۔ وہ اللہ کے عہد کا پاس رکھتی ہیں ۔ بدبخت اقوام دہ ہوتی جو اس حقیقت سے غافل ہوتی ہیں اور یہ گمان کرنے لگتی ہیں کہ یہ اقتدار انہیں خود ان کے علم و کمال کی وجہ سے ملا ہے یا کسی حیلے اور تدبیر سے ملا یا اتفاقا بغیر کسی منصوبے کے انہیں مل گیا ہے ۔

لوگوں کو یہ امر دھوکے میں ڈالتا ہے کہ وہ ایک باغی و سرکش ‘ ایک بدکار اور مفسد اور ایک ملحد اور کافر کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس کرہ ارض پر مقتدر اعلی ہے اور اس پر اللہ کی جانب سے کوئی مواخذہ نہیں ہو رہا ہے ۔ وہ مایوس ہوجاتے ہیں ‘ لیکن ایسے لوگ جلد بازی سے کام لیتے ہیں ۔ وہ راستہ کا ابتدائی حصہ دیکھتے ہیں ‘ درمیانی حصہ بھی دیکھتے ہیں لیکن ان کی جب ایسے سرکشوں پر اللہ کا عذاب آتا ہے تو وہ نیست ونابود ہوجاتے ہیں اور انکے بارے میں محض قصے اور کہانیاں ہی رہ جاتی ہیں ‘ تب حقیقت نظر آتی ہے ۔ قرآن کریم ایسے لوگوں کے ہونے والے انجام کے کچھ مظاہر پیش کرتا ہے تاکہ ایسے غافل سرکشوں کو ہوش آجائے ‘ کیونکہ ایسے لوگ اپنے انفرادی حالات میں اس قدر مست ہوتے ہیں کہ انہیں منزل مقصود اور اپنا آخری انجام نظر نہیں آتا ۔ یہ لوگ بس اس مختصر زندگی کو دیکھ سکتے ہیں اور اسے ہی آخری منزل سمجھتے ہیں ۔

قرآن کریم کی یہ آیت (فاھلکنھم بذنوبھم (6 : 6) اور اس جیسی دوسری آیات بار بار دہرائی گئی ہیں ۔ ایسی آیات میں اللہ کی ایک ناقابل تبدیل سنت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور ان میں اسلام کے نظریہ تاریخ کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے ۔

ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ سنت الہیہ یہ ہے کہ بدکار لوگوں کو آخر کار ان کی اس بدکاری کی وجہ سے ہلاک اور برباد کردیا جاتا ہے ۔ ان پر یہ ہلاکت اور بربادی اللہ کی جانب سے آتی ہے اور یہ سنت اس کائنات میں ہمیشہ کے لئے جاری وساری ہے ۔ اگرچہ ایک فرد اپنی مختصر زندگی میں اسے نہ سمجھ سکے ۔ یا ایک محدود اور متعین نسل کی زندگی میں یہ ہلاکت نہ آئے ۔ لیکن یہ ایک ایسی سنت الہیہ ہے کہ جب کسی قوم میں جرائم اور بدکاریاں بہت زیادہ ہوجاتی ہیں اور پوری زندگی کا نظام بدکاری اور جرائم پر قائم ہو ‘ تو پھر اللہ کی جانب سے عذاب ضرور آتا ہے ۔ اسلام کا نظریہ تاریخ یہ ہے کہ اقوام کے عروج وزوال میں اصل اور موثر عالم (FActor) یہ ہوتا ہے کہ ان کے جسم میں جب بدکاری اور جرائم سرایت کر جاتی ہیں تو یہ تباہی اور بربادی کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ یہ تباہی یا تو آفات سماویہ کے ذریعے سے ہوتی ہے جیسا کہ قدیم تاریخ میں یہ واقعات رونما ہوئے یا نہایت ہی تدریجی تباہی کے ذریعے طبعی طور پر ‘ جس طرح کسی جسم پر عارضی طور پر زوال آتا ہے جب وہ بدکاری اور جرائم میں کانوں تک ڈوب جاتے ۔

انسان کی جدید تاریخ میں ہمارے سامنے اس زوال کی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں اقوام پر اخلاقی بےراہ روی ‘ بدکرداری اور فحاشی ‘ عیاشی اور اسراف اور لہو ولعب کی وجہ سے تباہی آئی ۔ مثلا یونان کی تباہی کے یہی عوامل تھے ۔ اس کے بعد رومیوں کی تباہی اور زوال کے یہی اسباب تھے ۔ یہ اقوام اپنے عروج کے باوجود اس طرح مٹ گئیں کہ اب انکے صرف قصے کہانیاں ہی رہ گئیں ۔ جدید ترقی یافتہ اقوام کے اندر بھی اس عظیم تباہی اور زوال کے اسباب نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں مثلا فرانس اور برطانیہ کا زوال شروع ہوچکا ہے حالانکہ مادی جنگی اور تکنیکی قوت کے اعتبار سے وہ عروج پر ہیں اور نہایت ہی ترقی یافتہ اور دولتمند ہیں ۔

تاریخ کی مادی تفسیر لکھنے والوں اور اقوام کے عروج وزوال کی داستانیں لکھنے والوں کی نظر سے تاریخ کا یہ اخلاقی پہلو غائب ہے ‘ اس لئے کہ مادی نقطہ نظر رکھنے والے کی گناہوں سے شروع ہی سے اخلاقی عناصر اوجھل رہتے ہیں ۔ اصل الاصول یعنی سنت الہیہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہے ۔ جو لوگ تاریخ کی تفسیر اور اس پر تبصرہ صرف مادی نقطہ نظر سے کرتے ہیں اور اقوام کے عروج وزوال کے سلسے میں نہایت ہی مضحکہ خیز باتیں کرتے ہیں ۔ حالانکہ اقوام کے عروج وزوال کے بعد واقعات کی معقول تفسیر صرف اعتقادی اور اخلاقی زاوے ہی سے کی جاسکتی ہے ۔

اسلام کا تاریخی نقطہ نظر نہایت جامع ‘ حقیقت پسندانہ اور سچا ہے اور وہ اپنی اس جامعیت کی وجہ سے مادی عنصر کو اسلامی نقطہ نظر کا تعلق ہے ‘ وہ زوال اقوام میں مادی زوال کو بھی اہمیت دیتا ہے ۔ تاہم اسلام دوسرے عوامل کو بھی لیتا ہے جن کا انکار صرف معاندین ہی کرتے ہیں ۔ اسلام نے سب سے پہلے اللہ کی سنت اور اللہ کی تقدیر کو اصل عامل قرار دیتا ہے ۔ پھر انسان کے داخلی شعور ‘ جذبات اور تصورات اور نظریات کو اس کا سبب قرار دیتا ہے ۔ تاہم اسلام دوسرے عوامل کو بھی لیتا ہے جن کا انکار صرف معاندین ہی کرتے ہیں ۔ اسلام نے سب سے پہلے اللہ کی سنت اور اللہ کی تقدیر کو اصل عامل قرار دیتا ہے ۔ پھر انسان کے داخلی شعور ‘ جذبات اور تصورات اور نظریات کو اس کا سبب قرار دیتا ہے ۔ اس کے بعد اسلام لوگوں کی عام اخلاقی اور عملی زندگی کو بھی اس میں اہمیت دیتا ہے اور وہ ان اسباب وعلل میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں کرتا جو کسی قوم کے عروج وزوال کا سبب بنتی ہیں۔ (تفیصلات کے لئے دیکھئے الا سلام ومشکلات الحضارۃ ۔ النطور والنبات فی حیات البیرہ ۔ خصائص التصور الاسلامی وھو مائہ التصویر الفنی فی القرآن)

اب اگلی آیات میں ان لوگوں کے اس عناد کی تصویر کشی کی جاتی ہے ‘ جس کی وجہ سے یہ بیماری لاحق ہوتی ہے ۔ اس تصویر کشی میں انسانوں کی ایک عجیب قسم پیش کی جاتی ہے ۔ انسانوں کی یہ قسم صرف ماضی یا کسی ایک زمانے تک محدود نہیں ہے ‘ اس قسم کے لوگ تاریخ میں بار بار دہرائے جاتے ہیں ۔ ہر زمانے میں ہر جگہ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ ہر نسل اور ہر خاندان میں نمونے موجود ہوتے ہیں ۔ یہ ہٹ دھرم قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ سچائی ان کی آنکھوں کو پھاڑتی ہے لیکن یہ اسے دیکھ نہیں پاتے ۔ یہ لوگ ایسے امور کا بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ انکار کرتے ہیں جن کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے امور جو اس قدر واضح ہوتے ہیں کہ ان کے انکار کی وجہ سے منکر کو کم از کم شرم آتی ہے ۔ قرآن کریم اس قسم کے نمونے کا بڑی وضاحت سے ذکر کرتا ہے ۔ مختصر کلمات میں عجیب انداز میں جو انوکھا بھی ہے اور معجزانہ بھی ہے جس طرح قرآن کریم کا انداز تعبیر بالعموم اعجاز کا حامل ہوتا ہے ۔

اردو ترجمہ

چنانچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا اچھا، جس چیز کا وہ اب تک مذاق اڑاتے رہے ہیں عنقریب اس کے متعلق کچھ خبریں انہیں پہنچیں گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faqad kaththaboo bialhaqqi lamma jaahum fasawfa yateehim anbao ma kanoo bihi yastahzioona

اردو ترجمہ

کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانہ میں دور دورہ رہا ہے؟ اُن کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے، ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں، (مگر جب انہوں نے کفران نعمت کیا تو) آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کر دیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam yaraw kam ahlakna min qablihim min qarnin makkannahum fee alardi ma lam numakkin lakum waarsalna alssamaa AAalayhim midraran wajaAAalna alanhara tajree min tahtihim faahlaknahum bithunoobihim waanshana min baAAdihim qarnan akhareena

اردو ترجمہ

اے پیغمبرؐ! اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaw nazzalna AAalayka kitaban fee qirtasin falamasoohu biaydeehim laqala allatheena kafaroo in hatha illa sihrun mubeenun

(آیت) ” نمبر 7۔

یہ لوگ آیات الٰہی کا انکار اس لئے نہیں کرتے کہ ان آیات کی صداقت کی دلیل میں کوئی کمزوری ہے یا اس کے ادراک میں کوئی پیچیدگی ہے یا یہ کہ مختلف دماغ اس کے بارے میں ایک طرح نہیں سوچتے بلکہ وہ ہٹ دھرمی اور مکابرہ کی وجہ سے اور کھلے عناد کی وجہ سے انکار کرتے ہیں ۔ انہوں نے دلیل وبرہان پر غور کرنے سے پہلے ہی اس حقیقت کے انکار کی ٹھان لی ہے ۔ اگر نزول قرآن کی صورت یہ ہوتی کہ وہ آسمان سے پرچوں کی شکل میں اترتا اور وہ اپنے ہاتھوں سے اسے چھوتے اور آنکھوں سے دیکھتے اور یہ نہ ہوتا کہ بذریعہ وحی حضور ﷺ پر آتا اور آپ اسے سناتے تو اس صورت میں بھی وہ اس محسوس اور مشاہد حقیقت کے بارے میں یوں کہتے : (آیت) ’‘’ ان ھذا لا سحر مبین (6 : 7) ” یہ تو صریح جادو ہے ۔ “ یہ ان لوگوں کی ایسی مکروہ تصویر ہے کہ انسانی فطرت کو اس سے گھن آتی ہے ۔ یہ ایک ایسی تصویر ہے جسے دیکھتے ہی ہر انسان ان کے مٹانے کے لئے آگے بڑھتا ہے ‘ اس لئے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ بحث و تکرار اور دلیل و استدلال کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس انداز میں اس تصویر کشی کے دو فائدے ہیں بلکہ کئی فائدے ہیں (تصویر کشی کا یہ انداز اس طرح ہے کہ قرآن کریم عام طور پر دیکھے جانے والے نمونے کو سامنے لاتا ہے)

ایک تو یہ فائدہ ہے کہ قرآن کریم خود ان لوگوں کے سامنے ان کا یہ کریہہ اور ناپسندیدہ موقف پیش کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ دیکھیں تو سہی ان کی تصویر کس قدر بھدی ہے ۔ مثلا کوئی کسی کریہہ المنظر شخص کے ہاتھ میں آئینہ پکڑا دے اور کہہ دے کہ دیکھو یہ ہو تم ۔ اور وہ شخص اپنی شکل دیکھ کر شرمندہ ہوجائے ۔

اس کے ساتھ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس تصویر کشی کے ذریعہ اہل اہل ایمان کے دلوں میں جوش پیدا ہوجاتا ہے اور وہ مشرکین کے مقاصد کو ناکام بنا دیتے ہیں وہ منکرین کے انکار کا مقابلہ کرتے ہیں اور خود ان کے دل حق پر جم جاتے ہیں ۔ وہ اس فضا سے متاثر نہیں ہوتے جس میں ہر طرف سے انکار ‘ استہزاء فتنہ اور ایذا ہوتی ہے ۔ اس سے یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نہایت حلیم ہے اور وہ ان جھٹلانے والوں اور تکذیب کرنے والوں کو جلدی نہیں پکڑتا حالانکہ وہ بہت قابل نفرت انداز میں انکار کرتے ہیں اور کھلے عناد میں مبتلا ہیں ۔ یہ تمام امور جماعت مسلمہ اور مشرکین کے درمیان برپا کشمکش میں مسلمانوں کے لئے اسلحہ اور زاد راہ ہیں ۔

اس کے بعد قرآن مجید اہل شرک کی جانب سے آنے والی بعض تجاویز کو ان کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بغض وعناد میں کس قدر عیار ہیں اور ان کی سوچ کس قدر پوچ ہے ۔ تجویز یہ لاتے ہیں کہ اگر حضرت محمد ﷺ رسول برحق ہیں تو آپ کے ساتھ تبلیغ کے وقت ایک فرشتہ ہو جو ساتھ ساتھ آپ کی تصدیق کرتا جائے ۔ اس تجویز کے ذکر کے بعد اس پر تنقید بھی کی جاگی ہے کہ اس میں کیا نقص ہے ؟ ایک تو یہ کہ یہ لوگ ملائکہ کی ماہیت سے بھی واقف نہیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ فرشتوں کو بھیجنے کے سلسلے میں اللہ کی جو سنت ہے اس سے بھی یہ لوگ واقف نہیں ہیں ۔ پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ وہ فرشتے نہیں بھیج رہا ہے اور ان کی تجویز کو تسلیم نہیں کرتا۔

اردو ترجمہ

کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا، پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo lawla onzila AAalayhi malakun walaw anzalna malakan laqudiya alamru thumma la yuntharoona

(آیت) ” نمبر 8 تا 9 ۔

یہ تجویز مشرکین کی طرف سے تھی اور ان مشرکین سے پہلے بھی کئی اقوام نے یہ تجویز پیش کی ۔ ہر قوم نے اپنے رسول سے نزول فرشتگان کا مطالبہ کیا ۔ دوسری جگہ قرآن کریم نے ایسے مطالبے پیش کئے ہیں اور یہاں اس تجویز کو دلائل کے ساتھ رد کردی جاتا ہے ۔ اس تجویز کے بارے میں ‘ مناسب ہے ہم تمام حقائق یہاں پیش کردیں حتی الامکان ۔

اس کے متعلق پہلی حقیقت یہ ہے کہ مشرکین عرب اللہ کا انکار نہ کرتے تھے بلکہ وہ اس بارے میں ایک بین دلیل طلب کرتے تھے سے معلوم ہوجائے کہ حضور ﷺ نبی مرسل ہیں اور آپ جو کتب ان کے سامنے پڑھتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے ۔ اس سلسلے میں دوسری تجاویز دیتے تھے ۔ یہ تجاویز قرآن کریم نے متعدد مقامات پر ذکر فرمائی ہیں ۔ مثلا سورة اسراء میں یہ تجاویز مذکور ہیں ۔ اس میں اس تجویز کے ساتھ ساتھ دوسری تجاویز بھی دی گئی ہیں جن سے ان لوگوں کی ہٹ دھرمی اور عناد کا اظہار ہوتا ہے ۔ عناد کے علاوہ ان کی کج فہمی پر بھی خود ان کی تجویز دلیل بین ہے ۔ اس لئے کہ یہ لوگ نہ اس نظام کائنات کو اچھی طرح سمجھے ہیں اور نہ حقیقی اقدار کو سمجھتے ہیں ۔ سورة اسراء میں آتا ہے ۔

(آیت) ” وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَکَ حَتَّی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ یَنبُوعاً (90) أَوْ تَکُونَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّن نَّخِیْلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنْہَارَ خِلالَہَا تَفْجِیْراً (91) أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْْنَا کِسَفاً أَوْ تَأْتِیَ بِاللّہِ وَالْمَلآئِکَۃِ قَبِیْلاً (92) أَوْ یَکُونَ لَکَ بَیْْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَی فِیْ السَّمَاء وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتَّی تُنَزِّلَ عَلَیْْنَا کِتَاباً نَّقْرَؤُہُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنتُ إَلاَّ بَشَراً رَّسُولاً (93) وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن یُؤْمِنُواْ إِذْ جَاء ہُمُ الْہُدَی إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّہُ بَشَراً رَّسُولاً (94) قُل لَّوْ کَانَ فِیْ الأَرْضِ مَلآئِکَۃٌ یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْْہِم مِّنَ السَّمَاء ِ مَلَکاً رَّسُولاً (95)

” اور انہوں نے کہا ” ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لئے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے ۔ یا تیرے لئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کر دے ۔ یا تو آسمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعوی ہے یا خدا اور فرشتوں کو رو در رو ہمارے سامنے لے آئے ۔ یا تیرے لئے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں ۔۔۔۔۔ اے نبی ان سے کہو ” پاک ہے میرا پروردگار ‘ کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں ؟ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے ان کو کسی چیز نے نہیں روکا مگر ان کے اسی قول نے کہ ” کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا ۔ ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہیں تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لئے بنا کر بھیجتے ۔

یہ تجاویز اور مطالبے ایسے ہیں کہ ان سے ایک طرف ان کی ہٹ دھرمی کا اظہار ہوتا اور دوسری جانب ان کی جہالت کا ۔ اس لئے کہ ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ کی کتاب اخلاق کھلی تھی ‘ وہ طویل تیرن تجربے سے آپ کو اچھی طرح جانتے تھے اور آپ کے اخلاق سے ان کو معلوم تھا کہ آپ سچے اور امین ہیں اور ان ہی لوگوں نے ان کو امین کا لقب دیا ہوا تھا ۔ آپ کے ساتھ انکے شدید نظریاتی اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی یہ لوگ اپنی امانتیں حضور ﷺ کے پاس رکھتے تھے ۔ جب آپ نے ہجرت فرمائی تو آپ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی ؓ کو امانتیں ادا کردیں جو ابھی تک آپ کی تحویل میں تھیں ۔ لیکن ان کو ان کے ساتھ اس قدر اختلاف تھا کہ ہو لوگ آپ ﷺ کے قتل کے تدابیر کر رہے تھے ۔ آپ کی امانت ودیانت جس طرح مسلم تھی اسی طرح آپ کی سچائی بھی مسلم تھی اس لئے کہ جب آپ نے سب سے پہلے کوہ صفا پر انہیں علی الاعلان دعوت دی ۔ یہ اس وقت ہوا جب اللہ کا حکم آگیا کہ آپ علی الاعلان دعوت کا آغاز کردیں ۔ اس موقعہ پر آپ نے ان سے سوال کیا کہ اگر میں آپ لوگوں کو کوئی اہم خبر دوں تو آپ لوگ تصدیق کردیں گے ؟ تو سب نے مل کر جواب دیا کہ آپ تو نہایت ہی سچے آدمی ہیں ۔ اگر یہ لوگ صرف یہ جاننا چاہتے کہ آپ سچے ہیں یا نہیں تو آپ کے ماضی ہیں ان کے لئے دلیل وبرہان تھی ۔ وہ جانتے تھے کہ آپ تو نہایت ہی سچے آدمی ہیں ۔ اسی سورة میں یہ مضمون آنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ اللہ کو جھٹلاتے ہیں ۔

(آیت) ” قَدْ نَعْلَمُ إِنَّہُ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُولُونَ فَإِنَّہُمْ لاَ یُکَذِّبُونَکَ وَلَکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بِآیَاتِ اللّہِ یَجْحَدُونَ (33)

” جانتے ہیں کہ آپ کو ان لوگوں کی باتیں بہت پریشان کرتی ہیں ‘ دراصل یہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے لیکن یہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ۔ “

ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ وہ انکار کردیں ۔ یہ انکار محض عناد اور کبر کی وجہ سے تھا ۔ جہاں تک حضور ﷺ کی سچائی کا تعلق ہے تو اس میں کسی کو شک نہ تھا ۔

حقیقت یہ ہے کہ عربوں کے لئے خود قرآن کریم کے اندر ایک عظیم شہادت موجود تھی ۔ یہ شہادت ان شہادتوں سے زیادہ دقیع تھی جو وہ طلب کرتے تھے ۔ قرآن بذات خود شاہد تھا ۔ قرآن کا طرز تعبیر اور اس کے مضامین بھی اس بات پر شاہد تھے کہ وہ من جانب اللہ ہے ۔ یہ لوگ ذات باری کے تو منکر نہ تھے اور قرآن کی اندرونی شہادت کا انہیں بھی احساس تھا ۔ وہ جس قدر ادبی اور لسانی ذوق رکھتے تھے اس کے ذریعے وہ جانتے تھے کہ انسانوں کی ادبی اور لسانی صلاحیت کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ قرآن کریم انسانی حدود سے ماوراء ہے ۔ جو لوگ فنی اور ادبی ذوق رکھتے ہیں وہ اس حقیقت کو ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ جانتے ہیں جو ادبی ذوق نہیں رکھتے ۔ دنیا میں جو لوگ اسالیب کلام کے اندر کچھ بھی ذوق رکھتے ہی۔ (چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم) وہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب انسان کی قدرت سے بہت ہی اونچا ہے ۔ انسان اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اس حقیقت کا انکار صرف ایساشخص ہی کرسکتا ہے جو معاند ہو ‘ جو ایک حقیقت کو پا رہا ہو لیکن اسے اپنے عناد کی وجہ سے دل میں چھپا رہا ہو ۔ نیز اس بہترین اسلوب کے اندر قرآن کریم نے جو تصورات پیش کئے ہیں ‘ ان تصورات اور اعتقادات کو جس اسلوب میں نفس انسانی کے اندر ادا اور انسانی نفسیاتی اسلوب اظہار سے قرآن کا اسلوب نہایت ہی مختلف اور معجز ہے عربوں کے گہرے شعور اور ان کی نفسیات کی اندرونی حالت یہ تھی کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے ۔ ان کے حالات اور ان کے اقوال سے بھی یہ بات اچھی طرح عیاں ہے کہ وہ اس بات میں کسی شک میں مبتلا نہ تھے کہ یہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے ۔

یہ بھی اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے جو مطالبے کئے تھے ‘ وہ اس لئے نہ تھے کہ وہ تسلیم کے لئے کسی دلیل وبرہان کے طالب تھے بلکہ یہ ان کی ہٹ دھرمی تھی ۔ یہ ایک ایسا انداز تھا جس کے ذریعے وہ یہ جتلانا چاہتے تھے کہ وہ ہٹ کے پکے ہیں اور یہ مطالبے تو وہ محض عناد اور نہ ماننے کی وجہ سے کر رہے تھے ۔ اللہ نے فرمایا ۔

(آیت) ” وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْْکَ کِتَاباً فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوہُ بِأَیْْدِیْہِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِنْ ہَـذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(7)

” اے پیغمبر ﷺ اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ عرب ملائکہ کو تو مانتے تھے اور مطالبہ یہ کرتے تھے کہ حضور ﷺ پر ایک فرشتہ نازل ہو اور جب آپ تبلیغ کریں تو وہ ساتھ ساتھ آپ کی تصدیق و تائید کرے ۔ لیکن ان کے ذہن میں یہ بات نہ تھی کہ ملائکہ کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے ؟ وہ اس مخلوق کے بارے میں اپنے عقیدے اور تصور میں نہایت ہی مخبوط الحواس تھے ۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ ملائکہ کا اپنے رب کے ساتھ تعلق کیا ہوتا ہے ۔ اس زمین اور اس کے باسیوں کے ساتھ ان کا تعلق کیا ہوتا ہے ؟ قرآن کریم نے عربوں کی فکری ژولیدگی کی کئی مثالیں بیان کی ہیں اور ملائکہ کے بارے میں ان کے جو بت پرستانہ خیالات تھے وہ بھی قرآن نے بیان کئے ہیں ۔ قرآن کریم نے ان تمام فکری غلطیوں کی اصلاح کی ہے تاکہ یہ لوگ پاک وصاف عقیدے کے حامل بن جائیں اور صحیح راہ پر گامزن ہوں ۔ کائنات اور اس میں بسنے والی مخلوق کے بارے میں بھی قرآن نے صحیح فکر دی ہے ۔ اس زاویے سے اسلام نے جس طرح عقل و شعور کو غذا فراہم کی اسی طرح دل اور ضمیر کو بھی صحیح سوچ دی اور اس درست فکر کی اساس پر لوگوں کے اعمال واطوار کو بھی درست کیا ۔

قرآن کریم نے عربوں کی توہم پرستیوں اور باطل نظریات کے کئی پہلوؤں پر بحث کی ہے کہ وہ کس قدر باطل نظریات کے حامل تھے ۔ مثلا یہ کہ وہ سمجھتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں حالانکہ اللہ اس تصور سے پاک اور برتر ہے ۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ان فرشتوں کو ناقابل استراداد سفارش کے اختیارات بھی حاصل ہیں ۔ صحیح بات یہ ہے کہ عربوں کے اندر مروج بتوں میں اکثر ان فرشتوں کے تصور پر بنائے گئے تھے اور انکے اس تصور اور مطالبے سے کہ حضور ﷺ پر ایک موید اور مصدق فرشتہ اترے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے ۔

قرآن کریم نے سورة نجم میں ان کی اس کج فکری کی اصلاح اس طرح کی ہے ۔

(آیت) ” أَفَرَأَیْْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّی (19) وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْأُخْرَی (20) أَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْأُنثَی (21) تِلْکَ إِذاً قِسْمَۃٌ ضِیْزَی (22) إِنْ ہِیَ إِلَّا أَسْمَاء سَمَّیْْتُمُوہَا أَنتُمْ وَآبَاؤُکُم مَّا أَنزَلَ اللَّہُ بِہَا مِن سُلْطَانٍ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْأَنفُسُ وَلَقَدْ جَاء ہُم مِّن رَّبِّہِمُ الْہُدَی (23) أَمْ لِلْإِنسَانِ مَا تَمَنَّی (24) فَلِلَّہِ الْآخِرَۃُ وَالْأُولَی (25) وَکَم مِّن مَّلَکٍ فِیْ السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُہُمْ شَیْْئاً إِلَّا مِن بَعْدِ أَن یَأْذَنَ اللَّہُ لِمَن یَشَاء ُ وَیَرْضَی (26) إِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ لَیُسَمُّونَ الْمَلَائِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْأُنثَی (27) وَمَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْْئاً (28) (53 : 19 تا 28)

” اب ذرا بتاؤ تم نے کبھی اس لات ‘ اور عزی ۔ اور تیسری ایک دیوی منات کی حقیقت پر کچھ غور کیا ہے ؟ کیا بیٹے تمہارے لئے ہیں اور بیٹیاں خدا کے لئے ؟ یہ تو پھر بڑی دھاندلی کی تقسیم ہوئی ۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں ۔ اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے ۔ کیا انسان جو کچھ چاہے اس کے لئے وہی حق ہے ۔ دنیا وآخرت کا مالک تو اللہ ہی ہے ۔ آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں ۔ ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آسکتی جب تک کہ اللہ کسی شخص کے حق میں اس کی اجازت نہ دے دے جس کے لئے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے ۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ فرشتوں کی دیویوں کے ناموں سے موسوس کرتے ہیں ‘ حالانکہ اس معاملے کا علم بھی انہیں حاصل نہیں ہے ۔ وہ محض گمان کی پیروں کر رہے ہیں اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔ “

مزیدیہ کہ ان دو آیات میں قرآن کریم نے فرشتوں کی ماہیت کے بارے میں ان کی دوسری کج فکری کی اصلاح بھی کردی ہے ۔ اس سورة کے علاوہ دوسری سورتوں کے اندر بھی ان کی فکری اصلاح کی گئی :

(آیت) ” وَقَالُواْ لَوْلا أُنزِلَ عَلَیْْہِ مَلَکٌ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَکاً لَّقُضِیَ الأمْرُ ثُمَّ لاَ یُنظَرُونَ (8) ۔

” کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ۔ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ‘ پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ “

اللہ کی مخلوقات میں سے جن لوگوں کی یہ سوچ ہے ‘ یہاں ان کے بارے میں وضاحت کردیں گئی ۔ یہ لوگ یہ تجویز کرتے ہیں کہ اللہ قرآن کے ساتھ فرشتہ بھی اتارے ۔ لیکن فرشتوں کے اترنے کے بارے میں اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب وہ اترتے ہیں تو وہ اس قوم کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں جس نے کسی نبی کی تکذیب کی ہوتی ہے اور وہ پھر تباہی و بربادی کے بارے میں اللہ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ مشرکین عرب کی اس تجویز اور مطالبے کو تسلیم کرلیتے تو بات کا فیصلہ ہوجاتا اور وہ تباہ کردیئے گئے ہوتے ۔ اس کے بعد انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں ایک عظیم تباہی اور عذاب سے بچایا رہا ہے ۔ یوں سیاق کلام میں ان کو یہ بات براہ راست جتا دی جاتی ہے کہ اللہ انہیں مہلت دے کر ان کے ساتھ نہایت ہی رحمت اور درگزر سے کام لے رہا ہے ۔ یہ اس لئے کہ وہ خود اپنی مصلحت کو بھی نہیں سمجھتے اور سنت الہیہ سے بالکل بیخبر ہیں ۔ وہ اس جہالت میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح ان کی زندگی ہی تباہ ہوجائے ۔ اس جہالت کی وجہ سے وہ بدستور اللہ کی رحمت سے انکار کر رہے ہیں ‘ ہدایت سے دور بھاگے جا رہے ہیں ‘ دلائل ومعجزات اور فرشتے اترنے کے مطالبے کر رہے ہیں ۔ ان کی کج فہمی کو درست کرنے کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے

(آیت) ” وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکاً لَّجَعَلْنَاہُ رَجُلاً وَلَلَبَسْنَا عَلَیْْہِم مَّا یَلْبِسُونَ (9)

” اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اتارتے اور اس طرح انہیں اسی شبہ میں مبتلا کردیتے جس میں اب وہ مبتلا ہیں ۔ “ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر ایک فرشتہ نازل کریں اور یہ فرشتہ حضور ﷺ کے دعوائے نبوت کی تصدیق کرے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فرشتے تو انسانوں سے بالکل جدا مخلوق ہیں ۔ ان کا اپنا ایک خاص مزاج اور ماہیت ہے جس کے بارے میں صرف اللہ تعالیٰ کا علم ہے ۔ یہ فرشتے (جس طرح ان کے بارے میں ان کا خالق ہمیں معلومات فراہم کرتا ہے) اپنی موجودہ ماہئیت کے ساتھ اس زمین پر نہیں چل سکتے کیونکہ وہ اس کرہ ارض کے باشندے نہیں ہیں تاہم اگر وہ اس کرہ ارض کے باشندے نہیں ہیں ۔ تاہم اگر وہ اس کرہ ارض پر انسانوں کے حوالے سے کوئی ڈیوٹی سرانجام دیں تو وہ انسانوں کی شکل اختیار کرکے یہاں آتے ہیں مثلا تبلیغ رسالت اور مکذبین کو ہلاک کرنے کی ڈیوٹی وغیرہ ۔ یا مسلمانوں کی تسلی اور حوصلہ افزائی کی ڈیوٹی یا مسلمانوں کے دشمنوں کو قتل کرنے کی ڈیوٹی یا اس قسم کی دوسری ڈیوٹیاں جن کی بابت انہیں اللہ ہدایت کر دے وہ انکے سرانجام دینے میں اللہ کی ہدایت کی ذرہ برابر نافرمانی نہیں کرتے ۔

اگر اللہ تعالیٰ رسول کی تصدیق کے لئے کوئی فرشتہ بھیج بھی دے تو وہ لوگوں کے سامنے ایک انسان کی شکل اختیار کر کے ہی ظاہر ہوگا ۔ وہ فرشتوں کی اصل صورت میں ہر گز نہ آئے گا ۔ اور جب فرشتہ انسان کی شکل میں آئے گا تو وہ پھر بھی اسی شب ہے کا شکار ہوں گے اور انہیں وہی تردد لاحق ہوگا ۔ وہ پہلے بھی اس تردد کا شکار ہیں حالانکہ حضرت محمد ﷺ ان کے ساتھ جو بات کرتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ” میں محمد ہوں ‘ تم مجھے خوب جانتے ہو ۔ مجھے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں برے انجام سے خبردار کروں اور اچھے انجام کی خوشخبری دوں ۔ “ لیکن اگر کوئی فرشتہ آئے اور وہ ایسے انسان کی شکل میں آئے جسے وہ نہیں جانتے اور وہ یوں گویا ہو : ” میں فرشتہ ہوں اور مجھے اللہ نے بھیجا ہے کہ میں رسول خدا حضرت محمد ﷺ کی تصدیق کروں ۔ “ تو وہ دیکھیں گے کہ یہ شخص تو ان ہی جیسا ایک آدمی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھی انہیں ویسا ہی شبہ لاحق ہوگا غرض اگر کوئی فرشتہ آدمی کی شکل میں آتا تو بھی وہ اسی شب ہے کا شکار ہوتے جسے کا وہ پہلے سے شکار تھے اور کوئی یقینی بات نہ کرسکتے ۔

اس طرح ان آیات میں اللہ تعالیٰ یہ بتاتے ہیں کہ یہ لوگ حقائق کائنات کے بارے میں کس قدر جاہل ہیں اور سنت الہیہ سے کس قدر ناواقف ہیں جبکہ اپنی جگہ نہایت ہی معاند اور بغیر علم وجواز کے ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں ۔ بالکل بلا دلیل ۔ تیسری حقیقت جو یہ آیات انسانی سوچ کے اندر پیدا کرتی ہیں ‘ وہ یہ ہے کہ اسلامی تصور حیات اور اس کے اساسی عناصر ترکیبی کیا ہیں ؟ ان عناصر میں وہ تمام مظاہر فطرت شامل ہیں جن کے بارے میں اسلام ایک مسلمان کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ ان کا ادراک کرے اور اپنی زندگی کو ان مظاہر فطرت کے ساتھ ہم آہنگ کرلے ۔ نیز عالم غیب بھی ان اساسی عناصر میں شامل ہے جس میں ملائکہ بھی شامل ہیں ۔ اسلام نے ایمان کے بنیادی عناصر میں اس بات کو شامل کیا ہے کہ تم فرشتوں پر بھی ایمان لاؤ گے ۔ فرشتوں پر ایمان کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا ۔ اللہ پر ایمان ‘ ملائکہ پر ایمان ‘ کتابوں پر ایمان ‘ رسولوں پر ایمان ‘ یوم آخرت پر ایمان اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان ۔

ظلال القرآن کی جلد اول میں جب ہم نے سورة بقرہ کی بتدائی آیات کی تشریح کی تھی تو اس میں ہم نے اس موضوع پر بات کی تھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان بالغیب کی وجہ سے انسانی زندگی میں ایک بہت بڑا انقلاب رونما ہوجاتا ہے ۔ انسان محض عالم محسوسات کے محدود دائرے سے نکل جاتا ہے اور وہ اس بات پر ایمان لاتا ہے کہ ایک عالم اور بھی ہے جو ہمیں معلوم نہیں ہے ۔ ہم اگرچہ اس کا تصور نہیں کرسکتے لیکن وہ بلاشک اور لاریب آنے والا ہے ۔ یہ تصور انسان کو حیوانات کے محسوس دائرے سے نکال کر انسانی ادراک کے دائرے میں داخل کردیتا ہے اور جو لوگ انسان کے لئے محسوسات سے اوپر جانے کا دروازہ بند کرتے ہیں وہ انسان کو مقام انسانیت سے گرا کر اسے پیچھے حیوانی دائرے میں لے جاتے ہیں اور اس کا نام ترقی پسندی رکھتے ہیں ۔ اس سورة میں جب ہم عالم غیب کے بارے میں بات کریں گے تو اس نکتے کی مزید وضاحت کریں گے ۔ آیت عندہ مفاتح الغیب کے ذیل میں ۔ انشاء اللہ ۔

عالم غیب کے بارے میں جو اسلامی تصور ہے اس میں یہ بات موجود ہے کہ عالم غیب میں ایک مخلوق ایسی ہے جو نظر نہیں آتی اور وہ فرشتے ہیں ۔ قرآن کریم نے اس مخلوق کی بعض صفات کا تذکرہ کیا ہے ‘ جو ان کے بارے میں ایک مجمل تصور کے لئے کافی ہے اور انسان اپنے حدود کے اندر فرشتوں کے ساتھ جو برتاؤ کرے گا اس کی بنیاد اسی بات پر ہونی چاہئے ۔

فرشتے اللہ کو مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں وہ رہ وقت اللہ کی اطاعت اور بندگی پر کمر بستہ ہیں ۔ مطلق مطیع ہیں وہ اللہ کے قریب رہتے ہیں ۔ وہ اللہ کے کس طرح مقرب ہیں اس کی کیفیت کا ہمیں پوری طرح علم نہیں ہے ۔

(آیت) ” وقالوا اتخذ الرحمن ولدا سبحنہ بل عباد مکرمون ‘، (26) لا یسبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون (27) یعلم مابین ایدیھم وما خلفھم ولا یشفعون الا لمن ارتضی وھم من خشیتہ مشفقون (28) (21 : 26 تا 28) (یہ کہتے ہیں رحمن اولاد رکھتا ہے ‘ سبحان اللہ ‘ وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے ۔ اس کے حضور بڑھ کر نہیں بولتے اور بس اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔ جو کچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے وہ باخبر ہے ‘ وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے کہ جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو ‘ اور وہ اس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں)

(آیت) ” ومن عندہ لا یستکبرون عن عبادتہ ولا یستحسرون یسبحون اللیل والنھار لا یفترون “۔ (اور جو فرشتے اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملول ہوتے ہیں ۔ شب وروز اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں دم نہیں لیتے) یہ فرشتے اللہ کے تخت کو بھی اٹھائے ہوئے ہیں اور قیامت کے دن بھی اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ اس کی کیفیت کا ادراک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اس غیبی حقیقت کے بارے میں ہمارا ادراک اسی حد تک محدود ہے جس حد تک اللہ نے انکشاف فرمایا ہے ۔

(آیت) ” الذین یحملون العرش ومن حولہ یسبحون بحمد ربھم ویومنون بہ (40 : 7)

” عرش الہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش الہی کے گردوپیش حاضر رہتے ہیں ‘ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ “

(آیت) ” وتری الملئکۃ حافین من حول العرش یسبحون بحمد ربھم وقضی بینھم بالحق وقیل الحمد للہ رب العلمین “۔ (39 : 75) ” اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد وتسبیح کر رہے ہوں گے اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا اور پکار دیا جائے گا کہ حمد ہے اللہ رب العالمین کے لئے ۔ “

وہ اللہ کے خزانوں کے بھی نگران ہیں اور آگ اور جہنم کے داروغے بھی وہی ہوں گے ۔ اہل جنت کو سلام اور دعاء کے ساتھ استقبال کریں گے اور اہل جہنم کو وہ سخت عذاب کی دھمکی دیتے ہوئے لیں گے ۔ “

(آیت) ” وسیق الذین کفروا الی جھنم زمرا حتی اذا جآء وھا فتحت ابوابھا وقال لھم خزنتھا الم یاتکم رسل منکم یتلون علیکم ایت ربکم وینذرونکم لقآء یومکم ھذا قالوا بلی ولکن حقت کلمۃ العذاب علی الکفرین (71) قیل ادخلوا ابواب جھنم خلدین فیھا فبئس مثوی المتکبرین (72) وسیق الذین اتقوا ربھم الی الجنۃ زمرا حتی اذا جآء وھا وفتحت ابوابھا وقال لھم خزنتھا سلم علیکم طبتم فادخلوھا خلدین (83) (39 : 71 تا 73)

” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا ‘ جہنم کی طرف گروہ درگروہ ہانکے جائیں گے ‘ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے اور اس کے کارندے ان سے کہیں گے ” کیا تمہارے پاس تمہارے اپنے لوگوں میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے جنہوں نے تم کو تمہارے رب کی آیات سنائی ہوں اور تمہیں اس بات سے ڈرایاہو کہ ایک وقت تمہیں یہ دن بھی دیکھنا ہوگا ۔ “ وہ جواب دیں گے ” ہاں آئے تھے ‘ مگر عذاب کا فیصلہ کافروں پر چپک گیا ۔ “ کہا جائے گا داخل ہوجاؤ جہنم کے دروازوں میں ‘ یہاں اب تمہیں ہمیشہ رہنا ہے ‘ بڑا ہی بڑا ٹھکانا ہے یہ متکبروں کے لئے ۔۔۔۔۔ اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا ۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے تو اس کے منتظمین ان سے کہیں گے ” سلام میں تم پر ‘ بہت اچھے رہے ‘ داخل ہوجاؤ اس میں ہمیشہ کے لئے ۔ “ اور دوسری جگہ آتا ہے :

(آیت) ” وما جعلنا اصحب النار الاملئکۃ “۔ اور ہم نے آگ کا نگران بھی صرف ملائکہ کو بنایا ہے ۔ “

ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ فرشتے اہل زمین کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل زمین کے ساتھ ان کا معاملہ مختلف شکلوں میں ہوتا ہے ۔ وہ خدا کے حکم سے اہل زمین کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور ان کے اعمال کا مکمل ریکارڈ بھی تیار کرتے ہیں اور جب ان کا مقررہ وقت پورا ہوتا ہے تو وہ ان کی روح قبض کرلیتے ہیں ۔

(آیت) ” وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَیُرْسِلُ عَلَیْْکُم حَفَظَۃً حَتَّیَ إِذَا جَاء أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَ یُفَرِّطُونَ (61)

” پنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دیتے ہیں اور ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔

(آیت) ” لہ معقبت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ “۔ (13 : 11)

” ہر شخص کے آگے پیچھے اس کے مقرر کئے ہوئے نگران لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں ۔ “

(آیت) ” مایلفظ من قول الالدیہ رقیب عتید “۔ (5 : 18) ” کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا ہے جسے محفوظ کرنے کے لئے ایک حاضر باش نگران نہ ہو۔ “

ان فرشتوں کے فرائض میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یہ رسولوں کے اوپر وحی لے کر آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ ان میں سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) یہ کام سرانجام دیتے ہیں ۔

(آیت) ” ینزل الملئکۃ بالروح من امرہ علی من یشآء من عبادہ ان انذروا انہ لا الہ الا انا فاتقون “۔ (16 : 2) ” وہ اس روح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے (اس ہدایت کے ساتھ کہ) لوگوں کو آگاہ کر دو ‘ میرے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے لہذا تم مجھ ہی سے ڈرو۔ “

(آیت) ” قل من کان عدوا الجریل فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ “۔ (2 : 97) ” ان سے کہو کہ جو کوئی جبرائیل سے عداوت رکھتا ہو ‘ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبرائیل نے اللہ ہی کے اذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے ۔ “

(آیت) ” وَالنَّجْمِ إِذَا ہَوَی (1) مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَی (2) وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَی (3) إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَی (4) عَلَّمَہُ شَدِیْدُ الْقُوَی (5) ذُو مِرَّۃٍ فَاسْتَوَی (6) وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَی (7) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی (8) فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ أَوْ أَدْنَی (9) فَأَوْحَی إِلَی عَبْدِہِ مَا أَوْحَی (10) مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَی (11) أَفَتُمَارُونَہُ عَلَی مَا یَرَی (12) وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَی (13) عِندَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہَی (14) عِندَہَا جَنَّۃُ الْمَأْوَی (15) إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشَی (16) مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی (17) لَقَدْ رَأَی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَی (18) (53 : 1 تا 18)

” قسم ہے تارے کی جب وہ غروب ہوا ‘۔ تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے ‘ نہ بہکا ہے ۔ وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا ۔ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے ۔ اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے ‘ جو بڑا صاحب حکمت ہے ۔ اور وہ سامنے آکھڑا ہوا جبکہ ہو بالائق افق پر تھا ‘ ۔ پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگا ۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا ۔ تب اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو اس نے پہنچانی تھی ۔ نظر نے جو کچھ دیکھا دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا ۔ اب کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔ اور ایک دفعہ پھر اس نے سدرۃ المنتہی کے پاس اترتے دیکھا ‘ ۔ جہاں پاس ہی جنت الماوی ہے ۔ اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھ ۔ نگاہ نہ چندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی ۔ اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔

اور جب مسلمانوں کی طاغوت کے ساتھ نہایت ہی اہم اور بڑی جنگ ہوتی ہے تو اس معرکے میں وہ بطور تائید اور امداد ثابت قدمی پیدا کرنے کے لئے اترتے ہیں :

(آیت) ” ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملئکۃ الا تخافوا ولا تحزنوا وابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون “۔ (30) (41 : 30)

” جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے ‘ اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں ۔ ” نہ ڈرو نہ غم کرو ‘ اور خوش ہوجاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ “

(آیت) ” اذ تقول للمومنین الن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلثۃ الف من الملئکۃ منزلین (124) بلی ان تصبروا وتتقوا ویاتوکم من فورھم ھذا یمددکم ربکم بخمسۃ الف من الملئکۃ مسومین (125) وما جعلہ اللہ الابشری لکم ولتطمئن قلوبکم بہ وما النصر الامن عند اللہ العزیزالحکیم (136) (3 : 124 تا 126)

” اے نبی یاد کرو جب تم مومنوں سے کہہ رہے تھے ” کیا تمہارے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ اللہ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کرے ؟ “ بیشک اگر تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو جس آن دشمن تمہارے اوپر چڑھ آئیں گے ‘ اسی آن تمہارا رب (تین ہزار نہیں) پانچ ہزار صاحب نشان فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا ۔ یہ بات اللہ نے تمہیں اس لئے بتا دی ہے تاکہ تم خوش ہوجاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہوجائیں ۔ فتح ونصرت جو کچھ بھی ہے اللہ کی طرف سے ہے جو بڑی قوت والا اور دانا اور بینا ہے ۔ “

(آیت) ” اذ یوحی ربک الی الملئکۃ انی معکم فثبتوا الذین امنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فاضربوا فوق الاعناق واضربوا منھم کل بنان (8 : 12)

” اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ‘ تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو ‘ میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہوں ‘ پس تم ان کی گردنوں پر ضرب لگاؤ اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ۔ “

یہ فرشتے اہل ایمان کے کاموں میں بھی مصروف رہتے ہیں ‘ وہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے ہر وقت مغفرت کی دعا کرتے ہیں جو اہل ایمان ہیں اور وہ ان مومنین کے لئے اس قدر شغف کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ جس طرح ایک نہایت ہی محبت کرنے والا شخص اپنے محبوب کے لئے دعا کرتا ہے ۔

(آیت) ” الذین یحملون العرش ومن حولہ یسبحون بحمد ربھم ویومنون بہ ویستغفرون للذین امنوا ربنا وسعت کل شیء رحمۃ وعلما فاغفر للذین تابوا واتبعوا سبیلک وقھم عذاب الجحیم (7) ربنا وادخلھم جنت عدن التی وعدتھم ومن صلح من ابآئھم وزواجھم وذریتھم انک انت العزیز الحکیم (8) وقھم السیات ومن تق السیات یومئذ فقد رحمتہ وذلک ھو الفوز العظیم (9) (40 : 7 تا 9)

” عرش الہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش الہی کے گردوپیش حاضر رہتے ہیں ‘ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : اے ہمارے رب تو اپنی رحمت اور علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے ‘ پس معاف کر دے اور عذاب دوزخ سے بچا لے ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کرلیا ہے ۔ اے ہمارے رب اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے والدین ‘ اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (ان کو بھی وہاں ان کے ساتھ ہی پہنچا دے) تو بلاشبہ قادر مطلق ہے اور حکیم ہے ۔ اور بچا دے ان کو برائیوں سے جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اس پر تو نے رحم کیا یہی بڑی کامیابی ۔ “

جب فرشتے روح قبض کرتے ہیں تو اس وقت اہل ایمان کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں اور ان کا استقبال خوشخبری سے کرتے ہیں اور آخرت میں وہ ان کو سلام وآداب سے عزت افزائی کریں گے ۔

(آیت) ” الذین تتوفھم الملئکۃ طیبین یقولون سلم علیکم ادخلوا الجنۃ بما کنتم تعملون “۔ (16 : 32)

” ان متقیوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں ” سلام ہو تم پر ‘ جاؤ جنت میں اپنے اعمال کے بدلے ۔ “

(آیت) ” جنت عدن یدخلونھا ومن صلح من ابآئم وازواجھم وذریتھم والملئکۃ یدخلون علیھم من کل باب (23) سلم علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار “۔ (24) (13 : 23۔ 24)

” ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے ۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویاں اور ان کی اولاد میں سے جو صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے ۔ ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لئے آئیں گے اور کہیں گے تم پر سلامتی ہے ‘ تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہو ۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر ۔

ان کے فرائض میں یہ بات بھی داخل ہے کہ وہ اہل کفر کا استقبال آخرت میں توہین آمیز رویے کے ساتھ کریں گے اور دنیا میں کفر واسلام کے معرکے میں وہ کفار کے مقابلے میں لڑتے ہیں اور جب کفار کی روح قبض کرتے ہیں تو وہ سختی اذیت اور توہین آمیز انداز میں قبض کرتے ہیں ۔

(آیت) ” وَلَوْ تَرَی إِذِ الظَّالِمُونَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِکَۃُ بَاسِطُواْ أَیْْدِیْہِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللّہِ غَیْْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِہِ تَسْتَکْبِرُونَ (93)

” کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ” لاؤ“ نکالو اپنی جان ‘ آج تمہیں ان باتوں کی پاداش مین ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرتے تھے ۔ “

(آیت) ” فکیف اذا توفتھم الملئکۃ یضربون وجوھھم وادبارھم (47 : 27)

” پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے ۔ “

جب سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے باوا آدم کو پیدا کیا اس وقت سے فرشتوں کا انسانوں کے ساتھ ایک خاص تعلق رہا ہے اور یہ سلسلہ طول حیات تک میں جاری رہا ہے اور قیامت تک جاری رہے گا جیسا کہ مذکور بالا قرآنی آیات کے اقتباسات سے اچھی طرح معلوم ہوا ہے ۔ فرشتوں اور عالم بشریت کے باہم تعلق پر بھی قرآن کریم کے متعدد مقامات پر بحث کی گئی ہے اور سورة بقرہ میں اس کی پوری تفصیل دی گئی ہے ۔

(آیت) ” وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (30) وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَۃِ فَقَالَ أَنبِئُونِیْ بِأَسْمَاء ہَـؤُلاء إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ (31) قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ (32) قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیْ أَعْلَمُ غَیْْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ (33) وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ (34) ۔

” پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ” میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ “ انہوں نے عرض کیا ” کیا آپ زمین میں کسی زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے نظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا ؟ آپ کے حمد وثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں ۔ “ فرمایا : ” میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے ۔ ‘ اس کے بعد اللہ نے آدم کو سارے چیزوں کے نام سکھائے ۔ پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا :” اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے نظام بگڑ جائے گا) تو بتاؤ ان چیزوں کے نام کیا ہیں ؟ ‘ انہوں نے عرض کیا ” نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ۔ ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں ‘ جتنا آپ نے ہم کو دیا ہے ۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ۔ “ پھر اللہ نے آدم سے کہا : ” تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاؤ جب اس نے ان کو ان سب کے نام بتا دیئے تو اللہ نے فرمایا : ” میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں ‘ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ‘ وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اسے بھی میں جانتا ہوں۔ ‘ پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا ۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا ۔ ‘

” یہ ایک وسیع میدان ہے جس میں انسانی زندگی اور عالم بالا کی زندگی کا باہم اتصال ہوتا ہے اور اس اتصال کی وجہ سے انسانی سوچ میں ایک وسعت سی پیدا ہوجاتی ہے اور انسان اس کائنات کے حقائق کا ادراک ایک وسیع زاویے سے کرسکتا ہے ۔ اس کا نفسیاتی شعور وسیع اور اس کے ذہن کی جو لانی کا دائرہ کھل جاتا ہے اور فکر ونظر کی یہ وسعت ایک مسلمان کو ایک ہمہ گیر اسلامی تصور عطا کرتی ہے ۔ قرآن کریم انسان کے سامنے اس وسیع اور مشہود کائنات کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس کا آخری اتصال عالم غیب کے اس وسیع میدان سے ہوتا ہے ۔

عالم غیب کا ایک وسیع عالم اور ایک کھلا میدان ہے ۔ جو لوگ انسان پر عالم غیب کے دروازے بند کرنا چاہتے ہیں وہ انسان کے ساتھ نہایت ہی قبیح عداوت کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ وہ انسان کی دنیا کو اس کے نہایت ہی محدود تصور بلکہ عالم محسوسات کے اندر محدود کردینا چاہتے ہیں اور اسے عالم حیوانات میں داخل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ نے انسان کو عزت اور شرافت اس طرح بخشی کہ اسے غور وفکر کی قوت عطا کی ۔ اس غور وفکر کی قوت سے انسان ان چیزوں کا ادراک کرسکتا ہے جس سے جانور اور بہائم محروم ہیں ۔ انسان اپنی اس صلاحیت کی وجہ سے علم ومعرفت کی فراوانی پاتا ہے اور اس کا شعور نہایت ہی وسیع ہوجاتا ہے ۔ وہ اپنی عقل اور اپنے دل کی وجہ سے عالم بالا کی وسعتوں تک پہنچ جاتا ہے وہ اخلاق پاکیزہ حاصل کرتا ہے اور اپنے وجود کے ساتھ نورانی عالم بالا کی سیر کرتا ہے ۔

عرب اپنی اس جاہلیت کے باوجود جس میں وہ غرق تھے اور جس میں ان کا تصور حیات نہایت ہی غلط اصولوں پر قائم تھا ‘ دور جدید کی سائنسی جاہلیت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھے ۔ یہ جدید جاہلیت کے پیروکار عالم غیب کے ساتھ مذاق کرتے ہیں اور ایسے غیبی امور پر ایمان لانے کو غیر علمی اور غیر سائنسی تصور سمجھتے ہیں ۔ وہ عالم غیب کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالتے ہیں اور عالم سائنس کو دوسرے میں جو ایک نہایت ہی غلط تقابل ہے ۔ اس تصور کی تردید میں آیت (عنداہ مفاتح الغیب) کے ضمن میں کروں گا اس لئے کہ جاہلیت جدیدہ کا یہ وہ دعوی ہے جس کے اوپر سائنس کے اصولوں کے مطابق کوئی دلیل نہیں لائی جاسکتی نہ دین میں اس کے اوپر کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے ۔ یہاں ہم صرف فرشتوں کے وجود کے بارے میں ایک مختصر بات کریں گے ۔

سائنس دانوں سے ہم صرف یہ بات پوچھتے ہیں کہ وہ جو فرشتوں کا انکار کرتے ہیں اس پر ان کے پاس سائنسی اصولوں کے مطابق کیا دلیل ہے ؟ وہ فرشتوں کے وجود کو تصور اور تصدیق کے دائرے سے کیوں نکالتے ہیں ؟ ذرا وہ کوئی سائنسی فارمولا بتائیں جس کی رو سے وہ ایسا عقیدہ رکھنے پر مجبور ہوں کہ فرشتوں کا وجود نہیں ہے ۔

ان کی سائنس کی حالت تو یہ ہے کہ وہ دوسرے کر ات سماوی کے اندر ایسی موجودات کے اقرار اور انکار سے بھی عاجز ہے جو اس کرہ ارض پر موجود ہیں ۔ کجا کہ وہ کر ات جن کی فضا اور جن کی کیمیاوی اور طیعیاتی ترکیب اور مسافت زمین سے مختلف ہے اور جن کی فضائیں مختلف ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ وہ ان دوسرے جہانوں کا انکار کس اصول پر کرتے ہیں جبکہ ان کے پاس فرشتوں کے وجود کی نفی پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔

ہم ان سے اپنے عقائد کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں چاہتے اور نہ ہم اللہ کے کلام کے بارے میں ان سے کوئی استدلال چاہتے ہیں ۔ ہم ان سے خود ان کے اس علم اور سائنس کے بارے میں محاکمہ چاہتے ہیں جس کو انہوں نے الہ بنا لیا ہے ۔ اس سوال کے جواب میں ان کے پاس مکابرہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اس ان کی یہ سائنس جو انہیں عالم غیب اور ملائکہ کے انکار پر آمادہ کرتی ہے ‘ اس سوال سے لاجواب ہوجاتی ہے ، انکار محض اس لئے کہ یہ جہان پردہ غیب میں مستور ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جس سائنس کی وجہ سے وہ عالم غیب اور فرشتوں کا انکار کرتے ہیں وہی بالجزم عالم غیب کو ثابت کرتی ہے بلکہ اس سائنس نے عالم غیب کو ایک طرح سے عالم شہادت میں بدل دیا ہے اور کئی ایسے انکشاف کردیئے ہیں جو پہلے عالم مغیبات میں تھے ۔ ان مغیبات کو آج ہم دیکھ رہے ہیں ۔

اس موج کا اختتام اس انجام کے تذکرے سے ہوتا ‘ جس سے انسانی تاریخ میں وہ تمام لوگ دو چار ہوئے جنہوں نے رسولوں کا مذاق اڑایا ۔ پھر جھٹلانے والوں کو دعوت دی گئی کہ ذرا وہ انسانی تاریخ میں ان مقتل گاہوں کا مطالعہ کریں جن میں ان کے اسلاف پر عذاب آئے ۔ ذرا اس کرہ ارض پر چل پھر کر جھٹلانے والوں کے انجام کو دیکھیں ۔ یہ واقعات زبان حال سے گویا ہیں کہ جھٹلانے والوں اور مذاق کرنے والوں کا انجام کیا ہوا ہے ؟

128