سورۃ القصص (28): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Qasas کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ القصص کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ القصص کے بارے میں معلومات

Surah Al-Qasas
سُورَةُ القَصَصِ
صفحہ 385 (آیات 1 سے 5 تک)

سورۃ القصص کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ القصص کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ط س م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Taseenmeem

درس نمبر 176 تشریح آیات

1 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 43

طسم (1) تلک ایت الکتٰب المبین (2)

” “۔ سورت کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے ۔ حر وف تہجی سے آغاز کا مطلب یہ ہے کہ یہ سورت ایسے ہی حروف سے مر کب ہے ، لیکن عام حروف تہجی سے مر کب یہ کتاب ایک بلند مر تبہ اور معجز انہ کتاب ہے۔ ان ہی حروف سے بننے والی دوسری کتابوں اور اس کتاب میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ یہ کتاب عام لوگوں ہی کی زبان میں ہے ، عام لوگ فانی ہیں لیکن یہ کتاب لازوال ہے ۔ اور یہ تلک ایت الکتب المبین (2:28) ” یہ کتاب مبین کی آیات ہیں “۔ لہٰذایہ کتاب مبین کسی انسان کی بنائی ہوئی نہیں ہے کیونکہ اگر انسان کی بنائی ہوئی ہوتی تو دوسرے انسان بھی ایسی کتاب بنا کرلے آتے جبکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ انسان ایسی کتاب نہیں لاسکے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ وحی من جانب اللہ ہے اور اس سے اس کی فصاحت وبلاغت اور معجزانہ شان بالکل واضح

ہے ۔ پھر اس کے اندر جو مضامین ہیں وہ چھوٹے بڑے معاملے میں سچائی کی چھاپ لیے ہوئے ہیں ۔

اردو ترجمہ

یہ کتاب مبین کی آیات ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tilka ayatu alkitabi almubeeni

اردو ترجمہ

ہم موسیٰؑ اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمہیں سُناتے ہیں ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Natloo AAalayka min nabai moosa wafirAAawna bialhaqqi liqawmin yuminoona

نتلوا علیک من نبا موسٰی وفرعون بالحق لقوم یومنون (3)

” “۔ یہ کتاب اب لوگوں کے لیے آرہی جو ایمان لانے والے ہوتے ہیں ، یہ ان کی تربیت کرتی ہے ، ان کو اٹھاتی ہے اور ان کے لیے منہاج حیات وضع کرتی ہے ۔ راستہ بتاتی ہے ۔ یہ قصص بھی ایسے ہی اہل ایمان کے لیے لائے جارہے ہیں اور ایسے ہی لوگ ان سے نفع اٹھاتے ہیں ۔

اس کتاب کی یہ تلاوت براہ راست اللہ کی طرف سے ہے ، یہ اللہ کی عنایات میں سے ایک عنایت ہے ۔ اور اہل ایمان کے لیے اس کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ یہ کتاب اہل ایمان کو بتاتی ہے کہ وہ نمایت ہی بلند مر تبہ اور قیمتی لوگ ہیں اور اللہ کے نزدیک وہ مرتبہ بلند رکھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر یہ کتاب ان کے لیے تلاوت کرتا ہے اور ان کے لیے یہ کتاب ان کی صفت ایمان کی وجہ سے تلاوت کی جارہی ہے ۔

لقوم یومنون (3:28 ) ” ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں “۔

اس کے بعد اصل قصہ شروع ہوتا ہے ، یہاں قصے کا آغاز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے آغاز یعنی آپ کی ولادت سے ہوتا ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ کئی سورتوں میں آیا ہے لیکن آپ کی ولادت کے واقعات کا بیان صرف اس سورت میں اس انداز سے ہے کیونکہ آپ کی سیرت کا پہلا دور یعنی آپ کی ولادت اور وہ حالات جن میں ولادت ہوئی بےبسی کا دور تھا ولادت ہوتے ہی آپ بےبس تھے ۔ آپ کی قوم بھی بےبس تھی ۔ فرعون کی غلامی میں یہ لوگ بندھے ہوئے تھے ، ذلیلوخوار تھے اور یہی ذلت ومسکنت یہاں اس سورت کا حقیقی موضوع ہے ۔ ایسے مشکل حالات میں صاف صاف نظر آیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بچانے کے لیے دست قدرت واضح طور پر سرگرم ہے ۔ جو تدابیر اختیار کی گئیں وہ بالکل ظاہر ہیں ۔ ایسے حالات میں جبکہ ظلم زیادتی اور سرکشی کے خلاف تمام انسانی قوتیں عاجزآگئی ہیں۔ دست قدرت اس عظیم قوت پر ایسی ضرب لگاتی ہے جس کی کوئی آواز نہیں ہے۔ اس طرح مستضعفین کی نصرت کا آغاز ایسے حالات میں ہوتا ہے کہ ان کے پاس حالات کو بدلنے کا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا۔ قوم بنی وسرائیل کو سخت ترین عذاب اور ظلم اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان کے پاس بچاؤ کی کوئی ظاہری سبیل نہیں ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال تھی جس سے مکہ میں مٹھی بھر ایمان والے دوچار تھے۔ مکہ کے اہل ایمان کو بھی اس طرح دست قدرت کی غیبی امداد کی ضرورت تھی اور مکہ میں تشدد کرنے والوں کو ضرورت تھی کہ ان کو متنبہ کیا جائے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے۔

دوسری سورتوں میں اکثر اوقات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کا آغاز رسالت کے سپرد کیے جانے کے واقعات سے ہوتا ہے۔ کسی جگہ اس قصے کا آغاز ولادت موسیٰ کے واقعات سے نہیں ہوا۔ دوسرے مقامات پر جب ہم دیکھتے ہیں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک قوی مومن کی طرح ایک سرکش مقتدر اعلیٰ کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں اور یہ قوت ایمان غالب آتی ہے اور ظلم اور سرکشی سرنگوں ہوتی ہے لیکن یہاں یہ مفہوم بتانا مقصود نہیں ہے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ شر جب ننگا ہوکر اپنے عروج تک جا پہنچتا ہے تو اس کے اس عروج کے اندر سے اس کی خرابی کا سامان نمودار ہوتا ہے۔ شر اور ظلم جب کھل کر سامنے آجاتے ہیں تو پھر ان کی شکست و ریخت کا سامان قدرتی طور پر فراہم ہوتا ہے۔ کسی بیرونی دفاع کی ضرورت نہیں رہتی۔ شر کے خاتمے کے قدرتی عوامل شروع ہوجاتے ہیں ، اور دست قدرت خود اس کا دفعیہ کرتا ہے اور مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کو ظلم کی چکی سے نجات دے دی جاتی ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے ، خیر پھلتا اور پھولتا ہے۔ اس کی تربیت ہوتی ہے اور اہل خیروقت کے امام بن جاتے ہیں اور تمام اقتدار ان کے ہاتھ میں آجاتا ہے اور وہ اس کے وارث ہوجاتے ہیں۔

یہی وہ حکمت ہے جس کے لیے سورة قصص میں قصہ موسیٰ کو لایا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں اس قصے کی وہ کڑی لی گئی ہے جو پوری طرح اس مفہوم کو ظاہر کرتی ہے۔ قرآن کریم میں قصص جہاں جہاں بھی لائے گئے ہیں ، ہر جگہ ان سے ایک مخصوص غرض سامنے آتی ہے۔ لوگوں کی ، ایک زاویہ سے ، تربیت مقصود ہوتی ہے اور کچھ معانی ، کچھ حکمتیں اور کچھ اصول ان کو بنانے مقصود ہوتے ہیں۔ چناچہ جس مقصد کے لیے قصہ لایا جاتا ہے ، وہ نہایت ہی ہم آہنگی کے ساتھ اور مربوط طریقے سے ذہنوں میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ حقائق پر ودئیے جاتے ہیں اور قلب و نظر کی تعمیر صحیح خطوط پر ہوتی ہے۔

یہاں اس قصے کی جو کڑیاں لائی گئی ہیں ، مثلاً ولادت موسیٰ (علیہ السلام) ، وہ سخت حالات جن میں آپ کی ولادت ہوئی ، ان حالات میں جس معجزانہ انداز میں اللہ نے آپ کو بچانے کی تدابیر کیں ، پھر آپ کی پرورش کا معجزانہ انتظام اور آپ کو جوانی ، علم اور حکمت کا عطا ہونا ، قبطی کا قتل ہونا ، فرعون اور اس کے سرداروں کا آپ کے خلاف مشورت کرنا ، حضرت موسیٰ کا مصر سے مدین کی طرف بھاگنا ، وہاں شادی کرنا ، خدمت گزاری کی مدت پوری کرنا ، پھر طور پر آپ کا ندائے ربی سنتا اور منصب رسالت پانا ، پھر آپ کا فرعون اور اس کے سرداروں کے سامنے فریضہ تبلیغ رسالت پورا کرنا۔ ان کی جانب سے تکذیب ، حضرت ہارون کو بحیثیت معاون نبی متعین کرنا اور آخری انجام کہ فروعون کی غرقابی۔ یہ سب امور نہایت ہی تیزی کے ساتھ سین پر آتے ہیں۔

یہاں قصے کی دو کڑیوں کو قدرے تفصیل سے پیش کیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ ان کو قرآن کریم میں پہلی بار لایا گیا ہے۔ اور ان دونوں کے ذریعے یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ اللہ کس طرح کھل کر ظلم کے خلاف اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے ، فرعون کی تمام قوتیں اور مکاریاں فیل ہوجاتی ہیں۔ تمام احتیاطی تدابیر بےاثر ہوجاتی ہیں اور اللہ کے فیصلے نافذ ہو کر رہتے ہیں۔

اردو ترجمہ

واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna firAAawna AAala fee alardi wajaAAala ahlaha shiyaAAan yastadAAifu taifatan minhum yuthabbihu abnaahum wayastahyee nisaahum innahu kana mina almufsideena

ونری فرعون ۔۔۔۔۔ کانوا یحذرون (28: 6) ”“۔ جس طرح پورے قرآن میں قرآن کریم کا انداز بیان قصص ہوتا ہے ۔ قصہ فرعون و کلیم کو بھی یہاں مناظر کی شکل میں لایا گیا ہے۔ ان مناظر کے درمیان ان کڑیوں کو حذف کردیا گیا ہے۔ جن کو انسان کی قوت متحیلہ خود بخود نظروں کے سامنے لے آتی ہے ، لہٰذا دو مناظر کے درمیان جو کڑیاں ترک کردی جاتی ہیں۔ ان کے بارے میں انسان لاعلم نہیں رہتا ، بلکہ انسان کی قوت متحیلہ پر دہ خیال پر ان واقعات کو لے آتی ہے۔ یوں ظاہری اسکرین کے ساتھ ساتھ پردہ خیال پر بھی مناظر آتے اور جاتے رہتے ہیں۔

اس قصے کا پہلا حصہ پانچ مناظر ، دوسرا نو مناظر ، تیسرا حصہ چار مناظر پر مشتمل ہے۔ اور ان مناظر اور ٹکڑوں کے درمیان ایک خلا ہے ، کہیں یہ گیپ بڑا ہے اور کہیں چھوٹا ہے۔ جس طرح پردہ گرتا ہے اور منظر آنکھوں سے غائب ہوجاتا ہے اور خیال کی اسکرین پر مناظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

قصہ کے آغاز سے بھی پہلے اس فضا کی تصویر کشی کی جاتی ہے جس کے اندر واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ وہ حالات جن میں یہ قصہ واقع ہوا اور وہ مقاصد جن کے لیے دست قدرت نے یہ واقعات رونما کئے اور پھر وہ مقاصد جن کے لئے یہاں اس قصے کو دہرایا جا رہا ہے۔ یہ بھی قرآن کا ایک اسلوب ہے جو وہ قصہ پیش کرتے وقت اختیار کرتا ہے۔

ان فرعون علا فی الارض ۔۔۔۔۔۔۔ ما کانوا یحذرون (4 – 6)

واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا ، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہیں کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا “۔

یہ ہے وہ اسٹیج جس پر یہ واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اس ماحول کو وہ ذات بیان کر رہی ہے جو ان واقعات کو رونما کرا رہی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیتی ہے کہ ہم نے کیوں ایسا کیا اور یہ بھی صراحت کی کہ یہ ہم ہیں جو ایسا کر رہے ہیں۔ اور اس لیے کر رہے ہیں۔ ” واقعات۔ قصہ “ کے آغاز ہی میں صاف صاف بنا دیا جاتا ہے ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ قصے کا ہدف واضح طور پر ہمارے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ چناچہ اس عجیب انداز میں یہاں اس قصے کا آغاز ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انداز اس کتاب کے عجائبات میں سے ہے۔

یہاں فراعنہ مصر میں سے اس فرعون کا نام نہیں لیا جاتا جس کے عہد میں یہ واقعات رونما ہوئے کیونکہ واقعات کا خالص تاریخی پہلو متعین کرنا مقاصد قرآن میں سے نہیں ہے۔ نہ اس سے اس علم و حکمت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے جو قرآن کریم اہل ایمان کو سکھانا چاہتا ہے۔ یہ کافی ہے کہ حضرت یوسف کے زمانہ مصر کے بعد یہ واقعات رونما ہوئے کیونکہ حضرت یوسف کے والدین اور بھائیوں کی مصر منتقلی کے ساتھ بنی اسرائیل کی مصر منتقلی شروع ہوئی اور یہاں وہ پھلے پھولے۔ حضرت یوسف کے دور کے بعد سرکش فرعون نے مصر کا اقتدار اعلیٰ حاصل کیا۔ یہ بڑا جبار وقہار تھا۔ اس نے مصر میں طبقاتی نظام جاری کردیا تھا۔ ہر طبقے کے فرائض متعین کر دئیے تھے اور بنی اسرائیل پر اس دور میں بےحد مظالم ہو رہے تھے ۔ کیونکہ بنی اسرائیل کے عقائد و نظریات مصریوں کے عقائد و نظریات سے بالکل جدا تھے۔ بنی اسرائیل اپنے دادا حضرت ابراہیم کے دین پر تھے۔ اگرچہ ان کے عقائد میں تغیر و انحراف واقع ہوگیا تھا لیکن دین کا بنیادی ڈھانچہ وہی تھا۔ وہ عقیدہ توحید کے قائل تھے۔ فرعون کی الوہیت کے منکر تھے۔ اس طرح فراعنہ جن بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ بنی اسرائیل ان کے قائل نہ تھے۔

فرعون کو یہ خوف لاحق تھا کہ بنی اسرائیل مصر میں ، اپنے خیالات کی وجہ سے اس کے تاج و تخت کے لیے خطرہ ہیں۔ وہ مصر سے ان کو یکلخت نکال بھی نہ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ لاکھوں کی تعداد میں تھے نیز اس صورت میں فرعون کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر اس قدر عظیم آبادی کو یکبارگی مصر سے نکال دیا جائے تو وہ دشمن مجاور اقوام سے مل کر مصر پر حملہ آر ہوجائیں گے ۔ اس لیے اس نے اس قوم کو نیست و نابود کرنے کے لیے نہایت ہی وحشیانہ طریقہ نکالا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ یہ لوگ نہ فرعون کو مانتے ہیں اور نہ اس کی خدائی کے قائل ہیں ، اس لیے اس نے اس قوم کو سخت ترین مشقت کے سپرد کردیا ، ان کو ہر طرح ذلیل کرکے رکھا ، اور ان پر قسم قسم کے مصائب ڈھانے لگا۔ آخر کار اس نے یہ انتہائی فیصلہ کیا کہ ان کے تمام پیدا ہونے والے لڑکوں کو ذبح کردیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے تاکہ ان کی آبادی میں اضافہ بالکل ختم ہوجائے۔ مرد زیادہ نہ ہوں اس طرح کی عورتوں کی کثرت اور مردوں کی کمی کی وجہ سے ان کی قوت ٹوٹ جائے گی اور یہ لوگ اس سخت عذاب اور ظلم کی وجہ سے دبا کر بھی رکھے جاسکیں گے۔

روایات میں آتا ہے کہ اس نے تمام حاملہ عورتوں کے لیے دائیاں مقرر کر رکھی تھیں جو ہر پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں فوراً رپورٹ کرتی تھیں اور اور بچے کو فوراً ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا۔ اور اس سنگدلانہ منصوبے پر عمل کرنے میں کوئی رو رعایت نہ برتی جاتی تھی۔ فرعون کا یہ اس قدر ظالمانہ منصوبہ تھا کہ بےگناہ بچوں کو یوں ذبح کرنے کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں حضرت موسیٰ کا قصہ یوں ان کی ولادت سے شروع ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :

ان فرعون علا ۔۔۔۔۔۔ من المفسدین (28: 4) ” واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا ۔ اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا “۔

لیکن اللہ کا ارادہ اور منصوبہ فرعون کے منصوبے سے مختلف تھا۔ اللہ کا فیصلہ سرکش فرعون کے فیصلے سے جدا تھا۔ ہمیشہ یوں ہوتا ہے کہ ظالم اور سرکش اپنی قوت اور تدابیر پر مست ہوتے ہیں ، وہ اللہ کے فیصلوں اور قدرتوں کو بھلا دیتے ہیں۔ وہ یوں سوچتے ہیں کہ یہ لوگ جو سوچیں گے نتائج ویسے ہی ہوں گے۔ یہ لوگ اپنے دشمنوں کے لیے ان کا انجام خود متعین کرتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ حالات کے نتائج ان کے اندازوں کے مطابق ہی ہوں گے۔ اللہ یہاں اپنے ارادے کا اعلان کرتا ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں ہماری تقدیر یہ ہے۔ یہاں فرعون ، ہامان اور ان کے لشکروں کو متنبہ کردیا جاتا ہے کہ تم جو تدابیر اختیار کر رہے ہو وہ تمہارے لیے مفید مطلب نہ ہوں گی۔

اردو ترجمہ

اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wanureedu an namunna AAala allatheena istudAAifoo fee alardi wanajAAalahum aimmatan wanajAAalahumu alwaritheena

ونرید ان نمن علی الذین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ما کانوا یحذرون (28: 5 – 6) ”

“۔ یہ کمزور لوگ جن کو اس سرکش نے پوری طرح غلام بنا رکھا تھا ، ان کے حالات میں اپنی مرضی سے تصرف کرتا تھ ، ان کو سخت سے سخت سزائیں دیتا تھا ، ان کے لڑکوں کو ذبح کرتا تھا۔ اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑتا تھا۔ اس تشدد اور ظلم و ستم کے باوجود وہ اپنی ذات اور اپنے اقتدار کے بارے میں ان عوام سے سخت خائف تھا۔ چناچہ اس نے ان کے خلاف خفیہ پولیس قائم کر رکھی تھی اور ان کے ہاں جو بچہ بھی پیدا ہوتا اسے رپورٹ مل جاتی اور وہ اسے مذبح خانے کو بھیج دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک قصاب تھا۔ یہ مفلوک الحال مستضعفین تھے جن پر اللہ نے پناہ فضل و کرم کرنے والا تھا۔ ان کو اللہ وقت کا امام بنانا چاہتا تھا۔ دنیا کی قیادت ان کے حوالے کرنے والا تھا۔ ان کو غلامی اور اطاعت کے درجے سے نکال کر قائدانہ رول دینا چاہتا تھا کہ وہ زمین پر اقتدار کے مالک بن جائیں ۔ (بعد میں جب وہ اس کے مستحق بنے تو ایسا ہی ہوا لیکن یہ استحقاق ایمان و صلاح کی بنیاد پر تھا) وہ ثابت قدم اور قوت و شوکت کے مالک بن جائیں اور ان کے ہاتھوں وہ خطرات واقعات بن جائیں جو ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کا لاحق تھے اور جن کے خلاف وہ ممکن حد تک احتیاطی تدابیر اختیار کیے ہوئے تھے لیکن ان کو یہ شعور نہ تھا کہ دست قدرت سے کیا ظاہر ہونے والا ہے۔

غرض واقعات قصہ کے بیان سے بھی پہلے یہاں مقاصد قصہ بیان کر دئیے جاتے ہیں۔ موجودہ صورت حالات کو بھی قارئین کے سامنے رکھا جاتا ہے اور جو ہونے والا ہے اس کی جھلکی بھی دکھائی جاتی ہے تاکہ دونوں قوتیں باہم بالمقابل ہوں۔ ایک طرف فرعون کا ظاہری کروفر ہے جس کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جو کچھ چاہے ، کرسکتا ہے اور دوسری طرف اللہ کی وہ عظیم حقیقی قوت ہے جس کے مقابلے میں انسانی قوتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کی قوت کے سامنے سب قوتیں ضعیف ، لاغر اور نیست و نابود ہونے والی ہیں۔

اس قصے کے بارے میں یہ اعلان اس سے قبل ہوجاتا ہے کہ اس کے مناظر کا آغاز کیا جائے جبکہ لوگ واقعات قصہ کے منتظر بیٹھے ہیں۔ ان کو انتظار ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ اور جس طرح اعلان کیا گیا ہے یہ مستضعفین کس طرح اس عظیم قوت کو پاش پاش کرکے اقتدار اعلیٰ پر قابض ہوجائیں گے ۔

یوں یہ قصہ زندگی سے بھرپور ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ شاید اسے قرآن کریم میں سورة قصص میں پہلی بار لایا گیا اور یوں نظر آتا ہے کہ اس کے مناظر اب پیش ہو رہے ہیں۔ یہ کوئی تاریخی واقعہ نہیں ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔ گویا واقعات اب پیش ہو رہے ہیں۔ یہ قرآن کریم کا منفرد انداز بیان ہے کہ وہ تاریخی نہیں بلکہ تمثیلی انداز میں قصص کو بیان کرتا ہے۔

اس قصے کا آغاز ہوتا ہے ، اس چیلنج کے بعد دست قدرت کے تصریحات کھلے کھلے اسکرین پر نظر آتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کی ولادت ہوتی ہے اور جن حالات میں ہوتی ہے وہ بیان کر دئیے گئے ہیں۔ ولادت کے ساتھ ہی یہ خطرہ لاحق ہے کہ ان کی ولادت کی رپورٹ ہوجائے اور وہ فوراً موت کے منہ میں چلے جائیں ، ان کی گردن پر چھری چل پڑے اور ان کا سر زمین پر جاگرے۔

ان کی والدہ سخت پریشان ہے۔ اسے ان کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ہر آن یہ خطرہ ہے کہ ان جلادوں کو اطلاع ہوجائے۔ وہ جب سوچتی ہے کہ اس معصوم کی گردن پر چھری چل رہی ہے تو وہ کانپ اٹھتی ہے ، یہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اس بچے کو اٹھائے ہوئے ہے۔ اس کے پاس اس کے بجانے کی کوئی قوت نہیں ہے۔ وہ اسے چھپا بھی نہیں سکتی۔ وہ اس کی فطری آواز ، رونے کی آواز کو بھی نہیں دبا سکتی۔ کوئی حیلہ اور وسیلہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ وہ اکیلی ہے ، عاجز ہے اور مسکین ہے۔ اس نازک موقعہ پر دست قدرت حرکت میں آتا ہے ۔ اس حیران و پریشان ماں کا رابطہ عظیم قوت کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ اسے اس حالت خوف میں ہدایت مل جاتی ہے کہ وہ کیا کرے۔ اسے یوں حکم دیا جاتا ہے۔

385