سورۃ الجمعہ (62): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Jumu'a کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الجمعة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الجمعہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Jumu'a
سُورَةُ الجُمُعَةِ
صفحہ 553 (آیات 1 سے 8 تک)

يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ٱلْمَلِكِ ٱلْقُدُّوسِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَكِيمِ هُوَ ٱلَّذِى بَعَثَ فِى ٱلْأُمِّيِّۦنَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتِهِۦ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا۟ مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَٰلٍ مُّبِينٍ وَءَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا۟ بِهِمْ ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ذَٰلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلْفَضْلِ ٱلْعَظِيمِ مَثَلُ ٱلَّذِينَ حُمِّلُوا۟ ٱلتَّوْرَىٰةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ ٱلْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًۢا ۚ بِئْسَ مَثَلُ ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُوا۟ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ ۚ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ هَادُوٓا۟ إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَآءُ لِلَّهِ مِن دُونِ ٱلنَّاسِ فَتَمَنَّوُا۟ ٱلْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُۥٓ أَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۚ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِٱلظَّٰلِمِينَ قُلْ إِنَّ ٱلْمَوْتَ ٱلَّذِى تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُۥ مُلَٰقِيكُمْ ۖ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَٰلِمِ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَٰدَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
553

سورۃ الجمعہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الجمعہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے بادشاہ ہے، قدوس ہے، زبردست اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yusabbihu lillahi ma fee alssamawati wama fee alardi almaliki alquddoosi alAAazeezi alhakeemi

آیت 1{ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ۔ } ”تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے ‘ جو بادشاہ ہے ‘ ہر عیب سے پاک ہے ‘ بہت زبردست ہے ‘ بہت حکمت والا ہے۔“ یہ آیت گویا اس سورة مبارکہ کے لیے ایک نہایت ُ پرشکوہ اور پرجلال تمہید اور آغاز کلام ہے۔ سورة الصف کے آغاز میں تسبیح باری تعالیٰ کا ذکر صیغہ ماضی میں تھا ‘ جبکہ یہاں فعل مضارع آیا ہے۔ اس طرح تسبیح باری تعالیٰ کے ضمن میں گویا زمان و مکان کا احاطہ کرلیا گیا ہے۔ اس آیہ مبارکہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے چار اسماء وارد ہوئے ہیں اور یہ ایک غیر معمولی بات ہے ‘ اس لیے کہ عام طور پر آیات کے اختتام پر اسمائِ باری تعالیٰ دو ‘ دو کے جوڑوں کی صورت میں آتے ہیں۔

اردو ترجمہ

وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee baAAatha fee alommiyyeena rasoolan minhum yatloo AAalayhim ayatihi wayuzakkeehim wayuAAallimuhumu alkitaba waalhikmata wain kanoo min qablu lafee dalalin mubeenin

آیت 2{ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق } ”وہی تو ہے جس نے اٹھایا امیین میں ایک رسول ان ہی میں سے ‘ جو ان کو پڑھ کر سناتا ہے اس کی آیات اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں تعلیم دیتا ہے کتاب و حکمت کی۔“{ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَـبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ } ”اور یقینا اس سے پہلے تو وہ کھلی گمراہی میں تھے۔“ اس سورت کی یہ آیت انقلابِ نبوی ﷺ کے اساسی منہاج کے حوالے سے اسی طرح اہم ہے جس طرح سورة الصف کی آیت 9 تکمیلی منہاج کے اعتبار سے اہم ہے۔ سورة الصف کی مذکورہ آیت میں حضور ﷺ کا مقصد ِبعثت بیان ہوا ہے تو آیت زیر مطالعہ میں آپ ﷺ کے فرائض منصبی کا ذکر ہے۔ سورة الصف کی وہ آیت اپنی اہمیت کی وجہ سے قرآن مجید میں تین مرتبہ سورۃ الصف کے علاوہ سورة التوبہ ‘ آیت 33 اور سورة الفتح ‘ آیت 28 کے طور پر آئی ہے ‘ تو اس آیت میں مذکور ”انقلابِ نبوی ﷺ کا اساسی منہاج“ قرآن حکیم میں چار مرتبہ سورۃ الجمعہ کی اس آیت کے علاوہ سورة البقرۃ کی آیات 129 ‘ 151 اور سورة آل عمران کی آیت 164 میں بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ کے اساسی منہج کے عناصر ِاربعہ بیان کیے گئے ہیں : 1 تلاوتِ آیات 2 تزکیہ 3 تعلیم کتاب 4 تعلیم حکمت۔ اس آیت کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ اس میں مطلوبہ انقلاب کی تیاری اور اس کے لیے مردانِ کار کی فراہمی کا مکمل طریقہ اور نصاب بیان کردیا گیا ہے کہ ان کی تعلیم ‘ تربیت ‘ تذکیر ‘ ان کا تزکیہ ‘ ان کا انذار سب کچھ قرآن کریم کے ذریعے سے ہوگا۔ حضور ﷺ نے لوگوں کو قرآن مجید سنانا شروع کیا توسلیم الفطرت لوگ قرآن کی مقناطیسی تاثیر کی وجہ سے اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس کی طرف کھنچے چلے آئے۔ کسی نے فوراً ہی لبیک کہہ دیا ‘ کوئی قدرے تامل کے بعد راغب ہوا اور کسی نے نسبتاً زیادہ دیر بعد فیصلہ کیا۔ چناچہ جس طرح دودھ کو بلو کر مکھن نکالا جاتا ہے بالکل اسی طرح مکہ کی آبادی کو بارہ سال کے عرصے میں آیات ِقرآن کی تلاوت کے ذریعے سے بار بار جھنجھوڑکر تمام سلیم الفطرت زندہ ارواح کے حامل افراد کو چھانٹ کر الگ کرلیا گیا۔ پھر ان منتخب افراد کا تزکیہ بھی قرآن مجید کی تلاوت سے ہی ہوا۔ قرآن مجید بلاشبہ { شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِلا } یونس : 57 ہے۔ جیسے جیسے یہ کلام ان لوگوں کے سینوں میں اترتا گیا دلوں کی بیماریاں دور ہوتی چلی گئیں۔ یہاں پر یہ اہم نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ دل کی بیماریاں تو بیشمار ہیں لیکن ان تمام بیماریوں کو اگر کوئی ایک نام یا کوئی ایک عنوان دیا جائے تو وہ ”حب ِدُنیا“ ہے۔ حب ِدُنیا کی گندگی جب کسی دل کے اندر ڈیرہ جما لیتی ہے تو اس کے تعفن سے نت نئی بیماریاں جنم لیتی چلی جاتی ہیں ‘ جبکہ خود حب دنیا کے جراثیم کو غذا انسان کی سوچ اور اس کے نظریے سے ملتی ہے۔ ظاہر ہے انسان کی زندگی کا انداز اور اس کی دوڑ دھوپ کا رخ اس کا نظریہ متعین کرتا ہے۔ چناچہ قرآن مجید کی تعلیم کے ذریعے ان لوگوں کے نظریات درست ہوگئے تو حب دنیا سمیت تمام باطنی بیماریوں کی گویا جڑ کٹ گئی اور برے اعمال و خصائل ان کی شخصیات سے ایسے غائب ہوگئے جیسے موسم خزاں میں درختوں سے ّپتے جھڑ جاتے ہیں۔ یہاں ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ اس آیت میں حضور ﷺ کے جن فرائض منصبی کا ذکر ہوا ہے ان میں ”تعلیم حکمت“ کا تعلق عام لوگوں سے نہیں ہے ‘ بلکہ یہ حضور ﷺ کی تعلیم و تربیت کا شعبہ تخصص area of specialization ہے۔ ہر کوئی اس میدان کا شہسوار نہیں بن سکتا۔ ارشادِ خداوندی ہے : { یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًاط } البقرۃ : 269 ”وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے۔ اور جسے حکمت دے دی گئی اسے تو خیر ِکثیر عطا ہوگیا“۔۔۔۔ بہرحال یہ آیت ہم پر یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ حضور ﷺ کے منہج انقلاب میں آلہ دعوت اور آلہ انقلاب قرآن مجید ہے۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو دعوت بھی قرآن کے ذریعے دی۔ ان کی تذکیر وتبشیر کے لیے بھی قرآن پر ہی انحصار کیا۔ پھر اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کا تزکیہ بھی قرآن سے ہی ہوا اور ان کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بھی قرآن ہی بنا۔ آپ ﷺ نے قرآن کی بنیاد پر 23 سال کے مختصر عرصے میں انسانی تاریخ کا عظیم ترین انقلاب برپا کر کے جزیرہ نمائے عرب میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نظام عدل و قسط کو بالفعل نافذ کردیا۔ اس کے بعد پوری دنیا میں دین کو غالب کرنے کا مشن امت کے سپرد کر کے آپ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ یہ مشن منتقل کرتے ہوئے بھی حضور ﷺ نے امت کو جو وصیت کی تھی وہ بھی قرآن کے بارے میں تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ کِتَابَ اللّٰہِ 1 ”میں تمہارے درمیان وہ شے چھوڑے جا رہا ہوں کہ جسے تم مضبوطی سے تھام لو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔ وہ ہے اللہ کی کتاب !“ چناچہ آج ہمارے لیے بلکہ تاقیامِ قیامت ہر زمانے کے مسلمانوں کے لیے قرآن مجید گویا محمد رسول اللہ ﷺ کے قائم مقام ہے۔ اس حیثیت میں یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے کئی گنا بڑا معجزہ ہے۔ عصائے موسیٰ علیہ السلام تو صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں معجزہ تھا ‘ آپ علیہ السلام کے بعد تو وہ معجزہ نہیں رہا۔ اگر آج بھی وہ کہیں موجود ہے ‘ جیسا کہ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس محفوظ ہے ‘ تو اس کی حیثیت بس ایک لاٹھی کی سی ہے۔ اس کے برعکس حضور ﷺ کا معجزئہ رسالت یعنی قرآن مجید قیامت تک کے لیے معجزہ ہے اور ہر اس شخص کے لیے معجزہ ہے جو اس کا حق پہچانے اور ادا کرے۔ اس حوالے سے میرا ایمان تو حق الیقین کی حد تک ہے کہ اگر کوئی شخص خلوص و اخلاص کے ساتھ قرآن مجید میں ایسی ”محنت“ کرے کہ قرآن اس کو possess کرلے تو پھر اسے دنیا کی ہرچیز بےوقعت نظر آئے گی اور قرآن کے علاوہ کسی اور چیز میں اس کا دل نہیں لگے گا۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی نعمت کو بالکل ہی پس پشت ڈال دیا ہے۔ ہم دنیا بھر کے علوم سیکھتے ہیں مگر اس قدر عربی نہیں سیکھ سکتے جس سے قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھا جاسکے۔ اس لیے کہ یہ نہ تو ہماری ترجیح ہے اور نہ ہی اس کے لیے ہمارے پاس وقت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو نظر انداز کرنے کا ہمارا یہ انداز حیرت انگیز حد تک جسارت آمیز ہے۔ اس حوالے سے ذرا قرآن کی یہ وعید بھی سنیے : { اَفَبِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْھِنُوْنَ - وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّــکُمْ تُـکَذِّبُوْنَ۔ } الواقعۃ کہ اے اللہ کے بندو ! ذرا سوچو تو ! کیا تم اس عظیم الشان کلام کے بارے میں مداہنت کرتے ہو ؟ اور کیا اس کی تکذیب کو تم نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے ؟ قرآن مجید تو ظاہر ہے ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ہے۔ یہ آیات اپنے نزول کے وقت تو مشرکین مکہ سے مخاطب تھیں ‘ جبکہ آج ان کے مخاطب ہم ہیں۔ وہ لوگ تو نظریاتی طور پر قرآن مجید کو اللہ کا کلام نہیں مانتے تھے اور اپنی زبانوں سے اس کی تکذیب کرتے تھے ‘ جبکہ آج ہم اپنی زبانوں سے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کرنے کے بعد اپنے عمل سے اس کی تکذیب کر رہے ہیں۔ مقامِ عبرت ہے ! قرآن مجید کی طرف تو پلٹ کر دیکھنے کے لیے بھی ہمارے پاس وقت نہیں جبکہ دنیا کے حقیر مفادات کے لیے ہم دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ کیا ہمیں اسی لیے پیدا کیا گیا تھا ؟ یہی سوال تھا جس نے ابراہیم بن ادھم رح کی زندگی بدل دی تھی۔ ابراہیم بن ادھم رح بادشاہ کی حیثیت سے غفلت اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ایک دن شکار کھیلنے میں مصروف تھے کہ انہوں نے ایک آواز سنی : یَااِبْرَاھِیْمُ اَلِھٰذَا خُلِقْتَ اَمْ لِھٰذَا اُمِرْتَ ؟ کہ اے ابراہیم ذرا سوچو ! کیا تمہیں اسی کام کے لیے پیدا کیا گیا تھا ؟ اور کیا تمہیں اسی کام کا حکم ہوا تھا ؟ اللہ جانے یہ کسی فرشتے کی آواز تھی یا ان کے اپنے دل کی صدا۔ بہرحال جو بھی صورت حال تھی ‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بات ان کے دل میں گھر کرگئی اور ان کی زندگی کی کایا پلٹ گئی۔

اردو ترجمہ

اور (اس رسول کی بعثت) اُن دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی اُن سے نہیں ملے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waakhareena minhum lamma yalhaqoo bihim wahuwa alAAazeezu alhakeemu

آیت 3{ وَّاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ } ”اور ان ہی میں سے ان دوسرے لوگوں میں بھی جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔“ { وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ } ”اور وہ بہت زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا ہے۔“ وَّاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ کا عطف اُمّیّٖنَ پر ہے۔ یعنی دوسرے کچھ اور بھی ہیں جن کی طرف آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا گیا۔ حضور ﷺ کی بعثت تو قیامت تک لیے ہے۔ ظاہر ہے آپ ﷺ کی امت میں ہر نسل ‘ ہر ملک اور ہر قوم کے لوگ شامل ہوں گے۔ متفق علیہ احادیث کے مطابق حضور ﷺ سے جب اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْکے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک حضرت سلمان فارسی رض کے کندھے پر رکھ کر فرمایا کہ ”یہ اور اس کی قوم کے لوگ“۔ مزید فرمایا کہ دین اگر ثریا پر بھی ہوگا تو اس کی قوم کا ایک شخص اس تک پہنچ جائے گا۔ حضور ﷺ کے اس فرمان کے بارے میں تمام حنفی علماء متفق ہیں کہ اس کے مصداق حضرت امام ابوحنیفہ - ہیں ‘ جو ایرانی النسل ہیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ ایرانی قوم بحیثیت مجموعی بہت ذہین ہے۔ اس قوم نے ایک سے بڑھ کر ایک فلاسفر پیدا کیا ہے ‘ بلکہ ہمارے علمائے کلام تو سب کے سب ایرانی ہیں۔ اس حوالے سے ایرانی قوم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے جیسے فلسفہ اور منطق ان کی گھٹی میں شامل ہے۔ ماضی میں یونان اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ ایران بھی فلسفہ و منطق کے ایک اہم مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ بعد میں جرمن قوم نے بھی اس میدان میں نام پیدا کیا۔ یہ سب اقوام حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت حام کی نسل سے ہیں۔ اس ضمن میں میری تحقیق یہ ہے کہ حضرت سام کی نسل کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لیے چن لیا تھا ‘ جبکہ حضرت حام کی نسل کو حکمت میں برگزیدہ کیا تھا۔ میں نے آیت زیر مطالعہ کو ایٹم atom اور اس کے مرکزہ nucleus کے گرد مختلف دائروں میں گھومنے والے الیکٹرانز کی مثال سے سمجھا ہے۔ اس مثال کے مطابق امت مسلمہ کا مرکزہ nucleus ”اُمیین“ پر مشتمل ہے۔ یعنی بنواسماعیل اور حضور ﷺ کے زمانے کے تمام اہل عرب جو اس وقت آپ ﷺ کے براہ راست مخاطب تھے۔ اس کے بعد نیوکلیس کے گرد پہلا دائرہ ایرانیوں کے الیکٹرانز سے بنا۔ پھر رومی ‘ قبطی ‘ سندھی ‘ ہندی وغیرہ اقوام کے الیکٹرانز کے دائرے بنے اور پھیلتے گئے۔ یہ دائرے ظاہر ہے قیامت تک مزید بھی پھیلیں گے لیکن امیین نیوکلیس کے علاوہ باقی تمام اقوام کا شمار ”آخرین“ میں ہوگا۔ حضور ﷺ کی دعوت کے حوالے سے ”اُمیین“ اور ”آخرین“ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ امیین پر وہی قانون لاگو ہوا جو سابقہ رسولوں علیہ السلام کی اقوام پر ہوا تھا۔ یعنی اتمامِ حجت کے بعد بھی جو لوگ ایمان نہ لائیں انہیں نیست و نابود کردیا جائے۔ چناچہ حضور ﷺ کی طرف سے اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد ”اُمیین“ کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی گئی۔ 9 ہجری میں ان کو ایک اعلانِ عام سورۃ التوبہ ‘ رکوع اول کے ذریعے متنبہ کردیا گیا کہ چار ماہ کے اندر اندر ایمان لے آئو ورنہ قتل کردیے جائو گے۔ اس کے برعکس ”آخرین“ پر مذکورہ قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ان میں سے کوئی اسلام کی دعوت کو مانے یا نہ مانے ‘ ایمان لائے یا نہ لائے اسے اختیار ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کے مکمل غلبے کی صورت میں بھی کسی سے اس کے مذہب کے بارے میں تعرض نہیں ہوگا۔ البتہ ملک کا نظام اللہ کے قانون کے مطابق چلایا جائے گا ‘ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

اردو ترجمہ

اللہ زبردست اور حکیم ہے یہ اس کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika fadlu Allahi yuteehi man yashao waAllahu thoo alfadli alAAatheemi

آیت 4 { ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُـؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ } ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔“ { وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔ } ”اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بہت سے درجات ہیں اور ان میں سب سے اونچا اور اعلیٰ درجہ پوری کائنات میں محمد رسول اللہ ﷺ کے لیے مختص ہے : { اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیْرًا۔ } بنی اسرائیل ”اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا فضل آپ ﷺ پر بہت بڑا ہے“۔ حضور ﷺ کے بعد ہر اس شخص پر بھی اللہ کا بہت بڑا فضل ہے جو حضور ﷺ کے دامن سے وابستہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمیں اس نے اپنا یہ فضل پیدائشی طور پر عطا فرما دیا اور ہمیں ایسے گھروں میں پیدا کیا جہاں پیدا ہوتے ہی ہم نے اپنے کانوں میں اذان اور اقامت کی آوازیں سنیں۔ سورة الحجرات میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ھَدٰٹکُمْ لِلْاِیْمَانِ } آیت 17 کہ تم پر یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ اب اگر ہم اپنے رویے سے اللہ کے اس فضل اور احسان کی ناقدری کریں اور اللہ کی نافرمانی کے راستے پر چل کر راندئہ درگاہ ہوجائیں تو ہم سے بڑا بدنصیب کون ہوگا ! اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھنے کا ہے کہ اللہ کے فضل کا تعلق دنیوی آسائش و آرام اور مال و دولت سے نہیں ہے۔ اس ضمن میں خود حضور ﷺ کی مثال ہی لے لیجیے۔ دُنیوی لحاظ سے تو آپ ﷺ کو بہت سی محرومیوں کا سامنا تھا۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یتیم پیدا کیا۔ آپ ﷺ کی پیدائش کے وقت گھر کی مالی حالت ایسی تھی کہ کوئی دایہ آپ ﷺ کی پرورش کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ تھی۔ حلیمہ سعدیہ رض نے بھی آپ ﷺ کو صرف اس لیے قبول کیا کہ انہیں کوئی اور بچہ ملا نہیں تھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے لڑکپن اور جوانی کا دور بھی سخت مشقت اور مزدوری میں گزرا۔ آپ ﷺ خود فرماتے ہیں کہ میں چند ٹکوں کے عوض قریش کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ متعلقہ حدیث میں درہم یا دینار کا ذکر نہیں بلکہ ”قراریط“ کا لفظ آیا ہے جو ریزگاری کے لیے استعمال ہوتا تھا ‘ یعنی چند ٹکے یا پیسے۔ آپ ﷺ کی اس دور کی زندگی کی جھلک سورة الضحیٰ کی ان آیات میں بھی نظر آتی ہے :{ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی - وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی - وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی۔ } ”کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر آپ کو ٹھکانہ دیا ! اور آپ کو تلاش حقیقت میں سرگرداں پایا تو راہ دکھلائی ! اور آپ کو نادار پایا تو مال دار کردیا !“ اس کے بعد دور نبوت میں بھی آپٖ ﷺ کی زندگی مسلسل فقر و فاقہ اور مصائب و مشکلات میں گزری۔ آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔ آپ ﷺ کو شاعر اور مجنون کہا گیا ‘ اوباش اور آوارہ لڑکوں نے پتھرائو کر کے آپ ﷺ کو لہولہان کردیا۔ غرض آپ ﷺ کی دنیوی زندگی مجموعی طور پر سخت مشکلات اور مشقت میں گزری۔ جبکہ دوسری طرف آپ ﷺ کی شان یہ ہے کہ پوری کائنات میں اللہ کا سب سے بڑا فضل آپ ﷺ پر ہے۔ چناچہ اللہ کے فضل کے اپنے انداز اور اپنے پیمانے ہیں۔ دنیوی ناز و نعم ‘ عیش و عشرت ‘ عزت و شہرت وغیرہ کو اس کا معیار نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہاں پر سورة کی پہلی چار آیات کا مطالعہ مکمل ہوگیا ہے۔ ان آیات میں حضور ﷺ کی بعثت کے حوالے سے آپ ﷺ کے فرائض منصبی کا ذکر ہے اور اس امت کی ”آفاقی“ حیثیت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یعنی سابقہ امت مسلمہ بنی اسرائیل یک نسلی uni racial اُمت تھی ‘ جبکہ موجودہ امت مسلمہ ملٹی نیشنل امت ہے ‘ جس میں عربی ‘ فارسی ‘ ہندی ‘ چینی وغیرہ ہر قوم اور ہر نسل کے لوگ شامل ہیں ‘ بلکہ اس وقت دنیا میں شاید ہی ایسی کوئی قوم یا نسل موجود ہو جس کے افراد اس امت میں شامل نہ ہوں۔ ان آیات میں دوسری بات یہ واضح کی گئی ہے کہ حضور ﷺ کا آلہ دعوت اور آلہ تربیت صرف اور صرف قرآن تھا۔ اسی سے آپ ﷺ نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور اسی سے انہیں انقلابی جدوجہد اور جہاد و قتال کے لیے تیار کیا۔

اردو ترجمہ

جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھا یا، اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اِس سے بھی زیادہ بری مثال ہے اُن لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Mathalu allatheena hummiloo alttawrata thumma lam yahmilooha kamathali alhimari yahmilu asfaran bisa mathalu alqawmi allatheena kaththaboo biayati Allahi waAllahu la yahdee alqawma alththalimeena

اب اگلی چار آیات میں بنی اسرائیل کی مثال کا آئینہ دکھا کر ہمیں ہمارے مجموعی طرزعمل سے آگاہ کیا جارہا ہے :آیت 5{ مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّـوْرٰٹۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًاط } ”مثال ان لوگوں کی جو حامل تورات بنائے گئے ‘ پھر وہ اس کے حامل ثابت نہ ہوئے ‘ اس گدھے کی سی مثال ہے جو اٹھائے ہوئے ہو کتابوں کا بوجھ۔“ جب وہ لوگ حامل تورات ہو کر بھی تورات سے بےگانہ رہے تو ان میں اور اس گدھے میں کیا فرق رہ گیا جو اپنی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہے۔ ظاہر ہے ایک گدھے پر آپ مکالماتِ افلاطون لاد دیں یا انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کی تمام جلدیں رکھ دیں ‘ اس سے اس کے اندر نہ تو کوئی فلسفیانہ بصیرت پیدا ہوگی اور نہ ہی اس کے دماغ میں کوئی معلومات منتقل ہو سکیں گی۔۔۔۔ آیت کے اس حصے میں لفظ حمل مختلف صیغوں میں تین مرتبہ آیا ہے۔ حمل ایسے بوجھ کو کہا جاتا ہے جسے آدمی اٹھا کر چل سکے۔ اسی معنی میں حمّال قلی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بوجھ وغیرہ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے جائے اور یہی مفہوم عورت کے حمل کا بھی ہے : { حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ } لقمن : 14 ”اس کو اٹھائے رکھا اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں کمزوری پر کمزوری جھیل کر“۔ عورت کو یہ حمل اٹھانے میں مشقت اور تکلیف کا سامنا تو کرنا پڑتا ہے ‘ لیکن اس کے لیے اس بوجھ کو اٹھائے پھرنا ممکن ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اِصْر البقرۃ : 286 ‘ الاعراف : 157 ایسا بوجھ ہے جس کا اٹھانا انسان کے لیے ممکن نہ ہو اور وہ اس کے نیچے دب کر رہ جائے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ جس قوم کو اپنی کتاب عطا کرتا ہے اس قوم پر اس کتاب کے حقوق کا بوجھ بھی ڈالتا ہے۔ ان حقوق میں کتاب پر ایمان لانے ‘ اس کے احکام پر عمل کرنے اور اس کی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت کی ذمہ داری کا بوجھ بھی شامل ہے : { وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْـکِتٰبَ لَتُبَـیِّنُـنَّـہٗ لِلنَّاسِ وَلاَ تَـکْتُمُوْنَـہٗز } آل عمران : 187 ”اور یاد کرو جبکہ اللہ نے ان لوگوں سے ایک قول وقرار لیا تھا جن کو کتاب دی گئی تھی کہ تم لازماً اسے لوگوں کے سامنے واضح کرو گے اور اسے چھپائو گے نہیں“۔ یہ میثاق اہل تورات سے لیا گیا تھا جبکہ قرآن مجید میں اہل کتاب سے متعلق ایسے واقعات اور ایسی مثالوں کا ذکر ہمیں خبردار کرنے کے لیے آیا ہے ‘ کہ اے اہل قرآن تمہیں بھی اپنی کتاب کے حقوق کماحقہ ادا کرنے ہیں اور اس کی تعلیمات کو لوگوں کے لیے عام کرنا ہے۔ ورنہ کتابوں کا بوجھ اٹھا نے والے گدھے کی مثال کا اطلاق تم پر بھی ہوگا۔ اس حوالے سے حضرت عبیدہ الملیکی رض کا روایت کردہ حضور ﷺ کا یہ فرمان بہت اہم ہے : یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ ‘ وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ مِنْ آنَائِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ ‘ وَافْشُوْہُ وَتَغَنَّوْہُ وَتَدَبَّرُوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ 1”اے قرآن والو ! تم قرآن کو تکیہ ذہنی سہارا نہ بنا لینا ‘ بلکہ تمہیں چاہیے کہ رات اور دن کے اوقات میں اس کی تلاوت کیا کروجیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے ‘ اور اس کو پھیلائو ‘ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھو ‘ اور اس میں تدبر کرو ‘ تاکہ تم فلاح پاجائو۔“ مقامِ عبرت ہے ! آج ہم قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے کے لیے تو غور کرنے کو بھی تیار نہیں ‘ لیکن اس کو تکیہ بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں ہم بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال ایوبی دور کی یادگار ‘ سونے کی تاروں سے لکھا ہوا چالیس من وزنی قرآن مجید کا وہ نسخہ ہے جسے ہم نے پچھلے پچاس سال سے لاہور میں نمائش کے لیے رکھا ہوا ہے۔ { بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ } ”بہت بری مثال ہے اس قوم کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا۔“ یہ یہودیوں کی طرف سے کلام اللہ کی عملی یا حالی تکذیب کا ذکر ہے۔ قبل ازیں سورة الواقعہ کی آیت 82 کے حوالے سے وضاحت کی جا چکی ہے کہ بالکل اسی طور سے ہم بھی قرآن مجید کو جھٹلا رہے ہیں۔ ظاہر ہے اپنی زبان سے نہ تو یہودی تورات کی تکذیب کرتے تھے اور نہ ہی ہم قرآن کے بارے میں ایسا سوچ سکتے ہیں۔ لیکن کیا ہم واقعی قرآن مجید کی عملی یا حالی تکذیب کے مرتکب ہو رہے ہیں ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ایک ایسے تعلیم یافتہ نوجوان کا تصور کریں جو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان سے امریکہ گیا ہے۔ اس نوجوان سے اگر پوچھا جائے کہ کیا قرآن مجید اللہ کا کلام ہے تو وہ کہے گا کیوں نہیں ! میں مانتا ہوں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ لیکن اگر اس سے دوسرا سوال یہ کیا جائے کہ آپ نے اس کو کتنا پڑھا ہے اور اس کی تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے آپ نے کس قدر محنت کی ہے تو وہ اِلا ماشاء اللہ یہی جواب دے گا کہ مجھے اس کا موقع نہیں ملا۔ تو کیا اس نوجوان کا یہ عمل قرآن مجید کی تکذیب نہیں کر رہا ہے ؟ کیا اس کا حال چیخ چیخ کر گواہی نہیں دے رہا کہ اس کے نزدیک اس کی وہ ڈگری قرآن مجید سے زیادہ اہم ہے ‘ جس کے لیے وہ سات سمندر پار آکر دیار غیر کی خاک چھان رہا ہے ‘ لیکن قرآن مجید کو سمجھنے کی کبھی اس نے ہلکی سی کوشش بھی نہیں کی۔ { وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔ } ”اور اللہ ایسے ظالموں کو زبردستی ہدایت نہیں دیتا۔“ اللہ تعالیٰ کی ہدایت معاذ اللہ کوئی ایسی حقیر شے نہیں جسے ہر شخص کی جھولی میں زبردستی ڈال دیا جائے۔ یہ تو صرف اسی شخص کو ملے گی جس کے دل میں اس کے حصول کی تمنا ہوگی اور جو اس کے حصول کے لیے تگ و دو کرے گا۔

اردو ترجمہ

اِن سے کہو، "اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو، اگر تمہیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اِس زعم میں سچے ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul ya ayyuha allatheena hadoo in zaAAamtum annakum awliyao lillahi min dooni alnnasi fatamannawoo almawta in kuntum sadiqeena

آیت 6{ قُلْ یٰٓــاَ یُّہَا الَّذِیْنَ ہَادُوْآ اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّــکُمْ اَوْلِیَــآئُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے کہ اے وہ لوگو جو یہودی ہوگئے ہو ‘ اگر تمہیں واقعی یہ گمان ہے کہ بس تم ہی اللہ کے دوست ہو باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر“ زعم کا لفظ ”خیال خام“ کے معنی میں ہم اردو میں بھی استعمال کرتے ہیں کہ فلاں شخص کو فلاں چیز کا بڑا زعم ہے۔ تو اگر تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے چہیتے اور محبوب ہونے کا ایسا ہی زعم ہے : { فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ } ”تو تم موت کی تمنا کرو ‘ اگر تم واقعی سچے ہو۔“ اگر تم واقعی اللہ کے محبوب اور دوست ہو تو تمہیں اپنے دوست سے وصل کی تمنا ہونی چاہیے اور یہ تمنا چونکہ موت کے ذریعے پوری ہوسکتی ہے اس لیے تمہارے دلوں میں ہر وقت موت کی خواہش موجزن رہنی چاہیے۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة البقرۃ آیات 94 ‘ 95 ‘ 96 میں بھی آچکا ہے۔

اردو ترجمہ

لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کر چکے ہیں، اور اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala yatamannawnahu abadan bima qaddamat aydeehim waAllahu AAaleemun bialththalimeena

آیت 7{ وَلَا یَتَمَنَّوْنَہٗ اَبَدًام بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ } ”اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ہرگز کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے اپنے ان اعمال کے سبب جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں۔“ { وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ۔ } ”اور اللہ ان ظالموں سے خوب واقف ہے۔“ اللہ تعالیٰ کے فرمان : { بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ۔ } القیامۃ کے مصداق یہ لوگ اپنے کرتوتوں کو خوب جانتے ہیں۔ اس لیے یہ نہیں چاہتے کہ انہیں موت آئے اور وہ اپنی بداعمالیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوں۔ ہم مسلمانوں کے لیے بنی اسرائیل سے متعلق ان آیات کی حیثیت ایک آئینے کی سی ہے۔ اس آئینے میں اگر ہم اپنی تصویر دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ یہ زعم صرف بنی اسرائیل میں ہی نہیں پایاجاتا تھا بلکہ آج ہم مسلمانوں کی اکثریت بھی اسی سوچ کی حامل ہے اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب اللہ کی کتاب سے ہمارا ذہنی و قلبی رشتہ نہ رہا تو اپنی تسلی کے لیے ہمیں خود ساختہ خوش فہمیوں wishful thinkings کا سہارالینا پڑا۔ ان میں سب سے بڑی اور سب سے موثر خوش فہمی تویہی ہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے ‘ ہم اللہ کے محبوب ترین نبی حضرت محمد ﷺ کی امت ہیں اور اس رشتے سے اللہ کے بہت ہی لاڈلے اور چہیتے ہیں۔ چناچہ ہم جیسے بھی گناہگار سہی ‘ آخرت میں ہمارے نبی ﷺ یقینا ہماری شفاعت کریں گے اور دوزخ سے ہماری خلاصی کو یقینی بنائیں گے۔ اگر خدانخواستہ ہم میں سے کوئی فرد کسی بڑے جرم میں پکڑا بھی گیا تو اسے بھی بہت جلد دوزخ سے نکال کر جنت میں پہنچا دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں یہ خوش فہمیاں پختہ ہو کر باقاعدہ عقائد کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ اب ایسی ضمانتوں کے ہوتے ہوئے بھلا کون احمق ہوگا جو نیک اعمال کے لیے مشقتیں اٹھائے اور رشوت ‘ چور بازاری اور دوسری حرام کاریوں سے اجتناب کرتا پھرے : ؎خبر نہیں کیا ہے نام اس کا ‘ خدا فریبی کہ خود فریبی ؟ عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ !اقبال کا یہ شعر اس حوالے سے آج ہم پر ہوبہو صادق آتا ہے۔ پہلے تو ”مسلمان“ کے پاس عمل سے بچنے کے لیے صرف تقدیر کا بہانہ تھا ‘ اب ہم نے مذکورہ بالا عقائد کی صورت میں بہت مضبوط سہارا بھی تلاش کرلیا ہے۔

اردو ترجمہ

اِن سے کہو، "جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمہیں آ کر رہے گی پھر تم اس کے سامنے پیش کیے جاؤ گے جو پوشیدہ و ظاہر کا جاننے والا ہے، اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul inna almawta allathee tafirroona minhu fainnahu mulaqeekum thumma turaddoona ila AAalimi alghaybi waalshshahadati fayunabbiokum bima kuntum taAAmaloona

آیت 8{ قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہٗ مُلٰقِیْکُمْ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے کہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ تم سے ملاقات کر کے رہے گی“ { ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ } ”پھر تمہیں لوٹا دیا جائے گا اس ہستی کی طرف جو پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے“ اللہ تعالیٰ کو ہرچیز کا علم ہے ‘ جو کچھ تمہارے سامنے ہے اس کا بھی اور جو کچھ تمہارے پیچھے ہے اس کا بھی۔ جو کچھ بحیثیت نوع انسانی تمہارے لیے واضح کردیا گیا ہے اس کا بھی اور جو کچھ تم سے غیب میں رکھ دیا گیا ہے اس کا بھی۔ { فَیُنَــبِّئُـکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ } ”پھر وہ تمہیں جتلا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے۔“ یہاں پر چار آیات پر مشتمل سورت کے دوسرے حصے کا مطالعہ بھی مکمل ہوگیا۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی وضاحت ہوچکی ہے کہ ان آیات میں تذکرہ تو یہود کا ہے لیکن یاد دہانی ہماری مقصود ہے۔ چناچہ ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کہ قیامت کے دن اگر تورات کے حقوق کے حوالے سے یہودیوں کا احتساب ہوگا تو ہم سے بھی پوچھا جائے گا کہ اللہ کے رسول ﷺ جو کتاب تم لوگوں کے حوالے کر کے گئے تھے اس کے حقوق کی ذمہ داری کو تم نے کس حد تک نبھایا ؟ حضور ﷺ نے تو حجۃ الوداع کے موقع پر موجود لوگوں کو گواہ بنا کر قرآن مجید کے پیغام کو تمام نوع انسانی تک پہنچانے کی ذمہ داری امت کے کندھوں پر ڈال دی تھی۔ اس حوالے سے آپ ﷺ نے حاضرین کو مخاطب کر کے پوچھا تھا : اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ کہ کیا میں نے تم لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا ؟ تمام حاضرین مجمع نے جواب میں یک زبان ہو کر کہا تھا : اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ 1 ”ہم گواہ ہیں کہ آپ ﷺ نے حق تبلیغ ادا کردیا ‘ حق امانت ادا کردیا ‘ حق نصیحت ادا کردیا“۔ بعض روایات میں حاضرین کے یہ الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں : نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَـلَّغْتَ رِسَالَاتِ رَبِّکَ ‘ وَنَصَحْتَ لِاُمَّتِکَ ‘ وَقَضَیْتَ الَّذِیْ عَلَیْکَ 2 ”ہم گواہ ہیں کہ آپ نے اپنے رب کے پیغامات کماحقہ پہنچا دیے ‘ اور اپنی امت کے لیے حق نعمت ادا کردیا ‘ اور اپنی ذمہ داری کماحقہ ادا کردی !“ لوگوں کے اس جواب پر آپ ﷺ نے تین مرتبہ اللہ کو بھی گواہ بنایا : اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ‘ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ‘ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ کہ اے اللہ تو بھی گواہ رہ ! یہ لوگ اعتراف کر رہے ہیں کہ میں نے تیرا پیغام ان تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے حاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا : فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ 3 کہ اب جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ اس طرح آپ ﷺ نے قرآن مجید کی دعوت و تبلیغ پوری نوع انسانی تک پہنچانے کی بھاری ذمہ داری اپنی امت کی طرف منتقل فرما دی۔ ظاہر ہے اس ذمہ داری کے بارے میں کل ہم سے پوچھا تو جائے گا۔

553