سورہ مزمل (73): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Muzzammil کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المزمل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ مزمل کے بارے میں معلومات

Surah Al-Muzzammil
سُورَةُ المُزَّمِّلِ
صفحہ 574 (آیات 1 سے 19 تک)

يَٰٓأَيُّهَا ٱلْمُزَّمِّلُ قُمِ ٱلَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا نِّصْفَهُۥٓ أَوِ ٱنقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ ٱلْقُرْءَانَ تَرْتِيلًا إِنَّا سَنُلْقِى عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا إِنَّ نَاشِئَةَ ٱلَّيْلِ هِىَ أَشَدُّ وَطْـًٔا وَأَقْوَمُ قِيلًا إِنَّ لَكَ فِى ٱلنَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا وَٱذْكُرِ ٱسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا رَّبُّ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَٱتَّخِذْهُ وَكِيلًا وَٱصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَٱهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا وَذَرْنِى وَٱلْمُكَذِّبِينَ أُو۟لِى ٱلنَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا إِنَّ لَدَيْنَآ أَنكَالًا وَجَحِيمًا وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا يَوْمَ تَرْجُفُ ٱلْأَرْضُ وَٱلْجِبَالُ وَكَانَتِ ٱلْجِبَالُ كَثِيبًا مَّهِيلًا إِنَّآ أَرْسَلْنَآ إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَٰهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَآ أَرْسَلْنَآ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ رَسُولًا فَعَصَىٰ فِرْعَوْنُ ٱلرَّسُولَ فَأَخَذْنَٰهُ أَخْذًا وَبِيلًا فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِن كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ ٱلْوِلْدَٰنَ شِيبًا ٱلسَّمَآءُ مُنفَطِرٌۢ بِهِۦ ۚ كَانَ وَعْدُهُۥ مَفْعُولًا إِنَّ هَٰذِهِۦ تَذْكِرَةٌ ۖ فَمَن شَآءَ ٱتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِۦ سَبِيلًا
574

سورہ مزمل کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ مزمل کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha almuzzammilu

رسول اللہ کو قیام اللیل اور ترتیل قرآن کا حکم اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ راتوں کے وقت کپڑے لپیٹ کر سو رہنے کو چھوڑیں اور تہجد کی نماز کے قیام کو اختیار کرلیں، جیسے فرمان ہے آیت (تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ 16؀) 32۔ السجدة :16) ، ان کے پہلو بستروں سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور لالچ سے پکارتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دیتے رہتے ہیں، حضور ﷺ پوری عمر اس حکم کی بجا آوری کرتے رہے تہجد کی نماز صرف آپ پر واجب تھی یعنی امت پر واجب نہیں ہے، جیسے اور جگہ ہے آیت (وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79؀) 17۔ الإسراء :79) ، راتوں کو تہجد پڑھا کر یہ حکم صرف تجھے ہے تیرا رب تجھے مقام محمود میں پہچانے والا ہے، یہاں اس حکم کے ساتھ ہی مقدار بھی بیان فرما دی کہ آدھی رات یا کچھ کم و بیش مزمل کے معنی سونے والے اور کپڑا لپیٹنے والے کے ہیں، اس وقت حضور ﷺ اپنی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اے قرآن کے مفہوم کو اچھی طرح اخذ کرنے والے تو آدھی رات تک تہجد میں مشغول رہا کر، یا کچھ بڑھا گھٹا دیا کر اور قرآن شریف کو آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کر تاکہ خوب سمجھتا جائے، اس حکم کے بھی حضور ﷺ عامل تھے، حضرت صدیقہ کا بیان ہے کہ آپ قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے جس سے بڑی دیر میں سورت ختم ہوتی تھی گویا چھوٹی سی سورت بڑی سے بڑی ہوجاتی تھی، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت انس ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی قرأت کا وصف پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں حضور ﷺ خوب مد کر کے پڑھا کرتے تھے پھر آیت (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) پڑھ کر سنائی جس میں لفظ اللہ پر لفظ رحمٰن پر لفظ رحیم پر مد کیا، ابن جریج میں ہے کہ ہر ہر آیت پر آپ پورا پورا وقف کرتے تھے، جیسے آیت (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) پڑھ کر وقف کرتے آیت (الحمد للہ رب العلمین) پڑھ کر وقف کرتے آیت (الرحمٰن الرحیم) پڑھ کر وقف کرتے آیت (مالک یوم الدین) پڑھ کر ٹھہرتے۔ یہ حدیث مسند احمد ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ قرآن کے قاری سے قیامت والے دن کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور ترتیل سے پڑھ جیسے دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا تیرا درجہ وہ ہے جہاں تیری آخری آیت ختم ہو، یہ حدیث ابو داؤد و ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور امام ترمذی ؒ اسے حسن صحیح کہتے ہیں، ہم نے اس تفسیر کے شروع میں وہ احادیث وارد کردی ہیں، جو ترتیل کے مستحب ہونے اور اچھی آواز سے قرآن پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں، جیسے وہ حدیث جس میں ہے قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو، اور ہم میں سے وہ ہیں جو خوش آوازی سے قرآن نہ پڑھے اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی نسبت حضور ﷺ کا یہ فرمانا کہ اسے آل داؤد کی خوش آوازی عطا کی گئی ہے اور حضرت ابو موسیٰ کا فرمانا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں اور اچھے گلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ پڑھتا، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا فرمان کہ ریت کی طرح قرآن کو نہ پھیلاؤ اور شعروں کی طرح قرآن کو بےادبی سے نہ پڑھو اس کی عجائب پر غور کرو اور دلوں میں اثر لیتے جاؤ اور اس میں دوڑ نہ لگاؤ کہ جلد سورت ختم ہو (بغوی) ایک شخص آ کر حضرت ابن مسعود سے کہتا ہے میں نے مفصل کی تمام سورتیں آج کی رات ایک ہی رکعت میں پڑھ ڈالیں آپ نے فرمایا پھر تو تو نے شعروں کی طرح جلدی جلدی پڑھا ہوگا مجھے برابر برابر کی سورتیں خوب یاد ہیں جنہیں رسول کریم ﷺ ملا کر پڑھا کرتے تھے پھر مفصل کی سورتوں میں سے بیس سورتوں کے نام لئے کہ ان میں سے دو دو سورتیں حضور ﷺ ایک ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے۔ پھر فرماتا ہے ہم تجھ پر عنقریب بھاری بوجھل بات اتاریں گے، یعنی عمل میں ثقیل ہوگی اور اترتے وقت بوجہ اپنی عظمت کے گراں قدر ہوگی، حضرت زید بن ثابت ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ پر وحی اتری اس وقت آپ کا گھٹنا میرے گھٹنے پر تھا وحی کا اتنا بوجھ پڑا کہ میں تو ڈرنے لگا کہ میری ران کہیں ٹوٹ نہ جائے، مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ وحی کا احساس بھی آپ کو ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں ایسی آواز سنتا ہوں جیسے کسی زنجیر کے بجنے کی آواز ہو میں چپکا ہوجاتا ہوں جب بھی وحی نازل ہوتی ہے مجھ پر اتنا بوجھ پڑتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری جان نکل جائے گی، صحیح بخاری شریف کے شروع میں ہے حضرت حارث بن ہشام پوچھتے ہیں یا رسول اللہ ﷺ آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے ؟ آپ نے فرمایا کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح ہوتی ہے جو مجھ پر بہت بھاری پڑتی ہے اور وہ گن گناہٹ کی آواز ختم ہوجاتی ہے تو میں اس میں جو کچھ کہا گیا وہ مجھے خوب محفوظ ہوجاتا ہے اور کبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور میں یاد کرلیتا ہوں، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں نے دیکھا ہے کہ سخت جاڑے والے دن میں بھی جب آپ پر وحی اتر چکتی تو آپ کی پیشانی مبارک سے پسینے کے قطرے ٹپکتے، مسند احمد میں ہے کہ کبھی اونٹنی پر حضور ﷺ سوار ہوتے اور اسی طاقت میں وحی آتی تو اونٹنی جھک جاتی، ابن جریر میں یہ بھی ہے کہ پھر جب تک وحی ختم نہ ہو لے اونٹنی سے قدم نہ اٹھایا جاتا نہ اس کی گردن اونچی ہوتی۔ مطلب یہ ہے کہ خود وحی کا اترنا بھی اہم اور بجھل تھا پھر احکام کا بجا لانا اور ان کا عامل ہونا بھی اہم اور بوجھل تھا۔ یہی قول حضرت امام ابن جریر کا ہے، حضرت عبدالرحمٰن سے منقول ہے کہ جس طرح دنیا میں یہ ثقیل کام ہے اسی طرح آخرت میں اجر بھی بڑا بھاری ملے گا۔ پھر فرماتا ہے رات کا اٹھنا نفس کو زیر کرنے کے لئے اور زبان کو درست کرنے کے لئے اکسیر ہے، نشاء کے معنی حبشی زبان میں قیام کرنے کے ہیں، رات بھر میں جب اٹھے اسے ناشئتہ اللیل کہتے ہیں، تہجد کی نماز کی خوبی یہ ہے کہ دل اور زبان ایک ہوجاتا ہے اور تلاوت کے جو الفاظ زبان سے نکلتے ہیں دل میں گڑ جاتے ہیں اور بنسبت دن کے رات کی تنہائی میں معنی خوب ذہن نشین ہوتا جاتا ہے کیونکہ دن بھیڑ بھاڑ کا، شورغل کا، کمائی دھندے کا وقت ہوتا ہے۔ حضرت انس نے آیت (اقوم قیلاً) کو اصوب قیلا پڑھا تو لوگوں نے کہا ہم تو اقوم پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا (اصوب اقوم اھیاء) اور ان جیسے سب الفاظ ہم معنی ہیں۔ پھر فرماتا ہے دن میں تجھے بہت فراغت ہے، نیند کرسکتے ہو، سو بیٹھ سکتے ہو، راحت حاصل کرسکتے ہو، نوافل بکثرت ادا کرسکتے ہو، اسے دنیوی کام کاج پورے کرسکتے ہو۔ پھر رات کو آخرت کے کام کے لئے خاص کرلو، اس بنا پر یہ حکم اس وقت تھا جب رات کی نماز فرض تھی پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان کیا اور بطور تخفیف کے اس میں کمی کردی اور فرمایا تھوڑی سی رات کا قیام کرو، اس فرمان کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے آیت (ان ربک) سے (فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْه 20؀) 73۔ المزمل :20) تک پڑھا اور آیت (وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79؀) 17۔ الإسراء :79) ، کی بھی تلاوت کی۔ آپ کا یہ قول ہے بھی ٹھیک، مسند احمد میں ہے کہ حضرت سعید بن ہشام نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور مدینہ کی طرف چلے تاکہ وہاں کے اپنے مکانات بیچ ڈالیں اور ان کی قیمت سے ہتھیار وغیرہ خرید کر جہاد میں جائیں اور رومیوں سے لڑتے رہیں یہاں تک کہ یا تو روم فتح ہو یا شہادت ملے مدینہ شریف میں اپنی قوم والوں سے ملے اور اپنا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے کہا سنو رسول اللہ ﷺ کی حیات میں آپ ہی کی قوم میں سے چھ شخصوں نے بھی ارادہ کیا تھا کہ عورتوں کو طلاق دے دیں مکانات وغیرہ بیچ ڈالیں اور راہ اللہ کھڑے ہوجائیں۔ حضور ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا کیا جس طرح میں کرتا ہوں کیا اس طرح کرنے میں تمہارے لئے اچھائی نہیں ہے ؟ خبردار ایسا نہ کرنا اپنے اس ارادے سے باز آجاؤ یہ حدیث سن کر حضرت سعید نے بھی اپنا ارادہ ترک کیا اور وہیں اسی جماعت سے کہا کہ تم گواہ رہنا میں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا اب حضرت سعید چلے گئے پھر جب اس جماعت سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ یہاں سے جانے کے بعد میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ما کے پاس گیا اور ان سے آنحضرت ﷺ کے وتر پڑھنے کی کیفیت دریافت تو انہوں نے کہا اس مسئلے کو سب سے زیادہ بہتری طور پر حضرت عائشہ ؓ بتاسکتی ہیں تم وہیں جاؤ اور ام المومنین ہی سے دریافت کرو اور ام المومنین سے جو سنو وہ ذرا مجھ سے کہہ جانا۔ میں حضرت حکیم بن افلح کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا تم مجھے ام المومنین کی خدمت میں لے چلو۔ انہوں نے فرمایا میں وہاں نہیں جاؤں گا اس لئے کہ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپس میں لڑنے والی جماعتوں یعنی حضرت علی اور ان کے مقابلین کے بارے میں آپ دخل نہ دیجئے لیکن انہوں نے نہ مانا اور دخل دیا۔ میں نے انہیں قسم دی اور کہا کہ نہیں آپ مجھے ضرور وہاں لے چلئے خیر بمشکل تمام وہ راضی ہوئے اور میں ان کے ساتھ گیا۔ ام المومنین صاحبہ نے حضرت حکیم کی آواز پہچان لی اور کہا کیا حکیم ہے ؟ جواب دیا گیا کہ ہاں حضور میں حکیم بن افلح ہوں پوچھا تمہارے ساتھ کون ہیں ؟ کہا سعید بن ہشام پوچھا ہشام کون ؟ عامر کے لڑکے ؟ کہا ہاں عامر کے لڑکے، تو حضرت عائشہ نے حضرت عامر کے لئے دعاء رحمت کی اور فرمایا عامر بہت اچھا آدمی تھا اللہ اس پر رحم کرے میں نے کہا ام المومنین مجھے بتایئے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کیا تھے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ؟ فرمایا بس حضور ﷺ کا خلق قرآن تھا اب میں نے اجازت مانگنے کا قصد کیا لیکن فوراً ہی یاد آگیا کہ رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کا حال بھی دریافت کرلوں، اس سوال کے جواب میں ام المومنین نے فرمایا کیا تم نے سورة مزمل نہیں پڑھی ؟ میں نے کہا ہاں پڑھی ہے، فرمایا سنو اس سورت کے اول حصے میں قیام الیل فرض ہوا اور سال بھر تک حضور ﷺ اور آپ کے اصحاب تہجد کی نماز بطور فرضیت کے ادا کرتے رہے یہاں تک کہ قدموں پر ورم آگیا بارہ ماہ کے بعد اس سورت کے خاتمہ کی آیتیں اتریں اور اللہ تعالیٰ نے تخفیف کردی فرضیت اٹھ گئی اور عملی صورت باقی رہ گئی، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا لیکن خیال آیا کہ وتر کا مسئلہ بھی دریافت کرلوں تو میں نے کہا ام المومنین حضور ﷺ کے وتر پڑھنے کی کیفیت سے بھی آگاہ فرمایئے، آپ نے فرمایا ہاں سنو ہم آپ کی مسواک وضو کا پانی وغیرہ تیار ایک طرف رکھ دیا کرتے تھے جب بھی اللہ چاہتا اور آپ کی آنکھ کھلتی اٹھتے مسواک کرتے وضو کرتے اور آٹھ رکعت پڑھتے بیچ میں تشہد میں بالکل نہ بیٹھتے آٹھویں رکعت پوری کر کے آپ التحیات میں بیٹھتے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتے دعا کرتے اور زور سے سلام پھیرتے کہ ہم بھی سن لیں پھر بیٹھے بیٹھے ہی دو رکعت اور ادا کرتے (اور ایک وتر پڑھتے) بیٹا یہ سب مل کر گیارہ رکعت ہوئیں، اب جبکہ آپ عمر رسیدہ ہوئے اور بدن بھاری ہوگیا تو آپ نے سات وتر پڑھے پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کردو رکعت ادا کیں بس بیٹا یہ نو رکعت ہوئیں اور حضور ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی نماز کو پڑھتے تو پھر اس پر مداومت کرتے ہاں اگر کسی شغل یا نیند یا دکھ تکلیف اور بیماری کی وجہ سے رات کو نماز نہ پڑھ سکتے تو دن کو بارہ رکعت ادا فرما لیا کرتے میں نہیں جانتی کہ کسی ایک رات میں رسول اللہ ﷺ نے پورا قرآن صبح تک پڑھا ہو اور نہ رمضان کے سوا کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے، اب میں ام المومنین سے رخصت ہو کر ابن عباس کے پاس آیا اور وہاں کے تمام سوال جواب دوہرائے آپ نے سب کی تصدیق کی اور فرمایا اگر میری بھی آمد و رفت ام المومنین کے پاس ہوتی تو جا کر خود اپنے کانوں سن آتا، یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے، ابن جریر میں ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں نبی ﷺ کے لئے بوریا رکھ دیا کرتی جس پر آپ تہجد کی نماز پڑھتے لوگوں نے کہیں یہ خبر سن لی اور رات کی نماز میں حضور ﷺ کی اقتداء کرنے کے لئے وہ بھی آگئے حضور ﷺ غضبناک ہو کر باہر نکلے چونکہ شفقت و رحمت آپ کو امت پر تھی اور ساتھ ہی ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو یا نماز فرض ہوجائے آپ ان سے فرمانے لگے کہ لوگو ان ہی اعمال کی تکلیف اٹھاؤ جن کی تم میں طاقت ہو اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہ تھکے گا البتہ تم عمل کرنے سے تھک جاؤ گے سب سے بہتر عمل وہ ہے جس پر دوام ہو سکے ادھر قرآن کریم میں یہ آیتیں اتریں اور صحابہ نے قیام الیل شروع کیا یہاں تک کہ رسیاں باندھنے لگے کہ نیند نہ آجائے آٹھ مہینے اسی طرح گذر گئے ان کی اس کوشش کو جو وہ اللہ کی رضامندی کی طلب میں کر رہے تھے دیکھ کر اللہ نے بھی ان پر رحم کیا اور اسے فرض عشاء کی طرف لوٹا دیا اور قیام الیل چھوڑ دیا، یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی ہے لیکن اس کا راوی موسیٰ بن عبیدہ زبیدی ضعیف ہے اصل حدیث بغیر سورة مزمل کے نازل ہونے کے ذکر کی صحیح میں بھی ہے اور اس حدیث کے الفاظ کے تسلسل سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی حالانکہ دراصل یہ سورت مکہ شریف میں اتری ہے، اسی طرح اس روایت میں ہے کہ آٹھ مہینے کے بعد اس کی آخری آیتیں نازل ہوئیں یہ قول بھی غریب ہے، صحیح وہی ہے جو بحوالہ مسند پہلے گذر چکا کہ سال بھر کے بعد آخری آیتیں نازل ہوئیں۔ حضرت ابن عباس سے بھی ابن ابی حاتم میں منقول ہے کہ سورة مزمل کی ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام مثل رمضان شریف کے قیام کے قیام کرتے رہے اور اس سورت کی اول آخر کی آیتوں کے اترنے میں تقریباً سال بھر کا فاصلہ تھا۔ حضرت ابو اسامہ سے بھی ابن جریر میں اسی طرح مروی ہے، حضرت ابو عبدالرحمٰن فرماتے ہیں کہ ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام نے سال بھر تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم اور پنڈلیوں پر ورم آگیا پھر آیت (فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْه 20؀) 73۔ المزمل :20) ، نازل ہوئی اور لوگوں نے راحت پائی، حسن بصری اور سدی کا بھی یہی قول ہے۔ ابن ابی حاتم میں بہ روایت حضرت عائشہ سولہ مہینے کا فاصلہ مروی ہے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں ایک سال یا دو سال تک قیام کرتے رہے پنڈلیاں اور قدم سوج گئے پھر آخری سورت کی آیتیں اتریں اور تخفیف ہوگئی۔ حضرت سعید بن جبیر ؒ دس سال کا فاصلہ بتاتے ہیں (ابن جریر) حضرت ابن عباس ؓ ما فرماتے ہیں کہ پہلی آیت کے حکم کے مطابق ایمانداروں نے قیام الیل شروع کیا لیکن بڑی مشقت پڑتی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا اور آیت (عَلِمَ اَنْ سَيَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰى 20؀) 73۔ المزمل :20) سے (ما تیسر منہ) تک آیتیں نازل فرما کر وسعت کردی اور تنگی نہ رکھی فلہ الحمد پھر فرمان ہے اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہ اور کرتا رہ اور اس کی عبادت کے لئے فارغ ہوجا، یعنی امور دنیا سے فارغ ہو کر دل جمعی اور اطمینان کے ساتھ بہ کثرت اس کا ذکر کر، اس کی طرف مائل اور سراسر راغب ہوجا، جیسے اور جگہ ہے آیت (فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ۙ) 94۔ الشرح :7) ، یعنی جب اپنے شغل سے فارغ ہو تو ہماری عبادت محنت سے بجا لاؤ، اخلاص فارغ البالی کوشش محنت دل لگی اور یکسوئی سے اللہ کیطرف جھک جاؤ، ایک حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے تبل سے منع فرمایا یعنی بال بچے اور دنیا کو چھوڑ دینے سے۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ علائق دنیوی سے کٹ کر اللہ کی عبادت میں توجہ اور انہماک کا وقت بھی ضرور نکالا کرو۔ وہ مالک ہے وہ متصرف ہے مشرق مغرب سب اس کے قبضہ میں ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں، تو جس طرح صرف اسی اللہ کی عبادت کرتا ہے اسی طرح صرف اسی پر بھروسہ بھی رکھ، جیسے اور آیت میں ہے آیت (فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ01203) 11۔ ھود :123) اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ کر، یہی مضمون آیت (ایاک نعبد وایاک نستعین) میں بھی ہے، اس معنی کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں کہ عبادت، اطاعت، توکل اور بھروسہ کے لائق ایک اس کی پاک ذات ہے۔

اردو ترجمہ

رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qumi allayla illa qaleelan

اردو ترجمہ

آدھی رات،

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Nisfahu awi onqus minhu qaleelan

اردو ترجمہ

یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو، اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aw zid AAalayhi warattili alqurana tarteelan

اردو ترجمہ

ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna sanulqee AAalayka qawlan thaqeelan

اردو ترجمہ

درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna nashiata allayli hiya ashaddu watan waaqwamu qeelan

اردو ترجمہ

دن کے اوقات میں تو تمہارے لیے بہت مصروفیات ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna laka fee alnnahari sabhan taweelan

اردو ترجمہ

اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waothkuri isma rabbika watabattal ilayhi tabteelan

اردو ترجمہ

وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، لہٰذا اُسی کو اپنا وکیل بنا لو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbu almashriqi waalmaghribi la ilaha illa huwa faittakhithhu wakeelan

اردو ترجمہ

اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waisbir AAala ma yaqooloona waohjurhum hajran jameelan

نبی اکرم ﷺ کی حوصلہ افزائی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کو کفار کی طعن آمیز باتوں پر صبر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان کے حال پر بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ہی چھوڑ دے، میں خد ان سے نمٹ لوں گا۔ میرے غضب اور غصے کے وقت دیکھ لوں گا کہ کیسے یہ لوگ نجات پاتے ہیں۔ ہاں ان کے مالدار خوش حال لوگوں کو جو بےفکر ہیں اور تجھے ستانے کے لئے باتیں بنا رہے ہیں جن پر دوہرے حقوق ہیں مال کے اور جان کے اور یہ ان میں سے ایک بھی ادا نہیں کرتے تو ان سے بےتعلق ہوجا پھر دیکھ کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں تھوڑی دیر دنیا میں تو چاہے یہ فائدہ اٹھا لیں گے مگر انجام کار عذابوں میں پھنسیں گے اور عذاب بھی کونسے ؟ سخت قید و بند کے، بدترین بھڑکتی ہوئی نہ بجھنے والی اور نہ کم ہونے والی آگ کے اور ایسا کھانا جو حلق میں جا کر اٹک جائے نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں اور بھی طرح طرح کے المناک عذاب ہوں گے، پھر وہ وقت بھی ہوگا جب زمینوں میں اور پہاڑوں پر زلزلہ طاری ہوگا سخت اور بڑی چٹانوں والے پہاڑ آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چور چور ہوگئے ہوں گے جیسے بھربھری ریت کے بکھرے ہوئے ذرے ہوں جنہیں ہوا ادھر سے ادھر لے جائے گی اور نام و نشان تک مٹا دے گی اور زمین ایک چٹیل صاف میدان کی طرح رہ جائے گی جس میں کہیں اونچ نیچ نظر نہ آئے گی، پھر فرماتا ہے اے لوگو اور خصوصاً اے کافرو ہم نے تم پر گواہی دینے والا اپنا سچا رسول تم میں بھیج دیا ہے جیسے کہ فرعون کے پاس بھی ہم نے اپنے احکام کے پہنچا دینے کے لئے اپنے ایک رسول ﷺ کو بھیجا تھا، اس نے جب اس رسول ﷺ کی نہ مانی تو تم جانتے ہو کہ ہم نے اسے بری طرح برباد کیا اور سختی سے پکڑ لیا، اسی طرح یاد رکھو اگر اس نبی ﷺ کی تم نے بھی نہ مانی تو تمہاری خیر نہیں اللہ کے عذاب تم پر بھی اتر آئیں گے اور نیست و نابود کردیئے جاؤ گے کیونکہ یہ رسول ﷺ رسولوں کے سردار ہیں ان کے جھٹلانے کا وبال بھی اور و بالوں سے بڑا ہے۔ اس کے بعد کی آیت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اگر تم نے کفر کیا تو بتاؤ تو سہی کہ اس دن کے عذابوں سے کیسے نجات حاصل کرو گے ؟ جس دن کی ہیبت خوف اور ڈربچوں کو بوڑھا کر دے گا اور دوسرے معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہوگا ؟ گو یہ دونوں معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہوگا ؟ گو یہ دونوں معنی نہایت عمدہ ہیں لیکن اول اولیٰ ہیں واللہ اعلم۔ طبرانی میں ہے رسول مقبول ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ قیامت کا دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ حضرت آدم ؑ سے فرمائے گا اٹھو اور اپنی اولاد میں سے دوزخیوں کو الگ الگ کردہ پوچھیں گے اے اللہ کتنی تعداد میں سے کتنے ؟ حکم ہوگا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے یہ سنتے ہی مسلمانوں کے تو ہوش اڑ گئے اور گھبرا گئے، حضور ﷺ بھی ان کے چہرے دیکھ کر سمجھ گئے اور بطور تشفی کے فرمایا سنو بنو آدم بہت سے ہیں یاجوج ماجوج بھی اولاد آدم میں سے ہیں جن میں سے ہر ایک نسلی تسلسل میں خاص اپنی صلبی اولاد ایک ایک ہزار چھوڑ کرجاتا ہے پس ان میں اور ان حبشیوں میں مل کر دوزخمیوں کی یہ تعداد ہوجائے گی اور جنت تمہارے لئے اور تم جنت کے لئے ہوجاؤ گے، یہ حدیث غریب ہے اور سورة حج کی تفسیر کے شروع میں اس جیسی احادیث کا تذکرہ گذر چکا ہے اس دن کی ہیبت اور دہشت کے مارے آسمان بھی پھٹ جائے گا، بعض نے ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف کیا ہے لیکن یہ قوی نہیں اس لئے کہ یہاں ذکر ہی نہیں، اس دن کا وعدہ یقینا سچ ہے اور ہو کر ہی رہے گا اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔

اردو ترجمہ

اِن جھٹلانے والے خوشحال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو اور اِنہیں ذرا کچھ دیر اِسی حالت پر رہنے دو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Watharnee waalmukaththibeena olee alnnaAAmati wamahhilhum qaleelan

اردو ترجمہ

ہمارے پاس (ان کے لیے) بھاری بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna ladayna ankalan wajaheeman

اردو ترجمہ

اور حلق میں پھنسنے والا کھانا اور دردناک عذاب

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WataAAaman tha ghussatin waAAathaban aleeman

اردو ترجمہ

یہ اُس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اٹھیں گے اور پہاڑوں کا حال ایسا ہو جائے گا جیسے ریت کے ڈھیر ہیں جو بکھرے جا رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma tarjufu alardu waaljibalu wakanati aljibalu katheeban maheelan

اردو ترجمہ

تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna arsalna ilaykum rasoolan shahidan AAalaykum kama arsalna ila firAAawna rasoolan

اردو ترجمہ

(پھر دیکھ لو کہ جب) فرعون نے اُس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FaAAasa firAAawnu alrrasoola faakhathnahu akhthan wabeelan

اردو ترجمہ

اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اُس دن کیسے بچ جاؤ گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fakayfa tattaqoona in kafartum yawman yajAAalu alwildana sheeban

اردو ترجمہ

اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہوگا؟ اللہ کا وعدہ تو پورا ہو کر ہی رہنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alssamao munfatirun bihi kana waAAduhu mafAAoolan

اردو ترجمہ

یہ ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna hathihi tathkiratun faman shaa ittakhatha ila rabbihi sabeelan

پیغام نصیحت و عبرت اور قیام الیل فرماتا ہے کہ یہ سورت عقل مندوں کے لئے سراسر نصیحت وعبرت ہے جو بھی طالب ہدایت ہو وہ مرضی مولا سے ہدایت کا راستہ پالے گا اور اپنے رب کی طرف پہنچ جانے کا ذریعہ حاصل کرلے گا، جیسے دوسری سورت میں فرمایا آیت (وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا 30 ؀ ڰ) 76۔ الإنسان :30) تمہاری چاہت کام نہیں آتی وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہے۔ صحیح علم والا اور پوری حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، پھر فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ آپ کا اور آپ کے اصحاب کی ایک جماعت کا کبھی دو تہائی رات تک قیام میں مشغول رہنا کبھی آدھی رات اسی میں گذرنا کبھی تہائی رات تک تہجد پڑھنا اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے گو تمہارا مقصد ٹھیک اس وقت کو پورا کرنا نہیں ہوتا اور ہے بھی وہ مشکل کام، کیونکہ رات دن کا صحیح اندازہ اللہ ہی کو ہے کبھی دونوں برابر ہوتے ہیں کبھی رات چھوٹی دن بڑا، کبھی دن چھوٹا رات بڑی، اللہ جانتا ہے کہ اس کو بننے کی طاقت تم میں نہیں تو اب رات کی نماز اتنی ہی پڑھو جتنی تم با آسانی پڑھ سکو کوئی وقت مقرر نہیں کہ فرضاً اتنا وقت تو لگانا ہی ہوگا یہاں صلوۃ کی تعبیر قرأت سے کی ہے جیسے سورة سبحن میں کی ہے آیت (وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا01100) 17۔ الإسراء :110) نہ تو بہت بلند کر نہ بالکل پست کر، امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ کے اصحاب نے اس آیت سے استدلال کر کے یہ مسئلہ لیا ہے کہ نماز میں سورة فاتحہ ہی کا پڑھنا متعین نہیں اسے پڑھے خواہ اور کہیں سے پڑھ لے گو ایک ہی آیت پڑھے کافی ہے اور پھر اس مسئلہ کی مضبوطی اس حدیث سے کی ہے جس میں ہے کہ بہت جلدی جلدی نماز ادا کرنے والے کو حضور ﷺ نے فرمایا تھا پھر پڑھ جو آسان ہو تیرے ساتھ قرآن سے (بخاری و مسلم) یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے اور جمہور نے انہیں یہ جواب دیا ہے کہ بخاری و مسلم کی حضرت عبادہ بن صامت والی حدیث میں آچکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نماز نہیں ہے مگر یہ کہ تو سورة فاتحہ پڑھے اور صحیح مسلم شریف میں بہ روایت حضرت ابوہریرہ ؓ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ بالکل ادھوری محض ناکارہ ناقص اور ناتمام ہے، صحیح ابن خزیمہ میں بھی ان ہی کی روایت سے ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورة فاتحہ نہ پڑھے (پس ٹھیک قول جمہور کا ہی ہے کہ ہر نماز کی ہر ایک رکعت میں سورة فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور متعین ہے) پھر فرماتا ہے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ اس امت میں عذر والے لوگ بھی ہیں جو قیام الیل کے ترک پر معذور ہیں، مثلاً بیمار کہ جنہیں اس کی طاقت نہیں مسافر جو روزی کی تلاش میں ادھر ادھر جا رہے ہیں، مجاہد جو اہم تر شغل میں مشغول ہیں، یہ آیت بلکہ یہ پوری سورت مکی ہے مکہ شریف میں نازل ہوئی اس وقت جہاد فرض نہیں تھا بلکہ مسلمان نہایت پست حالت میں تھے پھر غیب کی یہ خبر دینا اور اسی طرح ظہور میں بھی آنا کہ مسلمانوں جہاد میں پوری طرح مشغول ہوئے یہ نبوت کی اعلیٰ اور بہترین دلیل ہے۔ تو ان معذورات کے باعث تمہیں رخصت دی جاتی ہے کہ جتنا قیام تم سے با آسانی کیا جاسکے کرلیا کرو، حضرت ابو رجاء محمد نے حسن ؒ سے پوچھا کہ اے ابو سعید اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو پورے قرآن کا حافظ ہے لیکن تہجد نہیں پڑھتا صرف فرض نماز پڑھتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس نے قرآن کو تکیہ بنا لیا اس پر اللہ کی لعنت ہو، اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک غلام کے لئے فرمایا کہ وہ ہمارے علم کو جاننے والا ہے اور فرمایا تم وہ سکھائے گئے ہو جسے نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے باپ دادا، میں نے کہا۔ ابو سعید اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے جو قرآن آسانی سے تم پڑھ سکو پڑھو، فرمایا ہاں ٹھیک تو ہے پانچ آیتیں ہی پڑھ لو، پس بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ قرآن کا رات کی نماز میں کچھ نہ کچھ قیام کرنا امام حسن بصری کے نزدیک حق و واجب تھا، ایک حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے جس میں ہے کہ حضور ﷺ سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا جو صبح تک سویا رہتا ہے فرمایا یہ وہ شخص ہے جس کے کان میں شیطان پیشاب کرجاتا ہے اس کا تو ایک تو یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو عشاء کے فرض بھی نہ پڑھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو رات کو نفلی قیام نہ کرے، سنن کی حدیث میں ہے اے قرآن والو وتر پڑھا کرو، دوسری روایت میں ہے جو وتر نہیں پڑھے وہ ہم میں سے نہیں، حسن بصری کے قول سے بھی زیادہ غریب قول ابوبکر بن عبدالعزیز حنبلی کا ہے جو کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے کا قیام فرض ہے واللہ اعلم (یہ یاد رہے کہ صحیح مسلک یہی ہے کہ تہجد کی نماز نہ تو رمضان میں واجب ہے نہ غیر رمضان میں۔ رمضان کی بابت بھی حدیث شریف میں صاف آچکا ہے و قیام لیلہ تطوعا یعنی اللہ نے اس کے قیام کو نفلی قرار دیا ہے وغیرہ واللہ اعلم۔ مترجم) طبرانی کی حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں بہت مرفوعاً مروی ہے کہ گو سو ہی آیتیں ہوں، لیکن یہ حدیث بہت غریب ہے صرف معجم طبرانی میں ہی میں نے اسے دیکھا ہے۔ پھر ارشاد ہے کہ فرض نمازوں کی حفاظت کرو اور فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کیا کرو، یہ آیت ان حضرات کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں فرضیت زکوٰۃ کا حکم مکہ شریف میں ہی نازل ہوچکا تھا ہاں کتنی نکالی جائی ؟ نصاب کیا ہے ؟ وغیرہ یہ سب مدینہ میں بیان ہوا واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس عکرمہ مجاہد حسن قتادہ وغیرہ سلف کا فرمان ہے کہ اس آیت نے اس سے پہلے کے حکم رات کے قیام کو منسوخ کردیا ان دونوں حکموں کے درمیان کس قدر مدت تھی ؟ اس میں جو اختلاف ہے اس کا بیان اوپر گذر چکا، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا پانچ نمازیں دن رات میں فرض ہیں اس نے پوچھا اس کے سوا بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا باقی سب نوافل ہیں۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو یعنی راہ اللہ صدقہ خیرات کرتے رہو جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں بہت بہتر اور اعلیٰ اور پورا بدلہ دے گا، جیسے اور جگہ ہے ایسا کون ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دے اور اللہ اسے بہت کچھ بڑھائے چڑھائے۔ تم جو بھی نیکیاں کر کے بھیجو گے وہ تمہارے لئے اس چیز سے جسے تم اپنے پیچھے چھوڑ کر جاؤ گے بہت ہی بہتر اور اجر وثواب میں بہت ہی زیادہ ہے، ابو یعلی موصلی کی روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے ایک مرتبہ پوچھا تم میں سے ایسا کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو ؟ لوگوں نے کہا حضور ﷺ ہم میں سے تو ایک بھی ایسا نہیں آپ نے فرمایا اور سوچ لو انہوں نے کہا حضور ﷺ یہی بات ہے فرمایا سنو تمہارا مال وہ ہے جسے تم راہ اللہ دے کر اپنے لئے آگے بھیج دو اور جو چھوڑ جاؤ گے وہ تمہارا مال نہیں وہ نہیں وہ تمہارا وارثوں کا مال ہے، یہ حدیث بخاری شریف اور نسائی میں بھی مروی ہے۔ پھر فرمان ہے کہ ذکر اللہ بکثرت کیا کرو اور اپنے تمام کاموں میں استغفار کیا کرو جو استغفار کرے وہ مغفرت حاصل کرلیتا ہے کیونکہ اللہ مغفرت کرنے والا اور مہربانیوں والا ہے۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورة مزمل کی تفسیر ختم ہوئی۔

574